آئین تربیت

آئین تربیت0%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 361
مشاہدے: 121934
ڈاؤنلوڈ: 6758

تبصرے:

آئین تربیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121934 / ڈاؤنلوڈ: 6758
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بہت ممکن ہے کہ ایک ہی نظر سے عشق اور جنسی خواہشات بیدار ہوجائیں _ (1)

ایسی زودرس تحریکات ممکن ہے سادہ روح ، ناتجربہ کاراور نادان بچے کے لیے بہت برے نتائج کی حامل ہوں _ ہوسکتا ہے ناتجربہ کار بچہ یا نوجوان ان کے باعث زنا یا لواطہ کی طرف کھینچ جائے _ ہوسکتا ہے اس کے نتیجے میں استمناء کی ہولناک بیماری میں مبتلا ہوجائے اس سلسلے میں ایسے بچوں کے ماں باپ ذمہ دار ہیں کہ جن کی بے احتیاطیوں اور غیر عاقلانہ طرز عمل کی وجہ سے ان کے بچوں کی اس قوت کو تحریک ملی _اس مقام پر برا نہیں ہے کہ ایک دانشور کی اس تحریر کی طرف توجہ فرمائیں _

اپنے بچوں کی نفسیاتی سلامتی کے لیے چاہیے کہ ہم اپنا جسم ان کے سامنے عریان نہ کریں _ اور حتی المقدور اس سے اجتناب کریں _ بعض اوقات ممکن ہے ہمارے بچے چوری چھپے جب ہم نہارہے ہوں یا کپڑے تبدیل کررہے ہوں ہماری طرف دیکھیں _ ہمیں نہیں چاہیے کہ اس کام پر ان کی تشویق کریں _ (2) یہ صحیح ہے کہ ماں باپ اپنی اولاد کے لیے محرم ہیں اور گھر میں جیسے جی چاہے رہیں لیکن اپنے اور اپنے بچوں کے اجتماعی فوائد کو اپنی بے جا ہوس اور آزادی کی نذر نہیں کردینا چاہیے اور اپنی اور اپنی اولاد کی زندگی کو تباہی کے خطرے سے دوچار نہیں کرنا چاہیے _ کیونکہ اس کے نتیجہ میں زندگی حسرت و ندامت کی نذر ہوجائے گی _

ایک شخص کی ران ننگی تھی _ رسول اکرم (ص) کی نظر پڑی تو فرمایا:اپنی ران کو ڈھانپ لو کیونکہ یہ بھی چھپانے کی چیز ہے _ (3) مناسب نہیں ہے کہ چار سال سے زیادہ عمر کا بیٹا ماں کے ساتھ مل کے نہائے _اسی طرح چار سالہ بیٹی کو بھی باپ کے ساتھ نہیں نہانا چاہیے _ بچوں اور بالخصوص نوجوانوں کو

-------------

1_ غررالحکم ، ص 416

2_ پیوند ہای کودک و خانوادہ ، ص 177

3_ مستدرک حاکم ، ج 4 ، ص 181

۳۲۱

تنہا اور بیکار نہ رہنے دیں کہ کہیں وہ حصول لذّت اور استمناء کی فکر میں نہ پڑ جائیں _ منھے بچے کی شرم گاہ کو حتی المقدور اس کے بہن بھائیوں سے پوشیدہ رکھیں _ کبھی کبھی بچوں کو فحش لگانے نہ دیں _ میاں بیوی کو نہیں چاہیے کہ بچوں کی موجودگی میں ایک بستر پرسوئیں اور ان کی موجودگی میں ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑکریں _

ایک خاندان کی مشکلات میں سے میاں بیوی کے جنسی روابط کا مسئلہ بھی ہے میاں بیوی کا حق ہے کہ وہ اکٹھے ہوئیں اور اس کے سواچارہ بھی نہیں ہے _ اور اگر گھر میں چند ایک چھوٹے بڑے بچّے ہوں تو ماں باپ کے لیے آپس میں رابطے کی مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں _ بہر حال اس سلسلے میں ان کی ذمہ داری ہے کہ یہ عمل ایسے طریقے سے انجام دیں کہ ان کے بچے بالکل اس طرف متوجہ نہ ہوں ، ورنہ ممکن ہے کہ ان کے جذبات بھڑک اٹھیں اور وہ برائی، تباہی اور گناہ کی طرف کھینچ جائیں _

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

مرد کو نہیں چاہیے کہ جب بچہ کمرے میںموجود ہو تو وہ اپنی بیوی کے قریب ہو _ کیونکہ یہ عمل زناکاباعث بنے گا _ (1)

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

واللہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے مباشرت کرے جب کہ بچہ کمرے میں جاگ رہا ہو _ وہ انہیں دیکھے اور ان کی آواز سانسوں کی صدا سنے تو وہ بچہ کبھی فللاح نہیں پائے گا _ لڑکا یا لڑکی آلودہ زنا ہوجائے گا _

جب کبھی امام سجاد علیہ السلام اپنی زوجہ کے قریب ہونا چاہتے تو خدمت گزاروں کو باہر بھیج دیتے دروازے بند کرلیتے اورپردے گرالیتے (2) رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع کیا ہے کہ مرد اپنی بیوی کے نزدیک ہو جب کہ

------------

1_ وسائل ، ج 14 ، ص 94

2_ وسائل، ج 14 ، ص 94

۳۲۲

ننھا بچہ گہوارے میں ان کی طرف دیکھ رہا ہو _ (1)

لہذا جن میاں بیوی کا بچہ ہوا نہیں پہلے کی سی آزاد روش اختیار نہیں کرنا چاہیے _ اپنے بچوں کی عفت کی حفاظت کی خار ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جنسی تعلق بالکل مخفی طر یقے سے کریں اور اس طرح سے چھپ کرکہ بچے کو بالکل بونہ آئے جب کہ ایسا کرنا کوئی آسان نہیں ہے _ یہ نہ کہیئے گا کہ بچے تو نادان ہیں انہیں کسی چیز کا کیا پتہ _ جب کہ بچے بڑے تیز اور شیطان ہوتے ہیں _ ماں باپ کے کاموں پر بڑی نظر رکھتے ہیں _ انہیں بڑی خواہش ہوتی ہے کہ ماں باپ کی پوشدیہ باتیں معلوم کریں _ یہاں تک کہ بعض اوقات اپنے تئیں سوتا ظاہر کرتے ہیں تا کہ ماں باپ کے مخفی کاموں کا انہیں پتہ چلے _ دروازے اور دیوار کی اوٹ سے کبھی بڑی توجہ سے کان لگاکے ماں باپ کی باتیں سننے کی کوشش کرتے ہیں لہذا ایک خاندان کی مشکلات میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جس کا حل کوئی آسان بھی نہیں _ ممکن ہو تو اچھا ہے کہ میاں بیوی کی خلوت کا کمرہ بچوں کے سونے کے کمرے کے نزدیک نہ ہو اور بچوں کو وہ ایسی عادت ڈالیں کہ جب وہ سور ہے ہوں یا آرام کررہے ہوں تو ان کے خاص کرمے میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہوں اور جنسی عمل ان اوقات میں انجام دیں جب بچے پوری طرح سورہے ہوں لیکن ایسا کمرہ ہر کسی کو میسّر نہیں ہے _

ایک مغربی دانشور لکھتے ہیں:

دور حاضر کی عمارتوں میں بیشتر گھر ایسے بنے ہوتے ہیں کہ بناتے وقت جنسی مسائل کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ہوتا _ در حقیقت آج کل کے گھروں کو جنسی تقاضوں کے مخالف گھر قرار دینا چاہیے _ بہت کم ایسے گھر یا فیلٹ ملتے ہیں کہ جن میں والدین کے لیے جدا کمرے کی ضرورت کو ملحوظ رکھا گیا ہو _ اکثر ایسے کمروں کی دیوار میں باریک ہوتی ہیںاور بچے ان کے گرداگرد ہوتے ہیں _ یہ ایک تلخ اور ناگوار حقیقت ہے کہ ان نکات کو ملحوظ خاطر نہ رکھنے کی وجہ سے

-----------

1_ مستدرک، ج 2، ص 546

۳۲۳

جن والدین کے لیے الگ گوشہ آرام نہ ہو ان والیدن کی طبعی خواہشات گھٹی رہتی ہیں _ (1)

البتہ مخصوص کمرے کا ایک نقصان یہ ہے کہ والدین سوتے ہوئے اپنی اولاد سے بے خبر ہوجاتے ہیں _ انہیں بھی اکیلا چھوڑدیتے ہیں خصوصاً جب ان میں کوئی بڑا بچہ ہو _ اور بیٹا اور بیٹی ہو تو یہ کام بے احتیاطی سے خالی نہیں ہے _ اگر چہ کم خطرہ ہے بہر حال احتیاط ضروری ہے _ خود ماں باپ جیسے بھی ہو مشکل کو حل کریں _ البتہ اس صورت میں جب ماں باپ مجبور ہوں کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایک کمرے میں سوئیں تو وہ مجبور ہیں کہ وہ آپس میں تعلق کو مخفی رکھیں اور اس سلسلے میں زیادہ توجہ اور احتیاط سے کام لیں _ اولا ماں باپ کو ایک بستر پر نہیں سونا چاہیے بلکہ ان کا بستر جدا جدا ہونا چاہیے _ ممکن ہو تو وہ آپس مں اسی وقت میں جب بچے گھر پر نہ ہوں _ ایسا نہ ہو تو نصف شب جب یقین ہو کہ بچے بالکل سو رہے ہیں تو چپکے سے کمرے سے نکل جائیں اور کسی خلوت کی جگہ پر چلے جائیں اور پھر سونے کے کمرے میں لوٹ آئیں _ بہر حال اگر ماں باپ مسئلے کی اہمیت جانتے ہوں اور اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوں تو ہر مسئلے کو حل کرہی لیں گے _ یہ مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ خداوند کریم قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے :

یا ایہا الذین آمنوا لیستاذنکم الذین ملکت ایمانکم و الذین لم یبلغوا الحلم منکم ثلث مرّات من قبل صلوة الفجر و حین تضعون ثیابکم من الظہیرة و من بعد صلوة العشاء ثلث

-------------

1_ پیوندہا ی کودک و خانوادہ ، ص 178

۳۲۴

عورات: لکم_

اے ایمان والو تمہارے خادموں اور نابالغ بچوں کو تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آناچاہیے _ ایک تو نماز صبح سے پہلے دوسرے دوپہر کو جب (سوتے وقت) کپڑے بدلتے ہیں اور تیسرے نماز عشاء کے بعد ، یہ تین وقت تمہارے پردوں کے وقت ہیں _

(سورہ نورہ _ آیت 58)

بالغ ہونے سے پہلے بچے عموماً ماں باپ سے بلاواسطہ یا بالواسطہ جنسی مسائل کے بارے میں سوال کرتے ہیں _ بعض ماں باپ پردہ پوشی کے لیے سوال کوٹال دیتے ہیں _ مثلاً کہتے ہیں:

چپ رہو ، فضول باتیں نہ کرو ، یہ بات تم سے متعلق نہیں ہے ، بڑے ہوکر سمجھ جاؤگے _

یوں وہ بچوں کو چپ کروادیتے ہیں _ لیکن بعض ماں باپ بچوں کے سوالوں کا جواب تو دیتے ہیں لیکن غلط اور خلاف حقیقت _ بچے بھی سمجھ جاتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ ہمیں دھوکا دے رہے ہیں _

یہ دونوں طرز عمل درست نہیں ہیں کیوں کہ بچہ سمجھنے کے لیے سوال کررہا ہے اگر آپ نے اس کی صحیح راہنمائی نہ کی تو ممکن ہے دوسرے اسے بھٹکادیں _ خوش قسمتی سے بلوغ سے پہلے جنسی امور سے متعلق بچوں کے سوال کوئی ایسے پیچیدہ اور ناقابل جواب بھی نہیں ہوتے بلکہ ان کے سادا سے سوالوں کا آسانی سے جواب دیا جا سکتا ہے _ سب بڑی بات جو بچے کو ایک عرصے تک سوچ میں ڈالے رکھتی ہے وہ بچے اور بچی کی شرمگاہ میں فرق ہے ایک چھوتا بچہ خوب سمجھتا ہے کہ اس کی اور لڑکی کی شرمگاہ میں فرق ہے لیکن اسے اس کی وجہ معلوم نہیں ہوتی _ وہ کبھی اپنے آپ کو ناقص سمجھتا ہے اور کبھی لڑکی کو _ اس کا دل چاہتا ہے کہ اس فرق کو سمجھے _ اسی لیے وہ ماں باپ سے اس کے بارے میں سوال کرتاہے _ماں باپ کا فرض ہے کہ اس سلسلے میں اس سے صراحت سے کہیں کہ تمام لڑکے اسی طرح سے پیدا ہوتے ہیں اور تمام لڑکیاں بھی اسی طرح سے پیدا ہوتی ہیں پھربعد میں لڑکے باپ بن جائیں گے اور لڑکیاں ماں بن جائیں گی اور پھر ان کی اولاد ہوگی اور یوں انسان دنیا میں آتے

۳۲۵

رہیں گے اور یوں یہ دنیا آباد رہے گی _

آپ یہ نہ سوچیں کہ آپ کا بچہ تمام حقائق جاننا چاہتا ہے _ وہ جتنا پوچھتا ہے اتنا سی جاننا چاہتا ہے ، اس سے زیادہ نہیں بلوغ سے پہلے بچے کو اس کی فکری سطح کے مطابق تدریجا جنسی مسائل سے آگاہ کریں _ اگر آپ نے اسے کچھ نہ بتایا تو اسکول یا گلی محلے کے بچوں سے اسے معلوم ہوجائے گا _ یوں یہ راز کی باتیں اس کے لیے راز نہیں رہیں گی _ ماں باپ سے یہ باتیں سننا گلی محلّے کے گندے بچوں سے سننے کی نسبت بہتر ہے _ اگر آپ نے اس کی صحیح راہنمائی کی تو وہ گندے بچوں کی گمراہی سے بچ سکتا ہے _

جب آپ کا بچہ بالغ ہوجائے اور آپ کو یہ احساس ہو کہ اس کی جنسی قوت کسی حد تک بیدار ہوچکی ہے اور اس میں مسلسل تبدیلی پیدا ہورہی ہے تو آپ کسی مناسب موقع پر اسے کہہ سکتے ہیں:

جب بچے جوان ہوجاتے ہیں تو انہیں خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی کو اپنا رفیق بنائیں لڑکیاں لڑکوں کو اور لڑکے لڑکیوں کو چاہتے ہیں _ اس میں کوئی عیب کی بات نہیں _ البتہ اگر کوئی پاک باز اور نیک رفیق ہو تو انسان کی خوش نصیبی ہے ورنہ بڑا رفیہ تو انسان کی دنیا و آخرت کو تباہ کردیتا ہے ...

... شادی کے بعد انسان کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہں بیوی کے خراجات جدا اور اولاد ہوجاتی ہے تو اس کے مخارج جدا _ یہ سب کچھ مرد کو پورا کرنا ہوتا ہے _ تم بھی تعلیم پوری کرلو اور کمانے لگوتو تمہارہی بھی شادی کردیں گے _ خوب دل لگاکر پڑھو ، لائق بن جاؤ تو اچھے لوگ تم سے پیار کریں اور تمہیں بھی کوئی اچھی سی بیوی مل جائے ...

... استمناء سے بچناء یہ بہت بری لا ہے _ گناہ ہے ، خدا دیکھتا ہے اس کی نظر میں یہ برا جرم ہے پھر انسان کی صحت کے لیے بھی تباہی کا باعث ہے شاید پھر انسان شادی کے بھی قابل نہ رہے _

برے دوستوں سے بچناء ان کی بری باتوں سے بچناء وہ انسان کو تباہ کردیتے ہیں ...

۳۲۶

بچے بالغ ہوجائیں تو ان کے زیر بغل اور زیر ناف بال اگنے لگتے ہیں _ انہیں ہوسکتا ہے وہ اپنا کوئی عجیب سمجھیں _ ان کی راہنمائی کیجئے گا _ بال صاف کرنے کا طریقہ اور اس کی اہمیت انہیں سمجھایئےا بجی کو خون آنے لگے تو ہوسکتا ہے وہ خوف زدہ ہوجائے دور چھپاتی پھرے ماں کو اس سلسلے میں پیارہے اس کی راہنمائی کرنا چاہیے ، اسی طرح اس کی چھپاتیاں ابھر نے لگیں تو ہوسکتا ہے وہ بہت عجیب محسوس کرے _ ماں کو اس بارے میں بھی پیارسے اسے ضروری امور کی راہنمائی کرنا چاہیے _

اسی طرح بیٹے ہییں جب علامت بلوغ پیدا ہوتی ہے تو وہ سوتے ہوئی الٹے الٹے خواب دیکھتا ہے _ جس سے اس کو تحریک ہوتی ہے اور احتلام ہوجاتا ہے _ کبھی وہ اس کو نقص سمجھنے لگتا ہے اور اپنے آپ کو گنہگار اضطراب کی وجہ سے اس سلسلے میں کسی سے بات چیت بھی نہیں کرتا _ ایسے ایسے موقع پر والدین کی ذمہ داری ہے کہ اسے سمجھائیں اس کی مشکل حل کریں _ ماں بھی بیٹی کی مشکل حل کرے اور اس سے کہے تیرے زیرناف و بغل بالوں کا اگنا ، یا خون بالغ ہونے کی علامت ہے لڑکیوں میں اس عمر میں اسی طرح کی علامات ہوتی ہیں خون کے ایام میں تجھ پر نماز واجب نہیں ہے ، روزہ بھی نہ رکھو بعد میں قضا کرلینا _ پھر اسے ماہواری کے احکم اور غسل و نظافت و غیرہ کا طریقہ بتائے _ باپ بھی بیٹے سے اس طرح کہے کہ اب تو بالغ ہوگیا ہے ، تیرے زیر ناف و بغل بال اگیں گے _ تحریک کنندہ خواب دیکھو گے تمام لڑکوں سے ایسی عمر میں ایسا ہی ہوتا ہے اس سے کوئی زیر پریشانی محسوس نہ کرو _ اگر محتلم ہو جاؤ تو اس سے تمہارا لباس نجس ہو جائے گا _ غسل بھی تم پر واجب ہوجائے گا _ غسل کرنے کا طریقہ یہ ہے اس طرح ماں باپ بچوں کے اضطراب اور پریشانی کو دور کرکے انہیں زمان بلوغ کے واقعات کے لیے پہلے سے آمادہ کردیتے ہیں جس سے بچے اس دور کو ایک طبیعی دور سمجھ کے چھپاتے نہیں _

۳۲۷

کتاب کا مطالعہ

کتا ب کا مطالعہ تعلیم و تربیت کا ایک بہترین طریقہ ہے _ اچھی کتاب قاری کی روح پر بہت گہر اثر ڈالتی ہے _ اس کی روح اور نفس کو کمال عطا کرتی ہے اور اس کی انسانی حیثیت کربلند کردیتی ہے _ اس کے علم میں اضافہ کرتی ہے _ اس کی معلومات بڑھاتی ہے _ اخلاقی اور اجتماعی خرابیاں دور کرتی ہے _ خصوصاً دور حاضر کی مشینی زندگی میں کہ جب انسان کے پاس فرصت کم ہوگئی ہے اور علمی و دینی محافل میں شرکت مشکل ہوگئی ہے کتاب کا مطالعہ تعلیم و تریت کے لیے اور بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے ممکن ہے کتاب کے مطالعے سے انسانی روح پر جو اثرات مترتب ہوں وہ دیگر حوالوں سے مترتب ہونے والے اثرات سے عمیق ترا ور زیادہ گہرے ہوں کبھی انسان کا مطالعہ اس کی شخصیت کو تبدیل کرکے دکھ دیتا ہے علاوہ ازیں مطالعہ کتاب بہترین مشغولیت بھی ہے اور صحیح تفریح بھی _ جو لوگ اپنی فراغت کے اوقات کتاب کے مطالعہ میں گزارتے ہیں وہ علمی اور اخلاقی استفادہ کے علاوہ اعصابی کمزوری اور روحانی پریشانی سے بھی محفوظ رہتے ہیں اور ان کی زندگی زیادہ آرام وہ ہوتی ہے _ کتاب ہر نظارے سے زیادہ خوبصورت اور ہر باغ اور ہر چمن سے زیادہ فرحت بخش ہے لیکن جو اہل ہو اس کے لیے _ کتاب دلوں کی پاکیزگی اور نورانیت عطا کرتی ہے اور غم بھلادیتی ہے اگر چہ وقتی طور پر ہی سہی_

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:جو شخص اپنے آپ کو کتابوں کے ساتھ مصروف رکھتا ہے اس کا آرام خاطر

۳۲۸

ضائع نہیں ہوتا _ (1)

امیرالمومنین علیہ السلام ہی فرماتے ہیں:

تازہ بہ تازہ علمی مطالب حاصل کرکے اپنے دلوں کی کسالت اور خستگی کو دور کروکیوں کہ دل بھی بدن کی طرح تھک جاتے ہیں _ (2)

ہر ملت کی ترقی اور تمدّن کا معیار ان کی کتابوں کی کیفیت ، تعداد اشاعت اور مطالعہ کرنے والوں کی تعداد کو قرار دیا جا سکتا ہے پڑھا لکھا ہونا ترقی کی علامت نہیں بلکہ مطالعہ اور تحقیق ملتوں کی ترقی کی علامت ہے _ہمارے پاس پڑھے لکھے بہت ہیں لیکن یہ بات باعث افسوس ہے کہ محقق اور کتاب دوست زیادہ نہیں _ زیادہ تر لڑکے لڑکیاں جب فارغ التحصیل ہوجاتے ہیں تو کتاب کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں وہ کاروبار اور زندگی کے دیگر امور میں مشغول ہوجاتے ہیں لہذا ن کی معلومات کا سلسلہ وہیں پر رک جاتا ہے _ گویا حصول تعلیم کا مقد بس حصول معاشر ہی تھا _ جب کہ حصول تعلیم کو انسان کے کمال اور علمی پیش رفت کے لیے مقدم ہونا چاہیے _ انسان ابتدائی تعلیم کے حصول سے مطالعہ اورتحقیق کی صلاحیت پیدا کرتا ہے _ اس کے بعد اس کو چاہیے کہ وہ مطالعہ کرے _ تحقیق کرے اور کتاب پڑھے تا کہ اپنے آپ کی تکمیل کرسکے اور پھر ایک مرحلے پر انسانی علوم کی ترقی میں مددکرسکے اور یہ کام توانائی اور وسائل کے مطابق آخر عمر تک جاری رکھے _ دین مقدس اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کو حکم دیا ہے کہ بچپن سے لے کر موت کی دہلیز تک حصول علم کو ترک نہ کریں _

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:حصول علم ہر مسلمان کا فریضہ ہے اور اللہ طالب علموں کو پسند کرتا ہے _ (3)

-------------

1_ غرر الحکم ، ص 636

2_ اصو ل کافی ، ج 1 ، ص48

3_ اصول کافی ، ج 1 ، ص 30

۳۲۹

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

میرے اصحاب کو اگر تازیانے سے بھی حصول علم کے لیے آمادہ کیا جائے تومجھے یہ پسند ہے _ (1)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

دو افراد کے علاوہ زندگی میں کسی کے لیے بھلائی نہیں پہلا وہ عالم کہ جس کی ابتاع کی جانے اور دوسرا کہ جو حصول علم میں مشغلو ہو  (3) امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:لوگ تین طرح کے ہیں:

1_ عالم ،

2_ طالب علم اور

3_ باقی کو ڑاکر کٹ کا ڈھیر _ (3)

امام صادق علیہ السلام ہی فرماتے ہیں:حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا: بیٹا اپنے شب و روز میں کچھ وقت مطالعہ اور حصول علم کے لیے مختص کرو کیونکہ اگر تم نے مطالعہ ترک کردیا تو تمہارا علم ضائع ہوجائے گا _ (4) امام جعفر صادق علیہ السلام ہی نے ارشاد فرمایا:حصول علم ہر حال میں واجب ہے (5)

----------

1_ اصول کافی ، ج 1 ، ص 31

2_ اصول کافی ، ج 1 ، ص 33

3_ اصول کافی ، ج 1 ، ص 34

4_بحار، ج 1 ، ص 169

5_ بحار، ج 1 ، ص 172

۳۳۰

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

طلب العم فریضة علی کل مسلم و مسلمة

علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے _ (1)

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

اگر لوگوں کو علم کا فائدے معلوم ہوتے تو اس کے حصول کے لیے کوشش کرتے اگر چہ اس کام میں ان کی جان خطرے میں پڑجاتی یا انہیں حصول علم کیلئے سمندر پار کا سفر کرنا پڑتا _ (2)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

اگر میرا کوئی ایک دن ایسا گزرجائے کہ جس دن میرے علم میں کچھ بھی اضافہ نہ ہو تو ہ دن نا مبارک ہے _ (3)

ماں باپ کی ابتدائی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھنے لکھنے کے لیے اسکول بھیجیں اسلام نے اس سلسلے میں بھی بڑی تاکید کی ہے _حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:بچہ سات سال کھیلتا ہے سات سال پڑھتا ہے اور سات سال حلال و حرام کے متعلق جانتا ہے _ (4) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: بیٹے کے باپ پر تین حق ہیں _

-----------

1_ اس کا اچھا سانام رکھے،

1_ بحار، ج 1، ص 177

2_ بحار، ج 1 ، ص 177

3_ مجمع الزوائد، ج1، ص 137

4_ مستدرک ، ج 2، ص 625

۳۳۱

2_ اسے پڑھنا لکھنا سکھائے اور

3_ جب بڑا ہوجائے تو اس کی شادی کرے _ (1)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:جب بچے کو مدرسے لے جاتے ہیں اور استاد اسے بسم اللہ پڑھتا ہے تو خدا اس کے والدین کو جنہم کی آگ سے بچالیتا ہے _ (2) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

افسوس ہے دور آخر کے بچوں پر کہ جوان کے آباء کے ہاتھؤں ان چہ گزرے گی _ اگر چہ وہ مسلمان ہوں گے لیکن اپنی اولاد کو دینی فرائض سے آگاہ نہیں کریں گے _ (3) ماں باپ کی دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اس طریقے سے پرورش کریں کہ وہ علم و دانش حاصل کرنے، کتاب پڑھنے اور بحث و تحقیق کے شیدا بنیں_ ان کے گھر کا ماحول عملی ہونا چاہیے _ اور وہ اپنے بچوں کو قول و عمل سے مطالعہ کرنے کا شوق دلائیں _ بہتر یہ ہے کہ یہ طریقہ کاربچپن ہی سے شروع کردیا جائے _ اور بچے کے سکول جانے سے پہلے اسے اس طرز عمل کا عادی بنایا جائے _ پہلے آپ بچوں کو کتاب پڑھ کر سنائیں _ چھوٹے چھوٹے _ سادہ اور قابل فہم قصّوں اور کہانیوں کی کتابیں انہیں لاکردیں _ اگر یہ کتابیں تصویروں والی ہوں تو اور بھی بہتر ہے _ پھر ہر روز ماں باپ یا بڑی بہن یا بھائی اس کتاب کا کچھ حصہ چھوٹے بچے کو پڑھ کر سنائیں اور اگر اس کتاب میں تصویریں بھی ہوں تو کتاب کے مطالب کی ان تصویروں کے ساتھ تطبیق کرکے بچوں کو بتائیں _ پھر اس سے کہا جائے کہ اس کہانی کا خلاصہ بتائے _ اور اگر اس میں چھوٹے چھوٹے شعر بھی ہوں تو اسے وہ شعر یاد کرائے _

-----------

1_ مستدرک، ج 2، ص 625

2_ مستدرک، ج 2 ، ص 625

3_ مستدرک، ج 2، ص 625

۳۳۲

جائیں _ البتہ اس سلسلے میں جلدی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے _ یا بچے کی استعداد اور خواہش کے مطابق اسے کہانیاں پڑھ کر سنائی جائیں نہ کہ اس کی استعداد سے زیادہ _ کیوں کہ اگر اس کی استعداد اور فہم سے زیادہ اس پر ٹھونسنے کی کوشش کی گئی تو وہ شروع ہی سے کتاب پڑھنے سے بیزار ہوجائے گا _یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رکھیں جب تک بچہ خود پڑھنا اور لکھنا سیکھ نہیں جاتا _

اس کے بعد کتاب پڑھنے کی ذمہ داری خود بچے پر ڈال دی جائے _ کبھی کبھی کتاب کے متعلق اس کی رائے معلوم کی جائے _ کتاب کے مطالب کے بارے میں اس گفتگو کی جائے _ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رکھیں جب بچہ خود بخود کتاب پڑھنے کا عادی ہوجائے _

یہاں پر والدین کی خدمت میں چند نکات کی یاددہانی ضروری ہے _

1_ بچے کہانیاں پسند کرتے ہیں _ اور ان کے مطالب کو اچھی طرح سمجھتے ہیں _ البتہ کلی مطالب کو وہ اچھی طرح نہیں سمجھتے _ اس لحاظ سے بچوں کی کتابیں حتی المقدور کہانیوں کی صورت میں ہونی چاہیے _

2_ ہر بچہ ایک الگ شخصیت کا مالک ہے _ تمام افراد کی استعداد اور ذ وق برابر نہیں ہوتے _ مختلف عمروں میں ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے _ لہذا ماں باپ پہلے اپنے بچے کی استعداد اور ذوق کو سمجھیں اور پھر اسی کے مطابق اس کے لیے کتابیں لائیں _ مشکل اور بوریت سے بھر پور مطالب اس پر ٹھونسنے سے پرہیز کریں _ کیوں کہ ممکن ہے ایسا کرنا اسے کتابیں پڑھنے سے بیزار کردے _

3_ چونکہ بچے کی شخصیت کی تعمیر ہو رہی ہوتی ہے _ اور کتاب اس پر گہرا اور عمیق اپر چھوڑتی ہے _ لہذا اسے ہر طرح کی کتاب نہیںدی جاسکتی _ ماں باپ پہلے خود خود وہ کتاب پڑھیں ، اس کے مطالب پر مطمئن ہونے کے بعد وہ بچے کے سپردکریں _ اگر بچے نے کوئی گندی کتاب پڑھی تو یہ اس کی روح پر برا اثر ڈالے گی _ جب کہ اس کی دوبارہ تربیت کرنا اور اسے سدھارنا بہت مشکل کا م ثابت ہوگا _

4_ بچے جرائم کی کتابیں جن میں پولیس ، قتل، اور چوری ڈاکہ کی باتیں ہوں بڑے شوق سے

۳۳۳

پڑھتے ہیں _ لیکن اس طرح کی کتابیں نہ فقط یہ کہ بچوں کے لیے سودمند نہیں ہیں بلکہ انہیں قتل ، جرم اور چوری و غیرہ کے طریقے سکھاتی ہیں _ جس سے ان کی سلامتی ، اور روحانی و نفسیاتی سکون تباہ و برباد ہوجاتا ہے _ اور اسی طرح جنسی قوت کو تحریک دینے والی کتابیں بھی بچوں کے لیے نقصان وہ ہیں _ کیوں کہ ممکن ہے ان کتابوں سے ان کی جنسی قوت وقت سے پہلے بیدا ر ہوجائے اور انہیں تباہی و بربادی کی وادی میں دھکیل دے _

ایک صاحب اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں:

... میری دادی اماں تھیں جو مجھ سے بہت محبت کر تی تھیں _ رات کو میں ان کے پاس ہوتا اور ان سے کہانی سنانے کی ضد کرتا _ وہ مجھے سلانے کے لیے ہر رات ایک کہانی سناتیں _ وہ مجھے جن بابا کی کہانی سناتیں اور اسی طرح دوسری ڈراؤنی کہانیاں _ ان کہانیوں نے میری روح اور نفسیات پر اپنا اثر چھوڑا _ میں اسی پریشانی کن حالت میں سوجاتا _ اور خواب میں بھی یہ افکار مجھے پریشان کرتے رہتے میں ان تحریک آمیز اور فرضی کہانیوں اور افسانوں کو بہت پسند کرتا انہوں نے میری روح کو بہت حساس اور پریشان کردیا _ میں بزدل اور ڈرپوک بن گیا _ تنہائی سے مجھے خوف آتا _ میں غصیلہ اور زود رنج ہوگیا _ یہ کیفیت ابھی بھی مجھ میں باقی ہے _ کاش والدین اس طرح کی جھوٹی اور تحریک آمیز کہانیاں اپنے بچوں کو نہ سنائیں _ میں نے یہ پکاارادہ کیا ہوا ہے کہ اپنے بچوں کو اس طرح کی کہانیاں نہیں سناؤں گا _ میں عموماً انہیں قرآنی قصے اور دیگر سچی کہانیاں سناتا ہوں _

5_ کتاب پڑھنے کا مقصد صرف وقت گزاری نہیں ہے _ بلکہ اس کا اصل مقصد اس کے مطالب کو سمجھنا او ر ان سے استفادہ کرناہے _ یہ بات اہم نہیں ہے کہ بچہ کتنی کتاب پڑھتا ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ اس نے یہ کتاب کس طریقے سے پڑھی ہے _ کیا سرسری طور پر پڑھ کرگزرکیا ہے یا غور فکر سے اور سمجھ کر اس نے پڑھی ہے ماں باپ کو اس سلسلے میں پوری توجہ رکھنی چاہیے _ بچے سے کبھی کبھی کتاب کے مطالب کے متعلق

۳۳۴

سوال کرتے رہنا چاہیے _ اور ان مطالب کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں بھی اس کی رائے معلوم کرتے رہنا چاہیئے نیز چاہیئے کہ اس سے دریفات کیا جائے اس سے اس نے کیا نتیجہ حاصل کیا ہے _

6 _ بچوں کو انسانوں اور جھوٹ پر مشتمل حیر ت انگیز کتابیں بھی بہت اچھی لگتی ہیں بچوں کی ایسی کتابوں سے محبت کی ہی بعض دانشور تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس طرح کی کتابیں بچے کے وسعت تخیل کے لیے بہت مفید ہیں _ لیکن راقم کی رائے یہ ہے کہ غیر حقیقی اور افسانوں کی کہانیاں بچوں کو جھوٹ کا عادی بنادیتی ہیں اور اس کے دماغ میں جھوٹے اور غیر حقیقی افکار جاگزیں ہوجاتے ہیں جب وہ بڑا ہوجائے گا تو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے بھی غیر حقیقی راستے تلاش کرے گا _

7_ یہ صحیح ہے کہ بچہ کہانیوں کو باقی سب چیزوں کی نسبت زیادہ پسند کرتا ہے _ لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ فقط کہانیوں پڑھنے کا عادی ہوجائے _ بلکہ کبھی کبھی علمی ، اخلاقی اور اجتماعی امور پر مشتمل فائدہ بخش کتب بھی اسے دی جائیں تا کہ وہ آہستہ آہستہ گہرے اور دقیق علمی مطالب سمجھنے کے لیے آمادگی پیدا کرے اور بعد میں فقط علمی کتابیں پڑھنے کا عادی ہوجائے _

8_ ایسا نہیں ہے کہ بچہ فقط افسانوی اور جھوٹی کتابوں کو پسند کرتاہو بلکہ بڑی شخصیات اور حقیقی تاریخ ساز انسانوں کی زندگی پر مشتمل کتابیں بڑے شوق سے پڑھتا ہے اور اس طرح کی کتابیں پڑھنے سے کسی شخصیت کو اپنا ائیڈیل اور نمونہ عمل قرار دیتا ہے اس طرح کی کتابیں بچے کے لیے دلچسپ بھی ہیں اور مفید بھی ہیں _

۳۳۵

ناقص الخلقت بچّے

بعض بچے پیدائشےی طور پر ناقص الخلقت ہوتے ہیں یا بعد میں کسی حادثے کی وجہ سے ان کے بدن میں کوئی نقص پیدا ہوجاتا ہے _ اندھے لولے لنگڑے گونگے بہرے اور اسی طرح کے دوسرے نقائص میں بہت سے افراد مبتلا ہوتے ہی بعض بچے اگر چہ بدن کے کسی عضو کے اعتبار سے تو نقص نہیں رکھتے لیکن مناسب قامت اور مکمل خوبصورتی سے محروم ہوتے ہیں _ کالے ، پیلے ، کمزور ، بہت چھوٹے ، بہت بڑے ، بہت موٹے، چھوٹی ناک والے ، بڑے منہ والے یا چھوٹے منہ والے ، اندر کو دھنسی ہوئی آنکھوں والے ، اور بڑے دانتوں والے ، ان نقائص کے حامل افراد اگر چہ کسی ع ضو کے نقص میں مبتلا نہیں ہوتے لیکن دوسروں کی نسبت مکمل اور خوبصورت بھی نہیں ہوتے _

اسی میں ان افراد کا کوئی قصور نہیں ہے خدا نے انہیں اس طرح پیدا کیا ہے نظام خلقت میں تمام اشیاء خوبصورت اور مناسب ہیں یہ تو ہماری کم فہمی اور کم ذوقی کا قصور ہے کہ کسی کو خوبصورت سمجھتے ہیں اور کسی کو بد صورت _

ناقص اور معذور افراد چونکہ اپنے نقص کی طرف متوجہ ہوتے ہیں لہذا ہمیشہ غم و اندوہ میں مبتلا رہتے ہیں _ وہ احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں _ اگر اس احساس کو ختم نہ کیا جائے بکلہ اس کی تائید کی جائے تو وہ ہمیشہ کے لیے احساس کمتری اور کم نگہی کا شکار ہوجائیں گے _ جن لوگوں کے دل میں احساس کمتری گھر کرلے تو وہ تو اپنی شخصیت گنوابیٹھتے ہیں _ اپنے تئیں بے لیاقت ، ناچیز اور نااہل سمجھتے ہیں _ وہ ذمہ داریوں کو قبول کرنے اور کاموں کے لیے لپک

۳۳۶

کے آگے بڑھنے سے گریزان رہتے میں گویا ذلت و بدبختی کے سامنے ہتھیار پھینک دیتے ہیں _ ممکن ہے کبھی وہ اپنے اظہار وجود کے لیے قتل یا کسی دوسرے جرم کا ارتکاب کر بیٹھیں اپا ہج قال رحم ہوتے ہیں _ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے نقص کو بالک نظر انداز کر دیں _ ان کے ساتھ ایسا سلوک کریں کہ جیسا وہ دیگر افراد کے ساتھ کرتے ہیں اور ان کے نقص کے بارے میں نہ سوچیں نہ ان پر طنز کریں نہ تمسخر اڑائیں _ اور نہ ان کے نازک دلوں پر زبان کے چرکے لگائیں _ دین مقدس اسلام نے عیب جوئی ، تمسخر بازی ، سرزنش اور دوسروں کی ذات میں کیڑے نکالنے کو گناہوں کبیرہ میں سے اور حرام قرار دیا ہے _ اور اس بارے میںاس قدر تاکید کی ہے کہ اپنے پیروکاروں کو حکم دیا ہے کہ آپ ہرگز کوئی ایسا کام نہ کریں کہ ناقص الخلقت افراد اپنے نقص کی طرف متوجہ ہوجائیں _پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:مصیبت میں گھر سے افراط اور کوڑھیوں کی طرف زیادہ نہ دیکھیں کیوں کہ ممکن ہے آپ کی نظر یں ان کے لیے باعث حزن و ملال ہوں _ (1) علاوہ ازیں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ایسے افراد کے ساتھ زیادہ محبت اور ہمدردی کریں اور اس طرح سے ان کے احساس کمتری کا ازالہ کریں _ اور ان میں احساس زندگی کو تقویت بخشیں _ ایسے بچوں کے ماں باپ کی ذمہ داری بھی سنگین تر ہے _ اس امر پر ان کی توجہ ہونا چاہیے کہ ناقص افراد بھی ترقی اور کمال کی صلاحیت رکھتے ہیں _ اگر ان کی صلاحیتوں کا اندازہ لگایاجائے اور ان دیگر قوتوں کو ابھار کر تقویت پہنچائی جائے تو وہ کسی نہ کسی علمی ، سائنسی یا فنی شعبے میں مہارت حاصل کرسکتے ہیں اور اس طرح سے اپنے نقص کا ازالہ کرسکتے ہیں اور معاشرے میں بلند مقام حاصل کرسکتے ہیں اور اس طرح سے اپنے نقص کا ازالہ کرسکتے ہیں اور معاشرے میں بلند مقام حاصل کرسکتے ہیں _ کتنے ہی ناقص افراد ہیں کہ جو کوشش اور ہمت سے ایسے بلند مقام پر پہنچے ہیں کہ جس سے ان کا نقص بہت ہی پیچھے رہ گیا ہے _ ماں باپ کو چاہیے کہ اپنی اولاد کے نقص سے بالکل چشم پوشی کریں اور اس بارے میں بالکل بات نہ کریں یہاں تک کہ مذاق ، اظہار ہمدردی یا غصّے

---------

1_ بحار ، ج 75، ص 15

۳۳۷

کی صورت میں بھی ذکر نہ کریں _ ایسے بچوں کے ساتھ بھی ان کا سلوک بالکل ایسا ہو جیسا دوسرے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے _ اگر خود بچے اس سلسلے میں پریشانی کا اظہار کریں تو کوشش کریں کہ اس نقص کو غیر اہم قرار دیں _ اور اسے اس کی دوسروی صلاحیتں یا ددلائیں ان ان کی تعریف و ستائشے کریں _

ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ پوری توجہ سے تحقیق کریں کہ بچوں میں کیا کیا استعداد اور صلاحیت موجود ہے اور اس سلسلے میں جاننے والے افرا د سے مشورہ کریں _ اور پھر بچے کو اس طرف متوجہ کریں _ اور اس بارے میں ان کی تائید کریں اور انہیں ترغیب دیں _ اگر ماں باپ اس سلسلے میں کچھ توجہ کریں تو وہ اپنے ناقص بچے کی اور معاشرے کی بہت بڑی خدمت سرانجام دیں گے _

اس صورت میں اس طرح کا شخص گویا اپنی کھوئی ہوئی صورت کو پالے گا اور اپنی خداد اد صلاحیتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے گا _ اور معاشرت میں بھی وہ ایک اہم مقام حاصل کرسکے گا _

ایک لڑکی اپنے خط میں لکھتی ہے_

... میر ی ایک سہیلی نے اپنی زندگی کی داستان مجھے اس طرح سنائی میں تیرہ سال کی تھی _ ایک دفعہ میں چھت سے گڑپڑی _ میری ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ لگی _ جس کی وجہ سے میں معذور ہوگئی _ کچھ عرصہ ہسپتال میںمیرا علاج ہوتا رہا _ اگرچہ مجھے تکالیف تھی لیکن مجھے بعد میں سمجھ آئی کہ یہ دن میرے لیے بہت بہتر تھے _ جب مجھے ہسپتال سے چھٹی ملی اور میں گھر پہنچی تو میرے والدین نے مجھے ازلی دشمنوں کی طرح دیکھتا شروع کردیا _ انہوں نے کہا تم ہمارے لیے باعث ننگ و ارہو _ ہم لوگوں کو کیسے بتائیں کہ ہم ایک معذور بیٹی کے والدین ہیں _ تم ہمیشہ ہم پر سوار ہوگی _ وہ مجھے دلاسہ دینے کی بجائے دن رات ایسی ہی باتیں کرتے اور میری پمردہ روح کو اور چرکے (زخم) لگاتے _ وہ یہ نہیں سوچتے تھے کہ میں بے قصور ہوں _ میں روزانہ کئی مرتبہ خدا سے اپنی موت کی دعا کرتی تا کہ

۳۳۸

اس سخت زندگی سے میری جان چھوٹ جائے _ میں اپنے مفلوج پاؤں کے ساتھ سارا دن گھر میں کام کرتی _ لیکن کوئی میری دلجوئی نہ کرتا مجھے اصلاً اپنی بیٹی ہی نہ سمجھتے میری جوانی کے بہترین ایام رنج و درد کے عالم میں گزرے _ پندرہ سال کی عمر میں میں ایک پچاس سالہ بوڑھی کی طرح نظر آتی جب میرے ماں باپ مر گئے _ میرے بہن بھائی بھی بچپن ہی سے مجھ سے متنفر تھے وہ بھی میری احوال پرسی نہ کرتے _ پھر میری شادی کردی گئی _ میرے شوہر بہت مہربان شخص تھے _ مجھ سے بہت محبت کرتے _ اس وقت تک مجھے محبت کی ٹھنڈی چھاؤں نصیب نہیں تھی اب میری حالت دن بدن اچھی ہونے لگی اب میں بالکل تندرست ہوگئی ہوں _ خدا نے مجھے اولاد بھی عطا کی ہے _ اور میں خوش و خرم اور صحت و سلامتی کے ساتھ زندگی گزار رہی ہوں _

۳۳۹

جسمانی سزا

بہت سے والدین بچوں کی تربیت کے لیے جسمانی سزا ضروری سمجھتے ہیں اور اکثر اساتذہ کے ذہن میں بھی یہ سودا سمایا ہوتا ہے لوگوں میں مشہور ہے کہ ''لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے _ گزشتہ زمانے میں اس طرز عمل کے حامی بہت افراد تھے _ اور یہ طریقہ کارائج بھی تھا _ سکول کی ضروریات میں سے ڈنڈا، زنحیر اور کوڑا و غیرہ بھی تھا _ جو والدین اپنی اولاد کی تربیت کے خو اہش مند ہوتے وہ انہیں مارنے سے دریغ نہ کرتے _ لیکن بہت سے دانشور بالعوم اور ماہرین نفسیات بالخصوص اس طرز عمل کو بچے کے لیے نقصان وہ سمجھتے ہیں _ اور اس سے منع کرتے ہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جسمانی سزا پر تقریباً تقریباً پابندی ہے اور اس سلسلے میں کئی قوانین منظور اور نافذ ہوچکے ہیں _ دانشور کہتے ہیں _

جسمانی سزا سے بچے کی اصلاح نہیں کی جا سکتی _ ممکن ہے ظاہری طور پر اس کا تھوڑا بہت اثر ہولیکن یہ ناقابل تلافی نقصان کی حامل بھی ہوتی ہیں مثلاً

1_ مارکھا کھا کر بچہ اس بات کا عادی ہوجاتا ہے کہ وہ زور اور طاقت کے سامنے بلا چون و چرا سر جھکالے _ اور ہوسکتا ہے اس طریقے سے وہ یہ سمجھے لگے کہ طاقت ہی کامیابی کی کلید ہے _ اور جب بھی غصّہ آئے مارناچاہیے _ اور اس سلسلے میں کچھ لحاظ نہیں رکھنا چاہیے _ مارپیٹ کے ذریعے ماں باپ جنگل کے وحشیانہ قوانین اپنے بچے پر لاگوکردیتے ہیں _

2_ مارکھانے والے بچے کے دل میں والدین کے بارے میں کینہ و نفرت پیدا ہو

۳۴۰