تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي0%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 313
مشاہدے: 133183
ڈاؤنلوڈ: 4123


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 133183 / ڈاؤنلوڈ: 4123
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد 1

مؤلف:
اردو

نے انہيں اس ايثار و قربانى پرمجبور كيا _

حضرت ابوطالب(ع) كے ايمان كے متعلق شك و شبہ پيدا كرنے ميںجو محرك كار فرماتھا اس كا مذہبى عقيدے سے زيادہ سياسى پہلو تھا، بنى اميہ كى سياسى حكمت عملى كى بنياد چونكہ خاندان رسالت(ص) كے ساتھ دشمنى اور كينہ توزى پر قائم تھى اسى لئے انہوںنے بعض جعلى روايات پيغمبر اكرم (ص) سے منسوب كركے حضرت ابوطالب (ع) كو كافر مشہور كرنے ميںكوئي دقيقہ فروگذاشت نہ كيا وہ اس بات كو كہ وہ ايمان نہيں لائے تھے، فروغ ديكر لوگوں كو يہ باور كرانا چاہتے تھے كہ ان كے فرزند عزيز حضرت على (ع) كو عظمت و فضيلت كے اعتبار سے دوسروں پر كوئي فوقيت و برترى حاصل نہيں ہے اور اس طرح آپ (ع) كى شخصيت داغدار ہوسكے اگر حضرت ابوطالب (ع) حضرت على (ع) كے والد بزرگوار نہ ہوتے تو وہ ہرگز اس بات كا اتنا زيادہ چرچا نہ كرتے اور نہ ہى اس قدر نماياں طور پر اتنا جو ش وخروش دكھاتے_

كوئي بھى ايسا انصاف پسند شخص جسے تاريخ اسلام سے معمولى واقفيت ہوگى اور پيغمبر اكرم (ص) كے اس عظيم حامى اور مددگاركى جدو جہد سے لبريز زندگى كے بارے ميں علم ركھتا ہوگا وہ اپنے دل ميں حضرت ابوطالب (ع) كے بارے ميں ذرا بھى شك وشبہ نہ لائے گا جس كى دو وجوہات ہيں:

اول:_ ممكن ہے كوئي شخص قومى تعصب كى بناپر، كسى دوسرى شخص يا قبيلے كى حمايت و حفاظت كى خاطركچھ عرصے تك مرنے مارنے پر آمادہ ہوجائے ليكن يہ اس امر كا باعث نہيں ہوسكتا كہ وہ شخص چاليس سال تك نہ صرف حمايت وپشت پناہى كرے بلكہ اس شخص كا پروانہ وار شيفتہ بھى ہونيز اپنے جان سے بھى پيارے بيٹے كو اس پر قربان كردے_

دوم:_ يہ كہ حضرت ابوطالب (ع) كے اقوال و اشعار ، پيغمبر (ص) اور آئمہ معصومين عليہم السلام كى

۱۰۱

احاديث اور روايات اس وہم وگمان كى ترديد كرتے ہيں اور اس بات پر متفق ہيں كہ رسول خدا (ص) كى حمايت كا اصل محرك ان كا وہ راسخ عقيدہ اور محكم ايمان تھا جو انہيں رسول (ص) كى ذات بابركت پر تھا_

چنانچہ امام زين العابدين عليہ السلام كى محفل ميں حضرت ابوطالب (ع) كا ذكر آگيا تو آپ (ع) نے فرمايا :

''مجھے حیرت ہے كہ لوگوں كو حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان پر كيوں شك و تردد ہے كيونكہ كوئي ايسى عورت جس نے دين اسلام قبول كرنے كا شرف حاصل كرليا وہ اپنے كافر شوہر كے عقد ميں كيسے رہ سكتى ہے ، حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ عليہا ان اولين خواتين ميں سے تھيں جودين اسلام كى سعادت سے مشرف ہوئيں چنانچہ جب تك حضرت ابوطالب (ع) زندہ رہے وہ ان سے جدا نہ ہوئے''_

حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان سے متعلق سوال كيا گيا تو آپ (ع) نے فرمايا :

''اگر حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان كو ترازو كے ايك پلڑے ميں ركھاجائے اور دوسرے پلڑے ميں ديگر لوگوں كے ايمان كو ركھ كر تولاجائے تو يقينا حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان كا پلڑا بھارى رہے گا_ كيا آپ لوگوں كو اس بات كا علم نہيں كہ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے بعض لوگوں كو يہ حكم ديا تھا كہ وہ حضرت ابوطالب (ع) كى جانب سے فريضہ حج ادا كريں''_(۲۳)

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے رسول خدا (ص) كى حديث بيان كرتے ہوئے فرمايا :

''حضرت ابوطالب (ع) كا ايمان اصحاب كہف كے ايمان كى طرح تھا كہ وہ لوگ دل سے

۱۰۲

توايمان لے آئے تھے مگر زبان سے اس كا اظہار نہيں كرتے تھے ان كے اس عمل كا خداوند تعالى انہيں دو گنا اجر دے گا''_

دين اسلام كى ترويج و تبليغ كےلئے حضرت ابوطالب (ع) كى خدمات كے بارے ميں ابن ابى الحديد لكھتا ہے كہ :

''كسى شخص نے حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان سے متعلق كتاب لكھى اور مجھ سے كہا كہ اس كے بارے ميں اپنى رائے كا اظہار كروں اور اس پر اپنے ہاتھ سے كچھ لكھوں، ميں نے كچھ اشعار اس كتاب كى پشت پرلكھ ديئے جن كا مضمون يہ تھا:

وَ لَولَا اَبُوُطَالبٌ وَابنُهُ

لَمَا مُثّلَ الدّينُ شَخصَاً فَقَاما

فَذاك بمَكَّةَ آوَى وَحامى

وَهذَا بيَثرَبَ جَسَّ الحماما

اگر ابوطالب (ع) اور ان كے فرزند حضرت على (ع) نہ ہوتے تو دين اسلام ہرگزقائم نہيں ہوسكتا تھا باپ نے مكے ميں پيغمبر (ص) كى حمايت كى اور بيٹا يثرب ميں دين كى حمايت ميں موت كى سر حد تك آگے بڑھ گيا_

۱۰۳

سوالات

۱_رسول خدا (ص) كى ملاقات سے مشرف ہونے كيلئے قريش لوگوں كوكس طرح منع كيا كرتے تھے اس كى كوئي مثال پيش كريں؟

۲_ مشركيں نہيں چاہتے تھے كہ لوگ تلاوت قرآن سنيں ، اس مقصد كے حصول كيلئے انہوں نے كيا طريقہ استعمال كيا؟

۳_رسول خدا (ص) نے اصحاب كو ترك وطن كركے حبشہ جانے كى اجازت كس وجہ سے دى ؟

۴_ كيا وجہ تھى كہ مسلمانوں نے اپنى پناہ كيلئے ملك حبشہ كا ہى انتخاب كيا؟

۵_وطن ترك كرنے والوں كا پہلا گروہ كس تاريخ كو حبشہ كى جانب روانہ ہوا اس گروہ ميں كتنے لوگ شامل تھے اور ان كى سرپرستى كون سے صحابى كررہے تھے؟

۶_ ہجرت حبشہ كے كيا فوائد اور بركات تھے؟

۷_قريش كى طرف سے مسلمانوں كے اقتصادى محاصرہ كے كيا محركات تھے؟ اوريہ محاصرہ كتنے عرصے تك جارى رہا؟

۸_ پيغمبر اكرم (ص) نے شعب ابوطالب سے كب اور كس طرح رہائي حاصل كى ، اس كى تاريخ بتايئے؟

۹_ مكہ كے باہر سے جو پہلا وفد رسول خدا (ص) كے پاس مذاكرہ كےلئے آيا تھا اس كا تعلق كس ملك سے تھا؟ اور اس مذاكرے كا كيا نتيجہ برآمد ہوا؟

۱۰_ بعثت كے دسويں سال كو كيوں (عام الحزن) كہاجاتا ہے؟

۱۱_حضرت ابوطالب(ع) كے ايمان سے متعلق دشمنوں نے جو شك وشبہات پيدا كئے اس كے كيا محركات تھے؟

۱۰۴

حوالہ جات

۱_السيرة النبويہ ج ۲ 'ص ۲۵_۲۸_

۲_السيرة النبويہ ' ج ۱ ' ص۳۲۱_

۳_سورہ فرقان آيہ ۵ و ۶_

۴_سورہ فصلت آيہ ۲۶_

۵_آيتى مرحوم نے اپنى تاريخ ميں پانچ ايسے افراد كا نام ذكر كيا ہے جنہوں نے قريش كے كمر توڑ دبائو كى وجہ سے دين اسلام كو ترك كرديا اور دوبارہ بت پرستى شروع كردى _ ملاحظہ ہو تاريخ پيامبر (ص) ص ۱۲۸ _۱۲۹_

۶_ السيرة النبويہ ' ج۱ ' ص ۳۴۴_

۷_السيرة النبويہ ج' ص ۳۴۴_۳۶۲_

۸_ البتہ اس معاہدہے كے مندرجات كى روسے اسے اقتصادى نا كہ بندى كى بجائے صرف '' بائيكاٹ ''كہنا زيادہ مناسب رہے گا_ مترجم_

۹_السيرة النبويہ ابن ہشام ج ۱ ص ۳۷۵ ' والكامل فى التاريخ ج ۲ ' ص ۸۷_

۱۰_ملاحظہ ہو الصحيح من سيرة النبى (ص) ج ۲ ص ۱۰۷_

۱۱_السيرة النبويہ ج ۱ ص ۳۷۷ والسيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۳۳۷_

۱۲_الطبقات الكبرى ج ۱ ص ۲۰۹' والسيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۳۳۷_

۱۳_الصحيح من سيرة النبى (ص) ج ۲ ص ۱۰۸ والسيرة الحلبيہ ج ۱ ' ص ۳۳۷_

۱۴_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۱۳ ص ۲۵۴_

۱۵_الصحيح من سيرة النبى (ص) ج ۲ ص ۱۰۹_

۱۶_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۶ وتاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۳۱_۳۲_

۱۷_الطبقات الكبرى ج ۱ ص ۲۱۰_

۱۸_مصباح المتہجد اعمال نيمہ رجب ص ۷۴۱_

۱۹_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۳۲ والسيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۳۴۵_

۱۰۵

۲۰_الصحيح من سيرة النبي(ص) ج ۲ ص ۱۲۸_

۲۱_تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۳۵_

۲۲_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۳۴۷_

۲۳_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۱۴ ص ۶۸_۷۰ والغدير ج ۷ ص ۳۸۰_

۲۴_ شرح نہج البلاغہ ج ۱۴ ص ۸۳_

۱۰۶

سبق۷:

معراج اوريثرب كے لوگوں كى دين اسلام سے آشنائي

۱۰۷

معراج

تاريخ اسلام كے بعثت سے عہد ہجرت تك كے دورميں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان ميں سے ايك واقعہ معراج ہے ،يہ كب پيش آيا اس كى صحيح و دقيق تاريخ كے بارے ميں اختلاف ہے ، بعض نے لكھا ہے كہ يہ بعثت كے چھ ماہ بعد اور بعض كى رائے ميں بعثت كے دوسرے ' تيسرے ' پانچويں ' دسويں يا گيارہویں حتى كہ بارہويں سال ميں رونما ہوا _(۱)

جب ہم رسول اكرم (ص) كى معراج كے بارے ميں گفتگو كرتے ہيں تو ہمارے سامنے دو عنوان آتے ہيں ، ان ميں سے ايك اسراء ہے اور دوسرا معراج_

واقعہ اسراء يا رات كے وقت آنحضرت (ص) كے مسجد الحرام سے مسجد الاقصى تك كے سفر كے بارے ميں قرآن مجيد كا صريح ارشاد ہے :

( سُبحَانَ الَّذيْ أَسرَى بعَبده لَيلًا منَ المَسجد الحَرَام إلَى المَسجد الأَقصَى الَّذيْ بَارَكنَا حَولَهُ لنُريَهُ من آيَاتنَا ) _

''پاك ہے وہ ذات جو راتوں رات اپنے بندے كو مسجد الحرام سے مسجد اقصى تك لے گئي جس كے ماحول كو اس نے بركت دى تاكہ اسے اپنى كچھ نشانيوں كا مشاہدہ كرائے''_

جملہ ''سُبْحنَ الَّذيْ'' اس حقيقت كو بيان كر رہا ہے كہ يہ سفر خداوند تعالى كى قدرت كے سائے ميں انجام پذير ہوا_

۱۰۸

جملہ''ا َسْرى بعَبْده لَيْلاً'' سے يہ مطلب واضح ہے كہ:

۱_ سير كرانے والى ذات خداوندكى تھى _

۲_ يہ سفر رات كے وقت ہوا ،يہ مفہوم لفظ ''لَيْلاً'' كے علاوہ لفظ ''اَسْرَى '' سے بھى سمجھ ميں آتا ہے كيونكہ عربى زبان ميں يہ لفظ رات كے وقت كے حركت (سفر) كے مفہوم ميں استعمال ہوتا ہے _

۳_ يہ ''سفر'' جسمانى تھا اور اگر فقط روحانى ہوتا تو اس كے لئے لفظ ''بعَبْدہ'' كے ذكر كى ضرورت پيش نہ آتي_

مذكورہ آيت كى رو سے اس ''سفر '' كا آغاز ''مسجد الحرام'' سے ہوتا ہے اور اختتام ''مسجد الاقصى '' پر اور آخر ميں اس ''سفر'' كا مقصديہ بتايا گيا ہے كہ اس سے خداوند تعالى كى نشانياں دكھانا مقصود تھا_

''معراج'' اور ملكوت اعلى كى سيربہت سے كا واقعہ بھى محدثين اور مؤرخين كى نظر ميں اسى رات ميں ہى وقوع پذيرا ہو(۳)

ہر چند مذكورہ بالا آيات سے مكمل طور پر يہ مفہوم واضح نہيں ہوتا ليكن سورہ ''النجم'' كى چند آيات اور اس واقعہ سے متعلق بہت سى روايات كى مدد سے يہ بات پايہ ثبوت كو پہنچ چكى ہے_

چنانچہ علامہ مجلسى متعلقہ آيات بيان كرنے كے بعد معراج كے بارے ميں لكھتے ہيں:

''رسول خدا (ص) كا بيت المقدس كى جانب عروج كرنا اور وہاں سے ايك ہى رات ميں آسمانوں پر پہنچنا اور وہ بھى اپنے بدن مبارك كے ساتھ ايك ايسا موضوع ہے جس كے وقوع پر آيات اور متواتر شيعہ سنى روايات دلالت كرتى ہيں ، اس حقيقت سے انكار كرنا يا

۱۰۹

اس حقيقت كى روحانى معراج كى تاويل پيش كرنا يا اس واقعے كا خواب ميں رونما ہونے كا عقيدہ ركھنا اس بات كى غمازى كرتا ہے كہ كہنے والے نے پيشوايان دين (ع) كى كتابوں كا دقيق مطالعہ نہيں كيا ہے يا يہ بات اس كے ايمان كى سستى اور اعتقاد ى كمزورى پر مبنى ہے''_(۴)

حضرت ابوطالب(ع) كى وفات كے بعد قريش كا رد عمل

حضرت ابوطالب (ع) كى رحلت كے بعد قريش اورزيادہ بے باك اورگستاخ ہوگئے اور وہ رسول خدا (ص) كوپہلے سے كہيں زيادہ آزار و تكليف پہنچانے لگے دين اسلام كى تبليغ كے حوالے سے انہوں نے آپ (ص) پر سخت پابندياں لگاديں اور اس كا دائرہ بہت ہى محدود كرديا چنانچہ نوبت يہاں تك آپہنچى كہ آپ (ص) حج كے زمانے كے علاوہ اپنے دين كى تبليغ نہيں كرسكتے تھے_

رسول خدا(ص) كا يہ فرمان كہ :جب تك ابوطالب(ع) زندہ رہے قريش مجھے ايسى گزند نہيں پہنچا سكے جو ميرے لئے سخت ناگوار ہوتي_(۵) اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت ابوطالب (ع) كى وفات كے بعد قريش كى جانب سے ايذا رسانى كى وارداتوں ميں اضافہ ہوگيا تھا مگر ان سختيوں اور پابنديوں كے باوجود رسول خدا(ص) حرام مہينوں ميں ، فرصت كو غنيمت سمجھتے اور اس فرصت سے زيادہ سے زيادہ فائدہ اٹھاتے چنانچہ حج كے تين ماہ كے دوران ''عكاظ '' ''مجنّہ'' اور ''ذوالمجاز'' كے بازاروں كے علاوہ ديگر جن مقامات پر بھى لوگ جمع ہوتے رسول خدا (ص) ان كے پاس تشريف لے جاتے وہاں سرداران قبائل نيز سربرآوردہ اشخاص سے ملاقات كرتے اور ہر ايك كو آسمانى دين كى دعوت ديتے_

۱۱۰

ان ملاقاتوں ميں ہر چند رسول خدا (ص) كى مخالفت كى جاتى اور ان كے بعد سرداران قبائل كا رد عمل ظاہر ہوتا ليكن مخالفت اور رد عمل كے باوجود يہ ملاقاتيں نہايت ہى مفيد اور ثمر بخش ثابت ہوئيں كيونكہ مكہ ميں داخل ہونے والے ہر قبيلے كے ہر فرد تك كسى نہ كسى طرح رسول خدا (ص) كى دعوت دين كا پيغام پہنچ جاتا چنانچہ فريضہ حج كى ادائيگى كے بعد جب وہ لوگ واپس اپنے اپنے گھروں كو جاتے تو وہ اس دعوت و ملاقات كو دوران حج كے تازہ ترين اہم واقعے يا خبر كى صورت ميں دوسروںكو بيان كرتے_

قبيلہ بنى عامر بن صعصعہ ان مشہور قبائل ميں سے تھا جس كے افراد كو رسول خدا (ص) نے اسلام كى دعوت دي_

''بيحرة ابن فراس'' كا شمار اس كے قبيلے كے سركردہ اشخاص ميں ہوتا تھا اسے رسول اكرم (ص) كى شہرت اورحالات كے بارے ميں كم وبيش علم تھا اس نے جب يہ بات سنى تو كہنے لگا : ''خدا كى قسم اگر قريش كے اس نوجوان كو ميںحاصل كرلوں تو اس كے ذريعہ سے ميں پورے عرب كو نگل جائوں گا''_(۶)

چنانچہ يہ سوچ كر وہ رسول خدا (ص) كے پاس آيا اور كہنے لگا كہ اگر ہم تمہارے ہاتھ پر بيعت كرليں اور تمہارا خدا ہميں تمہارے مخالفين پر كامياب بھى كردے تو كيا تمہارے انتقال كے بعد تمہارى قوم كى رہبرى و سردارى ہميں حاصل ہوجائے گي؟ اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا : ''يہ خدا كا كام ہے وہ جسے اہل سمجھے گا اسے جانشين مقرر كرے گا''_(۷)

بحيرہ نے جب رسول اللہ(ص) سے يہ جواب سنا تو كہنے لگا كہ ہم تمہارى خاطر عربوں سے جنگ كريں اور جب كامياب ہوجائيں تو قوم كى رہبرى دوسروں كے ہاتھوں ميں چلى جائے ايسى جنگ اورحمايت سے ہم بازآئے_(۸)

۱۱۱

رسول اكرم (ص) كى اس گفتگو كے اہم نكات

۱_عام مشاہدہ ہے كہ سياست دان حصول اقتدار سے قبل عوام كے ساتھ بڑے بڑے وعدے كرتے ہيں ، جنہيں بعد ميں وہ كبھى پورا نہيں كرتے ليكن پيغمبر اكرم (ص) نے سياست دانوںكى روش كے برعكس قبيلہ ''بنى عامر'' كى اس شرط پر كسى قسم كا وعدہ نہيں كيا_

۲_قول پيغمبر (ص) اس حقيقت كا آئينہ دار ہے كہ مسئلہ امامت امر الہى پر منحصر ہے اور خداوند تعالى جسے اس كا اہل سمجھے گا اسے پيغمبر (ص) كا جانشين مقرر كرے گا_

يثرب كے لوگوں كى دين اسلام سے آشنائي

جس وقت بنى ہاشم اور بنى مطلب شعب ابوطالب ميں محصور تھے اس وقت يثرب سے اسعد ابن زرارہ اور ذكوان ابن عبدالقيس قبيلہ خرزج كے نمائندے كى حيثيت سے مكہ ميں اپنے حليف عتبة بن ربيعہ كے پاس آئے اور قبيلہ اوس سے جنگ كے سلسلے ميں اس سے مدد چاہي_

''عتبہ '' نے مدد كرنے سے معذرت كرتے ہوئے كہا كہ مكہ اور مدينہ كے درميان فاصلہ كے طويل ہونے كے علاوہ ہم يہاں ايسى ايك مصيبت ميں گرفتار ہيں كہ جس كى وجہ سے ہم كسى اور كام ميں ہاتھ ڈال ہى نہيں سكتے اس نے ''نبى اكرم (ص) '' اور آپ(ص) كى تبليغى سرگرميوں كے واقعات قبيلہ ''خزرج'' كے نمائندوں كو بتائے اور تاكيد سے كہا كہ وہ آنحضرت (ص) سے ہرگزملاقات نہ كريں كيونكہ وہ ايساجادوگر ہے جو اپنى باتوں سے لوگوں كو مسحور كرليتا ہے اس كے ساتھ ہى اس نے ''اسعد'' كو حكم ديا كہ كعبہ كا طواف كرتے وقت وہ اپنے كانوں ميں

۱۱۲

روئي ٹھونس لے تاكہ پيغمبر (ص) كى آواز اس كے كانوں تك پہنچے_

''اسعد'' طواف كعبہ كے ارادے سے ''مسجد الحرام'' ميں داخل ہوا وہاں اس نے ديكھا كہ پيغمبر اكرم (ص) ''حجر اسماعيل'' ميں تشريف فرماہيں ، اس نے خود سے كہا كہ ميں بھى كيسا نادان ہوں بھلا ايسى خبر مكہ ميں گرم ہو اور ميں اس سے بے خبر رہوں ميں بھى تو سنوں كہ يہ شخص كيا كہتا ہے تاكہ واپس اپنے وطن جاكر لوگوں كو اس كے بارے ميں بتائوں ، رسول خدا(ص) كى باتيں سننے كى خاطر اس نے روئي اپنے كانوں سے نكال دى اور حضور(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا آنحضرت نے اسے دين اسلام قبول كرنے كے دعوت دى جسے اس نے قبول كيا اور ايمان لے آيا اس كے بعد ''ذكوان'' نے بھى دين اسلام قبول كرنے كا شرف حاصل كرليا_(۹)

اہل يثرب ميں يہ پہلے دو افراد تھے جو ايمان لائے اور دين اسلام سے مشرف ہو كر واپس اپنى قوم ميں پہنچے_

دوسرے مرحلے ميں يثرب والوں سے قبيلہ '' خرزج'' سے تعلق ركھنے والے چھ افراد بعثت كے گيارہویں سال ميں دوران حج پيغمبر اكرم (ص) كى ملاقات سے مشرف ہوئے(۱۰)

رسول خدا(ص) نے انہيں دين اسلام كى دعوت دى اور قرآن مجيد كى چند آيتوں كى تلاوت فرمائي، وہ رسول خدا(ص) كى ملاقات كا شرف حاصل كركے اور آپ (ص) كى زبان مبارك سے بيان حق سن كر ايك دوسرے سے كہنے لگے :'' خدا كى قسم يہ وہى پيغمبر (ص) ہے جس كے ظہوركى خبر دے كر يہودى ہميں ڈرايا كرتے تھے آؤ پہلے ہم ہى دين اسلام قبول كر ليں تاكہ ايسا نہ ہو كہ اس كار خير ميں وہ ہم پر سبقت لے جائيں ''يہ كہہ كر ان سب نے دين اسلام اختيار كرليا جب وہ واپس يثرب گئے تو انہوں نے اپنے عزيز واقارب كو بتايا كہ انہوں نے كيسے رسول

۱۱۳

خدا (ص) سے ملاقات كا شرف حاصل كيا اور انہيں بھى دين اسلام قبول كرنے كى دعوت دي_

انكى سرگرميوں كى وجہ سے رسول خدا (ص) اور اسلام كا چرچا اہل يثرب ميں ہونے لگا اور كوئي گھر ايسا نہ تھا جہاں رسول خدا (ص) اور دين اسلام كا تذكرہ نہ ہو_

پہلى بيعت عقبہ

تيسرے مرحلے ميں اہل يثرب كے بارہ اشخاص جن ميں سے دس كا تعلق قبيلہ ''خزرج'' سے تھا اور دو كا قبيلہ ''اوس'' سے تھا، بعثت كے بارھويں سال ميں ''عقبہ منا(۱۱) '' ميں رسول خدا (ص) كى ملاقات سے شرف ياب ہوئے ان بارہ اشخاص ميں سے جابر ابن عبداللہ كے علاوہ پانچ افراد وہى تھے جو ايك سال قبل بھى رسول اكرم (ص) كى خدمت ميں حاضر ہونے كا شرف حاصل كرچكے تھے_

ان اشخاص نے دين اسلام قبول كرنے كے بعد پيغمبر اكرم (ص) كے دست مبارك پر ''بيعت نسائ''(۱۲) كے طريقے پر بيعت كى اور عہد كيا كہ خدا كے ساتھ كسى كو شريك نہ ٹھہرائيں گے ، چورى سے باز رہيں گے، زنا كے مرتكب نہ ہوں گے، اپنى اولاد كو قتل نہيں كريں گے، ايك دوسرے پرجھوٹے الزام اوربہتان نہ لگائيں گے نيز كار خير ميں رسول اللہ (ص) كا ہر حكم بجالائيں گے_

رسول خدا (ص) نے معصب ابن عمير كو ان كے ہمراہ يثرب كے طرف روانہ كيا تاكہ وہاں پہنچ كر وہ دين اسلام كى تبليغ كريں اور لوگوں كو قرآن مجيد كى تعليم ديں اس كے ساتھ ہى وہ آنحضرت (ص) كو شہر كى حالت كے بارے ميں اطلاع ديں نيز يہ بتائيں كہ وہاں كے لوگ دين اسلام كا كس طرح استقبال كر رہے ہيں _''مصعب '' وہ پہلے مسلمان مہاجر تھے جو

۱۱۴

يثرب پہنچے اور روزانہ با جماعت نماز كا انہوں نے وہاں انتظام كيا _(۱۳)

دوسرى بيعت عقبہ

يثرب ميں رسول خدا (ص) كے نمائندے كى موجودگى نيزخزرجى اور اوسى قبائل كے افراد كى بے دريغ حمايت اس امر كا باعث ہوئي كہ ان قبائل كے بہت سے لوگ دين اسلام كے شيدائي اور مجذوب ہوگئے_

چنانچہ اسى وجہ سے چوتھے مرحلے اور بعثت كے بارہويں سال ميں تقريباً پانچ سو عورتوں اور مردوں نے خود كو حج كے لئے آمادہ كيا ان ميں تہتر افراد مسلمان اور دو مسلم خواتين شامل تھيں_

قبل اس كے كہ اہل يثرب سفر پر روانہ ہوں ''معصب'' مكہ كى جانب روانہ ہوئے اور اپنے سفر كى پورى كيفيت پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں پيش كي_

يثرب كے مسلمانوں نے مناسك حج (حج كے مخصوص اعمال) انجام دينے كے بعد بارہ ذى الحجہ بوقت نصف شب عقبہ منا ميں رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہونیکا شرف حاصل كيا _

رسول خدا (ص) نے اس مرتبہ ملاقات كے دوران قرآن مجيد كى چند آيات حاضرين كے سامنے تلاوت فرمائيں اور انہيں دين اسلام قبول كرنے كى دعوت دى اس ضمن ميں آنحضرت (ص) نے حاضرين سے فرمايا: '' ميں تم سے اس بات پر بيعت كرتا ہوں كہ جس طرح تم اپنے بيوى بچوں كى حفاظت كرتے ہو ميرى بھى حمايت كروگے ''_ انہوںنے آنحضرت (ص) كى بات سے اتفاق كيا اور يہ عہد كيا كہ وہ آپ (ص) كى حمايت كريں گے آخر ميں رسول خدا (ص) كے

۱۱۵

حكم سے ان ميں سے بارہ افراد''نقيب''(۱۴) مقرر كئے گئے تاكہ وہ لوگ اپنى قوم كے حالات كى نگرانى كرسكيں_

''خزرج'' اور ''اوس'' جيسے طاقتور قبائل كے ساتھ عہدو پيمان استوار كرنے نيز دين اسلام كے لئے جديد مركز قائم ہوجانے كے باعث اب رسول اكرم (ص) اور مسلمانوں كيلئے نئي سازگار صورت حال پيدا ہوگئي تھي_

اس عہد وپيمان كے بعد پيغمبر اكرم (ص) كى جانب سے مسلمانوں كو اجازت دے دى گئي كہ وہ چاہيں تو يثرب كو ہجرت كرسكتے ہيں ، اس ضمن ميں آپ (ص) نے فرمايا :'' خداوند تعالى نے تمہارے لئے ايسے بھائي اور گھر پيدا كرديئےيں جن كى مدد سے تم وہاں امن وامان سے رہوگے_

رسول خدا (ص) كى اجازت ملنے كے بعد مسلمان گروہ در گروہ يثرب كا سفر اختيار كرنے لگے اور اب پيغمبر اكرم (ص) خود بھى حكم خداوندى كے منتظر تھے_(۱۵)

اہل يثرب كے اسلام لانے كے اسباب

يثرب كے لوگ دين اسلام قبول كرنے ميں كيوں پيش پيش رہے اس كى كچھ وجوہات تھيں جو ذيل ميں درج كى جاتى ہيں_

۱_وہ لوگ چونكہ يہوديوں كے نزديك زندگى بسر كر رہے تھے اس لئے پيغمبر اكرم (ص) كے ظہور پذير ہونے كى خبريں اور آنحضرت (ص) كى خصوصيات ان كى زبان سے اكثر سنتے رہتے تھے_ حتى كہ جب كبھى ان كے اور يہوديوں كے درميان كوئي تصادم ہوجاتا تو يہودى ان سے كہا كرتے تھے كہ :

۱۱۶

جلد ہى اس علاقے ميں پيغمبر (ص) كا ظہور ہوگاہم اس كى پيروى كريں گے اور تمہيںقوم ''عاد'' اور ''ارم'' كى طرح تباہ و برباد كر كے ركھ ديں گے_(۱۶)

۲_قبيلہ ''اوس'' اور ''خزرج'' كے درميان سالہا سال سے خانہ جنگى اور قتل و غارت كا سلسلہ چلا آرہا تھا ، اہل يثرب اس داخلى جنگ سے تنگ آچكے تھے دونوں قبائل كے بزرگ اس فكر ميں تھے كہ كوئي ايسى راہ نكل آئے جس كے ذريعے اس مصيبت بھرى صورتحال سے نجات ملے ، رسول خد ا(ص) كى بعثت ان كيلئے درحقيقت اميد بخش خوشخبرى تھى چنانچہ يہى وجہ تھى كہ انہوں نے رسول خدا (ص) سے پہلى ملاقات ميں عرض كيا :

''ہم اپنے قبائل كے افراد كو جنگ ونزاع ميں چھوڑ كر آپ (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے ہيں اميد ہے كہ خداوند تعالى آپ (ص) كے ذريعے ان ميں صلح كرادے اور وہ ايك دوسرے كے ساتھ مل كر زندگى گزاريں_اگر ايسا ہوجائے تو ہمارے نزديك آپ (ص) سے بڑھ كر كوئي شخص عزيز تر نہ ہوگا _(۱۷)

۳_ حقيقت كى جستجو كرنے والوں كى رسول خدا (ص) كى خدمت ميں بار بار حاضري:

اہل يثرب كى زمانہ حج ميں آنحضرت (ص) سے بار بار اور مسلسل ملاقاتيں ' كلام اللہ كى تاثير' پيغمبر (ص) كى معنوى كشش اور ان ملاقاتوں كے دوران آسمانى دين كے بارے ميں آپ (ص) كى سودمند و پر مغز گفتگو اس امر كا باعث ہوئي كہ قبائل ''اوس'' اور ''خزرج'' كے افراد جانب حق كشاں كشاں چلے آئے اور دين اسلام كو انہوں نے خوشى خوشى قبول كرليا_

پيغمبر اكرم (ص) كو قتل كرنے كى سازش

جب مسلمانوں كى غالب اكثريت ''يثرب'' منتقل ہوگئي اور وہ شہر دين اسلام كا جديد

۱۱۷

مركزبن گيا تو قريش كے سردار جو اس وقت تك اس گمان ميں مبتلا تھے كہ رسول خدا (ص) اور اصحاب رسول (ص) ہميشہ ان كى مٹھى ميں رہيں گے اور ايذا وآزار پہنچا كر انہيں كسى بھى وقت فنا كياجاسكتا ہے يہ كيفيت ديكھ كر سخت مضطرب اور پريشان ہوئے، رسول خدا (ص) كے ساتھ اہل يثرب كے دفاعى عہد وپيمان نے بھى ان كے لئے خطرہ كى اہميت اور شدت كو واضح كرديا تھا چنانچہ اب وہ اس كى سنگينى كے بارے ميں سوچنے لگے كيونكہ اب انہيں يہ خوف لاحق تھا كہ كہيں رسول خدا (ص) ان لوگوں كى مدد سے جو آپ (ص) كے ساتھ عہد وپيمان ميں شريك ہيں ان سے انتقام لينے پر كمر بستہ نہ ہوجائيں يا كم از كم''يثرب'' كے علاقے پر غالب آنے كے بعد مسلمان ان كى تجارتى اور معاشى زندگى كو تو تباہ كرہى سكتے ہيں_

ان حالات كے پيش نظر قريش كے سردار ''دارالندوہ ''(۱۸) ميں جمع ہوئے_ طويل بحث وگفتگو اور تبادلہ خيال كے بعد انہوں نے اس رائے سے اتفاق كيا كہ ہر قبيلے سے ايك دلير جوان منتخب كياجائے اور وہ سب مل كر راتوں رات رسول اكرم (ص) كے گھر كا محاصرہ كرليں اور آنحضرت (ص) پر حملہ آور ہوكر آپ (ص) كو قتل كرڈاليں ايسى صورت ميں آپ (ص) كا خون تمام قبائل ميں تقسيم ہوجائے گا اور حضرت عبدمناف كا خاندان قريش كى پورى طاقت كا مقابلہ نہيں كرسكے گا اور اگر انہوں نے خون بہا كا مطالبہ كيا تو سب مل كر اسے ادا كرديںگے_

رسول اكرم (ص) كو وحى كے ذريعے ان كى سازش كے بارے ميں علم ہوگيا تھا چنانچہ آنحضرت (ص) كو حكم ديا گيا كہ ہجرت كر كے يثرب تشريف لے جائيں _قريش نے اپنى پورى طاقت كے ساتھ يكم ربيع الاول كى شب بعثت كے چودھويں سال آپ (ص) كے گھر كا محاصرہ

۱۱۸

كرليا، رسول اكرم (ص) نے حضرت على (ع) سے فرمايا كہ تم ميرے بستر پر آرام كرو اور چادر اپنے سر مبارك پر ڈال لو تاكہ دشمن كو يہ علم نہ ہوسكے كہ آپ (ص) گھر سے تشريف لے جارہے ہيں اس كے بعد آپ (ص) نے مٹھى بھر خاك دست مبارك ميں اٹھائي اور محاصرہ كرنے والوں كے سروں پر پھينك دى اور سورہ يسين كى پہلى نوآيتوںكى تلاوت فرمائي اور گھر سے باہر اس طرح تشريف لے آئے كہ كسى كو آپ(ص) كے وہاں سے جانے كاعلم نہ ہوسكا _

رسول خدا(ص) نے گھر سے باہر تشريف لانے كے بعد شمال كى جانب رخ نہيں فرمايا كيونكہ اس طرف سے ''يثرب '' كا راستہ گزرتا تھا بلكہ اس كے برعكس آپ(ص) نے جنوب مكہ كى راہ اختيار فرمائي اور ابوبكركو لے كر '' غارثور '' ميں تشريف لے گئے_

جب قريش كو يہ علم ہوا كہ رسول خدا(ص) گھر سے باہر تشريف لے گئے ہيں تو وہ شہر مكہ اور'' يثرب'' كى طرف جانے والے تمام راستوں كى نگرانى كرنے لگے _يہى نہيں بلكہ انہوں نے ماہر كھوجيوں كى خدمات بھى حاصل كيں اور يہ اعلان كيا كہ جو شخص بھى آپ(ص) كو گرفتار كر كے لائے گا اسے سو اونٹ بطور انعام ديئے جائيں گے ليكن انہوں نے جس قدر جستجو كى اپنے مقصد ميں كامياب نہ ہوئے چنانچہ تين دن كے بعد تھك ہار كر بيٹھے رہے

رسول اكرم(ص) جتنے عرصے غار '' ثور '' ميں تشريف فرما رہے حضرت على (ع) پيغمبرخدا(ص) اور حضرت ابوبكر كے لئے كھانا پہنچاتے رہے اس كے ساتھ ہى آپ(ع) مكہ كے حالات و واقعات سے بھى آنحضرت(ص) كو مطلع فرماتے رہے(۱۹)

چوتھى رات ميں رسول خدا(ص) حضرت على عليہ السلام كو كچھ خاص ہدايات دے كر انجان راستہ سے يثرب كى طرف روانہ ہوئے _( ۲۰ )

۱۱۹

ہجرت ، انقلاب كى ضرورت

ايمان و جہاد كے ساتھ ساتھ قرآن مجيد ميں جن اہم اور تعميرى اصول و قواعد كا ذكر كيا گيا ہے ان ميں سے ايك ''ہجرت ''بھى ہے(۲۱) _

ہجرت كے معنى ان قيود و بندشوں سے نجات اور رہائي حاصل كر لينا ہے جو انسان كے وجود يا اس كى زندگى كے اطراف ميں موجود ہوتے ہيں ہوا و ہوس اورباطنى آلودگيوں سے دل و دماغ كو پاك كر لينا اور ان سے فراغت پالينا ہى انسان كى ہجرت كا عالى ترين مرحلہ ہے :چنانچہ اس بارے میں رسول خدا(ص) نے فرمايا :

(اَشرَفُ الهجرَة اَن تُهجُرَ السَّيئَات )( ۲۲)

چنانچہ يہى وجہ ہے كہ خداوند تعالى كى جانب سے مقرر كر دہ انبياء ، اولياء اور مصلحين انسانيت نے درجہ كمال پر پہنچنے اور اپنى مقدس آرزؤں كو عملى شكل میں ديكھنے كے لئے '' ہجرت'' كى تحريك كا آغاز ہر گناہ و آلائشے سے اجتناب كے ساتھ كيا _ بعثت كے ابتدائي دنوں ميں نازل نے والى آيتوں میں قرآن مجيد كا ارشاد ہے( ۲۳) كہ :

( يَاأَيُّهَا المُدَّثّرُ (۱) قُم فَأَنذر (۲) وَرَبَّكَ فَكَبّر (۳) وَثيَابَكَ فَطَهّر (۴) وَالرُّجزَ فَاهجُر ) _(۲۴)

''اے اوڑھ لپيٹ كر ليٹنے والے ، اٹھواور ڈرائو اور اپنے كپڑے پاك ركھو اور گندگى سے دور رہو''_

اگلے مرحلے ميں ''آفاقى ہجرت'' كى ہدايت دى گئي ہے يعنى اس مردہ معاشرے سے ہجرت جس ميں كفر كے باعث جمود طارى ہوگيا ہے يہ ہجرت اس ماحول كى جانب ہے جو زندہ وآزاد ہے اور اس كا مقصد عقائد كا تحفظ نيز انقلاب كے اغراض و مقاصد كو حقيقت كى شكل ميں پيش كرنا ہے_

۱۲۰