تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي0%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 313
مشاہدے: 133306
ڈاؤنلوڈ: 4136


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 133306 / ڈاؤنلوڈ: 4136
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد 1

مؤلف:
اردو

سبق ۹:

جنگ بدر

۱۴۱

۲ ہجرى ميں جو واقعات رونما ہوئے ان ميں سے ايك جنگ بدر كا تقدير ساز معركہ تھا اس جنگ كا تعلق ارادہ ايزدى سے تھا_

قرآن مجيد كى آيات سے جو بات سمجھ ميں آتى ہے وہ يہ ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) كا مدينہ سے قريش كے تجارتى قافلہ كے تعاقب اور نتيجہ ميں جنگ كيلئے نكلنا وحى اور آسمانى حكم كے مطابق تھا جيسا كہ ارشاد ہے:

( كَمَا اَخرَجَكَ رَبُّكَ من بَيتكَ بالحَقّ ) (۱)

''جس طرح تمہارے رب نے تمہيں تمہارے گھر سے حق(۲) كے ساتھ برآمد كيا''_

ليكن بعض سست عقيدہ لوگ كہ جو اسلامى مسائل كو اچھى طرح نہيں سمجھتے تھے انہيں اس جنگ ميں رسول خدا (ص) كے ساتھ روانہ ہونا گوارہ نہ تھا_

( وَانَّ فَريقاً من المُومنينَ لَكَارهُونَ ) (۳)

اور مومنوں ميں ايك گروہ كو يہ گوارہ نہ تھا_

يہ ظاہر بين گروہ اس حقيقت كو جاننے كے باوجود كہ پيغمبر اكرم (ص) كا يہ ا قدام حكم خدا كے عين مطابق ہے آنحضرت (ص) كے ساتھ جنگ بدر پر جانے كيلئے جھگڑا كرنے پر لگا ہواتھا_

( يُجَادلُونَكَ فى الحَقّ بَعدَ مَا تَبَيَّنَ_ ) (۴)

يہ لوگ حق كے واضح ہوجانے كے بعد بھى آپ (ص) سے بحث كرتے ہيں

قرآن مجيد نے اس گروہ كى ذہنى كيفيت كو اس طرح بيان كيا ہے_

۱۴۲

( كَا َنَّمَا يُسَاقُونَ الَى المَوت وَ هُم يَنظُرُونَ ) (۵)

جيسے يہ موت كى طرف ہنكائے جارہے ہيں اور حسرت سے اپنا انجام ديكھ رہے ہيں_

اگرچہ بعض مورخین نے لكھا ہے كہ جو لوگ بدر كى طرف جانے كے مخالف تھے ان كى مخالفت ميں بدنيتى اور ايمان كى كمزورى شامل نہ تھى بلكہ اس كى وجہ يہ تھى كہ انہيں چونكہ يہ يقين تھا نہ كہ يہ جنگ وقوع پذير ہوگى اسى لئے وہ ساتھ چلنے سے انكاركر رہے تھے(۶) مگر اس بارے ميں قرآن مجيد كا صريح ارشاد ہے كہ : اگر چہ حق ان پر واضح و روشن ہوچكا تھامگر اس كے باوجود انہيں اسے قبول كرنا گوارہ نہ تھا ان كى دليل يہ تھى كہ ہمارى تعداد بہت كم ہے اور دشمن بہت زيادہ ہيں ايسى صورت میں ہم اتنے بڑے دشمن كا مقابلہ كرنے كيلئے مدينہ سے باہر كيسے جاسكتے ہيں _(۷) يا ہم بلا سوچے سمجھے اندھا دھند يہ كام كر رہے ہيں، كيونكہ يہ بھى تو نہيں معلوم كہ ہدف كاروان جنگ ہے يا قافلہ تجارت(۸) ؟

دوسرى دليل جو اس حقيقت كو ثابت كرتى ہے كہ مسلمين وكفار كے درميان يہ جنگ حكم الہى كا قطعى و حتمى نتيجہ تھى اور انہيں ايك دوسرے كا مقابلہ كرنے كى ترغيب دلارہى تھى ' يہ تھى كہ جنگ سے پہلے ہى دونوں گروہوں ميں سے ہر ايك كو دوسرے كى تعداد كم نظر آرہى تھي_

( وَاذ يُريكُمُوهُم اذا لَتَقَيتُم في اَعيُنهم قَليلًا وَيُقَلّلكُم في اَعيُنهم ) _(۹)

''اس وقت كو ياد كرو جب تم ايك دوسرے كے مقابلے ميں آئے تو خدا نے انہيں تمہارى نگاہوں ميںكم دكھايا اور تمہيں اس كى نگاہوں ميںكم دكھايا ''_

۱۴۳

دشمن كى تعداد كو قليل كركے دكھانے كى وجہ يہ تھى كہ اگر كچھ مسلمانوں كو دشمن كى تعداد ' طاقت اور جنگى تيارى كا اندازہ ہوجاتا تو اس بات كا امكان تھا كہ وہ جنگ ميں سستى سے كام ليتے اور ان كے درميان باہمى اختلاف پيدا ہوجاتا _

( وَلَواَرَاكَهُمْ كَثيرً الَفَشلتُم وَلَتَنَازَعتُم في الاَمر ) (۱۰) _

''اگر كہيں وہ تمہيں ان كى تعداد زيادہ دكھاديتا تو ضرور تم لوگ ہمت ہارجاتے اور جنگ كے معاملے ميںجھگڑا شروع كرديتے''_

اس وقت سياسى اور فوجى صورت حال ايسى تھى كہ اگر وہ آپس ميں ايك دوسرے كى مدد كا وعدہ بھى كرتے تو وہ اس سے روگرداں ہوجاتے_

( وَلَو تَوَاَعَدتُم لَا ختَلَفتُم في الميعَاد ) _(۱۱)

''اگر كہيں تم ايك دوسرے كى مدد كا وعدہ بھى كرچكے ہوتے تو تم ضرور اس موقع پر پہلو تہى كرجاتے''_

دوسرى طرف اگر دشمن كو مسلمان طاقت و تعداد ميں زيادہ نظر آتے تو اس ميں كوئي تعجب كى بات نہ تھى كہ كفار مسلمانوں كا مقابلہ كرنے سے گريز كر جاتے اور اس تقدير ساز جنگ كےلئے آمادہ نہ ہوتے_

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ خداوند تعالى نے حالات ايسے پيدا كرديئے كہ اب دونوں گروہوں كيلئے اس كے علاوہ چارہ نہ تھا كہ وہ ايك دوسرے كے مقابل آجائيں اور ايك دوسرے كے ساتھ جنگ كريں تاكہ ارادہ خداوندى حقيقت كى صورت اختيار كر جائے_

( ليَقضيَ اللّهُ اَمر اً كَانَ مَفعُولاً ) _(۱۲)

''تاكہ خد ا كى ہو كر رہنے والى بات ہو كر رہے''_

۱۴۴

اس زمانے ميں اسلامى معاشرے كى جو سياسى واجتماعى حالت تھى اگر ہم اس كا مطالعہ كريں تو ہم اس نتيجے پر پہنچيں گے كہ اس وقت كى سياسى واجتماعى حالت كے پيش نظرايسى فاتحانہ جنگ كى اشد ضرورت تھى كيونكہ پيغمبر اكرم (ص) تيرہ(۱۳) سال تك على الاعلان امت كى اصلاح ونجات كے لئے دعوت اسلام ديتے رہے مگر ان (ص) كى اس صدائے حق وعدل كو معدودے چند كے علاوہ باقى لوگوں نے نہ صرف سننا گوارہ نہ كيا بلكہ ہر قسم كى ايذا و تكليف پہنچا كر آپ(ص) كو جلاوطنى پرمجبور كرديا اور جو لوگ وہاں رہ گئے تھے وہ بھى سخت اذيت و آزار ميں مبتلا تھے اور انہو ںنے ان پر ايسى سخت پابندياں لگاركھى تھيں كہ وہ ہجرت كركے مدينہ بھى نہيں جاسكتے تھے_(۱۳)

رسول خدا (ص) كو ہجرت كے بعد بھى دشمنوں نے چين كا سانس لينے نہ ديا ، ابوجہل نے خط لكھ كر آنحضرت (ص) كو يہ دھمكى دى كہ يہ مت سمجھ لينا كہ تم نے ہجرت كركے قريش كے چنگل سے نجات پالى ہے ، ديكھنا جلد ہى تم پر چاروں طرف سے قريش اور دوسرے دشمنوں كى طرف سے يلغار ہوگى اور يہ ايسا سخت حملہ ہوگا كہ تمہارا اور تمہارے دين اسلام كا نام صفحہ ہستى سے نيست ونابود ہوجائے گا_(۱۴)

رسول خدا (ص) كو يہ خط جنگ شروع ہونے سے ۲۹ دن پہلے ملا تھا_(۱۵)

دوسرى طرف انصار مسلمين كى تعداد ميں روز بروزاضافہ ہو رہا تھا اوروہ كئي مناسب مواقع پر رسول خدا (ص) كے تحفظ اور آپ (ص) كے دين كى پاسدارى كا اعلان كرچكے تھے_

مہاجرين نے بھى ان مہمات وغزوات ميں جو جنگ بدر سے پہلے وقوع پذير ہوچكے تھے شركت كر كے يہ ثابت كرديا تھا كہ وہ اب بھى حسب سابق اپنے ارادے پر قائم اور ہر قسم كى قربانى دينے كيلئے تيار ہيں_

۱۴۵

دوسرى طرف منافقين اور يہوديوں كى تحريك اپنا كام كر رہى تھى ، ابتداء ميں جب آنحضرت (ص) مدينہ تشريف لائے تو انہوں نے پہلے پہل تو آپ(ص) كا خندہ پيشانى سے استقبال كيا ليكن جب وہ اپنے ناپاك ارادوں ميں كامياب نہ ہوسكے تو مخالفت و سركشى پر اتر آئے_

رسول خدا(ص) نے بھى اٹھارہ(۱۸) ماہ سے زيادہ قيام كے دوران جہاں تك ہوسكتا تھا دشمن سے مقابلہ كيلئے فوج تيار كى تھي_

ان تمام پہلوئوں كو مد نظر ركھتے ہوئے كہا جاسكتا ہے كہ اب وہ وقت آن پہنچا تھا كہ رسول خدا (ص) وسيع پيمانے پر فتح مندانہ عسكرى تحريك كے ساتھ دين اسلام كو گوشہ نشينى كى حالت سے نكال كر اسے طاقتور اجتماعى تحريك ميں بدل ديں تاكہ شرك كے دعويدار اچھى طرح سمجھ ليں كہ مكہ ميں جو مسلمانوں كى حالت تھى اب وہ بدل چكى ہے اور اگر اس كے بعد مخالفت و خلل اندازى كى گئي تو وہ ہوں گے اور اسلام كى ايسى كاٹ دار تلوار ہوگى جس سے ان كى جڑيں تك كٹ جائيں گى اور بنياد تباہ و برباد ہوكر رہ جائے گي،كيونكہ يہ حق كا ارادہ ہے اور اس ميںكوئي تبديلى واقع نہيں ہوسكتي_

( يُريدُ اللّهُ اَن يُحقَّ الحَقَّ بكَلَمَاته وَ يَقطَعَ دَابرَ الكَافرينَ ) _(۱۶)

''خدا اپنے كلمات كے ذريعے حق كو ثابت كردينا چاہتا ہے اور كافروں كے سلسلے كو قطع كردينا چاہتا ہے''_

جنگ بدر كى مختصر تاريخ

رسول خد ا(ص) اتوار كے روز ۱۲ رمضان سنہ ۲ہجرى كو ۳۱۳ مسلمان افراد كے ہمراہ (جن

۱۴۶

ميں۸۲ مہاجرين اور ۲۳۱ انصار شامل تھے )مدينہ سے ''بدر'' كى جانب روانہ ہوئے اس وقت آپ (ص) كے پاس صرف دو گھوڑے اور سترہ اونٹ تھے اورابتدائي مقصد قريش كے اس تجارتى قافلے كا تعاقب كرنا تھا جو ابوسفيان كى سركردگى ميں چلا جارہا تھا_(۱۷)

''ذفران'' كے مقام پر آپ (ص) كو اطلاع ملى كہ ابوسفيان اپنے قافلے كى حفاظت كى خاطر راستہ بدل كر مكہ چلا گيا ہے ليكن مسلح سپاہى مكہ سے مسلمانوں كے ساتھ جنگ كرنے كيلئے ''بدر '' كى جانب روانہ ہوچكے ہيں_

رسول اكرم(ص) نے اصحاب كے درميان اس خبر كا اعلان كرنے كے بعد ان سے مشورہ كيا ، متفقہ طور پر يہ فيصلہ ہو اكہ اس مختصر لشكر كے ساتھ ہى دشمن كا مقابلہ كياجائے چنانچہ اب يہ قافلہ ''بدر'' كى جانب روانہ ہوا_

آخر ۱۷ رمضان كو دونوں لشكروں كے سپاہيوں ميں بدر كے كنويں كے پاس مقابلہ ہوا_

جنگ كاآغاز دشمن كى طرف سے ہوا پہلے مشركين كے تين شہسوار ''عتبہ'' ، ''شيبہ'' اور ''وليد'' نكلے تھے جو '' حضرت علي(ع) '' ، '' حضرت حمزہ (ع) '' او ر '' حضرت عبيدہ (ع) '' كے ہاتھوں جہنم رسيد ہوئے

عام جنگ ميں بھى سپاہ اسلام نے پروردگار كى غيبى امداد نيز پيغمبر اكرم(ص) كى دانشمندانہ قيادت كے تحت اور جہاد سے متعلق آيات سن كر پہلے تو دشمن كے ابتدائي حملوں كا دفاع كيا اس كے بعد اس كى صفوں ميں گھس كر ايسى سخت يلغار كى كہ اس كى تمام صفيں درہم برہم ہو كر رہ گئي اور بہت سى سپاہ بالخصوص فرعون قريش يعنى ابوجہل كو موت كے گھاٹ اتار ديا دشمن كا لشكر جو نو سو پچاس (۹۵۰) سپاہيوں پر مشتمل اور پورے سازو سامان جنگ سے مسلح و آراستہ تھا سپاہ اسلام كے مقابلے كى تاب نہ لا سكا چنانچہ كثير جانى و مالى (ستر( ۷۰)

۱۴۷

متقول اور ستر(۷۰) قيدى) كا نقصان برداشت كرنے كے بعد اس نے فرار اختيار كرنے ميں ہى اپنى عافيت سمجھى اس جنگ ميں سپاہ اسلام ميں سے صرف ۱۴ صحابيوںنے جام شہادت نوش كيا(۱۸)

يہاں ہم مختصر طور پر چند مسائل كا ذكر و تجزيہ كريں گے

۱_ مال غنيمت اور قيديوں كا انجام

۲_ فتح وكاميابى كے عوامل

۳_ جنگ كے نتائج

الف _ مال غنيمت اور قيديوں كا انجام

جنگ بدر ميں ايك سو پچاس (۱۵۰) اونٹ ، دس(۱۰) او ربعض روايات كے مطابق تيس(۳۰) گھوڑے، بہت سے ہتھيار اور كھاليں مسلمانوں كے ہاتھ بطور مال غنيمت آئے(۱۹) مگر اس مال كى تقسيم پر ان كے درميان اختلاف ہوگيا جس كا سبب يہ تھا كہ انہيں معلوم نہيں تھا كہ مال غنيمت ميں ان مجاہدين كا بھى حصہ ہے جنہوں نے جنگ ميں ہر طرح سے شركت كى تھى يا يہ صرف ان سپاہيوں كا حصہ ہے جو دشمن سے نبرد آزما ہوئے تھے ، اس مال غنيمت ميں آيا سب كا حصہ برابر تھا يا پيدل اور سوار سپاہ كے درميان كوئي فرق و امتياز ركھاگيا تھا_

يہ معاملہ پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں پيش كيا گيا اور سورہ ''انفال'' كى پہلى آيت نازل ہوئي جس نے مسئلہ مال غنيمت كو روشن كرديا_

( يَسئَلُوَنَكَ عَن الاَنفَال _ قُل الَانفَالُ للّه وَالرَّسُول

۱۴۸

فَاتَّقُواللّهَ وَاَصلحُو ذَاتَ بَينكُم وَاَطيعُوا اللّهَ وَرَسُوُلَهُ ان كُنتُم مُومنينَ ) _

''تم سے انفال (مال غنيمت) كے متعلق پوچھتے ہيں كہہ دو يہ انفال تو اللہ اور اس كے رسول (ص) كے ہيں پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور آپس كے تعلقات ميں فرق نہ آنے دو اور اللہ اور اس كے رسول كى اطاعت كرو اگر تم مومن ہو ''_

اس آيہ شريفہ كى بنياد پر مال غنيمت خدا اور رسول (ص) كا حق ہے، پيغمبر اكرم (ص) نے اس كے تين سو تيرہ (۳۱۳) حصہ كركے اسے سب كے درميان تقسيم كرديا (تقسيم كے اعتبار سے دونوں سوار سپاہيوں كيلئے دو اضافى حصے مقرر كئے گئے تھے اور شہداء كا حصہ ان كے پس ماندگان كو دے ديا گيا _ايك روايت يہ بھى ملتى ہے كہ وہ لوگ جو رسول اكرم (ص) كے حكم سے مدينہ ميں اپنى خدمات انجام دينے كيلئے مقرر كئے گئے تھے اور وہ وہيں مقيم تھے ان كا بھى حصہ مقرر كيا گيا تھا)_(۲۰)

رسول خدا (ص) كے حكم كے مطابق قيديوں كو مدينہ لے جايا گيا ، راستے ميں ايك منزل پر دو آدميوں كو جن ميں سے ايك كا نام ''نصر بن حارث '' اور دوسرے كا نام ''عقبہ بن ابى معيط '' تھا رسول خدا (ص) كے حكم سے قتل كرديا گيا _(۲۱)

مذكورہ اشخاص كے قتل كئے جانے كى وجہ شايد يہ تھى كہ يہ دونوں ہى كفر كے سرغنہ تھے اور اسلام كے خلاف سازشيں تيار كرنے ميں پيش پيش رہا كرتے تھے انہوں نے رسول خدا (ص) اور مسلمانوں كو جس طرح تكاليف پہنچائي تھيں اس كى ايك طويل داستان ہے اگر يہ لوگ آزاد ہو كر واپس مكہ پہنچ جاتے تو يہ امكان تھا كہ وہ از سر نو اسلام كى بيخ كنى كيلئے سازشوں ميںملوث ہوجاتے چنانچہ ان كا قتل كياجانا اسلام كى مصلحت كے تحت تھا نہ كہ انتقام لينے كى

۱۴۹

غرض سے_

ان تمام قيديوں كو فديہ وصول كركے (جوكہ فى كس ہزار سے چار ہزار درہم تك تھا) بتدريج آزاد كرديا گيا ، ان ميں جو لوگ نادار تھے مگر لكھنا اور پڑھنا جانتے تھے انہيں آزاد كرنے كى يہ شرط ركھى گئي كہ اگر وہ دس مسلمانوں كو لكھنا اور پڑھنا سكھاديں گے انہيں آزاد كردياجائے گا_

ان قيديوں ميں چند اشخاص رسول خدا (ص) اور حضرت على (ع) كے رشتہ دار بھى تھے چنانچہ رسول خد ا(ص) كے چچا عباس اپنا اور ''عقيل'' و ''نوفل ''نامى اپنے دو بھتيجوں كا فديہ ادا كركے آزاد ہوئے _(۲۲)

ب_ فتح وكاميابى كے اسباب

اس ميں شك نہيں كہ جنگ بدر ميں كفار كو طاقت اوراسلحہ كے اعتبار سے مسلمانوں پر فوقيت حاصل تھى مگر مسلمانوں كو مختلف عوامل كى بناپر فتح حاصل ہوئي تھى جن كى بنياد اسلام پر ايمان و اعتقاد جيسى نعمت اور مدد خداوندى تھي_ ہم دو اہم عنوانات كے تحت ان عوامل كى وضاحت كريں گے_

۱_ معنوى عوامل

۲_ مادى اور عسكرى عوامل

معنوى عوامل

۱_خداوند تعالى كے قريش كے ايك گروہ پر (تجارتى قافلے يا اس لشكر پر جو مكہ سے روانہ

۱۵۰

ہوا تھا) فتح وكاميابى دينے كے وعدہ كو، پيغمبر اكرم (ص) نے ''ذفران'' ميں سپاہ اسلام تك پہنچاديا چنانچہ يہى وعدہ ان كيلئے جنگ ميں جرا ت و حوصلہ افزائي كا سبب ہوا _

( وَاذ يَعدُكُمُ اللّهُ احدَى الطَّائفَتَين اَنَّهَالَكُم ) _(۲۳)

'ياد كرو وہ موقع جب اللہ تم سے وعدہ كر رہا تھا كہ دونوں گروہوں ميں سے ايك تمہيں مل جائے گا''_

۲_جس روز جنگى كاروائي ہونے والى تھى اسى شب بارش ہوئي جس كے باعث :

الف: مسلمانوں نے جن كى بدر كے كنويں تك رسائي نہ تھى ، غسل كركے خود كو ہر طرح كى نجاست سے پاك كيا_

ب: چونكہ بارش كثرت سے ہوئي تھى اسى لئے دشمن كى سپاہ كيچڑ اور دلدل ميں پھنس گئي اور اسے جنگ كے لئے حركت كرنے كا موقع نہ مل سكا ليكن جس طرف مسلم سپاہ تھى وہاں كى زمين كنكريلى تھى جو بارش كے پانى سے مزيد پختہ ہوگئي_

( وَيُنَزّلُ عَلَيكُم من السَّمَائ مَائً ليُطَهّرَكُم به وَيُذهبَ عَنكُم رجزَ الشَّيطَان وَليَربطَ عَلى قُلُوبكُم وَيُثَبّتَ به الأَقدَامَ ) _(۲۴)

''اور آسمان سے تمہارے اوپر پانى برس رہا تھا كہ تمہيں پاك كرے اور تم سے شيطان كى ڈالى ہوئي نجاست دور كرے اور تمہارى ہمت بندھائے اور اس كے ذريعے تمہارے قدم جم جائيں''_

۳_جس روز جنگ ہوئي اس سے پہلى رات مسلمانوں كو عالم خواب ميں بشارت ملى تھى

۱۵۱

اور ان كے دل مطمئن ہوگئے تھے_

۴_مسلمانوں كى مدد كےلئے تين ہزار فرشتوں كا زمين پر اترنا(۲۵) _

۵_دونوں لشكر ايك دوسرے كى تعداد كے بارے ميں غلط فہمى ميں مبتلا تھے ، اس سے قبل كہ مسلمانوں اور مشركين كے درميان جنگ شروع ہو وہ ايك دوسرے كى تعداد كو كم سمجھ رہے تھے ليكن جيسے ہى جنگ شروع ہوئي دشمن كو مسلمانوں كى تعداد دوگنا نظر آنے لگي_

( قَد كَانَ لَكُم آيَةٌ في فئَتَين التَقَتَافئَةٌ تُقَاتلُ في سَبيل اللّه وَاُخرى كَافرَةٌ يَرَونَهُم مثلَيهم رَاْيَ العَين ) _(۲۶)

''تمہارے لئے ان دو گروہوں ميں ايك نشان عبرت تھا جو (بدر) ميں ايك دوسرے سے نبرد آزما ہوئے تھے ايك گروہ اللہ كى راہ ميں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ كافر تھا ديكھنے والے كافر لوگ بچشم خود مؤمنوں كو دوگنا ديكھ رہے تھے ''_

۶_كفار كے دلوں پر مسلمانوں كا وہ رعب چھاجانا جسے ''رعب نصريہ'' سے تعبير كياجاسكتا ہے_

( سَاُلقي في قُلُوب الّذينَ كَفَرُوا الرُّعبَ ) _(۲۷)

''ميں ابھى ان كافروںكے دلوں ميں رعب ڈالے ديتا ہوں''_

۷_سپاہ كى كثرت اور سامان جنگ كى فراوانى كے باعث لشكر كفار كا غرور وتكبر _

( وَاذ زَيَّنَ لَهُم الشَّيطَانُ اَعمَالَهُم وَقَالَ لاَ غَالب

۱۵۲

لَكُم اليَومَ من النَّاس وَ انّي جَارٌ لَكُم ) _(۲۸)

''اور اس وقت كو ياد كرو جب شيطان نے ان لوگوں كے كرتوت ان كى نگاہوں ميں خوش نمابناكر دكھائے تھے اور ان سے كہا تھا كہ آج كوئي تم پر غالب نہيں آسكتا اور پھر ميں بھى تمہارے ساتھ ہوں''_

جب ہم اس كاميابى اور غيبى مدد كے بارے ميں غور كرتے ہيں تو اس نتيجے پر پہنچتے ہيں كہ يہ فتح و نصرت خداوند تعالى كى جانب سے تھي_

( فَلَم تَقتُلُوهُم وَلكنَّ اللّهُ قتَلَهُم وَمَارَمَيتَ اذ رَمَيتَ وَلكن اللّهَ رَمَى ) _(۲۹)

''پس حقيقت يہ ہے كہ تم نے انہيں قتل نہيں كيا بلكہ اللہ نے ان كو قتل كيا اور اے نبى تم نے ان پر ايك مٹھى خاك نہيں پھينكى بلكہ اللہ نے پھينكي''_

مادى اور عسكرى عوامل

۱_پيغمبر اكرم (ص) كى دانشمندانہ قيادت اور لشكر كى سپہ سالارى نيز آنحضرت (ص) كا بذات خود جنگ كى صف اول ميں دشمن كے روبرو موجود رہنا_

اميرالمومنين حضرت على (ع) فرماتے ہيں كہ جب جنگ و قتال كے شعلے پورى طرح مشتعل ہوجاتے تو ہم رسول خدا (ص) كى پناہ تلاش كرتے اور ہم ميں سے كوئي شخص دشمن كے اس قدر نزديك نہ ہوتا جتنے آنحضرت (ص) ہوتے_(۳۰)

۲_اميرالمومنين حضرت على (ع) كے شجاعتمندانہ اور دليرانہ كارناموں كا ذكر كرتے ہوئے مورخين نے لكھا ہے كہ : اس جنگ ميں بيشتر مشركين كا خون حضرت على (ع) كى تيغ سے

۱۵۳

ہوا(۳۱) جناب شيخ مفيد مرحوم نے لكھا ہے كہ حضرت على (ع) كے ہاتھوں چھتيس(۳۶) مشرك تہ تيغ ہوئے اگر چہ باقى مقتولين كى تعداد كے بارے ميں اختلاف ہے كيونكہ ان كے متعلق كہاجاتا ہے كہ ان كے قتل ميں حضرت على (ع) شريك تھے_(۳۲)

چنانچہ حضرت على (ع) كے عظيم حوصلے اور تقدير ساز كردار كو مد نظر ركھتے ہوئے ہى كفار قريش نے آپ (ع) كو ''سرخ موت'' كا لقب ديا تھا_(۳۳)

۳_سپاہ اسلام كا جذبہ نظم وضبط ، اپنے فرماندار كے حكم كى اطاعت پذيرى اوررن ميں صبر وپائيدارى سے ڈٹے رہنا _

۴_دشمن كى صورتحال كے بارے ميں صحيح و دقيق معلومات اور اس كے ساتھ ہى رسول خدا (ص) كى جانب سے جن جنگى حربوں كو بروئے كار لانے كى ہدايت دى جاتى تھى اس كى مكمل اطاعت _

جنگ بدر كے نتائج

زمانہ كے اعتبار سے ''غزوہ بدر'' كى مدت اگر چہ ايك روز سے زيادہ نہ تھى ليكن سياسى و اجتماعى اعتبار سے جو نتائج برآمد ہوئے ان كى بنياد پر كہا جاسكتا ہے كہ يہ جنگ نہ صرف مسلمانوں كى تاريخى معركہ آرائي تھى بلكہ حيات اسلام كو ايك نئے رخ كى جانب لے جانے ميںممدو معاون ثابت ہوئي جس كى وجہ يہ تھى كہ يہ جنگ دونوں ہى گروہوں كے لئے تقدير ساز تھي، مسلمانوں كے واسطے يہ جنگ اس اعتبار سے اہميت كى حامل تھى كہ وہ جانتے تھے كہ اگر اس جنگ ميں وہ كامياب ہوجاتے ہيں (اور ہوئے بھى) تو عسكرى طاقت كا توازن تبديل ہو كر مسلمانوں كے حق ميں ہوجائے گا ، وہ اس علاقے كى قابل ذكر طاقت

۱۵۴

بن جائيں گے اور رائے عامہ ان كى جانب متوجہ ہوگى اس كے علاوہ اور بھى مفيد نتائج برآمد ہوسكتے تھے جن ميں سے بعض كا ذكرہم ذيل ميں كريں گے ، اس كے برعكس اگر اس جنگ ميں مسلمانوں كو شكست ہوجاتى تو اس كے بعد اسلام كا نام ونشان باقى نہ رہتا چنانچہ رسول خدا (ص) كا جنگ سے پہلے كا وہ ارشاد جو بصورت دعا بيان فرمايا اس حقيقت كى تائيد كرتا ہے:

(اَللّهُمَّ ان تَهلكْ هذه العصَابَةُ اليَومَ لا تُعبَد )(۳۴)

''پروردگارا اگر آج يہ جماعت تباہ ہوگئي تو تيرى عبادت كرنے والا كوئي نہ رہے گا''_

ليكن جب اس مسئلے كو كفار كے اعتبار سے ديكھتے ہيں تو اگر وہ اس جنگ ميں كامياب ہوجاتے تو رسول اكرم (ص) اور مسلمانوں كا خاتمہ ہوجاتا جويہ سمجھ رہے تھے كہ وہ مدينہ كو ہجرت كركے قريش كے چنگل سے نكل گئے ہيں اس كے علاوہ اہل مدينہ كےلئے يہ درس عبرت ہو تاكہ وہ آيندہ دشمنان قريش كو اپنے گھروں ميں پناہ دينے اور اہل مكہ كا سامنا كرنے كى جرات نہ كرسكيں_

جنگ بدر ميں خداوند تعالى كى مرضى سے جو پيشرفت ہوئي اس كے باعث اسلامى نيز مشرك دونوں معاشرے سياسى ' اجتماعى ' عسكرى اور اقتصادى لحاظ سے بہت متاثر ہوئے بطور مثال:

۱_مسلمانوں بالخصوص انصار كے دلوں ميں نفسياتى طور پر مكتب اسلام كى حقانيت كے بارے ميں پہلے سے كہيں زيادہ اطمينان و اعتقاد پيدا ہوگيا اور اسلام كے درخشاں مستقبل كے متعلق اب وہ بہت زيادہ پر اميد ہوگئے تھے كيونكہ ميدان جنگ ميں طاقت ايمان كے مظاہرے كو انہوں نے اپنى آنكھوں سے ديكھ ليا تھا_

دوسرى طرف ''جزيرة العرب'' كے لوگوں ميں اسلام كو برتر طاقت كى حيثيت سے

۱۵۵

ديكھاجانے لگا چنانچہ اب سب ہى لوگ رسول خدا (ص) اور آنحضرت (ص) كے دين اسلام كى جانب متوجہ ہونے لگے_

۲_جنگ بدر ايسى طوفانى جنگ ثابت ہوئي كہ اس نے مخالفين اسلام (مشركين ' يہود اور منافقين) كى بنيادوں كو لرزاكر ركھ ديا تھا_ چنانچہ ان كے دلوں ميں ايسا خوف و ہراس پيدا ہو اكہ اب وہ يہ سوچنے پر مجبور ہوگئے كہ اپنى حفظ وبقا كى خاطر اپنے تمام اختلافات كے باوجود يك جا جمع ہوں اور مسلمانوں كو تہ تيغ كرنے كيلئے كوئي راہ تلاش كريں(۳۵) _

جنگ بدر كے بعد پورے شہر مكہ ميں صف ماتم بچھ گئي ، قريش كا كوئي گھر ايسا نہ بچا جہاں كسى عزيز كے مرنے كى وجہ سے رسم سوگوارى نہ منائي جارہى ہو اور جو چند قريش باقى بچے رہے انہوں نے اضطرارى حالت كے تحت جلسہ طلب كيا اور وہ اس بات پر غور كرنے لگے كہ اس شرمناك شكست كے منفى اثرات كو كيسے دور كريں اور اس كى تلافى كس طرح كى جائے(۳۶) _

''ابولہب'' كو تو ايسا صدمہ ہوا كہ وہ جنگ بدر كے بعد دس دن كے اندر اندر ہى غم غصے سے گھل كر و اصل جہنم ہوا(۳۷) _

مدينہ ميں بھى جس منافق يہودى نے مسلمانوں كى فتح وكامرانى كے بارے ميں سنا اس كا شرم سے سر جھك گيا(۳۸) _

ان ميں سے بعض نے تو يہاں تك كہنا شروع كرديا كہ جنگ ''بدر'' ميں اتنے اشراف ' سرداران قوم ' حكمرانان عرب اور اہل حرم مارے گئے ہيں كہ اب اس كے بعد ہمارے لئے بہتر يہى ہے كہ زمين كے سينے پر رہنے كى بجائے اس كى كوكھ ميں چلے

۱۵۶

جائيں(۳۹) _

اور بعض كى زبان پر يہ بات بار بار آرہى تھى كہ ''اب جہاں كہيں پرچم محمدى (ص) لہرائے گا فتح و نصرت اس كے دوش بدوش ہوگي_(۴۰) _

۳_جنگ بدر سے مسلمانوں كو جو مال غنيمت ملا اس كى وجہ سے مسلمانوں كى اقتصادى حالت بہتر ہوگئي اور اس كى وجہ سے ان كى ڈھير سارى ذاتى اور جنگى ضروريات بھى پورى ہو گئيں ان كے واسطے وسيع جنگ كے راستے زيادہ ہموارہوگئے اس كے مقابل قريش كى اقتصادى زندگى كو سخت نقصان پہنچا كيونكہ ايك طرف تو وہ تمام تجارتى راستے جو شمال كى طرف جاتے تھے ان كيلئے مخدوش ہوگئے دوسرى طرف جنگ ميں وہ تمام لوگ مارے گئے جو فن تجارت كے ماہر سمجھے جاتے تھے اور مكہ كى اقتصادى زندگى كا انحصار انہى كے ہاتھوں ميں تھا_

۱۵۷

سوالات

۱_ جنگ بدر ميں مشيت الہى كيا تھي؟

۲_ كيا جنگ بدر ميں كسى شخص نے محاذ پر جانے سے روگردانى كى اوركيوں؟

۳_ رسول خدا (ص) نے كس تاريخ كو كتنے مسلمانوں كے ساتھ اور كيسے حالات كے تحت مدينہ سے بدر كى جانب روانگى كا ارادہ كيا ؟

۴_ جنگ بدر ميں دشمن كا كتنا جانى ومالى نقصان ہوا؟

۵_ آيہ شريفہ :( يَسْئَلُوْنَكَ عَن الاَنْفَال قُلْ الْاَنْفَالُ لله وَالرَّسُوْل ) كى شان نزول كے بارے ميں مختصر طور پر لكھيں_

۶_ جنگ بدر كے قيديوں كا كيا انجام ہوا؟

۷_ جنگ بدر ميں مسلمانوں كى كاميابى كے كيا اسباب تھے؟ ان ميں سے دو معنوى اور دو مادى عوامل كا ذكر كيجئے_

۸_ غزوہ بدر كے نتائج مختصر طور پر بيان كيجئے_

۱۵۸

حوالہ جات

۱_سورہ انفال آيت ۵

۲_مجمع البيان ج ۴' ص ۵۲۱ميں ايك روايت كى بنا پر '' بالحَقّ'' سے مراد '' بالوَحي'' ہے_

۳_سورہ انفال آيت ۵

۴و ۵_ سورہ انفال /۶

۶_ ملاحظہ ہو المغازى ،واقدى ، ج ۱ ص ۲۱ و شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۱۴ ص ۸۵

۷و۸_مجمع البيان ج ۳ _۴ ص ۵۲۰

۹_ سورہ انفال /۴۴

۱۰_ سورہ انفال /۴۳

۱۱_ سورہ انفال /۴۲

۱۲_ سورہ انفال /۴۴

۱۳_السيرة النبويہ ج ۲ ' ص۱۴۴

۱۴و۱۵_بحارالانوار ج ۱۹ ' ص ۲۶۵ _ ۲۶۷

۱۶_ سورہ انفال /۷

۱۷_ المغازى واقدى ج ۱ ص ۲۱_۲۷

۱۸_تاريخ پيامبر (ص) تاليف آيتى مرحوم ص ۲۵۳_ ۲۹۱

۱۹_المغازى واقدى ج ۱ ص ۱۰۲ _۱۰۳

۲۰_الميزان ج ۹ ص ۹

۲۱_المغازى ج ۱ ص ۱۰۰_ ۱۰۱

۲۲_المغازى ج ۱ ص ۱۰۰ _ ۱۱۴ ، السيرة النبويہ ج ۲ ص ۲۹۸

۲۳_ سورہ انفال /۷

۲۴_ سورہ انفال /۱۱

۱۵۹

۲۵_ سورہ آل عمران كى آيت ۱۲۴ كى طرف اشارہ ہے_

۲۶_ سورہ انفال /۱۳

۲۷_ سورہ انفال /۱۱

۲۸_ سورہ انفال /۴۸

۲۹_ سورہ انفال /۱۷

۳۰_ كُنَّا اذَااحمَرَّ البا سُ اتَّقَينَا برَسُول اللہ فَلَم يَكُن اَحَدٌ منَّا اَقرَبُ اليَ العَدُوّمنہُ (نہج البلاغہ ، صبحى صالح كلمات قصار ح ۹ ص ۵۲۰)

۳۱_ بحار الانوار ج۱۹ ص ۲۹۱

۳۲_ارشاد مفيد ص ۴۰

۳۳_مناقب ابن شہر آشوب ج ۲ ص ۶۸

۳۴_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۲۷۹

۳۵_ان كى اس كوشش كے بارے ميں آئندہ ذكر كياجائے گا_

۳۶و ۳۷_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۲ ص ۳۰۲

۳۸_۳۹_۴۰ _ المغازى و اقدى ج ۱ ص ۱۲۱

۱۶۰