آئین تربیت

آئین تربیت15%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125375 / ڈاؤنلوڈ: 7176
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

ایک دانشور لکھتے ہیں :

ماں کا بدن اور پر انداز ہونے والے واقعات بچے کے پروان چڑھنے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور بچہ ماں کے بدن کی نسبت حساس تر ہو تا ہے چونکہ ماں کا بدن تو کممل ہو چکا ہوتا ہے اور اسے ابھی تکمیل کے مراحل طے کرنا ہو تے ہیں _ لہذا ہر عورت کا یہ فریضہ ہے کہ اپنے بچے کے پہلے گھر کے لیے بہترین ماحول فراہم کرنے کی کوشش کرے اور ایسا وہ صرف اسی صورت میں کرسکتی ہے کہ جب اسے معلوم ہو کہ کون سغ واقعات اور امور بچے کے رشد پر اثر انداز ہوتے ہیں صرف اس امر سے ڈرتے رہنا کہ بچے کا رشد معمول کے خلاف ہو بچے کی بھلائی کے لیے کافی نہیں ہے اور ان عوامل سے عفلت کہ جواس چیز کا باعث بنتے ہیں کیس درد کی دوا نہیں بن سکتی _ انسان کا رشد کس طریقے سے ہوتا ہے اور کس طریقے سے اس میں تبدیلیان جنم لیتی ہیں اگر ماں اس سے واقف ہو تو وہ اپنی ذمہ داری ادا کر سکتی ہے بچے کی نشوو نما کے لیے ولادت سے پہلے یاولادت ک بعد اسک کامل ماحول کی ضمانت کبھی بھی ممکن نہیں البتہ قدر مسلم یہ ہے کہ تمام والدین یہ چاہتے ہیں کہ ایک سالم اور صحت مند بچہ دنیا میں آئے یہ والدین اور گھر کے بڑے افراد کی ذمہ داری ہے کہ بچے کو صحیح و سالم دنیا لانے کی کوشش کریں _ البتہ جہالت طبعی حوادث کونہیں روک سکتی _ اگر انسان کو یہ خبرنہ ہو کہ بچہ کس طرح نشوو نما پاتا ہے تویہ بے خبری آنے والوں کی بدبختی کا باعث بنتی ہے _ دنیا میں بے نقص آنا ہر انسان کا حق ہے (۱)

-----------

۱_ بیو گرانی پیش از تولد ص ۱۸۴

۴۱

جنین کی سلامتی میں ماں کی غذا کااثر

رحم مادر میں بچہ ماں کے بدن کا کوئی با قائدہ حصہ نہیں ہو تا تا ہم وہ ماں کے خون اور غذا سے ہی پرورش پاتا ہے _ ایک حاملہ خاتون کی غذا کا مل ہونی چاہیے جو ایک طرف تو خود اس کے بدن کی ضروریات پوری کرسکے تا کہ اس کی جسمانی طاقت اور تندرستی مین کوئی کمی واقع نہ ہو اور صحیح و سالم طریقے سے اپنی زندگی جاری رکھ سکے اور دوسری طرف اس کی غذا کو _ بچے کے جسم کی ضروریات کا بھی کفیل ہونا جا ہیے تا کہ وہع معصوم بچہ اچھے طریقے سے پرورش پا سکے اور اپنیب اندرونی طاقتوں کو ظاہر کر سکے

لہذا یک حاملہ عورت کا غذائی پرو گرام سو چا سمجھا ' کسی حساب کے تحت اور مرتب ہو نا چاہیے _ کیونکہ ممکن ہے بعض و ٹا من یا غذائی مواد کی کمی سے ماں کی سلامتی خطر ے میں جاپڑے یا بچے کی صحت و سلامتی کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ جائے _

اسلام کی نظر مین ماں کی غذا بہت اہمیت رکھتی ہے _ یہاں تک کہ وہ حاملہ عورت کہ جس کے اپنے لیے یا اس کے بچے کے لیے روزہ رکھنا باعث ضرر ہوا سے اجازات دی گئی ہے کہ ماہ رمضان کا واجب روزہ نہ رکھے بعد ہیں فضا کرے _

ایک تحقیق کے مطابق دنیا کے اسی فیصد نا قص الخلقت نیز فکری ' اعصابی یا جسمانی طور پر کمز ور بچوں کے نقص اور کمزوری کا سبب یہ ہے کہ رحم ماور میں نہیں صحیح غذا نہیں طی (۱)

---------

۱_بہداشت جسمی رو روانی کودک ص ۶۲

۴۲

ڈاکٹر جزائری کہ جو ایک ماہر غذا ہیں لکھتے ہیں :

ماں اور جنین کی سلامتی اس غذا سے وابستہ ہے کہ جوماں حمل کے دوران میں ک;ھاتی ہے (۱)

مدتوں سے انسان کو اس بات کا علم ہے کہ جنین اور بچے کے رشد میں ولادت سے پہلے اور دودھ دینے کے دوران میں ماں کی غذا اثر رکھتی ہے _ ماں کو چاہیے کہ تمام پروٹین ' وٹامن ' کا ربو ہاٹیڈ رٹیس ' روغنیات اور دیگر در کا غذا کو اس زندہ سیل یعنی بچے کی نشوو نما ک لیے فراہم کرے تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ماں کے لیے ضروری ہے کہ وٹامنز کی وہ مخصوص مقدار جنین کے لیے مہیا کر ے کہ جوزندہ خلیوں کے لیے ضروری ہے _ اس طرح سے کہ جنین کے رشد کو یقینی بنا یا جا سکے کیونکہ مختلف دٹا منز کی کمی بچے پ زیاہ اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ وہ تو حالت رشد میں ہو تا ہے جب کہ ماں کی نشو ونما تو مکمل ہو چکی ہوتی ہے _ ممکن ہے کہ دوران حمل ماں با لکل تندرست رہے جب کہ بچہ مخصوص وٹا منز کی کمی کا شکار ہوجائے اور اس کے نتیجے میں اس کے رشد کی حالت خلاف معمول ہو ( ۲)

کرنر کہتا ہے:بچے کے غیر طبعی ہونے کی وجہ کبھی یہ ہوتی ہے کہ تخم تو اچھا ہوتا ہے لیکن اسے فضا اچھی میسر نہیں آتی اور کبھی یہ ہو تا ہے ' تخم اچھا نہیں ہو تا جبکہ فضا اچھی میسر آجاتی ہے بہت سار ے جسمانی نقائص مثلا ہو نٹوں کا پھٹا ہو اہونا ،آنکھیں چھوٹی اور رھنسی ہوئی ہو نا اور پاوں کے تلوے کاہموار ہونا کہ جنیں پہلے مورد ثی عواملی کا نتیجہ سمجھا جاتا تھا آجکل ماحول با لخصوص حمل آکسیجن کی کمی جیسے عوامل

------------

۱_ اعجاز خورا کیھا ص ۲۲۰

۲_ بیو گرافی پیش از تولد ص ۱۸۲

۴۳

کا نتیجہ قرار و یا جاتا ہے _ ماحول اور فضا کو بہت س پیدائشےی نقائص اور بچوں کے اعضاء کے فالج ز وہ ہو نے کی علت شمار کیا جاتا ہے ( ۱)

امام صادق علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں :

جو کچھ ماں کھاتی اور پیتی ہے بچے کی خوراک اسی سے بنتی ہے ( ۲)

---------

۱_ روانشناسی کودک ص ۱۹۰

۲_ بحار الانوار _ جلد ۶۰ _ ص۳۴۲

۴۴

جنین کے اخلاق پر ماں کی غذا کا اثر

ایام حمل میں ماں کی غذا کی کیفیت بچے کے اخلاق ' عقل اور استعداد تک پر بہت زیادہ اثر کرتی ہے کیونکہ بچے کے اعصاب اور اس کا مغزماں کی غذا ہی سے تیار ہوتا ہے اور ہر طرح کی غذا اپنا ایک خاص اثر رکھنی ہے _ اسلام نے اس امر کی ہے کہ ماں کی غذا بچے کے اخلاق کی تعمیر میں نہیت موثر ہے _ ہم نمونے کے طور پر چند احادیث پیش کرتے ہیں :

پیغمبر اکرم نے فرمایا :ماوں کو چاہیے کہ دوران حمل کے آخری مہینوں میں کھجو رکھائیں تا کہ ان کے بچے خوش اخلاق اور برد بار رہوں ( ۱)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :حالمہ عورتوں کو تاکید کرو کہ بہی دانہ کھائیں تا کہ ان کہ بچے خوش اخلاق ہوں (۲)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا :بہی دانہ عقل و دانائی کو بڑھاتا ہے ( ۳)

---------

۱_ مستدرک ج ۳ _ ص ۱۱۳

۲_ مستدرک ج ۳ _ ص ۱۱۶

۳_ مکارم الاخلاق ج ۱_ ص ۱۹۶

۴۵

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

جو حاملہ عورت خربوزہ کھا ئے گی اس کا بچہ خو بصورت اور خوش اخلاق ہو گا_ ( ۱ )

-----------

۱_ مستدرک ج ۲ _ ص ۶۴۵

۴۶

ماں کی غذا

یہاں ان مختلف قسم کی غذا،ں کے بارے میں تحقیق نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کے خواص اور آثار گنواسکتے ہیں کیونکہ ایک دشوار اور مفصّل بحث ہے _ اورراقم اس میں ماہر بھی نہیں ہے خوش قسمتی سے اس سلسلے میں بہت سی مفید کتابیں لکھی جا چکی ہیں _ قارئین ان کی طرف رجوع کر سکتے ہیں _ برا نہیں کچھ مجموعی طور پر اس سلسلے میں بعض امور کی یاددہانی کروادی جائے _

اگر چہ حاملہ عورتوں کی غذائی ضروریات بڑھ جاتی ہیں لیکن یہ امر باعث افسوس ہے کہ ان میں کھانے کی طلب کم پڑجاتی ہے _ اور ان میں اکثر کی طبیعت بوجہل سی ہوجاتی ہے ایسی صورت میں انہیں کوشش کرنی چاہیے کہ ایسی کم حجم غذائیں کھائیں کہ جو غذائیت کے اعتبار سے کامل اور بھر پور ہوں _ انسانی بدن کو جن غذاؤںکی ضرورت ہے وہ مختلف چیزوں میں پھیلی ہوئی ہیں _ لہذا غذا میں تنوّع رکھنے سے ایک عورت کے لیے بہترین غذائی پروگرام تشکیل پا سکتا ہے _ اس ضمن میں ایک ماہر لکھتے ہیں _ ''بدن کو صحیح و سالم رکھنے کے لیے نہ فقط حسب کفایت غذا کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ چاہیے کہ غذا متنوع ہو اور مناسب طور پر صرف کی جائے _ (۱)

ایک اور ماہر لکھتے ہیں;

ماں کو چاہیے کہ وہ اپنی صبح و شام کی غذا میں کچھ اضافی وٹامن اور معدنیات اپنے

-----------

۱_ علم و زندگی ص ۴۲۶_

۴۷

جسم کو مہیا کرے تا کہ جنین اپنے سات مہینے کے رشد کے سفر میں اس سے استفادہ کرسکے اور اس سے نہ صرف دانت اور مسوڑھے بن سکیں بلکہ اس کی پیچیدہ ہڈیاں بھی نشو و نما پا سکیں_ (۱)

ڈاکٹر غیاث الدین جزائری لکھتے ہیں;

دہی اور پنیر کا استعمال حالت حمل میں عورت کو وٹامن اور خاص قسم کا خمیر مہیا کرتا ہے اور اسے ادھر ادھر کی دوسری چیزوں کے کھانے سے روکنے میں مفید ہوتا ہے _ البتہ کھٹا دہی استعمال کرنا حاملہ عورت کے لیے مفید نہیں ہے _ باسی پنیر کا بھی کوئی مزہ نہیں ہے _ ہر روز صبح ناشتہ کے طور پر ایک گلاس دودھ کا پینا حاملہ عورت کے لیے ضروری ہے _ نیز آب جو کا خمیر اور دلیہ بھی مفید ہے اور جڑی ،شیردان ، دل کلیجی اور جگر میں وٹامن بی بہت زیادہ پایا جاتا ہے اور یہ مفید بھی ہیں _ (۲)

بہت اچھا ہے کہ حاملہ عورتیں مسلسل صحیح طریقے سے دودھ سے استفادہ کریں یہ غذا اس قدر مفید اور کامل ہے کہ انبیاء کی باقاعدہ غذا رہی ہے _

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں;دودھ انبیاء کی غذا ہے _ (۳)

ڈاکٹر غیاث الدین جزائری لکھتے ہیں:زیادہ تر عورتیں حمل کے دوران کیلشیم کی کمی کی وجہ سے پاؤں میں درد، کمر درد ، اور ناخنوں کے ٹوٹنے میں مبتلا ہوجاتی ہیں _ لہذا حاملہ خواتین کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ ایسے پھل اور سبزیاں کھائیں کہ جن میں کیلشیم زیادہ ہوتی ہے _ اور اسی طرح

----------

۱_ بیوگرافی پیش از تولد ص ۸۰_

۲_ اعجاز خوراکیہا ص ۲۲۳_

۳_ بحار جلد ۶۶ ص ۱۰۱_

۴۸

یخنی اور آبلیمو کو فراموش نہ کریں (۱)

عام لوگوں کے لیے اور خاص طور پر حاملہ خواتین کے لئے کچی اور پکی سبزیاں اور مختلف پھل بہترین غذا ہیں _ پودے اور درخت غذائی مواد زمین ، پانی، ہوا اور سورج کی روشنی سے حاصل کرتے ہیں اور ہمارے لئے غذا تیار کرتے ہیں _صحیح و سالم غذا کے لئے تمام پھل مفید میں البتہ خاص طور پر مرکبات ، سی ، بہی دانہ ، ناشپاتی ، اور کھجور مفید ہیں لیکن ہر پھل میں تمام تر مواد غذائی نہیں ہوتا _ ہر ایک کا اپنا خاص فائدہ اور تاثیر ہے _ اسی طرح ہر سبزی کو اپنی خاصیت ہے _ مختلف وٹامن اور مختلف قسم کا غذائی مواد مختلف پھلوں ، اناج اور سبزیوں میں پھیلا ہو اہے _ جو شخص اپنی صحت و تندرستی کا خواہش مند ہو اسے چاہیے کہ وہ مختلف پھلوں اور سبزیوں سے اگر چہ کبھی کبھار ہوا ستفادہ کرے _ خاص طور پر حاملہ عورتوں کے لے ایسا کرنا مفید اور ضروری ہے _ دین اسلام نے مسلمانوں سے اور خاص طور پر حاملہ عورتوں کو تاکید کی ہے کہ وہ پھلوں اور سبزیوں سے استفادہ کریں _ نمونے کے طور پر چند ایک روایات ذکر کی جاتی ہیں _

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:ہر چیز کی کوئی نہ کوئی زینت ہے اور سبزی دستر خوان کی زینت ہے _ (۲)

ایک روز امام رضا علیہ السلام کھانے کے لیے بیٹھے دیکھا کہ سلاد موجود نہیں ہے خادم سے فرمایا:توجانتا ہے کہ میں سلاد کے بغیر کھانا نہیں کھاتا مہربانی کر و اور سلاد بھی لے آؤ_اور جب سلاد آیا تو امام نے کھانا شروع کیا _ (۳)

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:بہی دانہ کھاؤکیوں کہ بہی دانہ عقل کو بڑھاتا ہے ، غم کو دور کرتا ہے اور بچے کو

-----------

۱_ اعجاز خوراکیہا ص ۲۲۴

۲_ مستدرک _ جلد ۳ _ص ۱۱۸

۳_ مکارم الاخلاق _جلد ۱ _ص ۲۰۱

۴۹

نیک کرتا ہے _ (۱)

پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا:

بہی دانہ کھاؤ اور اس اچھے پھل کو اپنے دوستوں کو ہدیہ کے طور پر دو _ کیونکہ بہی دانہ آنکھوں کی بینائی کو زیادہ کرتا ہے اور دلوں کو مہربان کرتا ہے ، حاملہ عورتیں بھی اس میوے سے خوب استفادہ کریں تا کہ ان کی اولاد نیک اور خوبصورت ہو _ (۲)

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

حاملہ عورتیں آخری مہینوں میں کھجور کھائیں تا کہ ان کے بچے بردبار ہوں _ (۳)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:کھجور کھاؤ کیونکہ کھجور سب دردوں کی دوا ہے _ (۴)

اس طرح کی احادیث بہت سی ہیں _ یہ چند حدیثیں نمونے کے طور پر ذکر کی گئی ہیں _ آپ پھلوں اور سبزیوں کے خواص کتابوں میں پڑھیں اور اس کے مطابق اپنے کھانے کا پروگرام تیار کریں _ یا پھر اس سلسے میں کسی غذا شناس ڈاکٹر سے مشورہ کریں _

---------

۱_ مکارم الاخلاق ، ج ۱، ص ۱۹۶

۲_ مستدرک ، ج ۳ ، ص ۱۱۶

۳_مستدرک، ج ۳ ، ص ۱۱۳

۴_ مستدرک ج ۳ ، ص ۱۱۲

۵۰

تمباکو نوشی

حاملہ عورتوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ سگریٹ اور ہر طرح کی تمباکو نوشی سے بچیں _ کیونکہ تمباکو نوشی نہ صرف مال کی صحت کے لئے خطرناک ہے بلکہ اس کے برے اثرات رحم میں موجود بچے کے جسم اور اعصاب پر بھی پڑتے ہیں _ اس ضمن میں ہم ایک غیر ملکی مجلے کے ایک مقالے کا خلاصہ نقل کرتے ہیں _ اس کی طرف توجہ فرایئےا _

ایک تحقیق جو سکنڈانیوین ممالک میں ۶۳۶۳ حاملہ عوتروں پرکی گئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو عورتیں سگریٹ کی عادی ہیں ان کے بچوں کا اوسط وزن دوسرے بچوں کے اوسط وزن سے ۱۷۰ گرام کم ہوتا ہے _ وزن کی یہ کمی ان ماؤں کے ۵۰ بچوں میں پائی گئی ہے _ جب کہ دوسری طرف ان بچوں کا قد بھی دوسروں سے کم تر پایا گیا ہے _ اسی طرح سے ان کے سر اور شانے بھی دوسرے بچوں سے چھوٹے ہوتے ہیں _ ان بچوں کی موت بھی دوسرے بچوں کی نسبت چھ گنا زیادہ ہوتی ہے _ ان بچوں کے اعضا میں نقص بھی دوسرے بچوں کی نسبت کہ جن کی مائیں سگریٹ کی عادی نہیں ہیں زیادہ ہوتا ہے _ سگریٹ کا استعمال ماں اور رحم میں بچے کے خون میں آکسیجن کی کمی اور کاربوکسی ہموگلوبین (۱) کی زیادتی کا باعث بنتا ہے _ سگریٹ پینے والی ماں کے بچوں میں دل کی پیدائشےی بیماری دوسری ماؤں کے

-------------

۱_

۵۱

بچوں کی نسبت ۵۰ ۰/۰ زیادہ ہوتی ہے اعداد و شمار اس امر کا پتہ دیتے ہیں کہ تمبا کو نو شی کرنے والی ماوں کے بچے تعلیم میں اپنے ہم سن بچوں سے پیچھے ہو تے ہیں اور یہ عقب ماندگی دوران حمل سگریٹ نوشی کی مقدار کے مطابق ہوتی ہے کیونکہ سگریٹ بچے کے مغز کے خلیوں کی کمی کا باعث بنتی ہے _ یہ تو ان نقصانات کا ایک چھو ٹا ساحصہ ہے کہ جو سگریٹ نوشی سے ماوں اور نوزاد بچوں کو پہنچتا ہے _ شاید اس کے اور بھی بہت سے عوارض اور پہلو ہیں کہ جوا بھی نا شناختہ ہوں _ لہذا وہ سب مائیں جو اپنی اور اپنے بچوں کی صحیح و سالم زندذگی کی خواہش رکھتی ہیں انہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ تمبا کو نوشی سے اجتناب کریں ( ۱)

ڈاکٹر جزائری لکھتے ہیں :تمبا کو نوشی ماں کے لیے نقصان وہ ہے اور رحم مادر میں موجود بچے کے لئے الکحلی مشروبات بھی حاملہ عورتوں کے لیے غیر معمولی طور پر خطر ناک ہیں _ اس بات سے صرف نظر کہ الکحل جو زہر پیدا کرتی ہے ان و ٹا منز کو بھی تباہ کردیتی ہے کہ جو ماں اور اس کے پیٹ مین بچے کی ضرورت ہوتے ہیں اور اولاد ناقص الخلقہ اور عیب دار ہو جاتی ہے تمبا کو نو شی اور تیز چائے بھی حاملہ عورتوں کے لیے غیر معمولی طور پر ضرر رساں ہیں ( ۲)

ڈاکٹر جلالی لکھتے ہیں :الکحل ، چرس اور دیگر تمام منشیات انسان کے خوں میں شامل ہو جاتی ہین اور یہی خون جنین کے گرو ہو تا ہے اور نتیجتا اس کے رشد و نمو پر اثر کرتا ہے یہاں تک کہ بعض ماہرین کا نظر یہ ہے کہ عورتوں کی تمبا کو نوشی سے جنین کا دل متاثر ہو تا ہے اور دل کی دھڑ کن کو تیز کرتا ہے (۳)

-------

۱_ مکتب اسلام _ سال ۱۵ _ شمار ہ ۶

۲_ اعجاز خورا کیہا ص ۲۱۵

۳_ روانشناسی کودک ص ۲۲۲

۵۲

اگر حاملہ خاتون بیمار ہو جائے

اگر حاملہ عورت بیمار ہو جائے اور ا سے دوا کی ضرورت پڑ جائے تو دوا کے استعمال میں میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ دوازیادہ تر بڑی عمر والوں کے لیے تیار کی جاتی ہے اور جب عورت اس سے استفادہ کرتی ہے تو شکنیہں کہ وہ اس کے پیٹ میں جا کر بچے کے بدن ک جا پہنچتی ہے اور اس پر بھی اثر انداز ہوتی ہے کچھ کہا نہین جا سکتا کہ بچے پروہ کیا اثر ڈا لے _ بحر حال کوئی بھی دوا پیٹ میں موجود بچے کے لئے بے اثر نہیں ہوتی لہذا حاملہ خاتون کو نہیں چا ہیے کہ بغیر سو چے سمجھے نتیجے کو ملحوظ رکھے بغیر دوا استعمال کرے اولا تو جب تک ضرورت تقاضانہ کرے دواستعمال نہ کرے _ ثانیا اگر ناچار ہو جا ئے تو لازمی طور پر ڈاکٹر کو بتا ئے کہ میں حاملہ ہوں کیا یہ دوا میرے بچے کے لیے تو ضرر رساں نہیں لہذا کسی لائق ڈاکٹر کے مشور ے سے ضروری مقدار میں دواکھا ئے _

البتہ اگر بیماری کوئی اہم ہو تو چاہیے کہ اپنی سلامتی اور بچے کی حفاظت کے لئے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرے کیونکہ وہ بیماری نہ صرف ماں کے لیے نقصان وہ ہو سکتی ہے بلکہ ممکن ہے بچے کی سلامتی کو بھی خطر ے میں ڈال دے _

ایک ماہر لکھتے ہیں :

ممکن ہے کہ بعض وائرس ( )اور مائیکروب ( ) میاں بیوی سے گرز کررحم ماورمیں موجود اپنا دفاع نہ کرسکنے والے بچے پر حملہ آور ہو جائیں اور اسے بھی اسی بیماری ہیں مبتلا کردیں (۱)

----------

۱_ بیو گرافی پیش از تولد ص ۱۵۰

۵۳

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں ;

ماں کی غذائی کیفیت میں تبدیلی اور جودو اوہ استعمال کرتی ہے نیز جن بیماریوں سے وہ دو چار ہوتی ہے یہ سب جنین پر اثر انداز ہوتی ہیں ابتدائی دنوں میں رحم مادر میں بچے میں پیدا ہونے والی چھوٹی سی خرابی بڑے ہو تے ہوئے بہت زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے اسی بنیاد پردوران حمل اپنی صحت کی حفاظت کے سلسلے میں خواتین پر خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے یہاں تک کہ ان کے حمل ٹھہر نے کی صلاحیت کے ضائع ہونے کا احتمال ہے (۱)

وہ یہ بھی لکھتے ہیں :

بہت سے غیر غذائی مواد بھی ایسے ہیں کہ جواماں باپ سے گزر کر بچے پر اس طرح سے اثر انداز ہو سکتے ہیں کہ اس کی نشو و نما پر منفی اثر ڈالیں _ زیادہ تر دوائیاں جو عموما استعمال کی جاتی ہیں وہ بالغ افراد کی تندرستی کے لیے بنی ہو تی ہیں یعنی ان کا تجربہ پورے ( کامل ) انسان پر کیا جا تا ہے _ ڈائرس ، بیکٹیر یا اور تمام جراثیم کہ جو ماں کے بدن میں ہوتے ہیں بعض اوقات بچے کو بھی اس بیماری میں مبتلا کردیتے ہیں یا بعض اوقات بچے کی نشو و نما کو خراب کردیتے ہین اور بچہ غیر معمولی طور پر بڑاہونے لگتا ہے (۲)

----------

۱_ بیو گرافی پیش از تولد ص ۴۸

۲_ بیو گرافی پیش از تولد ص ۱۸۳

۵۴

ماں کی نفسیات کا جنین پراثر

ماہرین کے در میان یہ مسئلہ زیر بحث ہے کہ کیا ماں کی نفسیاتی کیقیات جنیت کی روح پر اثر انداز ہوتی ہیں یا کہ نہیں ؟

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ماں اگر شدید خوف اور اضطراب سے دوچار ہوتو رحم مادر میںموجود بچے پر بھی اس کا اثر ہو گا او ر ممکن ہے کہ وہ بھی ڈرپوک بن جائے او راسی طرح ماں کا حسد اور کینہ بھی جنین کی روح پر اثر ڈالتا ہے اور ممکن ہے یہ دو صفتیں اس کی طرف منتقل ہو جائیں _

اس کے بر عکس خوش خلقی ، انسان دوستی ، ایمان ، شجاعت اور مہر و محبت کہ جو ماں مین موجود ہو بچہ ماں کا ایک حقیقی عضو ہو تا ہے لہذا جیسے ماں کی نفسیاتی کیفیات اور افکار اسکے اپنے جسم پر اثر انداز ہو تے ہیں اسی بات کو رد کردیا ہے اور اس امر کے غلط ہونے کوثابت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ دوران حمل ماں کے انکار اور اس کی نفسیاتی کیفیت ممکن نہیں ہے کہ مستقیما بچے کے اعصاب اور نظریات پر اثرانداز ہو _

ڈاکٹر جلالی لکھتے ہیں :

ماں او جنین کے در میان مستقیم ربط نہیںہے _ ماں اور بچے کے در میان رابط ناف کے ذریعے سے ہے اور اس ناف میں کو ئی اعصاب نہیں ہیں کہ جو سلسلہ اعصاب کو ہدایت کرے بلکہ بند ناف میں خون کی رگیں ہوت ہیں لہذا

۵۵

جیسا کہ گزشتہ لوگوں کو خیال رہا ہے کہ اعصاب اور ہیجانی کیفیت بچے پر اثر انداز ہوتی ہے ایسا نہیں ہوسکتا _ (۱)

البتہ حق اس دانشور کے ساتھ ہے اور یہ دعوی نہیں کیا جا سکتا کہ حاملہ عورت کے افکار اور نفسیاتی کیفیات بلا واسطہ بچے کی روح اور اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہیں _ البتہ یہ بات بھی درست نہیں کہ کوئی یہ کہے کہ ماں کے افکار اور جذبات بچے پر بالکل اثر انداز نہیں ہوتے بالواسطہ طور پر بچے کے اخلاق اور نظریات پرانداز نہیں ہوتے _ اس بات کی وضاحت کے لیے مندرجہ ذیل تین نکات کی طرف توجہ فرمائیں _

۱_ انسان کی روح اور جسم ایک دوسرے سے مربوط اور واستہ ہے _ انسانی جسم کی بیماری اور صحت ، اور اعصاب اور جسمانی قوی کی قوت اور کمزوری یہاں تک کہ بھوک اور سیری انسان کے طرز تفکر اور اس کے اخلاق پر اثر انداز ہوتی ہے انسان کی اخلاقی شخصیت اس کے خاص مزاج اور اس کے اعصاب اور مغزی کی تعمیر کے انداز سے کسی حد تک وابستہ ہے _ روح سالم بدن سالم میں ہوتے ہے _ ہوسکتا ہے کہ کچھ غذا کی کمی یا فقدان اعصاب اور مغز کو برے اخلاق اور ہیجانی کیفیت کے ظہور پر ابھارے_

۲_ جنین اسی غذا سے استفادہ کرتاہے کہ جو ماں کے اندرونی نظام میں تیارہوکر اس تک پہنچتی ہے _ بچہ جب تک رحم مادر میں زندگی گزارتا ہے غذا کے اعتبار سے ماں کے تابع ہوتا ہے _ ماں کی غذا کی کیفیت بچے کی جسمانی اور نفسیاتی پرورش پر بھی اثر انداز ہوتی ہے

ڈاکٹر جلالی لکھتے ہیں:جو چیز بھی ماں کی سلامتی کے لیے مؤثر ہے وہی جنین کی سلامتی کے لیے مؤثر ہے اگر ماں کی غذا میں کیلشیم کی کمی ہوگی یہ تو کمی بچے کی ہڈیوں اور دانتوں کی تعمیر پر اثر انداز ہوگی _ (۲)

----------

۱_ روان شناسی کودک ص ۱۸۸_

۲_ روان شناسی کودک ص ۴۲۲_

۵۶

۳_ یہ بات یقینی طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ انسان کا شدید اضطراب اور ہیجان اس کے سارے بدن بشمول اس کے نظام ہضم کے اثر انداز ہوتا ہے _ رنج و غم کی زیادتی یا خوف کی شدت کھانے کی طلب کو کم کردتی ہے اور غذا صحیح طور پر ہضم نہیں ہوتی _ نظام ہضم خراب ہوجاتا ہے ، منظم اعصاب بگڑجاتا ہے اور غدودوں کے معین اور طبعی نظام میں خلل واقع ہوجاتا ہے _

ان تین مقدمات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہا ماں کے افکار اورروحانی کیفیات اگر مستقیماً بچے کے اعصاب اور مغز کی طرف مننتقل نہیں ہوتیں تا ہم ان امور کا تعلق ماں کے نظام ہضم سے ہے اور بچے کی خوراک کا تعلق ماں ہی کے نظام ہضم اورغذائی کیفیت سے ہے اور یہ کیفیت بچے کی روح اور مستقبل کی شخصیت پر انداز ہوتی ہے اس لحاظ سے یہ قطعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ماں کی نفسیاتی کیفیات اور افکار بدون شک بچے کی روح نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اس کی تعمیر شخصیت میں مؤثر ہیں _

ماں کا شدید غصہ یا اضطراب یا شدید خوف اس کے عمومی مزاج اور نظام ہضم کو دگرگوں کردیتا ہے اس کے اعصاب اس کے باعث خلل کا شکار ہوجاتے ہیں _ یہ غیر معمولی کیفیت جیسے ماں کےجسم وجاں کے لینے باعث ضرر ہے اسی طرح کے رحم میں موجود بچے کی غذائی کیفیت کے لیے خرابی کا سبب ہے _

ممکن ہے اس صورت میں بچے کے اعصاب اور مغز ایک ایسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہوجائیں کہ جو بعد میں ظاہر ہو _

ڈاکٹر جلالی لکھتے ہیں :

ماں کو پیش آنے والے شدید ہیجانی کیفیات اور ناراحت کردینے والے امور مسلماً بچے کے مزاج اور رشد کے لیے باعث ضررہیں_ چونکہ اس طرح کی کیفیات نظام کو خراب کردتی ہیں اور غیر طبیعی غدود پیدا ہوجاتے ہیں _ اس کے باعث نظام ہضم اپنا کا م صحیح طور پر انجام نہیں دے سکتا _ شاید یہی ایک وجہ ہو کہ بچہ جو اعصاب رکھتا ہے اور بہت سی نفسیاتی بیماریاں اس میں پیدا ہوسکتی ہیں انہی ہیجانی

۵۷

کیفیات کی وجہ سے ممکن ہے ایام حمل ہی میں بچہ ضائع ہوجائے _ (۱)

ایک حاملہ خاتون کہ جو جسم اور روح کے اعتبار سے بالکل سکون میں ہو _ خوش و خرم ، با ایمان ہو ، انسان دوست ہو ، مہر و محبت سے بسر کرنے والی ہو ، سالم جسم اور پاک روح کی حامل ہو تو اس کے رحم میں زندگی گزارنے والا بچہ بھی جسم و جان کے اعتبار سے پر سکون ہوگا _ ایسا پر امن اور سالم ماحول بچے کی پرورش ، جسمانی نشو و نما اور روحانی شخصیت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوگا ، اس کے برعکس ایک بے ایمان ، حاسد ، کینہ پرور ، غصیلی ، دڑپوک ، پریشان حال اور نفسیاتی مریض ماں بچے کے نظام غذاکو تباہ کردے گی ، اس کی روحانی آرام کو ختم کردے گی ، اس کے لیے برے اخلاق اور نفسیاتی بیماریوں کے لیے فضا سازگار بتادے گی _

اس ضمن میں

''ماہرین نفسیات نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ نفسیاتی امراض میں مبتلا ۶۶ فیصد بچے یہ بیماری ماں سے وراثت میں پاتے ہیں چنانچہ اگر ایک ماں صحیح و سالم ہو تو اس کا بچہ بھی ایک صحیح و سالم نظام اعصاب کا حامل ہوگا _ اگر کوئی عورت چاہے کہ اس کا بچہ صحیح و سالم، شاداب اور عقلی قوتوں کے اعبار سے بے نقص ہو تو اسے چاہیے کہ بچے کی ولادت سے پہلے اپنی سلامتی کے بارے میں فکر کرے _ (۲)

''ماحول کے عوامل بچے کے جسمانی او رنفسیاتی رشد و تکامل پر اثر انداز ہوتے ہیں '' _ (۳)

------------

۱_ روان شناسی کودک ص ۲۲۳_

۲_ اطلاعات ، شمارہ ۱۰۳۵۵، کودک ج ۱ ص ۱۱۹_

۳_ بیوگرافی پیش از تولد ص ۱۲۵

۵۸

حاملہ خواتین کو ایک نصیحت

حاملہ خواتین کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ بھار ی چیزوں کے اٹھانے ، زیادہ سخت کام کرنے اور تھکادینے والے امور سے اجتناب کریں _ کیوں کہ ماں کے لیے تھکادینے والے امور بچے کے امن و آرام کو بھی درہم برہم کردیتے ہیں اور اس کے لئے بھی ناراضی کا سامان بنتے ہیں یہانتک کہ ممکن ہے ایسے کاموں کی وجہ سے حمل ساقط ہوجائے _

حمل کے آخری مہینوں میں عورت کے لیے سفر ضرررساں ہوتا ہے _ اگر اہم مسئلہ نہ ہو تو بہتر ہے کہ سفر ترک کردیا جائے _ البتہ ہلکے پھلکے افعال اور چھوٹی موٹی فعالیت نہ صرف یہ کہ باعث ضرر نہیں ہے بلکہ ماں اور بچے ہر دو کی صحت و سلامتی کے لئے مفید ہے _

ڈاکٹر جلالی لکھتے ہیں :

ماں کی زیادہ خستگی خون میں زہریلے مواد کا موجب بنتی ہے اور چونکہ یہی خون جنین کی غذا بھی بنتاہے لہذا بچے کی نشو و نما پر اثر انداز ہوتا ہے _ (۱)

-----------

۱_ روانشناسی کودک ص ۲۲۲

۵۹

صاف ستھری فضا

رحم مادر میں نشو و نماپانے والا بچہ آکسیجن کا احتیاج مند ہوتا ہے _ البتہ جنین خود سانس نہیں لیتا اور بلا واسطہ ، کھلی ہواسے استفادہ نہیں کرتا بلکہ اس آکسیجن سے استفادہ کرتا ہے کہ جو ماں کے تنفس کے ذریعے سے مہیا ہوتی ہے _ ماں نہ صرف اپنے بدن کی ضرورت کے مطابق آکسیجن فراہم کرتی ہے بلکہ جنین کی ضرورت کو بھی پورا کرتی ہے _ اگر ماں صاف ستھری اور اچھی ہوا میں سانس لے گی تو اپنی سلامتی کی بھی حفاظت کرے گی اور بچے کی بھی سلامتی اور پرورش کے لیے مددگار ثابت ہوگی _

لیکن اگر وہ گندی اور زہریلی ہوا میں سانس لے گی تو اپنی اور بچے دونوں کی صحت کو نقصان پہنچائے گی _ لہذا حاملہ خواتین کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ کوشش کریں کہ صاف ستھری ہوا ہے استفادہ کریں _ صاف فضا میں چلیں اور گہرا سانس لیں _ اسی طرح تھکادینے والی شب بیداری سے بھی سختی سے اجتناب کریں _

انہیں یہ بھی چاہے کہ تمباکونوشی سے بچیں _ اور مسموم فضا میں سانس لینے سے اجتناب کریں _ سوتے ہوئے کمرے کی کھڑکی کھلی رکھیں تا کہ تازہ ہوا داخل ہوسکے کیونکہ آکسیجن کی کمی ممکن ہے بچے پر ناقابل تلافی اثر ڈالے _

ڈاکٹر جلالی کا وہ پیراہم پھر آپ کی توجہ کے لیے نقل کرتے ہیں جو قبل ازیں آپ کی نظروں سے کبھی گزرچکا ہے _

جسم کے بہت سے نقائص مثلاً ہونٹوں کی خرابی ، پاؤں کے تلوے کا سیدھا ہونا یہاں تک کہ آنکھوں کا بہت چھوٹا ہونا کہ جنہیں پہلے موروثی سمجھاجاتا ہے آج کل ، ماحول بالخصوص دوران حمل آکسیجن کی کمی جیسے عوامل کا نتیجہ سمجھاجاتا ہے _ (۱)

--------

۱_ روان شناسی کودک ص ۱۹۰

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۵_تقوى ،انسانوں ميں بھائي چارے كى روح پيدا كرنے اور دلوں سے كينہ و دشمنى ختم كرنے كا سبب بنتا ہے_

ان المتقين ...ونزعنا مافى صدورهم من غلّ اخونً

۶_متقين بہشت ميں تختوں پر ايك دوسرے كے روبرو بيٹھے ارام كر رہے ہونگے_ان المتقين فى جنت ...على سرر متقبلين

۷_متقين ،بہشت ميں صفا وصميميت كى محفل جمائے ہونگے_

ان المتقين فى جنت ...ونزعنا مافى صدورهم من غلّ اخونًاعلى سرر متقبلين

۸_متقين كے دلوں ميں كينہ اور دشمنى داخل ہونے كاامكان_ونزعنا مافى صدورهم من غلّ

يہ جو خدا وند متعال نے فرمايا ہے : ''ہم نے متقين كے دل سے كينہ و دشمنى ختم كر دى ہے ''يہ اس نكتے كى جانب اشارہ ہے كہ متقين كے دل ميں بھى كينہ داخل ہو سكتا ہے_

الله تعالى :الله تعالى كے افعال ۱

بدن :بدن كا بہشت ميں ہونا۴

بھائي چارہ :بھائي چارے كے عوامل ۵

بہشت :بہشت كے تخت ۶;بہشت ميں كينہ كا ختم ہو جانا ۱

بہشتى لوگ:اُن كى اسائش ۶;اُن كى محفل ۷;بہشتى اور كينہ ۱

تقوى :تقوى كے اثرات ۵

دشمنى :دشمنى ختم ہونے كا سبب ۵;دشمنى كا مقام ۳

قلب :قلب كا كردار ۳

كينہ :كينے كا مقام ۳;كينہ ختم ہونے كا سبب ۵

متقين :بہشت ميں متقين كى دوستى ۲;بہشت ميں متقين كے تعلقات ۲;متقين اور دشمنى ۱،۸;متقين اور كينہ ۱،۸;متقين بہشت ميں ۱،۶،۷

معاد :جسمانى معاد ۴

۲۴۱

آیت ۴۸

( لاَ يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَجِينَ )

نہ انھيں كوئي تكليف چھو سكے گى اور نہ وہاں سے نكالے جائيں گے _

۱_بہشت ميں متقين كو كسى قسم كى تكليف اور پريشانى نہيں ہو گي_لايمسّهم فيها نصب

''نصب '' لغت ميں سختى اور تكليف كو كہتے ہيں _

۲_متقين كو بہشت سے نكالا نہيں جائے گا اور وہ اُس ميں ہميشہ رہيں گے_وماهم منهابمخرجين

۳_متقين كى بہشت ،معنوى اور مادى نعمتوں كى حامل ہو گي_

ان المتقين فى جنت وعيون _ادخلوها بسلم ء امنين ...على سرر متقبلين_لايمسّهم فيها نصب وماهم منهابمخرجين

۴_رنج اور سختى سے دورى اختيار كرنا، دائمى و ابد ى اور امن وسلامتى كى زندگى گذارنا،انسان كے بہت ہى پسنديدہ اُمور ہيں _لايمسّهم فيها نصب وماهم منهابمخرجين

بہشت ميں متقين كى حالت بيان كرنے كا مقصد انسانوں كو اہل تقوى كى صف ميں داخل ہونے كى تشويق كرنا ہے لہذا طبيعى ہے كہ يہ حالت ايسى ہونى چاہيے كہ جو انسانوں كى پسنديدہ اور مطلوبہ ہو_

۵_متقين كو بہشت ميں مادى رفاہ و اسائش اور مكمل فكرى اسودگى حاصل ہو گي_

ان المتقين فى جنت وعيون _ادخلوها بسلم ء امنين ...على سرر متقبلين_لايمسّهم فيها نصب وماهم منهابمخرجين

۶_بہشت ميں انسان كى خواہشات كے پورا ہونے كى ياد دلانا ،انسانوں كى ہدايت اور اُنہيں دين كى طرف راغب كرنے كا ايك طريقہ ہے_ان المتقين فى جنت وعيون _ادخلوها بسلم ء امنين_ونزعنا مافى صدورهم من غلّ

۲۴۲

اخونًاعلى سرر متقبلين_لايمسّهم فيها نصب وماهم منهابمخرجين

انسان :انسان كے پسنديدہ اُمور۴

بہشت :بہشت كى مادى نعمتيں ۳;بہشت كى معنوى نعمتيں ۳;بہشت ميں ابدى زندگى ۲

بہشتى لوگ:اُن كى اسائش ۱،۵;اُن كى رفاہ ۵

پسنديدہ اُمور :ابديت كو پسند كرنا ۴;امن كو پسند كرنا ۴;سلامتى كو پسند كرنا ۴

ياددہانى :بہشت ميں خواہشات پورا ہونے كى ياد دہانى ۶

دين :دين كى طرف دعوت كا طريقہ ۶

متقين :متقين بہشت ميں ۱،۲،۵;متقين كيبہشت كى خصوصيات ۴

ہدايت :ہدايت كا طريقہ ۶

آیت ۴۹

( نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ )

ميرے بندوں كو خبر كردو كہ ميں بہت بخشنے والا اور مہربان ہو_

۱_پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا فريضہ ہے كہ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بندوں كو خداوندمتعال كى مغفرت،رحمت اور مہربانى كے بارے ميں خبر ديں _نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم

۲_خطا كار اور گناہگار بندوں كو خداوند متعال كى رحمت اور مغفرت سے اگاہ كرنا ،پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ہے_

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم

''غفران''اور ''مغفرت '' كا استعمال اصولاًوہاں ہوتا ہے كہ جہاں خطا اور لغزش ہواس لئے ممكن ہے كہ ''عبادى '' سے و ہ بندے

۲۴۳

مراد ہوں جو گناہ اور خطا كے مرتكب ہو ئے ہيں _

۳_خداوند متعال غفور (بخشنے والا) اور رحيم (مہربان ) ہے_ا نا الغفور الرحيم

۴_خداوند متعال كى مغفرت ،اُس كى رحمت و مہربانى كے ہمراہ ہے _ا نا الغفور الرحيم

مندرجہ بالا مطلب اس نكتے كى بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''الرحيم ''،''الغفور '' كے لئے صفت ہو_

۵_بندوں كو خداوند متعال كى مغفرت اور رحمت سے اگاہ كرنا اور اس كے بارے ميں اگاہى ركھنا ، انتہائي اہم ہے_

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم

لغت كى كتابوں ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كے مطابق ''نبائ'' فعل ''نبى '' سے اسم مصدر ہے جس كا معنى '' خبر ''ہے _اور يہ لفظ ايسى خبروں كے لئے استعمال ہوتا ہے جو اہميت اور عظيم فائدے كى حامل ہوتى ہيں _

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۱،۲

اسما و صفات:رحيم ۳;غفور ۳

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت ۴;الله تعالى كى مغفرت كا اعلان ۱;الله تعالى كى رحمت كے اعلان كى اہميت۱،۵;الله تعالى كى رحمت كا اعلان ۱;الله تعالى كى مہربانى كا اعلان ۱;الله تعالى كى مغفرتوں كے اعلان كى اہميت ۱،۵;الله تعالى كى مغفرتوں كى خصوصيات ۴

اُميدواري:رحمت خدا سے اُميد وارى كى اہميت۲;مغفرت خدا سے اُميد وارى كى اہميت ۲

گناہگار لوگ:گناہگاروں كى اُميدوارى كى اہميت ۲،۵

۲۴۴

آیت ۵۰

( وَ أَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الأَلِيمَ )

اور ميرا عذاب بھى بڑا دردناك عذاب ہے _

۱_پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا فريضہ ہے كہ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بندوں كو خداوند متعال كے درد ناك عذاب كے بارے ميں خبر ديں _

وا ن عذابى هوالعذاب الا ليم

۲_قران كے ہدايت اور تربيت كے طريقوں ميں سے ايك انسان ميں خوف و رجا ء اور اُميد و بيم كى كيفيت پيدا كرنا ہے_

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم_وا ن عذابى هوالعذاب الا ليم

۳_تربيت اور ہدايت كے سلسلے ميں اُميدواربنانا ، ڈرانے اور خوف دلانے پر مقدم ہونا چاہيے_

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم_وا ن عذابى هوالعذاب الا ليم

مندرجہ بالاايت ميں ''عذاب اليم ''پر خداوند متعال كى دو صفات ''غفور '' اور ''رحيم '' كو مقدم كرنا ہو سكتا ہے مذكورہ نكتے كى جانب اشارہ ہو_

۴_خدا وند متعال كى مہربانى اور رحمت كا اُس كے غضب اور عذاب پر مقدم ہونا _

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم_وا ن عذابى هوالعذاب الا ليم

يہ جو خدا وند متعال نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو نصيحت كرتے ہوئے پہلے اپنى مغفرت اور رحمت كا اور اس كے بعد اپنے عذاب كا ذكر كيا ہے_ہوسكتا ہے اس بات كى طرف اشارہ ہو كہ خدا وند متعال كى رحمت اور مغفرت ہميشہ اُس كے غضب اور عذاب پر مقدم ہوتى ہے_

۵_خداوند متعال كى مہربانى اور غضب ،ہر قسم كى مہربانى اور غضب سے بالا تر ہے_

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم_وا ن عذابى هوالعذاب الا ليم

جملہ ہائے اسميہ''انّى انا___'' اور''ان عذابي__'' كے ساتھ حرف تاكيد اور ضمير فصل اور خبر ميں لام لانے سے بہت زيادہ تاكيد حاصل

۲۴۵

ہوتى ہے اور اس سے يہ نكتہ اخذ ہوتا ہے كہ خداوند متعال كى مغفرت و رحمت (مہرباني)اور عذاب اس طرح وقوع پذير ہوتے ہيں كہ كسى قسم كى ركاوٹ ان كو نہيں روك سكتى اور جس قسم كا بھى لطف و مہربانى اور عذاب و غضب تصور كياجائے اُس كا خدا كے لطف و قہر كے ساتھ موازنہ نہيں كيا جاسكتا_

۶_دردناك الہى عذاب سے اگاہ كرنا اور اس كے بارے ميں باخبر رہنا ، بہت ہى اہم اور فائدہ مند بات ہے_

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم_وا ن عذابى هوالعذاب الا ليم

''نبائ''اہم اور بہت ہى فائدہ مند چيز كو كہا جاتا ہے_ (مفردات راغب)

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۱;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے انذار ۱

الله تعالى :الله تعالى كا غضب ۴;الله تعالى كى رحمت كى عظمت ۵;الله تعالى كى رحمت كا مقدم ہونا ۴;الله تعالى كے عذاب۴;الله تعالى كے عذابوں سے اگاہى ۶;الله تعالى كے عذابوں كے اعلان كى اہميت ۱;الله تعالى كے عذابوں كا غلبہ ۵

اُميد وارى :اُميدوارى كى اہميت ۳;اُميد وارى كے پيش خيمہ كى اہميت۲

تربيت :تربيت كا طريقہ ۲،۳

خوف :خوف كے پيش خيمہ كى اہميت ۲

عذاب :دردناك عذاب ۱;عذاب كے مراتب ۱،۶

عمل :پسنديدہ عمل ۶

قران :تعليمات قران كا طريقہ ۲

ہدايت :ہدايت كا طريقہ ۲،۳

۲۴۶

آیت ۵۱

( وَنَبِّئْهُمْ عَن ضَيْفِ إِ بْراَهِيمَ )

اور انھيں ابراہيم كے مہمانوں كے بارے ميں اطلاع ديدو_

۱_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كافريضہ ہے كہ اپ،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بندوں كو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مہمانوں (فرشتوں ) كا قصہ سنائيں _

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم

۲_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مہمانوں (فرشتوں ) كا قصہ اور اُس سے مطلع ہونا ايك بہت ہى اہم اور فائدہ مند بات ہے _

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم

''نبائ'' بہت ہى اہم اور فائدہ مند خبركو كہا جاتا ہے_(مفردات راغب)

۳_ قران كے ہدايت اور تربيت كرنے كے طريقوں ميں سے ايك، لوگوں كو بہت اہم اور فائدہ مند تاريخى حقائق سے اگاہ كرنا بھى ہے_ونبّئهم عن ضيف ابرهيم

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۱

ابراہيمعليه‌السلام ابراہيمعليه‌السلام كے مہمانوں كى اہميت ۱;ابراہيمعليه‌السلام كے مہمان ۲;قصہ ابراہيمعليه‌السلام سے اگاہى ۱;قصہ ابراہيمعليه‌السلام كو بيان كرنے كى اہميت۱;قصہ ابراہيمعليه‌السلام كى اہميت۲ ; قصہ ابراہيمعليه‌السلام كے فوائد ۲;

تاريخ :تاريخ نقل كرنے كى اہميت ۳;تاريخ نقل كرنے كے فوائد ۳

تربيت :تربيت كا طريقہ ۳

قران كريم:تعليمات قران كا طريقہ ۳

ہدايت:ہدايت كا طريقہ ۳

۲۴۷

آیت ۵۲

( إِذْ دَخَلُواْ عَلَيْهِ فَقَالُواْ سَلاماً قَالَ إِنَّا مِنكُمْ وَجِلُونَ )

جب وہ لوگ ابراہيم كے پاس وارد ہوئے اور سلام كيا تو انھوں نے كہا كہ ہم آپ سے خوفزدہ ہيں _

۱_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مہمان (فرشتے) جب اُن كے پاس ائے تو اُنہوں نے اُن پر درودسلام كہا _

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم _اذ دخلوا عليه فقالوا سلمً

۲_ايك دوسرے سے ملاقات كرتے وقت سلام كرنا ، پسنديدہ اداب و اخلا ق ميں سے ہے_

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم _اذ دخلوا عليه فقالوا سلمً

۳_حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور اُن كے اہل خانہ اپنے پاس مہمان(فرشتوں ) كو ديكھ كر گھبرا گئے تھے_

اذ دخلوا عليه قال انا منكم وجلون

ملائكہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے پاس ائے تھے (دخلوا عليہ) ليكن حضرتعليه‌السلام نے اضطراب اور ڈر كا اظہار جمع ( انا منكم وجلون )كى صورت ميں كيا ہے اور اس سے خود اُن كااور اُن كے اہل خانہ كا خوف وڈر ظاہر ہوتا ہے _ياد رہے كہ ''وجل '' اس خوف كو كہتے ہيں جو انسان كے پورے وجود پر چھا جائے(مفردات راغب)

۴_حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے مہمانوں (فرشتوں ) كے انے سے پيدا ہونے والے خوف اور اضطراب كو اُن پر ظاہر كر ديا تھا _اذ دخلوا عليه قال انا منكم وجلون

۵_مہمان، خواہ اجنبى ہى كيوں نہ ہو ،اُسكى پذيرائي كرنا حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى عادت اور اخلاق ميں سے تھا_

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم _اذ دخلوا عليه قال انا منكم وجلون

مہمانوں (فرشتوں ) كے انے سے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا خوف اور اضطراب (انا منكم وجلون ) ظاہر كرتا ہے كہ وہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے لئے اجنبى تھے _اگر حضرت اُن كو پہچانتے تو پريشان نہ ہوتے _اجنبى مہمان كو قبول كرنے سے ، مذكورہ بالا مطلب اخذ ہوتا ہے_

۶_انبياءے الہى پر خوف اور اضطرا ب طارى ہونے كا

۲۴۸

امكان _قال انا منكم وجلون

۷_تمام انبياء حتى اولواالعزم انبياءے كرامعليه‌السلام كا علم بھى محدود امور ميں تھا_اذ دخلوا عليه قال انا منكم وجلون

۸_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے پاس انے والے فرشتے انسانى شكل ميں تھے اور وہ مہمان كے طور پر اپعليه‌السلام كے پاس ائے تھے_ونبّئهم عن ضيف ابرهيم _اذ دخلوا عليه فقالوا سلمًا قال انا منكم وجلون

۹_فرشتوں كا حضرت ابراہيمعليه‌السلام سے براہ راست بات چيت كرنا_فقالوا سلمًا قال انا منكم وجلون _قالوا لاتوجل

۱۰_فرشتوں كےلئے جسمانى اور قابل رؤيت شكل ميں ظاہر ہونے كا امكان _

اذ دخلوا عليه فقالوا سلمًا قال انا منكم وجلون

۱۱_'' ...قال ا بو جعفر عليه‌السلام : بعث الله رسلًا الى ابراهيم ...فدخلوا عليه ليلاً ففزع منهم وخاف ا ن يكونوا سُرّاقًا، قال: فلمّا ا ن را ته الرسل فزعاً وجلاً''قالوا سلمًا'' ''قال انا منكم وجلون _قالوا لاتوجل ...'' ;(۱) حضرت امام باقر عليہ السلام سے منقول ہے كہ ...خداوند متعال نے فرشتوں كو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى طرف بھيجا __پس وہ رات كے وقت اُن كے پاس ائے اور وہ اُن سے ڈر گئے كہ كہيں وہ چور نہ ہوں ...(پھر ) امامعليه‌السلام نے فرمايا:پس جب فرشتوں نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو خوف زدہ اور مضطرب ديكھا تو اُن كو سلام كيا اورحضرت ابراہيمعليه‌السلام سے كہا:''قال انا منكم وجلون قالوا لاتوجل ...''

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام سے ملائكہ كى گفتگو ۹; ابراہيمعليه‌السلام كا اضطراب ۳ ; ابراہيمعليه‌السلام كا خوف ۳،۱۱;ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱،۳، ۴ ، ۸، ۹،۱۱ ;ابراہيمعليه‌السلام كو سلام ۱،۱۱;ابراہيمعليه‌السلام كى صفات ۵ ; ابراہيمعليه‌السلام كى مہمان نوازى ۵;ابراہيمعليه‌السلام كے اضطراب كا سر چشمہ ۴;ابراہيمعليه‌السلام كے اہل خانہ كا خوف ۳ ; ابراہيمعليه‌السلام كے اہل خانہ كا اضطراب ۳; ابراہيمعليه‌السلام كے پاس ملائكہ كا انا ۸;ابراہيمعليه‌السلام كے خوف كا سر چشمہ ۴ ; ابراہيمعليه‌السلام كے مہمان ۱،۳،۴ ،۱۱ ; ابراہيمعليه‌السلام كے مہمانوں كى خصوصيات ۸

الله تعالى كے رسول :۱۱

انبياءعليه‌السلام :انبياء اور اضطراب ۶;انبياء اور خوف ۶

____________________

۱) تفسيرعياشى ،ج۲،ص۲۴۶،ح۲۶;نور الثقلين ،ج ۳ ،ص ۲۱ ، ح ۷۴_

۲۴۹

اولواالعزم انبياء كے علم كى حدود ۷;علم انبياء كى حدود ۷

روايت :۱۱

سلام :سلام كى اہميت ۲

صفات :پسنديدہ صفات ۲

معاشرت :معاشرت كے اداب ۲

ملائكہ :ملائكہ كا تجسم ۸;ملائكہ كا سلام ۱،۱۱;ملائكہ كى رئويت ۱۰

آیت ۵۳

( قَالُواْ لاَ تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ )

انھوں نے كہا كہ آپ ڈريں نہيں ہم آپ كو ايك فرزند دانا كى بشارت دينے كے لئے آئے ہيں _

۱_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مہمانوں (فرشتوں ) نے اُنہيں تسلى دى اوراپعليه‌السلام سے كہا كہ وہ اُن كے انے سے پريشان اور مضطرب نہ ہوں _قالوا لاتوجل انا نبشّرك بغلم عليم

۲_فرشتوں كى طرف سے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو ايك دانا اور عالم بيٹے كى بشارت _انا نبشّرك بغلم عليم

۳_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو جس بيٹے كى خوشخبرى دى گئي تھى وہ عظمت اور بلند مقام ومنزلت كا حامل تھا_

نبشّرك بغلم عليم ''بغلام''ميں تنوين تنكير ،تفخيم اور تعظيم كے لئے ہے

۴_حضرت ابراہيمعليه‌السلام صاحب اولاد ہونے اور اپنى نسل كى بقا كے خواہش مند تھے _نبشّرك بغلم

كلمہ ''بشارت''اُس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں دلى خواہش اور خوشى كا مقام ہو_

۵_عالم ا ور دانا اولاد ركھنا ،نعمات ميں سے ہے اور خوشخبرى وبشارت كے قابل ہے_نبشّرك بغلم عليم

كلمہ ''بشارت''اس جگہ استعمال ہوتا ہے كہ جہاں خير اور نعمت ہو_لہذا يہ بات قابل ذكر ہے كہ فرشتوں نے ايك دانا اور عالم بيٹے كى بشارت دى ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ صاحب فرزند

۲۵۰

ہونا ايك ايسى بات ہے كہ جس كى بشارت دينى اور تبريك كہنى چاہيے_

۶_علم و دانش كا بلند ترين مقام و مرتبہ ہے اور اس كا اہم ترين اقدار ميں شمار ہوتا ہے_انا نبشّرك بغلم عليم

''غلام'' كے ليے كوئي دوسرى صفت لانے كى بجائے ''عليم''كى صفت لانا اس مذكورہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہے_

۷_حضرت ابراہيمعليه‌السلام خداوندمتعال كى خصوصى عنايت سے بہرہ مند تھے اور اُن كى نسل كى بقاء كے بارے ميں خدا كى خاص توجہ تھي_قالوا لاتوجل انا نبشّرك بغلم عليم

۸_ حضرت اسحاقعليه‌السلام ايك عالم اور دانشور شخصيت كے مالك تھے_انا نبشّرك بغلم عليم

مندرجہ بالا مطلب اس بناء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب مفسرين كے مطابق '' بغلم عليم '' سے مراد حضرت اسحاقعليه‌السلام ہوں _

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام سے مطمئن رہنے كى درخواست ۱;ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱;ابراہيمعليه‌السلام كو بشارت ۲،۳;ابراہيمعليه‌السلام كو تسلي۱ ; ابراہيمعليه‌السلام كى خواہش ۴;ابراہيمعليه‌السلام كى نسل كى بقا ء ۷ ;ابراہيمعليه‌السلام كے پاس ملائكہ كا انا ۱;ابراہيمعليه‌السلام كے فضائل ۷;ابراہيمعليه‌السلام كے مہمان ۱;فرزند ابراہيمعليه‌السلام كا مقام ومرتبہ ۳; نسل ابراہيمعليه‌السلام كے فضائل ۷

اقدار:۶

اسحاقعليه‌السلام :اسحاقعليه‌السلام كا علم ۸;اسحاقعليه‌السلام كے فضائل ۸

الله تعالى :الله تعالى كى نعمتيں ۵

بشارت:عالم بيٹے كى بشارت ۲،۵

خواہشات :صاحب اولاد ہونے كى خواہش ۴;نسل كى بقاء كى خواہش ۴

علم :علم كى اہميت ۶;علم كى قدر ومنزلت ۶

لطف خدا :لطف خدا جن كے شامل حال ہے ۷

ملائكہ :ملائكہ اور ابراہيمعليه‌السلام ۱;ملائكہ كى بشارتيں ۲;ملائكہ كے تقاضے ۱

نعمت :عالم اولاد كى نعمت ۵

۲۵۱

آیت ۵۴

( قَالَ أَبَشَّرْتُمُونِي عَلَى أَن مَّسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ )

ابراہيم نے كہا كہ اب جب كہ بڑھاپا چھا گياہے تو مجھے كس چيز كى بشارت دے رہے ہو_

۱_حضرت ابراہيمعليه‌السلام بڑھاپے ميں صاحب اولاد ہونے كى خبر سن كر بہت ہى حيرت زدہ ہو گئے _

قال ا بشّر تمونى على ا ن مسّنى الكبر فبم تبشّرون

۲_حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے فرشتوں سے اُس وقت صاحب اولادہونے كى خبر سنى كہ جب وہ مكمل طور پر بوڑھے اور صاحب اولاد ہونے سے مايوس ہو چكے تھے_قال ا بشّر تمونى على ا ن مسّنى الكبر فبم تبشّرون

۳_بوڑھے اور اولاد كى پيدائش سے مايوس انسان كے لئے خداوند متعال كى قدرت اور مہربانى سے صاحب اولاد ہونے كا امكان _انا نبشّرك بغلم عليم _قال ا بشّر تمونى على ا ن مسّنى الكبر

۴_حضرت ابراہيمعليه‌السلام فرشتوں سے اپنے صاحب اولاد ہونے كى خبر سننے كے بعد اُن سے مزيد وضاحت اور اطلاعات كا تقاضا كرنے لگے_فبم تبشّرون

مندرجہ بالا مطلب اس بنا ء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''فبم'' كى ''با''ملابست كے لئے ہو اور جملہ ''فبم تبشرون'' ميں استفہام ،اس قسم كى بشارت (صاحب اولاد ہونے )كے وقوع پذير ہونے كى كيفيت كے بارے ميں ہو_نہ صاحب اولاد ہونے كے بارے ميں شك و ترديد كے لئے سوال_

۵_بڑھاپا اور كہن سالي، انسانوں ميں توليد نسل كى ركاوٹوں ميں سے ايك ہے_على ا ن مسّنى الكبر

يہ كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے اپنے صاحب اولاد

۲۵۲

ہونے كى خوشخبرى پر حيرت زدگى كے اظہار كى وضاحت كے لئے جملہ حاليہ'' على ا ن مسّنى الكبر '' استعمال كيا ہے ہو سكتا ہے يہ مندرجہ بالا نكتے كى وجہ سے ہو_

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام اور ملائكہ ۴;ابراہيمعليه‌السلام كا تعجب ۱;ابراہيمعليه‌السلام كا سوال ۴;ابراہيمعليه‌السلام كا صاحب اولاد ہونا ۱;ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۴ ; ابراہيمعليه‌السلام كى بشارت ۲;ابراہيمعليه‌السلام كى خواہشات۴ ;ابراہيمعليه‌السلام كى مايوسى ۲

الله تعالى :الله تعالى كى قدرت كے اثرات ۳;الله تعالى كى مہربانى كے اثرات ۳

بڑھاپا:بڑھاپے كے اثرات ۵;بڑھاپے ميں صاحب اولاد ہونا۲،۳;بڑھاپے ميں صاحب اولاد ہونے پر تعجب ۱

توليد نسل -:توليد نسل كے موانع ۵

ملائكہ :بشارت دينے والے ملائكہ ۴;ملائكہ سے سوال ۴;ملائكہ كى بشارتيں ۲

آیت ۵۵

( قَالُواْ بَشَّرْنَاكَ بِالْحَقِّ فَلاَ تَكُن مِّنَ الْقَانِطِينَ )

انھوں نے كہا كہ ہم آپ كو بالكل سچى بشارت دے رہے ہيں خبردار آپ مايوسوں ميں سے نہ ہوجائيں _

۱_فرشتوں كا حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے بڑھاپے ميں صاحب فرزند ہونے كى بشارت كے وقوع پذير ہونے پر تاكيد كرنا_

قالوا بشرنك بالحق

مندرجہ بالا ايت ميں ''بالحق'' سے ياتو واقعيت كے مطابق خبر مرادہے يا اس معنى ميں ہے كہ ہمارى بشارت حقيقت پر مبنى ہے (مجمعالبيان )_ بہر حال اس سے يہ بات روشن ہوتى ہے كہ جس چيز كى بشارت دى گئي ہے وہ وقوع پذير ہونے والى ہے اور واقع ہو كر رہے گي_

۲_فرشتوں كا حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو زندگى ميں خداوند متعال كى رحمت اور مہربانى سے مايوس نہ ہونے كى نصيحت كرنا _

۲۵۳

قالوا فلاتكن من القنطين

''قنوط''كا معنى خير اور بھلائي سے نااُميد ہونا ہے_

۳_خداوند متعال كى رحمت اور مہربانى سے مايوسى قابل مذمت اور ناپسنديدہ ہے_فلاتكن من القنطين

۴_بڑھاپا اور كہن سالى ،صاحب اولاد ہونے سے انسان كے مايوس ہوجانے كے اسباب ميں سے ہے_

مسّنى الكبر فبم تبشّرون فلاتكن من القنطين

۵_بے اولادلوگوں كو خداوند متعال كے لطف و عنايت سے صاحب فرزند ہونے كى اُميد دلانا اور بشارت دينا، پسنديدہ اور قابل قدر كام ہے_انا نبشّرك بغلم فلاتكن من القنطين ...من رحمة ربّه

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام كا بڑھاپا۱;ابراہيمعليه‌السلام كاصاحب اولاد ہونا ۱; ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱;ابراہيمعليه‌السلام كو بشارت ۱;ابراہيمعليه‌السلام كو نصيحت ۲

اُميد وارى :خدا وند كے لطف سے اُميد وار ہونا ۵;رحمت خدا سے اُميد وار ى كى اہميت ۲;لطف خدا سے اُميدوارى كى اہميت ۲

بشارت :بے اولاد لوگوں كو بشارت ۵

بڑھاپا:بڑھاپے كے اثرات ۴

صاحب اولاد ہونا :صاحب اولاد ہونے سے مايوسى كے اسباب ۴

صفات :ناپسنديدہ صفات ۳

عمل :پسنديدہ عمل ۵

مايوسى :رحمت خدا سے مايوسى كى سرزنش ۳;لطف خدا سے مايوسى كى سرزنش۳

ملائكہ :خوشخبرى دينے والے ملائكہ ۱،۲;ملائكہ كى بشارتيں ۱;ملائكہ كى نصيحتيں ۲

۲۵۴

آیت ۵۶

( قَالَ وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلاَّ الضَّآلُّونَ )

ابراہيم نے كہا كہ رحمت خدا سے سوائے گمراہوں كے كون مايوس ہو سكتاہے _

۱_ ملائكہ كى طرف سے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو مايوسى سے اجتناب كرنے كے بارے ميں نصيحت كے بعد حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے فقط گمراہ لوگوں كو رحمت خدا سے مايوسبتايا _

فلاتكن من القنطين_قال ومن يقنط من رحمة ربّه الّا الضالّون

۲_ خداوندمتعال كى رحمت سے مايوسي، گمراہى كى علامت ہے _ومن يقنط من رحمة ربّه الّا الضالّون

۳_حضرت ابراہيمعليه‌السلام رحمت خدا سے مايوس ہونے كى وجہ سے صاحب اولاد ہونے پر حيرت زدہ نہيں تھے بلكہ وہ كہن سالى ا و ربڑھاپے ميں صاحب فرزند ہونے كو بعيد جانتے تھے_فبم تبشّرون فلاتكن من القنطين _قال ومن يقنط من رحمة ربّه الّا الضالّون

حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے ''صاحب اولاد ہونے سے مايوس نہ ہونے ''پر مبنى فرشتوں كى نصيحت كے جواب ميں فرمايا:فقط گمراہ لوگ ہى رحمت خدا سے مايوس ہوتے ہيں _اس جواب سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كاصاحب فرزند ہونے سے حير ت زدہ اور متعجب ہونا رحمت خدا سے مايوسى كى بناء پر نہيں تھا بلكہ وہ اسے فقط ايك حيرت انگيز چيز جانتے تھے_

۴_حضرت ابراہيمعليه‌السلام بڑھاپے ميں خداوند متعال كے لطف و رحمت كے سائے ميں صاحب فرزند ہونے كى اُميد لگائے ہوئے تھے_فبم تبشّرون فلاتكن من القنطين _قال ومن يقنط من رحمة ربّه الّا الضالّون

۵_صاحب فرزند ہونا ،ايك الہى رحمت ہے_نبشّرك بغلم ومن يقنط من رحمة ربّه

۶_خدا وند متعال كى رحمت سے مايوسى اور نااُميدي،گناہ كبيرہ اوربہت ہى قابل مذمت فعل ہے_

ومن يقنط من رحمة ربّه الّا الضالّون

يہ كہ خدا وند عالم نے اپنى رحمت سے مايوسى كو گمراہوں كا عمل قرار ديا ہے اور مايوس لوگوں كو گمراہوں كى صف ميں شمار كيا ہے اس سے اس كا گناہ كبيرہ ہونامعلوم ہوتا ہے_

۲۵۵

۷_پرورد گار كى معرفت اور ہدايت، اُس كى رحمت سے اُميدوار ہونے اور ہر قسم كى مايوسى و نااُميدى كے ختم ہونے كا باعث بنتى ہے_ومن يقنط من رحمة ربّه الّا الضالّون

حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے پرورد گار كى رحمت سے مايوسى كا سبب گمراہى اور خداوند متعال كى عدم معرفت كو قرار ديا ہے ،بنابريں خدا كى معرفت اور ہدايت ، اُس كى رحمت سے اُميدوار ہونے كا اور ياس و نااُميدى كے خاتمے كا موجب بن سكتى ہے _

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام كا تعجب ۳; ابراہيمعليه‌السلام كا صاحب فرزند ہونا ۳ ، ۴;ابراہيمعليه‌السلام كاعقيدہ ۱;ابراہيمعليه‌السلام كى اُميد وارى ۴; ابراہيمعليه‌السلام كے تعجب كا فلسفہ۳

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت ۵;الله تعالى كى رحمت كے اثرات ۴;الله تعالى كى معرفت كے اثرات ۷ ; الله تعالى كے لطف كے اثرات ۴

اُميد وارى :بڑھاپے ميں صاحب اولاد ہونے كى اُميد وارى ۴; رحمت سے اُميد وارى كے اسباب۷

بڑھاپا:بڑھاپے ميں صاحب اولاد ہونے پر تعجب ۳

رحمت :رحمت سے مايوس لوگ ۱

صفات :ناپسنديدہ صفات ۶

صاحب اولاد ہونا :صاحب اولاد ہونے كارحمت ہونا ۵

گمراہ لوگ :اُن كى مايوسى ۱

گمراہى :گمراہى كى علامتيں ۲

گناہان كبيرہ :۶

مايوسى :رحمت خدا سے مايوسى ۶;رحمت خدا سے مايوسى پر سرزنش ۶;مايوسى كے موانع ۷

ہدايت :ہدايت كے اثرات ۷

۲۵۶

آیت ۵۷

( قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ )

پھر كہا كہ مگر يہ تو بتايئےہ آپ لوگوں كا مقصد كياہے _

۱_حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے اپنے مہمان (فرشتوں )كو پہچاننے كے بعد اُن كے اصلى كام اور آنے كا سبب دريافت كيا_

قال فما خطبكم ا يّها المرسلون

''خطب'' كا معنى ہے اہم كام_

۲_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو صاحب فرزند ہونے كى بشارت دينا ايك فرعى كام تھاجبكہ قوم لوط كاعذاب فرشتوں كا اصلى اور اہم كام تھا_انا نبشّرك بغلم ...قال فما خطبكم ا يّها المرسلون

يہ كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے فرشتوں كو پہچاننے اور صاحب فرزند ہونے كى خوشخبرى حاصل كرنے كے بعد اُن كے اصلى كام اور مہم كے بارے ميں پوچھا (فما خطبكم)_بعد والى ايت كے مطابق يہ اصلى كام اور مہم، قوم لوط كا عذاب تھا_

۳_ فرشتوں كے قو م لوط كو عذاب كے بارے ميں اپنى مہم كے اظہار كرنے سے پہلے حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، اُن كے اصلى كام سے اگا ہ نہيں تھے_قال فما خطبكم ا يّها المرسلون

۴_تمام انبياءے كرامعليه‌السلام حتى اُن ميں سے اولواالعزم انبياءعليه‌السلام كا علم بھى محدود ہے_

قال فما خطبكم ا يّها المرسلون

۵_بعض ملائكہ، خداوند متعال كے پيام كو پہنچانے اور اُس كے فرمان كو اجراء كرنے والے ہيں _

فما خطبكم ا يّها المرسلون

۶_حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، جسمانى ، روحى اور نفسانى حالات كے لحاظ سے انسانوں كے درميان تعلقات كى حيثيت سے دوسرے لوگوں ہى كى مانند تھے_

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم ...قال انا منكم وجلون ...مسّنى الكبر ...قال فما خطبكم ا يّها المرسلون

ابراہيمعليه‌السلام :

۲۵۷

ابراہيمعليه‌السلام اور ملائكہ ۱;ابراہيمعليه‌السلام كا بشر ہونا ۶;ابراہيمعليه‌السلام كاسوال ۱;ابراہيمعليه‌السلام كاصاحب فرزند ہونا۲;ابراہيمعليه‌السلام كاقصہ ۱،۲،۳;ابراہيمعليه‌السلام كوبشارت ۲;ابراہيمعليه‌السلام كى صفات ۶;ابراہيمعليه‌السلام كے علم كى حدود ۳;ابراہيمعليه‌السلام كے مہمانوں كى ذمہ دارى ۱

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كے علم كى حدود ۴;اولواالعزم انبياءعليه‌السلام كے علم كى حدود ۴

خدا كے رسول :۵خدا كے كارندے :۵

قوم لوط:قوم لوط كاعذاب ۲

ملائكہ :بشارت دينے والے ملائكہ ۲;ملائكہ كا كردار ۵ ; ملائكہ كى ذمہ دارى ۲،۳;عذاب كے ملائكہ ۲

آیت ۵۸

( قَالُواْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُّجْرِمِينَ )

انھوں نے كہا كہ ہم ايك مجرم قوم كى طرف بھيجے گئے ہيں _

۱_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى جانب سے الہى نمائندوں (فرشتوں )كے اصلى كام كے بارے ميں پوچھنے پر ،اُنہوں نے مجرم قوم (قوم لوط) كى ہلاكت كواپنا اصلى كام بتايا_قال فما خطبكم ا يّها المرسلون_قالواانااُرسلنا الى قوم مّجرمين

۲_خداوند متعال كے فرامين كوجارى كرنافرشتوں كى بنيادى ذمہ دارى اور فرائض ميں سے ہے_

قالواانااُرسلنا الى قوم مّجرمين

۳_ قوم لوط ،مجرم اور جرائم پيشہ لوگوں پر مشتمل تھي_قالواانااُرسلنا الى قوم مّجرمين_ الّا آل لوط

بعد والى ايات كے قرينے سے''قوم مجرمين'' سے قوم لوط مراد ہے_

۴_جرم اور جرائم سے انسانى معاشروں كى نابودى اور ہلاكت كے اسباب فراہم ہوتے ہيں _

قالواانااُرسلنا الى قوم مّجرمين

۵_حضرت ابراہيمعليه‌السلام ،فرشتوں كے ذريعے پہلے سے ہى قوم لوط كے عذاب كے بارے ميں اگاہ ہو گئے تھے_

۲۵۸

قال فما خطبكم ...قالواانااُرسلنا الى قوم مّجرمين

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام اور قوم لوط كا عذاب ۵;ابراہيمعليه‌السلام اور ملائكہ ۱; ابراہيمعليه‌السلام كا سوال ۱;ابراہيمعليه‌السلام كاعلم ۵;ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱

الہى كارندے:۲

خدا كے رسول:۲

خرابى :اجتماعى خرابى كے اثرات ۴

قوم لوط:قوم لوط كا عذاب ۱;قوم لوط كا فساد پھيلانا۳;قوم لوط كا گناہ ۳

گناہ :گناہ كے معاشرتى اثرات ۴

گناہگار لوگ:۳

معاشرہ :معاشرتى افات كى شناخت ۴;معاشروں كى ہلاكت كا پيش خيمہ ۴

ملائكہ :ملائكہ كا عذاب ۱;ملائكہ كى ذمہ دارى ۲;ملائكہ كى ذمہ دارى كے بارے ميں سوال ۱

آیت ۵۹

( إِلاَّ آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوهُمْ أَجْمَعِينَ )

علاوہ لوط كے گھر والوں كے كہ ان ميں كے ہر ايك كو نجات دينے والے ہيں _

۱_حضرت لوطعليه‌السلام كا خاندان ہر قسم كے جرم اور گناہ سے پاك ومنزہ تھا_انااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط

۲_الہى نمائندوں نے حضرت لوطعليه‌السلام كے خاندان كو اُن كى قوم كے اوپر نازل ہونے والے عذاب سےنجات دالائي _

انااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط انا لمنجّوهم

۲۵۹

۳_حضرت لوطعليه‌السلام كے خاندان كى پاكيزگى اور ہر قسم كے جرم و گناہ سے دورى ،عذاب الہى سے اُن سب كى نجات كا سبب تھا_انااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط انا لمنجّوهم ا جمعين

۴_قوم لوط كا جرم اور گناہ اُن كے عذاب اور ہلاكت كا سبب بنا_

قالوانااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط انا لمنجّوهم ا جمعين

۵_جرم او ر گناہ سے دورى اور پاكى دنيا ميں عذاب الہى (عذاب استيصال) سے نجات كا سبب ہے_

انااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط انا لمنجّوهم ا جمعين

۶_حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت لوطعليه‌السلام ايك دوسرے كے ہم عصر تھے_

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم ...انااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط

۷_حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضر ت لوطعليه‌السلام دو مختلف قوموں كے درميان اورايك دوسرے سے زمينى فاصلے پررہتے تھے_قال فما خطبكم ...قالواانااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط

۸_ہر قوم كا عذاب استيصال فقط اُس قوم كے مجرموں اور گناہگاروں كو شامل ہوتا ہے نہ كہ اس قوم كے پاك و بے گناہ لوگوں كو _انااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط انا لمنجّوهم

ابراہيمعليه‌السلام :تاريخ ابراہيمعليه‌السلام ۶،۷

الہى كا رندے :۲

انبياءعليه‌السلام :حضرت ابرہيمعليه‌السلام كے ہم عصر انبياء ۶،۷

پاكيزگي:پاكيزگى كے اثرات ۲

خدا كے رسول :۵

خرابى :خرابى سے اجتناب كے اثرات ۵

عذاب :عذاب استيصال سے نجات ۵;عذاب استيصال كے مستحق لوگ ۸;عذاب سے نجات ۲;عذاب سے نجات كے اسباب ۳،۵

قوم ابراہيمعليه‌السلام

قوم لوط :۷

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361