آئین تربیت

آئین تربیت0%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 361
مشاہدے: 121985
ڈاؤنلوڈ: 6758

تبصرے:

آئین تربیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121985 / ڈاؤنلوڈ: 6758
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جاتی ہے اورزیادہ تریہی ہوتا ہے کہ وہ آخر تک اسے فراموش نہیں کرتا _ ہوسکتا ہے وہ کسی رد عمل کا مظاہرہ کرے اور سرکش ہوجائے _

3_ مارپٹائی بچے کو بزدل بنادیتی ہے _ اس کے ذریعے سے بچے کی شخصیت بھی کچلی جاتی ہے اور اس کا روحانی توازن بگڑجاتا ہے اور وہ غصّے اور دوسری نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے _

4_ جسمانی مارپیٹ زیادہ تر بچے کی اصلاح نہیں کرتی اور اس کے اندر اصلاح کا جذبہ نہیں ابھارتی _ ممکن ہے مارپیٹ اور ڈنڈے کے خوف سے ظاہراً وہ برا کام نہ کرے _ اور دوسروں کی موجودگی میں وہ کچھ نہ کرے لیکن اس کی حقیقی برائی اس طرح سے دور نہیں ہوتی اور باطن موجود رہتی ہے اور بعد ازاں کسی دوسرسی صورت میں آشکار ہوتی ہے _ایک صاحب کہتے ہیں:میرے بارہ سال بیٹے نے الماری سے ماں کے پیسے اٹھالیے _ اس کام پر میں نے اس کی ڈنڈے سے پٹائی کی _ اس کے بعد وہ خوف کے مارے الماری کے قریب نہیں جاتا تھا _اور یہ درست ہے کہ بچے نے اس کے بعد الماری سے پیسے نہیں اٹھائے اور اس لحاظ سے باپ نے اپنا مقصد پالیا ہے لیکن معاملہ اتنا سادہ نہ تھا _ یہ قصہ آگے بڑھا _ بعد ازاں وہ بس کا کرایہ ادا نہ کرتا _ ماں سوداسلف کے لیے پیسے دیتی تو اسی میں چرالیتا _ بعد میں معلوم ہو اکہ اس نے اپنے دوستوں کے بھی پیسے چرائے ہیں _ گویا مارنے بچے کو مجبور کیا وہ ایک کام کا تکرار نہ کرے _ لیکن اس کام کی اصل حقیقت تو ختم نہ ہوئی _ (1) ایک دانشور لکھتے ہیں :جن بچوں کی مارپٹائی ہوتی رہتی ہے وہ بعد از ان ڈھیلے ڈھالے اور بیکارسے

-------------

1_ روان شناسی تجربی کودک، ص 263

۳۴۱

شخص بن سکتے ہیں _ یا پھر دھونس ڈعاندلی جماتے ہیں گویا پوری زندگی اپنے افسردہ بچپن کا انتقام لیتے ہیں _ (1)

مسٹررسل لکھتے ہیں:

میرے نظرلیے کے مطابق بدنی سزا کسی لحاظ سے بھی درست نہیں ہے _ (3)

اسلام نے بھی جسمانی سزا کو نقصان وہ قرار دیا ہے اور اس سے روکا ہے _ حضرت علی علیہ اسلام فرماتے ہیں:

عقل مند ادب کے ذریعے نصیحت حامل کرتا ہے _ یہ تو صرف حیوانات ہیں جو مارکے بغیر ٹھیک نہیں ہوتے _ (3)

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

جو شخص بھی دوسرے کو ایک تازیانہ مارے گا _ اللہ تعالی اس پر آگ کا تازیانہ برسائے گا _ (4)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے اپنے بیٹے کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا:

اسے مارنانہ البتہ اس سے کچھ دور رہو لیکن تمہاری یہ دوری اور ناراضی زیادہ

----------

1_ روان شناسی تجربی کودک، ص 266

2_ در تربیت ، ص 169

3_ غرر الحکم ، ص 236

4_ وسائل، ج 19 ، ص 12

5_ بحار، ج 77، ص 175

۳۴۲

دیرے کے لیے نہ ہو _ (1)

بہر حال بدنی سزائیں تربیت کے لیے نہایت ہی خطرناک ہیں اور حتی الامکان ان سے بچنا چاہیے لیکن اگر کوئی دوسرا طریقہ مؤثر نہ ہو اور مارکے علاوہ کوئی چارہ کارنہ ہو تو ایک ضرورت کی حد تک اس سے کام لیا جا سکتا ہے _ اسلام نے بھی اس کے لیے اجازت دی ہے مثلاً رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اپنے بچوں کو چھ سال کی عمر میں نماز کے لیے کہو اور اگر نصیحت اور ڈانٹ مؤثر نہ ہوں اور وہ تمہارے حکم کی خلاف ورزی کریں _ تو سات سال کی عمرمیں تم انہیں مارکر نماز کے لیے کہہ سکتے ہو _ (2)

ایک اور حدیث میں امام محمد باقر یا امام جعفر صادق علیہما السلام نے فرمایا:

جب بچہ نو سال کی عمر کو پہنچے تو اس وضو کرنا سکھاؤ اور اس سے کہو کہ وضو کرے اور نماز پڑھے _ اور اگر وہ نہ مانے تو مار کر نماز پڑھاؤ _ (3) حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:اگر تمہارا خادم خدا کی نافرمانی کرے تو اسے مارو اور اگر تمہاری نافرمانی کرے تو اسے معاف کردو _ (4) امیر المومنین علیہ السلام ہی فرماتے ہیں:جس طرح سے اپنے بیٹے کو سرزنش کرواسی طریقے سے تیمم کو سرزنش کرو اور جس مقام پر اپنے بیٹے کو سرزنش کے لیے مارو اس مقام پر تیمم کے لیے بھی اس سے کام لو _ (5)

--------

1_ بحار، ج 104 ، ص 99

2_ مستدرک، ج 1 ، ص 171

3_ وسائل، ج 3 ، ص 13

4_ غرر الحکم ، ص 115

5_ وسائل ،ج 15 ، ص 197

۳۴۳

ایک شخص نبی اکر م (ص) کی خدمت میں آیا اور عرض کی ایک تیمم بچہ میری سرپرستی میں ہے کیا میں اسے سرزنش کے لیے مارسکتا ہوں فرمایا:

جس مقام پر تم اپنے بیٹے کو تربیت کے لیے مارسکتے ہو اس مقام پر تیمم کی تربیت کے لیے بھی مارسے کام لے سکتے ہو _ (1)

بہر حال جب تک ضرورت نہ پڑجائے اس حساس اور خطرناک وسیلے سے کام نہیں لینا چاہیے _ اور جب ضروری ہو اس وقت بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے _ اور سزا جچی تلی اور سوچی سمجھی ہوئی چاہیے _

ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کی میرے گھر والے میری نافرمانی کرتے ہیں میں کس طریقے سے انہیں تنبیہ کروں _ فرمایا:انہیں معاف کردو _ اس نے دوسری اور تیسری مرتبہ یہی سوال کیا تو حضور(ص) نے یہی جواب دیا _ اور اس کے بعد فرمایا:اگر تم انہیں سرزنش کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں دھیان رکھنا چاہیے کہ سزا ان کے جرم سے زیادہ نہ ہو اور چہرے پر مارنے سے اجتناب کرنا _ (2)

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

ضرورت کے موقع پر بچے اور خادم کو تنبیہ کے لیے پانچ یا چھ ضربوں سے زیادہ نہ مارو او رزیادہ زور سے بھی نہ مارو _ (3)

تنبیہ کے موقع پر کوشش کریں کہ دوسروں کی موجودگی میں نہ ہو کیونکہ روحانی طور پر بچے پر اس کے برے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اسے وہ عمر بھی نہیں بھلاتا _ مارحدسے

---------

1_ مستدرک ، ج 2 ، ص 625

2_ مجمع الزوائد ، ج 8، ص 106

3_ وسائل ، ج 18 ، ص 581

۳۴۴

بڑھ جائے تو اسلام میں اس کے لیے دیت اور جرمانہ مقررکیا گیا ہے _ لہذا اس حد تک نہیں مارنا چاہیے _ اسلام کے قوانین کے مطابق اگر مارنے کے نتیجے میںکسی کا چہرہ سیاہ پڑجائے تو مارنے والے کو اس چھ طلائی دینار دینا ہوں گے _ اور اگر چہرہ سبز پڑجائے تو تین دینار اور گر سرخ ہوجائے تو ڈیڑھ دینارے_ (1)

ماں باپ کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ پاگلوں کی طرح بیچارے بچے کی جان کے درپئے ہو جائیں _ اور اس مکوں اور لاتوں سے ماریں _ یازنجیز اور ڈنڈے سے اس کا بدن سیاہ کردیں _ بہر حال ضرورت کے موقع پر اسلام نہ فقط بدنی سزا کو مفید سمجھتا ہے بلکہ اس کا حکم دیتا ہے _کیونکہ بے حد و حساب اور مطلق آزادی کا بھی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوتا _ یہی بے حساب اور غلط آزادی ہے کہ جس نے مغرب کے بچوں اور نوجوانوں کو بگاڑدیا ہے _

-----------

1_ وسائل ، ج 19 ، ص 295

۳۴۵

غیر جسمانی سزائیں

بہت سے والدین اپنے بچوں کی تربیت کے لیے غیر بدنی سزاؤں سے استفادہ کرتے ہیںمثلاً بچے کو کسی اندھیرے کمرے میں بند کردیتے ہیں _ یا تہہ خانے میں بند کردیتے ہیں یا کسی صندوق و غیرہ میں _ کبھی اس کو غصّے کے ساتھ گالی بکتے ہیں _ اس طرح کی وحشیانہ سزاؤں کا نقصان بدنی سزاؤں اور مارپیٹ سے کم نہیں ہے _

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

بہت سی سزائیں ایسی ہوتی ہیں جن کا اثر حملے سے زیادہ ہوتا ہے _ (1)

اور ممکن ہے یہ بدنی سزاؤں سے بھی زیادہ و نقصان وہ ہوں _ اس طرح کی سزائیں بچے کی شخصیت کو مجروح کردتی ہیں اور خوف و اضطراب کے عوامل اس میں پیدا کردیتی ہیں _ ایسا بہت دفہ ہوا ہے کہ کسی کمرے میں بند بچے کے اعصاب پر اتنا شدید خوف طاری ہوا ہے جس سے وہ پوری زندگی نجات حاصل نہیں کرسکا کبھی اس خوف کے زیر اثر اث پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے _ لہذا والدین کو اس طرح کی سزائیں دینے سے پرہیز کرنا چاہیے _ بدزبانی اور گالی حرام ہونے کے ساتھ ساتھ بچے کی تربیت پر بھی برے اثرات مرتب کرتی ہیں اور اسے اس برے عمل کا عادی بنادیتی ہیں _

لیکن بعض غیر جسمانی سزاؤں میں اس طرح کا نقصان نہیں ہے جیسے بچے کے ساتھ

---------

1_ غرر الحکم ، ص 415

۳۴۶

ناراض ہوجانا ، اسے سیر و تفریح کے لیے نہ لے جانا ، اسے دعوت پر نہ لے جانا اسے ایک وقت کا کھانا نہ دینا _ اس کے جیب خرچ میں کمی کردینا اسے کھیلنے سے روک دینا _ اس کے ذمہ مشکل کام لگادینا یا گھر کے بعض کام اس کے سپرد کردینا اور اسی طرح کی دوسری سادہ اور بے ضرر قسم کی سزائیں _ بہت سے والدین اپنے بچوں کی تنبیہ کے لیے اس طرح کی سزائیں دیتے ہیں _ سکولوں میں بھی کم و بیش اس طرح کی سزائیں رائج ہیں _ اس طرح کی سزاؤں کا استعمال اگر صحیح اور عاقلانہ طریقے سے کیا جائے تو یہ بچے کی تربیت کے لیے کسی حد تک سودمند ہوتی ہیں _ اور کسی قسم کا نقصان بھی نہیں رکھتیں _ سزا میں یہ ایک عمومی نقص ہے کہ یہ بچے کی باطنی اور اندرونی اصلاح کیلئے مؤثر نہیں ہوتی اور اس میں اصلاح کارجحان پیدا نہیںکرتی _ سزا کے ڈرسے ممکن ہے وہ کھلے عام اس برے کام کے انجام دینے سے بازرہے لیکن برائی کو وہ جڑے سے نہیں کاٹ پھینکتا بلکہ ظاہری طور پر وہ اس برائی کے جذبے کو چھپالیتا ہے اور پھر یہ جذبہ کسی دوسری جگہ پر اپنا کام دکھاتاہے _ یہ بھی ممکن ہے کہ سزا کسے خوف سے فریب کاری، جھوٹ اور ریا کاری سے کام لے ، ان سزاؤں سے بہتر استفادہ کرنے کے لیے چند نکات کی طرف توجہ ضروری ہے _

1_ سزا سوچ سمجھ کر دینا چاہیے _ لازمی مقدار سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے _سزا جرم سے زیادہ نہ ہو _ کیونکہ بچے نے اگر سزا کو اپنے خلاف ایک جنگ سمجھ لیا تو وہ رد عمل کے طور پر اپنا دفاع کرے گا اور نافرمانی و سرکشی کا مظاہر کرے گا _

2_ سزا اس طریقے سے نہیں ہونی چاہیئے کہ بچہ والدین کو اپنا دشمن سمجھنا شروع کردے یا وہ یہ سوچے کہ والدین مجھ سے محبت نہیں کرتے _

3_ بچے سے اگر غیر ارادی طور پر ایک فع سرزد ہوگیا ہے تو اسے سزانہ دیں _ کیوں کہ اس میں اس کا قصور نہیں ہے _ اس کے باوجود اگر اسے سزادی گئی تو یہ اس کے جذبات و احساسات پر منفی اثرات مرتب کرے گی _

4_ سزا کبھی کبھی دینا چاہیے _ تا کہ اس سے مثبت نتائج حاصل کیے جا سکیں ، کیوں کہ اگر اسے مسلسل سزادی گئی تو وہ اس کا عادی بن جائے گا _ او ریہ سزا اس پر کسی قسم کا

۳۴۷

اثر نہیں ڈالے گی _

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

ملامت اور سرزنش کی زیادتی ڈہیٹ پن کا باعث بنتی ہے _ (1)

5_ کسی انفرادی واقعے میں بچے کو سزادینی چاہیے نہ کہ کلی طور پر ، تا کہ بچہ سزاکی وجہ سمجھ سکے اور پھر اس کا اعادہ نہ کرے _ صرف بے نظمی پر بچے کو سزادیں _ بلکہ ایک خاص مقام پر بدنظمی کی وجہ سے بچے کو سزادیں _

6_ حتی المقدور اس امر کی کوشش کرنا چاہیے کہ ایسی سزا کا انتخاب کیا جائے تو بچے کے جرم سے مناسبت رکھتی ہو _ مثلاً اگر اسے نے ریاضی کاکام نہیں کیا تو ریاضی کی مشق ہی اس سے سزا کے طور پر حل کرائی جائے _ نہ یہ کہ اس سے حساب کی کتاب کو اول سے آخر تک لکھنے کی سزاد ے دیں _ اگر اس نے اپنا بستہ اور کپڑے پھینک دیے ہیں تو اس ان کو اٹھاکر مرتب طریقے سے رکھنے کا حکم دیا جائے نا یہ کہ اسے دعوت پر نہ لے جایا جائے _ یا اسے گھمانے پھر انے سے محروم کردیا جائے _ اگی کسی دعوت پر اس نے بدتمیزی کا مظاہرہ کیا ہے تو اسے اور دعوت پہ نہ لے کر جائیں _ نایہ کہ اس کا جیب خرچ کم کردیں _ اگر اس نے فضول خرچی کی ہے تو اسے جیب خرچ نہ دیں نا یہ کہ اسے سفر پہ نہ لے جائیں _ اگر اس نے اپنی پنسل یا قلم بے احتیاطی کی وجہ سے گم کردیا ہے تو اتنے پیسے ہی اس کے جیب خرچ سے کم کردیئے جائیں _

7_ سزا کے بعد بچے کی غلطی کو بھول جائیں _ اور دوبارہ اس کا ذکر نہ کریں _ ایک شخص کہتا ہے میں نے حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی خدمت میں اپنے بیٹے کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا:

اسے مارو پیٹونہ _ اس کے ساتھ ناراض ہوجاؤ لیکن تمہاری یہ ناراضگی زیادہ دیر تک نہیں رہنی چاہیے _ (2)

-----------

1_ غرر الحکم ، ص 70

۳۴۸

8_ اگر آپ بچے کو سزا دینا چاہتے ہیں تو اس کا دوسرے بچوں کا ساتھ مقایسہ نہ کریں _ اور دوسروں کی خوبیاں اس کے سامنے بیان نہ کرنے بیٹھ جائیں _ کیونکہ اس طریقے سے آپ اسے سدھار نہیں سکتے بلکہ اس میں حسد پیدا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں _

ایک صاحب اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں:

بچپن میں میرے والد مجھے بہت برا بھلا کہتے تھے _ رشتہ داروں اور میرے ہم جولیوں کے سامنے میری بے عزتی کردیتے _ اور مجھے ڈانٹتے ڈپٹتے _ ہمیشہ دوسروں کی گن میرے سامنے گنواتے رہتے _ اور مجھے حقیر سمجھتے رہتے _ میرے والد میری جتنی بھی بے عزتی کرتے میں بھی اتنا ہی ڈعیٹ بنتا گیا _ مجھ میں سبق پڑھنے کا حوصلہ نہ رہا _ میں اپنے آپ کو نا چیز سمجھتا _ کام اور سبق سے بھاگتا _ کسی قسم کی ذمہ داری قبول نہ کرتا _ میرے والد کی مسلسل ڈانٹ ڈپٹ نے میری شخصیت کو مجروح کردیا _ اب میں ایک کام چوراور گوشہ نشین فروہوں _

۳۴۹

حوصلہ افزائی اور انعام

تربیت کا ایک ذریعہ بچے کے اچھے کاموں پر اس کی تعریف اور حوصلہ افزائی ہے _ بچے کی حوصلہ افزائی اس کی تربیت کا بہترین اور مؤثرترین ذریعہ ہے _ یہ بچے کی روح پر اثر انداز ہوتی ہے _ اور اسے اچھا بننے کی ترغیب دلاتی ہے _ ہر انسان اپنی ذات سے محبت کرتا ہے اور اپنی شخصیت کی تکمیل چاہتا ہے اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس کی شخصیت سے آگاہ ہوں ، اس کی قدر و قیمت پہنچانیں _ اور اس کا شکریہ ادا کریں _ اگر اس کی حوصلہ افزائی کی ئی تو پھر اس کارجحان اچھائی کی طرف اور بڑھے گا اور وہ تکامل کے راستے پر گامزن ہوگا _ لیکن اگر اس کے برعکس اس کی حوصلہ شکنی کی گئی تو وہ نیکی اور اچھائی سے دور بھاگے گا _ اس کی حوصلہ افزائی کرنے سے اچھے نتائج کے حصول کے لیے چند باتوں کی یاددھانی ضروری ہے _

1_ اس کی حوصلہ افزائی کبھی کبھی اور بڑے کاموں پر کی جانی چاہیے _ نہ یہ کہ ہمیشہ اور ہر کام پر _ کیوں کہ اگر ایسا کیا گیا تو بچّے کی نظر میں حوصلہ افزائی اپنی اہمیت کھوبیٹھے گی _

2_ اس کی حوصلہ افزائی کسی خاص مقام پر ہونی چاہیے تا کہ وہ یہ سمجھ سکے کہ اس کو واو کس لیے دی جارہی ہے _ لہذا وہ دوسرے مقام پر بھی اسی طرح کے شائستہ طرز عمل کا مظاہرہ کرے گا _ ویسے ہی عمومی طور پر اس کی حوصلہ افزائی فائدہ مند نہیں ہوسکتی مثلاً اگر بچے کو اس لیے شاباش دی جائے کہ وہ ایک اچھا اور پابند بچہ ہے

۳۵۰

تو یہ حوصلہ افزائی کسی کامل نتیجے کی حامل نہیں ہوگی _ اچھے بچے کو یہ معلوم نہیں ہوسکے گا کہ اس کو کیوں شاباش دی جارہی ہے _

3_ یہ بھی ضروری ہے کہ بچے کے اچھے کام یا اخلاق کی تعریف کرنا چاہیے نہ کہ خود بچے کی تا کہ وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ سکے کہ اہمیت اچھے کام کی ہے نہ کہ کسی شخص کی _ اور ہر آدمی کی اہمیت اس کے اچھے کام کی وجہ سے ہے _

4_ بچے کی حوصلہ افزائی کرتے وقت اس کا دوسرے بچوں کے ساتھ مقایسہ نہ کریں مثلاً باپ کا اپنے بچے سے یہ کہنا اچھا نہیں ہے کہ تجھ پر آفرین کہ تم ایک سچے بچے ہو اور حسن کی طرح جھوٹے نہیں ہو _ حسن برا بچہ ہے کیوں کہ جھوٹ بولتا ہے _ کیونکہ ایسا کرنے سے بچہ دوسرے بچے کو حقیر سمجھے گا _ اور یہ بھی بذات خود ایک بری تربیت ہے _

5_ شاباش اور حوصلہ افزائی حد سے تجاوز نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ممکن ہے اس سے بچہ معزور اور خودبین ہوجائے _

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

بہت سے لوگ اس تعریف کی وجہ سے معزور ہوجاتے ہیں جو ان کی شان میں کی جاتی ہے _ (1)

حضرت علی علیہ السلام ہی فرماتے ہیں:

کسی کی تعریف و ستائشے میں زیادہ روی اور مبالغہ نہ کرو _ (2)

تعلیم و تربیت کا ایک اور وسیلہ انعام دینا ہے _ انعام دینا بری بات نہیں ہے بشرطیکہ غیر متوقع ہو کسی پہلے وعدہ کی ایفائیں نہ دیا جائے _ اور اچھا کام کرنے پردیا جائے _ پہلے سے اگر انعام کا وعدہ کردیا جائے تو یہ بچے میں برے اثرات مترتب کرے گا کیونکہ ممکن ہے ایسا کرنے سے بچہ اس بات کا عادی ہوجائے کہ وہ ہر نیک کام کے مقابلے میں انعام کا منتظر رہے

----------

1_ بحار، ج 73، ص 295

2_ غرر الحکم ، ص 309

۳۵۱

اور یہ ایک طرح کی رشوت ہوجائے _ وہ اس انعام اور رشوت کے بغیر اس کام کی انجام وہی پر راضی نہ ہو _

انسان کو نیک کاموں کا عادی ہونا چاہیے _ اور وہ ان کو خدا کی رضا اور بندگان خدا کی خدمت کے لیے انجام دے _ نہ یہ کر ہر کام پر اس کی آنکھیں لوگوں سے انعام کی منتظر رہیں _ اس طرح کا بچہ جب بڑآ ہوتا ہے تو وہ کوتاہ فکر ہوجاتا ہے ، اور لوگوں کے کاموں کی انجام وہی اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا _ حتی المقدور دوسروں کے کام آنے سے فرار کرتا ہے _ مگر یہ کہ اسے کسی انعام یا رشوت کا لالچ دیا جائے _ یہ ایک بہت بڑی اجتماعی بڑائی ہے _ لہذا اس لیے کہ انعام اس برائی کا باعث نہ بنے ضروری ہے کہ انعام اتنی مقدار کا ہونا چاہیے کہ وہ انعام یافتہ شخص کی عادت ثانوی نہ بن جائے _ جب بچہ کاموں کا عادی ہوجائے تو آہستہ آہستہ انعام و اکرام کا سلسلہ ختم کردیں _ اور اسے کاموں کی انجام دہی کر ترغیب دلائی جائے _ ضروری ہے کہ بچہ آہستہ آہستہ اپنی ذمہ داری پر عمل پیرا ہونے کا عادی ہوجائے تا کہ وہ اس کی انجام دہی سے لذت و خوشی محسوس کرے _ بہت سے ماں باپ اپنے بچوں کو امتحان میں سو فیصد نمبر لینے پر انعام دیتے ہیں اور اس ذریعے سے وہ انہیں سبق پڑھنے کی ترغیب دلاتے ہیں _ ممکن ہے یہ کسی حد تک مؤثر بھی ہو _ لیکن اس میں ایک بہت بڑا نقصان بھی ہے وہ یہ کہ یہ پروگرام بچے کے احساس ذمہ داری پر کاری ضرب لگاتا ہے _ یہ بچے اس لیے پڑھتے ہیں تا کہ اچھے نمبر حاصل کرکے انعام لے سکیں _ حالانکہ یہ ضروری ہے کہ بچے اپنی ذمہ داری اور مشغولیت کو سمجھ کر پروان چڑھیں نا یہ کہ ہر کام کے مقابلے میں کسی مادی انعام کے خواہش مند

ایک صاحب اپنے خط میں لکھتے ہیں:

چھوتھی کلاس سے مجھے ایک دینی مدرسہ میں داخل کروادیا گیا _ میں قرآن کا سبق یاد کرنے میں بہت پچھیے تھا یہاں تک کہ مجھے قران کا ایک کلمہ بھی یادنہیں تھا لیکن میرے ہم جماعت بہت اچھی طرح قرآن پڑھتے تھے_ قرآن کے پہلے پیڑیڈمیں ہی ہمارے قارے صاحب نے خندہ پیشانی کے ساتھ مجھ سے پوچھا کیا تم قرآن پڑھ لیتے ہو میں نے پریشان ہوکر کہا نہیں _ تو انہوں نے کہا کوئی حرج

۳۵۲

نہیں _ میں تجھے سبق دوں گا اور مجھے معلوم ہے کہ تم کلاس کے لائق ترین بچے بن جاؤگے _ جو کچھ بھی تمہارا دل چاہے مجھے سے پوچھ لیا کرو اور اپنے استاد کی باتوں سے مجھ میں پڑھنے کا اتنا شوق پیدا ہوا کہ میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ میں سبق میں کمزور رہنے کی تلافی کروں گیا میں نے خوف محنت کی _ اورسال کے آخر میں قرآن کے سبق میں بہترین ہوگیا _ یہاں تک کہ کبھی کبھی قاری صاحب کہ جگہ میں کلاس کو پڑھاتا _ اور صبح کی اسمبلی میں قرآن کی تلاوت کرتا _

ایک لڑکی اپنی یادداشتوں میں تحریر کرتی ہے _

میرے والد ایک روشن خیال شخص تھے _ ایک دن میری ماں کی غیر موجودگی میں انہوں نے میرے چند اساتذہ کی دعوت کردی _ کھانے پینے کا سامان لاکر میرے سپردکردیا میں نے بھی خوشی خوشی کھانا پکانا شروع کردیا _ دو پہر کو میرے ابو مہمانوں کو اپنے ساتھ لے آئے _ جب میں نے کھانا برتنوں میں ڈالا تو معلوم ہوا کہ یہ تو اچھی طرح پکاہی نہیں ہے _ مرغ بھی کچھا تھا اور چاول بھی خراب ہوچکے تھے چونکہ مجھے کھانا پکانے کا طریقہ نہیں آتا تھا _ لہذ میں بہت غمگین تھی _ اور کسی متوقع ڈانٹ ڈپٹ کی منتظر _ لیکن میری توقع کے برخلاف میرے والد نے مہمانوں کے سامنے تعریف کی اور کہا یہ کھانا میری بیٹی نے پکایا ہے او رکتنا لذیذ پکایا ہے _ مہمانوں نے بھی ان کی تائید کی _ او رمیری سلیقہ شعاری کی تعریف کی _ بعد میں باپ نے بھی مجھے شاباش دی _ اپنے باپ کی حوصلہ افزائی سے میں کھانے پکانے کے امور کی طرف متوجہ ہوئی اور اب میں مزیدار قسم کے کھانے پکانے اور دستر خوان کے باقی لوازمات میں پوری طرح ماہر ہو چکی ہوں _

۳۵۳

فہرست کتاب

عرض ناشر 5

انتساب 8

کچھ تر جمے کے بار ے میں 9

پیشگفتار 11

ماں باپ کی ذمہ داری 15

تربیت کرنے والوں کی آگاہی اور باہمی تعاون 22

تربیت عمل سے نہ کہ زبان سے 27

گھریلو لڑائی جھگڑے سے پرہیز 32

ماں کی حیثیت سے زندگی کا آغاز 39

جنین کی سلامتی میں ماں کی غذا کااثر 42

۳۵۴

جنین کے اخلاق پر ماں کی غذا کا اثر 45

ماں کی غذا 47

تمباکو نوشی 51

اگر حاملہ خاتون بیمار ہو جائے 53

ماں کی نفسیات کا جنین پراثر 55

حاملہ خواتین کو ایک نصیحت 59

صاف ستھری فضا 60

اسقاط حمل 61

نظم کا ترجمہ : 66

پیدائیش کی مشکلات 68

ولادت کے بعد 73

۳۵۵

ماں کا دودھ بہترین غذا ہے 76

ماں کے دودھ کے ساتھ ساتھ 81

ماں کے دودھ کی ممانعت 82

دودھ پلانے کا پرو گرام 83

ماں کا دودھ نہ ہو تو ؟ 89

دودھ چھڑوانا 91

بیٹی یا بیٹا 93

بچے کا نام 96

صحت و صفائی 101

بچے کی نیند اور آزادی 106

نومولود اور اخلاقی تربیت 112

۳۵۶

نومولود اور دنی تربیت 116

احساس وابستگی 119

جب بچہ باہر کی دنیا کو دیکھنے لگتا ہے 124

محبّت 127

اظہار محبت 132

محبّت _ کام نکا لنے کاذریعہ نہیں 136

محبّت _ جو تربیت میں حائل نہ ہو 137

بگڑا ہو ابچّہ 139

انگوٹھا چوسنا 146

خوف 149

معقول خوف 155

۳۵۷

کھیل کود 158

خود نمائی 168

تقلید 171

تلاش حقیقت 174

خود اعتمادی 179

آزادی 187

ضدّی پن 194

کام اور فرض کی ادائیگی 201

راستگوئی 209

وفائے عہد 216

ملکیت 221

۳۵۸

سخاوت 225

نیک کاموں میں تعاون 231

انسان دوستی اور بچّے 233

عدل و مساوات 237

بچّون کا احترام 243

خودشناسی اور بامقصد زندگی 247

گھر کی آمدنی اور خرچ 250

قانون کااحترام 254

ادب 256

چوری چکاری 261

حسد 266

۳۵۹

غصّہ 273

بدزبانی 278

چغل خوری 281

عیب جوئی 284

گھر میں بچوں کا لڑائی جھگڑا 287

دوست اور دوستی 294

بچہ اور دینی تعلیم 300

بچہ اور فرائض دینی 304

سیاسی اور سماجی تربییت 308

بچہ اور ریڈیو ٹی وی 310

جنسی مسائل 317

۳۶۰