قرآن اور عورت

قرآن اور عورت0%

قرآن اور عورت مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 97

قرآن اور عورت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حافظ ریاض حسین نجفی
زمرہ جات: صفحے: 97
مشاہدے: 47437
ڈاؤنلوڈ: 5020

تبصرے:

قرآن اور عورت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 97 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 47437 / ڈاؤنلوڈ: 5020
سائز سائز سائز
قرآن اور عورت

قرآن اور عورت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بچہ کا حق ہے کہ اسے دو سال دودھ پلایا جائے ارشاد رب العزت ہے :

( وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَه رِزْقُهُنَّ وَکِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ لاَتُکَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَهَا لَاتُضَارَّ وَالِدَةٌم بِوَلَدِهَا وَلَامَوْلُودٌ لَه بِوَلَدِه وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْهِمَا وَإِنْ أَرَدْتُّمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوْا أَوْلَادَکُمْ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَّا آتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَاتَّقُوا الله وَاعْلَمُوْا أَنَّ الله بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ )

"او رمائیں اپنے بچوں کو پو رے دوسال دودھ پلائیں ( یہ حکم )ان لوگوں کے لئے ہے جو پوری مدت دودھ پلوانا چاہتے ہیں او ر بچے والے کے ذمے دودھ پلانے والی ماؤں کی روٹی کپڑا معمول کے مطابق ہو گا کسی پر اسکی گنجائش سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے نہ ماں کو بچہ کی وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے او رنہ باپ کو اس بچہ کی وجہ سے کوئی ضرر پہنچایا جائے اور اس طرح کی ذمہ داری وارث پر بھی ہے پھر اگر طرفین باہمی رضا مندی او رمشورے سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں " نیز "اگر تم اپنی اولاد کو ( کسی اور سے ) دودھ پلوانا چاہوتوتم پر کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ تم عورتوں کو معمول کے مطابق طے شدہ معاوضہ ادا کرو او راللہ کا خوف کرواو رجان لو کہ تمہارے اعمال پر اللہ کی خوب نظر ہے "( سورہ بقرہ : ۲۳۳)

کسی عورت سے دودھ پلوایا جائے تووہ رضا عی ماں کہلوائے گی ارشادِ رب العزت ہے:

( وَأُمَّهَاتُکُمُ اللاَّ تِیْ أَرْضَعْنَکُمْ وَأَخْوَاتُکُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ )

او روہ مائیں جو تمہیں دودھ پلوا چکی ہیں اور تمہاری دودھ شریک بہنیں ( سورہ نساء : ۲۳)

رضاعی ماں ، ماں ہے اور رضاعت کا سلسلہ خاندان میں جاری رہے گا دودھ پلانے کے لیے اجرت بھی دینی چاہیے ارشاد رب العزت ہے :

( فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَکُمْ فَآتُوْهُنَّ أُجُوْرَهُنَّ )

اگر وہ تمہارے کہنے پردودھ پلائیں تو انہیں اس کی اجرت دے دیا کرو (سورہ طلاق : ۶)

۸۱

خواہ چپقلش کے بعد ما ں دودھ پلا رہی ہو او راجرت کی طلبگا رہو یا او رکو ئی عورت دودھ پلا نے والی ہو ماں کی طرح دودھ پلانے والی بھی (رضاعی ) ماں کہلائے گی

لعان

میاں بیوی کے درمیان ایک خاص مباہلہ کو لعان کہتے ہیں جس کا اثر یہ ہے کہ شرعی حد سے بچاؤ ہوجاتا ہے او ربچے کی نفی ہوجاتی ہے مرد اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ مقاربت کرتے دیکھتاہے اور کہتا ہے عورت نے بد کاری کی ہے گواہ پیش نہیں کرتا عورت انکاری ہے نیز مرد یہ کہتا ہے بچہ میرا نہیں عورت مدعی ہے کہ بچہ اسکا ہے اللہ نے اسکا حل لعان کی صورت میں پیش کیا مرد اپنا بیان چار دفعہ دہرائے چار دفعہ گواہی دے پانچویں دفعہ جھوٹے ہونے میں اپنے اوپر اللہ کی لعنت کا تذکرہ کرے یہی کام عورت کرے حد جاری نہیں ہو گی او ربچہ کی بھی نفی ہو جائے گی ارشاد رب العزت ہے :

( وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَّهُمْ شُهَدَاءُ إِلاَّ أَنفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍم بِالله إِنَّه لَمِنَ الصَّادِقِیْنَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ الله عَلَیْهِ إِنْ کَانَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ وَیَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍم بِالله إِنَّه لَمِنَ الْکَاذِبِیْنَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ الله عَلَیْهَا إِنْ کَانَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ وَلَوْلَافَضْلُ الله عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُه وَأَنَّ الله تَوَّابٌ حَکِیْمٌ )

"او رجو لوگ اپنی بیو یو ں پرزنا کی تہمت لگا ئیں او ر انکے پا س خود ان کے سوا کو ئی گواہ نہ ہو تو انمیں سے ایک شخص یہ شہادت دے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ سچا ہے او رپانچویں بار کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو او رعورت سے سزا اس صور ت میں ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ یہ شخص جھوٹا ہے او رپانچویں مرتبہ کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب ہو اگر وہ سچا ہے او راگرتم پراللہ کا فضل ا ور اسکی رحمت نہ ہوتی( توتمہیں اس کی خلاصی نہ ملتی )او ر یہ کہ اللہ بڑا توبہ کو قبول کرنے والا اور حکمت والا ہے "( سورہ نور : ۶ تا ۹)

صیغہ طلاق کے بغیر عورت مرد کا باہمی رابطہ ختم او ربچہ کی مرد سے نفی ہو جائے گی دونوں سے حد ٹل جائے گی یعنی مرد سے حد قذف (تہمت ) ۸۰ کوڑے او رعورت سے حد زنا ۱۰۰ کوڑے ٹل جائیں گے

۸۲

طلاق

طلاق امر شرعی ہے لیکن اللہ وصل کو پسند کرتا ہے فصل کو نہیں ملاپ کو پسندکرتاہے انقطاع کو نہیں مل جل کر رہنے اتحاد و اتفاق کے ساتھ زندگی گزارنے کو پسندیدہ قرار دیا ہے جدائی، تفریق بچوں کی پریشانی خاندان میں باہمی عداوت کا موجب طلاق بارگاہ خداوندی میں نا پسندیدہ ہے لیکن اگر کو ئی صور ت وصل کی نہیں تو پھر حکم ہے کہ اچھے انداز سے اچھے طریقے سے لڑائی جھگڑا کئے بغیر جدا ہو جانا چاہیے جدا ہونے کا نام طلاق طلاق مقاربت سے پہلے ارشاد رب العزت ہے:

( لاَجُنَاحَ عَلَیْکُمُ إِنْ طَلَّقْتُمْ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوْا لَهُنَّ فَرِیْضَةً وَّمَتِّعُوْهُنَّ عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُه وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُه مَتَاعًام بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ وَإِنْ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِیْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلاَّ أَنْ یَعْفُوْنَ أَوْ یَعْفُوَ الَّذِیْ بِیَدِه عُقْدَةُ النِّکَاحِ وَأَنْ تَعْفُوْا أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَلَاتَنْسَوْا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ إِنَّ الله بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ )

"اس میں کو ئی مضائقہ نہیں کہ تم عورتو ں کو ہاتھ لگانے او ر مہر معین کرنے سے پہلے طلاق دے دواس صورت میں انہیں کچھ دے کررخصت کرو مالدار اپنی وسعت کے مطابق او رغریب آدمی اپنی حیثیت کے پیش نظردستور کے مطابق دے یہ نیکی کرنے والوں پر حق ہے او راگر تم عورتوں کو ہاتھ لگانے سے قبل اور ان کے لیے مہر معین کر چکنے کے بعد طلاق دے دو تو اس صورت میں تمہیں اپنے مقرر کردہ مہر کا نصف اد ا کرنا ہو گا مگر یہ کہ وہ اپنا حق چھوڑ دیں یا جس کے ہاتھ میں عقد کی گرہ ہے وہ حق چھوڑ دے اور تمہارا اس مال چھوڑ دینا تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے اور تم آپس کی فضیلت کو نہ بھولو یقینا تمہارے اعمال پر اللہ کی خوب نگا ہ ہے "( سورہ بقرہ : ۲۳۶۲۳۷)

۸۳

عورت غیر مدخولہ ( یعنی مقاربت نہ کی گئی ) کو طلاق دینے کی صورت میں نصف حق مہر دینا ہو گا طلاق مقاربت کے بعد ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِکُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَلَا تُمْسِکُوْهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَه وَلَاتَتَّخِذُوْا آیَاتِ الله هُزُوًا وَّاذْکُرُوا نِعْمَةَ الله عَلَیْکُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنُ الْکِتَابِ وَالْحِکْمَةِ یَعِظُکُمْ بِه وَاتَّقُوا الله وَاعْلَمُوْا أَنَّ الله بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ )

"او رجب تم اپنی عورتوں کو طلا ق دے دواو روہ عدت کے آخری دنوں میں پہنچ جائیں تو انہیں یا تو شائستہ طریقے سے اپنے نکاح میں رکھو ( رجوع کرلو ) یا شائستہ طور پر رخصت کردو او رصرف ستانے کی خاطر زیادتی کرنے کے لیے انہیں روکے نہ رکھو او رجوایسا کرے گا وہ اپنے اوپر ظلم کرے گا او رتم اللہ کی آیا ت کا مذاق نہ اڑاؤاو راللہ نے جونعمت تمہیں عطا کی ہے اسے یادرکھو او ر( یہ بھی یاد رکھو )کہ تمہاری نصیحت کے لیے اس نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے او راللہ سے ڈرو او ریہ جان لو کہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے "( سورہ بقرہ : ۲۳۱)

طلا ق دینے والے کیلئے ضروری ہے کہ وہ بالغ عاقل بااختیار ہو اپنی مرضی سے طلاق دے مجبورشدہ شخص سے طلاق واقع نہیں ہوتی عورت ایام حیض میں نہ ہو دو عادل گواہ طلاق کے وقت موجود ہو ں عادل جن کے گنا ہ وبرابی کا کسی کوعلم نہ ہو اور عمومی شہرت اچھی ہو پھر صیغہ طلاق پڑھا جائے ان شرائط میں سے کوئی ایک مفقود ہو جائے تو طلاق واقع نہیں ہو گی

تین طلاقیں

ایک ہی نشست میں ایک ہی طلاق ہوتی ہے خواہ صیغہ جس قدر تعداد میں پڑھا جائے جیسے نکاح کے صیغے بار بارپڑھنے سے نکاح ایک ہی ہوتاہے

۸۴

ارشاد رب العزت ہے:

( اَلطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَایَحِلُّ لَکُمْ أَنْ تَأْخُذُوْا مِمَّا آتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا إِلاَّ أَنْ یَخَافَا أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ الله فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ الله فَلاَجُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِه تِلْکَ حُدُوْدُ الله فَلَا تَعْتَدُوْهَا وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ الله فَأُوْلٰئِکَ هُمْ الظَّالِمُوْنَ )

"طلاق دو بار ہے یا تو پھر شائستہ طور پر عورتوں کو اپنی زوجیت میں رکھ لیا جائے یا اچھے پیرائے میں انہیں رخصت کر دیا جائے اور یہ جائز نہیں کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ لے لو مگر یہ کہ زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود قائم نہیں رکھ سکیں گے پس اگر تمہیں خوف ہو کہ زوجین اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو (اس مال میں) کوئی مضائقہ نہیں جو عورت بطور معاوضہ دے (کر خلع کرائے)یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں سو ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدودالٰہی سے تجاوز کرتے ہیں پس وہی ظالم ہیں "( سورہ بقرہ : ۲- ۲۹)

جب کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتاہے تین ماہ گذر گئے عورت جداہو گئی اب وہ پھر نکاح کر سکتاہے (یہ ہے ایک طلاق) اختلاف ہو اطلاق کی نوبت آگئی طلاق دیدی تین ماہ گذر گئے اب پھر نکاح کر سکتاہے (یہ ہیں دو طلاقیں )اب اگر پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ طلاق دے اور طلاق کے بعد تین ماہ گذر گئے اب اس کو پھر نکاح کرنے کا حق نہیں ہے مگر حلالہ کے بعد ارشاد رب العزت ہے :

( فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَه مِنْ م بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَه فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا أَنْ یَّتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ یُقِیْمَا حُدُوْدَ الله وَتِلْکَ حُدُودُ الله یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ )

"اگر( تیسری بار) طلاق ہوگئی تو یہ عورت اس مرد کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہوگی جب تک کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے ہاں پھر اگر دوسرا شوہر اسے طلاق دے( اپنی مرضی اور اختیار سے) اور وہ عورت و مرد دونوں ایک دوسرے کی طرف رجوع کریں تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ انہیں امید ہو کہ وہ حدود الہی کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ ہیں اللہ کی مقررکردہ حدود جنہیں اللہ دانشمندوں کے لیے بیان کرتا ہے"(سورہ بقرہ : ۲۳۰)

۸۵

مفتی اعظم شیخ محمود شلتوت رئیس جامعہ ازہر نے بھی اسی مسلک کو قبو ل کیاہے فرمایامیں ہے ایک عرصہ مشرق کے کالج میں مذاہب کی تحقیق میں لگا رہا اور انکے درمیان موازنہ و مقابلہ میں مصروف رہاکئی مرتبہ ایسا ہوتا کہ میں کئی مسائل میں مختلف مذاہب کے آرا ء و نظریا ت کی طرف رجوع کرتا بہت سے مقامات پر میں نے شیعہ مذہب کے استدلالات کو محکم اور استوار دیکھا تو ان کے سامنے جھکا او ر میں نے ان میں اے اہل اسلام غور و فکر کرو کہ شیعہ نظریہ کو انتخاب کر لیا ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے ڈالی جاتی ہیں جیسا کہ آجکل جہلا کا عام طریقہ ہے تو یہ شریعت کی رو سے سخت گنا ہ ہے مولانا مودودی تعلیم اتورن ملت مسلمہ فکر کرو عورت مرد کے ما بین اختلاف ہو ہی جاتا ہے غصہ میں آکر زبانی یا تحریر ی طور پر طلاق طلاق طلاق کہہ دینے سے وہ مکمل جدا پھر حلالہ یعنی کسی اور سے شادی اورجماع لاحول و لاقوة الا باللّٰه تو کوئی کسی کو پکڑ لیتاہے ڈرا دھمکا کر طلاق لے لیتا ہے تو عورت جدا اور پھر حلالہ یہ قول خلاف عقل ہے خلاف فرمان رسول ہے خدا ہمیں ان مفاسد سے بچا ئے طلاق وقت گزرنے کے بعد نکاح طلاق اول طلاق وقت گزرنے کے بعد نکاح طلاق دوم طلاق وقت گرنے کے بعد نکاح طلاق سوم اب پھر اجازت نہیںاب کہ حلالہ ہو گا لیکن کیا کبھی اس کی نوبت آسکتی ہے ہم نے تو تاریخ میں اس طرح کا واقعہ نہ پڑھا نہ دیکھا لہٰذا اس قول سے انسان حلالہ سے مستقلًا چھٹکارا پا لیتا ہے بلکہ اللہ کی طرف سے بہت بڑی دھمکی ہے کہ اگر سلسلہ طلاق کا اس طرح جا رہا اور تیسری دفعہ پھر طلاق دی تو پھر تیری بیوی کو کسی اور مرد سے مجامعت کرنا ہوگی تب توشادی کر سکے گا کیایہ تیری غیرت کو قبول ہے؟ انسان کہے گا ہر گز نہیں! لہٰذا طلاق کا اس طرح کا سلسلہ ہی نہیں ہو گا

عدّت

عدت طلاق : بعد از نکاح مقاربت سے پہلے اگر طلاق دی جائے توعدت نہیں ہوگی ارشاد رب العزت ہے:

( یَاأَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِذَا نَکَحْتُمْ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا فَمَتِّعُوْهُنَّ وَسَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا )

"اے مومنو! جب تم مومنات سے نکاح کرو اور پھر ہاتھ لگانے سے پہلے انہیں طلاق دے دو تو تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ انہیں عدت میں بٹھاؤ لہذا انہیں کچھ مال دو اورشائستہ انداز میں انہیں رخصت کرو "

۸۶

عدت در حقیقت نسل انسانی کی محافظت ہے کہ اگرحمل ہے تو تین ماہ میں واضح ہو جائے گا نیز عورت مرد جنہوں نے کئی سال باہمی انس و محبت کے ساتھ گذارے ہیں انہیں پھر موقع مہیا کرنا ہے کہ تین ماہ میں جب چاہیں مل بیٹھیں اور پھر اکٹھا رہنے کا فیصلہ کریں کیونکہ طلاق جائز ہونے کے باجود ایسا جائز امرہے کہ جس سے عرش الٰہی کانپ جاتا ہے ارشاد رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہےتزوجو ا ولا تطلقوا فان الطلاق یهتزمنه العرش ( وسائل الشیعہ باب طلاق ص ۲۶۸) نکاح کرو طلاق نہ دینا کہ طلاق دینے سے عرش الٰہی کانپ اٹھتا ہے پھر طلاق ساری زندگی موجب پریشانی رہے گی کیوں ؟

۱: میاں بیوی کا اس قدرباہمی وقت گزارنا یا دسے محونہیں ہو گا گزرے ہوئے لمحات ذہن میں گردش کرتے رہیں گے

۲: عورت کے لئے بعض اوقات دوسری شادی کرنا مشکل بعض اوقات آئیڈیل نہیں ملتا یہی حال مرد کا ہوگا پھر خاندانی معاملات میں طلاق زہر والاکا م کرتی ہے صرف یہ دونوں نہیں پورا خاندان یا دونوں خاندان پریشانی میں مبتلا ر ہیں گے

۳: سب سے بڑی مشکل یہ کہ بچے کہاں جائیں گے باپ کے پاس یا ماں کے پاس اگرچہ اللہ نے معین کر دیا ہے پہلے ماں کے پاس پھر ۳ سال کا لڑکا ۷ سال کی لڑکی باپ کی حفاظت میں رہیں گے ظاہرہے جس کے پاس ہوں گے ماں یا باپ میں سے دوسرے کی کمی ستاتی رہے گی لہٰذا اپنے لیے نہیں تو کم از کم اولاد کی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر طرف سے طعن و تشیع کے تیر چلیں گے یہ بے چارے دبے سمے ہی رہیں گے طلاق سے اجتناب کرنا چاہیے اللہ وصل چاہتاہے فصل نہیں

طلاق کی شرائط

عورت ماہانہ عادت میں نہ ہو انہی دنوں شوہر سے اختلاط نہ ہوہوا دو گواہ عادل جن کا کوئی عیب نظر میں نہ ہوان کی موجودگی لازمی ہے باقاعدہ صیغہ جاری کیا جائے پھر بعد طلاق عدت کے ایام کا حساب مرد نے رکھنا ہے تاکہ طلاق کا احساس رہے ہو سکتا ہے پلٹ آئے رجوع کرے یا عورت اسی گھر میں رہنا چاہے

۸۷

عورت کے ا خراجات ادا کرنے ہوں گے اپنی حیثیت کے مطابق عام عدت ۳ ماہ حاملہ کی عدت وضع حمل ارشاد رب العزت ہے:( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا الله رَبَّکُمْ لَاتُخْرِجُوْهُنَّ مِنْ م بُیُوْتِهِنَّ وَلَایَخْرُجْنَ إِلاَّ أَنْ یَّأْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ وَتِلْکَ حُدُوْدُ الله وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ الله فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَه لَاتَدْرِیْ لَعَلَّ الله یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ أَمْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِکُوْهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّأَشْهِدُوْا ذَوَی عَدْلٍ مِّنْکُمْ وَأَقِیْمُوْا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ ذٰلِکُمْ یُوعَظُ بِه مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِالله وَالْیَوْمِ الْآخِرِ )

"اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لیے طلاق دے دیا کرو اور عدت کا شمار رکھو اور اپنے رب سے ڈرو تم انہیں (عدت کے دنوں)ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ ہی وہ عورتیں خود نکل جائیں مگر یہ کہ وہ کسی نمایاں برائی کا ارتکاب کریں اوریہ اللہ کی حدود ہیں اور جس نے اللہ کی حدود سے تجاوز کیا تواپنے نفس پر ظلم کیا تجھے کیامعلوم اس کے بعد اللہ کوئی صورت پیدا کرے پھر جب عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کو آئیں تو انہیں اچھی طرح سے اپنے عقد میں رکھو یا انہیں اچھے طریقے سے علیحدہ کردو اور اپنوں میں سے دو صاحبان عدل کو گواہ بناو اور اللہ کی خاطر درست گواہی دو یہ وہ باتیں ہیں جن کی تمہیں نصیحت کیجاتی ہے ہر اس شخص کیلئے جو اللہ اورروز آخرت پر ایمان رکھتاہو" ارشاد رب العزت ہے:

( وَاللاَّ ئِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِسَائِکُمْ إِنْ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلاَ ثَةُ أَشْهُرٍ وَّاللاَّ ئِیْ لَمْ یَحِضْنَ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَنْ یَّتَّقِ الله یَجْعَلْ لَّه مِنْ أَمْرِه یُسْرًا )

"تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے ناامید ہو گئی ہوں ان کے بارے میں اگر تمہیں شک ہو جائے (کہ خون کا بند ہونا سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے یا کسی اور عارضہ کی وجہ سے ہے) تو ان کی عدت تین ماہ ہوگی اور یہی حکم ان عورتوں کے لیے ہے جنہیں حیض نہ آیا ہو اورحاملہ عورتوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے اور جو اللہ سے تو ڈرتاہے وہ اس کے معاملے میں آسانی پید ا کردیتا ہے"

۸۸

ارشاد رب العزت ہے:

( ذٰلِکَ أَمْرُ الله أَنزَلَه إِلَیْکُمْ وَمَنْ یَّتَّقِ الله یُکَفِّرْ عَنْهُ سَیِّئَاتِه وَیُعْظِمْ لَه أَجْرًا أَسْکِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِکُمْ وَلَاتُضَارُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّ وَإِنْ کُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوْا عَلَیْهِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَکُمْ فَآتُوْهُنَّ أُجُوْرَهُنَّ وَأْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوْفٍ وَإِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَه أُخْرٰی لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِه وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْهِ رِزْقُهُ فَلْیُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ الله لاَیُکَلِّفُ الله نَفْسًا إِلاَّ مَا آتَاهَا سَیَجْعَلُ الله بَعْدَ عُسْرٍ یُسْرًا )

"یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے اور جوا للہ سے ڈرے گا اللہ اسکی برائیاں دور کردے گا اور ا س کے لیے اجر کو بڑھا دے گا ان عورتوں کو( زمانہ عدت میں)بقدر امکان وہاں سکونت دو جہاں تم خو د رہتے ہو اور انہیں تنگ کرنے کے لیے تکلیف نہ پہنچاؤ اگر وہ حاملہ ہوں تو انکو زمانہ وضع حمل تک خرچہ دو پھر اگر وہ تمہارے کہنے پر دودھ پلائیں تو انہیں (اس کی) اجر ت دو اور احسن طریقہ سے باہم مشورہ کر لیا کرو (اور اجرت طے کرنے میں) اگر تمہیں آپس میں دشواری پیش آئے تو ماں کی جگہ اور کوئی عورت دودھ پلائے گی وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق خرچہ کرے اور جس پر اس کے رزق کی تنگی کی گئی ہو اسے چاہیے کہ جتنا اللہ نے اسے د ے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرے اللہ نے جس کوجتنا دیا ہے اس سے زیادہ مکلف نہیں بناتا جنت تنگدستی کے بعد عنقریب اللہ آسانی پیدا کرے گا "( سورہ طلاق: ۵،۷)

ارشاد رب العزت ہے:

( وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَا ثَةَ قُرُوْءٍ وَلَایَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ الله فِیْ أَرْحَامِهِنَّ إِنْ کُنَّ یُؤْمِنَّ بِالله وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَبُعُوْلَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِکَ إِنْ أَرَادُوْا إِصْلَاحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ وَالله عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ )

"اور طلاق یافتہ عورتیں (تین مرتبہ ماہواری سے پاک ہونے تک )انتظار کریں اور اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر یقین رکھتی ہیں تو ان کے لیے جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ رکھا ہے اسے چھپائیں ان کے شوہر اصلاح و سازگاری کے خواہاں ہیں تو عدت کے دنوں میں انہیں اپنی زوجیت میں واپس لینے کے پورے حق دار ہیں

۸۹

اور عورتوں کو بھی دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں البتہ مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے اورا للہ بڑا غالب آنے والا حکمت والا ہے "( سورہ بقرہ: ۲،۲۸)

گویا بعد از طلاق عدت کے ایام میں مرد کو رجوع کا حق حاصل ہے لیکن رجوع سے مقصد اصلاح ہو باہمی اکٹھا رہنا ہو یہ خیال رہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کے بھی حقوق ہیں ان کے حقوق کا خیال رکھا جائے

عدت وفات

جیسے طلاق کے بعد عدت کی ضرورت ہے اسی طرح اگر شوہر فوت ہو جائے تو بھی اسلام نے عدت کا حکم دیا ہے ارشاد رب العزت ہے:

( وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَّعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِی أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَالله بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ )

"اور تم میں جو وفات پاجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں چار ماہ دس دن اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں پھر جب ان کی عدت پوری ہو جائے تو شریعت کے مطابق اپنے بارے میں جو فیصلہ کریں اسکا تم پر کوئی گناہ نہیں اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے " ( سورہ بقرہ : ۱۳۴)

ارشادِ رب العزت ہے:

( وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ أَزْوَاجًا وَّصِیَّةً لِّأَزْوَاجِهِمْ مَّتَاعًا إِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْ مَا فَعَلْنَ فِیْ أَنفُسِهِنَّ مِنْ مَّعْرُوفٍ وَالله عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ )

اور تم میں سے جو وفات پاجائیں انہیں چاہیے کہ بیویوں کے بارے میں وصیت کر جائیں ایک سال تک انہیں (نان و نفقہ سے) بہر ہ مند رکھا جائے اور گھر سے نہ نکا لی جائیں اگر وہ خود گھر سے نکل جائیں تو دستور کے دائرہ میں رہ کر جو بھی اپنے لیے فیصلہ کرتی ہیں تمہارے لیے کوئی مضائقہ نہیں اور اللہ بڑا غالب آنے والا ،حکمت والا ہے ( سورہ بقرہ : ۲۴۰)

۹۰

عدت کے اختتام کے بعد اگرعورت شادی کرنا چاہیے تودستور کے مطابق کر سکتی ہے کوئی مرد اس سے شادی کا خواہاں ہے تو شادی کے لیے خطبہ کر سکتاہے ارشاد رب العزت ہے:

( وَلاَجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا عَرَّضْتُمْ بِه مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَکْنَنْتُمْ فِیْ أَنفُسِکُمْ عَلِمَ الله أَنَّکُمْ سَتَذْکُرُوْنَهُنَّ وَلَکِنْ لَّا تُوَاعِدُوْهُنَّ سِرًّا إِلاَّ أَنْ تَقُوْلُوْا قَوْلًا مَّعْرُوْفًا وَلَاتَعْزِمُوْا عُقْدَةَ النِّکَاحِ حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتَابُ أَجَلَه وَاعْلَمُوْا أَنَّ الله یَعْلَمُ مَا فِیْ أَنفُسِکُمْ فَاحْذَرُوْهُ وَاعْلَمُوْا أَنَّ الله غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ )

"اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تم ان عورتوں کے ساتھ نکاح کا اظہار اشارے کنائے میں کرو یا اسے تم اپنے دل میں پوشیدہ رکھو اللہ کو تو علم ہے کہ تو ان سے ذکر کرو گے مگر ان سے خفیہ قول و قرار نہ کرو ہاں اگر کوئی بات کرنا ہے تو دستور کے مطابق کرو البتہ عقد کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرو جب تک عدت پور ی نہ ہو جائے اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ کو سب معلوم ہے لہذا اس ے ڈرو اور جان رکھو اللہ بڑا بخشنے والا ، بردبار ہے "( سورہ بقرہ : ۲۳۵)

عدت کے دنوں میں نکاح کرنے سے( خصوصا مقاربت بھی کرلی جائے) عورت ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے اصطلاح شرع میں اسے کہتے ہیں حرام موبد لہٰذا انتظار ضروری ہے عدت ختم ہوجائے تو نکاح کر لیا جائے جس طرح عدت کے دوران نکاح حرمت ابدی کا باعث ہے اسی طرح شوہردار عورت کے ساتھ نکاح کرنا بھی حرمت ابدی کا موجب ہوتا ہے پس یہ جانتے ہوئے کہ یہ شوہردار ہے کوئی شخض اگر اس سے نکاح کرے تو وہ عورت ہمیشہ کے لیے اس شخص پر حرام ہو جائے گی

طلاق خلع

عورت شوہر کو پسند نہیں کرتی اس سے شدید نفرت کرتی ہے اس کے ساتھ رہنے کو کسی صورت قبول نہیں کرتی تو طلاق کی مانگ عورت کی طرف سے ہوگی حق مہر کی واپسی یا کسی او ر چیز کے دینے پر مرد طلاق دے گا اس طلاق میں مردکو رجوع کا حق نہیں طلاق کی باقی عام شرئط موجود ہونی چاہئیں اس طلاق کا نام خلع ہے ہاں البتہ عورت نے جوکچھ دیا ہے اگر اس میں رجوع کرتی ہے اور اپنی چیزیں واپس طلب کرتی ہے تومردکواس طلاق میں بھی رجوع کاحق حاصل ہوگا

۹۱

عورت کی گواہی

حقوق الٰہی و حقوق انسانی کے اثبات کے لیے بعض اوقات شہادت گواہی کی ضرورت ہوتی ہے کئی معاملات میں عورت کی گواہی مقبول ہے ارشاد ِرب العزت ہے:

( فَإِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَکِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرٰی )

"اگر دو مرد نہ ہوں تو اپنی پسند کے مطابق ایک مرد اور دو عورتوں کوگواہ بناو تاکہ اگر ان میں ایک بھول جائے تو دوسری اسے یا د دلائے "

حقوق انسان میں حق غیر مالی طلاق وغیرہ کے معاملات میں دو مرد گواہ ہونا چاہئیں حقوق مالی،شادی کے معاملات وغیرہ میں دو مردوں کی گواہی یا ایک مرد ور دو عورتوں کی گواہی کفایت کرتی ہے جو مسائل عورتوں سے مربوط ہیں مردوں کے لیے ان پر اطلاع پانامشکل ہے اس میں صرف عورتوں کی گواہی کافی ہے اسی طرح میراث اورو صیت کے مسائل میں عورتوں کی گواہی کافی ہے غرضیکہ گواہی کے سلسلہ میں اللہ نے عورت کوبہت اہمیت دی ہے ارشاد رب العزت ہے:

( وَلَایَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ الله فِیْ أَرْحَامِهِنَّ إِنْ کُنَّ یُؤْمِنَّ بِالله وَالْیَوْمِ الْآخِرِ )

"اگر وہ اللہ اور روزآخرت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کے لیے جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحموں میں جو کچھ خلق کیا ہے اسے چھپائیں گویا بتانا ضروری ہے اور یہی عورتون کی گواہی ہے" ( سورہ بقرہ : ۲۲۸)

۹۲

عورت و میراث

بیٹی کی وراثت اگر مرنے والے کی اولاد صرف ایک بیٹی ہو تو نصف مال اس کاحق ہے اور دیگر عزیزوں کے نہ ہونے کی صورت میں باقی نصف بھی اسے مل جائے گا

ارشاد رب العزت :

( وَإِنْ کَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ )

اور اگر صرف اس کی صرف ایک ہی لڑکی ہے تو نصف ترکہ اسکا حق ہے ( سورہ نساء : ۱۱)

ماں

مرنے والے کی اولاد ہونے کی صورت میں ماں کا چھٹا حصہ ہے نہ ہونے کی صورت میں تیسرا حصہ ہے ارشاد رب العزت ہے:

( وَلِأَبَوَیْهِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ إِنْ کَانَ لَه وَلَدٌ فَإِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّهُ وَلَدٌ وَّوَرِثَه أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ )

"اور میت کی اولاد ہونے کی صورت میں والدین میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ ملے گا اور اگر میت کی اولاد نہ ہو بلکہ صرف ماں باپ وارث ہوں تو اسکی ماں کو تیسرا حصہ ملے گا "( سورہ نسا ء : ۱۱)

بیوی

ارشاد رب العزت ہے :

( وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ إِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ فَإِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِنْ م بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَا أَوْ دَیْنٍ )

"اگر تمہاری اولاد نہ ہوتو انہیں( بیویوں کو) تمہارے ترکے میں سے چوتھائی ملے گی اور اگر تمہاری اولاد ہو تو انہیں تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ملے گا یہ تقسیم تمہاری وصیت پر عمل کرنے اور قرض اد اکرنے کے بعد ہوگی "( سورہ نساء: ۱۲)

۹۳

بہن

ارشاد رب العزت ہے :

( وَإِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّورَثُ کَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَّلَه أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ کَانُوْا أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَهُمْ شُرَکَاءُ فِی الثُّلُثِ مِنْم بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصٰی بِهَا أَوْ دَیْنٍ غَیْرَ مُضَارٍّ وَصِیَّةً مِّنَ الله وَالله عَلِیْمٌ حَلِیْمٌ )

"اور اگر کوئی مرد یا عورت بے اولاد ہو اور والدین بھی زندہ نہ ہوں اور اسکا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو بھائی اور بہن میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اگر اس کے بہن بھائی زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی حصہ میں شریک ہوں گے یہ تقسیم وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے بعد ہوگی بشرطیکہ ضرررساں نہ ہو یہ نصیحت اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بڑا دانا اور بردبارہے " ( سورہ نساء : ۱۲)

ارشاد رب العزت ہے :

( یَسْتَفْتُوْنَکَ قُلِ الله یُفْتِیْکُمْ فِیْ الْکَلَا لَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَکَ لَیْسَ لَه وَلَدٌ وَّلَه أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَکَ وَهُوَ یَرِثُهَا إِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّهَا وَلَدٌ فَإِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَکَ وَإِنْ کَانُوْا إِخْوَةً رِّجَالًا وَّنِسَاءً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَیَیْنِ یُبَیِّنُ اللهُ لَکُمْ أَنْ تَضِلُّوْا وَاللهُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ )

"لوگ آپ سے کلالہ کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ان سے کہہ دیجے اللہ کلالہ کے بار ے میں تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ اگرکوئی مرد مرجائے اور اسکی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اسے بھائی کے ترکے سے نصف ملے گا اگر بہن مر جائے اور اسکی کوئی اولاد نہ ہو تو بھائی کو بہن کا پورا ترکہ ملے گا اگر بہنیں دو ہو ں تو دونوں کو بھائی کے ترکے سے دو تہائی ملے گااگر بہن بھائی دونوں ہوں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہو گا اللہ تمہارے لیے احکام بیاں فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کا پورا پوراعلم رکھتاہے "(سورہ نساء : ۱۷۶)

۹۴

فہرست

عورت کا مقام قرآن کی روشنی میں ۳

قرآن مجید میں بعض عورتوں کا تذکرہ ۱۶

( ۲) زوجہ حضرت نوح علیہ السلام ۱۷

( ۳) زوجہ حضرت لوط ۱۹

( ۴) زوجہ حضرت ابراہیم ۲۰

حضرت ابراہیم و اسماعیل اور تعمیر کعبہ ۲۲

( ۵) یوسف اور زلیخا ۲۵

زوجہ حضرت ایوب ۲۸

۷ مادر موسیٰ ۸ خواہر موسیٰ آسیہ زوجہ فرعون ۳۰

دختر جناب شعیب ۳۲

تزویج موسیٰ ۳۳

( ۱۱) ملکہ سبا ۳۴

خط کا مضمو ن ۳۴

حضرت مریم ۳۵

حضرت مریم کی تعریف و ثناء ۳۸

ازواج نبی اعظم ۳۹

( ۱۴) جناب خدیجة الکبریٰ (زوجہ رسول اعظم ) ۴۲

حضرت فاطمة الزہراء ۴۵

انسانیت کی محافظ ، فاطمہ بنت فاطمہ ، اولاد فاطمہ ۴۶

عورت بہ حیثیت زوجہ ۵۰

۹۵

عورت و مرد میں مساوات ۵۶

عورت اورحجاب ۵۹

حجا ب کے متعلق آیات قرآنی ۵۹

انتخاب عورت ۶۵

حق مہر او ر قرآن ۶۷

وہ عورتیں جن سے نکاح حرام ہے ۶۸

کنیزوں سے نکاح ۶۹

نکاح متعہ ۷۰

عقدِ متعہ اور عقدِنکاح میں فرق ۷۰

ایک سے زیاہ ز وجہ ۷۲

مرد عورت کا گھر ۷۳

نشوزہ( نافرمان) عورت ۷۴

عورت کے احکام ۷۷

ظہار ۷۹

ولادت و رضاعت ۸۰

لعان ۸۲

طلاق ۸۳

تین طلاقیں ۸۴

عدّت ۸۶

طلاق کی شرائط ۸۷

عدت وفات ۹۰

۹۶

طلاق خلع ۹۱

عورت کی گواہی ۹۲

عورت و میراث ۹۳

ماں ۹۳

بیوی ۹۳

بہن ۹۴

۹۷