آئین تربیت

آئین تربیت10%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125619 / ڈاؤنلوڈ: 7191
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

ماں کے دودھ کے ساتھ ساتھ

بچے کی اصلی غذاماں کادودھ ہی ہے لیکن جب تک فقط غذا کا انحصار ماں کے دودھ پر ہو تو بہتر ہے کہ ہر روز کچھ مچھلی کاتیل اور کچھ پھل اس، دیئےائیں تا کہ وٹا ئیں تاکہ وٹامن اور معدنی مواد کے اعتبا سے اس کی خوراک جامع تر ہوجا ئے اور بچہ بہتر رشد کرے _ بچہ جوں بڑا ہو تا جاتا ہے اس کی غذائی ضرورت بھی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ مرحلہ آجاتا ہے کہ وہ ماں کے دود ھ سے سیر نہیں ہوتا _ اس صورت میں اہیے کہ دوسری غذاؤں سے شیر مادر کی کمک کے طور پر استفادہ کیا جائے _ چارمہینوں کے بعد اور زیادہ سے زیادہ چھ مہینے کے بعد چا ہیے کہ بچے کودوسری غذاؤں سے آشنا کیا جائے ضروری ہے کہ بچے کی غذا ، سادہ اور مائع کی صورت میں ہو _ مختلف پھلوں کا جوس بچے کے لیے مفید ہوتا ہے _

سبزیوں کو ابال کا پانی بھی بچے کو دیا جا سکتا ہے _ یخنی بچے کی نشود ونما کے لیے مقید ہوتی ہے _ جب بچے دانت کے نکل آئیں تو نسبتا سخت غذادی جاسکتی ہے_ مثلا پکے ہوئے آلو، ابلے ہوئے انڈے بسٹ ، تازہ پنیر اور کچھ روٹی اور مکھن ، چاول ، تازہ پھل ، وغیرہ _ بچے کی غذا مختلف قسم کی ہونی چاہیے _ لیکن دھیان رہے کہ اتنی مقدار میں اسے غذادی جائے جتنی اسے ضرورت ہے نہ کہ اس سے زیادہ _

۸۱

ماں کے دودھ کی ممانعت

چند مواقع ایسے ہیں کہ جہاں بچہ ماں کے دودھ سے محروم ہو جاتا ہے _

۱_ اس صورت مین کہ جب ماں کسی متعدی مرض میں مبتلا ہو مثلاٹی _ بی و غیر ہ

۲_ جب ماں کسی خطر ناک بیماری میں مبتلا ہو مثلا دل کی بیماری _ اور ڈاکٹر اسے دودھ دینے سے منع کردے _

۳_ جب ماں پاگل پن یا مرگی کے مر ض میں مبتلا ہو _

۴_ جب ماں خون کی شدید کمی کا شکار ہو ادر دودھ دینا اس کے لیے باعث ضرر ہو _

۵_ جب ماں شراب یامنشیات کی عادی ہو کیونکہ ان کاز ہر دودھ مین داخل ہو جاتا ہے اور بچے کو بھی مسموم کردیتا ہے _

ایسے مواقع پر کہ جب دودھ دینا ماںکے لئے باعث ضرر ہو یا بچے کو بیماری میں مبتلا کردے یا اسے مسوم کرود ے تو چاہیے کہ بچے کو ماں کا دودھ نہ پلا یا جائے اور کسی دوسرے طریقے سے اس کو غذا فراہم کی جائے _ اگر دودھ پلانے والی عورت جاملہ ہو جائے تو وہ بتدریج اپنے بچے کا دودھ روک سکتی ہے اور اسے کوی اور خوراک دے سکتی ہے _

۸۲

دودھ پلانے کا پرو گرام

ماہرین نے بچے کو دودھ پلانے کے لیے دو طریقے تجویز کیے ہیں

بعض کایہ نظریہ ہے کہ بچے کو غذا یا خوراک دینے کے لیے چاہیے کہ منظم اور دقیق پروگرام بنا یا جائے اور بچے کو اسی پروگرام کے تحت معین و قفوں میں دود ھ پلا یا جا ئے _ دو مرتبہ دود ھ پلانے کے در میان بعض نے تین گھنٹے کا و قفہ معین کیا ہے اور بعض نے چار گھنٹے کا یہ ماہرین کہتے ہیں کہ ہر تین یا چار گھنٹے بعد بچے کو دودھ دینا چاہیے اور اس دوران بچے کودودھ دینے پرہیز کرنا چا ہیے _

بعض دوسرے ماہرین نے اس روش کو پسند نہیں کیا اور انہوں نے آزاد پرورش یا طبعی تنظیم کو تجویز کیا ہے _ وہ کہتے ہیں کہ جب بھی بچہ بھو کا ہو جا تا ہے اور وہ بھوک کا تقاضا کرتا ہے تواسے دودھ دینا چاہیے _

بعض کی نظر میں دوسری روش اس پہلی سے بہتر ہے کہ جس میں معین و قفوں کی پابندی کی جاقی ہے چاہے جب دودھ یا جائے بچہ بھو کا بھی نہ ہو ان کے نزدیک دوسری تجویز علاوہ برا ینکہ عملی لحاظ سے آسان ہے ظاہرا پسندیدہ اور معقول تر ہے کیونکہ پہلے مجوزہ پرو گرام کا تقاضا اگر چہ یہ ہے کہ بچے کو بھوک کے وقت دود ھ یا جائے نہ کہ معین اوقات میں لیکن اس کے باو جودیہ بہت سے نقائص کا حامل ہے بہر حال دوسری تجویز بھی نقائص سے خالی نہیں ، ذیل کے چند نکات کی طرف توجہ کیجئے _

۱_ بچے میں بھوک اور پیاس کو یقیتی طور پر متشخص نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بچہ بات تو نہیں کر

۸۳

سکتا کہ اپنے داخلی محسوسات کو بیان کرسکے اگر چہ ابتدائی طور پر بچہ بھوک مٹا نے کے لیے دودھ پیتا ہے لیکن آہستہ آہستہ وہ دودھ پینے کا عادی بن جاتا ہے اور پستان کو چو سنے سے لطف آٹھاتا ہے _ اس صورت میں کبھی کبھی بچے کے اندرونی احساسات اسے تجریک کرتے ہیں کہ وہ روئے تا کہ دوسروں کی محبت کو اپنی طرف جذب کرسکے _ ماں بھی اسے چپ کرانے کے لیے اپنا دودھ پیش کردیتی ہے _ بچہ بھوک کے بغیر بھی روتا ہے اور ماں اس خیال سے دودھ دیتی ہے کہ وہ بھوکا ہے _ کبھی بھوک کی وجہ سے دودھ پیتا ہے اور کبھی بغیر بھوک کے بھی _ البتہ ہے کہ نامنظم طور پر اور بھوک کے بغیر غذا کا استعمال جیسے بڑوں کے لیے نقصان وہ ہے اسی طر ح بچوں کے لیے بھی کہ جن کا نظام ہضم ابھی قوی نہیں ہو تا _ نامنظم طور پردودھ دینے سے ممکن ہے بچے کے نظام ہضم میں کوئی خلل پیدا ہو جائے اور بچہ کسی بیماری کے لیے تیار ہو جائے _ اس بنا پر غذا دینے کی آزاد روش بچے کی صحت و سلامتی کے لیے بے ضرر نہیں ہوسکتی کیونکہ اس میں بھوک کے وقت کو متشخص نہیں کیا جا سکتا _ بچوں میں بہت سی بیماریاں نامنظم اور زیادہ غذا کے باعث پیدا ہوتی ہیں _

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :زیادہ کھانے اور کھا نے کے بعد پھر کھانے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ زیادہ کھانے والا بیمار بھی زیادہ ہو تا ہے ( ۱ )

۲_ جو بچہ شروع ہی سے بغیر کسی نظم و حساب کے دودھ پیتا ہے وہ شروع سے بے نظمی کا عادی ہو جاتا ہے اور اپنی آئندہ کی زندگی میں نظم و ضبط سے عاری ایک فر د ثابت ہو گا

۳_ جو بچہ جب بھی ردتا ہے اور اس کے منہ میں پستان دے دیا جاتا ہے وہ اسی عمر ے گریہ وزاری کا عادی ہو جاتا ہے اور وہ آئندہ بھی رونے دھونے اور منت

----------

۱_مستدرک ج ۳ص ۸۲

۸۴

سماجت کو ہی مقصد تک پہنچنے کا بہترین وسیلہ سمجھنے لگتا ہے _ کاموں میں صبر اور حو صلہ سے کام نہیں لیتا _ وہ چاہتا ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے مقصد تک پہنچ جانے اگر چہ اس کے لیے رونا پڑے یا التماس کرنے پڑے یا ذلت کا بو جھ اٹھا نا پڑ ے _

۴_ ایسے بچے کے ماں لاپ اور مربیوں کو راحت و آرام نہیں ملتا کیونکہ وہ وقت بے وقت رونے مگتا ہے اور دودھ مانگتا ہے _

انہیں نقائص کی وجہ سے میں پہلی روش کو دوسری روش پر ترجیح دیتا ہوں اور منظم طریقے سے غذا دینے کو بچے کی جسمانی اور روحانی نشو و نما کے لیے بہتر سمجھتا ہوں _

ڈاکٹر جلالی اس بار ے میں لکھتے ہیں:اگر کسی ماہر ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق بچے کے لیے دودھ پلانے کا منظم پروگرام بنا یا جائے تو اس میں اسی کے مطابق عادت پیدا ہو جائے گی اورعادت خود اس بات کا سبب بنے گی کہ اس عادت سے مربوط طرز عمل اور رد عمل سے مائیں بچے کی سیری اور بعوک کی حالت سے آگاہ ہو سکیں _

ثانیا انسان کے بہت سارے کام ہر روز چونکہ عادت کے مطابق انجام پانے چاہیں لہذا دود ھ دینے کا یہی منظم پروگرام اس کی بعد کی عادتوں کے لئے اچھی بنیاد بن جائے گا ( ۱)

آج کل ہرماں بچے کی پرورش کے سادہ سے حقائق جانتی ہے اور اس کی تربیت کرتی ہے مثلا وہ جانتی ہے کہ بچے کو مناسب وقفوں سے غذا دینا کتنا ضروری ہے نہ کہ جب وہ رورہا ہو اسے علم ہے کہ ایسی پا بندی اس لیے رکھی جاتی ہے ہ یہ غذا کے ہضم ہونے ہیں بہت فائدہ مند ہے ... ...علاوہ از یں تربیت اخلاق کے حوالے سے بھی مطلوب ہے کیونکہ شیر خوار بچے

----------

۱_ روان شناسی کودک ص ۲۲۴

۸۵

اس سے زیادہ حیلہ ساز اور کمر باز ہوتے ہیں کہ جتنا بڑے ان کے بارے میں تصور کرتے ہیں _ بچے جب دیکھتے ہیں کہ رونے دھونے سے ان کا مقصود حاصل ہوجاتا ہے تو وہ پھر اسی روش کو اختیار کرتے ہیں اور بعد جب کہ وہ دیکھتے ہیں کہ شکوہ اور آہ و زاری کی عادت بجائے اس کے کہ نوازش کا باعث بنے نفرست کا سبب بنتی ہے تو تعجب کرتے ہیں اور ان کو بہت دھچکا پہنچتا ہے اور دنیا ان کے آنکھوں میں سرد ، خشک اور بے روح ہوجاتی ہے _

لیکن چند نکات کی طرف توجہ ضروری ہے _

۱_ سب بچوں کے لیے اور دودھ پینے کے تمام عرصے کے لیے غذا کا ایک جبسا پروگرام معین نہیں کیا جا سکتا کیونکہ نظام ہضم اور بچے کی غذائی ضرورت تمام مدّت میں ایک جیسی نہیں رہتی _ نو زائدہ بچہ کا معدہ اور نظام ہضم آغاز تولد سے چالیس پچاس روز تک بہت چھوٹا ہوتا ہے کہ جو تھوڑے سے دودھ سے بھر جاتا ہے _ نو زائدہ بچہ تھوڑے سے دودھ سے سیر ہوجاتا ہے لیکن تھوڑی ہی مدّت بعد پھر بھوکا ہوجاتا ہے اس مدّت میں چاہیے کہ دودھ پلانے کے درمیاں فاصلہ کم ہو مثلاً ۲۱ اسے ۲ گھنٹے تک لیکن اس کے بعد بچے کے بڑے ہونے کے اعتبار سے وقفوں میں زیادہ اضافہ کیا جا سکتا ہے مثلاً تین گھنٹے یا چار گھنٹے یہاں تک کہ بعض اوقات اس سے بھی زیادہ کا _

۲_ سب بچے جسمانی ساخت اور نظام ہضم کے اعتبار سے ایک جیسے نہیں ہوتے بعض کو جلدی بھوک لگ جاتی ہے اور بعض کو دیر سے لہذا ان سب کے لئے ایک جیسا پروگرام تجویز نہیں کیا جا سکتا _ سمجھدار اور ہوش مند مائیں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتی ہیں اور اپنے بچوں کی صحّت و سلامتی کی خواہاں ہوتی ہیں _ وہ بذات خود اپنی بچے کے لیے خاص شرائط و حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے غذا کا پروگرام منظم کرتی ہیں اور ضروری ہو تو وہ ڈاکٹر کی طرف رجوع کرکے مشورہ بھی کرتی ہیں _

۸۶

۳_ جب بھی بچے کو دودھ دیا جائے تو اسے پوری طرح سیر کرنا چاہیے البتہ خواتین کو اس امر کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ بچے بالخصوص نوزاد بچہ جلدی سوجاتا ہے اور معمولاً دودھ پیتے پیتے سوجاتا ہے جب کہ ابھی وہ سیر نہیں ہواہوتا اس صورت میں ماں بچے کی پشت پر آہستہ آہستہ ہاتھ مارسکتی ہے تا کہ وہ بیدار رہے اور پوری طرح سے سیر ہوجائے _

۴_ جب بچے کودودھ دینے کا منظم پروگرام ترتیب پاجائے تو اس پر صحیح طرح سے عمل درآمد کی طرف توجہ رکھنا چاہیے اور مقرر اوقات کے درمیان میں اسے ہرگز دودھ نہیں دینا چاہیے اگر چہ وہ گریہ و زاری کرے _ اس کام میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تا کہ بچہ آہستہ آہستہ اس غذائی پروگرام کا عادی ہوجائے _ اس کے بعد وہ خود بخود معین اوقات میں بیدار ہونے لگے گا اور دودھ کا تقاضا کرنے لگے گا _ ایسی صورت میں ایک صابر ، بردبار اور منظم بچہ بھی پروان چڑھے گا اور آپ بھی آرام وراحت میں رہیں گے_

۵_ بچے کے غذائی پروگرام کو اس طریقے سے مرتب کرنا چاہیے کہ آدھی رات کے بعد سے صبح تک اسے غذا نہ دی جائے تا کہ وہ اس طرز عمل کا عادی ہوجائے _ اس صورت میں بچہ بھی آرام و راحت سے سوجائے گا اور ماں بھی چند گھنٹے سکون اور چین سے آرام کرسکے گی_

۶_ ہر مرتبہ بچے کو دودھ دینے کے بعد پستان کو تھوڑی سی روٹی سے صاف کرنا چاہیے _ یہ کام بچے کی صحت و سلامتی کے لیے بھی مفید ہے اور پستان کو زخمی ہونے سے بھی بچاتا ہے _

۷_ جب بچہ دودھ پیتا ہے تو عموماً کچھ ہوا اس کے معدے میں داخل ہوجاتی ہے _ اور اس کے لیے ناراحتی کا سبب بنتی ہے اور اس کے پیٹ میں ہوا بھر جاتی ہے _ دودھ دینے کے بعد آپ اسے بلند کرسکتے ہیں اور آہستہ آہستہ اس کی پشت پر ہاتھ مارسکتے ہیں تا کہ ہوا نکل جانے اور بچہ دل کی تکلیف میں مبتلا نہ ہو _

۸۷

۸_ بچے کو دونوں پستانوں سے دودھ دیں تا کہ آپ کا دودھ خشک نہ ہو اور آپ پستان کے درد میں مبتلا نہ ہوں _ ایک خاتون کہتی ہے :

حضرت امام صدق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا اپنے بچے کو ایک پستان سے دودھ نہ دے بلکہ دونوں پستانوں سے دودھ دے تا کہ اسے کامل غذا مل سکے _ (۱)

۹_ دودھ پلانے والی ماؤں کو چاہیے کہ وہ زیادہ تھکادینے والے کام اور شدید غصہ سے اجتناب کریں کیونکہ ماں کی ناراضی اور شدیدغصّے کے اثرات دودھ پر مرتب ہوتے ہیں کہ جو بچے کے لیے نقصان دہ ہیں _

----------

۱_ وسائل _ج ۱۵ ص ۱۷۶

۸۸

ماں کا دودھ نہ ہو تو ؟

اگر ماں کا دودھ بچے کی ضرورت پوری نہ کرتا ہو تو ماں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اسے اپنے دودھ سے بالکل ہی محروم کردے بلکہ اس کا جتنا بھی دودھ ہے وہ بچے کو پلائے اور کمی کو دوسرے دودھ اور غذا سے پورا کرے _ لیکن اگر ماں کو دودھ بالکل نہ ہو (البتہ ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے) یا وہ دودھ دینے سے معذور ہوتو پھرگائے کے دودھ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ جو کسی حد تک شیر مادر سے ملتا جلتا یا پھرخشک دودھ سے _ اگر گائے کے دودھ سے استفادہ کیا جائے تو چاہیے کہ مندرجہ ذیل نکات کی طرف توجہ رکھی جائے _

۱_ گائے کا دودھ عموماً ماں کے دودھ سے زیادہ گاڑھا اور زیادہ بھاری ہوتا ہے _ اس لحاظ سے چاہیے کہ اس میں کچھ ابلا ہوا پانی ملادیا جائے ، اس حد تک کہ وہ ماں کے دودھ جیسا ہوجائے اس میں تھوڑی سی چینی بھی ملا لینی چاہیے _

۲_ دودھ کو پندرہ منٹ تک کے لیے ابال لینا چاہیے تا کہ اگر اس میں جراثیم ہوں تو وہ ختم ہوجائیں _

۳_ بچے کو جود ودھ پلایا جائے نہ زیادہ گرم ہو اور نہ زیادہ سرد بالکل ماں کے دودھ جیسی اس کی حرارت ہو _

۴_ ہر مرتبہ بچے کو دودھ پلاتے وقت فیڈر (دودھ والی بوتل) کو دھولینا چاہیے تا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دودھ خراب ہوجائے اور بچہ بیمار ہوجائے _

۵_ کوشش کرنی چاہیے کہ حتی المقدور تازہ اور صحیح دودھ سے استفادہ کیا جائے _

۸۹

اگر آپ بچے کی غذا کے لیے خشک دودھ سے استفادہ کرنا چاہیں ، تو ضروری ہے کہ اس بارے میں ڈاکٹر سے مشورہ کریں کیونکہ خشک دودھ مختلف قسم کا ہوتا ہے اور ہر قسم کا دودھ ہر بچے اور ہر عمر کے لیے مفید او رمناسب نہیں ہوتا _

اس سلسلے میں ڈاکٹر ہی فیصلہ کرکے آپ کی راہنمائی کرسکتا ہے _ اگر ڈاکٹر کوئی دودھ آپ کے بچے کے لئے تجویز کرے اور وہ آپ کے بچے کے مزاج سے ہم آہنگ نہ ہو تو آپ پھر ڈاکٹر کی طرف رجوع کرسکتے ہیں _

۹۰

دودھ چھڑوانا

بچے کو پورے دوسال دودھ پلانا چاہیے _ دوسال دودھ پینا ہر بچے کا فطری حق ہے کہ جو خداوند بزرگ نے اس کے لیے مقرر کیا ہے _ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے _ والوالدات یرضعن اولادهنّ حولین کاملین _

مائیں اپنے بچوں کو پورے دوسال دودھ پلائیں _ بقرہ آیہ ۲۳۳

اگر ماں چاہے تو دوسال سے جلدی بھی بچے کو دودھ چھڑوا نے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ کہ کم از کم اکیس مہینے اسے دودھ پلا چکی ہو _

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں _ الرضاع واحد و عشرون شهراً انما نقص فهو جور علی الصبی

دودھ پلانے کی مدّت کم از کم اکیس ماہ ہے _ اگر کسی نے اس مدّت سے کم پلایا تو یہ بچے پر ظلم ہے _ (۱)

ان دو سالوں میں بچہ آہستہ آہستہ دوسری غذاؤں سے آشنا ہوجاتا ہے _ ماں رفتہ رفتہ بچے کا دودھ کم کردیتی ہے اور اس کے بجائے اسے دوسری غذا دیتی ہے _ دودھ پلانے کی مدت پوری ہونے کے بعد بچے کو دودھ چھڑوایا جا سکتا ہے اور صرف دوسری غذاؤں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے _ سمجھدار اور معاملہ فہم مائیں خود بہتر جانتی ہیں کہ بچے کے لیے کس طرح

------------

۱_ وسائل الشیعہ جلد ۱۵ ص ۱۷۷

۹۱

کی غذا انتخاب کرنی چاہیے کہ جو بچے کے مزاج سے بھی ہم آہنگ ہواور غذائیت کے اعتبار سے بھی کامل _

البتہ بچے کو دودھ چھڑدانا کوئی ایسا آسان کام بھی نہیں _ یقینا وہ چند روز گریہ و زاری و فریاد کرے گا لیکن صبر و استقامت سے کام لیناچاہیے تا کہ وہ بالکل دودھ چھوڑ دے _ مال شرعی حد تک دودھ کو برا کہہ سکتی ہے ، اپنے پستان کو سیاہ اور خراب کر سکتی ہے یا پستان کے سرغ کو کڑوا کر سکتی ہے تا کہ بچہ دودھ پینے سے رک جائے _

لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے کسی خیالی یا دوسری چیزسے دڑایا جائے _ اس امر سے غافل نہ رہیے کہ بچے کو دڑانا کوئی اچھا کام نہیں ہے اس سے اس کے جسم اور روح پر برے اثرات پڑتے ہیں جو بعد میں ظاہر ہوتے ہیں _

۹۲

بیٹی یا بیٹا

جو نہی عورت حاملہ ہوتی ہے وہ اس مسئلہ میں مضطرب رہتی ہے کہ بیٹا ہوگیا یا بیٹی ، دعا کرتی ہے نذر مانتی ہے نیاز دیتی ہے کہ بیٹا ہو _ جب اس کے عزیز رشتے دار ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ تمہارے چہرے کے رنگ سے لگتا ہے کہ بیٹا پیدا ہوگا _ جب کہ اس کے برخلاف اس کے دشمن کہتے ہیں کہ تمہاری آنکھوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیٹی پیدا ہوگی _ شوہر بھی بیگم سے پیچھے نہیں ہوتا اس کے بھی دل میں بیٹے کی خواہش چٹکیاں لیتی رہتی ہے _ موقع بے موقع وہ اس بارے میں بات کرتا ہے اور ادھر ادھر کے وعدے کرتا رہتا ہے _ پیدائشے کے وقت سب حاضرین کی توجہ اس مسلئے کی طرف رہتی ہے کہ بیٹا ہے یا بیٹی _ اگر بیٹی ہو تو ایک دفعہ کمرہ پیدائشے میں سرتا پا سکوت ہوجاتا ہے اور چہرے اتر جاتے ہیں لیکن اگر بیٹا ہو تو خوشی کا شوروشین بلند ہوجاتا ہے _ ماشاء اللہ سے آواز گونج اٹھتی ہے _ جب بچے کی پیدائشے کی خبر باپ تک پہنچتی ہے تو اگر بیٹا ہو تو خوش ہوجاتا ہے ، ادھر ادھر دوڑتا ہے ، مٹھائیاں اور پھل لاتاہے ،ڈاکٹر اور دوا کا بندوبست کرتا ہے _ کہتا پھرتا ہے بچے کا دھیان رکھنا اسے کہیں ٹھنڈ نہ لگ جائے _ بیگم کے بارے میں احتیاط کرنا کہ کہیں ہلے چلے نہ _ دائیہ اور نرسوں کو انعام دیتا ہے _ لیکن اگر بیٹی جنم لے تو اس کا چہرہ ہی اترجاتا ہے _ کونسے میں جا بیٹھتا ہے اپنی بدبختی پر روتا ہے اور اپنی زندگی کو تلخ بنالیتا ہے _ بیمار بیوی کی طرف اعتنا نہیں کرتا اس کی احوال پرسی اور عیادت نہیں کرتا _ یہاں تک کہ بعض اوقات اسے ایسا غصہ آتا ہے کہ طلاق کی دھمکی دینے لگتا ہے _ ہمارے انحطاط پذیر اور بے تربیت معاشرے کی اکثریت میں ایسے ہی غلط افکار اور بری عادت موجود ہے _ البتہ سب ایسے نہیں ہیں _ روشنفکر

۹۳

لوگ بھی موجود ہیں کہ جن کی نظر میں بیٹا اور بیٹی برابر ہے لیکن وہ اقلیت میں ہیں _

والد عزیز اور والدہ گرامی

بیٹا ہو یا بیٹی ان میں کیا فرق ہے _ کیا بیٹی میں انسانت کم ہوتی ہے ؟ کیا اس میں ترقی اور پیش رفت کی صلاحیت نہیں ہوتی ؟ کیا وہ ایک مفید اور قیمتی انسان نہیں بن سکتی ؟ کیا بیٹی تمہاری اولاد نہیں ہے ؟ آخر بیٹوں کا ماں باپ کے لیے کون سا ایسا فائدہ ہے جو بیٹی کا نہیں ؟ اگر بیٹی کی کی کوئی اہمیت نہ ہوتی تو اللہ اپنے رسول (ص) کی نسل کو فاطمہ (ع) کے ذریعے کیسے برقرار رکھتا _ اگر بیٹی کی آپ اچھی پرورش کریں تو وہ بیٹے سے پیچھے نہیں رہے گی تاریخ کے اوراق پلٹ کردیکھیں آپ کو ایسی خواتین نظر آئیں گی جن میں سے ایک ایک ہزاروں مردوں پر بھاری ہے _ یہ کیسی غلط افکار کے خلاف جہاد کیجئے بیٹے اور بیٹی میں غلط قسم کے فرق کو اپنے ذہن سے نکال دیجئے _ ذمہ دار اور مفید انسانوں کی تعمیر کے بارے میں سوچیے _ سودمند اور قیمتی انسان بیٹی بھی ہوسکتی اور بیٹا بھی _ جس وقت تمہیں بچے کی پیدائشے کی خبر ملے اگر وہ صحیح و سالم ہو تو خدا کا شکر کرو کہ وہ پروردگار عالم کا عطیہ ہے اور تمہارے وجود کی یادگاری ہے کہ جو زندگی کے حساس اور خطرناک مرحلے سے صحیح و سالم گزر آیاہے اور اس نے زمین پر قدم رکھا ہے _

پیغمبر اکرم اورائمہ اطہار علیہم السلام کی یہی روش تھی _جس وقت اما م سجاد علیہ السلام کو نو مولود کی خبر دی جاتی تو بیٹی کے بارے میں ہرگز سوال نہ کرتے _ لیکن جب ان کو بتایا جاتا کہ صحیح و سالم ہے تو خدا کا شکر ادا کرتے _ (۱)

رسول اکرم (ص) اپنے دوستوں کے ساتھ محو گفتگو تھے اسی اثنا میں ایک شخص محفل میں داخل ہوا اورحضور کو خبری دی کہ اللہ نے آپ کو بیٹی علا کی ہے _ رسول اللہ اس خبر پرخوش ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کیا آپ (ص) نے جب اپنے اصحاب کی طرف نظر کی تو ان کے چہروں پر ناراحتی کے آثار ہویدا تھے _ آپ (ص) نے برا مانتے ہوئے فرمایا:

----------

۱_ وسائل _ ج ۱۵ _ص ۱۴۳

۹۴

مالکم ؟ ریحانة اشمها و رزقها علی الله عزوجل

کیا ہوگیا تمہیں ؟ اللہ نے مجھے پھول عطا کیا ہے جس کی مہک میں سونگھتا ہوں اول اللہ نے اس کا رزق دیا ہے _ (۱)

اللہ تعالی نے اس بری عادت کی مذمت کی ہے اور قرآن میں فرمایا ہے _

و اذا بشّر احدهم بالانثی ظلّ وجهه مسودًا و هو کظیم _ یتواری من القوم من سوء ما بشّر به _

(سورہ نحل ، آیہ ۵۸ _۵۹)

جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی بشارت دی جاتی ہے تو شرم کے مارے اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے ، غصہ اس پر چھاجاتا ہے _ اس بری خبر کے باعث وہ لوگوں سے منہ چھپائے پھرتا ہے _

-----------

۱_ وسائل الشیعہ _ ج ۱۵_ ص ۱۰۲

۹۵

بچے کا نام

ماں باپ کی حساس اور اہم ذمہ داریوں میں سے ایک بچے کا نام کا انتخاب ہے _ نام رکھنے کو چھوتی سی اور غیر اہم چیز نہیں سمجھنا چاہیے _ لوگ ناموں اور خاندانوں سے اندازہ لگاتے ہیں اور ان کی خوبی اور خوبصورتی کو شخصیت کی پہچان شمارکرتے ہیں جس کسی کا بھی اپنا اور خاندانی نام خوبصورت ہوگا وہ ہمیشہ ہر جگہ سربلند ہوگا اور جس کسی کا نام بھی برا ہوگا شرمندہ ہوگا _ برے نام کو اپنا عیب سمجھے گا اور احساس کمتری میں مبتلا رہے گا _ بعض اوقات بے ادب لوگ اس کا مذاق بھی اڑائیں گے اور یہ احساس کمتری وہ چاہے نہ چاہے اس کی روح پر برے آثار مرتب کرے گا _ اس وجہ سے اسلام اچھے نام کا انتخاب ماں باپ کی ذمہ داری قرار دیتا ہے اور اسے ان کی اولین نیکی شمار کرتا ہے _

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

ہر باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے خوبصورت نام انتخاب کرے _ (۱)

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

اولاد کے باپ پر تین حق ہیں _ پہلا یہ کہ اس کا نام اچھارکھے _ دوسرا کہ اسے پڑھنا لکھنا سکھائے تیسرا یہ کہ اس کے لیے شریک حیات ڈھنڈے _ (۲)

--------

۱_ مستدرک ج ۲ ص ۶۱۸

۲_ بحار الانوار ج ۱۰۴ ص ۹۲

۹۶

امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

اوّل ما یبرّ الرّجل ولده ان یسمّیه باسم حسن _

باپ کی پہلی نیکی اولاد کے ساتھ یہ ہے کہ اس کے لیے پیارا سانام انتخاب کرے _ (۱)

دوسری طرف نام کا انتخاب بہت زیادہ معاشرتی اثر بھی رکھتا ہے _ نام ہے کہ جو ماں باپ کے مقاصد ، افکار اور آرزوؤں کا ترجمان ہوتا ہے اور انکی اولاد کو باقاعدہ مختلف گروہوں اور اہداف میں سے کسی کے ساتھ وابستہ اور ملحق کرتا ہے _ نام ہی سے سمجھدار ماں باپ کسے افکار اور ارمانوں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے _ ماں باپ کو اگر کسی خاص شاعر تعلق خاطر ہوگا تو وہ اپنے بچے کے لیے اسی کا نام انتخاب کریں گے _ اگر وہ علم دوست ہوں گے تو علماء میں سے کسی کے نام سے استفادہ کریں گے _ اگر دیندار ہوں گے تو انبیاء ائمہ اور بزرگان دین کے ناموں میں سے کوئی نام چنیں گے _ اگر وہ ایثار دین کے راستے میں جانبازی اور ستمکاروں کے خلاف جہاد کو پسند کرتے ہوں گے تو محمد ، علی ، حسن (ع) ، حسین (ع) ، ابوالفضل (ع) ، عباس ، حمزہ ، جعفر ، ابوذر، عماراور سعید جیسے ناموں میں سے کوئی نام انتخاب کریں گے _اگر وہ کسی کھیل کو پسند کرتے ہوں کے تو معرف کھلاڑیوں میں سے کسی نام رکھیں گے _ اگر انھیں کوئی گلوکار اچھا لگتا ہوگا تو اپنے بچے کا نام اسی کے نام پر رکھیں گے _

اگر وہ ظلم و ستم سے خوش ہوں گے تو سکندر، تیمور ، چنگیز جیسے ناموں میں سے کسی کا انتخاب کریں گے ہر ماں باپ نام کے انتخاب سے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو کسی خاص گر وہ سے وابستہ کرلیتے ہیں _ ناموں کہ یہ وابستگی عمومی افکار پر اثر انداز ہونے کے علاوہ زیادہ تر صاحب نام پر بھی اثر انداز ہوتی ہے _رسول اسلام (ص) نے فرمایا:

استحسنوا اسمائکم فانکم تدعون بها یوم القیامة قم یا فلان بن فلان الی نورک وقم یا فلان بن فلان لا نورلک _

-----------

۱_ وسائل الشیعہ ج ۱۵ ص ۱۲۲

۹۷

اچھا نام رکھو کیونکہ قیامت کے روز تمہیں انہی ناموں سے پکارا جائے گا اور کہا جائے گا اسے فلان ابن فلان اٹھ کھڑے ہو اور اپنے نورسے وابستہ ہو جاؤ اور اے فلاں بن فلاں اٹھ کھڑے ہو کہ تمہارے لیے کوئی روشنی نہیں جو تمہاری راہنمائی کرے _ (۱)

ایک شخص نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا : ہم لوگ آپ کے اور آپ کے اجداد کے نام اپنے لیے انتخاب کرتے ہیں _ کیا اس کام کا کوئی فائدہ ہے _ آپ نے فرمایا:

ہاں اللہ کی قسم کیا دین اچھوں سے محبت اور بروں سے نفرت کے سوا بھی کچھ ہے _ (۲)

دنیا میں لوگ اپنے مقاصد کی ترویج کے لئے اور شخصتیوں کو نمایاں کرنے کے لئے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں _ یہاں تک کہ شہروں ، سڑکوں اور چوراہوں کے نام رکھنے تک سے استفادہ کرتے ہیں _ ایک ذمہ دار اور آگاہ مسلمان بھی دین کی ترویج کے لیے کسی موقع پر یہاں تک کہ نام رکھنے کے موقع پر غفلت نہیں کرتا _

ہاں حسن ، حسین ،ابوالفضل ، علی اکبر، حر ، قاسم ، حمزہ ، جعفر ، ابوذر اور عمار جیسے ناموں کے انتخاب سے اور ان کی ترویج سے اسلام کے مروان مجاہد کی جانبازی اور فداکاری کودلوں میں زندہ رکھا جا سکتا ہے فداکاری اور ظالموں کے خلاف جہاد کی روح ملت میں پھونکی جا سکتی ہے _ اللہ کے عظیم رسولوں مثلاً ابراہیم ، موسی، عیسی ،اور محمد (ص) کا نام انتخاب کرکے خدا پرستوں اورقوانین الہی کے حامیوں کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعلان کیا جا سکتا ہے _ فداکار اور مجاہد شیعہ مثلاً ابوذر ، میثم ، عمار اور ایسے سینکڑوں دوسرے حقیقی تشیع کے مصادیق کے ناموں کے حیاء اور ترویج سے ملت کو شخصیت کا حقیقی مفہوم سکھایا جا سکتا ہے _ اسلام کے عظیم

---------

۱_ وسائل الشیعہ ج ۱۵ ص ۱۲۳

۲_ مستدرک _ج _ص ۲۱۸

۹۸

علماء کے ناموں کا انتخب کرکے ان کے علم و دانش کی قدردانی اور ترویج کی جاسکتی ہے _ ایک سمجھدار مسلمان اس امر پہ تیار نہیں ہوسکتا کہ وہ ظالموں یا اسلام دشمنوں میں سے کسی کا نام اپنے بچے کے انتخاب کرے _ وہ جانتا ہے کہ خود یہ نام رکھنا بھی ایک طرح سے ظلم کی ترویج ہے _امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

لقد احتظرت من الشیطان احتظار شدیدًا انّ الشیطان اذا سمع نادیاً ینادی یا محمد و یا علی ذاب کما یذوب الرصاص ، حتی اذا سمع منادیا ینادی باسم عد و من اعدائنا اهتزّوا ختال_

شیطان سے بچو اور اس سے بہت خبردار ہو، کہ جب شیطان سنتا ہے کہ کسی کو محمد اور علی کہہ کے پکارا جاررہا ہے تو وہ یوں پگھل جاتا ہے جیسے سیسہ پگھل جاتا ہو اور جب وہ سنتا ہے کہ کسی کو ہمارے دشمنوں میں سے کسی کے نام سے پکارا جاتا ہے تو خوشی سے پھولا نہیں سماتا _ (۱)

پیغمبر اسلام (ع) نے فرمایا: من ولد له اربقه اولاد کم بسم احدهم باسمی فقد جفانی

جس کسی کے بھی چار بیٹے ہوں اور اس نے کسی ایک کا نام بھی میرے نام پر نہیں رکھا اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے _ (۲)

امام باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: خیر ها اسماء الانبیائ

بہترین نام نبیوں کے نام ہیں _ (۳)

-----------

۱_ وسائل الشیعہ _ ج _ص ۱۲۷

۲_ وسائل الشیعہ _ج _ص ۱۲۷

۳_ وسائل الشیعہ _ ج _ ص ۱۲۴

۹۹

پیغمبر اسلام (ص) نام کے مسئلے پر اس قدر اہتمام کرتے تھے کہ اگر ان کے اصحاب یا شہروں کے ناموں میں سے کسی کا اچھا نہ لگتا تو فوراً بدل دیتے _ عبدالشمس کو عبدالوہاب میں تبدیل کردیا _ عبد العزی (عزی بت کا بندہ ) کو آپ نے عبداللہ میں بدل دیا _ عبدالحادث ( شیر کا بندہ ) کو عبدالرحمن میں اور عبدالکعبہ کو عبداللہ میں بدل دیا _

۱۰۰

صحت و صفائی

بچے کا لباس سال کے مختلف موسموں اور آب دہوا کے اعتبار سے ایسا تیارکنا چاہیے کہ نہ اسے ٹھنڈے مگے اور نہ ہی گرمی کی شدت سے اس کا پسنہ بہتا رہے اور اسے تکلیف محسوس ہو _ نرم اور سادہ سوتی کپڑے بچے کی صحت اور آرام کے لیے بہتر ہیں _ تنگ اور چپکے ہوئے لباس بچے کی آزادی کو سلب کرلیتے ہیں اور ایسا ہونا اچھا نہیں ہے _ ان کو تبدیل کرتے وقت بھی ماں اور بچے دونوں کو زحمت ہوتی ہے _ اکثر لوگوں میں رواج ہے کہ بچے کو سخت کپڑوں میں پیک کردیتے ہیں اور اس کے ہاتھ پاؤں مضبوطی سے باندھ دیتے ہیں _ ظاہراً ایسا کرنا اچھا نہیں ہے اور بچے کے جسم اور روح کے لیے ضرر رساں ہے _ اس غیر انسانی عمل سے اس ننھی سی کمزور جان کی آزادی سلب کرلی جاتی ہے _ اسے اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ آزادی سے اپنے ہاتھ پاؤں مارے اور حرکت دے سکے اس طرح سے اس کی فطری نشو و نمااور حرکت میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے _

ایک مغربی مصنف لکھتا ہے :

جو نہی بچہ کے پیٹ سے نکلتا ہے اور آزادی سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے اور اپنے ہاتھ پاؤں کو حرکت دیتا ہے تو فوراً اس کے ہاتھ پاؤں کو ایک نئی قید و بند میں جکڑدیا جاتا ہے _ پہلے تو اسے پیک کردیتے ہیں _ اس کے ہاتھ پاؤں کو دراز کرکے زمین پر سلادیتے ہیں اور پھر اس کے جسم پر اتنے کپڑے اور لباس چڑھاتے ہیں اور کمربند باندھتے ہیں کہ وہ حرکت تک نہیں

۱۰۱

کر سکتا اس طرح سے بچے کی داخلی نشو و نما کہ جو وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ ہوتی ہے اس خارجی رکاوٹ کی وجہ سے رک جاتی ہے کیونکہ بچہ نشو و نما اور پرورش کے لیے اپنے بدن کے اعضاء کو اچھی طرح سے حرکت نہیں دے پاتا جن ممالک میں اس طرح کی وحشیانہ دیکھ بھال کا معمول نہین ہے اس علاقے کے لوگ طاقت دریاقوی ، بلند قامت اور متناسب اعضا ء کے حال ہوتے ہیں _ اس کے برعکس جن علاقوں میں بچوں کو کس باندھ دیا جاتا ہے وہاں پر بہت سے لوگ لولے لنگڑے ، ٹیڑے میڑھے، پست قامت اور عجیب و غریب ہوتے ہیں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی پرورش اور ایسے وحشیانہ عمل اس کے اخلاق اور مزاج کی کیفیت پر نامطلوب اثر نہیں ڈالیں گے _ سب سے پہلا احساس اس میں درد اور قید و بند کا ہوتا ہے کیونکہ وہ ذرا بھی حرکت کرنا چاہتا ہے تو اسے رکاوٹ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا اس کی حالت تو اس قیدی سے بھی بری ہوتی ہے جو قید بامشقت بھگت رہا ہوتا ہے _ ایسے بچے ایسے ہی کوشش کرتے رہتے ہیں ، پھر انہیں غصہ آتا ہے _ پھر چیختے چلاتے ہیں اگر آپ کے بھی ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں تو آپ اس بھی زیادہ او ربلند تر چیخیں چلائیں _

بچہ بھی ایک انسان ہے اس میں بھی احساس اور شعور ہے وہ بھی آزادی اورراحت کا طلب گار ہے _ اسے بھی اگر کس باندھ دیا جائے اور اس کی آزادی سلب کرلی جائے تو اسے تکلیف ہوتی ہے _ لیکن وہ اپنا دفاع نہیں کرسکتا اس کا ایک ہی ردعمل ہے گریہ و زاری اور دادو فریاد اور اس کے سوا اس کا کوئی چارہ ہی نہیں _ یہ دباؤ، بے آرامی اور تکلیف تدریجاً بچے کے اعصاب اور ذہن پر اثرانداز ہوتی ہے اور اسے ایک تند مزاج اور چڑچڑآ شخص بنادیتی ہے بچے کے لباس کو صاف ستھرا اور پاکیزہ رکھیں جب بھی وہ پیشاب کرے تو اس کا لباس تبدیل کریں

۱۰۲

اس کے پاؤں کو دھوئیں اور زیتون کے تیل سے اس کی مالش کریں تا کہ وہ خشکی اور سوزن کا شکار نہ ہو _ چند مرتبہ پیشاب کے بعد بچے کو نہلائیں اور اسے پاک کریں اس طرح بچے کی صحت و سلامتی میں آپ اس کی مدد کرسکتے ہیں اور اسے بچپنے کی کئی بیماریوں سے بچا سکتے ہیں _ علاوہ ازیں بچہ نفیس و پاکیزہ ہوگا ، آنکھوں کو بھلا لگے گا اور سب اس سے پیار کریں گے _

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

''اسلام دین پاکیزگی ہے _ آپ بھی پاکیزہ رہیں کیونکہ فقط پاکیزہ لوگ بہشت میں داخل ہوں گے '' _ (1)

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:''بچوں کو چلنا ہٹ اور میل کچیل سے پاک کریں کیونکہ شیطان انہیں سونگھتا ہے پھر بچہ خواب میں دڑتا ہے اور بے چین ہوتا ہے اور فرشتہ ناراحت ہوتے ہیں '' _ (2)

بیٹوں کا ختنہ کرنا ایک اسلامی رواج ہے اور واجب ہے _ختنہ بچے کی صحت و سلامتی کے لیے بھی مفید ہے ختنہ کرکے بچے کو میل کچیل اور آلہ تناسل اور اضافی گوشت کے درمیان پیدا ہونے والے موذی جراثیم سے بچایا جا سکتا ہے _ ختنے کو زمانہ بلوغ تک مؤخر کیا جا سکتا ہے لیکن بہتر ہے کہ پیدائشے کے پہلے پہلے دنوں میں ہی یہ انجام پاجائے _ اسلام حکم دیتا ہے کہ ساتویں دن نو مولود کا ختنہ کردیا جائے _حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ''اختنوا اولادکم لسبعة ایام، فانه اطهر و اسرع لنبات اللحم ، و ان الارض لتکره بول الاغلف''

''ساتویں دن اپنے بچوں کا ختنہ کریں _ یہ ان کے لیے بہتر بھی ہے اور پاکیزہ تر

-----------

1_ مجمع الزوائد ج 5 ص 132

2_ بحار الانوار ج 104 ص 95

۱۰۳

بھی نیز ان کی سریع تر نشو و نما اور پرورش کے لیے بھی مفید ہے اور یقینا زمین اس انسان کے پیشاب سے کراہت کرتی ہے کہ جس کا ختنہ نہ ہوا ہو '' _ (1)

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں: ''اختنوا اولاد کم یوم السابع فانه اطهر و اسرع لنبات اللحم''

''نو مولد کا ساتویں دن ختنہ کریں تا کہ وہ پاک ہوجائے اور بہتر رشد و نمو کرے '' _ (2)

عقیدہ کرنا بھی مستحبات مؤکد میں سے ہے _ اسلام نے اس امر پر زور دیا ہے کہ ساتویںدن بچے کے بال کٹوائے جائیں اور اس کے بالوں کے وزن کے برابر سونے یا چاندی صدقہ دیا جائے اور اسی روز عقیقہ کے طور پر دنبہ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت فقرا میں تقسیم کیا جائے _

یا انہیں دعوت کرکے کھلایاجائے _ عقیقہ کرنا ایک اچھا صدقہ ہے اور بچہ کی جان کی سلامتی اور دفع بلا کے لئے مفید ہے _

نو مولود نہایت نازک او ر ناتوان ہوتا ہے _ اسے ماں باپ کی توجہ اور نگرانی کی بہت احتیاج ہوتی ہے _ صحت و سلامتی یا رنج و بیماری کی بچپن میں ہی انسان میں بنیاد پڑجاتی ہے اور اس کی ذمہ داری ماں باپ پر عائد ہوتی ہے جو ماں باپ اس کے وجود میں آنے کا باعث بنے ہیں ان کا فریضہ ہے کہ اس کی حفاظت اور نگہداشت کے لیے کا وش کریں اور ایک سالم اور تندرست انسان پروان چڑھائیں _ اگرماں باپ کی سہل انگاری اور غفلت کی وجہ سے بچے کے جسم و روح کو کوئی نقصان پہنچا تو وہ مسئول ہیں اور ان سے مؤاخذہ کیا جائے گا _ بچہ دسیوں بیماریوں میں گھر اہوتا ہے ، جن میں سے بہت سی بیماریوں کو لاحق ہونے سے روکا جا سکتا ہے مثلاً بچوں کا فالج ، جسم پر چھالوں کا پیدا ہونا ، خسرہ چیچک ، خناق، تشنج

---------

1_ وسائل الشیعہ ج 15ص 161

2_ وسائل الشیعہ ج 15 ص 165

۱۰۴

اور کالی کھانسی و غیرہ جیسی بیماریوں سے متعلقہ ٹیکے لگواکر (دیکسنیشن کے ذریعے ) بچے جا سکتا ہے خوش قسمتی سے شفا خانوں اور طبی مراکز میں اس قسم کی بیماریوں کی روک تھام کا انتظام موجود ہے _ اور رجوع کرنے والوں کو اس مقصد کے لیے مفت ٹیکہ لگایا جاتا ہے _ ماں باپ کے پاس اس بارے میں کوئی عذر موجود نہیں ہے _ اگر وہ کوتاہی کریں اور ان کا عزیز بچہ فالج زدہ ہوجائے اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجائے یا آخر عمر تک ناقص اور بیماررہ جائے تو وہ خدا اور اپنے ضمیر کے سامنے جواب دہ ہوں گے _ بہر حال ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کی صحت و سلامتی کی حفاظت کے لیے کوشش کریں اور توانا اور صحیح و سالم انسان پروان چڑھائیں _

۱۰۵

بچے کی نیند اور آزادی

چند ابتدائی ہفتے نو مولود زیادہ وقت سویا رہتا ہے _ شاید رات دن وہ بیس گھنٹے سوتا ہے لیکن رفتہ رفتہ اس کی نیند کی مدت کمتر ہوتی جاتی ہے _ نومولود کو نیند اور مکمل آرام کی شدید ضرورت ہوتی ہے _ زیادہ شور و شین اور مزاحمت سے وہ بیزار اور متنفر ہوتا ہے _ وہ پر سکون ماحول کو پسند کرتا ہے تا کہ آرام سے سوسکے اور اس میں اسے کوئی رکاوٹ نہ ہو _ زیادہ چوما چاٹی اور ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں گردش اور دوسروں کو دکھاتے رہنے سے بچے کا آرام و استراحت تباہ ہوجاتا ہے _ زیادہ غل غپاڑا اور ریڈیو اور ٹیلی وین کی سمع خراش آوازیں بچے کے نازک اعصاب کو متاثر کرتی ہیں _ بچے کی مزے کی نیند کو بے مقصد خراب نہیں کرتا چاہیے اور اسے خواہ مخواہ ادھر ادھر نہیں لے جانا چاہیے _ ایسی حرکتیں بچے کے آرام کو برباد کردیتی ہیں اور اس کے اعصاب کو متاثر کرتی ہیں _ اگر یہ سلسلہ جاری رہے تو ممکن ہے بچے میں تند مزاجی ، کج خلقی ، چڑچڑاپن اور اضطراب پیدا ہوجائے _

زیادہ شور و غل سے اور ادھر ادھر لے جائے جانے سے نومولود نفرت کرتا ہے _البتہ وہ ہلنے جلنے کا مخالف نہیں ہے _ اسے اچھا لکتا ہے کہ ماں کی گود میں یا گہوارے میں اسے حرکت دی جائے _ ہلنے جلنے وہ سکون محسوس کرتا ہے اور اس کا دل خوش ہوتا ہے _ کیونکہ حرکت اس امر کی علامت ہے کہ کوئی اس کے قریب موجود ہے اور اس کی دیکھ بھال کررہا ہے _ جب کہ خاموشی اور بے حرکتی تنہائی کی نشانی ہے علاوہ ازیں عالم جنیں میں بچہ ماں کے گہوارہ شکم میں حرکت کرتا رہا ہے اسی وجہ سے اگلے مرحلے میں بھی وہ

۱۰۶

چاہتا ہے کہ ویسی ہی کیفیت جاری رہے _ بچہ ماں کی پیاری اور میٹھی لوریوں سے بھی احساس راحت کرتا ہے _

بچے کی زندگی کا پہلا سال اس کے پٹھوں اور اعضاء کی مشق کا سال ہے _ بچہ پسند کرتا ہے کہ آزادنہ حرکت کرے اور اپنے ہاتھ پاؤں مارے نومولود کا لباس نرم اور کھلا ہونا چاہیے _ بچے کو تہ درتہ کپڑروں میں کس باندھ دینے سے اس کی آزادی حرکت جاتی رہتی ہے اور اس سے اس کے اعصاب پر اثر پڑتا ہے _ جس بچے کی آزادی چھین لی جائے اس کے پاس رونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا لہذا وہ دادو فریاد کرتا رہتا ہے _ اور اعصاب کی یہی بے آرامی ممکن ہے تند مزاجی اور شدید غصیلے پن کا مقدمہ بن جائے _

۱۰۷
۱۰۸
۱۰۹
۱۱۰
۱۱۱

نومولود اور اخلاقی تربیت

جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو بہت کمزور ہوتا ہے _ عقل بالقوت رکھتا ہے مگر کچھ چیز سمجھتا نہیں ، فکر اور سوچ بچار نہیں کرتا ، آنکھ سے دیکھتا ہے لیکن کسی چیز کو پہچانتا نہیں _ رنگوں اورشکلوں کو مشخص نہیں کر پاتا ، دوری اور نزدیکی ، بزرگی اور بچپن کو نہیں سمجھتا ، آوازیں سنتا ہے لیکن ان کے معانی اور خصوصیات اس کی سمجھ میں نہیں آتے اور یہی حالت اس کے تمام حواس کی ہے مگر وہ سمجھنے اور کمال تک پہنچنے کی وقت و استعداد رکھتا ہے تدریجا ً تجربوں سے گزرتا ہے اور چیزوں کو سمجھنے لگتا ہے _ اللہ قرآن میں فرماتا ہے :

والله اخرجکم من بطون امّهاتکم لا تعلمون شیئا و جعل لکم السّمع و الابصار و الافئدة لعلّکم تشکرون

اللہ نہ تمہیں تمہاری ماؤن کے پیٹوں سے اس عالم میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور تمہیں کان ، آنکھیں اور دل عطا کیا شاید کہ تم شکرگزار ہوجاؤ _

سورہ نحل _ آیہ 78

بچے کی زیادہ تر مصروفیات یہ ہیں کہ وہ کھاتا ہے ، سوتا ہے _ ہاتھ پاؤں مارتا ہے روتا ہے اور پیشاب کرتا ہے _ چند ہفتوں تک وہ ان کاموں کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا _نومولود کے ابتدائی کام اگر چہ بہت سادہ سے اور چند ایک ہیں لیکن انہیں کے ذریعے سے بچہ دوسرے لوگوں سے ارتباط پیدا کرتا ہے ، تجربے کرتا ہے ، عادتیں اپناتا ہے اور علم حاصل

۱۱۲

کرتا ہے _ یہی رابطے اور تجربے ہیں کہ جن سے بچے کی آئندہ کی اخلاق اور معاشرتی خصیت کی بنیاد پڑتی ہے اور وہ تشکیل پاتی ہے _

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :

الا یام تو ضح السّرا ئرا لکا منه

جوں جوں دن گزرتے ہیں بھید کھلتے ہیں (1) بچہ ایک کمز رو معاشر تی فرد ہے کہ جو دوسروں کی مدد کے بغیر نہ زندہ رہ سکتا ہے اورنہ زندگی ، بسر کرسکتا ہے اگر دوسرے اس کی مدد کونہ لپکیں اور اس کی احتیاجات کوپویانے کریں تو وہ مر جائے گا _ نو مو لود کی جسمانی صحت اور پرورش جن کے ذمے ہوتی ہے اس کی اخلاق ، اجتماعی یہاں تک کہ دینی تربیت اور رشد بھی انہیں سے وابستہ ہے

سمجھدار اور احساس دمہ داری کرنے والے ماں باپ اپنے صحیح اور سو چے سمجھے طرز عمل سے نو مولود کی ضروریات کوپورا کرسکتے ہیں اور اس کے جسم و روح کی پرورش کے لیے بہترین ماحول فراہم کرسکتے ہیں اور اس کی حساس اور بے آلائشے روح میں پاکیزہ اخلاق اور نیک عادات پیدا کرسکتے ہیں _ اسی طرح ایک نادان تربیت کرنے، والا اپنے غلط طرز عمل اور اشتباہ سے ایک نو مولود کے پاک اور بے آلائشے نفس میں برے اخلاق او رناپسندیدہ عادات پیدا کر سکتا ہے _

نو مولود کو بھوک لگتی ہے اور اسے غذا کی ضرورت ہوتی ہے وہ اپنی ضرورت کا احساس کرتا ہے اور وہ ایک بڑی قوت کی طرف تو جہ کرتا ہے کہ جواس کی ضروریات کو بر طرف کرسکتی ہو اسی لیے وہ رو تا ہے ، شور مچاتا ہے کہ اس کی فریاد کو پہنچا جائے اور اس کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے اگر بچے کی داخلی خواہشات کی طرف پوری تو جہ کی جائے اور ایک صحیح پرو گرام تربیت و یا جائے اسے معین مواقع پرا و ضروری مقدا میں دودھ یا جائے تو وہ آرام محسوس کرتا ہے مطمئن ہو کے سوتا ہے اور معین اوقات پر جب اسے بھوک لگتی ہے

--------

1_ غرر الحکم ص 47

۱۱۳

تو بیدا ر ہوتا ہے پھر دود ھ پیتا ہے اور پھر سو جاتال ہے ایسے بچے کے اعصاب آرام و راحت سے رہتے ہیں _ اسے اضطراب اور بے چینی نہیں ہوتی ، اسے زندگی میں اچھے اخلاق، صبر اور نظم و ضبط کی عادت پڑ جاتی ہے اس کی حساس روح میں دوسروں پر اعتماد اور حسن ظن کی بنیاد پڑ جاتی ہے _ نومولود زندگی کے اس مرحلے میں کہ جب وہ کسی کونہیں پہچانتا فطری طور پر دو امور کی طرف تو جہ رکھتا ہے _ ایک اپنی ناتوانی اور نیازمندی کا اسے پورا احساس ہو تا ہے اور دوسری طرف ایک بڑی اور مطلق قوت کی طرف تو جہ رکھتا ہے کہ جو تمام احتیاجات کے لئے ملجاو پناہ گاہ ہے اسی سبب سے روتا ہے اور اس بر تر قوت کو مدد کے لیے پکار تا ہے کہ جسے و ہ پہچانتا نہیں اور وہ غیبی قوت سب اہل جہان کو پیدا کرنے والی ہے بچہ اپنے ضعف و ناتوانی کی وجہ سے اپنے آپ کو ایک بے نیاز طاقت سے وابستہ اور متعلق سمجھتاہے _ اگر یہ احساس تعلق آرام کے ساتھ بخوبی بندھآ رہے تو بچے کے دل میں ایمان اور روحانی سکون کی بنیاد پڑ جاتی ہے _

پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا ہے _

(( رونے پر بچوں کونہ مارنا بلکہ ان کی ضروریات کو پورا کرنا کیوں کہ چار ماہ تکح بچے کا رونا پروردگار عالم کے وجود اور اس کی وحدانیت پر گواہی ہو تا ہے (1)

چار ماہ پورے ہونے سے پہلے نومولود ابھی ایک معاشرتی و جود نہیں بنا ہوتا _ کسی کو نہیں پہچانتا _ جتی اپنی ماں اور دوسروں میں فرق نہیں کرپاتا اور ماؤں کے بقول وہ دوری نہیں کرتا یہی چار ماہ ہیں کہ بچہ بس ایک ہی ذات کی طرف متوجہ ہو تا ہے لیکن جو بچہ ماں کی غفلت اور سستی کی وجہ سے صحیح اور منظم توجہ اورغذا سے محروم ہو جاتا ہے ناچار گاہ بگاہ روتا ہے اور شور کرتا ہے تا کہ کوئی اس کی مدد کو پہنچے _ ایسے بچے کے

-----------

1_ بحارالانوار جلد 104 ص 103

۱۱۴

اعصاب اورذھن ہمیشہ مضطرب اور دگرگوں رہتے ہیں اور اسے آرام نہیں ملتا _ آہستہ آہستہ وہ چڑ چڑ اور تند خو ہو جاتا ہے _ اس کے اندر بے اعتمادی اور پریشانی کی حس پیدا ہو جاتی ہے اور وہ ایک نامنظم اور ڈہیٹ و جود بن جاتا ہے _

۱۱۵

نومولود اور دنی تربیت

یہ صحیح ہے کہ نو مولود الفاظ او رجملے نہیں سمجھتا _ مناظر اور شکلوں کی خصوصیات کو پہچان نہیں سکتا _ لیکن آوازوں کو سنتا ہے اور اس کے اعصاب اور ذہن اس سے متاثر ہوتے ہیں اسی طرح سے مناظر اورشکلوں کو دیکھتا ہے اور اس کے اعصاب اس سے بھی متاثر ہوتے ہیں _ لہذا اس بناپر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دیکھی جانے والی اور سنی جانے والی چیزیں نو مولود پر اثر نہیں کرتیں اور وہ ان کے بارے میں بالک لاتعلق ہوتا ہے _ نومولود اگر چہ جملوں کے معانی نہیں سمجھتا لیکن یہ جملے اسکی حساس اور ظریف روح پر نقش پیدا کرتے ہیں _ بچہ رفتہ رفتہ ان جملوں سے آشنا ہوجاتا ہے اور یہی آشنائی ممکن ہے اس کے آئندہ کے لیے مؤثر ہو _ جس لفظ سے ہم زیادہ متاثر ہوتے ہیں اس کے معنی کو بہتر سمجھتے ہیں _ نا آشنا افراد کی نسبت آشنا افراد کو ہم زیادہ پسند کرتے ہیں ایک بچہ ہے کہ جو دینی ماحول میں پرورش پاتا ہے ، سینکڑوں مرتبہ اس نے تلاوت قرآن کی دلربا آواز سنی ہے ،اللہ کا خوبصورت لفط اس کے کالوں سے ٹکرایا ہے اور اس نے اپنی آنکھوں سے بارہا ماں باپ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے _ دوسری طرف ایک نومولود ہے کہ اس نے برے اور بے دین ، ماحول میں پرورش پائی ہے ، اس کے کانوں نے غلیظ اور گندے سنے ہیں اور اس کی آنکھیں فحش مناظر دیکھنے کی عادی ہوگئی ہیں یہ دونوں بچے ایک جیسے نہیں ہیں _

سمجھدار اورذمہ دار ماں با پ اپنے بچوں کو تربیت کے لیے کسی موقع کو ضائع نہیں کرتے یہاں تک کہ اچھی آوازیں اور اچھے مناظر سے انہیں مانوس کرنے سے بھی غفلت

۱۱۶

نہیں کرتے_

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی اس حساس تربیتی نقطے کو نظر انداز نہیں کیا اور اپنے پیروکاروں کو حکم دیا ہے کہ ''جو نہی بچہ دنیا میں آئے اس کے دائیں کان میں اذان اوربائیں میں اقامت کہیں''_

حضرت علی علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:

جس کے ہاں بھی بچہ ہوا سے چاہیے کہ اس کے دائیں کان میں اذان اوربائیں میں اقامت کہے تا کہ وہ شر شیطان سے محفوظ رہے _ آپ نے امام حسن (ع) اور امام حسین(ع) کے بارے میں بھی اسی حکم پر عمل کرنے کے لیے کہا _ علاوہ ازیں حکم دیا کہ ان کے کانوں میں سورہ حمد ، آیة الکرسی ، سورہ حشر کی آخری آیات ، سورہ اخلاق ، سورہ والناس اور سورہ و الفلق پڑھی جائیں_ (1)

بعض احادیث میں آیا ہے :

خود رسول اللہ نے امام حسن (ع) اورامام حسین (ع) کے کان میں اذان و اقامت کہی _

ہاں

رسول اسلام جانتے تھے کہ نو مولود اذان، اقامت اور قرآنی الفاظ کے معانی نہیں سمجھتا لیکن یہی الفاظ بچے کے ظریف اور لطیف اعصاب پر جو اثر مرتب کرتے ہیں آپ (ص) نے اسے نظر انداز نہیں کیا _ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس نکتے کی طرف توجہ تھی کہ یہ جملے بچے کی روح اور نفسیات پر نقش مرتب کرتے ہیں اور اسے ان سے مانوس کرتے ہیں _ اور الفاظ سے یہ مانوسیت بے اثر نہیں رہے گی _ علاوہ ازیں ممکن ہے کہ اس تاکیدی حکم کے لیے رسول (ع) کے پیش نظر کوئی اور بات ہو _ شاید وہ چاہتے ہوں کہ ماں باپ کو متوجہ کریں کہ بچے کی تعلیم و

-----------

1_ مستدرک ج 2 ص 619

۱۱۷

تربیت کے بارے میں سہل انگاری درست نہیں ہے اور اس مقصد کے لیے ہر ذریعے اور ہر موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے جب ایک با شعور مربی نومولود کے کان میں اذان اور اقامت کہتا ہے تو گویا اس کے مستقبل کے لئے واضح طور پر اعلان کرتا ہے اور اپنے پیارے بچے کو خداپرستوں کے گروہ سے ملحق کردیتا ہے _

بچے پرہونے والے اثر کا تعلق صرف سماعت سے متعلق نہیں ہے بلکہ مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ جو چیز بھی بچے کے حواس، ذہن اور اعصاب پر اثر اندازہوتی ہے اس کی آئندہ کی زندگی سے لاتعلق نہیں ہوتی مثلاً جو نو مولود کوئی بے حیائی کا کام دیکھتا ہے اگر چہ اسے سمجھ نہیں پاتا _ لیکن اس کی روح اور نفسیات پر اس برے کام کا اثر ہوتا ہے اور یہی ایک چھوٹا کام ممکن ہے اس کے انحراف کی بنیاد بن جائے _ اسی لیے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایاہے:

''گہوراہ میں موجود بچہ اگر دیکھ رہا ہو تو مرد کو نہیں چاہیے کہ اپنی بیوی سے مباشرت کرے '' _ (1)

--------

1_ مستدرک ج 2 ص 546

۱۱۸

احساس وابستگی

نومولود بہت کمزور سا وجود ہے جو دوسروں کی مدد کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے نہ پرورش پا سکتا ہے نو مولود ایسا محتاج وجود ہے جس کی ضروریات دوسرے پوری کرتے ہیں _ جب وہ رحم مادر میں تھا تواسے نرم و گرم جگہ میسّر تھی _ وہاں اس کی غذا اور حرارت کیاحتیاج ماں کے ذریعے پوری ہو رہی تھی _ وہ چین سے ایک گوشے میں پڑاتھا اوراپنی ضروریات کے لیے بالکل بے فکر تھا _ اب جب کہ وہ دنیا میں آیا ہے تو احساس نیاز کرتا ہے _ بچے کا پہلا پہلا احساس شاید سردی کے بارے میں ہوتا ہے اور اس کے بعد بھوک کے بارے میں _ اسے پہلی بار احساس ہوتا ہے کہ حرارت اور غذا کے لیے وہ دوسرے کا محتاج ہے _ اس مرحلے میں وہ کسی کو نہیں پہچانتا _ اپنی ضروریات کو فطرتاً سمجھتا ہے اور ایک انجانی قدرت مطلقہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے _ اپنے تئیں اس قدرت مطلقہ سے منسلک سمجھتا ہے _ اسے انتظار ہوتا ہے وہ قدرت اس کی ضروریات پورا کرے گی _ بچہ زندگی کی ابتدا ہی میں کسی سے وابستگی کا احساس کرتا ہے اور یہ احساس زندگی کے تمام مراحل میں اس کے ساتھ رہتا ہے _ بھوک یا پیاس لگے تو دوسروں کو متوجہ کرنے کے لیے روتا ہے _ ماں کے سینے سے چمٹ جاتا ہے اور اس کی محبتوں اور لوریوں سے سکون محسوس کرتا ہے _ اگر اسے کوئی تکلیف ہو یا کسی خطرے کا احساس کرے تو ماں کے دامن میں پناہ لیتا ہے _

یہی وابستگی اور احساس ضرورت ہے جو بعد میں دوسرے لوگوں کی تقلید کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے_ یہ ایک نفسیاتی وابستگی ہے _ بچہ اپنے اخلاق اور طرز عمل کو اپنے

۱۱۹

ارد گردوالوں کے اخلاق اور طرز عمل کے مطابق ڈھالتا ہے _ یہی احساس تعلق ہے جو بعد ازاں کھیلوں اور دوسرے سے مل جل کر کام کرنے اور دوست بنانے میں ظاہر ہوتا ہے _ بیوی بچوں سے الفت و محبت کا سرچشمہ بھی یہی احساس ہے اجتماعی زندگی کی طرف میلان ، باہمی تعاون اور مل جل کر کام کرنے کا مزاج بھی اسی احساس سے تشکیل پاتا ہے _ احساس وابستگی کو کوئی معمولی سی چیز نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ بچے کی اخلاقی اور سماجی تربیت اور اس کی تکمیل شخصیت کا ایک اہم ذریعہ ہے _ اگر اس احساس وابستگی و تعلق کی صحیح طور پر راہنمائی کی جائے تو بچہ آرام و سکون محسوس کرتا ہے _ وہ پر اعتماد اور خوش مزاج ہوجاتا ہے _ اچھی امیدوار توکل کی کیفیت اس میں پیدا ہوجاتی ہے _ دوسروں کے بارے میں اس میں حسن ظن پیدا ہوجاتا ہے _ اس طرح معاشرتی زندگی کی طرف قدم بڑھاتا ہے _ دوسروں کو اچھا سمجھتا ہے اور ان سے تعاون کی امید رکھتا ہے _ جب معاشرے کے بارے میں اس کے رائے اچھی ہوگی تو اس سے تعاون بھی کرے گا اور اس کے لیے ایثار بھی کرے گا _ معاشرے کے لوگ بھی جب اسے اپنا خیر خواہ اور خدمت گزار سمجھیں گے تو وہ بھی اس سے اظہار محبت کریں گے _

اس کے برعکس اگر یہ گراں بہا احساس کچلا جائے اور اس سے صحیح طور پر استفادہ نہ کیا جائے تو خدا نے جو صحیح راستہ بچے کے لیے مقرر کیا ہے اس کی اجتماعی زندگی اس سے بھٹک جائے گی _ ماہرین نفسیات کا نظریہ ہے کہ بہت سے مواقع پر خوف ، اضطراب ، بے اعتمادی ، بدگمانی ، شرمندگی، گوشہ نشینی، افسردگی اور پریشانی یہاں تک کہ خودکشی اور جراثیم کی بنیاد بچپن میں پیش آنے والے واقعات ہوتے ہیں

اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے کے احساس وابستگی کو صحیح طرح سے مطمئن کریں تو ہمیشہ اس کے مددگار ہیں _ جب اسے بھوک لگے تو غذا دیں اور اس کے لیے آرام و راحت کا سامن فراہم کریں _ اگر اسے درد ہو یا کوئی اور تکلیف پیش آئے تو فوراً اس کی داد رسی کریں _ اس کی نیند اور خوراک کو منظم رکھیں _ اس طرح سے کہ اسے بالکل پریشانی نہ ہو او ر وہ آرام کا احساس کرے _

نو مولود کو مارپیٹ نہ کریں _ نو مولود کچھ نہیں پہچانتا _ اسے صرف اپنی ضرورت کا احساس

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361