آئین تربیت

آئین تربیت0%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 361
مشاہدے: 121975
ڈاؤنلوڈ: 6758

تبصرے:

آئین تربیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121975 / ڈاؤنلوڈ: 6758
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ماں کے دودھ کے ساتھ ساتھ

بچے کی اصلی غذاماں کادودھ ہی ہے لیکن جب تک فقط غذا کا انحصار ماں کے دودھ پر ہو تو بہتر ہے کہ ہر روز کچھ مچھلی کاتیل اور کچھ پھل اس، دیئےائیں تا کہ وٹا ئیں تاکہ وٹامن اور معدنی مواد کے اعتبا سے اس کی خوراک جامع تر ہوجا ئے اور بچہ بہتر رشد کرے _ بچہ جوں بڑا ہو تا جاتا ہے اس کی غذائی ضرورت بھی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ مرحلہ آجاتا ہے کہ وہ ماں کے دود ھ سے سیر نہیں ہوتا _ اس صورت میں اہیے کہ دوسری غذاؤں سے شیر مادر کی کمک کے طور پر استفادہ کیا جائے _ چارمہینوں کے بعد اور زیادہ سے زیادہ چھ مہینے کے بعد چا ہیے کہ بچے کودوسری غذاؤں سے آشنا کیا جائے ضروری ہے کہ بچے کی غذا ، سادہ اور مائع کی صورت میں ہو _ مختلف پھلوں کا جوس بچے کے لیے مفید ہوتا ہے _

سبزیوں کو ابال کا پانی بھی بچے کو دیا جا سکتا ہے _ یخنی بچے کی نشود ونما کے لیے مقید ہوتی ہے _ جب بچے دانت کے نکل آئیں تو نسبتا سخت غذادی جاسکتی ہے_ مثلا پکے ہوئے آلو، ابلے ہوئے انڈے بسٹ ، تازہ پنیر اور کچھ روٹی اور مکھن ، چاول ، تازہ پھل ، وغیرہ _ بچے کی غذا مختلف قسم کی ہونی چاہیے _ لیکن دھیان رہے کہ اتنی مقدار میں اسے غذادی جائے جتنی اسے ضرورت ہے نہ کہ اس سے زیادہ _

۸۱

ماں کے دودھ کی ممانعت

چند مواقع ایسے ہیں کہ جہاں بچہ ماں کے دودھ سے محروم ہو جاتا ہے _

1_ اس صورت مین کہ جب ماں کسی متعدی مرض میں مبتلا ہو مثلاٹی _ بی و غیر ہ

2_ جب ماں کسی خطر ناک بیماری میں مبتلا ہو مثلا دل کی بیماری _ اور ڈاکٹر اسے دودھ دینے سے منع کردے _

3_ جب ماں پاگل پن یا مرگی کے مر ض میں مبتلا ہو _

4_ جب ماں خون کی شدید کمی کا شکار ہو ادر دودھ دینا اس کے لیے باعث ضرر ہو _

5_ جب ماں شراب یامنشیات کی عادی ہو کیونکہ ان کاز ہر دودھ مین داخل ہو جاتا ہے اور بچے کو بھی مسموم کردیتا ہے _

ایسے مواقع پر کہ جب دودھ دینا ماںکے لئے باعث ضرر ہو یا بچے کو بیماری میں مبتلا کردے یا اسے مسوم کرود ے تو چاہیے کہ بچے کو ماں کا دودھ نہ پلا یا جائے اور کسی دوسرے طریقے سے اس کو غذا فراہم کی جائے _ اگر دودھ پلانے والی عورت جاملہ ہو جائے تو وہ بتدریج اپنے بچے کا دودھ روک سکتی ہے اور اسے کوی اور خوراک دے سکتی ہے _

۸۲

دودھ پلانے کا پرو گرام

ماہرین نے بچے کو دودھ پلانے کے لیے دو طریقے تجویز کیے ہیں

بعض کایہ نظریہ ہے کہ بچے کو غذا یا خوراک دینے کے لیے چاہیے کہ منظم اور دقیق پروگرام بنا یا جائے اور بچے کو اسی پروگرام کے تحت معین و قفوں میں دود ھ پلا یا جا ئے _ دو مرتبہ دود ھ پلانے کے در میان بعض نے تین گھنٹے کا و قفہ معین کیا ہے اور بعض نے چار گھنٹے کا یہ ماہرین کہتے ہیں کہ ہر تین یا چار گھنٹے بعد بچے کو دودھ دینا چاہیے اور اس دوران بچے کودودھ دینے پرہیز کرنا چا ہیے _

بعض دوسرے ماہرین نے اس روش کو پسند نہیں کیا اور انہوں نے آزاد پرورش یا طبعی تنظیم کو تجویز کیا ہے _ وہ کہتے ہیں کہ جب بھی بچہ بھو کا ہو جا تا ہے اور وہ بھوک کا تقاضا کرتا ہے تواسے دودھ دینا چاہیے _

بعض کی نظر میں دوسری روش اس پہلی سے بہتر ہے کہ جس میں معین و قفوں کی پابندی کی جاقی ہے چاہے جب دودھ یا جائے بچہ بھو کا بھی نہ ہو ان کے نزدیک دوسری تجویز علاوہ برا ینکہ عملی لحاظ سے آسان ہے ظاہرا پسندیدہ اور معقول تر ہے کیونکہ پہلے مجوزہ پرو گرام کا تقاضا اگر چہ یہ ہے کہ بچے کو بھوک کے وقت دود ھ یا جائے نہ کہ معین اوقات میں لیکن اس کے باو جودیہ بہت سے نقائص کا حامل ہے بہر حال دوسری تجویز بھی نقائص سے خالی نہیں ، ذیل کے چند نکات کی طرف توجہ کیجئے _

1_ بچے میں بھوک اور پیاس کو یقیتی طور پر متشخص نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بچہ بات تو نہیں کر

۸۳

سکتا کہ اپنے داخلی محسوسات کو بیان کرسکے اگر چہ ابتدائی طور پر بچہ بھوک مٹا نے کے لیے دودھ پیتا ہے لیکن آہستہ آہستہ وہ دودھ پینے کا عادی بن جاتا ہے اور پستان کو چو سنے سے لطف آٹھاتا ہے _ اس صورت میں کبھی کبھی بچے کے اندرونی احساسات اسے تجریک کرتے ہیں کہ وہ روئے تا کہ دوسروں کی محبت کو اپنی طرف جذب کرسکے _ ماں بھی اسے چپ کرانے کے لیے اپنا دودھ پیش کردیتی ہے _ بچہ بھوک کے بغیر بھی روتا ہے اور ماں اس خیال سے دودھ دیتی ہے کہ وہ بھوکا ہے _ کبھی بھوک کی وجہ سے دودھ پیتا ہے اور کبھی بغیر بھوک کے بھی _ البتہ ہے کہ نامنظم طور پر اور بھوک کے بغیر غذا کا استعمال جیسے بڑوں کے لیے نقصان وہ ہے اسی طر ح بچوں کے لیے بھی کہ جن کا نظام ہضم ابھی قوی نہیں ہو تا _ نامنظم طور پردودھ دینے سے ممکن ہے بچے کے نظام ہضم میں کوئی خلل پیدا ہو جائے اور بچہ کسی بیماری کے لیے تیار ہو جائے _ اس بنا پر غذا دینے کی آزاد روش بچے کی صحت و سلامتی کے لیے بے ضرر نہیں ہوسکتی کیونکہ اس میں بھوک کے وقت کو متشخص نہیں کیا جا سکتا _ بچوں میں بہت سی بیماریاں نامنظم اور زیادہ غذا کے باعث پیدا ہوتی ہیں _

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :زیادہ کھانے اور کھا نے کے بعد پھر کھانے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ زیادہ کھانے والا بیمار بھی زیادہ ہو تا ہے ( 1 )

2_ جو بچہ شروع ہی سے بغیر کسی نظم و حساب کے دودھ پیتا ہے وہ شروع سے بے نظمی کا عادی ہو جاتا ہے اور اپنی آئندہ کی زندگی میں نظم و ضبط سے عاری ایک فر د ثابت ہو گا

3_ جو بچہ جب بھی ردتا ہے اور اس کے منہ میں پستان دے دیا جاتا ہے وہ اسی عمر ے گریہ وزاری کا عادی ہو جاتا ہے اور وہ آئندہ بھی رونے دھونے اور منت

----------

1_مستدرک ج 3ص 82

۸۴

سماجت کو ہی مقصد تک پہنچنے کا بہترین وسیلہ سمجھنے لگتا ہے _ کاموں میں صبر اور حو صلہ سے کام نہیں لیتا _ وہ چاہتا ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے مقصد تک پہنچ جانے اگر چہ اس کے لیے رونا پڑے یا التماس کرنے پڑے یا ذلت کا بو جھ اٹھا نا پڑ ے _

4_ ایسے بچے کے ماں لاپ اور مربیوں کو راحت و آرام نہیں ملتا کیونکہ وہ وقت بے وقت رونے مگتا ہے اور دودھ مانگتا ہے _

انہیں نقائص کی وجہ سے میں پہلی روش کو دوسری روش پر ترجیح دیتا ہوں اور منظم طریقے سے غذا دینے کو بچے کی جسمانی اور روحانی نشو و نما کے لیے بہتر سمجھتا ہوں _

ڈاکٹر جلالی اس بار ے میں لکھتے ہیں:اگر کسی ماہر ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق بچے کے لیے دودھ پلانے کا منظم پروگرام بنا یا جائے تو اس میں اسی کے مطابق عادت پیدا ہو جائے گی اورعادت خود اس بات کا سبب بنے گی کہ اس عادت سے مربوط طرز عمل اور رد عمل سے مائیں بچے کی سیری اور بعوک کی حالت سے آگاہ ہو سکیں _

ثانیا انسان کے بہت سارے کام ہر روز چونکہ عادت کے مطابق انجام پانے چاہیں لہذا دود ھ دینے کا یہی منظم پروگرام اس کی بعد کی عادتوں کے لئے اچھی بنیاد بن جائے گا ( 1)

آج کل ہرماں بچے کی پرورش کے سادہ سے حقائق جانتی ہے اور اس کی تربیت کرتی ہے مثلا وہ جانتی ہے کہ بچے کو مناسب وقفوں سے غذا دینا کتنا ضروری ہے نہ کہ جب وہ رورہا ہو اسے علم ہے کہ ایسی پا بندی اس لیے رکھی جاتی ہے ہ یہ غذا کے ہضم ہونے ہیں بہت فائدہ مند ہے ... ...علاوہ از یں تربیت اخلاق کے حوالے سے بھی مطلوب ہے کیونکہ شیر خوار بچے

----------

1_ روان شناسی کودک ص 224

۸۵

اس سے زیادہ حیلہ ساز اور کمر باز ہوتے ہیں کہ جتنا بڑے ان کے بارے میں تصور کرتے ہیں _ بچے جب دیکھتے ہیں کہ رونے دھونے سے ان کا مقصود حاصل ہوجاتا ہے تو وہ پھر اسی روش کو اختیار کرتے ہیں اور بعد جب کہ وہ دیکھتے ہیں کہ شکوہ اور آہ و زاری کی عادت بجائے اس کے کہ نوازش کا باعث بنے نفرست کا سبب بنتی ہے تو تعجب کرتے ہیں اور ان کو بہت دھچکا پہنچتا ہے اور دنیا ان کے آنکھوں میں سرد ، خشک اور بے روح ہوجاتی ہے _

لیکن چند نکات کی طرف توجہ ضروری ہے _

1_ سب بچوں کے لیے اور دودھ پینے کے تمام عرصے کے لیے غذا کا ایک جبسا پروگرام معین نہیں کیا جا سکتا کیونکہ نظام ہضم اور بچے کی غذائی ضرورت تمام مدّت میں ایک جیسی نہیں رہتی _ نو زائدہ بچہ کا معدہ اور نظام ہضم آغاز تولد سے چالیس پچاس روز تک بہت چھوٹا ہوتا ہے کہ جو تھوڑے سے دودھ سے بھر جاتا ہے _ نو زائدہ بچہ تھوڑے سے دودھ سے سیر ہوجاتا ہے لیکن تھوڑی ہی مدّت بعد پھر بھوکا ہوجاتا ہے اس مدّت میں چاہیے کہ دودھ پلانے کے درمیاں فاصلہ کم ہو مثلاً 21 اسے 2 گھنٹے تک لیکن اس کے بعد بچے کے بڑے ہونے کے اعتبار سے وقفوں میں زیادہ اضافہ کیا جا سکتا ہے مثلاً تین گھنٹے یا چار گھنٹے یہاں تک کہ بعض اوقات اس سے بھی زیادہ کا _

2_ سب بچے جسمانی ساخت اور نظام ہضم کے اعتبار سے ایک جیسے نہیں ہوتے بعض کو جلدی بھوک لگ جاتی ہے اور بعض کو دیر سے لہذا ان سب کے لئے ایک جیسا پروگرام تجویز نہیں کیا جا سکتا _ سمجھدار اور ہوش مند مائیں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتی ہیں اور اپنے بچوں کی صحّت و سلامتی کی خواہاں ہوتی ہیں _ وہ بذات خود اپنی بچے کے لیے خاص شرائط و حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے غذا کا پروگرام منظم کرتی ہیں اور ضروری ہو تو وہ ڈاکٹر کی طرف رجوع کرکے مشورہ بھی کرتی ہیں _

۸۶

3_ جب بھی بچے کو دودھ دیا جائے تو اسے پوری طرح سیر کرنا چاہیے البتہ خواتین کو اس امر کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ بچے بالخصوص نوزاد بچہ جلدی سوجاتا ہے اور معمولاً دودھ پیتے پیتے سوجاتا ہے جب کہ ابھی وہ سیر نہیں ہواہوتا اس صورت میں ماں بچے کی پشت پر آہستہ آہستہ ہاتھ مارسکتی ہے تا کہ وہ بیدار رہے اور پوری طرح سے سیر ہوجائے _

4_ جب بچے کودودھ دینے کا منظم پروگرام ترتیب پاجائے تو اس پر صحیح طرح سے عمل درآمد کی طرف توجہ رکھنا چاہیے اور مقرر اوقات کے درمیان میں اسے ہرگز دودھ نہیں دینا چاہیے اگر چہ وہ گریہ و زاری کرے _ اس کام میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تا کہ بچہ آہستہ آہستہ اس غذائی پروگرام کا عادی ہوجائے _ اس کے بعد وہ خود بخود معین اوقات میں بیدار ہونے لگے گا اور دودھ کا تقاضا کرنے لگے گا _ ایسی صورت میں ایک صابر ، بردبار اور منظم بچہ بھی پروان چڑھے گا اور آپ بھی آرام وراحت میں رہیں گے_

5_ بچے کے غذائی پروگرام کو اس طریقے سے مرتب کرنا چاہیے کہ آدھی رات کے بعد سے صبح تک اسے غذا نہ دی جائے تا کہ وہ اس طرز عمل کا عادی ہوجائے _ اس صورت میں بچہ بھی آرام و راحت سے سوجائے گا اور ماں بھی چند گھنٹے سکون اور چین سے آرام کرسکے گی_

6_ ہر مرتبہ بچے کو دودھ دینے کے بعد پستان کو تھوڑی سی روٹی سے صاف کرنا چاہیے _ یہ کام بچے کی صحت و سلامتی کے لیے بھی مفید ہے اور پستان کو زخمی ہونے سے بھی بچاتا ہے _

7_ جب بچہ دودھ پیتا ہے تو عموماً کچھ ہوا اس کے معدے میں داخل ہوجاتی ہے _ اور اس کے لیے ناراحتی کا سبب بنتی ہے اور اس کے پیٹ میں ہوا بھر جاتی ہے _ دودھ دینے کے بعد آپ اسے بلند کرسکتے ہیں اور آہستہ آہستہ اس کی پشت پر ہاتھ مارسکتے ہیں تا کہ ہوا نکل جانے اور بچہ دل کی تکلیف میں مبتلا نہ ہو _

۸۷

8_ بچے کو دونوں پستانوں سے دودھ دیں تا کہ آپ کا دودھ خشک نہ ہو اور آپ پستان کے درد میں مبتلا نہ ہوں _ ایک خاتون کہتی ہے :

حضرت امام صدق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا اپنے بچے کو ایک پستان سے دودھ نہ دے بلکہ دونوں پستانوں سے دودھ دے تا کہ اسے کامل غذا مل سکے _ (1)

9_ دودھ پلانے والی ماؤں کو چاہیے کہ وہ زیادہ تھکادینے والے کام اور شدید غصہ سے اجتناب کریں کیونکہ ماں کی ناراضی اور شدیدغصّے کے اثرات دودھ پر مرتب ہوتے ہیں کہ جو بچے کے لیے نقصان دہ ہیں _

----------

1_ وسائل _ج 15 ص 176

۸۸

ماں کا دودھ نہ ہو تو ؟

اگر ماں کا دودھ بچے کی ضرورت پوری نہ کرتا ہو تو ماں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اسے اپنے دودھ سے بالکل ہی محروم کردے بلکہ اس کا جتنا بھی دودھ ہے وہ بچے کو پلائے اور کمی کو دوسرے دودھ اور غذا سے پورا کرے _ لیکن اگر ماں کو دودھ بالکل نہ ہو (البتہ ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے) یا وہ دودھ دینے سے معذور ہوتو پھرگائے کے دودھ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ جو کسی حد تک شیر مادر سے ملتا جلتا یا پھرخشک دودھ سے _ اگر گائے کے دودھ سے استفادہ کیا جائے تو چاہیے کہ مندرجہ ذیل نکات کی طرف توجہ رکھی جائے _

1_ گائے کا دودھ عموماً ماں کے دودھ سے زیادہ گاڑھا اور زیادہ بھاری ہوتا ہے _ اس لحاظ سے چاہیے کہ اس میں کچھ ابلا ہوا پانی ملادیا جائے ، اس حد تک کہ وہ ماں کے دودھ جیسا ہوجائے اس میں تھوڑی سی چینی بھی ملا لینی چاہیے _

2_ دودھ کو پندرہ منٹ تک کے لیے ابال لینا چاہیے تا کہ اگر اس میں جراثیم ہوں تو وہ ختم ہوجائیں _

3_ بچے کو جود ودھ پلایا جائے نہ زیادہ گرم ہو اور نہ زیادہ سرد بالکل ماں کے دودھ جیسی اس کی حرارت ہو _

4_ ہر مرتبہ بچے کو دودھ پلاتے وقت فیڈر (دودھ والی بوتل) کو دھولینا چاہیے تا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دودھ خراب ہوجائے اور بچہ بیمار ہوجائے _

5_ کوشش کرنی چاہیے کہ حتی المقدور تازہ اور صحیح دودھ سے استفادہ کیا جائے _

۸۹

اگر آپ بچے کی غذا کے لیے خشک دودھ سے استفادہ کرنا چاہیں ، تو ضروری ہے کہ اس بارے میں ڈاکٹر سے مشورہ کریں کیونکہ خشک دودھ مختلف قسم کا ہوتا ہے اور ہر قسم کا دودھ ہر بچے اور ہر عمر کے لیے مفید او رمناسب نہیں ہوتا _

اس سلسلے میں ڈاکٹر ہی فیصلہ کرکے آپ کی راہنمائی کرسکتا ہے _ اگر ڈاکٹر کوئی دودھ آپ کے بچے کے لئے تجویز کرے اور وہ آپ کے بچے کے مزاج سے ہم آہنگ نہ ہو تو آپ پھر ڈاکٹر کی طرف رجوع کرسکتے ہیں _

۹۰

دودھ چھڑوانا

بچے کو پورے دوسال دودھ پلانا چاہیے _ دوسال دودھ پینا ہر بچے کا فطری حق ہے کہ جو خداوند بزرگ نے اس کے لیے مقرر کیا ہے _ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے _ والوالدات یرضعن اولادهنّ حولین کاملین _

مائیں اپنے بچوں کو پورے دوسال دودھ پلائیں _ بقرہ آیہ 233

اگر ماں چاہے تو دوسال سے جلدی بھی بچے کو دودھ چھڑوا نے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ کہ کم از کم اکیس مہینے اسے دودھ پلا چکی ہو _

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں _ الرضاع واحد و عشرون شهراً انما نقص فهو جور علی الصبی

دودھ پلانے کی مدّت کم از کم اکیس ماہ ہے _ اگر کسی نے اس مدّت سے کم پلایا تو یہ بچے پر ظلم ہے _ (1)

ان دو سالوں میں بچہ آہستہ آہستہ دوسری غذاؤں سے آشنا ہوجاتا ہے _ ماں رفتہ رفتہ بچے کا دودھ کم کردیتی ہے اور اس کے بجائے اسے دوسری غذا دیتی ہے _ دودھ پلانے کی مدت پوری ہونے کے بعد بچے کو دودھ چھڑوایا جا سکتا ہے اور صرف دوسری غذاؤں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے _ سمجھدار اور معاملہ فہم مائیں خود بہتر جانتی ہیں کہ بچے کے لیے کس طرح

------------

1_ وسائل الشیعہ جلد 15 ص 177

۹۱

کی غذا انتخاب کرنی چاہیے کہ جو بچے کے مزاج سے بھی ہم آہنگ ہواور غذائیت کے اعتبار سے بھی کامل _

البتہ بچے کو دودھ چھڑدانا کوئی ایسا آسان کام بھی نہیں _ یقینا وہ چند روز گریہ و زاری و فریاد کرے گا لیکن صبر و استقامت سے کام لیناچاہیے تا کہ وہ بالکل دودھ چھوڑ دے _ مال شرعی حد تک دودھ کو برا کہہ سکتی ہے ، اپنے پستان کو سیاہ اور خراب کر سکتی ہے یا پستان کے سرغ کو کڑوا کر سکتی ہے تا کہ بچہ دودھ پینے سے رک جائے _

لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے کسی خیالی یا دوسری چیزسے دڑایا جائے _ اس امر سے غافل نہ رہیے کہ بچے کو دڑانا کوئی اچھا کام نہیں ہے اس سے اس کے جسم اور روح پر برے اثرات پڑتے ہیں جو بعد میں ظاہر ہوتے ہیں _

۹۲

بیٹی یا بیٹا

جو نہی عورت حاملہ ہوتی ہے وہ اس مسئلہ میں مضطرب رہتی ہے کہ بیٹا ہوگیا یا بیٹی ، دعا کرتی ہے نذر مانتی ہے نیاز دیتی ہے کہ بیٹا ہو _ جب اس کے عزیز رشتے دار ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ تمہارے چہرے کے رنگ سے لگتا ہے کہ بیٹا پیدا ہوگا _ جب کہ اس کے برخلاف اس کے دشمن کہتے ہیں کہ تمہاری آنکھوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیٹی پیدا ہوگی _ شوہر بھی بیگم سے پیچھے نہیں ہوتا اس کے بھی دل میں بیٹے کی خواہش چٹکیاں لیتی رہتی ہے _ موقع بے موقع وہ اس بارے میں بات کرتا ہے اور ادھر ادھر کے وعدے کرتا رہتا ہے _ پیدائشے کے وقت سب حاضرین کی توجہ اس مسلئے کی طرف رہتی ہے کہ بیٹا ہے یا بیٹی _ اگر بیٹی ہو تو ایک دفعہ کمرہ پیدائشے میں سرتا پا سکوت ہوجاتا ہے اور چہرے اتر جاتے ہیں لیکن اگر بیٹا ہو تو خوشی کا شوروشین بلند ہوجاتا ہے _ ماشاء اللہ سے آواز گونج اٹھتی ہے _ جب بچے کی پیدائشے کی خبر باپ تک پہنچتی ہے تو اگر بیٹا ہو تو خوش ہوجاتا ہے ، ادھر ادھر دوڑتا ہے ، مٹھائیاں اور پھل لاتاہے ،ڈاکٹر اور دوا کا بندوبست کرتا ہے _ کہتا پھرتا ہے بچے کا دھیان رکھنا اسے کہیں ٹھنڈ نہ لگ جائے _ بیگم کے بارے میں احتیاط کرنا کہ کہیں ہلے چلے نہ _ دائیہ اور نرسوں کو انعام دیتا ہے _ لیکن اگر بیٹی جنم لے تو اس کا چہرہ ہی اترجاتا ہے _ کونسے میں جا بیٹھتا ہے اپنی بدبختی پر روتا ہے اور اپنی زندگی کو تلخ بنالیتا ہے _ بیمار بیوی کی طرف اعتنا نہیں کرتا اس کی احوال پرسی اور عیادت نہیں کرتا _ یہاں تک کہ بعض اوقات اسے ایسا غصہ آتا ہے کہ طلاق کی دھمکی دینے لگتا ہے _ ہمارے انحطاط پذیر اور بے تربیت معاشرے کی اکثریت میں ایسے ہی غلط افکار اور بری عادت موجود ہے _ البتہ سب ایسے نہیں ہیں _ روشنفکر

۹۳

لوگ بھی موجود ہیں کہ جن کی نظر میں بیٹا اور بیٹی برابر ہے لیکن وہ اقلیت میں ہیں _

والد عزیز اور والدہ گرامی

بیٹا ہو یا بیٹی ان میں کیا فرق ہے _ کیا بیٹی میں انسانت کم ہوتی ہے ؟ کیا اس میں ترقی اور پیش رفت کی صلاحیت نہیں ہوتی ؟ کیا وہ ایک مفید اور قیمتی انسان نہیں بن سکتی ؟ کیا بیٹی تمہاری اولاد نہیں ہے ؟ آخر بیٹوں کا ماں باپ کے لیے کون سا ایسا فائدہ ہے جو بیٹی کا نہیں ؟ اگر بیٹی کی کی کوئی اہمیت نہ ہوتی تو اللہ اپنے رسول (ص) کی نسل کو فاطمہ (ع) کے ذریعے کیسے برقرار رکھتا _ اگر بیٹی کی آپ اچھی پرورش کریں تو وہ بیٹے سے پیچھے نہیں رہے گی تاریخ کے اوراق پلٹ کردیکھیں آپ کو ایسی خواتین نظر آئیں گی جن میں سے ایک ایک ہزاروں مردوں پر بھاری ہے _ یہ کیسی غلط افکار کے خلاف جہاد کیجئے بیٹے اور بیٹی میں غلط قسم کے فرق کو اپنے ذہن سے نکال دیجئے _ ذمہ دار اور مفید انسانوں کی تعمیر کے بارے میں سوچیے _ سودمند اور قیمتی انسان بیٹی بھی ہوسکتی اور بیٹا بھی _ جس وقت تمہیں بچے کی پیدائشے کی خبر ملے اگر وہ صحیح و سالم ہو تو خدا کا شکر کرو کہ وہ پروردگار عالم کا عطیہ ہے اور تمہارے وجود کی یادگاری ہے کہ جو زندگی کے حساس اور خطرناک مرحلے سے صحیح و سالم گزر آیاہے اور اس نے زمین پر قدم رکھا ہے _

پیغمبر اکرم اورائمہ اطہار علیہم السلام کی یہی روش تھی _جس وقت اما م سجاد علیہ السلام کو نو مولود کی خبر دی جاتی تو بیٹی کے بارے میں ہرگز سوال نہ کرتے _ لیکن جب ان کو بتایا جاتا کہ صحیح و سالم ہے تو خدا کا شکر ادا کرتے _ (1)

رسول اکرم (ص) اپنے دوستوں کے ساتھ محو گفتگو تھے اسی اثنا میں ایک شخص محفل میں داخل ہوا اورحضور کو خبری دی کہ اللہ نے آپ کو بیٹی علا کی ہے _ رسول اللہ اس خبر پرخوش ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کیا آپ (ص) نے جب اپنے اصحاب کی طرف نظر کی تو ان کے چہروں پر ناراحتی کے آثار ہویدا تھے _ آپ (ص) نے برا مانتے ہوئے فرمایا:

----------

1_ وسائل _ ج 15 _ص 143

۹۴

مالکم ؟ ریحانة اشمها و رزقها علی الله عزوجل

کیا ہوگیا تمہیں ؟ اللہ نے مجھے پھول عطا کیا ہے جس کی مہک میں سونگھتا ہوں اول اللہ نے اس کا رزق دیا ہے _ (1)

اللہ تعالی نے اس بری عادت کی مذمت کی ہے اور قرآن میں فرمایا ہے _

و اذا بشّر احدهم بالانثی ظلّ وجهه مسودًا و هو کظیم _ یتواری من القوم من سوء ما بشّر به _

(سورہ نحل ، آیہ 58 _59)

جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی بشارت دی جاتی ہے تو شرم کے مارے اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے ، غصہ اس پر چھاجاتا ہے _ اس بری خبر کے باعث وہ لوگوں سے منہ چھپائے پھرتا ہے _

-----------

1_ وسائل الشیعہ _ ج 15_ ص 102

۹۵

بچے کا نام

ماں باپ کی حساس اور اہم ذمہ داریوں میں سے ایک بچے کا نام کا انتخاب ہے _ نام رکھنے کو چھوتی سی اور غیر اہم چیز نہیں سمجھنا چاہیے _ لوگ ناموں اور خاندانوں سے اندازہ لگاتے ہیں اور ان کی خوبی اور خوبصورتی کو شخصیت کی پہچان شمارکرتے ہیں جس کسی کا بھی اپنا اور خاندانی نام خوبصورت ہوگا وہ ہمیشہ ہر جگہ سربلند ہوگا اور جس کسی کا نام بھی برا ہوگا شرمندہ ہوگا _ برے نام کو اپنا عیب سمجھے گا اور احساس کمتری میں مبتلا رہے گا _ بعض اوقات بے ادب لوگ اس کا مذاق بھی اڑائیں گے اور یہ احساس کمتری وہ چاہے نہ چاہے اس کی روح پر برے آثار مرتب کرے گا _ اس وجہ سے اسلام اچھے نام کا انتخاب ماں باپ کی ذمہ داری قرار دیتا ہے اور اسے ان کی اولین نیکی شمار کرتا ہے _

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

ہر باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے خوبصورت نام انتخاب کرے _ (1)

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

اولاد کے باپ پر تین حق ہیں _ پہلا یہ کہ اس کا نام اچھارکھے _ دوسرا کہ اسے پڑھنا لکھنا سکھائے تیسرا یہ کہ اس کے لیے شریک حیات ڈھنڈے _ (2)

--------

1_ مستدرک ج 2 ص 618

2_ بحار الانوار ج 104 ص 92

۹۶

امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

اوّل ما یبرّ الرّجل ولده ان یسمّیه باسم حسن _

باپ کی پہلی نیکی اولاد کے ساتھ یہ ہے کہ اس کے لیے پیارا سانام انتخاب کرے _ (1)

دوسری طرف نام کا انتخاب بہت زیادہ معاشرتی اثر بھی رکھتا ہے _ نام ہے کہ جو ماں باپ کے مقاصد ، افکار اور آرزوؤں کا ترجمان ہوتا ہے اور انکی اولاد کو باقاعدہ مختلف گروہوں اور اہداف میں سے کسی کے ساتھ وابستہ اور ملحق کرتا ہے _ نام ہی سے سمجھدار ماں باپ کسے افکار اور ارمانوں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے _ ماں باپ کو اگر کسی خاص شاعر تعلق خاطر ہوگا تو وہ اپنے بچے کے لیے اسی کا نام انتخاب کریں گے _ اگر وہ علم دوست ہوں گے تو علماء میں سے کسی کے نام سے استفادہ کریں گے _ اگر دیندار ہوں گے تو انبیاء ائمہ اور بزرگان دین کے ناموں میں سے کوئی نام چنیں گے _ اگر وہ ایثار دین کے راستے میں جانبازی اور ستمکاروں کے خلاف جہاد کو پسند کرتے ہوں گے تو محمد ، علی ، حسن (ع) ، حسین (ع) ، ابوالفضل (ع) ، عباس ، حمزہ ، جعفر ، ابوذر، عماراور سعید جیسے ناموں میں سے کوئی نام انتخاب کریں گے _اگر وہ کسی کھیل کو پسند کرتے ہوں کے تو معرف کھلاڑیوں میں سے کسی نام رکھیں گے _ اگر انھیں کوئی گلوکار اچھا لگتا ہوگا تو اپنے بچے کا نام اسی کے نام پر رکھیں گے _

اگر وہ ظلم و ستم سے خوش ہوں گے تو سکندر، تیمور ، چنگیز جیسے ناموں میں سے کسی کا انتخاب کریں گے ہر ماں باپ نام کے انتخاب سے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو کسی خاص گر وہ سے وابستہ کرلیتے ہیں _ ناموں کہ یہ وابستگی عمومی افکار پر اثر انداز ہونے کے علاوہ زیادہ تر صاحب نام پر بھی اثر انداز ہوتی ہے _رسول اسلام (ص) نے فرمایا:

استحسنوا اسمائکم فانکم تدعون بها یوم القیامة قم یا فلان بن فلان الی نورک وقم یا فلان بن فلان لا نورلک _

-----------

1_ وسائل الشیعہ ج 15 ص 122

۹۷

اچھا نام رکھو کیونکہ قیامت کے روز تمہیں انہی ناموں سے پکارا جائے گا اور کہا جائے گا اسے فلان ابن فلان اٹھ کھڑے ہو اور اپنے نورسے وابستہ ہو جاؤ اور اے فلاں بن فلاں اٹھ کھڑے ہو کہ تمہارے لیے کوئی روشنی نہیں جو تمہاری راہنمائی کرے _ (1)

ایک شخص نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا : ہم لوگ آپ کے اور آپ کے اجداد کے نام اپنے لیے انتخاب کرتے ہیں _ کیا اس کام کا کوئی فائدہ ہے _ آپ نے فرمایا:

ہاں اللہ کی قسم کیا دین اچھوں سے محبت اور بروں سے نفرت کے سوا بھی کچھ ہے _ (2)

دنیا میں لوگ اپنے مقاصد کی ترویج کے لئے اور شخصتیوں کو نمایاں کرنے کے لئے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں _ یہاں تک کہ شہروں ، سڑکوں اور چوراہوں کے نام رکھنے تک سے استفادہ کرتے ہیں _ ایک ذمہ دار اور آگاہ مسلمان بھی دین کی ترویج کے لیے کسی موقع پر یہاں تک کہ نام رکھنے کے موقع پر غفلت نہیں کرتا _

ہاں حسن ، حسین ،ابوالفضل ، علی اکبر، حر ، قاسم ، حمزہ ، جعفر ، ابوذر اور عمار جیسے ناموں کے انتخاب سے اور ان کی ترویج سے اسلام کے مروان مجاہد کی جانبازی اور فداکاری کودلوں میں زندہ رکھا جا سکتا ہے فداکاری اور ظالموں کے خلاف جہاد کی روح ملت میں پھونکی جا سکتی ہے _ اللہ کے عظیم رسولوں مثلاً ابراہیم ، موسی، عیسی ،اور محمد (ص) کا نام انتخاب کرکے خدا پرستوں اورقوانین الہی کے حامیوں کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعلان کیا جا سکتا ہے _ فداکار اور مجاہد شیعہ مثلاً ابوذر ، میثم ، عمار اور ایسے سینکڑوں دوسرے حقیقی تشیع کے مصادیق کے ناموں کے حیاء اور ترویج سے ملت کو شخصیت کا حقیقی مفہوم سکھایا جا سکتا ہے _ اسلام کے عظیم

---------

1_ وسائل الشیعہ ج 15 ص 123

2_ مستدرک _ج _ص 218

۹۸

علماء کے ناموں کا انتخب کرکے ان کے علم و دانش کی قدردانی اور ترویج کی جاسکتی ہے _ ایک سمجھدار مسلمان اس امر پہ تیار نہیں ہوسکتا کہ وہ ظالموں یا اسلام دشمنوں میں سے کسی کا نام اپنے بچے کے انتخاب کرے _ وہ جانتا ہے کہ خود یہ نام رکھنا بھی ایک طرح سے ظلم کی ترویج ہے _امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

لقد احتظرت من الشیطان احتظار شدیدًا انّ الشیطان اذا سمع نادیاً ینادی یا محمد و یا علی ذاب کما یذوب الرصاص ، حتی اذا سمع منادیا ینادی باسم عد و من اعدائنا اهتزّوا ختال_

شیطان سے بچو اور اس سے بہت خبردار ہو، کہ جب شیطان سنتا ہے کہ کسی کو محمد اور علی کہہ کے پکارا جاررہا ہے تو وہ یوں پگھل جاتا ہے جیسے سیسہ پگھل جاتا ہو اور جب وہ سنتا ہے کہ کسی کو ہمارے دشمنوں میں سے کسی کے نام سے پکارا جاتا ہے تو خوشی سے پھولا نہیں سماتا _ (1)

پیغمبر اسلام (ع) نے فرمایا: من ولد له اربقه اولاد کم بسم احدهم باسمی فقد جفانی

جس کسی کے بھی چار بیٹے ہوں اور اس نے کسی ایک کا نام بھی میرے نام پر نہیں رکھا اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے _ (2)

امام باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: خیر ها اسماء الانبیائ

بہترین نام نبیوں کے نام ہیں _ (3)

-----------

1_ وسائل الشیعہ _ ج _ص 127

2_ وسائل الشیعہ _ج _ص 127

3_ وسائل الشیعہ _ ج _ ص 124

۹۹

پیغمبر اسلام (ص) نام کے مسئلے پر اس قدر اہتمام کرتے تھے کہ اگر ان کے اصحاب یا شہروں کے ناموں میں سے کسی کا اچھا نہ لگتا تو فوراً بدل دیتے _ عبدالشمس کو عبدالوہاب میں تبدیل کردیا _ عبد العزی (عزی بت کا بندہ ) کو آپ نے عبداللہ میں بدل دیا _ عبدالحادث ( شیر کا بندہ ) کو عبدالرحمن میں اور عبدالکعبہ کو عبداللہ میں بدل دیا _

۱۰۰