آئین تربیت

آئین تربیت21%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125343 / ڈاؤنلوڈ: 7173
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

اسقاط حمل

اسلام کے نقطہ نظر سے عورت اور مرد کی باہمی رضامندی سے حمل ٹھرنے کو روکنے میںکوئی مضائقہ نہیں ہے اگر بیوی اور شوہر اولاد کی خواہش نہ رکھتے ہوں تو پھر وہ ضرر گولیوں، ٹیکوں یا انزال وغیرہ کے ذریعے حمل ٹھہرنے کو روک سکتے ہیں _ البتہ بچے کی پیدائشے کو روکنا اسلام کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہے _ کیونکہ اسلام کی خواہش ہے کہ مسلمانوں کی نسل جتنی بھی ہوسکے پھولے پھلے _ لیکن بہر حال ایسا کرنا حرام نہیں ہے لیکن جب نر او ر مادہ سیل ترکیب پاکر عورت کے رحم میں ٹھہر جائیں اور ایک زندہ موجود وجود میں آجائے تو وہ اسلام کی نظر میں محترم ہے اورزندگی کا حق رکھتا ہے _ و ہ نیا موجود اگر چہ بہت چھوٹا ہی کیوں نہ ہو صلاحیت کے اعتبار سے انسان ہے ، وہ ایسا موجود زندہ ہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ اور حتمی طور پر غیر معمولی طریقے سے کمالات انسانی کی طرف رواں دواں ہے _ وہ ننھا منا سا موجود جو کہ اتنی غیر معمولی استعداد رکھتا ہے اپنی مہربان ماں سے امید رکھتا ہے کہ وہ اس کے لیے پر امن ماحول فراہم کرے گی تا کہ وہ پرورش پاکر ایک کامل انسان بن سکے _ اگر اس بالیقات اور باشرف وجود کو تونے ساقط کردیا اور اسے قتل کردیا تو تم قاتل قرار پاؤگی اور اس برے عمل کے ارتکاب کی وجہ سے قیامت کے دن تمہاری بازپرس کی جائے گی _

دین مقدس اسلام کہ جو تمام لوگوں کے حقوق کا نگہبان ہے اس نے اسقاط حمل اور اولاد کشی کو کلّی طور پر حرام قراردیا ہے _ اسحان بن عمّار کہتے ہیں کہ میں نے حضر ت موسی (ع) بن جعفر (ع) کی خدمت ہیں عرض کیا کہ وہ عورت جو حاملہ ہونے سے ڈرتی ہے کیا آپ اسے اجازت دیتے ہیں کہ

۶۱

رہ دراکے ذریعے حمل گرادے _ آپ (ع) نے فرمایا:

نہیں میں ہرگز اس چیز کی اجازت نہیں دیتا _

راوی نے پھر کہا : ابتداء دور حمل کہ جب ابھی نطفہ ہوتا ہے ، اس وقت کے لیے کیا حکم ہے ؟

فرمایا:انسان کی خلقت کا آےاز اسی نطفے سے ہوتا ہے _ (۱)

اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے : و اذا الموء دة سئلت _ بای ذنب قتلت

یعنی _ قیامت کے دن ماں باپ سے پوچھا جائے گا کہ تم نے کس جرم میں اپنے بے گناہ بچے کو مارڈالا ؟(تکویر _۸،۹)

اسقاط حمل نہایت برا عمل ہے کہ جس سے اسلام نے روکا ہے _ علاوہ ازیں یہ کام ماں کے جسم و جاں کے لیے بھی باعث ضرر ہے _ ڈاکٹر پاک ناد نے اسقاط حمل کے بارے میں منعقدہ ایک کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

... یہ ثابت ہواہے کہ اسقاط حمل اوسط عمر میں کمی کردیتا ہے نیز سائنسی تحقیق کے مطابق اسقاط حمل عورتوں کے نفسیاتی اعتدال کو تباہ کردیتا ہے _ (۲)

۱۹۵۱ ء سے ۱۹۵۳ ء تک کے نیویارک کے اعداد و شمار کے مطابق ۲۶۰۱ عورتوں کی وفات اسقاط حمل کی وجہ سے ہوئی دس سال کے دوران میں اس تعدا میں ۱۲۶۱ ۴ کا اضافہ ہوا _ چکی میں ۱۹۶۳ ء کے ریکارڈ کے مطابق ۳۹ عورتوں کا انتقال اسقاط حمل کی وجہ سے ہوا _

---------

۱_ وسائل الشیعہ ، ج ۱۹، ص ۱۵

۲_ مکتب اسلام سال ۱۳ ، شمارہ ۸

۶۲

اسقاط حمل کا ایک بہانہ فقر و تنگ دستی بھی قراردیا جاتا ہے _ بعض نادان ماں باپ فقر و غربت کے بہانے سے اپنے بے گناہ بچوں کو ضائع کردیتےہیں _اس میں شک نہیں کہ فقر و تگ دستی ایک بڑی مصیبت ہے اور بہت سارے خاندان اس میں مبتلا ہیں اور اسے برداشت کرنا بہت مشکل کام ہے _ لیکن اسلام اسے بچہ ضائع کرنے کا عذر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں _ آخر بے گناہ بچے کا کیا قصور ہے کہ ماں باپ اسے حق حیات سے محروم کردیں _ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے :

ولا تقتلوا اولاد کم خشیة املاق نحن نرزقهم و ایاکم انّ قتلهم کان خطا کبیراً

اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو ہم ہیں کہ جو تمہیں اور انہیں روز دیتے ہیں _ اولاد کو قتل کرنا یقینا ایک بہت بڑا گناہ ہے _ بنی اسرائیل _آیہ ۳۱

اب جب کہ ایک انسان کا نطفہ ٹھر چکا ہے ماں با پ کو چاہیے کہ سختی کو برداشت کریں ممکن ہے یہی بچہ کل ایک ممتاز اور عظیم شخصیت بن جائے کہ ماں باپ اور معاشرہ جس کے وجود سے استفادہ کریں _ ممکن ہے اسب چے کے وجود کی برکت سے خاندان کی اقتصادی حالت بھی بہتر ہوجائے یا اس کے ذریعے سے فقر و تنگ دستی سے نجات مل جائے _

اس کے علاوہ بھی کئی بہانے پیش کئے جاتے ہیں _ مثلاً گھر سے باہر کی مشغولیات ، دفتر کی مصروفیات یا بچوں کی کثرت و غیرہ لیکن یہ ایسے عذر نہیں ہیں کہ ان کی وجہ سے شریعت یا عقل اس برے عمل کو جائز قراردے دے _

اسقاط حمل نہ یہ کہ اسلام کی نظر میں ایک برا اور حرام عمل ہے بلکہ اس بڑے گناہ کے لیے کفارہ بھی مقرر کیا گیا ہے کہ جو جنین کی عمر کے اختلاف کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے _

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں اگر ساقط شدہ بچہ نطفہ ہواتو اس کا خون بہسونے کے بیس دینا رہے، اگر علقہ اور لوتھڑا ہوتو سونے کے چالیس دینار، اگر مضغہ اور گوشت کی حد تک پہنچ چکا ہوتوسونے کے ساتھ دینار، اگر اس میں ہڈی بن گئی ہو تو سونے کی اسّی دینار،

۶۳

اگر وہ انسان کی صورت اختیار کر چکا ہو تو سونے کے سودینار اور اگر اس میں روح بھی پیدا ہوچکی ہو تو اس کی دیت ایک کامل انسان کی دیت ہوگی _ (۱) خانم افسر الملوک عاملی نے اس بارے میں ایک خوبصورت نظم کہی ہے:

بخواب آمد مرا طفل جنینی-------------------------------- بگو ماد رخطا از من چہ دیدی

بگفتا مادرم را گر بہ بینی----------------------------------- کہ بہ جرمم بہ خونم درکشیدی

درونت کودکی آرام بودم----------------------------------- بخونم چنگ و دندان تیز کردی

کجا محکوم برا عدام بودم؟----------------------------------- نہ خون دامان خود، لبریز کردی

بدم تازہ رسیدہ میہمانت

نہ آسیبی رسید از من بجانت

بہ مہمان بایدت مہمان نوازی

نہ بیرحمانہ اش نابودسازی

تو فکر خرج و برجم را نمودی

زجسم کو چکی جان در ربودی

مرا روزی بہمرہ بود مادر

ولی افسوس ننمودی تو باور

تو گردش را بہ من ترجیح دادی

اساس ظلم در عالم نہادی

------------

۱_ وسائل الشیعہ ج ۱۹ ص ۱۶۹

۶۴

امید کودکان بر مام باشد----------------------------------------- امید بودردیت را ببینم

چو مادر باشدش آرام باشد--------------------------------------- گلی از گلش حسنت بچینم

ولی میخواست پستانت زنت چنگ----------------------------------- دلم می خواست از شیرت بنوشم

غمت بیرون نمایم از دل تنگ-------------------------------------- صدای مادرم آید بگوشم

امیدم بود لبخندم ببینی------------------------------------------- امیدم بددبستانم فرستی

کنار تختخوابم خوش نشینی------------------------------------------- دھی تعلیم ، درس حق پرستی

بیایم از دردوشادت نمایم

سردو کودکان بہرت سرایم

امیدم بودگروم من جوانی

زمان پیریت قدرم بدانی

زمان پیریت غم خوار باشم

بہر کاری برایت یادباشم

من اینک روح پاکم در جنان است

مکانم در جوار حوریان است

کنون کن توبہ ،استغفار ، شاید

خدای مہربان رحمت نماید

تمنّا دارد و افسر از توانی

۶۵

پیامم را بہ مادر ہا رسانی (۱)

نظم کا ترجمہ :

چھوٹا سا سقط شدہ بچہ میرے خواب میں آیا اور بولا میری ماں کو دیکھو تو اس سے کہو

امّی تو نے میری کیا خطا دیکھی تھی کہ بے جرم ہی تو نے میرا خون بہادیا _

میں تو بچپن میں آرام سے رہتا تھا میرے قتل کا حکم کیسے سرزد ہوگیا _

میرے خون پر تونے اپنے پنجے اور دانت تیز کئے _ اور اپنے دامن کو میرے خون سے آلودہ کرلیا _

میں ابھی تیرے پاس تازہ مہمان آیا تھا اور مجھ سے ابھی آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا _ چاہیے کہ آنے والے مہمان کی مہمان نوازی کی جائے نہ کے بے رحمی سے اس کا کام تمام کردیا جائے _

تجھے میرے بارے میں خرچ کی فکر میں تھی لہذا تو نے میرے ننھے سے جسم سے جان نکال دی _

ماں میں تو اپنی روزی ساتھ لے کر آیا تھا لیکن افسوس کہ تجھے اس کا یقین نہ آیا _

تو نے گھومنے پھر نے کو مجھ پر ترجیح دی او ردنیا میں ظلم کی بنیاد ڈالی _

بچوں کی امید توماں ہی ہوتی ہے _ اور جب ماں کے پاس ہو تو وہ سکھ چین سے ہوتے ہیں _مجھے تمنا تھی کہ میں تیرے چہرے کو دیکھوں اور میں بھی تیرے گلشن حسن سے ایک پھول چنوں _میرا دل چاہتا تھا کہ میںتیرے پستان سے دودھ پیوں اور یوں تیرے دل کا غم دور کروں _ میر ی آرزو تھی کہ تیرا دودھ پیوں اور تیری آواز میرے کانوں میں پڑے _آرزو تھی کہ تو مجھے مدر بھیجتی ، مجھے تعلیم دیتی اور حق پرستی کا درس پڑھاتی _میں گھر آتا اور تجھے خوش کرتا اور بچوں والے گیت تجھے سناتا _

--------

۱_ مجلہ مکتب اسلام سال ۱۶_شمارہ ۱۲

۶۶

خیا ل تھا کہ جب میں جوان ہوجاؤں گا تو پھر تجھے اپنے بڑھاپے میںمیری قدر معلوم ہوتی _ تیرے بڑھاپے میں میں تیرا غم خوار ہوتے اور ہر کام میں تیرا مددگار بنتا _ میں کہ ایک پاک روح بن کر اب جنت میں ہوں اور میرا مقام یہاں حوروں کے جوار میں ہے اب تو توبہ اور استغفار کر کہ شاید خدائے مہربان اپنی رحمت کرے _

اے افسر سیری تجھ سے یہ تمنا ہے کہ تو میرا یہ پیغام تمام ماؤں تک پہنچادے _

۶۷

پیدائیش کی مشکلات

بچہ عموما رحم مادر میں نو ماہ اور دس دن درہتا ہے_ ولادت سے_ ولادت سے پہلے کی زندگی نہایت حساس اور پر خطر ہوتی ہے کیوں کہ بچہ کا مستقبل اسی سے وابستہ ہو تا ہے _ بچہ اس عرصے مین ایسے محیط میں زندگی گزار تاہے کہ جس کا نظم و ننسق اس کے اپنے ہاتےھ میں نہیں ہوتا اور وہ دسیوں قسم کے جسمانی اور روحانی خطروں میں گھرا ہو تا ہے اور خود انہیں دور کرنے کی اس میں طاقت نہیں ہوتی جب اس مرحلے سے جان سالم لے کر آجائے اور نو ماہ کی خط ناک مسافرت کو تمام کربیٹھے تو اب ناچار ہے کہ ایک اور دشوار مرحلے کا آغاز کرے اور یہ مرحلہ پیدائشے کا ہے _ بچے کی پیدائشے کا مرحلہ ایسا سادہ او رمعمولی سا نہیں بلکہ نہایت دشوار اور حساس ہے _

بچہ نو ماہ اتنا بڑا ہو جاتا ہے ، خاص طور پر دیگر اعضاء کی نسبت اس کا سر بڑ ا ہو چکا ہو تا ہے کہ اس اسے ناچار ایک نئے سخت مرحلے سے گزر ناہی ہوتا ہے _ اس تنگ مقام تولد سے باہر آنا انسان کی پوری زندگی میں انجام پانے والے کسی بھی سفر سے خطر ناک تر ہے _ ممکن ہے بچہ پس جائے یا اس کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے _ ممکن ہے اس کی نازک اور ظریف ہڈیاں کہ جو ابھی با ہم اچھی طرح ملی نہیں ہو تیں ، ان پر دباؤ پڑ جائے جس سے بچے کے اعصاب اور مغز کو نقصان پہنچے _

ایک ماہر لکھتے ہیں :

پیدائشے کا مرحلہ ممکن ہے کہ بچے میں دائمی لیکن غیر مرئی قسم کے نفسیاتی نقائص پیدا ہونے کا سب بنے _ نفسیاتی بیماریوں کے معالجین کے نزدیک پیدائشے کے عمل کو انسان کی پوری زندگی کیماہیت کے لیے ایک مؤثر عامل شمار ہوتا ہے ان ماہرین

۶۸

کی نظر میں پیدائشے ایک انقلابی تبدیلی کا نام ہے کہ جو بچے کے ماحول اور زندگی مین پیدا ہوتی ہے اور اچانک وہ خاص قسم کی آسودگی اور آرام جو جنین کی زندگی میں اسے حاصل ہوتا ہے و ہ ختم ہو جاتا ہے _ ان کی نظر میں پیدائشے کے موقع پر خوف ارو اضطراب انسان کی نفسیات کاحصہ بن جاتا ہے اور انسان کی آئندہ زندگی ہمیشہ نا معلوم یادوں کے آزار کے تحت گزرتی ہے _ زندگی کا ایک پر آرام دور جنین کا اور پھر مستقل زندگی کی طرف نہایت مشکل عالم میں ورود ( ۱)

جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو عموما چند گھنٹے وہ ایک دباؤ کے تحت رہتا ہے اور سب سے زیادہ مشکل سے اس کا سر دو چار ہو تا ہے کہ جو اس کے بدن کے تمام تر اعضاء میں سے سب سے بڑا ہوتا ہغ اگر پیدائشے غیر معمولی طریقے سے ہو تو دنیا میں آنے کے مرحلے اور بھی سخت تر ہو جاتے ہیں اور بچہ عام حالات کی مشکلات برداشت کرنے کے علاوہ میکانیاتی آلات کی مصیبت بھی برداشت کرتا ہے اور زیادہ تر بچوں کا ضائع ہو جا نا یا پیدائشے کے تھوڑی ہی مدت بعدت ان کا مرجا نا ایسی ہی مصیبتوں اور مشکلوں کے باعث ہو تا ہے فالج اور دیوانگی و غیرہ جیسے ہدنی اور دہنی نقائص جو بچوں میں دکھائی دیتے ہیں عموما ایسی ہی مصیبتوں کا باعث ہوتے ہیں جو دنیا میں آتے وقت آن پروارد ہوتی ہیں (۲)

بنا بریں پیدائشے کا مر حلہ ایک معمولی اور غیر اہم مرحلہ نہیں بلکہ ایک دشوار اور قابل تو جہ عمل ہے کیونکہ ز چہ اور بچہ کی سلامتی اس سے البستہ ہوتی ہے _ ٹھوڑی سے غفات یا سہل انگاری ماں یا بچے کے لیے نا قابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتی ہے _ یہاں تک کہ ممکن ہے اس مرحلے میں ان کی جان چلی جائی لیکن آج کل کی حالت میں جب مرا کز پیدائشے ، ڈاکٹر اور دواز یادہ تر لوگوں کی دسترس

----------

۱_ بیو گرافی پیش از تولد ص ۱۶۰

۲_ روانشناسی کودک ص ۱۹۳

۶۹

میں ہے تو احتمالی خطرات سے بچا جا سکتا ہے _لہذا حاملہ خواتین کو نصیحت کی جاتی ہے کہ اگر وہ ڈاکٹر یا مرکز پیدائشے تک دسترس رکھتی ہیں تو وقت سے پہلے ان کی طرف رجوع کریں اور بچے کی پیدائشے کے وقت کے بارے میں معلومات حاصل کریں او رجب ضروری ہو تو فورا مرکز پیدائشے کی طرف رجوغ کریں چونکہ یہ مراکز گھر سے ہر لحاظ سے بہتر ہوتے ہیں _ کیونکہ اورلا تو و ہاں ڈاکٹر ، دوا اور نرس موجود ہیں اور ضروری موقع پر وہ و چہ کی فوری مار دکر سکتے ہیں اور اگر پیدائشے میں کوئی غیر معمولی مسئلہ پیش آجائے تو ہر لحاظ سے وسائل موجود ہوتے ہیں اور جلدی سے اس کی مد د کی جاسکتی ہے _ لیکن اگر وہ گھر میں ہو اور پیدائشے میں کوئی غیر معمولی مسئلہ پیش آجائے تو اسے ڈاکٹر یا مرکز پیدائشے تک لے جانے میں ممکن ہے کہ زچہ اور بچہ کی جان خطر ے میں پڑ جائے _

دوسرا یہ کہ مرکز پیدائشے کے کمر ے صحت و سلامتی کے نقطہ نظر سے گھر کے کمروں سے بہتر ہوتے ہیں اور عورت و ہاں زیادہ آرام کرسکتی ہے _

تیسرا یہ کہ وہاں پر رشتے داروں اور ہمسایہ عورتوں کا پیدائشےی عمل میں دخل نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کی مختلف قسم کی آراء ہوتی ہیں جب کہ ان کی وکالت عموماً علم و آگہی کی بناء نہیں ہوتی لہذا ضرررساں ہوسکتی ہے _

مرد کی بھی اص ضمن میں بھاری ذمہ داری ہوتی ہے _ شرعاً اور عقلاً اس کافریضہ ہے کہ ان حسّاس اور خطرناک لمحات میں اپنی بیوی کی مدد کرے اور احتمالی خطرات سے اسے اور بچے کو بچانے کی کوشش کرے _ اگر اس کی غفلت یا سستی کی وجہ سے بیوی یا بچہ تلف ہوجائے یا پھر انہیں جسمانی یا روحانی لحاظ سے نقصان پہنچے تو ایسا بے انصاف شوہر شریعت اور ضمیر کی عدالت میں مجرم قرار پائے گا اور روز قیامت اس سے بازپرس کی جائے گی _ علاوہ ازیں اس جہاں میں بھی وہ اپنے کام کا نتیجہ بھگتے گا اور اگر آج سہل انگاری یا کنجوسی یا کسی اور بہانے سے بیچاری بیوی کی مدد نہیں کرے گا تو بعد میں مجبور ہوگا کہ اس کے مقابلے میں سوگنا خرچ کرے لیکن پھر بھی زندگی کا پہلا سکون واپس نہیں لایا جا سکے البتہ اگر ڈاکٹر اور پیدائشے گا ہ تک رسائی نہ ہو تو پھر گھر میں ہی یہ کام ان دائیوں کے ذریعے انجام پانا چاہیے کہ جو اس کام میں مہارت رکھتی ہیں_

۷۰

اس ضمن میں مندرجہ ذیل ہدایات کی طرف توجہ کرنی چاہیے _

۱_ پیدائشے کے کمرے کا درجہ حرارت معتدل اور طبیعی ہونا چاہیے اور سرد نہیں ہونا چاہیے کیونکہ زبردست دباؤ، درد اور کئی گھنٹوں کی زحمت کی وجہ سے عورت کی طبیعت عام حالات سے مختلف ہوجاتی ہے اسے پسینے آتے ہیں اور بچے کے لیے بھی ٹھنڈلگنے اور بیماری کا خطرہ ہوتا ہے ، جب بچے کی پیدائشے کا دشوار گزار مرحلہ گزر جائے تو اگر کمرے کی ہوا کا درجہ حرارت سرد ہو تو احتمال قوی ہے کہ زچہ کو ٹھنڈلگ جائے اور اس کی وجہ سے کئی بیماریاں پیدا ہوجائیں _ علاوہ ازیں ٹھنڈی ہوا نو مولود کے لیے بھی نہایت خطرناک ہے کیونکہ پچہ رحم مادر میں طبیعی حرارت کے ماحول میں رہا ہوتا ہے کہ جس کا درجہ حرارت تقریباً۳۷۶۵ سینٹی گریڈہوتا ہے _ لیکن جب وہ دنیا میں آتا ہے تو کمرے کا درجہ حرارت عموماً اتنا نہیں ہوتا اس وجہ سے نومولود کو جو بہت ناتوان ہوتا ہے اوراس میں یہ طاقت نہیں ہوتی کہ اپنے بدن کے لیے درکار حرارت اور توانائی مہیا کرسکے، اسے ٹھنڈ لگ جانے کا اور بیماری میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے اور ان نومولود گان کامعالجہ بھی نہایت مشکل ہوتا ہے _ اس طرح بیمار ہونے والے زیادہ تر بچے مرجاتے ہیں _

۲_ محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کمرے کی ہوا مٹی کے تیل یا کوئلے کے جلنے کی وجہ سے دھوئیں سے مسموم اور آلودہ نہ ہوجائے کیونکہ ایسی مسموم ہوا میں سانس لینا زچہ اور بچہ ہر دو کے لئے ضرر رساں ہے _

۳_ بہتر ہے کہ پیدائشے کے کمرے میں حتی المقدور خلوت ہو _ غیر متعلق عورتوں کو کمرے سے باہر کردیں کیونکہ ایسی خواتین علاوہ اس کے کہ ان کی ضرورت نہیں ہوتی وہ زچہ کے لیے ناراضی اور شرمندگی کا باعث بنتی ہیں _ کمرے کی ہوا کو کثیف کرتی ہیں علاوہ ازیں پیدائشے کے وقت زچہ کی شرم گاہ کی طرف دیگر عورتوں کا دیکھنا حرام ہے اوروہ اس عالم میں اپنی سترپوشی نہیں کرسکتی _

۷۱

امام سجاد علیہ السلام نے ایک موقع پر جب کہ ایک حاملہ عورت کاوضع حمل ہونے والا تھا تو فرمایا عورتوں کو باہر نکال دیں کہ کہیں زچہ کی شرم گاہ کی طرف نہ دیکھیں _ (۱)

حاملہ عورت اگر اپنی ذمہ داری پر عمل کرے تو اسے چاہیے کہ پوری احتیاط کے ساتھ اپنے حمل کے زمانے کو اختتام تک پہنچائے اور ایک سالم اور بے عیب بچہ معاشرے کو سونپے اس نے ایک بہت ہی قیمتی کا م انجام دیا _ ایک صحیح اور بے نقص انسان کو وجود بخشا ہے کہ جو ہمیشہ اپنی ماں کا مرہون حق رہے گا _ اس کے علاوہ اس نے انسانی معاشرے کی بھی خدمت انجام دی ہے کہ اسے ایک بے نقص اور قیمتی انسان عطا کیا ہے ممکن ہے اس کا وجود معاشرے کے لیے خیرات و برکات کا موجب قرار پانے اور یہ عظیم خدمت کے نزدیک بھی بے اجر نہیں رہے گی _ ایک روز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جہاد کی فضیلت کے بارے میں گفتگو فرما رہے تھے _ ایک عورت نے عرض کی یا رسول اللہ کیا عورتیں جہاد کی فضیلت سے محروم ہیں _ پیغمبر (ص) نے فرمایا: نہیں عورت بھی جہاد کا ثواب حاصل کر سکتی ہے _ جس وقت عورت حاملہ ہوتی ہے اور اس کے بعد اس کا وضع حمل ہوتا ہے اور جب بچے کو دودھ دیتی ہے یہاں تک کہ بچہ دودھ پینا چھوڑ دیتا ہے تو اس ساری مدّت میں عورت اس مرد کی طرح ہے جو میدان کارزار میں جہاد کررہا ہو _ اگر اس عرصے میں عورت فوت ہوجائے تو بالکل ایک شہید کے مقام پر ہے _ (۲)

----------

۱_ وسائل الشیعہ _ جلد ۱۰ ص ۱۱۹

۲_ مکارم الاخلاق _ج ۱ ، ص ۲۶۸

۷۲

ولادت کے بعد

بچہ پیدا ہوتا ہے تو ہوا اس کے پیپھڑوں میں داخل ہوجاتی ہے _ اس سے وہ سانس لینا شروع کرتا ہے عمل تنفسّ کے آغاز کے بعدو وہ زندگی میں پہلی مرتبہ روتا ہے _ بچے کا یہ رونا اس ہوا کے ردّ عمل کے طور پر ہوتا ہے کہ جو اس کے پھیپھڑوں میں داخل ہوتی ہے _ اگر وہ سانس نہ لے اورنہ روئے تو اسے پاؤں سے پکڑ کر الٹا کرکے اس کے سرپر آہستہ آہستہ ہاتھ مارتے ہیں تا کہ وہ سانس لے _ پھر اس کے بند ناف کو باندھ دیتے ہیں اور بچّے کے بدن سے ابھر ہوئی ناف کو جراثیم سے پاک کسی چیز سے کاٹ دیتے ہیں اور ناف کو بھی جراثیم سے پاک کرتے ہیں _ اس کے بعد بچے کو صابن کے ساتھ نیم گرم پانی سے نہلا کر لباس پہنادیتے ہیں _ کچھ دیر تک بچے کو غذا کی ضرورت نہیں ہوتی _ پھر نیم گرم پانی میں چینی ملا کر اس کے منہ میں میں قطرہ قطرہ ڈالتے ہیں _

بچہ عموماً حالت خواب میں رہتا ہے _ اسے استراحت کی بہت ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کی زندگی کی داخلی و خارجی حالت بالکل تبدیل ہوچکی ہوتی ہے _ پہلے وہ ماں کی غذا ہی سے استفادہ کرتا تھا لیکن اب اس کا اپنا نظام ہضم کام کرنا شروع کردیتا ہے_

پہلے بچہ اس آکسیجن سے استفادہ کرتا تھا جو ماں کے تنفس سے حاصل ہوتی تھی لیکن اب اس کا اپنا نظام تنفس کام کرنا شروع کردیتا ہے اور اس کا اپنا نظام اس کے لیے آکسیجن حاصل کرتا ہے اور بدن کے لیے نقصان دہ ہوا خارج کرتا ہے _ اس کی داخلی کیفیت میں بہت بڑی تبدیلی واقع ہوچکی ہوتی ہے _ نیز اس کی خارجی حالت اور ماحول بھی بدل چکا ہوتا ہے _

۷۳

پہلے وہ رحم مادر میں تھا جہاں درجہ حرارت ۳۷۶۵ درجے سنٹی گریڈ تھا لیکن اب وہ اس ماحول میں ہوتا ہے کہ جس کا درجہ حرارت مستقل نہیں ہے پیدائشے کے وقت بھی اس کے جسم و روح پر مختلف قسم کا دباؤپڑتا ہے جس کی تلافی کی ضرورت ہوتی ہے _ اس عالم میں بچہ ایک ایسے بیمار کے مانند ہوتا ہے جو عمل جرّاحی کے بعد ابھی ابھی آپریشن تھیڑسے باہر آیا ہو جسے ہر چیز سے زیادہ استراحت کی ضرورت ہوتی ہے _ وہ سانچے میں ڈھل کے نکلی ہوئی نئی نئی ایسی مشینری ہے کہ جس کی دیکھ بھال اور خصوصی توجہ ضروری ہے _ اس لحاظ سے بچے کے لیے جو بہترین کام انجام دیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے لیے آرام و ہ ماحول فراہم کیا جائے تا کہ وہ آرام کرسکے _ جس سخت عمل سے گزارہے اس کی تلافی کرسکے اور اپنی زندگی کو نئے حالات کے مطابق ڈھال سکے _

ڈاکٹر جلالی لکھتے ہیں _

بچے کو ہنسانا، اسے مستقل چومتے رہنا اور ہر وقت اسے اٹھا کر دوسروں کو دکھانا اور اس کے کپڑے تبیدل کرتے رہنا تا کہ وہ خوبصورت دکھائی دے یہ سب ایسے نامطلوب کام ہیں کہ جن سے اجتناب کرنا چاہیے بچہ کھیل کا سامان نہیں ہے اسے پھلنے پھولنے کے لیے آرام وہ ماحول کی ضرورت ہے _ ایسا کام نہیں کرنا چاہیے کہ اس کے آرام کی داخلی حالت درہم برہم ہوجائے _ اس کے سامنے اونچی آواز میں نہیں بولنا چاہیے _ اسے کبھی اونچا ، کبھی نیچا نہیں کرنا چاہیے _ اسی طرح اسے چومنا چاٹنا ، اس پہ دباؤ ڈالنا یہ سب چیزیں اس کے منظم رشد اور آرام پر اثر انداز ہوتی ہیں _ (۱)

ان کو بھی استراحت اور تقویت کی شدید ضرورت ہوتی ہے دوران حمل نو ماہ کے عرصے میں اس نے بہت مشکلات اٹھائی ہوتی ہیں وہ بالکل ضعیف اور ناتوان ہوچکی ہوتی ہے _ خاص طور پر وضع حمل کے دوران وہ جس جا نگل مرحلے سے گزری ہوتی ہے اور جس طرح

----------

۱_ روانشناسی کودک ص ۲۲۳

۷۴

سے اس کا خون بہا ہوتا ہے اس کا تن بدن خستہ حال ہوچکا ہوتا ہے _ اس عالم میں مہربان شوہر پر لازم ہے کہ وہ اس کے لیے مکمل آرام کے اسباب فراہم کرے اور غذا کے ذریعے سے اس کی قوت بحال کرے _ اگر ڈاکٹر اور دوا کی ضرورت ہو تو پوری طرح سے معالجہ کرے تا کہ اس کی جسمانی ناتوانی دور ہوسکے اور صحت معمول پر آسکے اور پہلے کی سی سلامتی اور شادابی پلٹ سکے _ تا کہ وہ اپنے سالم جسم اور شاداب روح سے پھر سے زندگی بسر کرنے لگے اور اپنے بچوں اور شوہر کی خدمت کر سکے _ اگر شوہر نے اس امر میں کوتاہی کی تو اس کی شریکہ حیات رنجور اور ناتوان رہ جائے گی اور اس کا نتیجہ بعد میں شوہر کو خود بھگتنا پڑے گا _

۷۵

ماں کا دودھ بہترین غذا ہے

ماں کا دودھ بچے کے لیے بہترین ، کامل ترین اور سالم ترین غذا ہے اور کئی پہلوؤں سے ہر غذا پر ترجیح رکھتا ہے _ مثلاً

۱_ غذائی مواد کی کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے ماں کا دودھ بچے کی مشینری سے بالکل ہم آہنگ ہوتا ہے کیونکہ بچہ نو ماہ رحم مادر میں رہا ہوتا ہے اور ماں کی داخلی مشینری سے تیارہ شدہ غذا سے استفادہ کرنا اس کی عادت ہوچکی ہوتی ہے _ اب وہی مواد دودھ کی صورت میں بچے کی غذا بن کے آتا ہے _

۲_ مال کا دودھ چونکہ طبعی طور پر اور خام حالت میں استعمال ہوتا ہے اس لیے اپنی غذائیت برقرار رکھتا ہے_ جب کہ اس کے برخلاف گائے و غیرہ کے دودھ کوابالاجاتاہے اور پھر استعمال کیا جاتا ہے _ جس سے اس کے اندرموجود بعض غذائی مواد ضائع ہوچکا ہوتاہے_

۳ _بچے کی صحت کے اعتبار سے ماں کا دودھ زیادہ قابل اعتبار ہے اور خارجی جراثیم سے آلودہ نہیں ہوتا کیونکہ ماں کے پستان سے سیدھا بچے کے منہ میں چلا جاتاہے اس کے برخلاف دوسرے دودھ ممکن ہے مختلف برتنوں اور ہاتھوں کے جراثیم سے آلودہ ہوجائیں _

۴_ ماں کا دودھ ہمیشہ تازہ بہ تازہ استعمال ہوتا ہے _ جب کہ کوئی دوسرا دودھ ممکن ہے

۷۶

۵_ ماں کے دودھ میں ملاوٹ کی گنجائشے نہیں ہوتی _ جب کہ دوسرے دودھ میں اس کا امکان موجود ہے _

۶_ ماں کا دودھ بیماریوں کے حامل جراثیم سے آلودہ نہیں ہوتا اور بچے کی صحت و سلامتی کے لیے زیادہ محفوظ ہوتا ہے _ جب کہ کوئی دوسرا دودھ ممکن ہے بعض جراثیم سے آلودہ ہو جو بچے کوبھی مبتلا اور آلودہ کردیں _

اسہال شیر ، تپ مالت اورسل گاو جیسی بیماریوں دوسرے دودھ ہی سے پیدا ہوتی ہیں _ ان اور دیگر وجوہات کی بناپر ماں کا دودھ بچے کے لیے یقینی طور پر بہترین اور سالم ترین غذا ہے جو بچے ماں کا دودھ پی کر پلتے ہیں وہ دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ تندرست ہوتے ہیں اور بیماریوں کے مقابلے کی زیادہ طاقت رکھتے ہیں او رایسے بچوں میں شرح اموات بھی کمتر ہے _

ماں اگر بچے کو دودھ دے تو ایک فائدہ بھی ہے کہ عمل حیض میں زیادہ تر تاخیر ہوجاتی ہے اور نتیجے کے طور پر دیر سے حاملہ ہوتی ہے _

دین اسلام نے بھی ماں کے دودھ کو بچے کے لیے بہترین غذا قرار دیا ہے اور اسے بچے کا ایک فطری حق گردانا ہے _

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

ما من لبن رضع به الصبی اعظم برکته علیه من لبن امّه

بچے کے لیے کوئی دودھ ماں کے دودھ سے بڑھ کر بہتر نہیں ہے _ (۱)

ماں کا دودھ اسلام کی نظر میں اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ ماں کی تشویق کے لئے اس کا بہت زیادہ ثواب مقرر کیا گیا ہے _

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: فاذا ارضعت کان لها بکل محّته کعدل عتق محرّر من ولد

-----------

۱_ وسائل الشیعہ ج ۱۵ ص ۱۷۵_

۷۷

اسماعیل فاذا فرغت من رضاعه ضرب ملک کریم علی جنبها و قال : استفانی العلم فقد غفر لک

یعنی ہر عورت جو اپنے بچے کو دودھ پلائے گی بچہ جتنی مرتبہ بھی اس کے پستان سے دودھ پیے گا اللہ تعالی ہر مرتبہ اسے اولاد اسماعیل میں سے غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا کرے گا جس وقت دودھ پلانے کی مدت ختم ہوگی تو ایک مقرر فرشتہ اس کے پہلو پر ہاتھ رکھ کے کہے گا : زندگی کو نئے سرے سے شروع کر کیوں کہ اللہ نہ تیرے پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں _ (۱)

میڈیکل کا ایک بین الاقوامی سمپوزیم کہ جو شیراز کی یونیورسٹی میں منعقد ہوا اس میں تمام تر ماہرین کی مستتر ارائے یہ تھی کہ کوئی غذا بھی اور وٹامن کا حمل کوئی اور مواد بھی شیر مادر کی جگہ نہیں لے سکتا _ ڈاکٹر سیمین واقفی کہتی ہیں:

باعث افسوس ہے کہ بہت سی جوان مائیں مغربی ماؤن کی تقلید میں کوشش کرتی ہیں کہ اپنے نو نہالوں کو خشک دودھ او ردیگر خاص طرح کی مصنوعی غذائیں دیں اور یہ بچپن میں بچے کی صحیح غذائی ضروریات کے بالکل مخالف ہے جوان مائیں یہ جان لیں کہ کوئی مصنوعی دودھ بھی ماں کے دودھ کے برابر نہیں ہوسکتا _ وہ اپنے بچے کو اس بہترین غذا سے محروم نہ رکھیں کو جو طبیعی طور پر اس کے لئے تیار کی گئی ہے _ (۲)

ایک اور ماہر لکھتے ہیں :

شیر مادر ایک ایسی بے مثال غذا ہے کہ جو فطرت نے بچے کے لئے بنائی ہے اور کوئی غذا بھی اس کا بدل نہیں ہوسکتی _ لہذا حتی الامکان کوشش کی جانی چاہیے کہ بچے کو ماں کا دودھ پلایا جائے اور اگر ماں کا دودھ نہ آتا ہو تو اسے کوشش

---------

۱_وسائل الشیعہ _جلد ۱۵ ص ۱۷۵

۲_ بہداشت جسمی روانی کودک ص ۶۳

۷۸

کرنا چایہئے کہ اس بہت بڑے نقص کو مختلف اوردودھ لانے والی غذائیں کھا کر دور کرے _ (۱)

ذمہ دار اور آگاہ خواتین کہ جو اپنے بچوں کی صحت و سلامتی سے دلچسپی رکھتی ہیں اپنے عزیز بچوں کی اپنے دودھ کے ذریعے سے پرورش کریں اور انہیں اس عظیم نعمت الہی سے محروم نہ رکھیں کہ جس کا نظام اللہ تعالی نے ن کے لیے پہلے سے بنارکھا ہے _ سمجھدار خواتین ماں کی عظیم ذمہ داری سے آشنا ہوتی ہیں اور بچے کے جسم و جان پر دودھ کے اثر کو سمجھتی ہیں _ اسی وجہ سے وہ خوشی سے اپنے آپ کو بچے کی صحت و سلامتی کے لیے نثار کرتی ہیں اور انہیں شیر جان سے سیراب کرتی ہیں _ ایسی ہی خواتین کو ماں کا نام دیا جا سکتا ہے نہ ان بیوقوف اور خود غرض ماؤں کو کہ جن کا دودھ اترتاہو لیکن وہ طرح طرح کے بے جا بہانوں سے اپنے پستان کو خشک کرلیتی ہیں اور بے گناہ بچے کو خشک دودھ سے پالتے ہیں _ یہ خود غرض عورتیں اتنا بھی جذبہ ایثار نہیں رکھتیں کہ عزیز بچوں کی صحت و سلامتی کی خاطر اپنے آپ کو دودھ پلانے کی زحمت دیں _

علاوہ ازیں جو خواتین بغیر کسی عذر کے بچے کو دودھ نہیں پلاتیں ممکن ہے کہ وہ بعض جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوجائیں _ سرطان پستان ان خواتین میں زیادہ دیکھا گیا ہے کہ جو اپنے بچے کو دودھ نہیں پلاتیں _

اس مقام پر ضروری ہے کہ جو مائیں بچوں کو دودھ پلاتی ہیں انہیں متوجہ کیا جائے کہ ماں کی غذا کی کیفیت دودھ کی کیفیت پر اثر انداز ہوتی ہے _ دودھ ماں کی غذا سے تیار ہوتا ہے _ لہذا دودھ پلانے والی ماں کی غذا کو متنوع اور مختلف ہونا چاہیے اور اسے ہر طرح کی غذا سے استفادہ کرنا چاہیے _ مختلف پھلوں ، سبزیوں اور دانوں کا گاہے بگاہے استعمال کرناچاہیے تا کہ وہ خود بھی تندرست رہیں او ان کا دودھ بھی بھر پور اور کامل رہے _

مائع او رآبدار غذائیں مفید ہیں _ ماں کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ صحیح اور اچھی غذا قیمتی ترین اور خوش مزہ ترین غذائیں ہیں بلکہ کامل غذا کے لیے ایک ایسا پروگرام بنایاجاسکتا ہے کہ جس میں غذا

-----------

۱_ اعجاز خوراکیہا ص ۲۵۸

۷۹

متنوع ہو ، کم خرچ بھی ، بھر پوربھی اور حفظان صحت کے مطابق بھی ہو _ اس سلسلے میں غذا شناسی کی کتابوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے _ جن میں سے ایک کتاب میں لکھا ہے :

ماہرین غذا دودھ پلانے والی عورتوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ ہر طرح کی غذا سے کچھ نہ کچھ استفادہ کرے خصوصا لوبیا ، چنے ، دودھ تازہ مکھن ، ناریل ، ذیتون ، اخروٹ ، بادام ، میٹھے اور رسیلے پھل مثلا خربوزہ ، گرما ، سردا اور نا شپاتی و غیر ہ ( ۱)

اسلام نے بھی اس امر کی طرف تو جہ دی ہے کہ ماں کی غذا اس کے دودھ پر اثر انداز ہوتی ہے

اسی وجہ سے

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

اگر تم نے اپنے بچے کو دود ھ پلانے کے لیے کسی یہودی یا عیسائی عورت کا انتخاب کیا ہے تو انہیں شراب پینے اور سور کا گوشت کھا نے سے رو کو ( ۲)

اگر ماں بیمار ہو جائے اور اسے دواکی ضرورت پیش آجائے تو اسے چاہیے کہ اس امر کی طر ف تو جہ رکھے کہ اس کی دوائیں اس کے دورھ پر بھی اثر کریں گی اور ممکن ہے بچے کی صحت وسلامتی کواس سے نقصان پہنچے ماں کو نہیں چاہیے کہ اپنے آپ یا غیر آگاہ افراد کے کہنے سے کوئی دوا استعمال کرے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ڈاکٹر کی طرف رجوع کرغ اور اسے یہ بھی بتا ئے کہ میں بچے کو دودھ پلارہی ہوں _

---------

۱_ اعجاز خوراکیہا ص ۲۵۱ تا ص ۲۵۶

۲_ مستدرک جلد ۲ ص ۲۲۴

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۸_الله تعالى كى مشيت اور ارادے كے مدمقابل ،پيغمبر (ص) كا كوئي مددگار اور دفاع كرنے والا نہيں ہے_

ثم لا تجدلك به علينا وكيل

۹_حسن بن محمد النوفلى يقول: قال سليمان: إرادته علمه، قال الرضا(ع): ما الدليل على أن إرادته علمه؟ وقد يعلم ما لا يريد ، أبداً وذلك قوله عزّوجلّ : ''أولئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك'' قال سليمان: فان الارادة القدرة قال الرضا ( ع ): و هو عزّوجلّ يقدر على ماه يريده أبداً ولا بدّمن ذالك لأنه قال تبارك وتعالى :''ولئن شئنا لنذهبنّ بالذى اوحينا اليك'' فلو كانت الإرادة هى القدرة كان قد أراد أن يذهب به لقدرته ..._(۱)

حسن بن محمد نوفلى كہتے ہيں : سليمان نے كہا الله تعالى كا ارادہ اس كے علم كا عين ہے _ امام رضا (ع) نے فرمايا: اس پر كيا دليل ہے كہ اس كا ارادہ اس كے علم كا عين ہے حالانكہ الله تعالى جس چيز كو جانتاہے اس كا ارادہ ہرگز نہيں كرتا اور يہ الله تعالى كاكلام ہے كہ وہ فرمارہا ہے:''ولئن شئنا لنذهبن بالذى اوحينا اليك'' _ سليمان نے كہا: پس ارادہ وہى قدرت ہے _ تو امام رضا (ع) نے فرمايا : يہ الله تعالى ہے كہ جس چيز پر قادر ہے ہرگز اس كا ارادہ نہيں كرتا _ پس ناچار اس بات كو قبول كرنا چاہئے چونكہ الله تعالى نے فرمايا :'' ولئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك '' _ پس اگر ارادہ وہى قدرت ہو تو جو پيغمبر (ص) پر وحى كيا وہ اللہ محو كرديتا چونكہ قادر تھا_

آنحضرت(ص) :آنحضرت (ص) پر وحى ۱، ۲، ۴;آنحضرت (ص) پر وحى كى محدوديت۵;آنحضرت(ص) كى نبوت۲; آنحضرت(ص) كے علم كى محدوديت ۵; آنحضرت (ص) كے علوم كا محوہونا۱;آنحضرت (ص) كے مقامات ۲; آنحضرت (ص) كے مددگار كا نہ ہونا ۸

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۹;اللہ تعالى كا علم ۵، ۹;اللہ تعالى كى قدرت ۱، ۹ ;اللہ تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۳;اللہ تعالى كى مشيت كا غالب ہونا ۸;اللہ تعالى كى مشيت كے آثار ۴;اللہ تعالى كى نعمات ۷;اللہ تعالى كے ارادہ كا حتمى ہونا ۳

انسان :انسانوں كا علم لدنى ۴

خلفت :خلقت كے اسرار۵

ذكر:مادى و سائل كے سرچشمہ كا ذكر ۶

____________________

۱)عيون الاخبار الرضا ج۱، ص ۱۷۹،۱۸۹ ح۱، ب۱۳_توحید صدوق ص۴۵۱، ، ۴۵۴، ح ۱،ب ۶۶_

۲۴۱

روايت : ۹

شكر :نعمت كا شكر ۷

علم :علم لدنى كا سرچشمہ ۴;علم لدنى كے زوال كا سرچشمہ ۴

مادى وسائل :مادى وسائل كا پائدار نہ ہونا ۶

نعمت :قرآن كا نعمت ہونا ۷

وحي:وحى كا سرچشمہ ۴

آیت ۸۷

( إِلاَّ رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيراً )

مگر يہ كہ آپ كے پروردگار كى مہربانى ہوجائے كہ اس كا فضل آپ پر بہت بڑا ہے (۸۷)

۱_الله تعالى كى رحمت ولطف،پيغمبر (ص) سے وحى ( حقائق اور بنيادى معارف) واپس لينے سے مانع ہے_

لئن شئنا لنذهبن إلّا رحمة من ربك

استثناء ممكن ہے كہ محذوف كلمہ يا كلام سے ہو مثلاً عبارت يوں ہو كہ جو كچھ تمہيں ديا سوائے رحمت كے كچھ نہ تھا _ لہذا ہم محو نہيں كريں گے_ يعنى'' لئن شئنا'' سے استدراك ہو اور عبارت يوں فرض ہوگي''ولكن لانشاء ذلك رحمة'' (ہم نے عطا كئے معارف كو تجھ پر رحمت كى بناء پر زائل نہيں كرنا چاہا )

۲_پيغمبر (ص) كے دل ميں وحى كے مفاہيم كو ثابت اور ہميشہ ركھنا ان پر الہى ربوبيت كا جلوہ ہے_

لئن شئنا لنذهبن بالذى اوحينا إلّا رحمة من ربك

۳_وحى كو ثابت ركھنا اور قرآنى مفاہيم كو باقى ركھنا بندوں پر الہى رحمت كا جلوہ ہے_لئن شئنا لنذهبن إلّا رحمة من ربك

۴_پيغمبر اكرم(ص) پر الله تعالى كا عظےم و وسيع فضل ورحمت_إن فضله كان عليك كبيرا

۵_الله تعالى كے نزديك پيغمبر اكرم (ص) كى خاص اہميت اور بلند وبالا مقام_أن فضله كان عليك كثيرا

۶_الله تعالى كا پيغمبر (ص) كے دل ميں وحى كے مفاہيم كو استحكام بخشے كے سلسلہ ميں ان پر احسان_

۲۴۲

ولئن شئنا لنذهبن أن فضله كان عليك كبيرا

۷_ پيغمبر اكرم(ص) كے ليے پروردگار عالم كى ربوبيت رحمت سے متصل ہے_الاّ رحمة من ربك

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر احسان ۶;آنحضرت (ص) پر رحمت ۴;آنحضرت (ص) پر فضل ۴،۷;آنحضرت (ص) پر وحي۱، ۲،۶;آنحضرت (ص) كاقرب ۵; آنحضرت (ص) كاقلب ۲، ۶; آنحضرت كا مربى ہونا ۲، ۷; آنحضرت (ص) كے مقامات ۵

الله تعالى :الله تعالى كا احسان ۶;اللہ تعالى كى ربوبيت ۷; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۲;اللہ تعالى كى رحمت۷;اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۱;اللہ تعالى كى رحمت كى علامات ۳;اللہ تعالى كے لطف كے آثار ۱

الله كا فضل:الله كے فضل كے شامل حال لوگ ۴

رحمت:رحمت كے شامل حال لوگ ۴، ۷

قرآن:قرآن كو ثابت ركھنا ۳

وحي:وحى كو ثابت ركھنا ۲، ۳، ۶;وحى كے محو سے مانع ۱

آیت ۸۸

( قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا القرآن لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً )

آپ كہہ ديجئے كہ اگر انسان اور جناب سب اس بات پر متفق ہوجائيں كہ اس قرآن كا مثل لے آئيں تو بھى نہيں لاسكتے چاہے سب ايك دوسرے كے مددگار اور پشت پناہ ہى كيوں نہ ہوجائيں (۸۸)

۱_قرآن كى مثل لانے سے جن وانس كى عاجزى كا اعلان كرنے كا پيغمبر (ص) كى ذمہ داري_

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

۲_ تمام مخاطبين قرآن كو (جن وانس) قرآن كے اعجاز كو آزمانے كى دعوت _

قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يا توا بمثل

۳_قرآن ايسے حقائق' تعليمات اور معارف پر مشتمل ہے كہ جن پر جن و انس وحى كے بغير كبھى بھى دسترس حاصل نہيں كر سكتے_قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يا توا بمثل هذالقرآن لايا تون ظهيرا

انسانوں اور جنوں كى قرآن كى مثل لانے سے عاجزى مطلق ہے يعنى اس كى تعليمات اور معارف كو بھى شامل ہے_

۲۴۳

۴_انسانى اور جنى طاقتيں ايك دوسرے كى پشت پناہى اور مدد كرنے كے باوجود بھى قرآن كى مثل لانے سے عاجز ہيں _

قل لئن اجتمعت ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا

۵_قرآن ،اللہ كا ايسا جاودانى معجزہ ہے جو ہميشہ بے مثل كتاب رہا اور ابد تك بے مثل رہے گا_

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا

يہ جو آيت تصريح كر رہى ہے كہ كوئي جن وانس قرآن كى مثل لانے كى طاقت نہيں ركھتا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ قرآن ہميشہ بے مثل كتاب كى مانندرہے گا_

۶_ قرآن جيسى بے مثل كتاب كا پيغمبر (ص) كو عطا ہونا ان پر الله تعالى كے عظےم فضل كى نشانى ہے_

أن فضله كان عليك كبيراً _ قل لئن اجتمعت لايا تون بمثله

۷_چيلنج او رمقابلہ كى دعوت كے سلسلہ ميں قرآن مجيد كى فتح اس كى بلاشبہ حقانيت كا اعلان ہے _

قل جاء الحق قل لئن اجتمعت الإنس والجن لا يا تون بمثله

۸_انسان كا قرآن كى مثل لانے سے عاجز ہونا، اس كى الله كے مدّ مقابل كم علمى اور كم طاقت ركھنے پر دلالت كرتا ہے_

وما أوتيتم من العلم إلّا قليلاً قل لئن اجتمعت لايا تون بمثله

۹_جن، انسان كى مانند باشعور موجود ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ على يا توا بمثهل

انسان و جن كے مابين، ارتباط اتفاق نظر اور تعاون ممكن ہے_يہ جو الله تعالى نے فرمايا: اگر جن اور انسان ايك دوسرے كا ہاتھ پكڑليں تو بھى قرآن كى مثل نہيں لاسكتے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان اور جن كے درميان رابطہ اور تعاون كا امكان ہے ورنہ يہ چيلنج لغو ہوتا_

۱۱_قرآن كااعجاز تمام جہات اور ابعاد ( لفظي، معنوى ' معرفت وغيرہ كے حوالے سے ...) تھا لہذا يہ چيلنج بھى ان تمام ابعاد ميں ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

۲۴۴

پورى تاريخ ميں جن وانس كو مخاطب كرنا بتا رہا ہے كہ صرف عرب لوگ اس چيلنج كے مخاطبين نہيں تھے ورنہ يہ چيلنج قرآن كے لفظى اور ادبى بعد ميں ہى رہتا_

۱۲_پيغمبر (ص) كے زمانے كے بعض لوگوں كا قرآن كے بارے ميں يہ عقيدہ كہ وہ سرچشمہ وحى سے نہيں ہے اور خود ساختہ ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

يہ جو قرآن مكمل قاطعيت سے چيلنج كر رہا ہے ہو سكتا ہے اس شبھہ كے جواب ميں ہو كہ قرآن وحى نہيں ہے_

۱۳_قرآن كى مثل كتاب لانے كا ناممكن ہونا خود ہى اس كے الہى ہونے اور بشرى نہ ہونے سے ہے _

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر فضل كى نشانياں ۶;آنحضرت (ص) پر قرآن كا نزول ۶;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱

الله تعالى :الله تعالى كے فضل كى نشانياں ۶

انسان:انسانوں كا عاجز ہونا ۱، ۳، ۴، ۸;انسانوں كو دعوت ۲;انسانوں كے علم كے محدود ہونے كى نشانياں ۸

جن :جن سے روابط ۱۰;جن كا شعور ۹;جن كا عجز ۱، ۳ ، ۴;جن كو دعوت ۲;جن كے ساتھ تعاون ۱۰

قرآن:قرآن پر افتراء ۱۲;قرآن كا اعجاز ۲;قرآن كا چيلنج ۲;قرآن كا وحى سے ہونا ۳; قرآن كى اہميت ۶;قرآن كى جاودانگى ۵;قرآن كى حقانيت كى نشانياں ۷;قرآن كى خصوصيات ۳;قرآن كى مثل بنانا ۱، ۴، ۸، ۱۳;قرآن كے اعجاز كے ابعاد ۱۱;قرآن كے بے نظير ہونا ۳، ۵،۱۳;قرآن كے چيلنج كے آثار ۷; قران كے چيلنج كے ابعاد ۱۱; قرآن كے وحى سے ہونے كے دلائل ۱۳

لوگ:بعثت كے زمانے كے لوگوں كا افتراء ۱۲;بعثت كے زمانے كے لوگوں كا عقيدہ ۱۲

موجودات:باشعور موجودات ۹

۲۴۵

آیت ۸۹

( وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـذَا القرآن مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ كُفُوراً )

اور ہم نے اس قرآن ميں سارى مثاليں الٹ پلٹ كر بيان كردى ہيں ليكن اس كے بعد پھر اكثر لوگوں نے كفر كے علاوہ ہر بات سے انكار كرديا ہے (۸۹)

۱_مختلف مثالوں اور بيانات سے قرآن ميں الہى حقائق كى وضاحت _ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

۲_حقائق اور مفاہيم كى تشريح كے لئے قرآن كے مختلف بيانات اور متنوع انداز ،اس كے ابعاد اعجاز كا ايك جلوہ ہے_

لايا تون بمثله ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

۳_قرآن كے مختلف بيانات اور مثاليں ، لوگوں كى فہم اور ان كى ہدايت كے لحاظ سے مناسب ہيں _

ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

''تصريف'' كا لغت ميں معنى ايك چيز كو مختلف جہات سے پھيرنا ہے اور ''تصريف كلام'' سے مراد اس كو مختلف معانى ميں لانا ہے يہ جو قرآن كتاب ہدايت ہے اور وہ فرماتا ہے ہم نے قرآن ميں معانى كو مختلف جہات سے بيان كيا_اس سے معلوم ہوا كہ ان جہات كى رعايت ہوسكتا ہے مندرجہ بالا نكتہ كى بناء پر ہو _

۴_لوگوں كے لئے حقائق كى وضاحت اور ان كى تشريح كے لئے ضرورى تھا كہ مختلف انداز اور بيانات سے فائدہ اٹھايا جائے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل

۵_تمام انسان، مخاطب قرآن ہيں نہ كہ كوئي خاص گروہ_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن

۶_اكثر لوگوں كا قرآن سے منہ پھيرنا سوائے حق سے دورى كے علاوہ اور كچھ نہيں تھے_

ولقد صرفنا فا بى أكثر الناس الاّ كفورا

۷_قرآن سے منہ پھيرنے كى وجہ اس كا ناقابل فہم ہونا يا اس كے مضامين نہيں ہيں بلكہ اس كى وجہ حق سے

۲۴۶

دورى اختيار كرنا ہے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس الاّ كفورا

۸_قرآن كى حقانيت اور اس كے بے مثل پر دليل ہونے كے باوجود اس كا انكار ايك بہت بڑى اور ناقابل قبول ناشكرى ہے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس إلّا كفورا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''كفور'' سے مراد نعمت كى نا شكرى ہو_

اكثريت:اكثريت كا حق قبول نہ كرنا ۶

حق:حق قبول نہ كرنے كے آثار ۷

حقائق :حقائق كى وضاحت كا انداز ۱، ۴;حقائق كى وضاحت كا متنوع ہونا ۴

قرآن:اكثر لوگوں كا قرآن سے منہ پھيرنا ۶;قرآن سے منہ پھيرنے كا فلسفہ ۷;قرآن كا انداز بيان ۱، ۲; قرآن كا سارے جہان كے ہونا ۵ ; قرآن كا ہدايت دينا ۳;قرآنى تعليمات كى خصوصيات ۱، ۲;قرآن كى تكذيب ۸; قرآن كى فہم ميں سہولت ۳;قرآن كى مثالوں كا فلسفہ ۱، ۳;قرآن كے اعجاز كى نشانياں ۲; قرآن كے بيان كا متنوع ہونا ۲، ۳;قرآن كے مخاطب ۵

ناشكري:نعمت كى ناشكرى ۸

آیت ۹۰

( وَقَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الأَرْضِ يَنبُوعاً )

اور ان لوگوں نے كہنا شروع كرديا كہ ہم تم پر ايمان نہ لائيں گے جب تك ہمارے لئے زمين سے چشمہ نہ جارى كردو (۹۰)

۱_مشركين كى طرف سے پيغمبر (ص) پر ايمان لانے سے پہلے مكہ ميں مشركين كے ليے ايك پر جوش پانى كے چشمہ كو ظاہر كرنے كى شرط_وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۲_مكہ ميں مشركين كے لئے چشمہ جارى كرنے كا تقاضا ان كا پيغمبر (ص) سے طلب كردہ ايك معجزہ تھا _و قالوا لن نومن لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۳_مشركين مكہ معجزہ طلب كرنے كے ذريعہ اپنے فوائد حاصل كرنے اور بہانوں كى تلاش ميں تھے نہ كہ وہ پيغمبر (ص) كى حقانيت كشف كرنا چاہتے تھے

۲۴۷

_ولقد صرّفنا للناس فى هذالقرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس الاّ كفوراً_ وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا الأرض ينبوعا چونكہ مشركين، پيغمبراكرم (ص) كى حقانيت كو جاننے كے لئے مختلف راہوں كو نظر انداز كرچكے تھے اور انہوں نے اپنے ايمان كو ايسى چند محدود سى باتوں كے ساتھ مشروط كيا كہ جن سے اكثران كے مادى فائدے پورے ہوتے تھے _ اس سے مذكورہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۴_مشركين نے الله تعالى كى طرح طرح كى نشانياں ديكھنے كے باوجود پيغمبر اكرم (ص) سے معجزہ كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كلّ مثل فابى وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۵_مكہ كے مشركين، قرآن كے بے مثل ہونے كے باوجود اسے معجزہ نہيں مانتے تھے _قل لئن اجتمعت الإنس و الجن وقالوا لن نو من لك

يہ جو الله تعالى قرآن كے بے مثل معجزہ ہونے كى توصيف كرنے كے بعد مشركين كے طلب كردہ جيسى معجزہ كى درخواست نقل كر رہا ہے _ مذكورہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہو سكتا ہے _

۶_پيغمبر (ص) كى بعثت كے آغاز ميں مكہ ميں پانى كى كمى تھى اور اہل مكہ پانى كے دائمى منابع كے محتاج تھے_

تفجر لنا من الأرض ينبوعا

مشركين كى پيغمبر اكرم -(ص) سے چشمہ جارى كرنے كى درخواست ممكن ہے ان كى پانى كے منابع كى شديد ضرورت كے پيش نظر ہو_

۷_انسان كى اجتماعى اور مادى ضروريات، اس كى آراء و نظريات يہاں تك كہ فكرى و معنوى مسائل پر بھى اثر انداز ہوتى ہيں _وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

يہ احتمال كہ مشركين نے منبع آب كى شديد ضرورت كے پيش نظر پيغمبراكرم(ص) سے جارى چشمہ كو بعنوان معجزہ طلب كيا ہو اس مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) سے پانى كے چشمہ كى درخواست ۱، ۲

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵

ضرورتيں :مادى ضرورتوں كے آثار ۷;پانى كى ضرورت ۶

عقيدہ :عقيدہ ميں مو ثر اسباب ۷

۲۴۸

فكر:فكر كى اساس ۷

قرآن :قرآن كا اعجاز ۵;قرآن كا بے نظير ہونا ۵

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور قرآن ۵;مشركين مكہ كا حسى چيزوں كى طرف پر اعتقاد۴;مشركين مكہ كا نفع پسند ہونا۳;مشركين مكہ كا ہٹ دھرم ہونا ۴;مشركين مكہ كى درخواستيں ۱، ۲، ۴;مشركين مكہ كي

فكر۵;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۱;مشركين مكہ كے بہانے بنانا۳

معجزہ :معجزہ اقتراحى (خود طلب كيا ہوا ) ۱، ۲،۴

معجزہ حسى كى درخواست: ۴

مكہ:اہل مكہ كى ضروريات ۶; مكہ كا جغرافيائي مقام ۶;مكہ كى تاريخ ۶;مكہ ميں پانى كا كم ہونا ۶

آیت ۹۱

( أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الأَنْهَارَ خِلالَهَا تَفْجِيراً )

يا تمھارے پاس كھجنور اور انگور كے باغ ہوں جن كے درميان تم نہريں جارى كردو (۹۱)

۱_مشركين كى پيغمبر اكرم(ص) پر ايمان لانے كے ليے ايك شرط يہ تھى كہ پيغمبراكرم(ص) كے پاس كھجور اور انگور كے درختوں كا ايسا بڑا باغ ہو جس كے درميان بہت سى پانى كى نہريں جارى ہوں _

وقالوا لن نو من لك حتّى أو تكون لك جنة من نخيل وعنبا

۲_مادى قدرت اور دنياوى وسايل سے سرشار ہونا مشركين مكہ كى نظر ميں پيغمبرى اور رہبرى كا معيار تھا_

وقالوا لن نو من لك حتّى أو تكون لك جنة من نخيل وعنبا

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے كہ مشركين مكہ چاہتے تھے كہ آپ (ص) واقعاً مال ثروت اور باغ كے حامل ہوں نہ كہ معجزہ اقتراحى ان كى خواہش تھى _

۳_مشركين مكہ نے الله كى مختلف آيات كا مشاہدہ كرنے كے باوجود پيغمبر(ص) سے حسى معجزہ كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كلّ مثل فا بى وقالوا

۲۴۹

لن نومن لك حتّى تكون لك جنة من نخيل وعنبا

يہ نكتہ اس آيت ميں اس احتمال كے ساتھ پيدا ہوگا كہ وہ اس قسم كے باغ كو معجزہ كے وسيلہ سے چاہتے تھے_

۴_كھجور اور انگور كا جارى نہروں كے ساتھ بڑا باغ مشركين مكہ كى جانب سے آنحضرت (ص) سے معجزہ اقتراحى (طلب كردہ) تھا_لن نو من لك حتّى تكون لك جنة من نخيل وعنبا

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) سے باغ كى درخواست ۱، ۴;آنحضرت (ص) سے نخلستان كى درخواست ۱، ۴

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۳، ۴

انبياء :انبياء كا مالدار ہونا ۲

رہبر:رہبروں كا مالدار ہونا ۲

رہبري:رہبرى كا معيار ۲

مشركين مكہ:مشركين كا عقيدہ ۲;مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۳;مشركين مكہ كى خواہشات ۳، ۴;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۱

معجزہ:معجزہ اقتراحى ۱،۳ ،۴;معجزہ حسى كى درخواست ۳

نبوت:نبوت كا معيار ۲

آیت ۹۲

( أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاء كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفاً أَوْ تَأْتِيَ بِاللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ قَبِيلاً )

يا ہمارے اوپر اپنے خيال كے مطابق آسمان كو ٹكڑے ٹكڑے كركے گرادو يا اللہ اور ملائكہ كو ہمارے سامنے لاكر كھڑا كردو (۹۲)

۱_آسمان سے ٹكڑے نازل كروانا،معجزات اقترا حى اور مشركين مكہ كى پيغمبر (ص) سے درخواستوں ميں سے ايك ہے_

اوتسقط السماء علينا كسفا

''كسَف'' كسف كى جمع ہے كہ جس سے مرادٹكڑا ہے_ (لسان العرب)

۲_آسمان سے ٹكروں كا نازل ہونا، مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) پر ايمان لانے سے پہلے شرط تھي_

وقالوا لن نومن لك او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۲۵۰

۳_پيغمبر (ص) كا مشركين مكہ كو عذاب نازل ہونے پر آسمان سے ٹكڑوں كے گرنے كے امكان سے خبردار كرنا _

او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۴_مشركين مكہ كا ان پر آسمان سے ستاروں اور ٹكڑوں كے گرنے كے ساتھ عذاب كے نزول پر يقين نہ كرنا _

او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

''الزعم'' سے مراد ايسى بات كى حكايت تھى كہ جہاں جھوٹ كا گمان ہو _(مفردات راغب)

۵_مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) اور ان كى برحق تعليمات كے مدمقابل ھٹ دھرى _

لن نو من لك حتّى تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۶_مشركين مكہ پيغمبر (ص) كى حقانيت پر گواہى كے لئے الله اور ملائكہ كو اپنے آمنے سامنے ديكھنا چاہتے تھے_

اوتا تى باللّه والملئكةقبيلا

''قبيلاً'' سے مراد مقابلہ (آمنے سامنے) ہے _ اس آيت ميں يہ ممكن ہے مندرجہ بالا مطلب كو بيان كرے _

۷_مشركين مكہ نے پيغمبر (ص) پر اپنے ايمان كو الله تعالى اور ملائكہ كو قابل مشاہدہ حالت ميں لانے پر مشروط كرديا _

قالوا لن نومن لك حتّى اوتا تى باللّه والملائكة قبيلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''قبيلاً'' سے مراد آمنے سامنے مشاہدہ ہو_

۸_الله تعالى اور ملائكہ كو گروہ گروہ كى شكل ميں مشركين مكہ كے پاس لاياجانا، ان كى آنحضرت (ص) سے درخواست (اقتراحي) تھي_لن نومن لك حتّى اوتا تى باللّه والملائكة قبيلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے ''قبيلاً'' قبيلہ كى جمع ہو_

۹_مشركين مكہ كا الله تعالى اور ملائكہ كے بارے ميں مادى اور جسمانى تصور _تا تى باللّه والملائكة قبيلا

''قبيلاً'' سے مراد آمنے سامنے اور مشاہدہ ہے اس ليے اس كا استفادہ ہوتا ہے نكتہ_

۱۰_مشركين مكہ كا اپنے عقائد اور نظريہ كائنات ميں صرف محسوسات اور حسى چيزوں پر اعتماد كرنا_

تا تى باللّه والملائكة قبيلا

آسمان :آسمان كے گرنے كى درخواست ۱، ۲

آنحضرت (ص) :

۲۵۱

آنحضرت (ص) كى حقانيت پر گواہى ۶; آنحضرت (ص) كے ڈراوے ۳;آنحضرت (ص) كے دشمن ۵

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۷، ۸

الله تعالى :الله تعالى كى گواہى كى درخواست ۶;اللہ كے ديكھنے كى درخواست ۷;اللہ تعالى كے سامنے آنے كى درخواست ۶، ۷، ۸

ڈراوے:عذاب سے ڈراوا ۳

عذاب:عذاب پر يقين نہ ہونا ۴;آسمان كے گرنے كے ساتھ عذاب ۳

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور آنحضرت (ص) ۵;مشركين مكہ كا ايمان نہ لانا ۴;مشركين مكہ كا حسى چيزوں پر يقين ميلان۱۰;مشركين مكہ كا عقيدہ ۱۰ ; مشركين مكہ كا عادى چيزوں پر اعتقاد ۹; مشركين مكہ كى خواہشات ۱، ۶، ۷;مشركين مكہ كى فكر۹;مشركين مكہ كو ڈراوے ۳; مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۵;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۲، ۷

معجزہ:معجزہ اقتراحى ۱، ۶، ۸

ملائكہ:ملائكہ كى گواہى كى درخواست ۶;ملائكہ كو ديكھنے كى درخواست ۷;ملائكہ كو سامنے لانے كى درخواست ۶، ۷، ۸

آیت ۹۳

( أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاء وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَاباً نَّقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إَلاَّ بَشَراً رَّسُولاً )

يا تمھارے پاس سونے كا كوئي مكان ہو يا تم آسمان كى بلندى پر چڑھ جاؤ اور اس بلندى پر بھى ہم ايمان نہ لائيں گے جب تك كوئي ايسى كتاب نازل نہ كردو جسے ہم پڑھ ليں آپ كہہ ديجئے كہ ہمارا پروردگار بڑا بے نياز ہے اور ميں صرف ايك بشر ہوں جسے رسول بناكر بھيجا گيا ہے (۹۳)

۱_اپنے ليے سونے كا گھربنانا مشركين مكہ كى پيغمبر (ص) سے درخواست (معجزہ اقتراحي) _

۲۵۲

ا ويكون لك بيت من زخرف

پچھلى آيات كے سياق وسباق سے معلوم ہوتا ہے كہ جہاں معجزات كى درخواست كى گئي تھي_ يہاں بھى ''اويكون لك بيت من زخرف'' سے مراد سونے كا گھر معجزہ كے ذريعے بنانا ہے_

۲_مشركين مكہ نے آنحضرت (ص) پر اپنے ايمان كو سونے سے بنے گھر كے معجزہ سے مشروط كرديا _

قالوا لن نو من لك حتّى أو يكون لك بيت من زخرف

۳_مشركين مكہ قران كے بلند مفاہيم سے غافل تھے اور دنيا كے مال پر آنكھيں لگائے ہوئے تھے_

ولقد صرّفنا فى هذالقرآن من كل مثل فا بى وقالوا لن نو من لك حتّى أو يكون لك بيت من زخرف

۴_مشركين مكہ نے الله تعالى كى مختلف نشانيوں كا مشاہدہ كرنے كے باوجود پيغمبر (ص) سے معجزہ حسى كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كل مثل فا بى وقالوا لن نومن لك حتّى يكون لك بيت من زخرف أو ترقى فى السماء تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۵_پيغمبر (ص) كا آسمان كى طرف اوپر جانا اور وہاں سے پڑھنے كے لائق لكھى ہوئي چيز اور اپنے اوپر جانے كى گواہى لانا مشركين مكہ كا پيغمبر (ص) سے طلب كردہ معجزہ _او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۶_پيغمبر (ص) كا آسمان كى طرف اوپر جانا اور وہاں سے اپنى حقانيت پر خط لانا' مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) پر ايمان لانے كى شرط تھي_قالوا لن نو من لك حتّى ...او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۷_الله تعالى كے معجزات كے وجود ميں لانے كے اصلى ارادہ سے مشركين مكہ كى غفلت _

تفجرلنا تسقط السمائ تأتى بالله تنزل علينا كتباً نقرؤه

يہ كہ مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) سے درخواست كہ تمام معجزات ،حتى كہ الله كا آنا مندرجہ بالا نكتہ كو واضح كر رہا ہے_

۸_الله تعالى كى آيات اور معجزات كى شناخت ميں مشركين مكہ كا صرف مادى اور حسى معياروں پر اعتماد كرنا _

حتى تفجرلنا حتّى تنزل علينا كتباً نقرؤه

۹_مشركين مكہ، قرآن اور آنحضرت (ص) كى رسالت كے آسمانى ہونے پر عقيدہ نہ ركھتے تھے_

او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

يہ كہ وہ پيغمبر (ص) سے ايسے خط اور كتاب كو مانگ رہے تھے كہ جو وہ خود آسمان سے لے كر آئيں _ اس سے واضح ہورہاہے كہ قرآن جو كہ آنحضرت (ص) پر وحى كى صورت ميں نازل ہوا وہ اسے قبول نہيں كرتے تھے_

۲۵۳

۱۰_ پيغمبر (ص) پر مشركين مكہ كے بے جا طلب كردہ معجزات كا جواب دينے اور ان كى ايسى طلب كے پورا كرنے پر الله تعالى كے منزّہ ہونے كو بيان_قالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا ...قل سبحان ربي

۱۱_الله تعالى ، بہانوں كى تلاش ميں پڑے ہوئے لوگوں كى فضول خواہشات كے مطابق اپنے معجزات دينے سے منزہ ہے_

تفجرلنا من الأرض ينبوعاً قل سبحان ربي

مشركين مكہ كى اپنے ميلان كے مطابق پيغمبر اكرم (ص) سے معجزات كى متعدد درخواستوں كے مد مقابل الله تعالى فرما رہا ہے ''ميرا رب منزہ ہے'' اس جواب كا ممكن ہے يہ معنى ہو كہ الله تعالى اسے لوگوں كے ميلان كے مطابق معجزات عطا نہيں كرتا _

۱۲_الله تعالى كسى جگہ محصور ہونے' جسم ركھنے' ديكھے جانے اور دوسرے ايسے مادى اوصاف سے منزہ ہے_اوتاتى بالله قل سبحان ربي چونكہ مشركين كى پيغمبر (ص) سے درخواست :''تا تى باللہ '' الله تعالى كى جسمانيت ' ايك جگہ سے دوسرى جگہ آنا، اور ديكھے جانے كى موجب تھى تو جملہ ''سبحان ربي'' ہوسكتا ہے ايسى غير منطقى درخواست كا جواب ہو_

۱۳_معجزات كا پيش كرنا اور ان كى نوعيت واضح كرنا صرف الله تعالى كا كام ہے نہ كہ انبياء كا_تفجر لنا من الأرض ينبوعاً قل سبحان ربى هل كنت الاّ بشراً رسول يہ كہ مشركين، پيغمبر (ص) سے معجزات لانے كى درخواست كر رہے تھے اور انہوں نے ان كے جواب ميں فرمايا :''هل كنت الاّ بشراً رسولاً'' اس سے معلوم ہواكہ معجزہ كا سرچشمہ، فقط الله تعالى ہے_ پيغمبر-(ص) كا اس سلسلے ميں كوئي كردار نہيں _

۱۴_پيغمبر(ع) دوسرے انسانوں كى مانند ايك انسان ہے اور اس كى خصوصيت اور امتياز صرف اس كى رسالت اور پيغمبرى ہے_قل سبحان ربى هل كنت الاّ بشراً رسولا

۱۵_پيغمبر(ص) اپنى محدود ذمہ دارى كے اعلان اور مشركين كے طلب كردہ معجزات كو پيش كرنے سے اپنى عاجزى بيان كرنے كے ذمہ دار ہيں _قالوا قل هل كنت الاّ بشراً رسولا

مشركين كى درخواستوں كے مد مقابل ''ہل كنت '' كا جواب ہوسكتا ہے يہ بيان كر رہا ہو كہ ان كى درخواست كا پيغمبر كى رسالت اور ذمہ داريوں سے كوئي ربط نہيں ہے يا يہ اس كى طاقت ميں نہيں ہے_آسمانى خط :آسمانى خط كى درخواست ۵، ۶

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱۵; آنحضرت كى ذمہ دارى كا محدود ہونا ۱۵آنحضرت (ص) كى رسالت ۱۰;

۲۵۴

آنحضرت (ص) كى نبوت كو جھٹلانے والے ۹; آنحضرت (ص) كے فضائل۱۴; آنحضرت (ص) كى خصوصيات ۱۴;آنحضرت(ص) كابشر ہونا ۱۴; آنحضرت سے آسمان كى طرف جانے كى درخواست ۵، ۶

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶

اسما ء وصفات:صفات جلال ۱۲

الله تعالى :الله تعالى اور جسمانيت ۱۲; الله تعالى اور مكان ۱۲;اللہ تعالى كى تنزيہ ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲;اللہ تعالى كے اختيارات ۱۳;اللہ تعالى كے ارادہ كے آثار ۷;اللہ تعالى كے ديكھنے كا ردّ۱۲;اللہ تعالى كے مختصات ۱۳

انبياء :انبياء كى ذمہ دارى كا محدود ہونا ۱۳

قرآن :قرآن كا وحى ہونا ۹;قرآن كے جھٹلانے والے ۹

گھر:سونے كے گھر كى درخواست ۱، ۲

مشركين مكہ:مشركين مكہ اور الله تعالى كى آيات ۸;مشركين مكہ اور قرآن۳;مشركين مكہ اور معجزہ ۸; مشركين مكہ كا مادى چيزوں پر اعتقاد ۸; مشركين مكہ كا محسوس چيزوں پر اعتقاد۴، ۸; مشركين مكہ كى بے ايماني۹;مشركين مكہ كى دنيا طلبى ۳; مشركين مكہ كى غفلت ۳، ۷;مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۴; مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۲، ۶ ; مشركين مكہ كے تقاضے درخواستيں ۱، ۴، ۵، ۱۰، ۱۵

معجزہ:حسى معجزہ كى درخواست ۴;معجزہ اقتراحى ۱، ۴، ۵، ۱۵;معجزہ اقتراحى كا رد ہونا ۱۰;معجزہ كا سرچشمہ ۷، ۱۱ ، ۱۳، ۱۵

آیت ۹۴

( وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُواْ إِذْ جَاءهُمُ الْهُدَى إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللّهُ بَشَراً رَّسُولاً )

اور ہدايت كے آجانے كے بعد لوگوں كے لئے ايمان لانے سے كوئي شے مانع نہيں ہوئي مگر يہ كہ كہنے لگے كہ كيا خدا نے كسى بشر كو رسول بنا كر بھيج ديا ہے (۹۴)

۱_مشركين مكہ، نبوت كے لئے نوع بشر كے انتخاب كے منكرتھے اور اسے ناممكن اور محال سمجھتے تھے _

وما منع الناس الاّ أن قالوا ا بعث اللّه بشراً رسولا

''الناس'' ميں الف لام عہدى ہے اور گذشتہ آيات كى طرف توجہ كرتے ہوئے ا س سے مراد، مشركين مكہ ہيں _

۲_الله كے رسولوں كا بشر ہونا، بہانے باز مخالفين يعنى كفار و مشركين كے ايمان نہ لانے كا عمدہ بہانہ تھا_

۲۵۵

وقالوا لن نؤمن لك حتّى الاّ أن قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۳_مشركين مكہ كے پاس آنحضرت (ص) پر ايمان نہ لانے كا ايك ہى بہانہ، آپ (ص) كا بشر ہونا تھا_

قالوا أبعث الله بشراً رسولا

۴_زمانہ بعثت كے كفار اور مشركين كے پاس الله كے رسولوں كو پہچاننے كے لئے غلط معيار تھے_

قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۵_پہلے سے ہى غلط معياروں پر كئے گئے فيصلے، انبياء كى صحيح تعليمات كو سمجھنے سے مانع تھے_

ومامنع الناس أن يؤمنوا إذ جاء هم الهدى بشراً رسولا

۶_ انبياء الہى كا پيغام سراسر ہدايت اور راہنمائي ہے_وما منع الناس أن يؤمنوا إذجاء هم الهدى بشراً رسول

۷_مشركين كا عقيدہ تھا كہ مقام رسالت ،بشر كى شان سے بہت بلند ہے_قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۸_انبياء كا تمام لوگوں كى مانند ہونا ان كى قدرو قيمت اور خصوصى صلاحيتوں كى شناخت سے مانع تھا_

ومامنع الناس الاّ ان قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

يہ كہ مشركين، بشر كى نبوت كو محال چيز سمجھتے تھے شايد اس لئے ہو كہ وہ پيغمبروں كو اپنے جيسے افراد سمجھتے تھے_ اورانہيں اپنے جيسا ضعيف اور كمزور سمجھتے تھے_

۹_الله كے وجود اور رسالت كى ضرورت كى حقيقت حتّى كہ مشركين كے افكار ميں بھى تسليم شدہ تھى _

ا بعث الله بشراً رسول يہ كہ مشركين اصل رسالت كے انكار كے بجائے بشر كى نبوت كو بعيد شمار كرتے تھے اس سے معلوم ہوا كہ خود رسالت ونبوت جيسى حقيقت ان كى نظر ميں يقينى تھي_

۱۰_وعن أبى عبداللّه (ع) :''قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً'' قالوا: إن الجن كانوا فى الأرض قبلنا، فبعث الله إليهم ملكاً، فلو اراد الله ان يبعث إلينا لبعث الله ملكاً من الملائكة وهو قول الله ''ومامنع الناس أن يؤمنوا إذجائهم الهدى إلّا ان قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً_'' (۱) امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ: قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً '' وہ(منكرين رسالت محمد (ص) ) كہتے تھے كہ :ہم سے پہلے زمين ميں مخلوق جن موجود تھى الله تعالى نے ان كى طرف ايك فرشتہ

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۳۱۷، ح ۱۶۷ _ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۲۷، ح ۴۴۹_

۲۵۶

مبعوث كيا تو اگر الله نے چاہاہے كہ كسى كو ہمارى طرف بھيجے تو فرشتوں ميں سے ايك فرشتہ بھيجے_ يہ الله كا كلام كا معنى ہے كہ فرما رہا ہے:''ومامنع الناس أن يؤمنوا إذجائهم الهدى الاّ أن قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً'' _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كا بشر ہونا ۳

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۳

انبياء:انبياء كا بشر ہونا ۲، ۷، ۱۰;انبياء كا ہدايت دينا ۶;انبياء كى تعليمات كى خصوصيات ۶;انبياء كى جنس ۱۰;انبياء كى شناخت سے مانع ۸;انبياء كى صلاحيتيں ۸;انبياء كے بشر ہونے كے آثار ۸;جنّات كے انبياء ۱۰;انبياء كے فضائل ۸;انبياء كے مخالفين كا بہانہ كرنا ۲;انبياء كے مخالفين كے كفر كى دليلےں ۲;انبياء كا كے ساتھ برتاؤ۵

پہلے سے فيصلے:پہلے سے فيصلوں كے آثار ۵

تجزيہ:غلط تجزيہ كے آثار ۵

دين :دينى خطرات كى پہچان ۵

روايت :۱۰

ضرورتيں :انبياء كى ضرورت ۹

كفار:صدر اسلام كے كفار كى پيغمبر(ص) كے بارے ميں شناخت۴;صدر اسلام كے كفار كے غلط معيار ۴كفار كا بہانے تلاش كرنا ۲

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كى پيغمبر (ص) كے بارے ميں شناخت ۴;صدر اسلام كے مشركين كے غلط معيار ۴; مشركين اور نبوت ۹;مشركين كا بہانے كرنا ۲; مشركين كا عقيدہ ۷;مشركين كا نظريہ ۹;مشركين كى الله كے بارے ميں شناخت ۹

مشركين مكہ:مشركين مكہ كا بہانے تلاش كرنا ۳;مشركين كا نظريہ ۱;مشركين مكہ كے كفر كے دلائل ۳

نبوت:بشر كى نبوت كو جھٹلانے والے ۱;مقام نبوت كى قدروقيمت ۷

۲۵۷

آیت ۹۵

( قُل لَّوْ كَانَ فِي الأَرْضِ مَلآئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكاً رَّسُولاً )

تو آپ كہہ ديجئے كہ اگر زمين ميں ملائكہ اطمينان سے ٹہلتے ہوتے تو ہم آسمان سے ملك ہى كو رسول بناكر بھيجتے (۹۵)

۱_پيغمبراكرم(ص) مشركين كے شبھات كا جواب دينے ميں الہى ہدايت پر اعتماد كرتے تھے_

قل لو كان فى الارض

۲_الله تعالى كا انسانوں كى جنس سے ہى ان كى طرف رسول مبعوث كرنے كا طريقہ كار _

قالوا أبعث الله بشراً رسولاً _ قل لو كان لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولاً_

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ يہ آيت مشركين كے شبھہ كے جواب ميں ہو كہ جو يہ تصور كرتے تھے كہ بشر نبوت كے لائق نہيں ہے_

۳_زمين پر رہنے والے خواہ انسان ہوں يا فرشتے ہم جنس انبياء كے محتاج ہيں _

قل لو كان فى الأرض ملائكة لنزلناعليهم من السماء ملكاً رسولا

۴_مشركين كى نظر ميں صرف ملائكہ ہى رسالت اور نبوت كے لائق تھے_قالوا أبعث الله رسولاً_ قل لو كان فى الأرض ملائكة لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولا مشركين كے تعجب اور ان كى يہ بات ''أبعث الله بشراً رسولاً'' كے جواب الہى سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اس انتظار ميں تھے كہ پيغمبر (ص) ملائكہ ميں سے ہو، نہ كہ جنس بشر سے_

۵_زمين پر ھر باشعور موجود مخلوق الہى وحى اور آسمانى ہدايت كى ضرورت مند ہے _

قل لوكان فى الأرض ملائكة يمشون مطمئنين لنزلنا

۶_زمين پر رہنے والوں كے لئے نزول وحى اور پيغام الہى كے لانے ميں فرشتے فقط واسطہ ہيں _

لنزلنا عليهم ملكاً رسولا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''ملكاًرسولاً'' سے مراد فرشتہ وحى ہو نہ كہ پيغمبر_

۲۵۸

۷_مشركين كا بشر كو رسول بعيد شمار كرنے كى وجہ ،اللہ اور پيغمبروں ميں فرشتوں كے وسيلہ ہونے كى طرف توجہ نہ كرنا ہے_

قل لو كان فى الأرض ملائكة يمشون مطمئنين لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولا

مندرجہ بالا آيت ممكن ہے كہ مشركين كے جواب ميں ہو كيوں كہ مشركين بشر ميں سے كسى فرد كے جہان كے مالك الله سے رابطہ كو بعيد شمار كرتے تھے_ آيت جواب دے رہى ہے كہ پيغمبر كسى واسطہ كے بغير وحى نہيں ليتے تھے بلكہ اصولى طور پر الله اور زمين پر رہنے والوں كے درميان فرشتہ وحى كا واسطہ ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) اور مشركين كے اعتراضات ۱; آنحضرت(ص) كى ہدايت ۱

الله تعالى :الله تعالى كى سنتيں ۲;اللہ تعالى كى ہدايتيں ۱

انبياء:انبياء كا بشر ہونا ۲، ۷;انبياء كا ہم جنس سے ہونا ۲، ۳

ضرورتيں :انبياء كى ضرورت ۳;وحى كى ضرورت ۵; ہدايت كى ضرورت ۵

غفلت :ملائكہ كے كردار سے غفلت ۷

مشركين :مشركين كا نظريہ ۴;مشركين كى غفلت كے آثار ۷ ; مشركين كے اعترضات كے جواب كا سرچشمہ ۱

ملائكہ:ملائكہ كا كردار ۶;ملائكہ كى نبوت ۴

موجودات:باشعور موجودات كى معنوى ضروريات ۵ موجودات كى ضروريات ۳

نبوت:نبوت كا معيار ۴;نبوت كى اہميت ۳

وحي:وحى كا واسطہ ۶

آیت ۹۴

( قُلْ كَفَى بِاللّهِ شَهِيداً بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيراً بَصِيراً )

كہہ ديجئے كہ ہمارے اور تمھارے درميان گواہ بننے كے لئے خدا كافى ہے كہ وہى اپنے بندوں كے حالات سے باخبر ہے اور ان كے كيفيات كا ديكھنے والا ہے (۹۶)

۱_مشركين، اس لائق نہيں ہيں كہ الله تعالى ان سے مخاطبهو_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

مشركين كو پيغام پہنچانے كے لئے پيغمبر(ص) كو مخاطب قرار دينا اگر چہ يہ اعلان بغير ''قل'' كے بھى ممكن ہے اس سے مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۲۵۹

۲_پيغمبر (ص) اور مشركين كے درميان الله تعالى كا گواہ اور ناظرہونا كافى ہے _كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۳_پيغمبر (ص) اپنى رسالت كے منكرين كے مد مقابل الله كى ہدايات پر عمل كرتے تھے_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۴_حق كے منكر اور بہانے باز مشركين وكفار كو الله كا خبردار كرنا _

قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً _ قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

الله تعالى كا پيغمبر (ص) اور حق كے منكرين و مشركين كے درميان گواہ ہونے كى تنبيہ، كا تذكرہ ممكن ہے ان كو خبردار كرنے كے لئے ہو_

۵_الله تعالى نے مشركين پر حجت تمام كردى ہے اور جو كچھ كہنا تھا وہ كہہ ديا ہے _قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

''كفى باللہ شہيداً'' كى تعبير، مشركين كے شبھات كا جواب دينے كے بعدقول فصل اور اتمام حجت كى جگہ ہے_

۶_بہانے باز اور حق كے منكرين كے ساتھ بحث و گفتگو كے بارے ميں فيصلہ كرنے كى ضرورت ہے_

قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۷_الله تعالى كا بہانے باز مشركين كے مدمقابل پيغمبر (ص) كو حوصلہ دينا_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

يہ آيت جس طرح كہ حق كے دشمن، مشركين كے لئے خبردار ہو پيغمبر (ص) كے لئے ايك قسم كى تسلى اور حوصلہ افزائي بھى ہوسكتى ہے _

۸_الله تعالى ، اپنے بندوں كے امور پر خبير( آگاہ) اور بصير ( نظر ركھنے والا) ہے_إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۹_الله تعالى كى بندوں كے اعمال پر گواہي، اس كے ان كے حالات پر وسيع علم كى بناء پر ہے_

كفى بالله شهيداً بينى وبينكم إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۱۰_الله تعالى كا بندوں پر علمى احاطہ كى طرف توجہ ،ان كے حق كے انكار اور بہانے بازى سے پرہيز كرنے كا پيش خيمہ ہے_

قل كفى بالله شهيداً إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

يہ كہ الله تعالى نے مشركين پر حجت تمام كردى ہے اور اس وقت يہ فرمايا : وہ بندوں كے حالات سے آگاہ اور ان پر نظر ركھے ہوئے ہے ' ہوسكتا ہے كہ مندرجہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہو _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) اور مشركين ۲،۳، ;آنحضرت (ص) كو حوصلہ دينا ۷;آنحضرت (ص) كى ہدايت ۳; آنحضرت (ص) كے گواہ ۲

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361