ذخیرہ اندوزی اور حکومت کی ذمہ داریاں
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے مالک اشتر کو لکھے ہوئے اپنے عہد نامہ میں ملک کے اندر تاجروں اور صنعت گروں کے ہم کردار پر تاکید کی ہے اور ان کے لئے کچھ ایسے حقوق ذکر کئے ہیں جن کی رعایت ضروری ہے اسی طرح جیسے جملہ امور کی نگرانی اور فساد و نقض امن نیز حکومتی دستورات کی بجا آوری میں سستی سے روکنے کے لئے حکومت کی ذمہ داریوں کا ذکر فرماتے ہیں :
”ثم استوص بالتجار وذوی الصانعات ،واوص بهم خیرا،المقیم منهم،والمضطرب بماله، والمترفّق ببدنه،فانهم مواد المنافع،واسبا ب المرافق ،وجلابها منالماعد والمطارح ،فی برّک،وبحرک ،وسهلک ،وجبلک،وحیث لا یلتئم الناس لمواضعها،ولا یجترؤن علیها(من بلاد ئاعدائک)((فاحفظ حرمتهم ،وآمن سبلهم،وخذلهم بحقوقهم،فانهم سلم لا تخاف بائقته،وصلح لا تحشیٰ غائلته))((وتفقد امورهم بحضرتک ،وفی حواشی بلادک ))واعلم مع ذلک:ئان فی کثیر منهم ضیقا فاحشا ،وشحا قبیحا،واحتکارا للمنافع ،وتحکما فی البیاعات،وذلک باب مضرّةعلی العامة،وعیب علی الولاة،فامنع (من)الاحتکار،فان رسول الله(صلّی الله علیه وآله (وسلم )منع منهولیکن البیع (والشرّاء)بیعا سمحا ،بموازین عدل،وئاسعارلاتجحف ،بالفریقین ،من البائع والمبتاع،فمن قارف حکرة بعد نهیک ایاه،فنکل بهوعاقبه من غیر اسراف (فان رسول الله فعل ذلک)
“
تاجروں اور صنعت کاروں سے ان کے نیک مشورے قبول کرو اور انھیں نیکی کی دعوت دو،چاہے وہ جوایک مستقل جگہ رہ تجارت اور کام کرتے ہیں یا وہ جو اپنا سرمایا و مال یہاں سے وہاں لے جاتے اور اپنے بدن سے بھی کام لیتے ہیں ،یہ لوگ منفعت کے سرچشمے ،آرام کے وسائل اور دور دراز کے علاقوں بیابانوں ،سمندروں ،جنگلوں سنگلاخ وادیوں اور ایسی جگہوں سے منافع وارد کرنےوالے ہیں جہاں ہر ایک جانے کی جرات بھی نہیں کر سکتپش ان کی عزت و حرمت محفوظ رکھوان کی راہوں کو پر امن بناؤ اور ان کے حقوق حاصل کرو کہ یہ لوگ صلح وامن والے ہیں ان کی طرف سے کوئی خوف و خطر نہیں ہے یہ حضر میں ہوں یا سفر میں ان کے معاملات حل کرو ساتھ ہی یہ بھی جان لو کہ ان میں سے بہت سے لوگ بہت زیادہ تنگ نظر بڑے لالچی اور بخیل ہیں وہ اموال کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں یعنی دین میں زور و زبردستی اور مکر وفریب سے کام لیتے ہیں یہ سب کے لئے ضرر نقصان کا دروازہ اور حکام کے لئے ننگ وعار کا سبب ہیں لہٰذا لوگوں کو ذخیرہ اندوزی سے رو کو کہ رسول خدا (ص) نے اس عمل سے منع فرمای
ذخیرہ اندوزی پر پابندی لگاؤ کہ رسول اللہ (ص)نے اس سے منع فریایاہے خریدو فروخت سہل و آسان طریقہ سے عدل کی ترازوؤں اور ایسی قیمتوں سے جو دونوں طرف (یعنی تاجر و خریدار ) کے لئے ظلم و زیادتی نہ ہو انجام پانا چاہئے پس اگر تمھارے منع کرنے کے بعد کسی نے ذخیرہ اندوزی کی تو اس سے سختی کے ساتھ نپٹو اور بغیر کسی غصہ یا تیزی کے اسے سزا دو (کہ بلا شبہ حضرت رسول خدا (ص)نے ایسا ہی کیا ہے)
اس حدیث سے یہ مطلب نکلتاہے کہ حکومت تاجروں اور صنعت کاروں کے سلسلہ میں کچھ فرائض رکھتی ہے مثلاً:
۱ ۔ ان کی عزت واحترام کا تحفظ
۲ ۔ سفر کرنے اور مال لانے لے جانے کے لئے راہوں میں امن و امان قائم کرنا
۳ ۔ان کے حقوق حاصل کرنا
۴ ۔ان کی امور کی یکساں طور پر دیکھ بھال کرنا چاہئے وہ وہ دور ہوں یا نزدیک اور اس کے مقابل خود والی و حاکم پر لازم ہے کہ:
۱ ۔انھیں ذخیرہ اندوزی سے روکے اور اگر کوئی منع کرنے کے بعد بھی ذخیرہ اندوزی کرے تو اس پر سختی کی جائے اسے قرار واقعی سزا دی جائے کہ حضرت رسول خدا بھی یہی اقدام فرمایا تھ
۲ ۔ خرید فروخت میں آسانی پیدا کی جائے
۳ ۔ لین دین عادلانہ ناپ تول سے انجام پائے
۴ ۔قیمتیں ایسی نہ ہو ں کہ بیچنے والے اور خریدار پر زیادتی یا ظلم ہو
جب حاکم لے لئے ان امور کی انجام دہی ضروری ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ اس مین اتنی صلاحیت موجود ہو جو اسے ان کا موں کے انجام دینے پر قادر بنائے تاکہ وہ ان فرائض کو صحیح اور فیصلہ کن طور پر انجام دے سکے
مذکورہ چار بنیادی باتوں کی وضاحت کے لئے پہلے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ان چاروں باتوں کا اس زاویہ سے جائزہ لیں کہ حکومت عوام کو براہ راست کسی چیز کے بجا لانے کا حکم یا کسی چیز سے روک سکتی ہے
ناپ تول پر نگرانی اور اس سلسلہ میں وقت نظر سے کام لینے وزن اور تول کی رعایت کرنے اور مال کو وزن ،ہیمانہ یا شمار کے بغیر بیچنے سے روکنے کے سلسلہ میں گزشتہ گفتگو ہو چکی ہے آسان انداز میں خرید و فروخت کے سلسلہ میں بھی یہ عرض کر چکے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص)نے حکیم بن حزام پر یہ شرط لاگو کر دی تھی کہ اگر خرید ار مال خرید نے کے بعد منصرف ہو جائے اور مال واپس کرے تو اس سے مال لے لے اور معاملہ ختم کر دے تنگدست کو مہلت دے اور اپنا حق مکمل یا کمتر لے اور دوسرے امور بھی بیان کئے جاچکے ہیں منجملہ وہ فرامین جو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے بازاروں میں گشت زنی کے دوران خرید و فروخت آسان بنانے کے لئے صادر فرمائے تھے بیان کئے جا چکے ہیں ہم یہاں اس سے متعلق تفصیل میں نہیں جانا چاہتے
اب رہ جاتی ہے ذخیرہ اندوزی کے خلاف اقدام اور قیمتوں میں زور و زبردستی کو روکنے کی بات ،یہاں ہم اس بارے میں بحث و تحقیق کرتے ہیں:
ذخیرہ اندوزی اور اس کی سزا
مالک اشتر کے نام امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے عہد نامہ میں آیا ہے:
” اس کے باوجود یہ جان لو کہ ان میں سے بہت سے لوگ بڑے تنگ نظر اور ذلیل و بخل و طمع رکھتے ہیں منافع میں ذخیرہ اندوزی اور لین دین میں زور و زبردستی سے کام لیتے ہیں یہ کام عوام کے حق میں نقصان دہ اور حکام کے لئے ننگ و عار کا سبب ہے لہٰذا لوگوں کو ذخیرہ اندوزی سے روکو کیوں کہ رسول خدا (ص) نے اس سے منع فرمایا ہے“
یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: پس جو شخص بھی تمھارے منع کرنے کے بعد ذخیرہ اندوزی کرے اس سے سختی کے ساتھ نپٹو اور اسے مناسب سزا دو کہ حضرت رسول خدا نے ایسا ہی اقدام فرمایا ہے
نیز حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے ایک خط میں جو آپ نے رفاء بن شداد کو تحریر مرمایا تھا ،آیا ہے :
”انه عن الحکر ة ،فمن رکب النهی فاوجعه ،ثم عاقبه باظهار ما احتکر
“
”ذخیرہ اندوزی سے منع کرو پس جو شخص منع کرنے کے بعد اس کا مرتکب ہو اس کی کندی کرو (اسے جسمانی سزا دو) اس کے جس چیز کا اس نے ذخیرہ کیا ہے اسے ظاہر کرکے اس کو سزا دو“
حضرت جعفر بن محمد علیہ السلام انھوں نے اپنے پدر بزرگوار اور انھوں نے اپنے جد سے روایت کی ہے کہ:رسول خدا (ص)ذخیرہ اندوزںکی طرف سے گزرے اور انھیں حکم دیا کہ جو کچھ ذخیرہ کیا ہے اسے بیچ بازار میں جہاںسب کوگ دیکھیں لے آئیں
آنحضرت (ص) کی خدمت میں عرض کیا گیا: کیا ہوتا اگر آپ (ص) ان چیزوں پر قیمت لگادیتے ؟حضرت (ص) یہ سن کر اس طرح غضب ناک ہوئے کہ غصہ کے آثار آپ کے چہرہ پر نمایاں ہوگئے،فرمایا: میں ان پر قیمت معین کروں؟قیمت خدا کے ہاتھ میں ہے جب وہ چاہے زیادہ کردیتاہے اور جب چاہتا ہے کم کردیتا ہے۔
یوں ہی روایت ہے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ایک لاکھ درہم کا ذخیرہ اندوزی کیا ہوا غلّہ جلواڈالا۔
ایک دوسری روایت ہے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام ساحل فرات کی طرف سے گزرے وہاں ایک تاجر کا غلّہ کا انبار دیکھا جوا س لئے رکھا ہوا تھا کہ غلہ گراں ہوتو بیچا جائے، آپ نے اسے جلادینے کا حکم دیا۔
تیسری روایت میں ”عبد الرحمن بن قیس“سے نقل ہے کہ جیش نے کہا :میں نے اطراف کوفہ میں جو پیدا وار اور غلے ذخیرہ کرکے چھپا رکھے تھے علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے انھیں جلوا دیا اگر وہ یہ کام نہ کرتے تو اس سے میں کوفہ کی پیدا وار کے برابر فائدہ اٹھاتا۔
اس سے ظاہر ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام احتکار (ذخیرہ) شدہ چیزوں کو جلوا دیا کرتے تھے اور حکم دیتے تھے کہ لوگو ۳ ں کو ذخیرہ اندوزی سے روکا جائے احتکار کرنے والے کو سزا دی جائے،اس لئے کہ ذخیرہ اندوزی عوام کو نقصان پہچاتی ہے اورحکام کے لئے ننگ و عارشمار ہوتی ہے جیسا کہ مالک اشتر کے عہد نامہ میں ذکر آچکا ہے۔
”و فی روایة عن الامام الصادق علیه السلام و کل حکرة تضر بالناس و تغلی السعر علیهما فلا خیر فیها
“
”اور ایک روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہے کہ :چھپا کر ذخیرہ کیا ہوا ہرمال جس سے لوگوں کو نقصان پہنچے اور قیمت بڑھنے کا باعث ہو اس میں خیر و بھلائی نہیں ہے“
ان ہی حلات کی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ رسول خدا (ص)جس طرح ذخیرہ اندوزی کرنے والوں سے سختی کے ساتھ نپٹتے تھے یوں ہی اس شخص کے ساتھ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح ذخیرہ اندوزی کرنے والوں سے سختی کے ساتھ نپٹتے تھے یوں ہی اس شخص کے ساتھ بھی طاقت کا استعمال کرنے تھے جو دوسروں کو نقصان پہنچاتا تھا جیساکہ آپ (ص) نے ”سمرةبن جندب“ کے ساتھ اقدام فرمایجب ”سمرة “ نے اپنے خرمے کے درخت کے بارے میں جو دوسرے کے گھر میں تھا سختی کا اثہار کیا ار یہ بات نہ مانی کہ جب وہ درخت کو دیکھنے آئے گا توصاحب خانہ سے اجازت بھی طلب کرے گا جب اس کی یہ سختی صاحب خانہ کے لئے مضر ثابت ہوئی تو رسول خدا (ص)نے حکم دیا کہ اس کا درخت اکھاڑ کر اس کے سامنے ڈال دیا جائے
مذکورہ روایات میں نظر آتا ہے کہ احتکار و ذخیرہ اندوزی کرنے کے لئے ۔من قسم کی سزا معیّن کی گئی ہے:
۱ ۔اسے درد پہنچانے واالی مارمارنا۔
۲ ۔جو کچھ اس نے احتکار کیا ہے اسے آشکار کرنا اور پیچ بازار میں منظرعام پر لان
۳ ۔احتکار شدہ مال جلا دینا۔
تیسری قسم کی سزا کے سلسلہ میں ممکن ہے ایک سوال پیش آئے ا ور وہ یہ کہ احتکار شدہ ؛مال تلف اور برباد کیوں ہو۔مناسب قیمت پر خریدار کے ہاتھ فروخت کیوں نہ کیا جائے اور اس کا پیسہ مالک کے حوالہ کردیاجائے؟یا کم از کم ضبط کرکے بیت المال میں شامل کیوں نہ کرلیا جائے تا کہ اس کانفع عوام تک پہنچے؟
جواب میں ہم کہیں گے:
ممکن ہے کہ جس شخص کا احتکار کیا غلہ جلوا دیا گیا ہو وہ غباد سے کام لیتے ہوئے ذخیرہ سے منع کئے جانے والے حاکم کی مخالفت پر اڑارہتا ہو یہاں تک کہ وہ احتکار شدہ مال جلوا دیئے جانے کی تنبیہ و سزا کا مستحق قرار پائے تا کہ دوسرے بھی اس عمل سے عبرت حاصل کریں جس طرح حضرت رسول خدا (ص) نے سمرة بن جندب کے خرمے کے درخت کے سلسلہ میںخود واسطہ بننے ،دخل دینے مختلف پیشکش کرنے ۔جو سب کی سب اس کے لئے مفید تھیں ۔کے با وجود جب اسے اپنی بات پر اڑا ہوا اور ہٹ دہرمی اور عناد پر جما ہوا پایا توحکم دیا اس کا درخت اکھاڑ کر اس کی طرف پھینک دیا جائے ۔
اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد ضرار کو ڈھادینے کا حکم دیا نیز جس طرح حضرت علی علیہ السلا م نے ایک مکان جس میں فاسقین اکٹھا ہوا کرتے تھے اور جس طرح ”مصقلةبن ہبیرہ “و ”عروة بن عشیہ “اور”جریر بن عبداللہ بجلی “ کے گھروں میں ان کی عظیم خیانتوں اور نافرمانیوں کی بنا پر سزا و تعزیر کے عنوان سے ویران کردیا۔
نیز احتکار شدہ مال اور دوسرے اموال ،جن کا ذکر گزرچکاہے ،کے بیت المال میںشامل نہ کئے جانے کا سبب یہ تھا کہ طاغوت اور ظالم حکام کے ہاتھوں میں ایک بہانہ یا سند نہ آجائے جس کے ذریعہ وہ لوگوں کے اموال پر ناحق قابض ہوجائیں۔
جائز نفع
یہ بیاںکرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسلام نفع کمانے اور مال و دولت حاصل کرنے سے نہیں روکتا ہے لیکن وہ یہ چاہتا ہے کہ مال حاصل کرنا ،نفع کمانا جائز اور شرعی راہوں سے انجام پائے جن کی پابندی معاشرہ کی اقتصادی بنیاد میں خلل پیدا نہیں کرتی نہ خود اور دوسروں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ساتھ ہی (وہ یہ چاہتاہے کہ )اسلامی بازار میں نئی چیزوں اور نئے مال کی فروانی کرکے یا پھر خصوصی یا عمومی خدمت و محنت کے ذریعہ جو معاشرہ کا معیار زندگی بلند کرنے میں موثر اور عام طور سے لوگوں کی رفاہ و آسائش اور ان کی بھلائی نیز کم یا طویل مدت میں معاشرہ کی مشکلات حل کرنے میں مفید ثابت ہوا اور مال و منفعت کا ذریعہ بھی ”رفاہ و کمال اور زیادہ سے ترقی حاصل کرنے کے لئے “ان باتوں کا لحا ظ رکھا جائے۔
لہٰذا یہ بات طبیعی وفطری تھی کہ اسلام ،جوا،سود یا دھوکہ اور جعل سازی و غیرہ کے ذریعہ پیسہ کمانے کے طریقوں سے مقابلہ کرے ۔یہ طریقہ جو نہ صرف معاشرہ کی خدمت نہیں کرتے اس کی سطح زندگی کو بلند نہیں کرتے ، اقتصادی مشکلیں حل نہیں کرتے اور اسلامی امت کی دوسری دشواریوں کے حل میں کوئی کردار نہیںادا کرتے بلکہ حقیقت میں یہ دوسروں کی پو نجی نگل جانے اور انھیں تباہ و برباد کرنے کے وحشیانہ طریقے شمار ہوتے ہیں اوراسلامی امت اور معاشرہ کو فکری ،اخلاقی ،اجتماعی اور دوسرے بہت سے نقصانات پہنچاتے ہیں۔
مختصر یہ کہ اسلام جائز طور پر مال و دولت اور نفع کمانے سے ۔جب تک یہ مال معاشرہ کو آگے بڑھانے اور اس کی ترقی کی راہ میںحصہ دار معاشرہ کی اقتصادی سطح بلند کرنے میں مددگار ،اور اس کی مشکلات حل کرنے میں دخیل ہو ۔منع نہیں کرتا۔
اسی لئے جیسا کہ مالک اشتر کے عہد نامہ میں ہے حضرت علی علیہ السلام تاجروں اور صنعت گروں کو منفعت کے سر، چشمے رفاہ وترقی کے اسباب ،دورودراز کے علاقوں ، جنگلوں،پہاڑوں اور صحراؤں کی پر خطر راہوں سے ملک میں منافع اور آسائش لانے والے کہا ہے یہ بات بھی ذکر ہو چکی ہے کہ تجارت انسان کی عزت و سر بلندی ہے اور ۱۰/۹ روزی اس میں موجود ہے تجارت سے حاصل شدہ نفع سے لوگوں کا ایک گروہ دوسرے گروہ کو روزی پہنچاتا ہے حتٰی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) جب شہری دلالوں کے ذریعہ بغیر شہری افراد کا مال بیچنے کو منع کرتے ہیں فرماتے ہیں:
”دعوا الناس یرزق الله بعضهم من بعض
“
”چھوڑ دو خدا وند عالم بعض لوگوں کے ذریعے بعض کو روزی دیتا ہے“
قیمتوں پر کنڑول
واضح رہے کہ مال و دولت سے لگاؤ اور اکثر اوقات انسان کی فکری تربیتی یا عقیدتی بنیاد میں نقص و خلل کی وجہ سے پیدا ہونے والی ضمانتوں کی کمزوری بجائے اس کے کے صحیح جہت میں جدھر خدا چاہتا ہے انسان کی نقل و حرکت کو کنٹرول یا توجیہ کرنے میں مو٘ثر ثابت ہو انسان کے افکار و اعمال پر اس کی عقل و وجدان کے تسلط اور اس کے ارادوں کو کمزور کرکے اسے عملی طور پر شرعی حکم کی رعایت و پابندی سے دور لے گئی ہے
یہی چیز بعض اوقات اس کا سبب ہوئی ہے کہ انسان میں یہ جرات پیدا ہو کہ وہ کبھی ذخیرہ اندوزی کرے کبھی قیمتوں سے کھیلے اور کبھی دھوکہ اور جعل سازی سے کام لے یا سود خوری کرے یا پھر اسلام کی نگاہ میں ناپسند دوسرے طریقہ اختیار کرے اور امت اسلام یا مجموعی طور پر پورے انسانی معاشرہ کو سخت نقصانات سے دو چار کرے یہیں سے حکومت پر اسلامی بازار کی دیکھ بھال ،نگرانی تجارتی نقل و حرکت پر کنٹرول اور قیمتوں پر نگرانی کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے تاکہ مالک اشتر کے عہد نامہ میں حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی تعبیر کے مطابق کہ قیمت خرید ار یا بیچنے والے کے لئے زیادتی کی حد تک نہ پہنچے
( کہ اگر اس حد کو پہنج جائے تو اسے کنٹرول میں لایا جائے اور اس پر پابندی لگانی چاہئے )بلکہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے عہد نامہ کی عبارت ایسی قیمت تعین کرنے کی طرف دلالت کرتی ہے جس میں خرید ار یا تاجر کسی پر زیادتی نہ ہو کیوں کہ یہ کہنا کہ ”بیچنے والے “یا خریدار کے ساتھ زیادتی نہ ہو اس بات کی دلیل ہے کہ قیمت اس پر تھوپی جاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام یہ کام خود انجام دیتے تھے چنانچہ ”ابو الصہباء “ناقل ہیں کہ میں حضرت علی علیہ السلام کو شط ”کلا“ میں دیکھا کہ وہ قیمت کی میزان و مقدار کے بارے میں پوچھ تاچھ کر رہے تھے۔
ظاہر ہے کہ اگر خود حاکم کے لئے قیمتوں کی نگرانی اور ان پر کنٹرول ممکن نہ ہو تو مجبورا وہ اس کام کے لئے ایک ادارہ تشکیل دے گا تاکہ شارع مقدس کے مقاصد پورے ہوں
قیمتوںکا تعین یا بے جا زیادتی پر پابندی
ہم جو کچھ اوپر عرض کر چکے ہیں کہ :
اول :یہ کہ اسلام نے مال اور نفع کمانے سے نہیں روکا ہے
دوسرے :آدمی کی طمع و لالچ اسے قیمتوں سے کھیلنے ،احتکار کرنے نیز دوسرے نقصان دہ اور نا پسند یدہ امور کی طرف کھینچ لے جاتی ہے
تیسرے : لوگوں کو ان قیمتوں پر مال بیچنے کے لئے آمادہ کرنا جو کسی بھی خریدنے یا بیچنے والے کے لئے نقصان دہ نہ ہو حکومت کے فرائض میں سے ہے
چوتھے: قیمتیں بہر حال کنٹرول کی جائیں اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام بذات خود یہ کام دیتے تھے
ان سب کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احتکار شدہ جنسوں کی قیمت معین کرنے کو رد فرمایا ہے اسی طرح حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے بھی یہ اقدام نہیں کیا
چنانچہ بعض نقل شدہ روایات میں ہم نے دیکھا کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”قیمت خدا کے ہاتھ میں ہے جب وہ چاہے زیادہ کر دیتا ہے اور جب چاہے کم کر دیتےا ہے “
اب کیا ہماری پچھلی بات اور مودہ بات میں کوئی تناقص ہے ؟ اس کا جواب منفی ہے کیوں کہ ان حضرات کے اقدامات میں مکمل طور پر یکجہتی پائی جاتی ہے ،اور ان میں کوئی تناقص و اختلاف نہیں ملتا ان حضرات کے مختلف اقدامات میں مکمل انسجام و یکجہتی کی وضاحت کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس طرف اشارہ کریں کہ اس جملہ ”قیمت خدا ک ہاتھ میں ہے جب وہ چاہے زیادہ کر دے اور جب چاہے کم کردے “سے کیا مراد ہے؟
شیخ صدوق نے اس کی وضاحت کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے : اگر سستائی اور مہنگائی مال کی زیادتی یا کمی سے مربوط ہو تو خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس کے مقابل تسلیم و رضا واجب ہے ،لیکن اگر سستائی یا مہنگائی خود انسانوں کے عمل کا نتیجہ ہو مثلا ایک شخص شہر کا تمام غلہ خرید لے اور اس کام کے ذریعہ قیمت زیادہ ہو جائے ،جیسے پیغمبر اسلام (ص) کے زمانہ میں حکیم بن حزام کرتا تھا اور وہ تمام غلہ جو مدینہ میں وارد ہو تا تھا خود خرید لیتا تھیہ گرانی اس شخص کے عمل کا نتیجہ ہے خدا وند عالم کی ذات سے اس کا تعلق نہیں ہے کیونکہ اگر اس مورد میں بھی گرانی کو خداکی ذات سے متعلق کیا جائے تو جو شخص شہر کا تمام غلّہ خرید لیتا ہے اسے مذمت و ملامت کا مستحق نہیں ہونا چاہئے۔
یہ تو تھی مسلمانوں کے بازار میں ”گرانی“سے متعلق بات لیکن اگر کوئی دوسرے تاجروں کو نقصان پہچانے کی غرض سے قیمت کو نیچے لائے تا کہ ان تاجروں کا سرمایہ ختم ہوجائے اور بازار پر صرف اس کا تسلّط ہو جائے ۔یہ بھی وہی صورت ہے یعنی ایسے شخص کا عمل جائز نہیں ہے ۔ہاں اگر اس کام سے اس کا مقصد دوسروں کو نقصان پہنچانا نہ ہو بلکہ وہ اس کام سے فقراء کی مدد اور خدا کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اس صورت میں اس کا عمل پسندیدہ اور مقبول ہے ۔
حاکم نے روایت کی ہے کہ حضرت رسول خدا (ص)بازار میں ایک ایسے شخص کے پاس گزرے جو بازار کی قیمت سے سستا کھانا فروخت کررہا تھا آپ نے اس سے فرمایا:
”تییع سوقنا بسعر هو ارخص من سعر ؟قال:نعم قال:صبرا و احتسابا؟قال:نعم قال:ابشر فان الحجاب الیٰ سوقنا کا لمجاهد فی سبیل الله والمحتکر فی سوقنا کا لملحد فی کتاب الله
“
”یعنی ہمارے بازار میں ہماری (معین کردہ ) قیمت سے سستی قیمت پر فروخت کر رہے ہو ؟ عرض کی ہاں مرمایا: ایثار اور خدا کے حساب میں؟ عرض کیا ہاں ، فرمایا: بشارت ہو تجھے کہ ہمارے بازار میں مال لانے والا خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے کے مانند اور ہمارے بازار میں احتکار اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا کتاب خدا میں ملحد کے مانند ہے“
پہلے پیغمبر اسلام (ص)نے اس شخص کے عمل پر ایسے تعجب کا اظہار کیا جیسے اس کے اقدام سے راضی نہ ہوں لیکن جب یہ جان لیا کہ وہ شخص اپنے اس عمل سے خدا کی رضا و خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کی تشویق فرمائی ساتھ ہی بد نیت تاجر یعنی احتکارکرنے والے کی حقیقت سے بھی اسے آگاہ فرمای
دوسری دلیل جو طے شدہ قیمت کو نیچے لانے کی بدی و نا خوشگواری پر دلالت کرتی ہے حضرت علی علیہ السلام نے کسی کے مال پر قیمت معین نہیں کی ،لیکن جو شخص اس روز کی قیمت سے بڑھ کر مال بیچے اس کے لئے کہا جائے گا ،جس طرح تمام تاجر بیچ رہے ہیں تم بھی فروخت کروورنہ بازار سے اٹھ جاؤ مگر یہ کہ غلہ یا کھانا دوسروں تاجروں کے غلوں سے زیادہ مرغوب اور بہتر ہو
یوں ہی جو شخص موجودہ قیمت سے کم پر مال فروخت کرتا ہے اسے حکم دیا جاتا ہے کہ تمام لوگوں کی قیمت پر مال فروخت کرے ورنہ اس کی سزا یہ ہوگی کہ اس کے کام کا اجازت نامہ منسوخ ہو جائے گا اسے بازار میں مال فروخت کرنے سے منع کر دیا جائے گ اور اس کاسبب ۔جیسا کہ اشارہ کیا جا چکا ہے۔ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے اسی طرح غلہ احتکار کرنے والے کی سزابھی، تجارت کے اجازت نامہ منسوخی اور اس کی تجارتی سرگرمیوں پر پابندی ہے جیسے پیغمبر اسلام (ص) کے زمانہ میں حکیم بن حزام احتکارکیا کرتا تھا اور فقط معین و مخصوص حالات میں ضمانتیں لینے بعد اسے تجارت کی اجازت دی گئی
مذکور بالا باتوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ جو حضرت رسول خدا (ص) نے احتکار شدہ مال پر قیمت نہیں لگائی اور حضرت علی علیہ السلام نے بھی ایسا کوئی اقدام نہیں کیا اس کا سبب یہ تھا کہ قیمت خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے ،جس کا تعلق موجودہ مال کی مقدار لوگوں کی ضرورت اور توجہ کا تناسب اور طبیعی اسباب و حالات سے ہے ایسی صورت میں بلا کسی ضرورت کے قیمت کا تعین صاحب مال پر ظلم شمار ہوتاہے
اسی طرح طبیعی و فطری اسباب و علل کے تحت پیدا ہونے والی گرانی کے نتیجہ میں پیدا وار میں زیادتی یا بازار میں مال کی فراوانی وجود میں آسکتی ہے چاہے مال کسی دوسری جگہ سے لایا جائے اس بنا پر قیمت کا تعین جو اس مطلوب و مفید صورت حال کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے مناسب نہ ہوگا
احتکار شدہ مال کو باہر لاکر اسے بازار میں ایسی جگہ رکھنا کہ سب اسے دیکھ سکیں بازار میں مال کی فراوانی اور لوگوں کی ضرورت و احتیاج نیز دوسرے امور پر بھی فطری طور سے اپنا اثر ڈالے گا اس طرح مال کی قیمت فطری طور پر خود بخود معین ہو جائے گی اور قیمت تعیین کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ ائے گی
لیکن ظاہر ہے کہ۔ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایت میں نقل ہوا اور مالک اشتر کے عہد نامہ میں بھی اس کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ جس طرح عام قیمت سے کم پر مال بیچنے والے کو بازار سے اٹھ جانے کا حکم دے دیا جاتا ہے تاکہ وہ دوسروں کو نقصان نہ پہنچائے اور دوسرے تاجروں کو ضرر نہ پہنچے ۔یوں ہی ۔ اگر صاحب مال اپنے احتکار شدہ مال کو اونچی قیمت پر جو لوگوں کے نقصان کا باعث ہو بیچے تو اسے بہر حال خریدار کو نقصان پہنچانے سے روکنا چاہئے جیسا کہ مالک اشتر کے عہد نامہ میں قیمت اونچی کرکے لوگوں کو نقصان پہنچانے سے روکا گیا ہے
اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ”ہر احتکار شدہ مال جو لوگوں کو نقصان پہنچائے اور قیمت کو اوپر لے جائے اس میں کوئی خیر نہیں ہے “
مالک اشتر کے عہد نامہ میں بھی احتکار کے سلسلہ میں آیا ہے : ” احتکار لوگوں کو نقصان پہنچانے کادروازہ اور حکام کے لئے ننگ و رسوائی کا سبب ہے “
بنابر این امام علیہ السلام نے احتکار قاعدہ ”لاضرر“ کے مصداقات میں سے جانا ہے جوحاکم کو ی اختیار دیتا ہے کہ عوام کو نقصان پہنچے سے بچا نے کے لئے اقدام کرے، یعنی وہی اختیار جو حاکم کو خرمے کا درخت اکھاڑ کر اس کے مالک (سمرة بن جندب) کے سامنے ڈال دینے کے سلسلہ میں حاصل تھا۔کیونکہ لوگوں کو نقصان پہنچانے کی غرض سے مال ذخیرہ کرنے اور چھپا دینے میں ۔کہ اس پر پابندی لگنی چاہئے اور مال باہر نکال کر اسے منظر عام پر رکھنے کا حکم دینا چاہئے ۔اور لوگوں کو ضرر نقصان پہچانے کے لئے اونچی قیمت پر مال بیچنے میں کوئی فرق نہیں ہے کہ اس صورت حال پر بھی پابندی لگنی چاہئے کیوں کہ دونوں مورد میں بنیاد ایک ہی ہے ۔ یا یہ کہ احتکار اور قیمت کے ذریعہ لوگوں کو ضرر و نقصان پہنچانا دونوں جائز ہوں یا پھر دونوں پر پابندی لگائی جائے ۔ اسلام نے دوسری راہ (یعنی دونوں پر پابندی ) کو اختیار کیا ہے اس لئے کہ جس بنیاد ی چیز سے روکا جارہا ہے یعنی عوام کو نقصان پہنچنا وہ دونوں صورتوں میں موجود ہے
مختصر یہ کہ مالک آزاد ہے کہ اس بات کی رعایت کرتے ہوئے کہ فروخت میں ظلم وتعدی نہ کرے اور دوسروںکو نقصان نہ پہنچائے بقیہ وہ جس قیمت پر چاہے اپنا مال فروخت کر سکتا ہے اب وہ تھوڑے نفع پر راضی ہو جاتا ہے یا زیادہ فائدہ چاہتا ہے یا ایک شخص کو بہت ہی کم نفع میں یا سر سے نفع لئے بغیر مال بیچتا ہے اور دوسرے کو اونچی قیمت پر مال فروخت کرتا ہے اور حکومت نگراں و محاسب ہے جو مناسب و ضروری وقت پر امور کو اپنی حدود میں لانے کے لئے دارو عمل ہوتی ہے اور ۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے ۔ نقصان دہ زیادتی پر پابندی لگاتی ہے اور ضرورت پڑنے پر مجرموں کا اجازت نامہ منسوخ کردیتی ہے یا اسے بازار سے نکل جانے کا حکم دیتی ہے بلکہ ممکن ہے اس سے بھی آگے بڑھ کر اقدام کرے جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے سمرہ کا درخت اکھاڑ پھکوا دیا خیبر میں دیگیں الٹوا دیں اور امیر المومنین علیہ السلام نے احتکا ر شدہ غلوں کا انبار جلوا ڈالا
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ مالک اشتر کو لکھے ہوئے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے عہد نامہ جہاں بیچنے والے پر زبر دستی اور زیادتی کی بات بیان کی گئی تھی ،یہ سمجھا جائے کہ اگر ولی وحاکم کسی مصلحت کے تحت مال پر ایک قیمت معین کرے تو اسے اس کا حق اسی طرح سے حاصل ہے جسے عرض کیا جا چکا ہے کہ حضرت رسول اکرم (ص)نے پکنے سے پہلے بھل فروخت کرنے سے منع اور پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے روکنے کے لئے خیبر میں دیگیں الٹ دیں اور طواف میں حکم دیا کہ مسلمان ”ہرولہ “(چلنے اور دوڑنے کے بیچ کا انداز)کریں یا خضاب لگانے کا حکم دیا یا شہر میں کبوتر کا شکار کرنے سے منع فرمایااور
البتہ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ولی و حاکم ایسے اقدام کا حق رکھتا ہے ،یہ اس مورد میں ہے کہ ابھی لوگوں کی ضرورت و احتیاج شدید نہ ہوئی ہو اور حرج مرج کی نوبت نہ آگئی ہو ، ایسی صورت میں ولی و حاکم ولایت و حاکمیت کے اعتبار سے دخل دینے کا حق رکھتا ہے چاہے ثانوی اعتبار سے سہی لیکن ضرورت و حرج کی صورت میں حاکم پر یہ بات لازم و فرض ہوتی ہے
ایک ضروری یاد دہانی
ظاہر ہے کہ اوپر جو باتیں کہی گئی ہیں ان کا تعلق ایسے احتکار و ذخیرہ اندوزی سے ہے جو عمومی سطح پر خلل اور لوگوں کے لئے ضرر و نقصان کا باعث ہو جیسے کوئی پورے شہر کا غلہ خرید لے اور لوگ اس سے محروم ہوں ورنہ مال کا مناسب و قت تک رکھنا یعنی جب تک لوگوں کی مانگ اور ان کی توجہ میں اضافہ ہو۔ جب مہ بازار میں وہ مال موجود بھی ہو۔ منع نہیں ہے اور معصومین علیہم السلام سے نقل شدہ روایات
کے منطوق کے مطابق اس راہ سے زیادہ نفع کمانا جائز ہے
____________________