نگرانی اور جانچ پڑتال
نگرانی
وہ چیزیں جن کی اسلام ،بازار اور تاجروں سے توقع رکھتا ہے نیز اسلامی احکام کی یہ خصوصیت کہ وہ مختلف حالات و شرائط پر محیط اور مال لین دین کے جزوی امور کو بھی اپنے دامن میں لئے ہوئے ہےںاور ان امور کے اجرا کے سلسلہ میں حکومت کے ذمہ داریوں کے پیش نظر (حکومت کی طرف سے)ہوشیاری کے ساتھ وسیع پیمانے پر نگرانی اور دقیق کنٹرول کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے جو مسلمان حاکم کو قوانین کے اجرا ء اور مقاصد و توقعات تک پہنچنے پر قادر بنائے اور وہ پوری سرگرمی سے اپنے تعمیری اور نتیجہ بخش فرائض انجام دے
ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ اس نگرانی اور دیکھ بھال کے چند پیلو ہیں ،ان میں سب سے پہلی جہت ۔ جیسا کہ ہم ابتدا میں بحث کر آئے ہیں ۔ دینے درونی اور ذاتی کنٹرول اور ذمہ داری سے فائدہ اٹھانا تھا اور یہ جو تاریخ میں آیا ہے کہ مسلمانوں کے حاکم حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام ہمیشہ بازار میں حاضر ہوتے اور بازار ،بازارگھوم کر تاجروں کو پند و نصیحت فرماتے اور انھیں ان کے فرائض یاد دلاتے تھے اسے ہم باطنی نگرانی اور دیکھ بھال سے فائدہ اٹھانے کی راہ میں کئے جانے والے اقدامات کہہ سکتے ہیں
زمخشری کہتا ہے کہ : ایک روز حضرت علی علیہ السلام قصابوں کے مجمع میں کھڑے ان سے فرما رہے تھے : اے قصابو !جو شخص گوسفند کی کھال میں ہوا بھرے ہم میں سے نہیں ہے
امیر المومنین علی علیہ السلام ہر روز بڑے سوارے ہی جب کہ آپ کا تازیانہ آپ کے دوش پر ہوتا کوفہ کے ایک ایک بازار میں گھومتے لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے اور انھیں ان کے فرائض سے آگاہ کرتے تھے اس کے بعد واپس آتے تھے اور لوگوں کے دوسرے مسائل سلجھانے میں مشغول ہو جاتے تھےبعض مآخذ میں اس روایت میں اتنااضافہ ملتا ہے کہ جب اہل بازار ان کو دیکھتے تھے تو کاموں سے اپنے ہاتھ کھینچ لیتے تھے کان ان کی طرف متوجہ کئے رہتے تھے اور نگاہیں،ان پر جمائے رہتے تھے تاکہ ان کی بات پوری ہو جائے جب ان کا کلام تمام ہو جاتا تو کہتے تھے اے امیر المومنین ہم نے سن لیا اور اطاعت کرتے ہیں۔
حضرت مختلف بازاروں مثلا خرمہ کے بازار ،اونٹوں کے بازار ،کپڑا فروشوں کے بازار ،مچھلی بازار اور دوسرے بازاروں میں تشریف لے جاتے اور لوگوں کو خدا سے ڈرنے صبر و تحمل سے کام لینے جھوٹ اور قسم کھانے اور لین دین میں اسے آسانسمجھنے سے پرہیز کرنے اپنا حق لینے اور دوسروں کو ان کا حق دینے ناپ تول کامل کرنے لین دین میں نیکی برتنے اور یہ کہ لوگوں کے مال کو اس کی قیمت سے گرانہ دینے اور گوسفند کی کھال میں ہوا نہ بھرنے کا حکم دیتے تھے
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کام سے صرف نظر کر لیتے اور چند روزلوگوںآزاد چھوڑ دیتے تھے اور اس کے بعد دوبارہ پلٹتے اور اپنے اقدام کی تکرار کرتے تھے
بازار پر نگرانی کا دوسرا پہلو بازاروں میں گشت لگانے اور (احکام و قوانین کی)ہر طرح کی خلاف ورزی یا ہر طرح کی ظلم و زیادتی کو دیکھتے ہی اس کے خلاف اقدام اور دخل اندازی سے متعلق تھاس قسم کی نگرانی اورکنٹرول کی بہت سی مثالیں ہیں کہ ہم نے اس بحث میں اس کا ایک بڑا حصہ نقل کیا ہے مثلا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ہشام کو سایہ میں اپنا مال فروخت کرتے ہوئے دیکھا تو انھیں اندھیرے میں مال فروخت کرنے سے منع کر دییا مثلا حضرت رسول خدا (ص)نے ایک تاجر کو حکم دیا کہ اپنا مال بازار کی ابتدائی جگہ پر فروخت کرے یا جیسے حضرت علی علیہ السلام نے قصہ بیان کرنے والے کو مسجد سے باہر نکال دیا ،یا جب رسول خدا (ص) نے ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے پاس سے گزرے تو حکم دیا کہ ان کا احتکار شدہ مال بازار میں لے جائیں (اور فروخت کے لئے لگائیں)یا مثلا حضرت علی علیہ السلام نے ان تمام گھروں اور دکانوں کو ویران کر دیا جو بازار کی جگہ بنائی کئی تھی اور احتکار شدہ انبار کو آگ لگا دی نیز وہ روایت جو آگے نقل ہوگی کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص)نے اناج کے ایک تھیلے میں اپنا ہاتھ داخل کردیا تاکہ اس میں ملاوٹ کی ہوئی چیز باہر نکال لیں یا اسی جیسی دوسری مثالیں جن کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں ہے اس کے باوجود ہم یہاں چند واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں
مظلوم و کمزور کا حق حاصل کرنا
جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیںحضرت علی علیہ السلام ہر روز ایک ایک بازار کا معائنہ کیا کرتے تھے اور ایک بار آپ نے ایک کنیز کو دیکھا کہ اس نے جو خرما خریدا تھا اس کے مالک نے نا پسند کیا اور بیچنے والا بھی اسے واپس نہیں لے رہا تھا لہٰذا وہ رو رہی تھی حضرت نے خرما فروش سے یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ منیز کسی دوسرے کی خادمہ ہے اور خود کوئی اختیار نہیں رکھتی ،اسے خرما واپس لے لینے کا حکم دیا لیکن خرما فروش نہ مانا اور اس نے حضرت کو پیچھے ڈھکیل دیا لیکن جب اسے یہ معلوم ہوا کہ جسے دھکا دیا وہ حضرت امیر المومنین ہیں تو خرما واپس لے لیا اور کنیز کا درہم اسے پلٹا دی
ایک دوسری روایت کے مطابق :
”انه لما سال (علیه السلام) المراة لیس تخاضم ذالک التما رعن شانها ،قالت: یا امیر المومنین ، اشتریت من هٰذا تمرا بدرهم ،و خرج اشغله ردیا ،و لیس مثل الذی رایت قال :فقال : رد علیهافابی ، حتیٰ قالها ثلاثا ،فعلاه با لدرة حتیٰ رد علیها ، و کان یکره ان یجلل التمر
“
یعنی:۔”جب حضرت علی علیہ السلام نے اس عورت سے جو خرما فروش سے جھگڑ رہی تھی نغیہ دریافت کیا تو اس نے کہا: اے امیر المومنین میں نے اس شخص سے ایک درہم میں خرما خریدا نیچے کے خرمے خراب تھے اور ان خرموں کے مانند نہیں تھے جنھیں میں نے دیکھا تھا“امام نے خرما فروش کو حکم دیا کہ ”واپس لے لو“ وہ نہیں مانا ۔امام نے تین مرتبہ حکم دیا اور اس نے لے لیا۔حضرت کو یہ برا لگتا تھا کہ اچھے خرمے اوپر اور خراب خرمے بیچے رکھے جائیں۔
۲ ۔نگرانی اور دیکھ بھال کے ضمن میں تعلیم بھی
امیر المومنین علیہ السلام بازار میں داخل ہوئے اور فرمایا: اے قصابو! تم میں سے جو بھی گوسفند کے اندر ہوا بھرے ہم میں سے نہیںہے“ ایک شخص جس کی پیٹھ حضرت کی طرف تھی بولا ”اس کی قسم جو سات پردوں میں پوشیدہ ہے،ہرگز ”نہیں“امام نے اس کی پیٹھ پر مارتے ہوئے فرمایا: ”اے قصاب کون سات پردوں میں چھپا ہوا ہے؟!“ اس نے کہا”اے امیر المومنین ،پروردگار عالم “فرمایا: تیری ماں سوگ میں بیٹھے،تجھ سے بھول ہوئی ہے خدا اور اس کی خلقت کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے۔۔۔“یہاں تک کہ روایت میں آیا ہے: اس شخص نے اپنی اس قَسَم کے کفارے کے بارے میں امام سے دریافت کیا تو امام نے فرمایا: اس نے اپنے پروردگار کی قَسَم نہیں کھائی ہے۔
۳ ۔کاموں کی دیکھ بھال کے ضمن میں فرامین بھی
فرمایا: اے درزی !پسر مردہ مائیں تیرے سوگ میں بیٹھیں،مضبوط سلو، ٹانکے اچھے لو اور گھنی سلائی کرو کہ میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سناہے ”خداوند عالم قیامت کے دن خیانت کرنے والے درزی کو اس عالم میں اٹھائے گا کہ وہ لباس جو اس نے دنیا میں سلاہے اور اس میں خیانت کی ہے اس کے تن پر ہوگا“باقی بچے ہوئے کپڑے کے ٹکڑوں سے پرہیز کرو کہ لباس کا مالک اس کا زیادہ حق دار ہے۔انھیں اپنے لئے محفوظ نہ رکھو تا کہ بعد میں انھیں با رسوخ افراد کو (جو کپڑا کم لائے ہیں) دے دو اور اس کے عوض ان سے بہترین اجرت و انعام حاصل کرو۔
۴ ۔بازار میں حضرت علی علیہ السلام کے کام
روایت میں ہے کہ حضرت تنہابازاروں میں تشریف لے جاتے
۔اور گم شدہ افراد کی رہنمائی کرتے تھے
۔کھوئے ہوئے افراد کو تلاش کرتے تھے
۔کمزوروں کی مدد کرتے تھے۔اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ: بار اٹھانے میں سامان ڈھونے والوں کی مدد کرتے تھے مال بیچنے والوں کی طرف سے گزرتے اور ان کے سامنے قرآن کھول کر اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے:
”تلک الدار الآخرة نجعلها للذین لا یریدون علوّاً فی الارض و لا فساداً
“
”ہم آخرت کا گھر ان لوگھوں کے لئے قرار دیں گے جو زمین میں بُرے نبنے اور فساد پھیلانے کا ارادہ نہ رکھتے ہوں“
بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت فرماتے تھے:
یہ آیت حکام اور اہل اقتدا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
نیز حضرت نے ایک شخص سے جو اپنا سال لئے ہوئے اسے فروخت کرنا چاہتا تھا فرمایا:
”قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم السماحة من الرّباح و حسب نص آخر : السماحة وجہ من الرباح“
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: معاملہ (مول بھاو) کرنے میں نرمی سے کام لینا منافع میں سے ہے (نفع بخش ہے) اور ایک دوسری روایت کے مطابق : تجارت و معاملہ کرنے میں سہولت و نرمی نفع بخش چیزوں میں سے ایک ہے۔
ملاوٹ اور دھوکہ دھڑی کی جانچ
”وقد روی : ان الرسول الاکرم (صلی الله علیه وآله وسلم) مر بصرّة طعام، فادخل یده فیها، فنال---ت بللاً، فقال: ما هذا یا صاحب الطعام ؟ فقال: اصابته السماء
یا رسول اللّٰه فقال: افلا جعلته فوق الطعام کی یراه الناس؟ من غش، فلیس منا
“
”روایت ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) ایک جگہ سے گزر رہے تھے وہاں گیہوں کے کچھ تھیلے پڑے ہوئے تھے حضرت نے ان میں ایک میں ہاتھ ڈالا تو کچھ گیہوں نم تھے آپ نے گیہوں کے مالک سے پوچھا یہ نمی کیسی ہے ؟اس نے کہا: یا رسول اللہ اس پر پانی برس گیا ہے فرمایا: تم نے اسے اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ لوگ اسے دیکھیں ؟ جو تجارت میں دھوکہ سے کام لیتا ہے ہم سے نہیں ہے“
ایک دوسری روایت میں آیا ہے :
”انه (ص) مدیده الی سیرة طعام فاخرج طعاما ردیا فقال لصاحب الطعام ،ما اراک الا وقد جمعت خیانة و منشاء للمسلمین
“
” آنحضرت (ص) نے گیہوں کے ایک تھیلے میں ہاتھ ڈال کر کچھ گیہوں باہر نکالے اور اس کے مالک سے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تم مسلمانوں کے ساتھ خیانت اور تجارت میں ملاوٹ اور دھوکہ کے مرتکب ہوئے ہو“
ان دو روایتوں سے یہ استفادہ ہوتاہے کہ مسلمانوں کا حاکم مال کے مالک کی مرضی کی رعایت کے بغیر اچانک جانچ پڑتال کر سکتا ہے یوں ہی اس روایت میں یہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ آنحضرت مال میں ملاوٹ اور جعل سازی سے کام لینے والے کو مسلمانوں سے خیانت کرنے والا جانتے ہیں اور یہ ملاوٹ و جعل سازی سے الگ ایک جرم ہے جسے ممنوع و مردود قرار دیاگیا ہے۔چاہے یہ جرم صرف اسی حد تک کیوں نہ ہوکہ بارش میں بھیگا ہوا مال خشک مال کے نیچے رکھ کر بیچا جائے۔
اچھے مال میں خراب مال ملانا
ایک دوسری روایت خراب اور ناپسند چیز کو اچھی اور مرغوب چیز میں ملانے سے منع کرتی ہے اور اس سے روکتی ہے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمدہ و مرغوب جنس الگ ہواور گھٹیا و ناپسند جنس الگ اور دونوں الگ الگ بیچی جائیں۔
حضرت رسول اکرم ایک شخص کے پاس سے گزرے جس نے اچھے اور خراب گیہوں ملاکر بیچنے کے لئے لگار کھے تھے۔ آپ نے اس سے فرمایا: تم نے ایسا کیوں کیا ہے اس نے عرض کی میں چاہتا تھا بک جائے پیغمبر اکرم (ص) نے اس سے فرمایا: ان دونوں کو جدا کرو ہمارے دین میں دھوکہ و ملاوٹ نہیں ہے ۔”ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا اسے الگ اور اسے الگ بیچو“
”و سال (صلی الله علیه وآله وسلم ) رجلا یبیع طعاما ،فقال : یا صاحب الطعام، اسفل هذا مثلاعلاه؟ قال نعم یا رسول الله فقال (صلی الله علیه وآله وسلم) : من غش المسلمین ، فلیس منهم
“
نیزحضرت نے ایک گیہوں فروش سے دریافت کیا ، اے گیہوں والے !کیا اس کے نیچے کا حصّہ بھی اوپر والے حصّہ کے مانند ہے؟
اس نے عرض کی:ہاں یا رسول اللہ ”تو آپ نے فرمایا: جو شخص مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ کرے وہ ان میںسے نہیں ہے“
مذکورہ باتوں سے تین مطلب واضح ہوتے ہیں۔
۱ ۔جانچ پڑتال جائز ہے چاہے بیچنے والا اجازت نہ دے
۲ ۔ضروری ہے کہ گھٹیا اور غیر مرغوب مال خریدار کی نگاہوں کے سامنے رہے ،اچھے مال کے نیچے چھپا یا نہ جائے۔
۳ ۔مرغوب اور عمدہ جنس غیر مرغوب جنس سے الگ کی جائے باہم ملائی نہ جائے کیونکہ اچھی اور گھٹیا جنس کا مخلوط کردینا بھی ایک طرح کا دھوکا اور خیانت ہے۔
بنابر این آجکل یہ تاجر جو حرکتیں انجام دے رہے ہیں اور اچھا مال الگ کرکے لوگوں کی نگاہوں کے سامنے رکھتے ہیں اور کھٹیا مال اس کے نیچے رکھتے ہیں یہ اسلامی قوانین کے سراسر خلاف ہے
جانوروں کے ذبح پر نگرانی اور خلاف ورزی پرسزا
بازار پر نگرانی کے ذیل میں ہم پہلے عرض کرآئے ہیں کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام بازاروں میں گشت کرتے ہوئے قصابوں کو گوسفند میں ہوا بھرنے سے منع فرماتے تھے اور اس سے اہم یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ، اہواز میں اپنی طرف سے منصوب قاضی ”رفاعہ بن شداد کو لکھتے ہیں
”اور قصابوں کو حکم دو کہ اچھے طریقہ سے (یعنی ذبح کے آداب کی رعایت کرتے ہوئے ) جانور ذبح کریں۔پس اگر ذبح کے وقت کوئی ضروری مقدار سے زیادہ کاٹ دے تو اسے سزا دو اور ذبیحہ کو کتوں کے آگے ڈال دو“۔
چنانچہ ابو سعید سے بھی ایک روایت ہے کہ پیغمبر اکرم ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو کھال اتار رہاتھا اور اس میں ہوا بھر رہا تھا آنحضرت نے فرمایا: جو ہمارے ساتھ دھوکہ کرے اور (جانور کے بدن سے کھال جدا کرنے کے لئے) بغیر ہاتھ دھلے ہوئے اس کی کھال میں ہاتھ ڈال دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کئے ہوئے جانور کی کھال میں ہوا بھر نے سے روکنے کے لئے باقاعدہ اس کی نگرانی ہوتی تھی اور پیغمبر اکرم جن لوگوں کو ایسا کرتے ہوئے دیکھتے تھے انھیں منع کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ آنحضرت کے فرامین و دستورات کی اطاعت کی جاتی تھی کیونکہ یہ حکم اس پیغمبر کی جانب سے ہوتے تھے جسے لوگ پیغمبر مانتے تھے اور ہرہو حاکم سے زیادہ اس کے احکام پر عمل ضروری سمجھتے تھے ،جیسا کہ پہلی حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ذبح کے وقت حیوان کے جو اعضاء نہ کٹنے چاہئیں ان سے روکنے کے لئے نگرانی کی جائے۔ یہ نگرانی اور دیکھ بھال ضروری ہے تاکہ خلاف ورزی کرنے والے کو سزا ملے اور جو جانور غلط ذبح ہوا ہے کتوں کے سامنے ڈال دیا جائے۔
نیکی کا نمونہ
چونکہ بازار ایسی جگہ ہے جہاں انسان مال و دولت اور اسے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی فکر میں رہتا ہے دنیا اس کے ہوش وحواس پر مسلط رہتی ہے اور وہ تجارت کے منافع کے نام سے دوسروں کے اموال پر قبضہ کرنے کے امکانات پر غور کرتارہتا ہےیہ ساری چیزیں انسان کی قدر وقیمت کو گھٹادیتی ہیں اور انسانی شعور و عطوفت کو کم کردیتی ہیں۔۔۔
اسی لئے ایسی جگہ پر خدا سے ارتباط اور اس کا ذکر ایک ایسی ضرورت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ اس بناپر ہے کہ انسان اس گندی فضا سے متاثر نہ ہو، ایسی فضا جو انسان کو تاجر سے فاجر (غلط کار) بناسکتی ہے اور فاجر کی جگہ جہنم ہے۔
بازا کی مذمت میں دوسری روایتیں بھی وارد ہوئی ہیں:
ان ہی میں پیغمبر اکرم سے ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا: زمین کی بدترین جگہیں اس کے بازار ہیں۔بازار ابلیس کی جولان گاہ ہے کہ صبح وہ وہاں اپنے پرچم کے ساتھ آتا ہے، اپنا نخت لگاتا ہے اور اپنے فرزندوں کو (چاروں طرف) روانہ کرتا ہے (جن کے ذمہ یہ کام ہوتے ہیں) کم فروشی،ناپ توں میں چوری یا اپنے مال کے بارہ میں جھوٹ بولنا وغیرہ
اس لئے خدا سے ارتباط کو باقی رکھنے کا مختلف طریقہ سے اہتمام کیا گیا ہے مثلا بازاروں میں خدا کے ذکر اور اس کی تسبیح کا استحباب کے ذریعہ حکم، اور اجر و ثواب کا وعدہ جو خداوند عالم نے بازاروں میں زیادہ سے زیادہ ذکر خدا کے عوض کیا ہے ۔
اور تین بار تکبیر کہنے اور خرید کے موقع
پر منقول دعائیں پڑھنے کا استحباب اور بازار
و دوکان
میں داخل ہوتے وقت منقول دعائیں پڑھنے کا استحباب ہے۔ان مواقع پر نقل شدہ دعاوں اور بازاروں میں گشت کے وقت حضرت امیر المومنین کے وعظ و نصیحت نیز دستورات کو اگر دیکھئے تو ان میں گہرا ربط نظر آتا ہے۔
لہذا ہم یہ تجویز پیش کرتے کہ حکومت کے ذمہ دار افراد ایسے اقدامات کریں کہ یہ دعائیںتاجروں اور سوداگروں کے درمیان شائع ہوں اور ان لوگوں میں انھیں پڑھنے کا شوق پیدا ہو۔اس کے علاوہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی تاسی کرتے ہوئے بازاروں میں ایسے افراد روانہ کریں جو اہل بازار کو پند و نصیحت کریں اور ان کے سامنے وہ مطالب و امور و دستور بیان کریں جنھیں حضرت امیر المومنین بازاروں میں بیان کیا کرتے تھے ۔یہ اقدام لوگوں پر مثبت اثر مرتب کر سکتا ہے اور اہل بازار پر مرتب ہونے والے بازار کے منفی اثرات کو کم کرسکتا ہے۔
____________________