آئین تربیت

آئین تربیت0%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 361
مشاہدے: 122017
ڈاؤنلوڈ: 6764

تبصرے:

آئین تربیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122017 / ڈاؤنلوڈ: 6764
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اسقاط حمل

اسلام کے نقطہ نظر سے عورت اور مرد کی باہمی رضامندی سے حمل ٹھرنے کو روکنے میںکوئی مضائقہ نہیں ہے اگر بیوی اور شوہر اولاد کی خواہش نہ رکھتے ہوں تو پھر وہ ضرر گولیوں، ٹیکوں یا انزال وغیرہ کے ذریعے حمل ٹھہرنے کو روک سکتے ہیں _ البتہ بچے کی پیدائشے کو روکنا اسلام کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہے _ کیونکہ اسلام کی خواہش ہے کہ مسلمانوں کی نسل جتنی بھی ہوسکے پھولے پھلے _ لیکن بہر حال ایسا کرنا حرام نہیں ہے لیکن جب نر او ر مادہ سیل ترکیب پاکر عورت کے رحم میں ٹھہر جائیں اور ایک زندہ موجود وجود میں آجائے تو وہ اسلام کی نظر میں محترم ہے اورزندگی کا حق رکھتا ہے _ و ہ نیا موجود اگر چہ بہت چھوٹا ہی کیوں نہ ہو صلاحیت کے اعتبار سے انسان ہے ، وہ ایسا موجود زندہ ہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ اور حتمی طور پر غیر معمولی طریقے سے کمالات انسانی کی طرف رواں دواں ہے _ وہ ننھا منا سا موجود جو کہ اتنی غیر معمولی استعداد رکھتا ہے اپنی مہربان ماں سے امید رکھتا ہے کہ وہ اس کے لیے پر امن ماحول فراہم کرے گی تا کہ وہ پرورش پاکر ایک کامل انسان بن سکے _ اگر اس بالیقات اور باشرف وجود کو تونے ساقط کردیا اور اسے قتل کردیا تو تم قاتل قرار پاؤگی اور اس برے عمل کے ارتکاب کی وجہ سے قیامت کے دن تمہاری بازپرس کی جائے گی _

دین مقدس اسلام کہ جو تمام لوگوں کے حقوق کا نگہبان ہے اس نے اسقاط حمل اور اولاد کشی کو کلّی طور پر حرام قراردیا ہے _ اسحان بن عمّار کہتے ہیں کہ میں نے حضر ت موسی (ع) بن جعفر (ع) کی خدمت ہیں عرض کیا کہ وہ عورت جو حاملہ ہونے سے ڈرتی ہے کیا آپ اسے اجازت دیتے ہیں کہ

۶۱

رہ دراکے ذریعے حمل گرادے _ آپ (ع) نے فرمایا:

نہیں میں ہرگز اس چیز کی اجازت نہیں دیتا _

راوی نے پھر کہا : ابتداء دور حمل کہ جب ابھی نطفہ ہوتا ہے ، اس وقت کے لیے کیا حکم ہے ؟

فرمایا:انسان کی خلقت کا آےاز اسی نطفے سے ہوتا ہے _ (1)

اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے : و اذا الموء دة سئلت _ بای ذنب قتلت

یعنی _ قیامت کے دن ماں باپ سے پوچھا جائے گا کہ تم نے کس جرم میں اپنے بے گناہ بچے کو مارڈالا ؟(تکویر _8،9)

اسقاط حمل نہایت برا عمل ہے کہ جس سے اسلام نے روکا ہے _ علاوہ ازیں یہ کام ماں کے جسم و جاں کے لیے بھی باعث ضرر ہے _ ڈاکٹر پاک ناد نے اسقاط حمل کے بارے میں منعقدہ ایک کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

... یہ ثابت ہواہے کہ اسقاط حمل اوسط عمر میں کمی کردیتا ہے نیز سائنسی تحقیق کے مطابق اسقاط حمل عورتوں کے نفسیاتی اعتدال کو تباہ کردیتا ہے _ (2)

1951 ء سے 1953 ء تک کے نیویارک کے اعداد و شمار کے مطابق 2601 عورتوں کی وفات اسقاط حمل کی وجہ سے ہوئی دس سال کے دوران میں اس تعدا میں 1261 4 کا اضافہ ہوا _ چکی میں 1963 ء کے ریکارڈ کے مطابق 39 عورتوں کا انتقال اسقاط حمل کی وجہ سے ہوا _

---------

1_ وسائل الشیعہ ، ج 19، ص 15

2_ مکتب اسلام سال 13 ، شمارہ 8

۶۲

اسقاط حمل کا ایک بہانہ فقر و تنگ دستی بھی قراردیا جاتا ہے _ بعض نادان ماں باپ فقر و غربت کے بہانے سے اپنے بے گناہ بچوں کو ضائع کردیتےہیں _اس میں شک نہیں کہ فقر و تگ دستی ایک بڑی مصیبت ہے اور بہت سارے خاندان اس میں مبتلا ہیں اور اسے برداشت کرنا بہت مشکل کام ہے _ لیکن اسلام اسے بچہ ضائع کرنے کا عذر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں _ آخر بے گناہ بچے کا کیا قصور ہے کہ ماں باپ اسے حق حیات سے محروم کردیں _ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے :

ولا تقتلوا اولاد کم خشیة املاق نحن نرزقهم و ایاکم انّ قتلهم کان خطا کبیراً

اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو ہم ہیں کہ جو تمہیں اور انہیں روز دیتے ہیں _ اولاد کو قتل کرنا یقینا ایک بہت بڑا گناہ ہے _ بنی اسرائیل _آیہ 31

اب جب کہ ایک انسان کا نطفہ ٹھر چکا ہے ماں با پ کو چاہیے کہ سختی کو برداشت کریں ممکن ہے یہی بچہ کل ایک ممتاز اور عظیم شخصیت بن جائے کہ ماں باپ اور معاشرہ جس کے وجود سے استفادہ کریں _ ممکن ہے اسب چے کے وجود کی برکت سے خاندان کی اقتصادی حالت بھی بہتر ہوجائے یا اس کے ذریعے سے فقر و تنگ دستی سے نجات مل جائے _

اس کے علاوہ بھی کئی بہانے پیش کئے جاتے ہیں _ مثلاً گھر سے باہر کی مشغولیات ، دفتر کی مصروفیات یا بچوں کی کثرت و غیرہ لیکن یہ ایسے عذر نہیں ہیں کہ ان کی وجہ سے شریعت یا عقل اس برے عمل کو جائز قراردے دے _

اسقاط حمل نہ یہ کہ اسلام کی نظر میں ایک برا اور حرام عمل ہے بلکہ اس بڑے گناہ کے لیے کفارہ بھی مقرر کیا گیا ہے کہ جو جنین کی عمر کے اختلاف کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے _

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں اگر ساقط شدہ بچہ نطفہ ہواتو اس کا خون بہسونے کے بیس دینا رہے، اگر علقہ اور لوتھڑا ہوتو سونے کے چالیس دینار، اگر مضغہ اور گوشت کی حد تک پہنچ چکا ہوتوسونے کے ساتھ دینار، اگر اس میں ہڈی بن گئی ہو تو سونے کی اسّی دینار،

۶۳

اگر وہ انسان کی صورت اختیار کر چکا ہو تو سونے کے سودینار اور اگر اس میں روح بھی پیدا ہوچکی ہو تو اس کی دیت ایک کامل انسان کی دیت ہوگی _ (1) خانم افسر الملوک عاملی نے اس بارے میں ایک خوبصورت نظم کہی ہے:

بخواب آمد مرا طفل جنینی-------------------------------- بگو ماد رخطا از من چہ دیدی

بگفتا مادرم را گر بہ بینی----------------------------------- کہ بہ جرمم بہ خونم درکشیدی

درونت کودکی آرام بودم----------------------------------- بخونم چنگ و دندان تیز کردی

کجا محکوم برا عدام بودم؟----------------------------------- نہ خون دامان خود، لبریز کردی

بدم تازہ رسیدہ میہمانت

نہ آسیبی رسید از من بجانت

بہ مہمان بایدت مہمان نوازی

نہ بیرحمانہ اش نابودسازی

تو فکر خرج و برجم را نمودی

زجسم کو چکی جان در ربودی

مرا روزی بہمرہ بود مادر

ولی افسوس ننمودی تو باور

تو گردش را بہ من ترجیح دادی

اساس ظلم در عالم نہادی

------------

1_ وسائل الشیعہ ج 19 ص 169

۶۴

امید کودکان بر مام باشد----------------------------------------- امید بودردیت را ببینم

چو مادر باشدش آرام باشد--------------------------------------- گلی از گلش حسنت بچینم

ولی میخواست پستانت زنت چنگ----------------------------------- دلم می خواست از شیرت بنوشم

غمت بیرون نمایم از دل تنگ-------------------------------------- صدای مادرم آید بگوشم

امیدم بود لبخندم ببینی------------------------------------------- امیدم بددبستانم فرستی

کنار تختخوابم خوش نشینی------------------------------------------- دھی تعلیم ، درس حق پرستی

بیایم از دردوشادت نمایم

سردو کودکان بہرت سرایم

امیدم بودگروم من جوانی

زمان پیریت قدرم بدانی

زمان پیریت غم خوار باشم

بہر کاری برایت یادباشم

من اینک روح پاکم در جنان است

مکانم در جوار حوریان است

کنون کن توبہ ،استغفار ، شاید

خدای مہربان رحمت نماید

تمنّا دارد و افسر از توانی

۶۵

پیامم را بہ مادر ہا رسانی (1)

نظم کا ترجمہ :

چھوٹا سا سقط شدہ بچہ میرے خواب میں آیا اور بولا میری ماں کو دیکھو تو اس سے کہو

امّی تو نے میری کیا خطا دیکھی تھی کہ بے جرم ہی تو نے میرا خون بہادیا _

میں تو بچپن میں آرام سے رہتا تھا میرے قتل کا حکم کیسے سرزد ہوگیا _

میرے خون پر تونے اپنے پنجے اور دانت تیز کئے _ اور اپنے دامن کو میرے خون سے آلودہ کرلیا _

میں ابھی تیرے پاس تازہ مہمان آیا تھا اور مجھ سے ابھی آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا _ چاہیے کہ آنے والے مہمان کی مہمان نوازی کی جائے نہ کے بے رحمی سے اس کا کام تمام کردیا جائے _

تجھے میرے بارے میں خرچ کی فکر میں تھی لہذا تو نے میرے ننھے سے جسم سے جان نکال دی _

ماں میں تو اپنی روزی ساتھ لے کر آیا تھا لیکن افسوس کہ تجھے اس کا یقین نہ آیا _

تو نے گھومنے پھر نے کو مجھ پر ترجیح دی او ردنیا میں ظلم کی بنیاد ڈالی _

بچوں کی امید توماں ہی ہوتی ہے _ اور جب ماں کے پاس ہو تو وہ سکھ چین سے ہوتے ہیں _مجھے تمنا تھی کہ میں تیرے چہرے کو دیکھوں اور میں بھی تیرے گلشن حسن سے ایک پھول چنوں _میرا دل چاہتا تھا کہ میںتیرے پستان سے دودھ پیوں اور یوں تیرے دل کا غم دور کروں _ میر ی آرزو تھی کہ تیرا دودھ پیوں اور تیری آواز میرے کانوں میں پڑے _آرزو تھی کہ تو مجھے مدر بھیجتی ، مجھے تعلیم دیتی اور حق پرستی کا درس پڑھاتی _میں گھر آتا اور تجھے خوش کرتا اور بچوں والے گیت تجھے سناتا _

--------

1_ مجلہ مکتب اسلام سال 16_شمارہ 12

۶۶

خیا ل تھا کہ جب میں جوان ہوجاؤں گا تو پھر تجھے اپنے بڑھاپے میںمیری قدر معلوم ہوتی _ تیرے بڑھاپے میں میں تیرا غم خوار ہوتے اور ہر کام میں تیرا مددگار بنتا _ میں کہ ایک پاک روح بن کر اب جنت میں ہوں اور میرا مقام یہاں حوروں کے جوار میں ہے اب تو توبہ اور استغفار کر کہ شاید خدائے مہربان اپنی رحمت کرے _

اے افسر سیری تجھ سے یہ تمنا ہے کہ تو میرا یہ پیغام تمام ماؤں تک پہنچادے _

۶۷

پیدائیش کی مشکلات

بچہ عموما رحم مادر میں نو ماہ اور دس دن درہتا ہے_ ولادت سے_ ولادت سے پہلے کی زندگی نہایت حساس اور پر خطر ہوتی ہے کیوں کہ بچہ کا مستقبل اسی سے وابستہ ہو تا ہے _ بچہ اس عرصے مین ایسے محیط میں زندگی گزار تاہے کہ جس کا نظم و ننسق اس کے اپنے ہاتےھ میں نہیں ہوتا اور وہ دسیوں قسم کے جسمانی اور روحانی خطروں میں گھرا ہو تا ہے اور خود انہیں دور کرنے کی اس میں طاقت نہیں ہوتی جب اس مرحلے سے جان سالم لے کر آجائے اور نو ماہ کی خط ناک مسافرت کو تمام کربیٹھے تو اب ناچار ہے کہ ایک اور دشوار مرحلے کا آغاز کرے اور یہ مرحلہ پیدائشے کا ہے _ بچے کی پیدائشے کا مرحلہ ایسا سادہ او رمعمولی سا نہیں بلکہ نہایت دشوار اور حساس ہے _

بچہ نو ماہ اتنا بڑا ہو جاتا ہے ، خاص طور پر دیگر اعضاء کی نسبت اس کا سر بڑ ا ہو چکا ہو تا ہے کہ اس اسے ناچار ایک نئے سخت مرحلے سے گزر ناہی ہوتا ہے _ اس تنگ مقام تولد سے باہر آنا انسان کی پوری زندگی میں انجام پانے والے کسی بھی سفر سے خطر ناک تر ہے _ ممکن ہے بچہ پس جائے یا اس کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے _ ممکن ہے اس کی نازک اور ظریف ہڈیاں کہ جو ابھی با ہم اچھی طرح ملی نہیں ہو تیں ، ان پر دباؤ پڑ جائے جس سے بچے کے اعصاب اور مغز کو نقصان پہنچے _

ایک ماہر لکھتے ہیں :

پیدائشے کا مرحلہ ممکن ہے کہ بچے میں دائمی لیکن غیر مرئی قسم کے نفسیاتی نقائص پیدا ہونے کا سب بنے _ نفسیاتی بیماریوں کے معالجین کے نزدیک پیدائشے کے عمل کو انسان کی پوری زندگی کیماہیت کے لیے ایک مؤثر عامل شمار ہوتا ہے ان ماہرین

۶۸

کی نظر میں پیدائشے ایک انقلابی تبدیلی کا نام ہے کہ جو بچے کے ماحول اور زندگی مین پیدا ہوتی ہے اور اچانک وہ خاص قسم کی آسودگی اور آرام جو جنین کی زندگی میں اسے حاصل ہوتا ہے و ہ ختم ہو جاتا ہے _ ان کی نظر میں پیدائشے کے موقع پر خوف ارو اضطراب انسان کی نفسیات کاحصہ بن جاتا ہے اور انسان کی آئندہ زندگی ہمیشہ نا معلوم یادوں کے آزار کے تحت گزرتی ہے _ زندگی کا ایک پر آرام دور جنین کا اور پھر مستقل زندگی کی طرف نہایت مشکل عالم میں ورود ( 1)

جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو عموما چند گھنٹے وہ ایک دباؤ کے تحت رہتا ہے اور سب سے زیادہ مشکل سے اس کا سر دو چار ہو تا ہے کہ جو اس کے بدن کے تمام تر اعضاء میں سے سب سے بڑا ہوتا ہغ اگر پیدائشے غیر معمولی طریقے سے ہو تو دنیا میں آنے کے مرحلے اور بھی سخت تر ہو جاتے ہیں اور بچہ عام حالات کی مشکلات برداشت کرنے کے علاوہ میکانیاتی آلات کی مصیبت بھی برداشت کرتا ہے اور زیادہ تر بچوں کا ضائع ہو جا نا یا پیدائشے کے تھوڑی ہی مدت بعدت ان کا مرجا نا ایسی ہی مصیبتوں اور مشکلوں کے باعث ہو تا ہے فالج اور دیوانگی و غیرہ جیسے ہدنی اور دہنی نقائص جو بچوں میں دکھائی دیتے ہیں عموما ایسی ہی مصیبتوں کا باعث ہوتے ہیں جو دنیا میں آتے وقت آن پروارد ہوتی ہیں (2)

بنا بریں پیدائشے کا مر حلہ ایک معمولی اور غیر اہم مرحلہ نہیں بلکہ ایک دشوار اور قابل تو جہ عمل ہے کیونکہ ز چہ اور بچہ کی سلامتی اس سے البستہ ہوتی ہے _ ٹھوڑی سے غفات یا سہل انگاری ماں یا بچے کے لیے نا قابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتی ہے _ یہاں تک کہ ممکن ہے اس مرحلے میں ان کی جان چلی جائی لیکن آج کل کی حالت میں جب مرا کز پیدائشے ، ڈاکٹر اور دواز یادہ تر لوگوں کی دسترس

----------

1_ بیو گرافی پیش از تولد ص 160

2_ روانشناسی کودک ص 193

۶۹

میں ہے تو احتمالی خطرات سے بچا جا سکتا ہے _لہذا حاملہ خواتین کو نصیحت کی جاتی ہے کہ اگر وہ ڈاکٹر یا مرکز پیدائشے تک دسترس رکھتی ہیں تو وقت سے پہلے ان کی طرف رجوع کریں اور بچے کی پیدائشے کے وقت کے بارے میں معلومات حاصل کریں او رجب ضروری ہو تو فورا مرکز پیدائشے کی طرف رجوغ کریں چونکہ یہ مراکز گھر سے ہر لحاظ سے بہتر ہوتے ہیں _ کیونکہ اورلا تو و ہاں ڈاکٹر ، دوا اور نرس موجود ہیں اور ضروری موقع پر وہ و چہ کی فوری مار دکر سکتے ہیں اور اگر پیدائشے میں کوئی غیر معمولی مسئلہ پیش آجائے تو ہر لحاظ سے وسائل موجود ہوتے ہیں اور جلدی سے اس کی مد د کی جاسکتی ہے _ لیکن اگر وہ گھر میں ہو اور پیدائشے میں کوئی غیر معمولی مسئلہ پیش آجائے تو اسے ڈاکٹر یا مرکز پیدائشے تک لے جانے میں ممکن ہے کہ زچہ اور بچہ کی جان خطر ے میں پڑ جائے _

دوسرا یہ کہ مرکز پیدائشے کے کمر ے صحت و سلامتی کے نقطہ نظر سے گھر کے کمروں سے بہتر ہوتے ہیں اور عورت و ہاں زیادہ آرام کرسکتی ہے _

تیسرا یہ کہ وہاں پر رشتے داروں اور ہمسایہ عورتوں کا پیدائشےی عمل میں دخل نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کی مختلف قسم کی آراء ہوتی ہیں جب کہ ان کی وکالت عموماً علم و آگہی کی بناء نہیں ہوتی لہذا ضرررساں ہوسکتی ہے _

مرد کی بھی اص ضمن میں بھاری ذمہ داری ہوتی ہے _ شرعاً اور عقلاً اس کافریضہ ہے کہ ان حسّاس اور خطرناک لمحات میں اپنی بیوی کی مدد کرے اور احتمالی خطرات سے اسے اور بچے کو بچانے کی کوشش کرے _ اگر اس کی غفلت یا سستی کی وجہ سے بیوی یا بچہ تلف ہوجائے یا پھر انہیں جسمانی یا روحانی لحاظ سے نقصان پہنچے تو ایسا بے انصاف شوہر شریعت اور ضمیر کی عدالت میں مجرم قرار پائے گا اور روز قیامت اس سے بازپرس کی جائے گی _ علاوہ ازیں اس جہاں میں بھی وہ اپنے کام کا نتیجہ بھگتے گا اور اگر آج سہل انگاری یا کنجوسی یا کسی اور بہانے سے بیچاری بیوی کی مدد نہیں کرے گا تو بعد میں مجبور ہوگا کہ اس کے مقابلے میں سوگنا خرچ کرے لیکن پھر بھی زندگی کا پہلا سکون واپس نہیں لایا جا سکے البتہ اگر ڈاکٹر اور پیدائشے گا ہ تک رسائی نہ ہو تو پھر گھر میں ہی یہ کام ان دائیوں کے ذریعے انجام پانا چاہیے کہ جو اس کام میں مہارت رکھتی ہیں_

۷۰

اس ضمن میں مندرجہ ذیل ہدایات کی طرف توجہ کرنی چاہیے _

1_ پیدائشے کے کمرے کا درجہ حرارت معتدل اور طبیعی ہونا چاہیے اور سرد نہیں ہونا چاہیے کیونکہ زبردست دباؤ، درد اور کئی گھنٹوں کی زحمت کی وجہ سے عورت کی طبیعت عام حالات سے مختلف ہوجاتی ہے اسے پسینے آتے ہیں اور بچے کے لیے بھی ٹھنڈلگنے اور بیماری کا خطرہ ہوتا ہے ، جب بچے کی پیدائشے کا دشوار گزار مرحلہ گزر جائے تو اگر کمرے کی ہوا کا درجہ حرارت سرد ہو تو احتمال قوی ہے کہ زچہ کو ٹھنڈلگ جائے اور اس کی وجہ سے کئی بیماریاں پیدا ہوجائیں _ علاوہ ازیں ٹھنڈی ہوا نو مولود کے لیے بھی نہایت خطرناک ہے کیونکہ پچہ رحم مادر میں طبیعی حرارت کے ماحول میں رہا ہوتا ہے کہ جس کا درجہ حرارت تقریباً3765 سینٹی گریڈہوتا ہے _ لیکن جب وہ دنیا میں آتا ہے تو کمرے کا درجہ حرارت عموماً اتنا نہیں ہوتا اس وجہ سے نومولود کو جو بہت ناتوان ہوتا ہے اوراس میں یہ طاقت نہیں ہوتی کہ اپنے بدن کے لیے درکار حرارت اور توانائی مہیا کرسکے، اسے ٹھنڈ لگ جانے کا اور بیماری میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے اور ان نومولود گان کامعالجہ بھی نہایت مشکل ہوتا ہے _ اس طرح بیمار ہونے والے زیادہ تر بچے مرجاتے ہیں _

2_ محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کمرے کی ہوا مٹی کے تیل یا کوئلے کے جلنے کی وجہ سے دھوئیں سے مسموم اور آلودہ نہ ہوجائے کیونکہ ایسی مسموم ہوا میں سانس لینا زچہ اور بچہ ہر دو کے لئے ضرر رساں ہے _

3_ بہتر ہے کہ پیدائشے کے کمرے میں حتی المقدور خلوت ہو _ غیر متعلق عورتوں کو کمرے سے باہر کردیں کیونکہ ایسی خواتین علاوہ اس کے کہ ان کی ضرورت نہیں ہوتی وہ زچہ کے لیے ناراضی اور شرمندگی کا باعث بنتی ہیں _ کمرے کی ہوا کو کثیف کرتی ہیں علاوہ ازیں پیدائشے کے وقت زچہ کی شرم گاہ کی طرف دیگر عورتوں کا دیکھنا حرام ہے اوروہ اس عالم میں اپنی سترپوشی نہیں کرسکتی _

۷۱

امام سجاد علیہ السلام نے ایک موقع پر جب کہ ایک حاملہ عورت کاوضع حمل ہونے والا تھا تو فرمایا عورتوں کو باہر نکال دیں کہ کہیں زچہ کی شرم گاہ کی طرف نہ دیکھیں _ (1)

حاملہ عورت اگر اپنی ذمہ داری پر عمل کرے تو اسے چاہیے کہ پوری احتیاط کے ساتھ اپنے حمل کے زمانے کو اختتام تک پہنچائے اور ایک سالم اور بے عیب بچہ معاشرے کو سونپے اس نے ایک بہت ہی قیمتی کا م انجام دیا _ ایک صحیح اور بے نقص انسان کو وجود بخشا ہے کہ جو ہمیشہ اپنی ماں کا مرہون حق رہے گا _ اس کے علاوہ اس نے انسانی معاشرے کی بھی خدمت انجام دی ہے کہ اسے ایک بے نقص اور قیمتی انسان عطا کیا ہے ممکن ہے اس کا وجود معاشرے کے لیے خیرات و برکات کا موجب قرار پانے اور یہ عظیم خدمت کے نزدیک بھی بے اجر نہیں رہے گی _ ایک روز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جہاد کی فضیلت کے بارے میں گفتگو فرما رہے تھے _ ایک عورت نے عرض کی یا رسول اللہ کیا عورتیں جہاد کی فضیلت سے محروم ہیں _ پیغمبر (ص) نے فرمایا: نہیں عورت بھی جہاد کا ثواب حاصل کر سکتی ہے _ جس وقت عورت حاملہ ہوتی ہے اور اس کے بعد اس کا وضع حمل ہوتا ہے اور جب بچے کو دودھ دیتی ہے یہاں تک کہ بچہ دودھ پینا چھوڑ دیتا ہے تو اس ساری مدّت میں عورت اس مرد کی طرح ہے جو میدان کارزار میں جہاد کررہا ہو _ اگر اس عرصے میں عورت فوت ہوجائے تو بالکل ایک شہید کے مقام پر ہے _ (2)

----------

1_ وسائل الشیعہ _ جلد 10 ص 119

2_ مکارم الاخلاق _ج 1 ، ص 268

۷۲

ولادت کے بعد

بچہ پیدا ہوتا ہے تو ہوا اس کے پیپھڑوں میں داخل ہوجاتی ہے _ اس سے وہ سانس لینا شروع کرتا ہے عمل تنفسّ کے آغاز کے بعدو وہ زندگی میں پہلی مرتبہ روتا ہے _ بچے کا یہ رونا اس ہوا کے ردّ عمل کے طور پر ہوتا ہے کہ جو اس کے پھیپھڑوں میں داخل ہوتی ہے _ اگر وہ سانس نہ لے اورنہ روئے تو اسے پاؤں سے پکڑ کر الٹا کرکے اس کے سرپر آہستہ آہستہ ہاتھ مارتے ہیں تا کہ وہ سانس لے _ پھر اس کے بند ناف کو باندھ دیتے ہیں اور بچّے کے بدن سے ابھر ہوئی ناف کو جراثیم سے پاک کسی چیز سے کاٹ دیتے ہیں اور ناف کو بھی جراثیم سے پاک کرتے ہیں _ اس کے بعد بچے کو صابن کے ساتھ نیم گرم پانی سے نہلا کر لباس پہنادیتے ہیں _ کچھ دیر تک بچے کو غذا کی ضرورت نہیں ہوتی _ پھر نیم گرم پانی میں چینی ملا کر اس کے منہ میں میں قطرہ قطرہ ڈالتے ہیں _

بچہ عموماً حالت خواب میں رہتا ہے _ اسے استراحت کی بہت ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کی زندگی کی داخلی و خارجی حالت بالکل تبدیل ہوچکی ہوتی ہے _ پہلے وہ ماں کی غذا ہی سے استفادہ کرتا تھا لیکن اب اس کا اپنا نظام ہضم کام کرنا شروع کردیتا ہے_

پہلے بچہ اس آکسیجن سے استفادہ کرتا تھا جو ماں کے تنفس سے حاصل ہوتی تھی لیکن اب اس کا اپنا نظام تنفس کام کرنا شروع کردیتا ہے اور اس کا اپنا نظام اس کے لیے آکسیجن حاصل کرتا ہے اور بدن کے لیے نقصان دہ ہوا خارج کرتا ہے _ اس کی داخلی کیفیت میں بہت بڑی تبدیلی واقع ہوچکی ہوتی ہے _ نیز اس کی خارجی حالت اور ماحول بھی بدل چکا ہوتا ہے _

۷۳

پہلے وہ رحم مادر میں تھا جہاں درجہ حرارت 3765 درجے سنٹی گریڈ تھا لیکن اب وہ اس ماحول میں ہوتا ہے کہ جس کا درجہ حرارت مستقل نہیں ہے پیدائشے کے وقت بھی اس کے جسم و روح پر مختلف قسم کا دباؤپڑتا ہے جس کی تلافی کی ضرورت ہوتی ہے _ اس عالم میں بچہ ایک ایسے بیمار کے مانند ہوتا ہے جو عمل جرّاحی کے بعد ابھی ابھی آپریشن تھیڑسے باہر آیا ہو جسے ہر چیز سے زیادہ استراحت کی ضرورت ہوتی ہے _ وہ سانچے میں ڈھل کے نکلی ہوئی نئی نئی ایسی مشینری ہے کہ جس کی دیکھ بھال اور خصوصی توجہ ضروری ہے _ اس لحاظ سے بچے کے لیے جو بہترین کام انجام دیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے لیے آرام و ہ ماحول فراہم کیا جائے تا کہ وہ آرام کرسکے _ جس سخت عمل سے گزارہے اس کی تلافی کرسکے اور اپنی زندگی کو نئے حالات کے مطابق ڈھال سکے _

ڈاکٹر جلالی لکھتے ہیں _

بچے کو ہنسانا، اسے مستقل چومتے رہنا اور ہر وقت اسے اٹھا کر دوسروں کو دکھانا اور اس کے کپڑے تبیدل کرتے رہنا تا کہ وہ خوبصورت دکھائی دے یہ سب ایسے نامطلوب کام ہیں کہ جن سے اجتناب کرنا چاہیے بچہ کھیل کا سامان نہیں ہے اسے پھلنے پھولنے کے لیے آرام وہ ماحول کی ضرورت ہے _ ایسا کام نہیں کرنا چاہیے کہ اس کے آرام کی داخلی حالت درہم برہم ہوجائے _ اس کے سامنے اونچی آواز میں نہیں بولنا چاہیے _ اسے کبھی اونچا ، کبھی نیچا نہیں کرنا چاہیے _ اسی طرح اسے چومنا چاٹنا ، اس پہ دباؤ ڈالنا یہ سب چیزیں اس کے منظم رشد اور آرام پر اثر انداز ہوتی ہیں _ (1)

ان کو بھی استراحت اور تقویت کی شدید ضرورت ہوتی ہے دوران حمل نو ماہ کے عرصے میں اس نے بہت مشکلات اٹھائی ہوتی ہیں وہ بالکل ضعیف اور ناتوان ہوچکی ہوتی ہے _ خاص طور پر وضع حمل کے دوران وہ جس جا نگل مرحلے سے گزری ہوتی ہے اور جس طرح

----------

1_ روانشناسی کودک ص 223

۷۴

سے اس کا خون بہا ہوتا ہے اس کا تن بدن خستہ حال ہوچکا ہوتا ہے _ اس عالم میں مہربان شوہر پر لازم ہے کہ وہ اس کے لیے مکمل آرام کے اسباب فراہم کرے اور غذا کے ذریعے سے اس کی قوت بحال کرے _ اگر ڈاکٹر اور دوا کی ضرورت ہو تو پوری طرح سے معالجہ کرے تا کہ اس کی جسمانی ناتوانی دور ہوسکے اور صحت معمول پر آسکے اور پہلے کی سی سلامتی اور شادابی پلٹ سکے _ تا کہ وہ اپنے سالم جسم اور شاداب روح سے پھر سے زندگی بسر کرنے لگے اور اپنے بچوں اور شوہر کی خدمت کر سکے _ اگر شوہر نے اس امر میں کوتاہی کی تو اس کی شریکہ حیات رنجور اور ناتوان رہ جائے گی اور اس کا نتیجہ بعد میں شوہر کو خود بھگتنا پڑے گا _

۷۵

ماں کا دودھ بہترین غذا ہے

ماں کا دودھ بچے کے لیے بہترین ، کامل ترین اور سالم ترین غذا ہے اور کئی پہلوؤں سے ہر غذا پر ترجیح رکھتا ہے _ مثلاً

1_ غذائی مواد کی کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے ماں کا دودھ بچے کی مشینری سے بالکل ہم آہنگ ہوتا ہے کیونکہ بچہ نو ماہ رحم مادر میں رہا ہوتا ہے اور ماں کی داخلی مشینری سے تیارہ شدہ غذا سے استفادہ کرنا اس کی عادت ہوچکی ہوتی ہے _ اب وہی مواد دودھ کی صورت میں بچے کی غذا بن کے آتا ہے _

2_ مال کا دودھ چونکہ طبعی طور پر اور خام حالت میں استعمال ہوتا ہے اس لیے اپنی غذائیت برقرار رکھتا ہے_ جب کہ اس کے برخلاف گائے و غیرہ کے دودھ کوابالاجاتاہے اور پھر استعمال کیا جاتا ہے _ جس سے اس کے اندرموجود بعض غذائی مواد ضائع ہوچکا ہوتاہے_

3 _بچے کی صحت کے اعتبار سے ماں کا دودھ زیادہ قابل اعتبار ہے اور خارجی جراثیم سے آلودہ نہیں ہوتا کیونکہ ماں کے پستان سے سیدھا بچے کے منہ میں چلا جاتاہے اس کے برخلاف دوسرے دودھ ممکن ہے مختلف برتنوں اور ہاتھوں کے جراثیم سے آلودہ ہوجائیں _

4_ ماں کا دودھ ہمیشہ تازہ بہ تازہ استعمال ہوتا ہے _ جب کہ کوئی دوسرا دودھ ممکن ہے

۷۶

5_ ماں کے دودھ میں ملاوٹ کی گنجائشے نہیں ہوتی _ جب کہ دوسرے دودھ میں اس کا امکان موجود ہے _

6_ ماں کا دودھ بیماریوں کے حامل جراثیم سے آلودہ نہیں ہوتا اور بچے کی صحت و سلامتی کے لیے زیادہ محفوظ ہوتا ہے _ جب کہ کوئی دوسرا دودھ ممکن ہے بعض جراثیم سے آلودہ ہو جو بچے کوبھی مبتلا اور آلودہ کردیں _

اسہال شیر ، تپ مالت اورسل گاو جیسی بیماریوں دوسرے دودھ ہی سے پیدا ہوتی ہیں _ ان اور دیگر وجوہات کی بناپر ماں کا دودھ بچے کے لیے یقینی طور پر بہترین اور سالم ترین غذا ہے جو بچے ماں کا دودھ پی کر پلتے ہیں وہ دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ تندرست ہوتے ہیں اور بیماریوں کے مقابلے کی زیادہ طاقت رکھتے ہیں او رایسے بچوں میں شرح اموات بھی کمتر ہے _

ماں اگر بچے کو دودھ دے تو ایک فائدہ بھی ہے کہ عمل حیض میں زیادہ تر تاخیر ہوجاتی ہے اور نتیجے کے طور پر دیر سے حاملہ ہوتی ہے _

دین اسلام نے بھی ماں کے دودھ کو بچے کے لیے بہترین غذا قرار دیا ہے اور اسے بچے کا ایک فطری حق گردانا ہے _

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

ما من لبن رضع به الصبی اعظم برکته علیه من لبن امّه

بچے کے لیے کوئی دودھ ماں کے دودھ سے بڑھ کر بہتر نہیں ہے _ (1)

ماں کا دودھ اسلام کی نظر میں اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ ماں کی تشویق کے لئے اس کا بہت زیادہ ثواب مقرر کیا گیا ہے _

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: فاذا ارضعت کان لها بکل محّته کعدل عتق محرّر من ولد

-----------

1_ وسائل الشیعہ ج 15 ص 175_

۷۷

اسماعیل فاذا فرغت من رضاعه ضرب ملک کریم علی جنبها و قال : استفانی العلم فقد غفر لک

یعنی ہر عورت جو اپنے بچے کو دودھ پلائے گی بچہ جتنی مرتبہ بھی اس کے پستان سے دودھ پیے گا اللہ تعالی ہر مرتبہ اسے اولاد اسماعیل میں سے غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا کرے گا جس وقت دودھ پلانے کی مدت ختم ہوگی تو ایک مقرر فرشتہ اس کے پہلو پر ہاتھ رکھ کے کہے گا : زندگی کو نئے سرے سے شروع کر کیوں کہ اللہ نہ تیرے پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں _ (1)

میڈیکل کا ایک بین الاقوامی سمپوزیم کہ جو شیراز کی یونیورسٹی میں منعقد ہوا اس میں تمام تر ماہرین کی مستتر ارائے یہ تھی کہ کوئی غذا بھی اور وٹامن کا حمل کوئی اور مواد بھی شیر مادر کی جگہ نہیں لے سکتا _ ڈاکٹر سیمین واقفی کہتی ہیں:

باعث افسوس ہے کہ بہت سی جوان مائیں مغربی ماؤن کی تقلید میں کوشش کرتی ہیں کہ اپنے نو نہالوں کو خشک دودھ او ردیگر خاص طرح کی مصنوعی غذائیں دیں اور یہ بچپن میں بچے کی صحیح غذائی ضروریات کے بالکل مخالف ہے جوان مائیں یہ جان لیں کہ کوئی مصنوعی دودھ بھی ماں کے دودھ کے برابر نہیں ہوسکتا _ وہ اپنے بچے کو اس بہترین غذا سے محروم نہ رکھیں کو جو طبیعی طور پر اس کے لئے تیار کی گئی ہے _ (2)

ایک اور ماہر لکھتے ہیں :

شیر مادر ایک ایسی بے مثال غذا ہے کہ جو فطرت نے بچے کے لئے بنائی ہے اور کوئی غذا بھی اس کا بدل نہیں ہوسکتی _ لہذا حتی الامکان کوشش کی جانی چاہیے کہ بچے کو ماں کا دودھ پلایا جائے اور اگر ماں کا دودھ نہ آتا ہو تو اسے کوشش

---------

1_وسائل الشیعہ _جلد 15 ص 175

2_ بہداشت جسمی روانی کودک ص 63

۷۸

کرنا چایہئے کہ اس بہت بڑے نقص کو مختلف اوردودھ لانے والی غذائیں کھا کر دور کرے _ (1)

ذمہ دار اور آگاہ خواتین کہ جو اپنے بچوں کی صحت و سلامتی سے دلچسپی رکھتی ہیں اپنے عزیز بچوں کی اپنے دودھ کے ذریعے سے پرورش کریں اور انہیں اس عظیم نعمت الہی سے محروم نہ رکھیں کہ جس کا نظام اللہ تعالی نے ن کے لیے پہلے سے بنارکھا ہے _ سمجھدار خواتین ماں کی عظیم ذمہ داری سے آشنا ہوتی ہیں اور بچے کے جسم و جان پر دودھ کے اثر کو سمجھتی ہیں _ اسی وجہ سے وہ خوشی سے اپنے آپ کو بچے کی صحت و سلامتی کے لیے نثار کرتی ہیں اور انہیں شیر جان سے سیراب کرتی ہیں _ ایسی ہی خواتین کو ماں کا نام دیا جا سکتا ہے نہ ان بیوقوف اور خود غرض ماؤں کو کہ جن کا دودھ اترتاہو لیکن وہ طرح طرح کے بے جا بہانوں سے اپنے پستان کو خشک کرلیتی ہیں اور بے گناہ بچے کو خشک دودھ سے پالتے ہیں _ یہ خود غرض عورتیں اتنا بھی جذبہ ایثار نہیں رکھتیں کہ عزیز بچوں کی صحت و سلامتی کی خاطر اپنے آپ کو دودھ پلانے کی زحمت دیں _

علاوہ ازیں جو خواتین بغیر کسی عذر کے بچے کو دودھ نہیں پلاتیں ممکن ہے کہ وہ بعض جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوجائیں _ سرطان پستان ان خواتین میں زیادہ دیکھا گیا ہے کہ جو اپنے بچے کو دودھ نہیں پلاتیں _

اس مقام پر ضروری ہے کہ جو مائیں بچوں کو دودھ پلاتی ہیں انہیں متوجہ کیا جائے کہ ماں کی غذا کی کیفیت دودھ کی کیفیت پر اثر انداز ہوتی ہے _ دودھ ماں کی غذا سے تیار ہوتا ہے _ لہذا دودھ پلانے والی ماں کی غذا کو متنوع اور مختلف ہونا چاہیے اور اسے ہر طرح کی غذا سے استفادہ کرنا چاہیے _ مختلف پھلوں ، سبزیوں اور دانوں کا گاہے بگاہے استعمال کرناچاہیے تا کہ وہ خود بھی تندرست رہیں او ان کا دودھ بھی بھر پور اور کامل رہے _

مائع او رآبدار غذائیں مفید ہیں _ ماں کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ صحیح اور اچھی غذا قیمتی ترین اور خوش مزہ ترین غذائیں ہیں بلکہ کامل غذا کے لیے ایک ایسا پروگرام بنایاجاسکتا ہے کہ جس میں غذا

-----------

1_ اعجاز خوراکیہا ص 258

۷۹

متنوع ہو ، کم خرچ بھی ، بھر پوربھی اور حفظان صحت کے مطابق بھی ہو _ اس سلسلے میں غذا شناسی کی کتابوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے _ جن میں سے ایک کتاب میں لکھا ہے :

ماہرین غذا دودھ پلانے والی عورتوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ ہر طرح کی غذا سے کچھ نہ کچھ استفادہ کرے خصوصا لوبیا ، چنے ، دودھ تازہ مکھن ، ناریل ، ذیتون ، اخروٹ ، بادام ، میٹھے اور رسیلے پھل مثلا خربوزہ ، گرما ، سردا اور نا شپاتی و غیر ہ ( 1)

اسلام نے بھی اس امر کی طرف تو جہ دی ہے کہ ماں کی غذا اس کے دودھ پر اثر انداز ہوتی ہے

اسی وجہ سے

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

اگر تم نے اپنے بچے کو دود ھ پلانے کے لیے کسی یہودی یا عیسائی عورت کا انتخاب کیا ہے تو انہیں شراب پینے اور سور کا گوشت کھا نے سے رو کو ( 2)

اگر ماں بیمار ہو جائے اور اسے دواکی ضرورت پیش آجائے تو اسے چاہیے کہ اس امر کی طر ف تو جہ رکھے کہ اس کی دوائیں اس کے دورھ پر بھی اثر کریں گی اور ممکن ہے بچے کی صحت وسلامتی کواس سے نقصان پہنچے ماں کو نہیں چاہیے کہ اپنے آپ یا غیر آگاہ افراد کے کہنے سے کوئی دوا استعمال کرے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ڈاکٹر کی طرف رجوع کرغ اور اسے یہ بھی بتا ئے کہ میں بچے کو دودھ پلارہی ہوں _

---------

1_ اعجاز خوراکیہا ص 251 تا ص 256

2_ مستدرک جلد 2 ص 224

۸۰