آئین تربیت

آئین تربیت0%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 361
مشاہدے: 121954
ڈاؤنلوڈ: 6758

تبصرے:

آئین تربیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121954 / ڈاؤنلوڈ: 6758
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ایک دانشور لکھتے ہیں :

ماں کا بدن اور پر انداز ہونے والے واقعات بچے کے پروان چڑھنے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور بچہ ماں کے بدن کی نسبت حساس تر ہو تا ہے چونکہ ماں کا بدن تو کممل ہو چکا ہوتا ہے اور اسے ابھی تکمیل کے مراحل طے کرنا ہو تے ہیں _ لہذا ہر عورت کا یہ فریضہ ہے کہ اپنے بچے کے پہلے گھر کے لیے بہترین ماحول فراہم کرنے کی کوشش کرے اور ایسا وہ صرف اسی صورت میں کرسکتی ہے کہ جب اسے معلوم ہو کہ کون سغ واقعات اور امور بچے کے رشد پر اثر انداز ہوتے ہیں صرف اس امر سے ڈرتے رہنا کہ بچے کا رشد معمول کے خلاف ہو بچے کی بھلائی کے لیے کافی نہیں ہے اور ان عوامل سے عفلت کہ جواس چیز کا باعث بنتے ہیں کیس درد کی دوا نہیں بن سکتی _ انسان کا رشد کس طریقے سے ہوتا ہے اور کس طریقے سے اس میں تبدیلیان جنم لیتی ہیں اگر ماں اس سے واقف ہو تو وہ اپنی ذمہ داری ادا کر سکتی ہے بچے کی نشوو نما کے لیے ولادت سے پہلے یاولادت ک بعد اسک کامل ماحول کی ضمانت کبھی بھی ممکن نہیں البتہ قدر مسلم یہ ہے کہ تمام والدین یہ چاہتے ہیں کہ ایک سالم اور صحت مند بچہ دنیا میں آئے یہ والدین اور گھر کے بڑے افراد کی ذمہ داری ہے کہ بچے کو صحیح و سالم دنیا لانے کی کوشش کریں _ البتہ جہالت طبعی حوادث کونہیں روک سکتی _ اگر انسان کو یہ خبرنہ ہو کہ بچہ کس طرح نشوو نما پاتا ہے تویہ بے خبری آنے والوں کی بدبختی کا باعث بنتی ہے _ دنیا میں بے نقص آنا ہر انسان کا حق ہے (1)

-----------

1_ بیو گرانی پیش از تولد ص 184

۴۱

جنین کی سلامتی میں ماں کی غذا کااثر

رحم مادر میں بچہ ماں کے بدن کا کوئی با قائدہ حصہ نہیں ہو تا تا ہم وہ ماں کے خون اور غذا سے ہی پرورش پاتا ہے _ ایک حاملہ خاتون کی غذا کا مل ہونی چاہیے جو ایک طرف تو خود اس کے بدن کی ضروریات پوری کرسکے تا کہ اس کی جسمانی طاقت اور تندرستی مین کوئی کمی واقع نہ ہو اور صحیح و سالم طریقے سے اپنی زندگی جاری رکھ سکے اور دوسری طرف اس کی غذا کو _ بچے کے جسم کی ضروریات کا بھی کفیل ہونا جا ہیے تا کہ وہع معصوم بچہ اچھے طریقے سے پرورش پا سکے اور اپنیب اندرونی طاقتوں کو ظاہر کر سکے

لہذا یک حاملہ عورت کا غذائی پرو گرام سو چا سمجھا ' کسی حساب کے تحت اور مرتب ہو نا چاہیے _ کیونکہ ممکن ہے بعض و ٹا من یا غذائی مواد کی کمی سے ماں کی سلامتی خطر ے میں جاپڑے یا بچے کی صحت و سلامتی کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ جائے _

اسلام کی نظر مین ماں کی غذا بہت اہمیت رکھتی ہے _ یہاں تک کہ وہ حاملہ عورت کہ جس کے اپنے لیے یا اس کے بچے کے لیے روزہ رکھنا باعث ضرر ہوا سے اجازات دی گئی ہے کہ ماہ رمضان کا واجب روزہ نہ رکھے بعد ہیں فضا کرے _

ایک تحقیق کے مطابق دنیا کے اسی فیصد نا قص الخلقت نیز فکری ' اعصابی یا جسمانی طور پر کمز ور بچوں کے نقص اور کمزوری کا سبب یہ ہے کہ رحم ماور میں نہیں صحیح غذا نہیں طی (1)

---------

1_بہداشت جسمی رو روانی کودک ص 62

۴۲

ڈاکٹر جزائری کہ جو ایک ماہر غذا ہیں لکھتے ہیں :

ماں اور جنین کی سلامتی اس غذا سے وابستہ ہے کہ جوماں حمل کے دوران میں ک;ھاتی ہے (1)

مدتوں سے انسان کو اس بات کا علم ہے کہ جنین اور بچے کے رشد میں ولادت سے پہلے اور دودھ دینے کے دوران میں ماں کی غذا اثر رکھتی ہے _ ماں کو چاہیے کہ تمام پروٹین ' وٹامن ' کا ربو ہاٹیڈ رٹیس ' روغنیات اور دیگر در کا غذا کو اس زندہ سیل یعنی بچے کی نشوو نما ک لیے فراہم کرے تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ماں کے لیے ضروری ہے کہ وٹامنز کی وہ مخصوص مقدار جنین کے لیے مہیا کر ے کہ جوزندہ خلیوں کے لیے ضروری ہے _ اس طرح سے کہ جنین کے رشد کو یقینی بنا یا جا سکے کیونکہ مختلف دٹا منز کی کمی بچے پ زیاہ اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ وہ تو حالت رشد میں ہو تا ہے جب کہ ماں کی نشو ونما تو مکمل ہو چکی ہوتی ہے _ ممکن ہے کہ دوران حمل ماں با لکل تندرست رہے جب کہ بچہ مخصوص وٹا منز کی کمی کا شکار ہوجائے اور اس کے نتیجے میں اس کے رشد کی حالت خلاف معمول ہو ( 2)

کرنر کہتا ہے:بچے کے غیر طبعی ہونے کی وجہ کبھی یہ ہوتی ہے کہ تخم تو اچھا ہوتا ہے لیکن اسے فضا اچھی میسر نہیں آتی اور کبھی یہ ہو تا ہے ' تخم اچھا نہیں ہو تا جبکہ فضا اچھی میسر آجاتی ہے بہت سار ے جسمانی نقائص مثلا ہو نٹوں کا پھٹا ہو اہونا ،آنکھیں چھوٹی اور رھنسی ہوئی ہو نا اور پاوں کے تلوے کاہموار ہونا کہ جنیں پہلے مورد ثی عواملی کا نتیجہ سمجھا جاتا تھا آجکل ماحول با لخصوص حمل آکسیجن کی کمی جیسے عوامل

------------

1_ اعجاز خورا کیھا ص 220

2_ بیو گرافی پیش از تولد ص 182

۴۳

کا نتیجہ قرار و یا جاتا ہے _ ماحول اور فضا کو بہت س پیدائشےی نقائص اور بچوں کے اعضاء کے فالج ز وہ ہو نے کی علت شمار کیا جاتا ہے ( 1)

امام صادق علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں :

جو کچھ ماں کھاتی اور پیتی ہے بچے کی خوراک اسی سے بنتی ہے ( 2)

---------

1_ روانشناسی کودک ص 190

2_ بحار الانوار _ جلد 60 _ ص342

۴۴

جنین کے اخلاق پر ماں کی غذا کا اثر

ایام حمل میں ماں کی غذا کی کیفیت بچے کے اخلاق ' عقل اور استعداد تک پر بہت زیادہ اثر کرتی ہے کیونکہ بچے کے اعصاب اور اس کا مغزماں کی غذا ہی سے تیار ہوتا ہے اور ہر طرح کی غذا اپنا ایک خاص اثر رکھنی ہے _ اسلام نے اس امر کی ہے کہ ماں کی غذا بچے کے اخلاق کی تعمیر میں نہیت موثر ہے _ ہم نمونے کے طور پر چند احادیث پیش کرتے ہیں :

پیغمبر اکرم نے فرمایا :ماوں کو چاہیے کہ دوران حمل کے آخری مہینوں میں کھجو رکھائیں تا کہ ان کے بچے خوش اخلاق اور برد بار رہوں ( 1)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :حالمہ عورتوں کو تاکید کرو کہ بہی دانہ کھائیں تا کہ ان کہ بچے خوش اخلاق ہوں (2)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا :بہی دانہ عقل و دانائی کو بڑھاتا ہے ( 3)

---------

1_ مستدرک ج 3 _ ص 113

2_ مستدرک ج 3 _ ص 116

3_ مکارم الاخلاق ج 1_ ص 196

۴۵

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

جو حاملہ عورت خربوزہ کھا ئے گی اس کا بچہ خو بصورت اور خوش اخلاق ہو گا_ ( 1 )

-----------

1_ مستدرک ج 2 _ ص 645

۴۶

ماں کی غذا

یہاں ان مختلف قسم کی غذا،ں کے بارے میں تحقیق نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کے خواص اور آثار گنواسکتے ہیں کیونکہ ایک دشوار اور مفصّل بحث ہے _ اورراقم اس میں ماہر بھی نہیں ہے خوش قسمتی سے اس سلسلے میں بہت سی مفید کتابیں لکھی جا چکی ہیں _ قارئین ان کی طرف رجوع کر سکتے ہیں _ برا نہیں کچھ مجموعی طور پر اس سلسلے میں بعض امور کی یاددہانی کروادی جائے _

اگر چہ حاملہ عورتوں کی غذائی ضروریات بڑھ جاتی ہیں لیکن یہ امر باعث افسوس ہے کہ ان میں کھانے کی طلب کم پڑجاتی ہے _ اور ان میں اکثر کی طبیعت بوجہل سی ہوجاتی ہے ایسی صورت میں انہیں کوشش کرنی چاہیے کہ ایسی کم حجم غذائیں کھائیں کہ جو غذائیت کے اعتبار سے کامل اور بھر پور ہوں _ انسانی بدن کو جن غذاؤںکی ضرورت ہے وہ مختلف چیزوں میں پھیلی ہوئی ہیں _ لہذا غذا میں تنوّع رکھنے سے ایک عورت کے لیے بہترین غذائی پروگرام تشکیل پا سکتا ہے _ اس ضمن میں ایک ماہر لکھتے ہیں _ ''بدن کو صحیح و سالم رکھنے کے لیے نہ فقط حسب کفایت غذا کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ چاہیے کہ غذا متنوع ہو اور مناسب طور پر صرف کی جائے _ (1)

ایک اور ماہر لکھتے ہیں;

ماں کو چاہیے کہ وہ اپنی صبح و شام کی غذا میں کچھ اضافی وٹامن اور معدنیات اپنے

-----------

1_ علم و زندگی ص 426_

۴۷

جسم کو مہیا کرے تا کہ جنین اپنے سات مہینے کے رشد کے سفر میں اس سے استفادہ کرسکے اور اس سے نہ صرف دانت اور مسوڑھے بن سکیں بلکہ اس کی پیچیدہ ہڈیاں بھی نشو و نما پا سکیں_ (1)

ڈاکٹر غیاث الدین جزائری لکھتے ہیں;

دہی اور پنیر کا استعمال حالت حمل میں عورت کو وٹامن اور خاص قسم کا خمیر مہیا کرتا ہے اور اسے ادھر ادھر کی دوسری چیزوں کے کھانے سے روکنے میں مفید ہوتا ہے _ البتہ کھٹا دہی استعمال کرنا حاملہ عورت کے لیے مفید نہیں ہے _ باسی پنیر کا بھی کوئی مزہ نہیں ہے _ ہر روز صبح ناشتہ کے طور پر ایک گلاس دودھ کا پینا حاملہ عورت کے لیے ضروری ہے _ نیز آب جو کا خمیر اور دلیہ بھی مفید ہے اور جڑی ،شیردان ، دل کلیجی اور جگر میں وٹامن بی بہت زیادہ پایا جاتا ہے اور یہ مفید بھی ہیں _ (2)

بہت اچھا ہے کہ حاملہ عورتیں مسلسل صحیح طریقے سے دودھ سے استفادہ کریں یہ غذا اس قدر مفید اور کامل ہے کہ انبیاء کی باقاعدہ غذا رہی ہے _

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں;دودھ انبیاء کی غذا ہے _ (3)

ڈاکٹر غیاث الدین جزائری لکھتے ہیں:زیادہ تر عورتیں حمل کے دوران کیلشیم کی کمی کی وجہ سے پاؤں میں درد، کمر درد ، اور ناخنوں کے ٹوٹنے میں مبتلا ہوجاتی ہیں _ لہذا حاملہ خواتین کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ ایسے پھل اور سبزیاں کھائیں کہ جن میں کیلشیم زیادہ ہوتی ہے _ اور اسی طرح

----------

1_ بیوگرافی پیش از تولد ص 80_

2_ اعجاز خوراکیہا ص 223_

3_ بحار جلد 66 ص 101_

۴۸

یخنی اور آبلیمو کو فراموش نہ کریں (1)

عام لوگوں کے لیے اور خاص طور پر حاملہ خواتین کے لئے کچی اور پکی سبزیاں اور مختلف پھل بہترین غذا ہیں _ پودے اور درخت غذائی مواد زمین ، پانی، ہوا اور سورج کی روشنی سے حاصل کرتے ہیں اور ہمارے لئے غذا تیار کرتے ہیں _صحیح و سالم غذا کے لئے تمام پھل مفید میں البتہ خاص طور پر مرکبات ، سی ، بہی دانہ ، ناشپاتی ، اور کھجور مفید ہیں لیکن ہر پھل میں تمام تر مواد غذائی نہیں ہوتا _ ہر ایک کا اپنا خاص فائدہ اور تاثیر ہے _ اسی طرح ہر سبزی کو اپنی خاصیت ہے _ مختلف وٹامن اور مختلف قسم کا غذائی مواد مختلف پھلوں ، اناج اور سبزیوں میں پھیلا ہو اہے _ جو شخص اپنی صحت و تندرستی کا خواہش مند ہو اسے چاہیے کہ وہ مختلف پھلوں اور سبزیوں سے اگر چہ کبھی کبھار ہوا ستفادہ کرے _ خاص طور پر حاملہ عورتوں کے لے ایسا کرنا مفید اور ضروری ہے _ دین اسلام نے مسلمانوں سے اور خاص طور پر حاملہ عورتوں کو تاکید کی ہے کہ وہ پھلوں اور سبزیوں سے استفادہ کریں _ نمونے کے طور پر چند ایک روایات ذکر کی جاتی ہیں _

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:ہر چیز کی کوئی نہ کوئی زینت ہے اور سبزی دستر خوان کی زینت ہے _ (2)

ایک روز امام رضا علیہ السلام کھانے کے لیے بیٹھے دیکھا کہ سلاد موجود نہیں ہے خادم سے فرمایا:توجانتا ہے کہ میں سلاد کے بغیر کھانا نہیں کھاتا مہربانی کر و اور سلاد بھی لے آؤ_اور جب سلاد آیا تو امام نے کھانا شروع کیا _ (3)

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:بہی دانہ کھاؤکیوں کہ بہی دانہ عقل کو بڑھاتا ہے ، غم کو دور کرتا ہے اور بچے کو

-----------

1_ اعجاز خوراکیہا ص 224

2_ مستدرک _ جلد 3 _ص 118

3_ مکارم الاخلاق _جلد 1 _ص 201

۴۹

نیک کرتا ہے _ (1)

پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا:

بہی دانہ کھاؤ اور اس اچھے پھل کو اپنے دوستوں کو ہدیہ کے طور پر دو _ کیونکہ بہی دانہ آنکھوں کی بینائی کو زیادہ کرتا ہے اور دلوں کو مہربان کرتا ہے ، حاملہ عورتیں بھی اس میوے سے خوب استفادہ کریں تا کہ ان کی اولاد نیک اور خوبصورت ہو _ (2)

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

حاملہ عورتیں آخری مہینوں میں کھجور کھائیں تا کہ ان کے بچے بردبار ہوں _ (3)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:کھجور کھاؤ کیونکہ کھجور سب دردوں کی دوا ہے _ (4)

اس طرح کی احادیث بہت سی ہیں _ یہ چند حدیثیں نمونے کے طور پر ذکر کی گئی ہیں _ آپ پھلوں اور سبزیوں کے خواص کتابوں میں پڑھیں اور اس کے مطابق اپنے کھانے کا پروگرام تیار کریں _ یا پھر اس سلسے میں کسی غذا شناس ڈاکٹر سے مشورہ کریں _

---------

1_ مکارم الاخلاق ، ج 1، ص 196

2_ مستدرک ، ج 3 ، ص 116

3_مستدرک، ج 3 ، ص 113

4_ مستدرک ج 3 ، ص 112

۵۰

تمباکو نوشی

حاملہ عورتوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ سگریٹ اور ہر طرح کی تمباکو نوشی سے بچیں _ کیونکہ تمباکو نوشی نہ صرف مال کی صحت کے لئے خطرناک ہے بلکہ اس کے برے اثرات رحم میں موجود بچے کے جسم اور اعصاب پر بھی پڑتے ہیں _ اس ضمن میں ہم ایک غیر ملکی مجلے کے ایک مقالے کا خلاصہ نقل کرتے ہیں _ اس کی طرف توجہ فرایئےا _

ایک تحقیق جو سکنڈانیوین ممالک میں 6363 حاملہ عوتروں پرکی گئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو عورتیں سگریٹ کی عادی ہیں ان کے بچوں کا اوسط وزن دوسرے بچوں کے اوسط وزن سے 170 گرام کم ہوتا ہے _ وزن کی یہ کمی ان ماؤں کے 50 بچوں میں پائی گئی ہے _ جب کہ دوسری طرف ان بچوں کا قد بھی دوسروں سے کم تر پایا گیا ہے _ اسی طرح سے ان کے سر اور شانے بھی دوسرے بچوں سے چھوٹے ہوتے ہیں _ ان بچوں کی موت بھی دوسرے بچوں کی نسبت چھ گنا زیادہ ہوتی ہے _ ان بچوں کے اعضا میں نقص بھی دوسرے بچوں کی نسبت کہ جن کی مائیں سگریٹ کی عادی نہیں ہیں زیادہ ہوتا ہے _ سگریٹ کا استعمال ماں اور رحم میں بچے کے خون میں آکسیجن کی کمی اور کاربوکسی ہموگلوبین (1) کی زیادتی کا باعث بنتا ہے _ سگریٹ پینے والی ماں کے بچوں میں دل کی پیدائشےی بیماری دوسری ماؤں کے

-------------

1_

۵۱

بچوں کی نسبت 50 0/0 زیادہ ہوتی ہے اعداد و شمار اس امر کا پتہ دیتے ہیں کہ تمبا کو نو شی کرنے والی ماوں کے بچے تعلیم میں اپنے ہم سن بچوں سے پیچھے ہو تے ہیں اور یہ عقب ماندگی دوران حمل سگریٹ نوشی کی مقدار کے مطابق ہوتی ہے کیونکہ سگریٹ بچے کے مغز کے خلیوں کی کمی کا باعث بنتی ہے _ یہ تو ان نقصانات کا ایک چھو ٹا ساحصہ ہے کہ جو سگریٹ نوشی سے ماوں اور نوزاد بچوں کو پہنچتا ہے _ شاید اس کے اور بھی بہت سے عوارض اور پہلو ہیں کہ جوا بھی نا شناختہ ہوں _ لہذا وہ سب مائیں جو اپنی اور اپنے بچوں کی صحیح و سالم زندذگی کی خواہش رکھتی ہیں انہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ تمبا کو نوشی سے اجتناب کریں ( 1)

ڈاکٹر جزائری لکھتے ہیں :تمبا کو نوشی ماں کے لیے نقصان وہ ہے اور رحم مادر میں موجود بچے کے لئے الکحلی مشروبات بھی حاملہ عورتوں کے لیے غیر معمولی طور پر خطر ناک ہیں _ اس بات سے صرف نظر کہ الکحل جو زہر پیدا کرتی ہے ان و ٹا منز کو بھی تباہ کردیتی ہے کہ جو ماں اور اس کے پیٹ مین بچے کی ضرورت ہوتے ہیں اور اولاد ناقص الخلقہ اور عیب دار ہو جاتی ہے تمبا کو نو شی اور تیز چائے بھی حاملہ عورتوں کے لیے غیر معمولی طور پر ضرر رساں ہیں ( 2)

ڈاکٹر جلالی لکھتے ہیں :الکحل ، چرس اور دیگر تمام منشیات انسان کے خوں میں شامل ہو جاتی ہین اور یہی خون جنین کے گرو ہو تا ہے اور نتیجتا اس کے رشد و نمو پر اثر کرتا ہے یہاں تک کہ بعض ماہرین کا نظر یہ ہے کہ عورتوں کی تمبا کو نوشی سے جنین کا دل متاثر ہو تا ہے اور دل کی دھڑ کن کو تیز کرتا ہے (3)

-------

1_ مکتب اسلام _ سال 15 _ شمار ہ 6

2_ اعجاز خورا کیہا ص 215

3_ روانشناسی کودک ص 222

۵۲

اگر حاملہ خاتون بیمار ہو جائے

اگر حاملہ عورت بیمار ہو جائے اور ا سے دوا کی ضرورت پڑ جائے تو دوا کے استعمال میں میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ دوازیادہ تر بڑی عمر والوں کے لیے تیار کی جاتی ہے اور جب عورت اس سے استفادہ کرتی ہے تو شکنیہں کہ وہ اس کے پیٹ میں جا کر بچے کے بدن ک جا پہنچتی ہے اور اس پر بھی اثر انداز ہوتی ہے کچھ کہا نہین جا سکتا کہ بچے پروہ کیا اثر ڈا لے _ بحر حال کوئی بھی دوا پیٹ میں موجود بچے کے لئے بے اثر نہیں ہوتی لہذا حاملہ خاتون کو نہیں چا ہیے کہ بغیر سو چے سمجھے نتیجے کو ملحوظ رکھے بغیر دوا استعمال کرے اولا تو جب تک ضرورت تقاضانہ کرے دواستعمال نہ کرے _ ثانیا اگر ناچار ہو جا ئے تو لازمی طور پر ڈاکٹر کو بتا ئے کہ میں حاملہ ہوں کیا یہ دوا میرے بچے کے لیے تو ضرر رساں نہیں لہذا کسی لائق ڈاکٹر کے مشور ے سے ضروری مقدار میں دواکھا ئے _

البتہ اگر بیماری کوئی اہم ہو تو چاہیے کہ اپنی سلامتی اور بچے کی حفاظت کے لئے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرے کیونکہ وہ بیماری نہ صرف ماں کے لیے نقصان وہ ہو سکتی ہے بلکہ ممکن ہے بچے کی سلامتی کو بھی خطر ے میں ڈال دے _

ایک ماہر لکھتے ہیں :

ممکن ہے کہ بعض وائرس ( )اور مائیکروب ( ) میاں بیوی سے گرز کررحم ماورمیں موجود اپنا دفاع نہ کرسکنے والے بچے پر حملہ آور ہو جائیں اور اسے بھی اسی بیماری ہیں مبتلا کردیں (1)

----------

1_ بیو گرافی پیش از تولد ص 150

۵۳

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں ;

ماں کی غذائی کیفیت میں تبدیلی اور جودو اوہ استعمال کرتی ہے نیز جن بیماریوں سے وہ دو چار ہوتی ہے یہ سب جنین پر اثر انداز ہوتی ہیں ابتدائی دنوں میں رحم مادر میں بچے میں پیدا ہونے والی چھوٹی سی خرابی بڑے ہو تے ہوئے بہت زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے اسی بنیاد پردوران حمل اپنی صحت کی حفاظت کے سلسلے میں خواتین پر خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے یہاں تک کہ ان کے حمل ٹھہر نے کی صلاحیت کے ضائع ہونے کا احتمال ہے (1)

وہ یہ بھی لکھتے ہیں :

بہت سے غیر غذائی مواد بھی ایسے ہیں کہ جواماں باپ سے گزر کر بچے پر اس طرح سے اثر انداز ہو سکتے ہیں کہ اس کی نشو و نما پر منفی اثر ڈالیں _ زیادہ تر دوائیاں جو عموما استعمال کی جاتی ہیں وہ بالغ افراد کی تندرستی کے لیے بنی ہو تی ہیں یعنی ان کا تجربہ پورے ( کامل ) انسان پر کیا جا تا ہے _ ڈائرس ، بیکٹیر یا اور تمام جراثیم کہ جو ماں کے بدن میں ہوتے ہیں بعض اوقات بچے کو بھی اس بیماری میں مبتلا کردیتے ہیں یا بعض اوقات بچے کی نشو و نما کو خراب کردیتے ہین اور بچہ غیر معمولی طور پر بڑاہونے لگتا ہے (2)

----------

1_ بیو گرافی پیش از تولد ص 48

2_ بیو گرافی پیش از تولد ص 183

۵۴

ماں کی نفسیات کا جنین پراثر

ماہرین کے در میان یہ مسئلہ زیر بحث ہے کہ کیا ماں کی نفسیاتی کیقیات جنیت کی روح پر اثر انداز ہوتی ہیں یا کہ نہیں ؟

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ماں اگر شدید خوف اور اضطراب سے دوچار ہوتو رحم مادر میںموجود بچے پر بھی اس کا اثر ہو گا او ر ممکن ہے کہ وہ بھی ڈرپوک بن جائے او راسی طرح ماں کا حسد اور کینہ بھی جنین کی روح پر اثر ڈالتا ہے اور ممکن ہے یہ دو صفتیں اس کی طرف منتقل ہو جائیں _

اس کے بر عکس خوش خلقی ، انسان دوستی ، ایمان ، شجاعت اور مہر و محبت کہ جو ماں مین موجود ہو بچہ ماں کا ایک حقیقی عضو ہو تا ہے لہذا جیسے ماں کی نفسیاتی کیفیات اور افکار اسکے اپنے جسم پر اثر انداز ہو تے ہیں اسی بات کو رد کردیا ہے اور اس امر کے غلط ہونے کوثابت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ دوران حمل ماں کے انکار اور اس کی نفسیاتی کیفیت ممکن نہیں ہے کہ مستقیما بچے کے اعصاب اور نظریات پر اثرانداز ہو _

ڈاکٹر جلالی لکھتے ہیں :

ماں او جنین کے در میان مستقیم ربط نہیںہے _ ماں اور بچے کے در میان رابط ناف کے ذریعے سے ہے اور اس ناف میں کو ئی اعصاب نہیں ہیں کہ جو سلسلہ اعصاب کو ہدایت کرے بلکہ بند ناف میں خون کی رگیں ہوت ہیں لہذا

۵۵

جیسا کہ گزشتہ لوگوں کو خیال رہا ہے کہ اعصاب اور ہیجانی کیفیت بچے پر اثر انداز ہوتی ہے ایسا نہیں ہوسکتا _ (1)

البتہ حق اس دانشور کے ساتھ ہے اور یہ دعوی نہیں کیا جا سکتا کہ حاملہ عورت کے افکار اور نفسیاتی کیفیات بلا واسطہ بچے کی روح اور اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہیں _ البتہ یہ بات بھی درست نہیں کہ کوئی یہ کہے کہ ماں کے افکار اور جذبات بچے پر بالکل اثر انداز نہیں ہوتے بالواسطہ طور پر بچے کے اخلاق اور نظریات پرانداز نہیں ہوتے _ اس بات کی وضاحت کے لیے مندرجہ ذیل تین نکات کی طرف توجہ فرمائیں _

1_ انسان کی روح اور جسم ایک دوسرے سے مربوط اور واستہ ہے _ انسانی جسم کی بیماری اور صحت ، اور اعصاب اور جسمانی قوی کی قوت اور کمزوری یہاں تک کہ بھوک اور سیری انسان کے طرز تفکر اور اس کے اخلاق پر اثر انداز ہوتی ہے انسان کی اخلاقی شخصیت اس کے خاص مزاج اور اس کے اعصاب اور مغزی کی تعمیر کے انداز سے کسی حد تک وابستہ ہے _ روح سالم بدن سالم میں ہوتے ہے _ ہوسکتا ہے کہ کچھ غذا کی کمی یا فقدان اعصاب اور مغز کو برے اخلاق اور ہیجانی کیفیت کے ظہور پر ابھارے_

2_ جنین اسی غذا سے استفادہ کرتاہے کہ جو ماں کے اندرونی نظام میں تیارہوکر اس تک پہنچتی ہے _ بچہ جب تک رحم مادر میں زندگی گزارتا ہے غذا کے اعتبار سے ماں کے تابع ہوتا ہے _ ماں کی غذا کی کیفیت بچے کی جسمانی اور نفسیاتی پرورش پر بھی اثر انداز ہوتی ہے

ڈاکٹر جلالی لکھتے ہیں:جو چیز بھی ماں کی سلامتی کے لیے مؤثر ہے وہی جنین کی سلامتی کے لیے مؤثر ہے اگر ماں کی غذا میں کیلشیم کی کمی ہوگی یہ تو کمی بچے کی ہڈیوں اور دانتوں کی تعمیر پر اثر انداز ہوگی _ (2)

----------

1_ روان شناسی کودک ص 188_

2_ روان شناسی کودک ص 422_

۵۶

3_ یہ بات یقینی طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ انسان کا شدید اضطراب اور ہیجان اس کے سارے بدن بشمول اس کے نظام ہضم کے اثر انداز ہوتا ہے _ رنج و غم کی زیادتی یا خوف کی شدت کھانے کی طلب کو کم کردتی ہے اور غذا صحیح طور پر ہضم نہیں ہوتی _ نظام ہضم خراب ہوجاتا ہے ، منظم اعصاب بگڑجاتا ہے اور غدودوں کے معین اور طبعی نظام میں خلل واقع ہوجاتا ہے _

ان تین مقدمات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہا ماں کے افکار اورروحانی کیفیات اگر مستقیماً بچے کے اعصاب اور مغز کی طرف مننتقل نہیں ہوتیں تا ہم ان امور کا تعلق ماں کے نظام ہضم سے ہے اور بچے کی خوراک کا تعلق ماں ہی کے نظام ہضم اورغذائی کیفیت سے ہے اور یہ کیفیت بچے کی روح اور مستقبل کی شخصیت پر انداز ہوتی ہے اس لحاظ سے یہ قطعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ماں کی نفسیاتی کیفیات اور افکار بدون شک بچے کی روح نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اس کی تعمیر شخصیت میں مؤثر ہیں _

ماں کا شدید غصہ یا اضطراب یا شدید خوف اس کے عمومی مزاج اور نظام ہضم کو دگرگوں کردیتا ہے اس کے اعصاب اس کے باعث خلل کا شکار ہوجاتے ہیں _ یہ غیر معمولی کیفیت جیسے ماں کےجسم وجاں کے لینے باعث ضرر ہے اسی طرح کے رحم میں موجود بچے کی غذائی کیفیت کے لیے خرابی کا سبب ہے _

ممکن ہے اس صورت میں بچے کے اعصاب اور مغز ایک ایسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہوجائیں کہ جو بعد میں ظاہر ہو _

ڈاکٹر جلالی لکھتے ہیں :

ماں کو پیش آنے والے شدید ہیجانی کیفیات اور ناراحت کردینے والے امور مسلماً بچے کے مزاج اور رشد کے لیے باعث ضررہیں_ چونکہ اس طرح کی کیفیات نظام کو خراب کردتی ہیں اور غیر طبیعی غدود پیدا ہوجاتے ہیں _ اس کے باعث نظام ہضم اپنا کا م صحیح طور پر انجام نہیں دے سکتا _ شاید یہی ایک وجہ ہو کہ بچہ جو اعصاب رکھتا ہے اور بہت سی نفسیاتی بیماریاں اس میں پیدا ہوسکتی ہیں انہی ہیجانی

۵۷

کیفیات کی وجہ سے ممکن ہے ایام حمل ہی میں بچہ ضائع ہوجائے _ (1)

ایک حاملہ خاتون کہ جو جسم اور روح کے اعتبار سے بالکل سکون میں ہو _ خوش و خرم ، با ایمان ہو ، انسان دوست ہو ، مہر و محبت سے بسر کرنے والی ہو ، سالم جسم اور پاک روح کی حامل ہو تو اس کے رحم میں زندگی گزارنے والا بچہ بھی جسم و جان کے اعتبار سے پر سکون ہوگا _ ایسا پر امن اور سالم ماحول بچے کی پرورش ، جسمانی نشو و نما اور روحانی شخصیت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوگا ، اس کے برعکس ایک بے ایمان ، حاسد ، کینہ پرور ، غصیلی ، دڑپوک ، پریشان حال اور نفسیاتی مریض ماں بچے کے نظام غذاکو تباہ کردے گی ، اس کی روحانی آرام کو ختم کردے گی ، اس کے لیے برے اخلاق اور نفسیاتی بیماریوں کے لیے فضا سازگار بتادے گی _

اس ضمن میں

''ماہرین نفسیات نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ نفسیاتی امراض میں مبتلا 66 فیصد بچے یہ بیماری ماں سے وراثت میں پاتے ہیں چنانچہ اگر ایک ماں صحیح و سالم ہو تو اس کا بچہ بھی ایک صحیح و سالم نظام اعصاب کا حامل ہوگا _ اگر کوئی عورت چاہے کہ اس کا بچہ صحیح و سالم، شاداب اور عقلی قوتوں کے اعبار سے بے نقص ہو تو اسے چاہیے کہ بچے کی ولادت سے پہلے اپنی سلامتی کے بارے میں فکر کرے _ (2)

''ماحول کے عوامل بچے کے جسمانی او رنفسیاتی رشد و تکامل پر اثر انداز ہوتے ہیں '' _ (3)

------------

1_ روان شناسی کودک ص 223_

2_ اطلاعات ، شمارہ 10355، کودک ج 1 ص 119_

3_ بیوگرافی پیش از تولد ص 125

۵۸

حاملہ خواتین کو ایک نصیحت

حاملہ خواتین کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ بھار ی چیزوں کے اٹھانے ، زیادہ سخت کام کرنے اور تھکادینے والے امور سے اجتناب کریں _ کیوں کہ ماں کے لیے تھکادینے والے امور بچے کے امن و آرام کو بھی درہم برہم کردیتے ہیں اور اس کے لئے بھی ناراضی کا سامان بنتے ہیں یہانتک کہ ممکن ہے ایسے کاموں کی وجہ سے حمل ساقط ہوجائے _

حمل کے آخری مہینوں میں عورت کے لیے سفر ضرررساں ہوتا ہے _ اگر اہم مسئلہ نہ ہو تو بہتر ہے کہ سفر ترک کردیا جائے _ البتہ ہلکے پھلکے افعال اور چھوٹی موٹی فعالیت نہ صرف یہ کہ باعث ضرر نہیں ہے بلکہ ماں اور بچے ہر دو کی صحت و سلامتی کے لئے مفید ہے _

ڈاکٹر جلالی لکھتے ہیں :

ماں کی زیادہ خستگی خون میں زہریلے مواد کا موجب بنتی ہے اور چونکہ یہی خون جنین کی غذا بھی بنتاہے لہذا بچے کی نشو و نما پر اثر انداز ہوتا ہے _ (1)

-----------

1_ روانشناسی کودک ص 222

۵۹

صاف ستھری فضا

رحم مادر میں نشو و نماپانے والا بچہ آکسیجن کا احتیاج مند ہوتا ہے _ البتہ جنین خود سانس نہیں لیتا اور بلا واسطہ ، کھلی ہواسے استفادہ نہیں کرتا بلکہ اس آکسیجن سے استفادہ کرتا ہے کہ جو ماں کے تنفس کے ذریعے سے مہیا ہوتی ہے _ ماں نہ صرف اپنے بدن کی ضرورت کے مطابق آکسیجن فراہم کرتی ہے بلکہ جنین کی ضرورت کو بھی پورا کرتی ہے _ اگر ماں صاف ستھری اور اچھی ہوا میں سانس لے گی تو اپنی سلامتی کی بھی حفاظت کرے گی اور بچے کی بھی سلامتی اور پرورش کے لیے مددگار ثابت ہوگی _

لیکن اگر وہ گندی اور زہریلی ہوا میں سانس لے گی تو اپنی اور بچے دونوں کی صحت کو نقصان پہنچائے گی _ لہذا حاملہ خواتین کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ کوشش کریں کہ صاف ستھری ہوا ہے استفادہ کریں _ صاف فضا میں چلیں اور گہرا سانس لیں _ اسی طرح تھکادینے والی شب بیداری سے بھی سختی سے اجتناب کریں _

انہیں یہ بھی چاہے کہ تمباکونوشی سے بچیں _ اور مسموم فضا میں سانس لینے سے اجتناب کریں _ سوتے ہوئے کمرے کی کھڑکی کھلی رکھیں تا کہ تازہ ہوا داخل ہوسکے کیونکہ آکسیجن کی کمی ممکن ہے بچے پر ناقابل تلافی اثر ڈالے _

ڈاکٹر جلالی کا وہ پیراہم پھر آپ کی توجہ کے لیے نقل کرتے ہیں جو قبل ازیں آپ کی نظروں سے کبھی گزرچکا ہے _

جسم کے بہت سے نقائص مثلاً ہونٹوں کی خرابی ، پاؤں کے تلوے کا سیدھا ہونا یہاں تک کہ آنکھوں کا بہت چھوٹا ہونا کہ جنہیں پہلے موروثی سمجھاجاتا ہے آج کل ، ماحول بالخصوص دوران حمل آکسیجن کی کمی جیسے عوامل کا نتیجہ سمجھاجاتا ہے _ (1)

--------

1_ روان شناسی کودک ص 190

۶۰