قرآن اور عورت

قرآن اور عورت0%

قرآن اور عورت مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 97

قرآن اور عورت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حافظ ریاض حسین نجفی
زمرہ جات: صفحے: 97
مشاہدے: 47349
ڈاؤنلوڈ: 5007

تبصرے:

قرآن اور عورت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 97 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 47349 / ڈاؤنلوڈ: 5007
سائز سائز سائز
قرآن اور عورت

قرآن اور عورت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

(۵)( وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللاَّ تِیْ لاَیَرْجُوْنَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَهُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ م بِزِیْنَةٍ وَأَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّهُنَّ وَالله سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ )

"اور جو عورتیں ضعف السنی کی وجہ سے گھروں میں خانہ نشین ہو گئی ہوں اور نکاح کی توقع نہ رکھتی ہوں ان کے لیے اپنے حجاب کے اتار دینے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں تاہم عفت کاپاس رکھنا ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ بڑا سننے والا جاننے والا ہے " ( سورہ نور: ۶۰)

پردہ ہر زمانہ میں شافت و عظمت کی نشانی سمجھا جاتا رہاہے اسلام نے اس کاحکم دے کرایک عورت کی عظمت کی حفاظت کی ہے پردہ چادر برقعہ دو پٹہ غرضیکہ ایسا کپڑ ا جس سے عورت کا بدن اور اس کے بال نظر نہ آئیں

۱) حکم ہے کہ نرم لہجہ میں ہنستے ہوئے غیر مردسے بات نہ کریں ارشاد رب العزت ہوتاہے :

( فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهِ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا )

"نرم لہجہ میں بات نہ کرو کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو" ( سورہ احزاب : ۳۲ )

۲) میک اپ بن سنور کا بازار یاباہر کسی جگہ جاناممنوع ،زینت صرف شوہر وں کے لیے ہونا چاہیےہاں محرموں کے سامنے آنے میں کوئی حرج نہیں

( وَلاَیُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ إِلاَّ لِبُعُوْلَتِهِنَّ )

"اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں مگر شوہر وں اور محروں کے لئے "(سورہ نور: ۳۱)

۶۱

۳) چلتے ہوئے کوئی ایسی علامت نہیں ہونی چاہیے جس سے لوگ متوجہ ہوں مثل پاؤں زور سے مارنا پا زیب یا اس طرح کا زیور جس سے آواز پید اہو پرفیوم عطریات جس سے لوگ خصوصی توجہ شروع کریں ارشاد رب العزت ہوتاہے :

( لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّ )

"جس سے پوشیدہ زینت ظاہرہو جائے " (سورہ نور: ۳۱)

۴) ایسی چادر دوپٹہ اوڑھیں جس سے بدن کے اعضا سینہ گردن بال ظاہر نہ ہوں ارشاد ِرب العزت ہے :

( وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰی جُیُوْبِهِنَّ )

"اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش ظاہر نہ ہونے دیں(نور: ۳۱)

۵) ا رشادِ رب العزت ہے :

( یُدْنِینَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیبِهِنَّ ذَلِکَ أَدْنَی أَنْ یُعْرَفْنَ )

اپنی چادراور اوڑھنی اس طرح ڈالے رکھیں تاکہ ان کی پہچان ہو سکے

۶) ارشاد رب العزت ہے :

( فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ )

عورتوں سے ضرورت کی کوئی چیز طلب کرنا ہو تو پردہ یا دروازے کے پیچھے رہ کر طلب کرو (احزاب : ۵۳)

۷) بناؤ سنگھار کے ساتھ باہر نکلنا اسلام سے پہلے کا (جاہلیت)طور طریقہ ہے، اسلام کے بعد ایسا کرنا گویا جاہلیت کی طرف پلٹناہے ارشاد رب العزت ہوتاہے :

( وَلاَتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْأُوْلٰی )

"قدیم جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتی پھرو "(سورہ احزاب ۳۳)

۶۲

آخر بحث میں رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کافرمان وجناب سیدہ سلام اللہ علیھا کا جواب :

قال رسول الله لابنته فاطمةعلیها السلام ایُّ شیء خیر للمرئة قالت ان لا تری رجلا ولا یراها رجل

رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنی بیٹی فاطمہ زہرا سے پوچھا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا ہے؟ عرض کیا عورت مرد کو نہ دیکھے او رمرد اس عورت کونہ دیکھ سکے عورت کی عظمت جناب سیدہ سلام اللہ علیہا جن کی تعظیم کے لیے رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )بنفس نفیس کھڑے ہو جاتے تھے ،اے بیٹی !اے ماں! جس قدر سیرت زہرا پرعمل ہوگا اسی قدر تیری عزت وعظمت ہوگی قرآن مجید و ازدواج ازدواج او رنکاح مرد و عورت کے درمیان اتصال جس میں حدود شرعی کو مدنظر رکھتے ہوئے جسمانی وروحانی لذت کا حصول اورنسل انسانی کی بقاء مقصود ہوتی ہے

النکاح سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی

فطری لذت بھی حاصل او رانسانیت کی بقاء بھی موجود

فرمان رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) المحجة البیضاء جلدنمبر ۳ ص ۵۴

نکاح میری سنت ہے میری سنت سے روگردانی کرنے والامیرا نہیں ہو سکتا

نکاح کا ذکر قرآن مجید میں ۲۴ دفعہ آیا ہے فطرت انسانی میں مرد بہ عنوان طالب او ر محب او رعورت پھول او رشمع کی حیثیت رکھتی ہے مرد مائل جاتا ہے او رعورت اسکا مقصود بنتی ہے لذا اسی فطرت کے مطابق خطبہ ازدواج کی خواہش مرد کی طرف سے ہوتی ہے، ناز ونعم میں پروردہ عورت کے لیے افتخار مرد کی بار بار آمد تاکہ قبولیت ہوجائے مرد محبت خرید رہا ہے ، محبت اور چاہت رکھتا ہے اس بیوی کو اپنے گھر میں لانا چاہتا ہے اوراس شمع سے اپنے گھر کو روشن چاہتا ہے یہ ہے اظہار محبت اسی میں عورت کا شرف او رعورت کی عظمت ہے پھر برات مرد کی طر ف سے جاتی ہے تاکہ عزت کے ساتھ اپنے گھر میں اس عظیم شخصیت اس محبوبہ کو لایا جاسکے تاکہ گھر میں رونق ہو گھرمیں چہل پہل ہو مرد کیلئے سکون واطمینان ہو لیکن جب صیغہ نکاح پڑھاجاتا ہے تو عورت کی طرف سے ابتدا ہوتی ہے انشاء عورت کی طرف سے او رقبول مرد کی طرف سے یہ در حقیقت مرد کا استقبال ہے

۶۳

اپنی طرف سے رضا مندی کا اظہار ہے تا کہ مرد سمجھ لے کہ اسکی محنت رائگاں نہیں گئی مجھے محبت کاجواب محبت سے ملا ہے کتنی چاہت کے ساتھ کتنی خوشی کے ساتھ مرد اس عورت کو اپنے گھرلے جاتا ہے جو گھر مرد کا تھا بنانے والے مرد کا تھا لیکن اب اس گھر کی سجاوٹ عورت ہے گھر کی زینت عورت ہے، گھرمیں روشنی عورت سے، گھر میں خوشبو عورت سے مردگھر سے باہر ہوتے ہوئے بھی فورا گھر جانے کی خواہش رکھتا ہے تاکہ اپنے اس پھول کی خوشبو سے مستفید ہو یہ ہے خداکا عطیہ یہ ہے فطری ملاپ ملاپ بھی ایسا کہ ((تو من شدی من تو شدم)) کا مصداق ہیں

( هُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ )

" وہ تمہارے لباس اور تم ان کے لبا س ہو " (بقرہ: ۱۸۷)

ارشا د رب العزت ہے:

( وَمِنْ آیَاتِه أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْا إِلَیْهَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُوْنَ )

"اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے ازواج پید ا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کردی غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقینا ان میں(خداکی) نشانیاں ہیں " (روم : ۲۱)

عورت کی طرف سے محبت او رپیار مرد کی طرف سے محبت کے ساتھ رحمت و مہربانی تاکہ باہمی ارتباط مضبوط سے مضبوط تر ہو جائے خد ا کرے یہ شادی یہ خوشی دائمی ہو ساری زندگی ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی ملاپ و صل و ارتباط ہو ارشادِ رب العزت :( هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِیْ ظِلَالٍ عَلَی الْأَرَائِکِ مُتَّکِئُوْنَ )

"وہ اور انکی ازواج سا یوں میں مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے " (یٰسین: ۵۶)

۶۴

انسانی فطر ت میں اس محبت کوودیعت کیا گیاہے صحیح محبت حدود شرعی میں رہتے ہو ئے محبت فطری کہلائے گی ارشاد رب العزت ہے:

( زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْث )

" لوگوں کوان کی مرغوب چیزوں یعنی بیویوں، بیٹیوں ، سونے چاندی کے خزانے عمدہ گھوڑوں اورمریشیوں اورکھیتوں کی الفت و زینت دکھا دی گئی ہے " (آل عمران: ۱۴)

لیکن یہ تو دنیا وی سامان ہے انجام و عاقبت میں بھی ازواج و عورت کی اہمیت واضح ہے ارشاد رب العزت ہے :

( قُلْ أَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِیْنَ فِیْهَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ الله وَالله بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ )

"کہہ دیجیے کیامیں تمہیں ان چیزوں سے بہتر چیز نہ بتادوں جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغا ت ہیں جن کے نیچے نہریں جا ری ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے نیز ان کے لیے پاکیزہ بیویا ں ہیں اور اللہ کی خوشنودی ہوگی اورا للہ بندوں پر خوب نگاہ رکھنے والا ہے "

انتخاب عورت

شادی سے پہلے انسان سعی و کوشش کرکے بہترین رشتہ تلاش کرے بہترین رشتہ حسن وزبیاتی تعلیم و تربیت اخلاق و کردا رسے متصف ہو خاندان شریف عورت عفیفہ پاک دامن اور ولود(بچہ جننے والی) بانجھ عقیم سے اجتناب کیا جائے صرف مال و دولت اور خوبصورتی کافی نہیں ہے بد کردار خاندانی لڑکی ایسے ہے جیسے کوڑا کرکٹ کے وسط میں پھول اس سے اجتناب ضروری ہے

۶۵

ارشاد رب العزت ہے:

( وَلَاتَنْکِحُوْا الْمُشْرِکَاتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِنْ مُشْرِکَةٍ وَّلَوْ أَعْجَبَتْکُمْ وَلَاتُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُشْرِکٍ وَّلَوْ أَعْجَبَکُمْ أُوْلٰئِکَ یَدْعُونَ اِلٰی النَّارِ وَالله یَدْعُوْا إِلَی الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِه وَیُبَیِّنُ آیَاتِه لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ .)

"تم مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں چونکہ مومنہ کنیزاس مشرکہ عورت سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں زیادہ پسند ہو نیز (مومنہ عورتوں کو) مشرک مردوں کے عقد میں نہ دینا خواہ وہ مشرک تمہیں پسند ہی ہو کیونکہ وہ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتاہے اور اللہ اپنی نشانیوں کو لوگوں کے سامنے کھول کر پیش کر تا ہے شائد کہ وہ نصیحت حاصل کریں ارشادِ رب العزت ہے:

( اَلْخَبِیْثَاتُ لِلْخَبِیثِیْنَ وَالْخَبِیْثُونَ لِلْخَبِیْثَاتِ وَالطَّیِّبَاتُ لِلطَّیِّبِینَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبَاتِ أُوْلٰئِکَ مُبَرَّئُوْنَ مِمَّا یَقُوْلُونَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ )

"خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کی لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیں وہ ان باتوں سے پاک ہیں جو وہ لوگ بناتے ہیں انکے لیے مغفرت اور باعزت روزی ہے" ( سورہ نور: ۲۶)

پیسہ دیکھ کر شادی عورت کی دولت کی وجہ سے اسکے ساتھ شادی، حسن کو مدنظر رکھتے ہوئے ترویج نہیں بلکہ اصل چیز شرافت دیانت اور اخلاق وکردار کی پاکیزگی ہے ،رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے

( إِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِهِمْ الله مِنْ فَضْلِه )

"اگر مرد نادار و فقیر ہے تو اسے اللہ اپنے فضل سے غنی کر دے گا " (سورہ نور : ۳۲ )

۶۶

حق مہر او ر قرآن

مہر ،اللہ کی طرف سے عورت کے لیے عطیہ ہے مہر دینا مرد کا احسان نہیں بلکہ عورت کا حق اور خدائی ہدیہ ہے ارشاد رب العزت ہے:

( وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَکُلُوْهُ هَنِیئًا مَّرِیْئًا )

"اور عورتوں کے مہر انکو خوشی سے دیا کرو اگر وہ کچھ حصہ اپنی مرضی سے معاف کردیں تو اسے خوشگواری لے کر صرف سکتے ہو " (سورئہ نساء: ۴)

مہر کی مقدار حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زرہ بیچ کر اسکی قمیت حضور کی خدمت میں پیش کی حضور نے اسی مہر کی رقم ۴۸۰ درہم سے جہیز خرید ا چاند ی کی قیمت جس وقت ۴۵ روپے فی تولہ تھی اس وقت ۴۸۰ درہم یعنی ۱۴۵۵۵ روپے بنتے ہیں یہی مہر فاطمی ہے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو مہر فاطمی کے مطابق مہر ادا کرتے ہیں لیکن جہاں تک مہر شرعی کا تعلق ہے اس کی مقدار متعین نہیں بلکہ دونوں خانوادوں کی باہمی رضا مندی جس مقدار پر ہو جائے وہ جائز ہے ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِنْ أَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَوْجٍ وَّآتَیْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوْا مِنْهُ شَیْئًا أَتَأْخُذُوْنَه بُهْتَانًا وَّإِثْمًا مُّبِیْنًا وَکَیْفَ تَأْخُذُوْنَه وَقَدْ أَفْضٰی بَعْضُکُمْ إِلٰی بَعْضٍ وَّأَخَذْنَ مِنْکُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا )

"اگر تم لوگ ایک زوجہ کی جگہ دوسری زوجہ لینا چاہو اورایک کو بہت سا مال بھی دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لینا کیا تم بہتان اورصریح گناہ کے ذریعہ مال لینا چاہتے ہو اور دیاہوا مال تم کیسے واپس لے سکتے ہو جب کہ تم اسکے ساتھ مباشر ت کر چکے ہو اور وہ تم سے شدید عہد وقرار لے چکی ہیں " ( سورہ نساء : ۲۰۲۱ )

۶۷

حضرت عمر ابن خطاب نے ایک دفعہ کہا حق مہر اگر زیادہ لیاگیاتو بحق سرکار ضبط کر لیا جائے گا ایک مخدرہ نے اٹھ کر یہ آیت پڑھی اور کہا جب اللہ نے زیادہ مہر لینے کا کہا تو آپ کیسے منع کرتے ہیں ظاہر ہے جب "پل " کی مندرجہ رقم ہوئی تو کافی زیادہ ہوگی بہر حال حق مہر عورت کا حق ہے عورت کے لیے اللہ کی طرف سے عطیہ ہے اور مرد کی محبت کا اظہار ہے ادائیگی ضروری ہے

وہ عورتیں جن سے نکاح حرام ہے

ارشاد رب العزت ہے:

( حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ أُمَّهَاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَأَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ وَخَالَاتُکُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُکُمُ اللاَّ تِیْ أَرْضَعْنَکُمْ وَأَخَوَاتُکُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِکُمْ وَرَبَائِبُکُمُ اللاَّ تِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَائِکُمُ اللاَّ تِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَّمْ تَکُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْکُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ أَصْلَابِکُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْأُخْتَیْنِ إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ الله کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا وَّالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ کِتَابَ الله عَلَیْکُمْ وَأُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَاءَ ذٰلِکُمْ أَنْ تَبْتَغُوْا بِأَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ )

"تم پر حرام ہیں تمہاری مائیں تمہاری بیٹیاں تمہاری بہنیں تمہاری وہ مائیں جو تمہیں دودھ پلا چکی ہیں تمہاری پھوپھیاں،تمہاری خالائیں، تمہاری بھتیجیاں، تمہاری بھانجیاں اور تمہاری دودھ شریک بہنیں تمہاری بیویوں کی مائیں اور جن بیویوں سے تم مقاربت کر چکے ہو ان کی وہ بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں رہی ہوں لیکن اگر ان سے تم نے صرف عقد کیا ہو مقاربت نہ کی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے نیز تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں اور دو بہنوں کا باہم جمع کرنا مگر جو پہلے سے ہو چکا ہوبے شک اللہ بڑا بخشنے والا،رحم کرنے والا ہے اور شوہردار عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آجائیں یہ تم پر اللہ کا فرض ہے اور ان کے علاوہ باقی عورتیں تم پر حلال ہیں ان عورتوں کوتم مال خرچ کر کے اپنے عقد میں لاسکتے ہو بشرطیکہ(نکاح کا مقصد) عفت قائم رکھنا ہو بے عفتی نہ ہو

۶۸

" ارشاد رب العزت ہے:

( وَلَاتَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ آبَاؤُکُمْ مِّنْ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ کَانَ فَاحِشَةً وَّمَقْتًا وَسَاءَ سَبِیْلًا )

"اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ دادا نکاح کر چکے ہیں مگر جو کچھ جو چکا ہے سو ہو چکا یہ ایک کھلی بے حیائی ہے اور ناپسندیدہ عمل اور برا طریقہ ہے " (سورہ نساء: ۲۲)

کنیزوں سے نکاح

کافر عورتیں جو قید ہوکر آئیں ان سے بھی ان کی مالک کی اجازت سے نکاح کیا جاسکتاہے ان کا حق مہر اور دوسری ضروریات آزاد عورت کی نسبت کم ہوتی ہیں غلط کاری میں سزا بھی کم ہو تی ہے لیکن کنیزوں سے ویسے مقاربت سے نا جائزہے کسی کو حق نہیں کہ کنیز سے مجا معت کرے یہ کام حرام ہے البتہ نکاح جائز ہے ارشادِ رب العزت ہے:

( وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا أَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ مِّنْ فَتَیَاتِکُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَالله أَعْلَمُ بِإِیْمَانِکُمْ بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ فَانْکِحُوْهُنَّ بِإِذْنِ أهْلِهِنَّ وَآتُوْهُنَّ أُجُوْرَهُنَّ بِالْمَعْرُوُفِ مُحْصَنَاتٍ غَیْرَ مُسَافِحَاتٍ وَّلَامُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَیْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَیْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْکُمْ وَأَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ وَالله غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ )

"اگر تم میں سے کوئی مالی مشکلات کی وجہ سے آزاد عورتوں سے نکاح کی قدرت نہ رکھتاہو تو اسے چاہئے کہ وہ تمہاری مملوکہ مسلمان لونڈیوں سے نکاح کرے اللہ تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتاہے تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کا حصہ ہو لہذا ان کے سرپر ستوں سے اجازت لے کر ان کے ساتھ نکاح کرو اور شائستہ طریقہ سے ان کا مہر ادا کرو کہ وہ نکاح کے تحفظ میں رہنے والی ہوں بد چلنی کا ارتکاب کرنے والی نہ ہوں نہ در پردہ آشنا رکھنے والی ہوں پھر نکاح میں آنے کے بعد بد کاری کا ارتکاب کریں توانکے لیے سزا کا نصف ہے جو آزاد عورتوں کیلیے مقرر ہے یہ اجازت اسے حاصل ہے جسے شادی نہ کرنے(سے) تکلیف ومشقت کا خطرہ حق ہو لیکن اگر صبر کرو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا ہے رحم کرنیوالا ہے " (نساء: ۲۵)

۶۹

نکاح متعہ

نکاح کی دو قسمیں ہیں نکاح دائمی و موقت مذہب جعفریہ کے علماء کا اجماع ہے کہ نکاح متعہ جائز ہے نکاح دائمی ومتعہ میں چند چیز مشترک ہیں

۱) عورت عاقلہ بالغہ راشدہ اور تمام موانع سے خالی ہو

۲) آپس کی رضا کافی نہیں بلکہ صیغہ شرعی پڑھنا ضروری ہے

۳) نکاح سے جو چیزیں عورت پر حرام ہو جاتی ہیں ان میں دونوں شریک ہیں

۴) اولاد کے سلسلہ میں دونوں برابر دائمی کی طرح متعہ میں بھی اولاد شوہر کی ہوتی ہے

۵) مہر دونوں میں ضروری ہے متعہ میں مہر کا ذکر نہ ہو تو نکا ح نہیں ہو گا

۷) نکاح میں طلاق کے بعد اورمتعہ میں مقررہ مدت کے اختتام کے بعد عدت ضروری ہے

عقدِ متعہ اور عقدِنکاح میں فرق

۱) نکاح متعہ میں مدت کا ذکر کرنا ضروری ہے

۲) مہر نکاح متعہ کا رکن ہے اس کے ذکر کے بغیر نکاح نہیں ہو گا

۳) نکاح دائمی میں نفقہ دینا واجب ہے اور نکاح متعہ میں اگر شرط کر لی جائے تو واجب ہے

۴) نکاح دائمی طلاق کے بغیر ختم نہیں ہو تا متعہ مدت کے اختتام پر ختم ہوجاتاہے بہرَ حال دونوں ہی نکاح ہیں دونوں ہی شرعی ہیں دونوں کی حقیقت ایک ہے صرف چند امور میں فرق ہے فقہاء اسلام سنی و شیعہ سب کا اتفاق ہے کہ نکاح متعہ اسلام میں مشروع اور جائز قرار دیا گیاہے ارشاد رب العزت ہے:

( فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِه مِنْهُنَّ فَآتُوْهُنَّ أُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً وَلَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا تَرَاضَیْتُمْ بِه مِنْم بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ إِنَّ الله کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا )

"پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے ا نکا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو البتہ طے کرنے کے بعد آپس میں رضا مندی سے مہر میں کمی بیشی کرو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یقینا اللہ بڑا جاننے والا حکمت والاہے " ( سورہ نساء : ۲۴)

۷۰

متعہ کے جواز :مشروعیت میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں لذا مفسر کبیر فخرالدین رازی کاقول ہے یہ واضح ہے اور ہم اس کے منکر نہیں کہ متعہ مباح تھا لیکن داعی ہیں کہ متعہ منسوخ ہو گیا ہے نسخ مشکوک جوازو اباحت یقینی لہٰذا مباح ہی ہو گا متعہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ابن خطاب کے زمانہ تک جائز تھا، حضرت عمرنے منع کیا ابو نَضرہ کہتے ہیں عہد کہتا کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا ،ابن زبیر متعہ ممنوع قرار دیتے ہیں ابن عباس کے نزدیک جا ئز ہے جابر نے بتایا کہ ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر حضرت عمر کے زما نہ میں متعہ کیا لیکن حضرت عمرنے کہا منع کیا رسول اللہ وہی رسول ہیں قرآن وہی قرآن ہے لیکن حضرت عمر نے کہا : متعتان کانتا فی عہد رسول اللہ انا انہی عنہما واعاقب علیہا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے زمانہ میں دومتعہ جائز تھے میں ان کو ممنوع قرار دیتاہوں اور جو ان کا مرتکب ہو گااسے سزادوں گا (سنن بیہقی جلد ۷ ، ۲۰۶)

رازی، بخاری، عسقلانی ، اور ابن حجر وغیرہ ذکر کرتے ہیں روایت عمران ابن حصین متعہ کے متعلق آیت نازل ہوئی کسی آیت میں نسخ کیا ،رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے فرمایا ، پھر منع نہیں فرمایا پھر ایک صاحب (عمر ابن خطاب)نے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ ممنوع ہے حضرت امیر کا فرمان ہے :

لولاان عمر رضی الله عنه نهی عن المتعة ما زنی الا شقی (تفسیر کبیر جلد ۵ ص ۱۳)

ابو سعید الخدری جابر ابن عبداللہ انصاری حضرت عمر کے نصف زمانہ تک متعہ ہو تا رہا پھر حضرت عمر نے منع کیا(عمدة القاری للعینی جلد ۸ ص ۳۱۰)

خلاصہ کلام متعہ کا جواز متفق علیہ مشروعیت اجماعی ہے نسخ ہوا یا نہیں، شدیداختلاف ہے کیوں اب نہیں ہورہا چونکہ حضرت عمر نے منع فرمایا حضرت عمر کا فرمان سیاسی تھا کسی کی مرضی اس فرمان کو لے یا قرآن کے فرمان کو لے

( فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً )

پھر جن عورتوں سے تم نے عقد متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر، بطور فرض ادا کرو( نساء ۲۴)

۷۱

ایک سے زیاہ ز وجہ

قبل از اسلام تعدد ازواج کا رواج تھا عام طورپر محبت یا بچوں کی کثرت ایک سے زیادہ ازواج کی سبب تھی بعض اوقات یہ تصور بھی کہ خاندان میں عورتیں زیادہ اور مرد کم ہیں اورعورت کو تحفظ کی ضرورت ہے لہذا تعددازواج کا سلسلہ چل نکلا اسمیں کوئی قید نہیں تھی، امراء مال دار لوگ بہت زیادہ شادیاں رچا لیتے تھے جو عورت اچھی محسوس ہوتی اسے اپنے گھر لے آتے اسلام نے فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت دی ہے تاکہ عورت کو تحفظ حاصل ہو جس سے محبت ہے زناکاری میں نہ پڑ جائے یا اس کی خواہش پوری ہو جائے لیکن اس کو محدود کر دیا صرف چار میں پھرباقاعدہ حکم و اجازت ایک شادی کی ہے، دوسری شادی مشروط بشرط ہے اور وہ ہے انکے مابین انصاف و عدالت گویا تعداد کے لحاظ سے مہدود پھر عدالتسے بھی مشروط تاکہ ضرورت کومدنظر رکھتے ہوئے دوسری شادی کرلی جائے لیکن انصاف کادامن چھوٹنے نہ پاتےایسا نہ ہو کہ یہاں پہلی بیوی کے حقوق غصب اوردوسری راحت وعیش میں نہیں نہیں انصاف و عدالت لازم اورپھر خدائی پرستش بھی ہوگی ارشادِ رب العزت ہے: فانکحوا اما طاب لکم من النساء امثنی و ثلاث و رباع فان خفتم الاقد لوا فواحدة او ما ملکت ایمانکم ذلک ادنیٰ ان لا تعولوا جو دوسری عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو یا تین یا چار سے نکاح کرلو تمہیں خوف ہو کہ ان میں عدل نہ کر سکوگے کہ تو ایک ہی عورت یا لونڈی جس کے تم مالک ہو کافی ہے یہ ناانصافی سے بچنے کی بہتر ین صورت ہے (نساء، ۳) جو رواج پہلے چل رہے تھے کہ لوگ کثرت سے شادیاں رچاتے تھے بعض تو سو سے بھی زیادہ شادیاں کرلیتے تھے اسلام نے اسے دو شرطوں سے مشروط کردیا

۱) صرف چارتک محدود کر دیا اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دی

۲) عدالت و انصاف لازمی ہے عدم انصاف کا خوف ہو تو دوسری شادی جائز نہیں یہ سب کچھ کیوں بے سہارا عورت کو سہارا مل جائےکثرت سے عورتوں کا نکاح ہو جائے کسی کی چاہت دل میں ہے تو غلط راستہ کی بجائے صحیح راستہ سے خواہش پوری ہوجائے آج مغرب کی حالت دیکھیں بعض ممالک میں ۳۵ فیصدسے زیادہ حرام زادے موجو د ہیں عورت کھلونا بن چکی ہے کمائی کا ذریعہ بن گئی ہے عورت کی بے چارگی ا س قدر کہ اس کا کوئی سہارا نہیں چند دن اس کو ساتھ پھر ایا پھر چھوڑ دیا پھر کہیں اور ظمت عورت کا تقاضا اچھے مرد کا ساتھ ہے جو عزت کا محافظ ،غیرت کا محافظ اور ضروریات زندگی کا ضامن ہو یہ ہے عورت کی شان

۷۲

مرد عورت کا گھر

اس میں کوئی شک نہیں کہ گھر میں مرد عورت بچے موجودہوتے ہیں نظام ایسا مثالی ہونا چاہیے کہ یہ گھر جنت بن جائے اکھاڑہ نہ ہو جس میں ہر وقت خرافات لڑائی جھگڑا اور چپقلش ہو ظاہر ہے کہ ایک سربرا ہ ہونا چاہئے کہ اختلاف کی صور ت میں اسکی بات سب کے لیے قابل قبول ہو اسلام نے سر براہی مر د کو دی ہے ارشاد رب العزت ہے :

( الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ الله بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَا أَنفَقُوْا مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ الله )

مرد عورتوں پر حاکم ہیں ان فضیلتوں کی بنا پر جو اللہ نے بعض کو بعض پر دی ہیں اور یہ کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں نیک عورتیں وہی ہیں جوشوہروں کی اطاعت کرنے والی ہوں ان کی غیبت میں ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوں جن کی خدا نے حفاظت ملی ہے (سورہ نساء : ۳۳ )

اچھی عورت جس کے وجود سے گھر جنت بن جائے جس کی خوش اخلاقی کی وجہ سے مرد گھر میں آنے پر خوشی محسوس کرے ان کی صفات قرآن مجید نے بیان کی ہیں ارشاد رب العزت ہے:

( عَسٰی رَبُّه إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ یُّبْدِلَه أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ )

اگر بنی تمہیں طلاق دے دیں تو بعید نہیں کہ ان کا رب تمہارے بدلے انہیں تم سے بہتر بیویاں عطا فرمائے (بہتر بیویوں کی صفات) وہ عورتیں جو مسلمان مومنہ اطاعت گذار تو بہ کرنے والی عبات گذار رب پربھروسہ رکھنے والی ہوں(تحریم، ۵)

ارشاد رب العزت ہے :

( وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ وَالله عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ )

"عورتوں کو بھی دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق ہیں جو مردوں کو حاصل ہیں اللہ کی طرف سے مردوں کو عورتوں پر بر تری حاصل ہے اللہ بڑا غالب آنے والا حکمت والا ہے "(سورہ بقرہ : ۲۲۸ )

۷۳

گھر کی چار دیواری میں نظام عورت نے چلانا ہے مرد کا حق عورت اسکی اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم نہ رکھے کھانا پکا نا صفائی کرنا دوسرے گھر کے دوسرے کام کاج کرنا عورت کا تفضل ہے مہربانی ہے اچھائی ہے نہ کہ واجبات میں سے ہیں اس میں مرد عورت برابر کے انسان ہیں تیری تکمیل تیری نسل کی بقا کا دارو مدار عوت پر ہے تیرے گھرمیں تیری دعوت پر دوست کی حیثیت سے بیوی کی حیثیت سے شریک کار کی حیثیت سے آئی ہے نوکرانی نہیں کنیز نہیں اچھا برتاؤ کرو یاد رکھو مرد ناراض تو عورت جنت سے دور عورت کے حقوق اد ا نہیں ہوتے تو مرد جنت سے بے بہرہ رہے گا

نشوزہ( نافرمان) عورت

ایک ہی جگہ ایک ہی ہے گھر میں رہنے والے انسا ن آپس میں اختلاف بھی کرتے ہیں اورکبھی کبھی اختلاف لڑائی جھگڑے میں تبدیل ہو جاتے ہیں ہو سکتاہے عورت خیال کرے کہ مرد کی توجہ میری طرف نہیں مرد مجھ سے نفرت کر رہاہے ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ م بَعْلِهَا نُشُوْزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلاَجُنَاحَ عَلَیْهِمَا أَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَیْرٌ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ وَإِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ الله کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا )

اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کیطرف سے بے رخی کا اندیشہ ہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں کہ دونوں ( عورت و مردصلح کی خاطر اپنے کچھ حقوق سے صرف نظر کرکے) اور صلح کر لیں اور صلح توبہرہال بہتر ہی ہے اور بخل تو ہر نفس کے سامنے دھرا رہتاہے لیکن اگر تم نیکی کرو تقویٰ اختیار کرو تو اللہ تمہارے سارے اعمال سے یقینا خوب واقف ہے ( سورہ نساء ۱۲۸)

اختلاف کی بنیاد عام طو رپر ذات اور انا ہوتی ہے باہمی رفاقت کے لیے اگر اس سے صرف نظر کیا جائے تو مصالحت ہو جاتی ہے مصالحت کے ساتھ اکٹھے وقت گزارنا ہی اچھائی بردباری اور کامیابی کی علامت ہے عورت نافرمان ہوجائے تو اسکا طریقہ کار قرآن میں ارشا د ہے

۷۴

ارشاد رب العزت ہے:

( وَاللاَّتِیْ تَخَافُونَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًا إِنَّ الله کَانَ عَلِیًّا کَبِیرًا (۳۴) وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ أَهْلِه وَحَکَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِنْ یُّرِیْدَا إِصْلاَحًا یُّوَفِّقٰ الله بَیْنَهُمَا إِنَّ الله کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا )

"اور جن عورتوں کی سر کشی کا تمہیں خوف ہو تو انہیں نصیحت کرو اور اگر وہ باز نہ آئیں تو اپنی خوابگاہ سے الگ کردوپھر بھی نہ سمجھیں تو انہیں مارو پھر اگر وہ فرمانبرداربنا جائیں تو ان کے خلاف بہانہ تلاش نہ کرو یقینا اللہ بالا تر ااور بڑا ہے اور اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیاں ناچاقی کا اندیشہ ہو تو ایک منصف مرد کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو اور ایک منصف عورت کے رشتہ داروں میں مقرر کرو اور اگر وہ دونوں ان کے درمیان صلح کی کوشش کریں تو اللہ ان کے درمیان اتفاق پیدا کرے گا یقینا اللہ بڑا علم والا ہے اور باخبر "( سورہ نساء ۳۴ ۳۵)

کردار سازی عورت مرد کی اچھائی ،نیکی تقویٰ اور پرہیزگاری میں ہے عورت کے لئے کسی اور مردسے تعلق رکھنا بہت بڑا گناہ ہے اور اسی طرح مرد کے لئے بھی شرافت و دیانت مردو عورت کا زیور ہے عور ت مرد میں جب کردار کی خرابی پید اہو جائے وہ بدکردار ہو جائیں تو اسلام نے اس غلط کا م کی بیخ کنی کیلیے سخت سزا معین کی ہے ارشاد رب العزت ہے:

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ إِذَا جَائَکَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰی أَنْ لَّایُشْرِکْنَ بِالله شَیْئًا وَّلَایَسْرِقْنَ وَلَایَزْنِیْنَ )

"اے نبی! جب مومنہ عورتیں اس بات پر آپ سے بیعت کرنے آپ کے پاس آئیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کا ارتکا ب کریں گیں تو( آپ بیعت لے لیں "(سورہ ممتحنہ آیت ۱۲)

ارشادِ رب العزت ہے :

( وَلَاتَقْرَبُوْا الزِّنٰیْ إِنَّه کَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِیلًا )

اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ یقینا یہ بڑ ی بے حیائی ہے اور بہت برا راستہ ہے(سورہ اسرائیل : ۳۲)

۷۵

ارشاد رب العزت ہے:

( اَلزَّانِیَةُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَّلاَتَأْخُذْکُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِیْ دِیْنِ الله إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِالله وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنْ الْمُؤْمِنِیْنَ )

زنا کار مرد اور عورت دونوں کو ایک سو کوڑے مارو اور دین خدا کے معاملہ میں تم کو ان پر ترس نہ آنا چاہیے اگرتم اللہ او ر روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور انکی سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت موجود رہے (سورہ نور: ۲)

زنا کی سزا سخت ہے لیکن زنا ثابت نہ ہونے پر تہمت کی سزا بھی بہت زیادہ ہے ارشاد رب العزت ہے:

( وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوْا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَةً وَّلَاتَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولٰئِکَ هُمُ الْفَاسِقُوْنَ إِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَأَصْلَحُوْا فَإِنَّ الله غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ )

"اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں پھر اس پر چار گواہ نہ لائیں تو انہیں اسی( ۸۰) کوڑے مارے جائیں اور انکی گواہی (پھرکبھی )ہر گز قبول نہ کرو اور یہی فاسق لوگ ہیں سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اس صور ت میں اللہ بڑا معاف کرنے والا رحم کرنے والاہے " (سورہ نور ۴۵)

ارشاد رب العزت ہے :

( اَلزَّانِیْ لاَیَنْکِحُ إلاَّ زَانِیَةً أَوْ مُشْرِکَةً وَّالزَّانِیَةُ لَایَنْکِحُهَا إِلاَّ زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ )

زانی مرد صرف زانی یامشرکہ سے نکاح کرے گا اور زانیہ صرف زانی یا مشرک سے نکاح کرے گی اور یہ کام مومنوں پر حرام کیا گیا ہے (سورہ نور : ۳)

زنا بہت ہی گھناونی برائی ہے زنا نسل کی خرابی زنا سے برکت کا اٹھ جانا زنا بارانِ رحمت کا انقطاع ایسے خاندان میں نکاح نہ ہو جن کی شرافت مسلم نہیں ، ایسے نکاح بدکاروں کو ہی راس آتے ہیں شرفاء کو چاہیے کہ شریف گھرانہ تلاش کریں اگرچہ وہاں افلاس نے سایہ ڈال رکھا ہو لیکن بدکاروں سے نکاح و ارتباط نہ کریں

۷۶

عورت کے احکام

حیض فطرت کے مطابق ہر عورت کے لیے مخصوص ایام ہوتے ہیں جن میں وہ خون دیکھتی ہے خون کی تین صورتیں ہیں حیض استحاضہ نفاس حیض سرخ رنگ سیاہی مائل تیزی جلن اور حرارت رکھتا ہے جس کی مد ت کم از کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے(حسب العادت عموماً ۶۷ دن ہوتا ہے جوعورت کے مزاج پر موقوف ہے استحاضہ عام پور زرد رنگ پتلاٹھنڈا اور دباؤ جلن سوزش کے بغیر باہر آتاہے اس کی مقدار و مدت معین نہیں ہے نفاس وقت زچگی خون کا آنا، یہ ایک منٹ کے لیے بھی ہو سکتاہے اس کی زیادہ سے زیادہ مدت دس دن اور عام طور پر حیض کی عادت کے مطابق ہوتا ہے ارشاد رب العزت ہے:

( وَیَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ هُوَ أَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِی الْمَحِیْضِ وَلَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰی یَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ الله إِنَّ الله یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ )

"وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجے یہ ایک گندگی ہے پس حیض کے دنوں میں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور وہ جب تک پاک نہ جائیں ان کے قریب نہ جاؤ پس جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس اس طریقہ سے جاؤ کہ جس طرح تمہیں اللہ نے حکم دیاہے بے شک اللہ توبہ کرنے والوں ہے اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتاہے "( سورہ بقرہ : ۲۲۲)

ارشاد رب العزت ہے:

( نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَأْتُوْا حَرْثَکُمْ أَنّٰی شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِکُمْ وَاتَّقُوا الله وَاعْلَمُوْا أَنَّکُمْ مُلَا قُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ )

"تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں پس اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاونیز اپنے لئے نیک اعمال کو اگے بھیجو اور اللہ کے عذا ب سے بچو اور یاد رکھو تمہیں ایک دن اسکی بارگاہ میں جانا ہے اور اے رسول ایمانداروں کو(نجات کی) بشارت سنا دو " (سورہ بقرہ ۲۲۳)

۷۷

اللہ نے عورت اور مرد کے درمیان کھیت اور کسان کا تعلق قراردیا ہے کسان کھیت میں تفریح سیر سیاحت کے لیے نہیں جاتا بلکہ اس لیے جاتاہے کہ پیدا وار حاصل کر ے نسل انسانی کے کسان کو انسانیت کی اس کھیتی میں نسل کیلیے جانا ہے نیز سابقہ آیت میں فرمان ہے کہفأتو هن من حیث امرکم الله ان کے پاس اس طرح جاو جسں طرح اللہ نے حکم دیاہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتاہے کہ دبر میں وطی جائز نہیں اس سے اجتناب کیا جائےقدموا لاانفسکم وہ نسل چھوڑ جائیے جو آپکی آخرت کے لیے کام آئے وہ تربیت یافتہ ہو تاکہ آپ کو یادرکھے ایلا ء میاں بیوی کے درمیان جدائی کے سلسلہ میں ایلاء وہ رسم ہے جو زمانہ جاہلیت میں عام تھی ایلا کا مفہوم میاں بیوی والے تعلقات ترک کرنے کی قسم کھانا ہےجو انسان (میاں) اپنی بیوی سے ناراض ہوتا تو قسم کھا لیتا کہ میں جماع نہیں کروں گا وہ اپنی بیوی کو اپنے اس غیر انسا نی سلوک سے ایک شدید عذاب میں مبتلا کر دیتا ،نہ رسمی طور پر طلاق دیتاہے نہ ہی اس کے قریب بھٹکتاہے ارشاد رب العزت ہے:

( وَلَا تَجْعَلُوا الله عُرْضَةً لِّأَیْمَانِکُمْ أَنْ تَبَرُّوْا وَتَتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ وَالله سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ لاَ یُؤَاخِذُکُمْ الله بِاللَّغْوِ فِیْ أَیْمَانِکُمْ وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ وَالله غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَائُوْا فَإِنَّ الله غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ )

اور اللہ کو اپنی ان قسموں کا نشانہ مت بناؤ جن سے نیکی کرنے تقویٰ اختیارکرنے او رلوگوں میں صلح و آشتی سے باز رہنا مقصود ہو اور اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے اللہ ان قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرتا جو تم بے توجہی سے کھاتے ہوہاں جو قسمیں سچے دل سے کھاتے ہو ان کا مواخذہ ہو گا اورا للہ خوب در گذ ر کرنے والابردبار ہے جولوگ اپنی عورتوں سے الگ رہنے کی قسم کھاتے ہیں ان کے لیے چار ما ہ کی مدت ہے اور اوراگر(اس دوران) رجوع کریں تو اللہ یقینا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ( سورہ بقرہ ۲ - ۲۴۲۲۵۲۲۶)

ایسے شخص کو چار ماہ کی مدت دی جائے گی قسم توڑلے اور تعلق قائم کرلے یا طلاق دے ڈالے ،تعلق روابط پیدا کرنے کی صورت میں کفارہ لازم ہے جو کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلا نا یا دس مسکینوں کو لباس دینا ہے

۷۸

ظہار

شوہر بیوی سے کہے انت علیّ کظہر امی تم میری ماں جیسی ہو یااس طرح کا کوئی لفظ جس میں بیوی کو ماں جیسا قرار دے زمانہ جاہلیت میں یہ طلاق تھی اسلام نے اس کا کفارہ معین کیا ہے ارشادِ رب العزت ہے:

( قَدْ سَمِعَ الله قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِهَا وَتَشْتَکِیْ إِلَی الله وَالله یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا إِنَّ الله سَمِیْعٌ م بَصِیْرٌ الَّذِیْنَ یُظَاهِرُوْنَ مِنْکُمْ مِّنْ نِّسَائِهِمْ مَّا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلاَّ اللاَّئِیْ وَلَدْنَهُمْ وَإِنَّهُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْکَرًا مِّنْ الْقَوْلِ وَزُوْرًا وَإِنَّ الله لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ وَالَّذِیْنَ یُظَاهِرُوْنَ مِنْ نِّسَائِهِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ أَنْ یَّتَمَاسَّا ذٰلِکُمْ تُوْعَظُونَ بِه وَالله بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَتَمَاسَّا فَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِالله وَرَسُوْلِهِ وَتِلْکَ حُدُوْدُ الله وَلِلْکَافِرِیْنَ عَذَابٌ أَلِیْمٌ )

"اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار اوراللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی اوراللہ آپ دونوں میں گفتگو سن رہا تھا اللہ یقینا بڑا سننے والا دیکھنے والاہے تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں (انہیں ماں کہہ دیتے ہیں )وہ ان کی مائیں نہیں انکی مائیں تو صرف وہی ہے جنہوں نے انہیں جناہے اور بلا شبہ یہ لوگ نا پسندیدہ باتیں کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں اورا للہ یقینا بڑا در گذر کرنے والا مغفرت کرنے والاہے اور جولوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں پھر اپنے قول سے ہٹ جائیں تو انہیں باہمی مقاربت سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا چاہیے اس طرح تمہیں نصیحت کی جاتی ہے جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب باخبرہے پس جسے غلام نہ ملے وہ باہمی مقاربت سے پہلے متواتر دو ماہ کے روزے رکھے اور جو ایسا بھی نہ کر سکے وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا ئے یہ اس لیے ہے کہ تم اللہ اور اسکے رسول پر ایمان رکھویہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں اور کفار کیلئے درد ناک عذاب ہے"( سورہ مجادلہ ۱۴)

۷۹

ولادت و رضاعت

بعد از شادی جو بچہ متولد ہووہ انہی ماں باپ کا ہو گا خدانخواستہ زناکاشائبہ ہو تب بھی بچہ باپ کا ہی سمجھاجائے گا ان امھاتھم الّا لای ولدنھمان کی مائیں وہی ہیں جنہوں نے انہیں جنا ہے اور باپ وہی ہے جو شوہر ہےالولد للفراش ولد ماهر الحجر بچہ شوہر کاہوتا ہے زانی کے لئے پتھراو کی سزا ہے استقرار نطفہ کے بعد سقط کرانا ناجائز او ر حرام ہےسقط کرانا قتل سمجھا جائے گا ارشاد رب العزت ہے:

( وَلَا تَقْتُلُوْا أَوْلَادَکُمْ خَشْیَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِیَّاکُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ کَانَ خِطْئًا کَبِیْرًا )

"او رتم اپنی اولاد کو تنگ دستی کے خوف سے قتل نہ کرو ہم انہیں رزق دیں گے او رتم کو بھی ان کا قتل یقینا بہت بڑا گناہ ہے " ( سورہ بنی اسرائیل: ۳۱)

عورت بیما رہو معاملہ دائر ہو بچہ بچ جائے یا بچے کی ماں سقط نہ کرانے کی صورت میں ماں کی زندگی کو خطرہ ہے توسقط میں حرج نہیں ارشاد رب العزت ہے

( لَاتُضَارَّ وَالِدَةٌ م بِوَلَدِهَا وَلَامَوْلُوْدٌ لَّه بِوَلَدِه )

ماں کو بچہ کی وجہ سے تکلیف میں نہ ڈالا جائے او ر نہ باپ کو اس بچہ کی وجہ سے ضرر پہنچایا جائے ( سورہ بقرہ : ۲۳۳)

خرچ اخراجات کے معاملہ میں بھی او رزندگی کے معاملہ میں بھی شادی کے چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہو توباپ ہی کا ہو گا کسی او ر کا نہیں ! ارشادِ رب العزت ہے :

( وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّه کُرْهًا وَّوَضَعَتْهُ کُرْهًا وَحَمْلُه وَفِصَالُه ثَلاَثُوْنَ شَهْرًا )

"ہم نے انسان کو اپنے ما ں باپ پر احسان کرنے کا حکم دیا اسکی ما ں نے تکلیف سہ کراسے پیٹ میں اٹھائے رکھا او رتکلیف اٹھا کر اسے جنا اور اسکے حمل او ردودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگ جاتے ہیں دودھ پلانا دوسال حمل چھ ماہ ہو جائیں گے ۳۰ ماہ رضاعت دودھ پلائے"( سورہ احقاف : ۱۵)

۸۰