قرآن اور عورت

قرآن اور عورت0%

قرآن اور عورت مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 97

قرآن اور عورت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حافظ ریاض حسین نجفی
زمرہ جات: صفحے: 97
مشاہدے: 47350
ڈاؤنلوڈ: 5007

تبصرے:

قرآن اور عورت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 97 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 47350 / ڈاؤنلوڈ: 5007
سائز سائز سائز
قرآن اور عورت

قرآن اور عورت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مزید ارشاد فرمایا:

( قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَانْصُرُوْا آلِهَتَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ فَاعِلِیْنَ قُلْنَا یَانَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی إِبْرَاهِیْمَ )

"وہ کہنے لگے اگر تم کو کچھ کر نا ہے تو اسے جلا دو اور اپنے خداوں کی نصرت کرو ہم نے کہا اے آگ تو ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کیلئے سلامتی بن جا " (انبیاء :۶۸-۶۹)

ابراہیم و نمرود کا مباحثہ( أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْ حَاجَّ إِبْرَاهِیْمَ فِیْ رَبِّه أَنْ آتَاهُ الله الْمُلْکَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِیْمُ رَبِّی الَّذِیْ یُحْیِی وَیُمِیْتُ قَالَ أَنَا أُحْیی وَأُمِیْتُ قَالَ إِبْرَاهِیْمُ فَإِنَّ الله یَأْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ کَفَرَ وَالله لَایَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ )

"کیا تم نے اس شخص کا حال نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے ان کے رب کے بارے میں اس بناء پر جھگڑا کیا کہ اللہ نے اسے اقتدار دے رکھا تھا جب ابراہیم نے کہا میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے تو اس نے کہا زندگی او رموت دینا میرے اختیار میں بھی ہے ابراہیم نے کہا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کے دکھا! یہ سن کر وہ کافر مبہوت ہوکر رہ گیا اور اللہ ظالموں کی راہنمائی نہیں کرتا" (بقرہ: ۲۵۸)

حضرت ابراہیم اسماعیل اور ہاجرہ کو مکہ چھوڑ آئے تو ارشاد فرمایا :

( رَبَّنَا إِنِّی أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ )

"اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے نزدیک ایک بنجر وادی میں بسایاہے" (ابراہیم: ۳۷)

۲۱

خواب کی وجہ سے اسماعیل کا ذبح ارشاد رب العزت ہے:

( قَالَ یَابُنَیَّ إِنِّیْ أَرٰی فِی الْمَنَامِ أَنِّیْ أَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَاأَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاءَ الله مِنَ الصَّابِرِیْنَ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّه لِلْجَبِیْنِ وَنَادَیْنَاهُ أَنْ یَّاإِبْرَاهِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلاَءُ الْمُبِیْنُ وَفَدَیْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ )

" ابراہیم نے کہااے بیٹا !میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس دیکھ لو تمہاری کیا رائے ہے اسماعیل نے کہا اے ابا جان ! آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبرکرنے والوں میں پائیں گےپس جب دونوں نے حکم خدا کو تسلیم کیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا تو ہم نے ندا دی اے ابراہیم !تو نے خواب کو سچ کر دکھایاہےبیشک ہم نیکوکاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں یقینا یہ بڑا سخت امتحان تھاہم نے ایک عظیم قربانی سے اس کا فدیہ دیا

حضرت ابراہیم و اسماعیل اور تعمیر کعبہ

ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاهِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَإِسْمَاعِیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّکَ وَأَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ )

(وہ وقت بھی یاد کرو)جب ابراہیم اور اسماعیل اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور دعا کر رہے تھے اے ہمارے رب ہم سے (یہ عمل) قبول فرما کیونکہ تو خوب سننے اور جاننے والا ہےاے ہمارے رب ہم دونوں کو اپنا مطیع اور فرمانبردار بنااور ہماری ذریت سے اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر اور ہمیں ہماری عبادت کی حقیقت سے آگاہ فرما اور ہماری توبہ قبول فرمایقینا تو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے"(بقرہ: ۱۲۷ ، ۱۲۸)

۲۲

امتحان میں کامیابی کے بعد امامت کا ملنا

( وَإِذِ ابْتَلٰی إِبْرَاهِیْمَ رَبُّه بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَایَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِیْنَ )

"اور(وہ وقت بھی یاد کرو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور انہوں نے ان کو پورا کر دیاتو ارشاد ہوا میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوںانہوں نے کہا اور میری اولاد سے بھیارشاد ہوا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا"(بقرہ : ۱۲۴)

کیا کہنا عظمت اور خلّت ِابراہیم کا،وہ واقعاً ایک امت تھےانہوں نے اللہ کے کاموں میں پوری وفا کیارشاد ہوا

( وَاِبرَهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی )

"اور ابراہیم جس نے (حق اطاعت) پورا کیا" (نجم: ۳۷)

لیکن ان کی زوجہ محترمہ کی وفا مثالی اور کردار عالی تھاحضرت ابراہیم کے ہر قول پر امنا وصدقنا کی حقیقی مصداق تھیں،اور ہر تکلیف کو برداشت کرنے کے لئے تیار رہتیں چھوٹے بچے اسماعیل اور ہاجرہ کو اکیلے مکہ جیسی بے آب و گیاہ زمین میں چھوڑ رہے ہیں نہ پینے کا پانی ہے اور نہ کھانے کیلئے خوراک بننے والی کوئی چیز سایہ کیلئے کوئی درخت بھی نہیں نہ تو کوئی انسان موجود ہے اور نہ کوئی متنفس لیکن ہاجرہ رضائے خدا ، رضائے ابراہیم پر راضی کھڑی ہیں اللہ نے اس بی بی کو اس قدر عظمت دی کہ اسماعیل کے ایڑیاں رگڑنے سے زم زم جیسے پانی کا تحفہ میّسر ہوابیچاری ہاجرہ پانی کی تلاش کیلئے بھاگ دوڑ میں ہی مشغول رہیں صفا و مروہ شعائر اللہ اور حج کا عظیم رکن بن گئے مکہ آباد ہوا اور اللہ والوں کا مرکز ٹھہرا

۲۳

ارشاد رب العزت ہوا :

( رَبَّنَا إِنِّیْ أَسْکَنتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْ إِلَیْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ یَشْکُرُوْنَ )

"اے ہمارے پروردگار! میں اپنی اولادمیں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے قریب بے آب و گیا ہ وادی میں چھوڑ رہا ہوں تاکہ وہ یہاں نماز قائم کریں اور(اے اللہ)تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف موڑ دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ وہ تیرے شکر گزار بندے بن جائیں " ( ابراہیم : ۳۷)

اب اس گرم تپتی ہوئی زمین پر صرف دو انسان موجود ہیں ایک عورت اور دوسرا چھوٹا سا بچہ، ماں اور بیٹے کو پیاس لگی ماں صفا اور مروہ پہاڑ وں کے درمیان پانی کی تلاش میں بھاگ دوڑ کر رہی ہیں ارشاد رب العزت ہوتا ہے

( إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ الله )

"بے شک صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں " (بقرہ : ۱۵۸)

ادھر اسماعیل رو رہے ہیں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں خدا نے پانی کا چشمہ جاری کر دیا ہاجرہ تھکی ہوئی آئیں پانی دیکھا تو خوش ہو گئیں ارد گرد مٹی رکھ دی اور کہا زم زم ( رک جا رک جا) تو چشمہ کا نام زم زم پڑ گیا جب حضرت ابراہیم جانے لگے تو بے چاری عورت نے صرف اتنا کہا

اِلیٰ مَن تَکِلُنِی

مجھے کس کے سپرد کر کے جا رہے ہو ابراہیم نے کہا اللہیہ سن کر ہاجرہ مطمئن ہو گئیں عورت کا خلوص اور ماں کی مامتا اس بات کی موجب بنی کہ جب وہ پانی کی تلاش میں کبھی صفا اور کبھی مروہ کی طرف جاتی تو اللہ کو یہ کام اتنا پسند آیا کہ اس نے صفا و مروہ کے درمیان سات چکروں کو حج کا واجب رکن قرار دیا پانی ملا اورجب اس پر ہر طرف سے بند باندھا تو زم زم کہلایا ،حج کے موقع پر یہاں سے پانی لینا مستحب ہے اس پانی سے منہ اور بدن دھونا بھی مستحب ہے آج پوری دنیا میں آب زم زم تبرک کے طور پر پہنچ کر گواہی دے رہا ہے کہ جناب ہاجرہ نے خدا و رسول کی جو اطاعت کی اس کے صدقے میں ہاجرہ کی پیروی کس قدر ضروری ہے پھر آب زم زم کو یہ قدر و منزلت اور عظمت اس بی بی (عورت) کی وجہ سے نصیب ہوئی ابراہیم کا کام قابل احترام ہے لیکن زوجہ کا احترام بھی ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گا

۲۴

( ۵) یوسف اور زلیخا

خدا وند عالم نے حضرت یوسف کو بہت بلند درجہ عطا فرمایا ان کے قصہ کو احسن القصص (بہترین قصہ) قرار دیا انہیں منتخب فرمایا ان پر نعمتیں عام کیں اور انہیں حکمرانی عطا فرمائی البتہ یہ حقیقت ہے ابتدا میں بھائیوں نے بہت پریشان کیا کنویں میں ڈالا پھربازار فروخت ہوئے اور بعد میں عورتوں نے بھی بہت پریشان کیا لیکن کامیابی وکامرانی آخر کار حضرت یوسف کوہی نصیب ہوئی ارشاد رب العزت ہوا :

( وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَأْوِیْلِ الْأَحَادِیْثِ وَیُتِمُّ نِعْمَتَه عَلَیْکَ وَعَلٰی آلِ یَعْقُوبَ کَمَا أَتَمَّهَا عَلٰی أَبَوَیْکَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاهِیْمَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبَّکَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ )

"تمہارا رب تم کو اسی طرح برگزیدہ کر دے گاتمیں خوابوں کی تعبیر کا علم سکھائے تم اور آل یعقوب پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کریگا جس طرح اس سے پہلے تمہارے اجداد ابراہیم و اسحاق پر کر چکا ہے بے شک تمہارا رب بڑے علم اور حکمت والا ہے" (یوسف : ۶) بھائیوں کی سازشوں ، ریشہ دانیوں اور ظلم سے حضرت یوسف بک گئے اور پھر عزیز ِمصر کے پاس آگئے اب عورتوں نے اس قدر پریشان کیا کہ خدا کی پناہ ! ارشاد رب العزت ہوا :

( وَرَاوَدَتْهُ الَّتِیْ هُوَ فِیْ بَیْتِهَا عَنْ نَّفْسِه وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ الله إِنَّه رَبِّیْ أَحْسَنَ مَثْوَایَ إِنَّه لَایُفْلِحُ الظَّالِمُوْنَ وَلَقَدْ هَمَّتْ بِه وَهَمَّ بِهَا لَوْلَاأَنْ رَّأ بُرْهَانَ رَبِّه کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّه مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِیْصَه مِنْ دُبُرٍ وَّأَلْفَیَا سَیِّدَهَا لَدٰ الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِکَ سُوْئًا إِلاَّ أَنْ یُّسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ قَالَ هِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَّفْسِیْ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا إِنْ کَانَ قَمِیْصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ وَإِنْ کَانَ قَمِیْصُه قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ فَلَمَّا رَأَ قَمِیصَه قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّه مِنْ کَیْدِکُنَّ إِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ )

۲۵

"اور یوسف جس عورت کے گھر میں تھے اس نے انہیں اپنے ارادہ سے منحرف کرکے اپنی طرف مائل کرناچاہا اور سارے دروازے بند کر کے کہنے لگی آ جاو یوسف نے کہا پناہ بہ خدا! یقینا میرے رب نے مجھے اچھا مقام دیا ہے بے شک ظالموں کو فلاح نہیں ملا کرتی اور اس عورت نے یوسف کا ارادہ کر لیا اور یوسف بھی اس کا ارادہ کر لیتے اگر وہ اپنے رب کے برہان نہ دیکھ چکے ہوتے اس طرح ہوا ، تاکہ ہم ان سے بدی اور بے حیائی کو دور رکھیں کیونکہ یوسف ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھے ث دونوں آگے نکلنے کی کوشش میں دروازے کی طرف دوڑ پڑے اور اس عورت نے یوسف کا کرتا پیچھے سے پھاڑ دیا اتنے میں دونوں نے اس عورت کے شوہر کو دروازے پر موجود پایا عورت کہنے لگی جو شخص تیری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے اس کی سزا کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ اسے قید میں ڈالا جائے یا دردناک عذاب دیا جائے یوسف نے کہا یہی عورت مجھے اپنے ارادہ سے پھسلانا چاہتی تھی اور اس عورت کے خاندان کے کسی فرد نے گواہی دی کہ اگر یوسف کا کرتا آگے سے پھٹا ہے تو یہ سچی ہے اور یوسف جھوٹا اور اگر اس کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہے تو یہ جھوٹی ہے اور یوسف سچا ہے جب اس نے دیکھا تو کرتا تو پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تواس (کے شوہر ) نے کہا بے شک یہ تو تمہاری فریب کاری ہے بتحقیق تم عورتوں کی فریب کاری تو بہت بھاری ہوتی ہے " (یوسف: ۲۳ تا ۲۸)

یہ بہت بڑا واقعہ تھا ایک طرف بے چارا اور زر خرید غلام ہے جبکہ دوسری طرف بادشاہ کی بیوی چہ مگوئیاں ہوئیں تو شاہ مصر کی زوجہ نے محفل سجائی عورتوں کو دعوت میں بلایااور میوا جات رکھ دیئے گئے پھر ان سے کہا گیا کہ چھری کانٹے ہاتھ میں لے لو دعوت ِ خورد و نوش شروع ہوئی، ادھر سے پھل کٹنا شروع ہوئے اُدھر سے یوسف کو بلا لیا گیا وہ عورتیں حسنِ یوسف سے اس قدر حواس باختہ ہو گئیں کہ بہت سی عورتوں نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں کاٹ لیں واہ رے حسنِ یوسف! ارشاد رب العزت ہے :

( وَقَالَ نِسْوَةٌ فِی الْمَدِیْنَةِ امْرَأَتُ الْعَزِیْزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَنْ نَّفْسِه قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا إِنَّا لَنَرَاهَا فِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَیْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّکَأً وَّآتَتْ کُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِکِّیْنًا وَّقَالَتِ اخْرُجْ عَلَیْهِنَّ فَلَمَّا رَأَیْنَه أَکْبَرْنَه وَقَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلاَّ مَلَکٌ کَرِیْمٌ قَالَتْ فَذَلِکُنَّ الَّذِیْ لُمْتُنَّنِیْ فِیْهِ وَلَقَدْ رَاوَدْتُّه عَنْ نَّفْسِه فَاسْتَعْصَمَ وَلَئِنْ لَّمْ یَفْعَلْ مَا آمُرُه لَیُسْجَنَنَّ وَلَیَکُونًا مِّنَ الصَّاغِرِیْنَ قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْ إِلَیْهِ )

۲۶

"شہر کی عورتوں نے کہنا شروع کر دیا کہ عزیز مصر کی بیوی اپنے غلام کو اس کے ارادہ سے پھسلانا چاہتی ہے اس کی محبت اس کے دل کی گہرائیوں میں اثر کر چکی ہے ہم تو اسے یقینا صریح گمراہی میں دیکھ رہے ہیں پس اس نے جب عورتوں کی مکارانہ باتیں سنیں تو انہیں بلا بھیجا اور ان کیلئے مسندیں تیار کیں اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں چھری دے دی (کہ پھل کاٹیں) پھر اس نے یوسف سے کہا ان کے سامنے سے گزرو پس جب عورتوں نے انہیں دیکھا تو انہیں بڑا حسین پایا اور وہ اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور کہے اٹھیں سبحان اللہ یہ بشر نہیں ہو سکتا یہ تو کوئی معزز فرشتہ ہے! اس نے کہا یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم مجھے طعنے دیتی تھیں اور بے شک میں نے اس کو اپنے ارادہ سے پھسلانے کی کوشش کی تھی مگر اس نے اپنی عصمت قائم رکھی اور اگر یہ میرا حکم نہ مانے گا تو ضرور قید کر دیا جائے گا اور خوار بھی ہوگا یوسف نے کہا:اے میرے رب! مجھے اس چیز سے قید زیادہ پسند ہے جس کی طرف یہ عورتیں دعوت دے رہی ہیں" (یوسف ۳۰ تا ۳۳)

یوسف قید میں ڈال دئے گئے اور وہاں انہوں نے دو قیدیوں کے خواب کی تعبیر بیان کی اس کی خبر عزیز مصر کو ہو گئی پھر بادشاہ کے خواب کی تعبیربھی بتائی جو ملک و ملت کیلئے مفید تھی تب بادشاہ نے یوسف کو قید خانے سے بلا بھیجا جب قاصد یوسف کے پاس آیا توکہا :

( وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِه فَلَمَّا جَاءَ هُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ إِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْه مَا بَالُ النِّسْوَةِ الَّتِیْ قَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنَّ إِنَّ رَبِّیْ بِکَیْدِهِنَّ عَلِیْمٌ قَالَ مَا خَطْبُکُنَّ إِذْ رَاوَدْتُّنَّ یُوسُفَ عَنْ نَّفْسِه قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْهِ مِنْ سُوْءٍ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِیْزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُّه عَنْ نَّفْسِه وَإِنَّه لَمِنَ الصَّادِقِیْنَ ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ أَنِّیْ لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَیْبِ وَأَنَّ الله لاَیَهْدِیْ کَیْدَ الْخَائِنِیْنَ )

"اور بادشاہ نے کہا یوسف کو میرے پاس لاو پھر جب قاصد یوسف کے پاس آیا تو انہوں نے کہا اپنے مالک کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا مسئلہ کیا تھا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے میرا رب تو ان کی مکاریوں سے خوب واقف ہے بادشاہ نے عورتوں سے پوچھا اس وقت تمہارا کیا حال تھا جب تم نے یوسف کو اپنے ارادے سے پھسلانے کی کوشش کی تھی؟ سب عورتوں نے کہا ہم نے یوسف میں کوئی برائی نہیں دیکھی

۲۷

(اس موقع پر) عزیز کی بیوی نے کہا اب حق کھل کر سامنے آگیا ہے میں نے یوسف کو اس کی مرضی کے خلاف پھسلانے کی کوشش کی تھی اور یوسف یقینا سچوں میں سے ہیں (یوسف نے کہا)ایسا میں نے اس لئے کیا تاکہ وہ جان لے کہ میں نے عزیز مصر کی عدم موجودگی میں اس کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کی اور اللہ خیانت کاروں کے مکر و فریب کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کرتا" (یوسف : ۵۰ تا ۵۲)

بہرحال حضرت یوسف بادشاہ کے بلانے پر فورا نہیں گئے بلکہ اپنی برائت کے اثبات کے بعد با عزت و عظمت اور عصمت کے ساتھ بادشاہ کے ہاں گئے عورتوں کے مکر سے محفوظ رہے عصمت پر کوئی دھبہ نہیں لگنے دیا اسی طرح بھائیوں کی ریشہ دانیاں نا کارہو گئیں اور یوسف عزت و عظمت کی بلندیوں تک پہنچے وہی بھائی تھے ، انہوں نے معذرت کی ماں و باپ خوش ہوئے اور سجدہ شکر بجا لائے اللہ کا فرمان ثابت رہا کہ تو میرا بن جا میں تیرا بن جاؤں گا اس واقعہ سے معلوم ہواکہ مردوں میں بھی اچھے برے موجود ہیں اور یہی حال عورتوں کا بھی ہے یوسف کے بھائی غلط نکلے، عورتیں مکار ثابت ہوئیں لہذا مرد بحیثیت مرد عورتوں سے ممتاز نہیں ہے بلکہ عورت و مرد میں معیار تفاضل تقویٰ ہے جو تقوی رکھتا ہوگا خواہ مرد ہو یا عورت ،وہ اللہ کا بندہ اور مومن ہوگا اور جو تقوی سے خالی ہے خواہ مرد ہو یا عورت، ظاہری طور پر انسان ہوگالیکن حقیقت میں حیوان ہوگا

زوجہ حضرت ایوب

ارشاد رب العزت ہے :

( وَاذْکُرْ عَبْدَنَا أَیُّوْبَ إِذْ نَادٰی رَبَّهُ أَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطَانُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ هَذَا مُغْتَسَلٌ م بَارِدٌ وَّشَرَابٌ وَوَهَبْنَا لَه أَهْلَه وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَذِکْرٰی لِأُوْلِی الْأَلْبَابِ وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِه وَلاَتَحْنَثْ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّه أَوَّابٌ ) "اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر کیجئے جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا شیطان نے مجھے تکلیف اور اذیت دی ہے ( ہم نے کہا ) اپنے پاوں سے(زمین پر)ٹھوکر مارو! یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے اور پینے کیلئے ،ہم نے انہیں اہل و عیال دیئے اور اپنی خاص رحمت سے ان کے ساتھ اتنے ہی اور دے دیئے اورعقل والوں کے لئے نصیحت و عبرت قرار دی اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو تھام لو اسے مارو اور قسم نہ توڑ وبتحقیق ہم نے انہیں صابر پایا وہ بہترین بندے تھے بے شک وہ (اپنے رب کی طرف) رجوع کرنے والے تھے" (ص : ۴۱ تا ۴۴)

۲۸

حضرت ایوب کی حیران کن زندگی صبر و استقامت کی اعلیٰ مثال تھی ان کی زوجہ محترمہ کا بے مثال ایثار مشکلات میں گھرے ہوئے انسانوں کیلئے مشعل راہ ہے حضرت ایوب کی فراوان دولت، کھیتیاں، بھیڑ بکریاں اور آل و اولاد سب ختم ہو گئے اور وہ نان جویں کے محتاج ہوگئے، رشتہ دار اور دوست و احباب اور ماننے والے سب چھوڑ گئے وہ تن و تنہا اپنی پردہ دار زوجہ ،نبی کی بیٹی زوجہ کے ساتھ زندگی گذارتے رہے ایسی کہ زوجہ لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے گذر بسر کرتی رہی اورپھر دوسری طرف شماتت اعداء کا ہجوم تھا حضرت ایوب سے پادریوں کا ایک وفد ملا اور کہنے لگا جناب ایوب ! لگتا ہے آپ سے کوئی بہت بڑا گناہ ہوا ہے حالانکہ حقیقت یہ تھی ایوب صابر و شاکر تھے اللہ نے ان کی بہت تعریف کی تو شیطان نے کہا جب ایوب کے پاس سب کچھ موجود ہے تو وہ صبر و شکر نہ کرے تو کیا کرے؟ بات تو تب ہے جب کچھ نہ ہو تو پھر صبر کرے امتحان شروع ہوا سب کچھ ختم ہوگیایکہ و تنہا ، بے یار و مددگار، مریض اور لاچار ہو گئے لیکن کیا کہنا عظمت زوجہ کا کہ انہوں نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ مزدوری کی زحمت اٹھائی ایک دن کسی حکیم نے کہا میں دوا دیتا ہوں ٹھیک ہو جائیں گے لیکن ایک شرط ہے آپ کو کہنا ہوگا کہ مجھے حکیم نے شفا دی ہے ان کی بیوی نے ہاں کردی حضرت ایوب نے بہت برا منایا اور سزا دینے کی قسم کھا لی اب جب مصائب کا تلاطم ختم ہوا اورنصمات لوٹ آئیں تو قسم پوری کرنے کا مسئلہ پیدا ہوا خدا نے فرمایا : ایسی بے مثال زوجہ توکسی کو نصیب نہیں ہوئی اس بے چاری کی اس قدر خدمات ہیں اس کے باوجودتم سزا کا سوچ رہے ہیں ہرگز نہیں بلکہ اللہ کا نام سب سے بڑا ہے تم جھاڑو لے لو اور اسے سزا کا آلہ قرار دو تاکہ قسم نہ ٹوٹے اور بات بھی پوری ہو جائے ایوب نبی تھے صابر تھے عبد خاص تھے ہمیشہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے ان تمام صفات کے ساتھ وہ نبی تھے کیا کہنا زوجہ ایوب کا (عورت کی عظمت ) کہ سب چھوڑ گئے لیکن اس کا ایثار اور اس کی خدمت میں کوئی کمی نہیں آئی اسی لئے کہا گیا کہ اے مرد زوجہ کی اچھائی پورے گھر کو جنت میں بدل دیتی ہے عورت کی ذہانت اور اخلاق سے تیرا گھر جنت بن جاتا ہے تو بھی اچھا رہے عورت بھی اچھی رہے جبکہ آج کے زمانے میں برا گھر ہی تیرے لئے جنت بنا ہوا ہے

۲۹

۷ مادر موسیٰ ۸ خواہر موسیٰ آسیہ زوجہ فرعون

قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ ایک سو اکیس مرتبہ ہوا ان کے مفصل واقعات ہیں جنہیں میں کئی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے

ولادت کا مخفی ہونا ، بعد از ولادت کے واقعات جس میں موسیٰ کی والدہ کا کردار، صبر و استقامت، بہن کا کردار، جدت و ہوشیاری کے ساتھ اس صندوق کا تعاقب جس میں حضرت موسیٰ سوئے ہوئے تھے اورپھر جناب آسیہ کا کردار جس نے فرعون کے دل میں ان کی محبت ڈالی اسے راضی کیا اور پھر اپنے گھر میں بہترین انداز سے موسیٰ کی پرورش کی خوف کی حالت میں مصر سے روانگی اور مَدیَنِ آمد، شادی و تزویج ، خدمت حضرت شعیب شعیب جیسی بہترین شخصیت کا سہارا ثابت ہوئی شادی ہو گئی کام مل گیا اور باعزت زندگی بسر ہونے لگی

۳ مدین سے مصر واپسی ، نبوت کا علان ، فرعون سے تخاطب، جاوگروں کا واقعہ اور اس میں کامیابی اور عصا کے معجزات

۴ فرعون کے غرق ہونے کے بعد قوم میں تبلیغ ، ان میں وحدت قائم رکھنا ، قوم کی ریشہ دوانیاں اور پھر عذاب کی مختلف صورتیں ظاہر ہے سب کا تذکرہ تو ہمارے اس مختصر سے رسالہ میں مشکل ہے صرف بعد از ولادت کے چند واقعات کو آیات قرآن کی حدود میں رہتے ہوئے ذکر کریں گے ارشاد رب العزت ہے :

( وَأَوْحَیْنَا إِلٰی أُمِّ مُوْسَیٰ أَنْ أَرْضِعِیْهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فَأَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ وَلاَتَخَافِیْ وَلَاتَحْزَنِیْ إِنَّا رَادُّوْهُ إِلَیْکِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ )

" ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ان کو دودھ پلالو اور جب اس کے بارے میں خوف محسوس کرو تو اسے دریامیں ڈال دو اور بالکل رنج وخوف نہ کرنا کریں ہم اسے تمہاری طرف پلٹا نے والے ہیں اور اسے پیغمبروں میں شامل کرنے والے ہیں

( وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَیٰ فَارِغًا إِنْ کَادَتْ لَتُبْدِیْ بِه لَوْلَاأَنْ رَّبَطْنَا عَلٰی قَلْبِهَا لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَقَالَتْ لِأُخْتِه قُصِّیْهِ فَبَصُرَتْ بِه عَنْ جُنُبٍ وَّهُمْ لَایَشْعُرُوْنَ وَحَرَّمْنَا عَلَیْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّکُمْ عَلٰی أَهْلِ بَیْتٍ یَّکْفُلُوْنَه لَکُمْ وَهُمْ لَه نَاصِحُوْنَ فَرَدَدْنَاهُ إِلٰی أُمِّه کَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَلاَتَحْزَنْ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ الله حَقٌّ وَّلٰکِنَّ أَکْثَرَهُمْ لاَیَعْلَمُوْنَ )

۳۰

"ادھر مادر موسیٰ کا دل بے قرار ہو گیا قریب تھاکہ رازکو فاش کردیتی اگر ہم نے اس کے دل کو مضبوط نہ کیا ہوتاکہ وہ یقین رکھنے والوں میں سے ہو جائے اور مادر موسیٰ نے ان کی بہن (کلثوم)سے کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا تو وہ موسیٰ کو (دور سے) دیکھتی رہی کہ دشمنوں کو اس کام پتہ نہ چل جائے اور ہم نے موسیٰ پر دودھ پلانے والیوں کے دودھ کو پہلے سے حرام قرار دیا تھاچنانچہ موسیٰ کی بہن نے کہا کہ میں تمہیں ایسے گھرانے کا پتہ دوں جو اس بچے کو تمہارے لئے پالیں اور وہ اس کے خیر خواہ بھی ہوں " (قصص: ۱۰ تا ۱۴)

موسی ٰ کے پیدا ہوتے ہی دایہ نے چاہا کہ حکومت کو خبر کردوں کہ بچے کے نور کی چمک سے اس بچہ کی محبت پیدا ہوگئی دایہ نکلی توحکومتی افراد گھر میں داخل ہوئے ماں نے موسیٰ کو تندور میں ڈال دیا حکومتی افراد کے جانے کے بعدبچے کے رونے کی آ واز آئی دیکھا کہ آتش تندور سلامتی او برد بن چکی تھی صندوق بنایا گیا بہن ساتھ چلی ماں نے آخری بار دودھ پلا کر نیل کی موجوں کے سپرد کر دیا

فرعون اور اسکی ملکہ دریا کے کنارے محل میں موجود دریا کا نظارہ کررہے ہیں صندوق نظر آیا تو حکم ہواکہ فوراً جائیں اور صندوق لے کر آئیں حضرت موسیٰ کی نجات کے لیے صندوق کا ڈھکنا کھولا گیاملکہ نے بچہ دیکھا تو اس کی محبت نے دل میں گھرکر لیا

( وَقَالَتِ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ قُرَّةُ عَیْنٍ لِّیْ وَلَکَ لاَتَقْتُلُوْهُ عَسٰی أَنْ یَّنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَه وَلَدًا وَّهُمْ لاَیَشْعُرُوْنَ )

"اور فرعون کی زوجہ نے کہا یہ بچہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اسے قتل نہ کرو ممکن ہے کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو ہم اسے بیٹابنا لیں اور وہ (انجام سے )بے خبر تھے " (قصص: ۹)

اللہ کی عجیب قدرت ہے کہ آسمان وزمین کے لشکروں سے کسی قوم کو نیست و نابود کردے یا خود مستکبرین کے ہاتھوں برباد ی کاسامان ظہور پذیر ہو موسیٰ کی دایہ قبطی دریا سے نکالنے والے، متعلقین فرعون ڈھکنا کھولنے والا فرعون اور پھر موسیٰ غلبہ و اقتدار، موسیٰ جوان ہو گئے، بازار میں دو آدمیوں کو لڑا ئی کرتے دیکھا ایک کے مدد طلب کرنے پر دوسرے کو جان لیوا مکا مارا، اب مخفیانہ طور پر مصر کو چھوڑکر چلے

۳۱

( وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاءَ مَدْیَنَ قَالَ عَسَیٰ رَبِّیْ أَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَاءَ السَّبِیْلِ وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْهِ أُمَّةً مِّنْ النَّاسِ یَسْقُوْنَ وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَأَتَیْنِ تَذُوْدَانِ قَالَ مَا خَطْبُکُمَا قَالَتَا لَانَسْقِیْ حَتّٰی یُصْدِرَ الرِّعَاءُ وَأَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ فَسَقیٰ لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّی إِلٰی الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّی لِمَا أَنزَلْتَ إِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ فَجَائَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِیْ یَدْعُوْکَ لِیَجْزِیَکَ أَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَا فَلَمَّا جَائَه وَقَصَّ عَلَیْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَاتَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ )

"اور جب موسیٰ نے مدین کا رخ کیا اور کہا کہ اب پروردگار مجھے سیدھے راستے کی ہدایت فرمائے گا اور جب وہ مدین کے کنویں پر پہنچے تو انہوں نے دیکھاکہ لوگوں کی ایک جماعت اپنے جانوروں کو پانی پلا رہی ہے اور دیکھا کہ ان کے علاوہ دو عورتیں اپنے جانور لیے ہوئے کھڑی ہیں موسیٰ نے کہا کہ آپ دونوں کا کیا مسئلہ ہے؟ وہ دونوں بولیں جب تک یہ چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلا کرواپس نہ چلے جائیں ہم پانی نہیں پلا سکتیں اور ہمارے والدبڑی عمر کے بوڑھے ہیں موسیٰ نے ان کے جانوروں کو پانی پلا یا پھر سایہ کی طرف ہٹ گئے اور کہا کہ پالنے والے جو چیزیں تو مجھ پرنازل کرتاہے میں اس کا محتاج ہوں پھر ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک حیا کے ساتھ چلتی ہوئی موسیٰ کے پاس آئی کہنے لگی میرے والدتم کو بلا رہے ہیں تاکہ تم نے جو ہمارے جانوروں کو پانی پلا یا ہے تمہیں کو اس کی اجرت دیں جب موسیٰ ا ن کے پاس آئے اور اپنا سارا قصہ انہیں سنا یا تو وہ کہنے لگے خو ف نہ کرو تم اب ظالموں سے نجات پا چکے ہو " (قصص: ۲۲ تا ۲۵)

دختر جناب شعیب

حضرت شعیب کی خدمت میں موسیٰ کی آمد شعیب کی طرف سے شادی کی پیش کش حق مہر کا تعین کئی سال کاکام پھر واپس روانگی راستہ میں بچے کی ولادت اور نبوت کا ملنا ان واقعات میں موسیٰ کی ماں کا مامتا پر ضبط، خواہر موسی کی جفا کشی اورخبرداری پھر زوجہ فرعون کا ہر مرحلہ میں حضرت موسیٰ کا تحفظ ان مراحل میں عورت کی عظمت، عورت کی محبت وایثار اورنبی کی جان کے تحفظ ایسے واقعات ہیں جن سے عورت کی عظمت واضح و آشکار ہوتی ہے

۳۲

تزویج موسیٰ

( قَالَتْ إِحْدَاهُمَا یَاأَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْأَمِیْنُ قَالَ إِنِّی أُرِیْدُ أَنْ أُنْکِحَکَ إِحْدَی ابْنَتَیَّ هَاتَیْنِ عَلٰی أَنْ تَأْجُرَنِی ثکَلنِیَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِکَ وَمَا أُرِیْدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَیْکَ سَتَجِدُنِیْ إِنْ شَاءَ الله مِنَ الصَّالِحِیْنَ قَالَ ذٰلِکَ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ أَیَّمَا الْأَجَلَیْنِ قَضَیْتُ فَلاَعُدْوَانَ عَلَیَّ وَالله عَلٰی مَا نَقُوْلُ وَکِیْلٌ )

"ان دونوں میں سے ایک لڑکی نے کہا اے ابا اسے نوکر رکھ لیں کیونکہ جیسے آپ نوکر رکھنا ہو تو ان سب سے بہتر وہ ہے جو طاقت ور، امانت دار ہو شعیب نے کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں ایک کا نکا ح اس شرط پر تمہارے ساتھ کروں کہ تم آٹھ سال میری نوکری کرو اور اگر تم دس سال پورے کرو تو یہ تمہاری مرضی ہے اور میں تمہیں تکلیف نہ دوں گا انشا ء اللہ تم مجھے صالحین میں سے پاو گے موسیٰ نے کہا یہ میرے اور آپ کے درمیان وعدہ ہے میں ان دونوں میں سے جو بھی مدت پوری کروں مجھ سے کوئی زیادتی نہ ہو اوریہ جو کچھ ہم یہ کہہ رہے ہیں ا س پر اللہ ضامن ہے " (قصص: ۲۶ تا ۲۸)

( فَلَمَّا قَضٰی مُوْسَی الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِه آنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِه امْکُثُوْا إِنِّیْ آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْ آتِیْکُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِنَ النَّارِ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُونَ فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِی مِنْ شَاطِئِی الْوَادِ الْأَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبَارَکَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَنْ یَّامُوسٰی إِنِّیْ أَنَا الله رَبُّ الْعَالَمِیْنَ وَأَنْ أَلْقِ عَصَاکَ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ کَأَنَّهَا جَانٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ یَامُوْسٰی أَقْبِلْ وَلَاتَخَفْ إِنَّکَ مِنَ الْآمِنِیْنَ اُسْلُکْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَاءَ مِنْ غَیْرِ سُوْءٍ )

"پھر جب موسیٰ نے مدت پوری کی اور وہ اپنے اہل کو لیکر چل دیے تو کوہ طور کی طرف سے ایک آگ دکھائی دی وہ اپنے اہل سے کہنے لگے ٹھہرو میں نے ایک آگ دیکھی ہے شائد وہاں سے کوئی خبر لاوں یاآگ کا انگارہ لے کر آوں تاکہ تم تاپ سکو جب موسیٰ وہاں پہنچے تو وادی کے دائیں کنارے ایک مبارک مقام میں درخت سے ندا آئی اے موسیٰ میں ہی عالمین کا پر ورد گار اللہ ہوں اور اپنا عصا پھینک دیجیے پھر جب موسیٰ نے عصا کوسانپ کی طرح حرکت کرتے دیکھا تو پیٹھ پھیر کر پلٹے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا ہم نے کہااے موسیٰ آگے آیئے اور خوف نہ کیجیے یقینا آپ محفوظ ہیں اے موسیٰ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈل دیجیے وہ بغیر کسی عیب کے چمکدار ہو کر نکلے گا " (قصص: ۲۹ تا ۳۲)

۳۳

حضرت موسیٰ کے واقعہ کا عجیب منظر ہے ایک طرف ماں کی مامتا پھر بہن کی جفا کشی اوربھائی کے صندوق کے ساتھ چل کر اپنی محبت کا ثبوت آسیہ کا اخلاص اور نور کی چمک سے ا س کے دل کی روشنی پھر مصیبت میں مبتلا حضرت موسیٰ کوان کی نیکی بے چاروں کی مدد سے اب شفیق و مہربا ں بزرگ سے ملاقات جس نے ان کے کام سے خوش ہوکر داماد بنا لیا جہاں حضرت موسیٰ جیسے بیٹے اور دامادکی طرح آٹھ دس سال سکون سے رہے قدم قدم عورت وسیلہ سکون و راحت حضرت موسیٰ بن رہی ہے کیا کہنا عظمتِ عورت کا

( ۱۱) ملکہ سبا

حضرت سلیمان کی حکومت عظیم تھی چرند پرند حیوانات جن وغیرہ انکے تابع ، جب سفر کر تے ہوا کے دوش پر سوار سائیباں کے طور پر پرندے بالا سر ہوتے تاکہ دھوپ سے بچ جائیں ،جگہ خالی دیکھی معلوم ہوا کہ ہد ہد نہیں ہے ناراضگی کا اظہار کیا ہد ہد نے حاضری کے بعد ملکہ سبا کی حکومت کا تذکرہ کیا ارشا د رب العزت :

( إِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَأَةً تَمْلِکُهُمْ وَأُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ وَّلَهَا عَرْشٌ عَظِیمٌ وَجَدْتُّهَا وَقَوْمَهَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ الله )

" میں نے ایک عورت دیکھی جو ان پر حکمران ہے اسکے پاس ہر قسم کی نعمت موجود ہے اور اسکاایک عظیم الشان تخت ہے میں نے دیکھا کہ وہ اور اسکی قوم اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں " (نمل: ۲۲ تا ۲۳)

حضرت سلیمان نے خط دیا کہ وہاں ڈال آئے

خط کا مضمو ن

( إِنَّه مِنْ سُلَیْمَانَ وَإِنَّه بِاِسْمِ الله الرَّحْمَانِ الرَّحِیْمِ أَلاَّ تَعْلُوْا عَلَیَّ وَأْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ )

(ملکہ نے کہا دربار لگاؤ میری طر ف ایک محترم خط آیا ہے یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور وہ یہ ہے) خدا کے رحمان و رحیم کے نا م سے شروع تم میرے مقابلہ میں بڑائی مت کرو اور فرماں بردار ہو کر میرے پاس چلے آؤ (نمل: ۳۰ تا ۳۱)

۳۴

امراء و وزراء سے مشورہ کیا عام طور پر بادشاہ جب کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو معزز لوگ بھی ذلیل ہو جاتے ہیں طے ہوا کہ ہدیہ بھیج کر دیکھا جائے کہ کیا صورت حال ہے حضرت سلیمان نے ہدیہ قبول نہیں کیا فرمایا کون ہے جوتخت بلقیس کو لائے عفریت (جو جن تھا)کہنے لگا میں حاضر لیکن ایک وزیر آصف بن برخیا تھا عرض کرنے لگا پلک جھپکنے میں پیش کر سکتا ہوں پھر دیکھا کہ تخت سامنے موجود ہے جب ملکہ بھی آ گئی تو اسے محل کی طرف بلایا گیا ارشاد رب العزت :

( قِیْلَ لَهَا ادْخُلِی الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَّکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْهَا قَالَ إِنَّه صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ )

"ملکہ سے کہا گیا محل میں داخل ہو جائیے جب سامنے محل کو دیکھا تو خیال کیا کہ وہاں گہرا پانی ہے اور اس نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں سلیمان نے کہا یہ شیشہ سے مرصع محل ہے ملکہ نے کہا پروردگار میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین پر ایمان لاتی ہوں" (نمل: ۴۴)

جب تک یہ عورت سورج پرست تھی کافرہ مشرکہ سزا کی مستوجب جب ایمان لائی صالح عمل بجا لائی تو بارگاہ رب العزت میں معزز و مکرم ٹھہری اصل مسئلہ ارتباط بہ خدا ہے اوریہاں مرد و عورت میں مسابقت ہے پس جو بازی لے جائے

حضرت مریم

ماں نے نذر مانی خیال تھا بیٹا ہوگا مگر حضرت مریم کی ولادت ہوئی اللہ نے بیٹی کو بھی خدمت بیت المقدس کے لئے قبول کر لیا

( وَإِنِّیْ سَمَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیذُهَا بِکَ )

"میں نے اس لڑکی کا نام مریم رکھا میں اسے شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں (آل عمران: ۳۶)

۳۵

پھر بڑی ہوگئیں خدا کی طرف سے میوے آتے ذکریا پوچھتے بتاتیں من عنداللہ اللہ کی طرف سے ہیں حتیٰ کہ جوان ہو گئیں ارشاد رب العزت ہے:

( وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذَ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَکَانًا شَرْقِیًّا فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا قَالَتْ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِالرَّحْمَانِ مِنْکَ إِنْ کُنْتَ تَقِیًّا قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأَهَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا قَالَتْ أَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَرٌ وَّلَمْ اَ کُ بَغِیًّا قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ وَلِنَجْعَلَه آیَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَکَانَ أَمْرًا مَقْضِیًّا فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِه مَکَانًا قَصِیًّا فَأَجَائَهَا الْمَخَاضُ إِلٰی جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ یَالَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلاَّ تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا وَهُزِّیْ إِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّی عَیْنًا فَإِمَّا تَرَیِنَ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُوْلِی إِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمَانِ صَوْمًا فَلَنْ أُکَلِّمَ الْیَوْمَ إِنْسِیًّا فَأَتَتْ بِه قَوْمَهَا تَحْمِلُه قَالُوْا یَامَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا یَاأُخْتَ هَارُوْنَ مَا کَانَ أَبُوْکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَّمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیًّا فَأَشَارَتْ إِلَیْهِ قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا قَالَ إِنِّیْ عَبْدُ الله آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا وَّجَعَلَنِیْ مُبَارَکًا أَیْنَ مَا کُنْتُ وَأَوْصَانِیْ بِالصَّلَاةِ وَالزَّکَاةِ مَا دُمْتُ حَیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُ وَیَوْمَ أَمُوتُ وَیَوْمَ أُبْعَثُ حَیًّا )

"( اے محمد) اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجئے جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرق کی جانب گئی تھیں یوں انہوں نے ان سے پردہ اختیار کیا تھا تب ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا پس وہ ان کے سامنے مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا مریم نے کہا اگر تو پرہیز گار ہے تو میں تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں اس نے کہا میں تو بس آپ کے پروردگار کا پیغام رساں ہوں تاکہ آپ کو پاکیزہ بیٹا دوں مریم نے کہا میرے ہاں بیٹا کیسے ہوگا مجھے تو کسی بشر نے چھوا تک نہیں اور میں کوئی بدکردار بھی نہیں ہوں فرشتے نے کہا اسی طرح ہوگا

۳۶

آپ کے پروردگار نے فرمایاہے کہ یہ تو میرے لئے آسان ہے اور یہ اس لئے ہے کہ ہم اس لڑکے کو لوگوں کے لئے نشانی قرار دیں اور وہ ہماری طرف سے رحمت ثابت ہو اور یہ کام طے شدہ تھا اور مریم اس بچہ سے حاملہ ہو گئیں اور وہ اسے لیکر دور چلی گئیں پھر زچگی کا درد انہیں کھجور کے تنے کی طرف لے آیا کہنے لگیں اے کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور صفحہ فراموشی میں کھو چکی ہوتی فرشتے نے مریم کے پیروں کے نیچے سے آواز دی غم نہ کیجئے آپ کے پروردگار نے آپ کے قدموں میں ایک چشمہ جاری کیا ہے اور کھجور کے تنے کو ہلائیں تو آپ پر تازہ کھجوریں گریں گی پس آپ کھائیں پئیں اور آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اگر کوئی آدمی نظر آئے تو کہہ دیں میں نے رحمان کی نذر مانی ہے اس لئے آج میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے آئیں لوگوں نے کہا اے مریم تو نے غضب کی حرکت کی اے ہارون کی بہن نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکردار تھی "پس مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا لوگ کہنے لگے ہم ا س کیسے بات کریں جو بچہ ابھی گہوارہ میں ہے بچے نے کہا میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے اور میں جہاں بھی ہوں مجھے بابرکت بنایا ہے اور زندگی بھر نماز اور زکوة کی پابندی کا حکم دیا ہے اور اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے اور اس نے مجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا اور سلام ہو مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا جس روز میں وفات پاؤں گا اور جس روز دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا" (مریم: ۱۶ تا ۳۳)

حضرت مریم خدا کی خاص کنیز بیت المقدس میں ہر وقت رہائش اللہ کی طرف سے جنت کے کھانے و میوے برگزیدہ مخلوق بہت بڑے امتحان میں کامیاب ہوئی ۳ گھنٹہ یا ۳ دن کے بچے نے اپنی نبوت اپنی کتاب اور اپنے بابرکت ہونے کی خبر دے کر کے اپنی والدہ ماجدہ کی عصمت کی گواہی دی اوربتایا مجھے والدہ ماجدہ سے بہترین سلوک کا حکم ملا ہے پھر مریم کے پاؤں کے نیچے چشمہ جاری ہوا خشک درخت سے تر و تازہ کھجوریںیہ اللہ کی طرف سے اظہارہے کہ جو میرا بن جائے خواہ عورت ہو یا مرد میں اس کا بن جاتا ہوں ، عزت کی محافظت میرا کام، اشکالات کے جوابات میری طرف سے اوروہ سب کو ایسے برگزیدہ لوگوں (مرد ہو یا عورت)کے سامنے جھکا دیتا ہے تومیرے سامنے جھک جادنیا تیرے سامنے سرنگوں ہو گی

۳۷

حضرت مریم کی تعریف و ثناء

ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَةُ یَامَرْیَمُ إِنَّ الله اصْطَفَاکِ وَطَهَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلٰی نِسَاءِ الْعَالَمِیْنَ یَامَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ )

"اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا اے مریم اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں سے برگزیدہ کیا ہے اے مریم اپنے رب کی اطاعت کرو اور سجدہ کرتی رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو" (آل عمران : ۴۲۴۳)

( إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَةُ یَامَرْیَمُ إِنَّ الله یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَّمِنَ الصَّالِحِیْنَ قَالَتْ رَبِّ أَنّٰیْ یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ قَالَ کَذٰلِکِ الله یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ إِذَا قَضٰی أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ وَیُعَلِّمُهُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیْلَ )

" جب فرشتوں نے کہا اے مریم اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا وہ دنیا و آخرت میں آبرو مند ہوگا اور مقرب لوگوں میں سے ہوگا اور وہ لوگوں سے گہوارہ میں گفتگو کرے گا اور صالحین میں سے ہوگا مریم نے کہا پروردگار! میرے ہاں لڑکا کس طرح ہو گا مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا فرمایا ایسا ہی ہوگا اللہ جو چاہتا ہے خلق فرماتا ہے جب وہ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے اور (اللہ) اسے کتاب و حکمت اور توریت و انجیل کی تعلیم دے گا" (آل عمران : ۴۵۴۸)

اللہ حضرت مریم کو طاہرہ، منتخب ہو اور پاکیزہ ہونے کی سند کے ساتھ عالمین کی عورتوں کی سردار قرار دے رہا ہے کلمة اللہ روح اللہ کی ماں اعجاز خدا کا مرکز طہارة و پاکیزگی کا مرقع ایسے ان لوگوں کی اللہ تعریف کرتا ہے مرد ہو یا عورت "عورت بھی خداکی معزز مخلوق ہے"

۳۸

ازواج نبی اعظم

ارشاد رب العزت:

( النَّبِیُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ )

نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی ازواج ان کی مائیں ہیں" (احزاب : ۶) ازواج میں بدکرداری و زنا وغیرہ کا تصور نہیں حرم رسول ہیں ا ن میں اس طرح کی خرابی نہیں ہو سکتی ارشاد رب العزت :

( إِنَّ الَّذِیْنَ جَائُوْا بِالْإِفْکِ عُصْبَةٌ مِّنْکُمْ لَاتَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِءٍ مِّنْهُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَه مِنْهُمْ لَه عَذَابٌ عَظِیْمٌ لَوْلاَإِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَیْرًا وَّقَالُوا هَذَا إِفْکٌ مُّبِیْنٌ لَوْلاَجَائُوْا عَلَیْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ یَأْتُوْا بِالشُّهَدَاءِ فَأُوْلٰئِکَ عِنْدَ الله هُمُ الْکَاذِبُوْنَ )

"جو لوگ بہتان باندھتے ہیں وہ یقینا تمہارا ہی ایک گروہ ہے اسے اپنے لئے برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے ان میں سے جس نے جتنا گناہ کمایا اس کا اتنا ہی حصہ ہے اور ان میں سے جس نے اس میں سے بڑا بوجھ اٹھایا اس کے لئے بڑا عذاب ہے جب تم نے یہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور مومنہ عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا یہ صریح بہتان ہے وہ لوگ اس بات پر چار گواہ کیوں نہ لائے اب چونکہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں تو وہ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں" (نور: ۱۱ تا ۱۳)

نبی اعظم کی زوجہ (عورت) پر تہمت لگی تو سختی کے ساتھ دفاع کیا گیا تاکہ عورت کی عظمت پر داغ نہ لگ جائے اور مومن مردوں کے ساتھ مومنہ عورتوں سے بھی کہا گیا آپ لوگوں کی پہلی ذمہ داری تھی کہ دفاع کرتے احکام میں دونوں برابر(مرد و عورت) اللہ کے احکام امہات المومنین کے نام لیکن ان میں سب عورتیں شریک ہیں

۳۹

ارشاد رب العزت ہے:

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِکَ إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا وَإِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الله وَرَسُوْلَه وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ الله أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْکُنَّ أَجْرًا عَظِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّأْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ یُّضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی الله یَسِیْرًا وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُولِه وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا کَرِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ إِنَ اتَّقَیْتُنَّ فَلَاتَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِه مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَاتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْأُوْلٰی وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِیْنَ الزَّکَاةَ وَأَطِعْنَ الله وَرَسُولَه )

"اے نبی اپنی ازواج سے کہدیجئے اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی آسائش کی خواہاں ہو توآؤ میں تمہیں کچھ مال دے کرشائستہ طریقہ سے رخصت کر دوں لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور منزل آخرت کی خواہاں ہو تو تم میں سے جو نیکی کرنے والی ہیں ان کے لئے اللہ نے اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے اے نبی کی بیویو تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہو جائے اسے دگنا عذاب دیا جائیگا اور یہ بات اللہ کے لئے آسان ہے اور تم میں سے جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل انجام دے گی اسے ہم اس کا دگنا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لئے عزت کا رزق مہیا کر رکھا ہے اے نبی کی بیویو تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم تقویٰ رکھتی ہو تو (غیروں کے ساتھ) نرم لہجہ میں باتیں نہ کرناکہ کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرواور اپنے گھر میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کے طریقت سے اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتی پھرو نیز نماز قائم کرو اور زکوة دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو " (احزاب: ۲۸ تا ۳۳)

ان آیات میں بعض چیزوں سے روکاگیا اور بعض کا حکم دیا گیا تاکہ غلط روی سے عورت بچ جائے اور فضائل و کمالات سے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کرے اس میں کامیابی و کامرانی کا راستہ ہے قرآن مجید نے ازواج نبی میں سے دو کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ اپنی طرف سے تبصرہ کے بجائے آیات اور ان کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے

۴۰