غیر ملکی تجارت اور ٹیکس
فقہائے اسلام نے کفار حربی و خیر حربی اور باغی مسلمانوں سے اسلحہ خرید نے اور ان کے ہاتھ بیچنے کے موضوع پر بحث و گفتگو کی ہے لہٰذا اس موضوع کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے ہم یہاں کفار سے عام مال خریدنے اور ان کے ہوتھوں بیچنے کے سلسلہ میں حاکم کے دخل اور اس کے ذریعہ ملک میں مال وارد کرنے پر تشوق کے سلسلہ میں اشارہ کریں گے اسی طرح اس بارے میں بھی گفتگو کریں گے کہ کیا تاجر وں سے ٹیکس لیا جاتا تھا یا اسلام میں ٹیکس لینا جائز نہیں تھ
غیر مسلمان سے تجارت
سب سے پہلے ہم اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اسلام کسی کے لئے حتٰی غیر مسلمان کے لئے فقرو غربت ،سختی اور تنگدستی نہیں چاہتا ہے
”ان علیا علیه السلام قد کتب الی قرظة بن کتب الانصاری :امابعدفان رجالا من اهل الذمة من عملک ذکروا نهرا فی ارضهم ،قد عفا و اذقن ،و فیه لهم عمارة علی المسلمین ،فانظر انت و هم ، ثم اعمر واصلح انهر،فلعمری ،لان یعمر وا احب الینا من ان یخر جوا ،وان یعجزوا او یقصروا فی واجب من صلاح البلاد و السلام
“
”حضرت علی علیہ السلام نے ”قرضة بن کعب انصاری “کو لکھا ہے:تمھارے تحت فرمان علاقہ کے کچھ اہل ذمّہ افراد نے کہا ہے کہ ان کی زمینوں میں ایک نہر تھی جو پٹ گئی اور خشک ہوگئی ہے اور وہاں ان کی آبادی ہے پس تم اور وہ لو گ اس کام کا جائزہ لو اس نہر کی صفائی و ااصلاح کرو اور انھیں آباد کرو میری جان کی قسم اگر وہ آباد ہوں تو یہ ہمارے نزدیک ان کے کوچ کرنے سے زیادہ محبوب ہے ۔(کیونکہ آوارہ وطن ہونے کی صورت میں )وہ مجبور و ناتوان ہوں گے یا ان کاموں کے کرنے سے معذور ہوں گے جن میں حکومت کی خیر وصلاح ہے والسلام“
یہ سیاست ذمی کافروں سے مخصوص نہیں رہی ہے بلکہ دوسروں کے شامل حال بھی رہی ہے :
”فان رسول الله
صلىاللهعليهوآلهوسلم
قد ارسل بخمس ماة دینار الیٰ اهل مکة معونة لهم حینما تبلوا بالقحط (۲)کما انّه قد ارسل الیهم بعد الفتح بمزید من الاموال ایضا
“
”حضرت رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اہل مکہ کو جب قحط میں مبتلا ہوگئے تھے ،پانچ سو دینار ان کی مدد کے لئے بھیجے جس طرح آپ نے فتح مکہ کے بعد بھی ان کے پاس مزید اموال بھیجے “
اور یہ صرف اس لئے تھا کہ اسلام لوگوں کی فلاح و خوشبختی چاہتا ہے ، کہ لوگ جائز طریقوں سے ہاتھ آنے والی خیر برکت سے فائدہ اٹھائیں بشرطیکہ وہ ان فوائد کو اسلام اور انسانوں کے خلاف جنگ کے لئے بروئے کار نہ لائیں اور انھیں مخالفت و مخاصمت کی بنیاد نہ بنائیں
”سیماالبلقاوی “ جو ایک عیسائی شخص تھا اور ایک تجارت کے سلسلہ میں مدینہ آیا اور دولت اسلام سے مشرف ہوا تھا ، بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے کہا :ہم ”بلقاء“ سے مدینہ گیہوں لے کر آئے اور وہاں فروخت کیا اور جب وہاں سے خرمے خریدنا چاہے تو لوگوں نے ہمیں اس کی اجازت نہیں دی ،ہم نے حضرت رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خدمت میں آکر انھیں اس قضیہ کی اطلاع دی جو لوگ ہماری راہ میں رکاوٹ تھے آنحضرت (ص) نے ان سے فرمایا:
”اما یکفیکم رخص هٰذاالطعام بغلاء هٰذا التمر الذی یحملونه ؟ذرو هم یحملوه
“
کیا تمھارے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ تم نے سستا گیہوں حاصل کیا اور خرما جو یہ لے جا رہے ہیں انھیں مہنگا فروخت کیا ہے ؟ چھوڑ دو لے جائیں“
اس روایت سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں :
ایک یہ کہ غیر مسلم تاجر اپنا مال لے کر مسلمان علاقوں میں آتے رہے ہیں ۔ حتٰی روایت ہے کہ غیر مسلمان تاجروں کو جنگ کے زمانہ میں بھی خصوصی تحفظ حاصل تھا۔چنانچہ جابر سے نقل ہے کہ ہم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں مشرک تاجروں کو قتل نہیں کرتے تھے
دوسری یہ کہ یہ روایت اگر چہ صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ اہل مدینہ کا مال نہ فروخت کرنا پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے حکم کے تحت تھا جو آنحضرت (ص) نے پہلے صادر فرمایا ہو ،لیکن اس سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اہل مدینہ غیر مسلمانوں کے ہاتھ بنیادی و اساسی جنس فروخت نہیں کرتے تھے بلکہ ثمامہ کے قول ۔ جسے ہم آئندہ نقل کریں گے ۔ کے علاوہ اس روایت سے یہ استفادہ بھی ہوتا ہے کہ مسلمان اس بات کو ضروری سمجھتے تھے کہکم ازکم غذائی اشیاء کو دوسرے ملکوں منجملہ مشرکین کے ملکوں میں صادر کرنے کے سلسلہ میں حضرت رسول خدا (ص)سے اجازت حاصل کریں ،کم از کم ثمامہ اسی کے معتقد تھے
بخاری اور مسلم نے روایت کی ہے کہ جب ثمامہ اسلام لائے اور اہل مکہ نے (شماتت آمیز لہجہ میں ) ان سے کہا : کیا تم اسلام کی طرف مائل ہو گئے ؟ تو انھوں نے مشرکین مکہ کو جواب دیتے ہوئے کہا اس خد ا کی قسم جس کے قبضہ میں ثمامہ کی جان ہے ،مکہ کے اطراف سے ایک دانہ بھی تم تک نہیں پہنچتا جب تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اجازت نہ دیں یہ کہہ کر وہ اپنے مسکن کی طرف چلے گئے اور مکہ میں مال و غلہ لے جانے سے گریز کیا یہاں تک کہ قریش سختی اور مشقت میں مبتلا ہو گئے اور حضرت رسول خدا کی خدمت میں ایک خط لکھا اور ان سے اپنی قربت کا اظہار کرتے ہوئے درخواست کی کہ ثمامہ کو لکھیں کہ وہ ہمارے لئے غلہ لے آئے چنانچہ رسول خدا نے ایسا ہی کیا
اس روایت سے تین باتیں معلوم ہوتی ہیں ؛
ایک یہ کہ مسلمانوں نے مشرکوں کا اقتصاد ی محاصرہ کر رکھا تھ
دوسرے یہ کہ مسلمان ،اہل مکہ کو غلہ فروخت کرنے کے لئے حضرت رسول اکرم کی اجازت ضروری سمجھتے تھے
اور تیسری بات یہ کہ جنگی دشمنوں کو غلہ فروخت کرنا اور ان سے تجارتی رد وبدل کرنا جائز قرار دیا گیا ہے
مال وارد کرنے کی تشویق
ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
جو اسلامی حکومت کے ولی و حاکم ہیں ایک دستور العمل صادر فرماتے ہیں جس کے مطابق ضروری اور بنیادی مال و اشیاء وارد کرنے والوں کو اہم امتیازات بخشتے ہیں اور ان کے حق میں حکومت کے اوپر بڑی ذمہ داریاں عائد کرتے ہیں
۱ ۔حکومت تاجروں کے نقصانات کا جبران کرے اس میں ان تمام چیزوں کی ضمانت کو شامل سمجھنا چاہئے جو ان کے اختیارات سے باہر تلف ہو اور تباہ ہو جائے
۲ ۔جب تک وہ محل فروش سے باہر نہ جائیں حکومت ان کے تمام مخارج پرداشت کرے
البتہ ان امتیازات کے مقرر کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تاجر اس سے غلط فائدہ اٹھائیں اور احتکار کریں ،کہ روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:
”من حمل الیناطعا ما فهو فی ضیافتنا حتٰی یخرج و من ضاء له شئی فانا له ضامن ولا ینبغی فی سوقنا محتکر
“
”جو شخص ہماری طرف غلہ لے کر آئے جب تک وہ (علاقہ سے) خارج نہ ہو ہمارا مہمان ہے اور اگر کسی کی کوئی چیز ضائع ہو جائے تو میں اس کی ضمانت لیتا ہوں اور سزا وار نہیں ہے کہ ہمارے بازار میں کوئی محتکر و ذخیرہ اندوز ہو“
مذکورہ بالاامتیازات کے علاوہ مالک اشتر کے عہد نامہ جسے ہم پہلے مقالہ میں ذکر کر آئے ہیں ،تاجروں اور صنعت کاروں سے متعلق چار دوسرے فریضے بھی حکومت پر عائد ہوتے ہیں
۱ ۔ان کی راہوں اور گزرگاہوں کو پر امن بنان
۲ ۔ان کے حقوق ادا کرن
۳ ۔ان کے امور کی دیکھ ریکھ چاہے وہ دور ہوں یا نزدیک
۴ ۔نیز حضرت امیر المومنین علیہ لسلام نے مالک اشتر کو حکم دیا کہ ایک جگہ پر رہنے والے اور مستقل سفر کرنے والے تاجروں اور صنعت کار سے ان کی نصیحتیں اور نیک مشورے سنو اور انھیں نیکی اور بھلائی کی ہدایت کرو اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ:
الف) وہ منافع کے سرچشمہ ہیں
ب) معاشرہ کے رفاہ و آسائش کا ذریعہ ہیں
ج)یہ لوگ منافع اور اسباب رفاہ ،دور درازکے علاقوں خطرناک جگہوں خشکی ، دریا ،جنگلوں اور پیاڑی علاقوں سے شہروں میں وارد کرتے ہیں
درحقیقت یہوہ اہم امتیازات ہیں جو اسلام تاجروں اور صنعت گروں کو دیتا ہے ان کے علاوہ اسلام نے انھیں زمانہ جاہلیت کے رواج یعنی ٹیکس
جو اہل کتاب سے اپنائے گئے تھے اورانھیں تاجروں سے وصولا جاتا تھا ،معاف کر دیا ٹیکس کا وصولنا حرام اور وصولنے والوں کی سخت مذمت کی جیسا کہ ان روایات کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے جن کے بعض منابع کی طرف ہم آیندہ اشارہ کریں گے
تجارت پر ٹیکس
حدیث اور تاریخ کے جاننے والوں نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ وہ پہلا شخص جس نے تاجروں پر ٹیکس (مکس و عشر)مقرر کیا خلیفہ٘ دوم عمر بن خطاب تھے جھنوں نے مسلمانوں سے ایک چوتھائی عشر ،کفار ذمی سے آدھا عشر اور ان مشرکوں سے جوذمی نہیں تھے کامل عشر لیا۔
اس قسم کا ٹیکس شہر میں مقیم تاجروں اور باہر سے مال لانے والوں سے لیا جاتا تھ
ابن السائب ابن یزید نے کہا :”میں خلیفہ عمر کے زمانہ میں مدینہ کے بازار پرمنصوب کیا گیا تھا اور ہم ”نمط“سے ۱۰/۱ ، وصول کرتے تھے
اس بناپر ”زیاد بن جدیر “ سے نقل شدہ روایت جس میں وہ کہتے ہیں کہ ”ہم کسی مسلمان اور کسی معاہد کافر (ذمی )سے عشر نہیں لیتے تھے ،اور جب ان سے سوال کیا گیا :پس کن لوگوں سے عشر لیتے تھے ؟توکہا :
”کافر حربی تاجروں سے ،اسی طرح وصول کرتے تھے جیسے وہ ہم سے وصولاکرتے تھے جب ہم ان کے پاس جایاکرتے تھے “
ا س روایت کو خلیفہ عمرکے حکم ۔جس میں مسلمانوں ، کفارذمی اور کفار حربی سے عشر لینے کا دستور موجود ہے۔کے پہلے کی روایت پر محمول کرنا چاہئے
البتہ یہ اس صورت میں ہے کہ ہم یہ نہ کہیں کہ یہ روایت جعل شدہ ہے تاکہ پیغمبر کے حکم سے خلیفہ کی مخالفت کی توجیہ کریں کیوں کہ حضرت رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے پوری صراحت اور سختی کے ساتھ مسلمان اور کافر ذمی سے عشر لینے سے منع فرمایاہے
جیسا کہ عشار (عشر اصول کرنے والے )اور ٹیکس لینے والے کے سلسلہ میں بھی بہت زیادہ مذمت نقل ہوئی ہے
اور حضرت پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اس عمل سے روکنے اور اسے باطل قرار دینے کا سبب یہ تھا کہ ”لا نہ کان من عمل الجاھلیة“
وہ زمانہ جاہلیت کے اعمال میں سے تھا بلکہ جس طرح تحریف شدہ توریت اور انجیل جو اس وقت موجود ہیں بہت سے موارد میں اس کی صراحت کرتی ہیں اور مقریزی نے بھی اسی کی طرف اشارہ کیا ہے
کہ یہ عمل اہل کتاب سے اخذ کیا گیا ہے
محمد بن مسلم نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ حضرت نے اس سوال کے جواب میں کہ :کیا جزیہ کے علاوہ کوئی اور چیز بھی کافر ذمی کے اموال یا جانوروں میں سے لی جائے گی؟فرمایا: نہیں
،یوں ہی عشر لینے کی ممانعت کے سلسلہ میں بہت سے دلائل و شواہد پیش کئے جا سکتے ہیں جن کی یہاں گنجائش نہیں ہے
اب جب کہ ہم نے جان لیا کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے عشری ،ٹیکس وصول کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے تو ہمارے لئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ابن قدامہ سے نقل شدہ روایت صحیح نہیں ہے اس روایت میں آیا ہے کہ :
خلیفہ عمر نے ”انس ابن ملک “ کو کسی جگہ عشور کی وصولیابی کی نگرانی اور تصدیق کے لئے بھیجنا چاہا ،انس نے کہا :یا امیر !کیا مجھے ٹیکس و غیرہ کے سلسلہ میں منصوب فرما رہے ہیں ؟ عمر نے کہا :میں نے تمھارے ذمہ وہ کام کیا ہے جسے رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے میرے ذمہ کیا تھ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے عشور کے معاملات میرے ذمہ کئے اور مجھ حکم دیا کہ مسلمانوں سے ایک چوتھائی عشر ، کافر ذمی سے ادھا عشر او ر حربی سے پورے عشر وصول کروں
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ روایت اس بات کی توجیہ کی نیت سے جعل کی گئی ہے کہ اگر چہ حضرت رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے عشری ٹیکس (عشر اور مکس ) وصول کرنے سے تاکید کے ساتھ مکرر طور پر منع کیا تھا اور اس ٹیکس کا وجودآنحضرت(ص) کے زمانہ میں اور خلافت ابوبکر کے عہد میں نیز ایک زمانہ تک عمر کی خلافت کے عہد میں بھی نہ تھا اس کے باوجود عمر نے ہی اسے وضع کیا اور اور مقرر کیا ہے
کیا حضرت علی نے اپنی خلافت کے زمانہ میں عشر ی ٹیکس وصول کیا؟
منقول ہے کہ :خلافت عثمان کے زمانہ میں فاحشہ اور بدکار عورتوں سے عشر وصول کیا جاتا تھوہ ٹیکس حضرت علی علیہ السلام کے زمانہ میں ان کے پاس لایا گیا اور آپ نے اسے واپس کر دیا
یہ بات اس سے زیادہ دلالت نہیں کرتی کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اس خاص مورد میں عشر واپس کیا ہے اور ایسی کسی نص یا روایت کا وارد نہ ہونا جو اس پر دلالت کرے کہ حضرت علی علیہ السلام نے عشور کو رد کیا ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت اسے قبول کرنے پر مجبور تھے کیوں کہ اس کا رد کرنا ان کے ممکن نہ تھا اور آپ اسے منسوخ نہیں کر سکتے تھے جس طرح سے خمس
( پر پابندی ) اور نماز تراویح
کی ایجاد جس کی داغ بیل عمر نے ڈالی
اور دوسرے مورد میں بھی حضرت علی علیہ السلام مخالفت نہیں کر سکتے تھے
اگر حضرت علی علیہ السلام نے عشر لینا لغو و منسوخ کر دیا ہوتا تو یہ حکم ہم تک نقل ہوا ہوتا کیوں کہ یہ ایک اہم بات تھی جسے نقل کرنے کی بہت سی وجہیں ہو سکتی تھیں لیکن واضح ہے کہ حتٰی اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے مجبورا اس سلسلہ میں سکوت اختیار کیا ہے جبکہ مذکورہ روایت اس سکوت پر بھی دلالت نہیں کرتی ۔اس کے باوجود اس عدم منسوخی سے یہ استفادہ نہیں کیا جاسکتا کہ عام حالات میں ٹیکس (عشرو مکس) جائز ہے۔
ٹیکس، ضرورت کے تحت
ظاہر ہے کہ اگر ایسی ضرورت پیش آئے جس میں عشر یا اس سے کم یا زیادہ وصولنا لازم ہو جائے مثلا جب کوئی دشمن حرث و نسل کو تباہ و برباد کرنے لئے حملہ آور ہو ۔ جیسی کہ علامہ طباطبائی نے مثال دے ہے۔زبر دست اور تباہ کن قحط پڑجائے تو اسے فرض و مقرر کیا جاسکتا ہے البتہ یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ ضروری قوانین و مقررات زمان و مقدار کے اعتبار سے ضرورت کے زمانہ میں اس کی مقدار کے بقدر معین ہوتے ہیں اور ضرورت رفع ہوتے ہی انھیںاٹھالیا جانا چاہئے۔
یہ مطلب حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے اس کلام سے استفادہ کیا جاسکتا ہے جس میں حضرت علیہ السلام نے مالک اشتر کے عہد نامہ میں انھیں خراج دینے والوں کے خراج میں تخفیف کرنے اور ان سے خوش اسلوبی سے پیش آنے کی تاکید فرمائی ہے:
”معتمد فضل قوبهم، بما ذخرت عندهم، من اجمامک لهم، والثقة منهم بنا عودتهم من عدلک علیهم، فی رفقک بهم، فربما حدث من الامور ما اذا عولت فیه علیهم من بعد، احتملوه، طیبة انفسهم به، فان العمران محتمل ما حمّلته
“
تمھارے حسن سلوک اور ہمیشہ کے عادلانہ طرز عمل سے ان کو تم پر جو اعتماد و اطمینان پیدا ہوگا اور جسے ان (رعایا) کے پاس تم نے ذخیرہ کررکھا ہے اس پر تکیہ کرو۔چہ بسا ایسے حادثات پیش آئیں جن کے مشکلات کو حل کرنے کے لئے اگر تم ان پر اعتماد کرو اور ان سے مدد طلب کور تو وہ خوشی خوشی اسے برداشت کرلے جائیں گے کیونکہ جس قدر تم ملک کو آباد کرو گے اسی قدر عوام پر بوجھ ڈال سکتے ہو ۔ ۔ ۔
اورجو کچھ کتاب ”دعائم الاسلام“ میں آیا ہے اس عہد نامہ میں ارشاد ہوتا ہے:” ۔ ۔ ۔ رعایا کی زمینوں کو آباد کرنا،ان سے سہولت و نرمی کے ساتھ ٹیکس وصول کرنا، ان سے دوستی و محبت کا اظہاران کی تعریف اور ان کے در میان خیر و برکت کوفراوان کرنا ،آنکھوں کے نور میں اضافہ کا پسندیدہ اور سزاوار تر اور یہ روش ان سے زور و زبر دستی اور دباو٘کے ساتھ خراج و ٹیکس وصول کرنے سے زیادہ تمھارے لئے ممد و معاون ثابت ہوگی ۔کیو نکہ تمھارا کام ایسا ہے جس میں تمھیں عوام کے اعتماد کی ضرورت ہے اس روش کے ذریعہ ۔اپنے طرز عمل سے جو ان کا اعتماد تم نے حاصل کیا وہ تمھارے کام آئے گا “۔
تم سے رعایا کی محبت و دوستی اور ان کی خوش بینی اور تمھارے عادلانہ و نرم بر تاؤکی وجہ سے ان کا تم پر اعتماد نیز ان کا تمھارے عذر اور تمھاری مشکلات سے باخبر ہونا ،پیش آنے والے حوادث میں انھیں اتنی طاقت و توان بخشتا ہے کہ جو بوجھ ان پر ڈالتے ہو وہ اسے جی جان سے برداشت کر لیتے ہیں کہ جس قدر تم ان کے ساتھ عدالت کا برتاؤ کروگے اسی قدر ان میں تحمل پیدا ہوگا ۔
اس کے علاوہ بعض اہل تحقیق مندرجہ ذیل روایت کو ضرورت کے وقت ٹیکس (عشر کے بقدر یا اس سے کم یا زیادہ ) وصول کرنے کے جواز پر دلیل جانتے ہیں :
”عن معاذ بن کثیر ،قال :سمعت ابا عبدالله علیه السلام یقول:موسع علیٰ شیعتنا :ان ینفقوا مما فی ایدیهم بالمعروف ،فاذا قام قائمنا حرم علیٰ کلّ ذی کنز کنزه ، حتیٰ یاتیه به ، فیستعین به علیٰ عدوّه، و هو قول الله عزوجل فی کتابه :(و الذین یکنزون الذهب و الفضة ولا ینفقو نها فی سبیل الله ،فبشرهم بعذاب الیم
“
”معاذ بن کثیر سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام کو فرماتے سنا ”ہمارے شیعوں کے لئے آسان ہے کہ جو کچھ ان کے پاس ہے جائز راہ میں انفاق کریں جب ہمارا قائم ظہور کرے گا تو ہر صاحب دولت و خزانہ پر اس کی دولت اور خزانہ حرام کردے گا یہاں تک کہ وہ دولت اس کے پاس لے جائیں ۔پس وہ اس دولت کو اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کرے گا اور یہی خداوند عزوجل اپنی کتاب میں ارشاد فرماتا ہے :جو لوگ سونا چاندی اکٹھا کرتے ہیں اور اسے خدا کی راہ میں انفاق نہیں کرتے ہیں انھیں دردناک عذاب کی بشارت دے دو “
یہاں ہم ایک اشارہ یہ کرتے ہیں کہ اس روایت میں یہ نکتہ بھی موجود ہے کہ حضرت امام زمانہ معجزاتی ،غیر معمولی یا محیّر العقول طور سے دنیا پر غلبہ حاصل نہیں کریں گے بلکہ عام طریقہ اور معمولی طور پر دنیا کو زیر اقتدار لائیں گے ۔اس روایت سے یہ استفادہ ہوتا ہے ۔حضرت حجت وسیع پیمانہ پر جہاد و مبارزہ کا آغاز کریں گے اور وہ بھی اس حد تک کہ اس جہاد میں عام انسانوں کے جمع کئے ہوئے مال و دولت کی بھی ضرورت ہوگی ۔
یوں ہی خراج و ٹیکس کے جواز کے لئے اس روایت کو بھی دلیل قرار دیا جا سکتا ہے کہ چوپایوں اور غلاموں کے مالکوں نے عمر سے درخواست کی کہ ہم اپنے مال کا کچھ حصہ ادا کرنا چاہتے ہیں عمر نے حضرت علی علیہ السلام سے اس سلسلہ میں مشورہ کیا حضرت نے فرمایا :
”اما طابت انفسهم فحسن،ان لم یکن جزیة یوخذبها من بعدک ،اوما بمعنیٰ ذالک
“
”خود ان کی مرضی سے ہو تو بہتر ہے اگر جزیہ شمار نہ ہو اور تمھارے بعد وصولانہ جائے یا اسی مضمون سے ملتا جلتا ارشاد“
یہ سب مسلمان اور کافر ذمی سے ٹیکس و خراج وصول کرنے سے متعلق ہے اب رہا کافر حربی اور معاہدہ شدہ کافروں کا مسئلہ تو ان کے ساتھ بالمثل برتاؤ اور کافر حربی کے خون و مال کی حرمت کا قائل نہ ہونا ہی ان سے ٹیکس و خراج وصول کرنے کے جواز کی دلیل بن سکتا ہے کہ یہاں اس سلسلہ میں بحث کی گنجائش نہیں ہے ۔
____________________