تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي0%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 313
مشاہدے: 133264
ڈاؤنلوڈ: 4123


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 133264 / ڈاؤنلوڈ: 4123
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد 1

مؤلف:
اردو

كروفر كے ساتھ منظر عام پر آچكى ہے اور اس كے پيروكار ايمان كے زير سايہ اور خلوص وعقيدت كى بناپر جو انہيں اس دين اور اس كے قائد سے ملا ہے اپنے ، اعلى مقاصد كو حاصل كرليتے ہيں اور اس كے حصول كى خاطر وہ دشمن كى كثير تعداد اور سامان جنگ كى فراوانى سے ذرا بھى خوف زدہ نہيں ہوتے چنانچہ يہى وہ كيفيت تھى جس نے ان بڑى طاقتوں كے دلوںميں اسلام كا رعب و دبدبہ قائم كرديا_

دوسرى طرف جزيرہ نما ئے عرب ميں ان طاقتوں كے دست پروردہ افراد كو عملى طور پر يہ معلوم ہوگيا كہ وہ قليل افرادجو اپنے مقصد و ارادے ميں مضبوط و محكم ہيں روم جيسى بڑى طاقت سے جس كى سپاہ كى تعداد كل مسلمانوں كى تعداد سے ساٹھ گنا زيادہ ہے ٹكر لے سكتے ہيں اور ان كے گھروں ميں گھس كر انہيں ذليل و خوار تك كرسكتے ہيں چنانچہ يہى وجہ تھى كہ اب دشمنان، اسلام كى عسكرى طاقت كا اعتراف كرنے لگے اور اس كى عظمت كارعب ان كے دلوں ميں بيٹھ گيا اور اب انہيں يہ بخوبى اندازہ ہوگيا كہ آئندہ مسلمان ان كے سامنے زيادہ قوت اور حوصلہ مندى كے ساتھ اب سے زيادہ وسيع ميدانوں ميں نبرد آزما ہونے كيلئے ظاہر ہوں گے_

۲۴۱

سوالات

۱_رسول خدا(ص) نے كب اور دنيا كے كن ممالك كو دين اسلام كى دعوت كا پيغام بھيجا ؟

۲_ اس دعوت كا مختلف ممالك كے سربراہوں پر كيا رد عمل ہوا ؟ مختصر طور پر بيان كيجئے_

۳_ غزوہ خيبر كب پيش آيا اور اس ميں كيا محركات كار فرما تھے؟

۴_ غزوہ خيبر كس طرح اختتام پذير ہوا ؟ اس جنگ ميں حضرت على (ع) نے كيا كردار ادا كيا؟

۵_ كيا رسول خدا (ص) كا خيبر كے يہوديوں كے علاوہ ان ديگر يہود كے ساتھ بھى جو مدينہ كے شمال ميں تھے كوئي مقابلہ ہوا؟ وہ مقابلہ كس طرح اور كہاں ہوا؟

۶_ ''عمرة القضائ'' كا واقعہ كب پيش آيا ؟ اس كى ادائيگى ميں كتنے لوگوں نے شركت كى اور اس كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟

۷_ سريہ ''موتہ'' كا واقعہ كب ہوا؟ اس ميں كتنے مسلمانوں نے شركت كى ؟ ان كے فرمانروا كے نام كيا تھے اس سريہ كى سياسى و ثقافتى اہميت كے بارے ميں بتايئے_

۸_ سريہ موتہ كا كيسے خاتمہ ہوا؟ اور اس كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟

۲۴۲

حوالہ جات

۱_الطبقات الكبرى ج ۱ ص ۲۵۸_۲۶۲_

۲_ايضا ص ۲۵۹_

۳_ايضا ص ۲۶۰_

۴_اےضا ص ۲۵۹_ ۲۶۲_

۵_يہ جگہ مدينہ سے ۸ بريد يعنى تقريباً۹۶ كيلومٹر كے فاصلے پر واقع ہے (ہر بريد دو فرسخ كا ہوتا ہے اور ہر فرسخ تين ميل كا ہوتا ہے _ بنابرايںلفظ بريد كيلئے ملاحظہ ہو : لسان العرب ج ۳ ص ۸۶)خيبر ميں بہت سے قلعے ، كشت زار اور نخلستان واقع تھے (ملاحظہ ہو : معجم البلدان ج ۲ ص ۴۰۹ وفاء الوفا ج ۳_۴ ص ۱۲۰۹)_

۶_المغازى ج ۲ ص ۶۳۴ _ ۶۳۷ _۶۴۲ ، ليكن يعقوبى نے جنگجو سپاہ كى تعداد بيس ہزار لكھى ہے تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۵۶_

۷_منقول ہے كہ : خيبر ميں ايسے مضبوط قلعے تھے اور ان ميں اسلحہ سے ليس سپاہ اس كثرت سے موجود تھى كہ يہودى يہ تصور بھى نہيں كرسكتے تھے كہ رسول خد ا(ص) ان كے ساتھ جنگ كا ارادہ كريں گے_ ہر روز دس ہزار نبرد آزما سپاہى صف آرائي كرتے اور كہتے كہ كيا محمد (ص) كو اتنى جرات ہوسكتى ہے كہ وہ ہم سے جنگ كريں ايسا ہرگز نہيں ہوسكتا (المغازى ج ۲ ص ۶۳۷)_

۸_دروازہ قلعہ خيبر كے بڑے اور وزنى ہونے كے بارے ميں ديگر روايات بھى ملتى ہيں جن كى رو سے اس قلعے كے كھولنے اور بند كرنے پر چاليس افراد اور بقولیستر افراد مقرر تھے_(ملاحظہ ہو بحارالانوار ج ۲۱ ص۴)_

۹_ملاحظہ ہو : الارشاد ص ۶۵_ ۶۷ بعض ماخذ ميں يہ بھى درج ہے كہ جب حضرت على (ع) كى سپر اس يہودى كے حملہ كرنے كى وجہ سے گر گئي تو آپ (ع) نے اس قلعے كے دروازے كو اكھاڑليا اور اسے بطور ڈھال استعمال كيا ملاحظہ ہو السيرة النبويہ ج ۳ ص ۳۴۹_ ۳۵۰_

۱۰_المغازى ج ۲ ص ۷۰۰_

۱۱_السيرة النبويہ ، ابن كثير ج ۳ ص ۳۷۵_

۱۲_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۲_

۱۳_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۵_

۲۴۳

۱۴_يہ جگہ حجاز ميں خيبر كے نزديك واقع ہے اور مدينہ سے يہاں تك دو يا تين دن كا راستہ ہے _ معجم البلدان ج ۲ ص ۲۳۸_

۱۵_ بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۲_ ۲۳_

۱۶_تفسير برہان ج ۲ ص ۴۱۴ _۴۱۶ ذيل آيہ شريفہ ''وَآت ذَالقُربى حَقَّہ'' _

۱۷_الكامل فى تاريخ ج ۲ ص ۲۲۲_

۱۸_معجم البلدان ج ۲ ص ۶۷_

۱۹_يہ جگہ شام اور وادى القرى كے درميان اورعہد نبوى ميں مدينہ سے آٹھ منزل تك فاصلے پر واقع تھى ملاحظہ ہو معجم البلدان ج ۲ ص ۶۷ و وفاء الوفاء ج ۳ _۴ ص ۱۱۶۴_

۲۰_التنبيہ والاشراف ص ۲۲۴_

۲۱_يہ جگہ حرم كے نزديك مكہ سے پانچ ميل(تقريباً دس كلوميٹر) كے فاصلے پر واقع تھى _ معجم البلدان ج ۵ ص ۱۰۴_

۲۲_السيرة النبويہ ج۴ ص ۱۳_

۲۳_ملاحظہ ہو : تاريخ طبرى ج ۳ ص ۲۴_

۲۴_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ، ابن كثير ج ۳ ص ۴۳۲_

۲۵_پروفيسر گيورگيوجن كى كتاب كا فارسى ترجمہ ''محمد (ص) پيغمبرى كہ از نو بايد شناخت'' كے زير عنوان طبع ہوچكا ہے ، اس شادى كے بارے ميں لكھتے ہيں كہ : يہ ازدواجى رشتہ پيغمبر خدا (ص) كى طرف سے نماياں سياسى اقدام تھا اس ضمن ميں موصوف نے مزيد لكھا ہے كہ حضرت ميمونہ (ع) كى چونكہ آٹھ بہنيں اور تھيں اور ان ميں سے ہر ايك كى شادى مكہ كے كسى سربرآوردہ شخص سے ہوچكى تھى اسى لئے اس كے ذريعے پيغمبر خدا (ص) كاتعلق مكہ كے آٹھ برجستہ افراد سے قائم ہوگيا اس كے علاوہ حضرت ميمونہ (ع) كى والدہ اپنى شان و شوكت كے اعتبار سے عرب خواتين ميں بے مثال سمجھى جاتى تھيں ،اس كے بعد پروفيسر مذكور نے ابن ہشام اور ديگر سيرت نگاروں كے قول كو نقل كرتے ہوئے لكھا ہے كہ حضرت ميمونہ (ع) كى شادى كے ذريعے درحقيقت تمام اہل مكہ كے ساتھ رشتہ و قرابت قائم كرنا مقصود تھا اس شادى كا قابل ذكر پہلو يہ تھا كہ حضرت ميمونہ كے بھتيجے خالد

۲۴۴

بن وليد مشرف بہ اسلام ہوئے _ ملاحظہ ہو مذكورہ كتاب ص ۳۴۷_

۲۶_يہ جكہ ''تنعيم' ' كے نزديك واقع ہے_ السيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۴_

۲۷_المغازى ج ۲ ص ۷۳۱ و ۷۴۱ والطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۲۰_ ۱۲۳_

۲۸_ اس كا شمار حدود شام ميں بلقاء كے ديہات ميں ہوتا تھا _ معجم البلدان ج ۵ ص ۲۲۰_

۲۹_اوپر متن ميں جو كچھ تحرير كيا گيا ہے وہ مورخين كى تحريروں پر مبنى ہے ليكن حضرت امام صادق (ع) سے حضرت ابان بن عثمان نے جو روايت نقل كى ہے (بحارالانوار ج ۱۲ _ ص ۵۵) اور جو اشعار حضرت كعب بن مالك نے موتہ كے شہداء كے مرثيے ميں كہے ہيں : اذ يَہدُونَ بجَعفَر: وَلوَائہ قُدَّامَ اَوَّلہم فَنعمَ الاوَّل'' (سيرہ ابن ہشام ج ۴ ص ۲۸) وہ اس امر پر دلالت كرتے ہيں كہ سپہ سالار حضرت ''جعفر ابن ابى طالب '' تھے نہ كہ ''زيد بن حارثہ'' چنانچہ علامہ مجلسى نے بھى بحارالانوار كى ج ۲۱ ص ۵۶ پر يہ عبادت درج كى ہے كہ شيعوں كا عقيدہ ہے كہ جعفر اميرا ول مقرر كئے گئے تھے_

۳۰_ملك شام ميں بلقاء كے ساتھحجاز كے راستے پر واقع ہے معجم البلدان ج ۵ ص ۱۵۳_

۳۱_جنگى حربہ يہ تھا كہ رات ہوگئي تو خالد نے سپاہ كے دائيں بائيں آگے اور پيچھے كے حصے بدل ديئے اورمجاہدوںكو ايك جگہ سے دوسرى جگہ منتقل كرديا اور ساتھ ہى نئے پرچم لہراديئے چنانچہ جب رومى سپاہيوں كى نظر سپاہ و پرچم اسلام پر گئي تو انہوں نے سمجھا كہ مسلمانوں كى مدد كے لئے تازہ دم لشكر آن پہنچا ہے چنانچہ اسى وجہ سے ان كے دلوں پر خوف طارى ہوگيا_ اور وہ يہ فيصلہ نہ كرسكے كہ آيا جنگ جارى ركھى جائے يا نہيں _ المغازى ج ۲ ص ۷۶۴_

۳۲_ملاحظہ ہو المغازى ج ۲ ص ۷۵۵ ۷۶۴ السيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۵_ ۲۱_

۳۳_السيرة النبويہ ج ۴ ص ۳۰_

۳۴_المغازى ج ۲ ص ۷۶۹_

۳۵_ السيرة النبويہ ج ۴ ص ۳۱ _ ۳۳_

۳۶_ البتہ مؤلف كى يہ بات پہلے سبق ميں ان كى اس بات سے بالكل متضاد ہے كہ ايران اور روم جيسے كشور كشا ممالك يہاں كا رخ ہى نہيں كرتے تھے_ اس پر مزيد توجہ كى ضرورت ہے _ مترجم

۲۴۵

سبق ۱۴:

فتح مكہ اور غزوات حونين اور طائف

۲۴۶

فتح مكّہ

رسول اكرم (ص) كيلئے صلح ''حديبيہ'' كے بعد يہوديوں كے خطرات دور كرنے اورعراق اور شام كى حدود تك مدينہ كے شمال ميں آباد عرب قبائل كے درميان اشاعت اسلام كے امكانات زيادہ ہوگئے، قلمرو اسلام ميں اب تنہا جو طاقت باقى رہ گئي تھى اور جس كا وجود جزيرة العرب كے باہر ترويج اسلام كيلئے خطرہ بنا ہوا تھا وہ قريش مكہ تھے، دشمن كے اس مركز كى دو اہم ترين خصوصيات يہ تھيں پہلى تو يہ كہ يہ شہر بہت سے مسلمانوں بلكہ خود رسول خدا(ص) كا وطن تھا اوردوسرى وجہ يہ تھى كہ كعبہ ابراہيم (ع) يعنى مركز توحيد اور مسلمانوںكا قبلہ اسى شہر ميں واقع تھا ان دو وجوہات كے علاوہ مسلمانوں نے اپنى اسلامى ز ندگى كے دوران جو صدمات برداشت كئے ان ميں سے اكثر وبيشتر اسى شہر كے لوگوں نے انہيں پہنچائے تھے مذكورہ بالا وجوہات كى بناپر مكہ كا شمار ان اہم ترين مراكز ميں ہوتا تھا جنہيں رسول خدا (ص) جزيرہ نما ئے عرب ميں دشمن كے وجود سے پاك و صاف كردينا چاہتے تھے اور يہى منصوبہ عرصے سے آنحضرت (ص) كے پيش نظر تھا_

غزوہ ''حديبيہ'' اور ''عمرة القضائ'' دو ايسے بڑے كامياب معركے تھے كہ جن كے باعث قريش كى عسكرى بالادستى اور مكہ پر اجارہ دارى ختم ہوگئي اور مسلمانوں كيلئے مكہ واپس آنے 'مناسك حج ادا كرنے اور اشاعت دين كى راہيں ہموار ہوگئيں مگر اس كے باوجود

۲۴۷

قريش كى سياسى و ثقافتى برترى اور لعنت شرك و بت پرستى اب بھى مثل سابق وہاں موجود تھي_

قريش كے خلاف تيسرا اور آخرى قدم اٹھانے كيلئے اب مسلمانوں كے سياسى حالات و عسكرى انتظامات قطعى طور پر موافق و سازگار تھے اور جو چيز اس راہ ميں مانع بنى ہوئي تھى وہ يہ تھى كہ رسول(ص) خدا صلح حديبيہ كى كسى قسم كى عہد شكنى نہيں كرنا چاہتے تھے مگر قريش نے اپنى طرف سے اس معاہدے كى خلاف ورزى ميں پہل كرتے ہوئے قبيلہ ''بنى بكر'' كى حمايت ميں قبيلہ ''بنى خزاعہ'' كے بيس افراد كو محض اس بناپر بے دردى سے قتل كرڈالا كہ ان كا رسول خدا(ص) كے ساتھ باہمى معاہدہ تھا اسى لئے يہ دشوارى بھى دور ہوگئي چنانچہ اب وہ وقت آن پہنچا تھاكہ رسول خدا (ص) اس موقع كا فائدہ اٹھاتے ہوئے مكہ پر تسلط حاصل كر يں اور كعبہ كو بتوں سے نجات دلا كر اپنى ديرينہ آرزو كو عملى جامہ پہنائيں تاكہ شرك كے سب سے بڑے مركز كے وجود كونيست و نابود كرديں بالخصوص ان حالات ميں جبكہ قبيلہ خزاعہ كا سردار اپنے ہم قبيلہ افراد كو ساتھ لے كر رسول خدا (ص) كى خدمت میں حاضر ہوچكا تھا اور اس نے ان رقت انگيز واقعات كو بيان كركے ، جو اس كے قبيلے كے لوگوں پر گذرے تھے ، قريش كى عہد شكنى كا ذكر كيا اور ان كے خلاف اس نے آنحضرت (ص) سے مدد كى درخواست كى _

رسول خد ا(ص) نے عام تيارى كا حكم ديا اس كے ساتھ ہى آنحضرت (ص) نے مدينہ كى جانب اپنے ايلچى رانہ كئے تاكہ انہيں بھى اس ميں شريك ہونے كى دعوت دى جائے ، تيارى كا حكم ملتے ہى دس ہزار سپا ہى جمع ہوگئے اور يہ ايسى كثير تعداد تھى جو اہل مدينہ نے كبھى اپنى آنكھوں سے نہيں ديكھى تھي_

رسول خدا (ص) نے قريش كو غفلت ميں ڈالنے كيلئے تمام ممكنہ حفاظتى اقدامات كئے ابتداء ميں

۲۴۸

آپ (ص) نے اپنے قصد و ارادے كو كسى پر ظاہر نہيں كيا وہ تمام راستے جو مكہ كى طرف جاتے تھے ان كى سخت ناكہ بندى كردى گئي لوگوں كو دوسرى جانب متوجہ كرنے كيلئے رسول خدا (ص) نے سپاہ كا ايك دستہ '' ابوقتادہ'' كى قيادت ميں ''اضم'' نامى مقام كى جانب روانہ كيا تاكہ لوگ يہ سمجھيں كہ آنحضرت (ص) كا رخ اسى جانب ہے اس كے بعد آپ (ص) نے بارگاہ ايزدى ميں التجا كى كہ قريش كى آنكھوں اور كانوں پر غفلت كا پردہ پڑجائے اور ہوش انہيں اس وقت آئے جب وہ اچانك سپاہ اسلام كو اپنے سروں پر مسلط پائيں_(۱)

یہ اقدام اس وجہ سے كیا گیا كہ دشمن اس سے قبل كہ اپنے دفاع كى خا طر اپنى عسكرى طاقت كا استعمال كرے خود ہى بغیر كسى تصادم كے حق كے سا منے سر تسلیم خم كر دے اور حرم مكہ 'یعنى مقدس و معنوى پناہ گاہ ایزدى حتى الامكان خونریزى كے بغیر فتح ہو جائے_

ليكن تمام ممكنہ حفا ظتى اقدامات كے باوجود ''حاطب بن ابى بلتعہ''نامى شخص نے قریش كوخط لكھ ہى دیا اور ''سارہ''نامى عورت كو قریش مكہ تك پہنچانے كے لئے روانہ كر دیا تا كہ انہیں معلوم ہو جائے كہ رسول خدا(ص) كا ممكنہ اقدام كیا ہو سكتا ہے_

رسول خدا(ص) كو وحى كے ذریعے اس شخص كى خیا نت كا علم ہو گیا چنا نچہ اپ(ص) نے فوراً ہى حضرت على (ع) اور زبیر كو اس كام پر مامور فر ما یا كہ اس عورت سے خط حا صل كریں اور اسے واپس مدینہ لے ائیں(۲) _

رسول خدا(ص) دس ماہ رمضان سنہ ۸ہجرى كودس ہزارمسلما نوں كے ساتھ مدینہ سے مكہ كى جا نب روانہ ہو ئے چنانچہ جب اپ (ص) ''مرالظہران''نامى مقام پر تشریف فرما ہو ئے تو دشمن كو اپ(ص) كے انے كا ذرا بھى علم نہ ہو سكا_

یہاں رسول خدا(ص) نے حكم دیا كہ سپا ہى و سیع میدان میں منتشر و پراكندہ ہوجائیں اور ان

۲۴۹

میں سے ہر شخص اگ روشن كرے_رسول خدا(ص) كے اس حر بے نے اہل مكہ كو سخت وحشت میں مبتلا كر دیا(۳) _

ابو سفیان كے ہمراہ كچھ قریش سردارحالات كا جائزہ لینے كے لئے مكّہ سے باہر نكل آئے،راستے میں ان كى ملا قات سب سے پہلے رسو ل خد ا(ص) كے چچا حضرت عباس سے ہو ئي جو سپاہ اسلام كے پہنچنے سے قبل ہى وہاں پہنچ گئے تھے_اور ان سے حالات كے بارے میں پوچھا_حضرت عباسنے كہا كہ رسول خدا(ص) نے تم پر دس ہزار سپاہ كے ساتھ شب خون مارا ہے _اب تمہارے لئے راہ نجات یہى ہے كہ دین اسلام قبول كرلو _ابو سفیان كے ساتھ''حكیم بن حزام''اور''بُدَيُل بن وقار''بھى تھے یہى بات انہوں نے ان لو گوں سے بھى كہي_

یہ بات سن كر قریش كے سر داروں كے ا وسان خطا ہو گئے اور حضرت عباس سے اتنا ہى كہا كہ اب ہم اپ كے رحم وكرم پر ہیں _حضرت عباس انہیں رسول خدا(ص) كى خدمت میں لے گئے(۴) _رسول خدا(ص) نے ان سے قریش كى حالت اور كیفیت كے بارے میں كچھ سوالات كئے اور ضرورى معلومات حا صل كرنے بعدانہیں دین اسلام قبول كر نے كى دعوت دى _ انہیں رسول خدا(ص) كى با ت تسلیم كر نے كے علاوہ كو ئي چا رہ نظر نہ ایا _اور اس رات وہ حضرت عباس كے ساتھ ہى رہے_صبح كے وقت تمام سپاہ نے با واز بلند اذان دى جسے سن كر ابو سفیان پر خوف طارى ہو گیا(۵) اس كے بعد رسول خدا(ص) كے حكم سے اسے ایك ٹیلے پر لے جا یا گیا اورسپاہيوںنے منظم دستوں كى شكل میں اس كے سامنے مسلح پريڈ كى اور اس نے اسلام كى شان و عظمت اور عسكرى و معنوى طا قت اپنى انكھوں سے دیکھ لي(۶) _

رسول خدا(ص) نے اسلام كى طاقت كے جاہ و جلال كا مظاہرہ كر كے شرك كى استقامت و

۲۵۰

پائدارى كے ہر ارادے كو پاش پاش كر دیا _اور اب اپ(ص) نے یہ سعى و كوشش كى كہ ابو سفیان كے ذریعے قریش كى استقامت و پائدارى كو بھى چكنا چور كر دیں لہذا اپ(ص) نے ابو سفیان سے كہا كہ وہ قریش كے درمیان جاكر ان سے كہے كہ جو كوئي اسلحہ زمین پر ركھ كر اپنے گھر میں بیٹھا رہے گا یا مسجد الحرام میں پناہ لے گا یا ابو سفیان كے گھر میں پناہ گزیں ہو گا اسے كوئي نقصان نہيں ہوگا اور وہ امان ميں ہوگا(۷) _

رسول خدا (ص) كا یہ اقدام اس امر كا با عث ہوا كہ قریش كے ان سرداروں نے جوڈٹ كر سپاہ اسلام كا مقا بلہ كر نا چاہتے تھے ابو سفیان كى یہ كيفیت ديكھ كر اپنا ارادہ بدل دیا(۸) _

قریش كو زیر كر نے كے جتنے بھى مرا حل ہو سكتے تھے وہ اب طے ہو چكے تھے _اور وہ وقت آن پہنچا تھا كہ رسول خدا (ص) مكہ میں تشریف فر ما ہو ں _رسول خدا (ص) كى یہ سعى و كو شش تھى كہ سپاہ اسلام شہر میں اس طرح دا خل ہو كہ جس حد تك ممكن ہو سكے كو ئي تصادم نہ ہو چنا نچہ اس مقصد كے تحت آنحضرت (ص) نے كل سپاہ كو چا ر دستوں میں تقسیم كر كے ہر ایك كا ایك جرنيل مقرر فر میا ،اور ہر دستے كو یہ حكم دیا كہ اندرون شہر اس را ستے سے جا ئیں جو ان كے داخل ہو نے كےلئے مقرر كردیا گیا ہے تا كہ فوج چاروں طرف سے شہر يكبارگى داخل ہو اور لڑائي كا كوئي امكان نہ رہے_اور سب كو یہ ہدا یت دى كہ صرف اسى سے جنگ كر نا جو تمہارے مقابلے پر اتر آئے مگر ا س كے ساتھ ہى دس ایسے افراد كے نام بھى اپ(ص) نے دئے جن كا خون بہا نا جا ئز و مبا ح قرار دیا گیا تھا(۹) _

اہل لشكر مقررہ را ستوں سے مكہ میں دا خل ہو ئے _اندروں شہر دشمن كى ایك مختصر سى جماعت نے ہى استقا مت و پائدارى كى كو شش كى مگر جب اس كے چند افراد قتل ہو گئے تو ان كى استقامت كا بھى خاتمہ ہو گيا اور پھر سپاہ اسلام نے كسى خونرےزى كے بغیر مكہ كو فتح

۲۵۱

كرلیا(۱۰) _

حضرت خدےجہ(ع) اور حضرت ابو طا لب(ع) كى قبر كى زیا رت اور طواف كعبہ كے بعد رسول خدا (ص) ، حضرت على (ع) كے ہمراہ خا نہ خدا كو تصویروں اور بتوں سے پاك كر نے میں مشغول ہوگئے(۱۱) _

اہل مكہ خاص كر مشركين كے سردار نہا یت ہى اضطراب و بے چینى سے اپنا انجام ديكھنے كا انتظار كررہے تھے _مسلما نوں پروہ اب تك جو مظالم كر چكے تھے انہیں ديكھ كے انہیں اپنى مو ت سا منے نظر آرہى تھى _

رسول خدا (ص) نے پہلے تو بتوں كو سر نگوں كیا اور اس كام سے فارغ ہو نے كے بعد وہاں موجود لو گوں كے سا منے تقریر فر ما ئي _اس فتح و كا میا بى پرخدا وند تعا لى كى حمد كرنے كے بعد آپ (ص) نے قریش سے خطا ب كر تے ہو ئے فر ما یا ''اب بتاؤ كیا كہتے ہواور تمہا رے دلو ں میں كیا وسو سے ہیں؟''_سب نے بلند آواز سے انحضرت (ص) كى خدمت میں عر ض كیا :''ہمیں اپ(ص) سے یہى تو قع ہے كہ اپ(ص) ہما رے سا تھ خیر و نیکى كا سلوك فر ما ئیں گے _ہمیں یہى عرض كر نا ہے اور اس كے علا وہ ہما رے دلوں میں كو ئي خیا ل و فكر نہیں _آپ(ص) ہما رے قابل احترام بھائي ہیں اور ہم آپ(ص) كو اپنے بھائي كا فر زند ہى سمجھتے ہیں_با قى آپ(ص) كو اختیا ر ہے اور طاقت بھى اب آپ(ص) كے پاس ہے_(۲) ''

رسول خدا (ص) نے انہیں جواب دیتے ہو ئے فر ما یا :''میں تم سے اپنے بھا ئي حضرت ےو سف (ع) كى طرح چشم پو شى كر تے ہوئے كہتا ہوں:

( لَا تَثريبَ عَلَيكُم اليَومَ يَغفرُاللّهُ لَكُم وَ هُوَ اَرحَمُ الرّاحمينَ ) (۱۳)

۲۵۲

''اج تم پر كو ئي گر فت نہیں _اللہ تمہیں معاف كرے وہ سب سے بڑھ كر رحم كر نے وا لا ہے''(۱۴) _

چنا نچہ جب انہوں نے معا فى كى درخواست كى تو رسولخدا(ص) نے فر ما یا :

''اذهَبُو فَاَ نتُمُ الطُّلَقَائُ'' (۱۵)

جا ئو تم سب ازاد ہو_

جب رسول خدا (ص) نے عام معا فى كا اعلان كر دیا اورمشركين كے سرداروں كے اعمال سے چشم پوشى كى تو مكہ كے لوگ جو ق در جوق اپ(ص) كى خدمت میں حا ضر ہو كر دین اسلام قبول كرنے كا شرف حا صل كر نے لگے یہى نہیں بلكہ عرب خواتین نے بھى ان خا ص آداب كے مطا بق جو مقرر كئے گئے تھے رسول خدا (ص) سے بےعت كى(۱۶) قران مجید نے اس بے نظیر تبدےلى اور رجحان كى جا نب اشا رہ كر تے ہو ئے فر ما یاہے_

( وَرَاَ يتَ النّا سَ يَد خُلُونَ في دين اللّهَ اَفوَاجَاً ) (۱۷) _

اے نبي(ص) تم نے ديكھا كہ لوگ فوج در فوج اللہ كے دین میںداخل ہو رہے ہیں(۱۸)

رسول خدا (ص) نے بت بر ستى كوہر جگہ سے كلى طور پر نیست و نا بود كرنے كے لئے لو گو ں كو ہدایت كى كہ جس كسى كے پا س كو ئي بت ہو وہ اسے پا ش پا ش كر دے_اس كے علا وہ آپ(ص) نے مكہ كے با ہر بھى چند افراد كو بھےجا تا كہ جہا ں كہیں بھى كو ئي بت خا نہ ہو اسے ویران كر دیں ،اور لو گو ں كو دین اسلام كى دعوت دیں(۱۹)

۲۵۳

پیغمبر ہدایت و اصلاح

مسلما نوں كے ہا تھوں شہر مكہ كى تسخیر'مشركین كے سرداروں كى شكست اور تسليم اور ان لوگوں كے سا تھ جو بیس سال سے زيادہ عرصہ تك اسلام دشمنى میں رسولخدا (ص) سے بر سر پیکار رہے رسولخدا (ص) كے غیر متوقع و بے مثال در گزر و چشم پو شى نے ثابت كر دیا كہ انحضرت(ص) كا مقصد گمراہ و نا دان لو گو ں كى ہدا یت و اصلا ح كے علاوہ اوركچھ نہیں ہے_اور جنگ و تصادم كے جو واقعات پیش ائے ان میں اپ (ص) كا مقصدانكى ہدا یت واصلاح ہى تھا ناكہ انتقام جوئي اور جاہ و فضےلت طلبى چنانچہ ايسى عظیم الشان فتح كے با و جود صرف وہ دس افراد (چھ مر د اور چا ر عورتیں)جو سخت و سنگین جرائم كے مر تكب ہو ئے تھے قا بل سزا قرار ديئے گئے اور ''مَہدُورُالدَّم''كے عنوان سے انہیں یا د كیا گیا(۲۰) _

ان میں بھى چار افراد كو قتل كر دیا گیا اور با قى كسى نہ كسى بہانے سے امان پا نے میں كامیاب ہو گئے(۲۱) اگر چہ ایسے موقعوں پر دنیا وى انقلابى ليڈر سینكڑوں نہیں بلكہ ہزاروں افراد كوبا لخصوص انہیں جو دشمن كے محاذ پر پیش پیش ہو تے ہیں،تہ تےغ كر دیتے ہیں_لیکن جب سا رى دنیا كے پیغمبر(ص) رحمت ےعني''رحمةاللعالمین''سے بعض مسلمان سپاہیوں نے یہ كہا كہ''اَليَومَ يَومُ المَلحَمَة '' اج كا دن انتقام لینے اورجنگ كرنے كا دن ہے تو انحضرت (ص) نے یہ موقف اپنا ياكہ''اَليَومَ يَومُ المَرحَمَة' 'آج كا دن رحمت كا دن ہے(۲۲) چنا نچہ اس كےفیت كو پروفیسر حمید اللہ نے اپنے الفاظ میں اس طرح بیان كیا ہے_

جب رسول خدا (ص) كسى شہر كا فاتح ہو تو اُن سے اس عظمت و بزرگوارى كے علاوہ اور كو ئي توقع ركھنى ہى نہيں چاہئے(۲۳)

۲۵۴

غزوہ حنین وطائف:

جب شرك كاسب سے عظیم مر كزتسخير ہو گیا اور ''سواع''''منا ة ''اور ''عزي''جیسے بت كدے مسلمانوں كے ہاتھوں ویراں ہو گئے(۲۴) تواسلام كا عسكرى و سیاسى اثر و نفوذ تمام'' جزیرہ نمائے عرب '' پر چھا گیا _چنا نچہ یہى وجہ تھى كہ مشركین كے اكثر و بیشترقبا ئل نے اسلام كى اطا عت قبول كر لى اور اس كے سا منے سر تسليم خم كر ليا لكين''ہو ازن'' اور ''ثقےف'' ایسے دو قبیلہ تھے جو اسلام سے نفرت میں پیش پیش اور جنگجوئي میں سب پر فو قیت ركھتے تھے_اس كے علاوہ ان كے پاس اسلحہ بھى سب سے زیا دہ رہا كرتا تھا انہیں یہ علم ہو اكہ مسلما نوں كو مشركین پر فتح و نصرت حا صل ہے ہوئے تو وہ سخت سرا سیمہ اور پریشان خاطر ہو ئے اور اب انہیں یہ خو ف لا حق رہنے لگا كہ قریش كومغلوب كر نے كے بعد لشكر اسلام انہیں اپنے حملے كا نشا نہ بنا ئے گا چنانچہ انہوں نے خود ہى پيش قدمى كرتے ہوئے مسلمانوں كے ساتھ بر سر پیکا ر ہو نے كا ارادہ كر لیااور انہوںنے چند دےگر قبائل سے بھى عہد و پیمان كر لیا تھا_

چنانچہ سب نے مجمو عى طور پر طا قتور سپاہ كى شكل اختيار كر كے'' مالك بن عوف''كى سپہ سالارى ميںرسول خدا(ص) كے سا تھ جنگ ونبرد كرنے كےلئے خود كو آما دہ كر لیا_

دشمن نے اس خیال كے پیش نظر كہ محاذ جنگ كى پشت سے اس كا كو ئي تعلق نہ رہے اور مسلما نوں كے سا تھ جان توڑكرجنگ كر ے اس نے اپنى عورتوں 'بچوں ، مويشيوں اور مال غنیمت كو اپنے ساتھ لے ليا_

رسول خدا(ص) كو جب دشمن كے ارادے كى اطلاع ملى تو اپ(ص) بتا رےخ۶شوال سنہ۸ہجرى كو بارہ(۱۲۰۰۰)ہزار سپاہیوں كا لشكر(جس میں دس ہزار افراد مدینہ كے اور دو ہزار نو مسلم شا مل تھے) لے كر دشمن كى جا نب روانہ ہو ئے_

۲۵۵

دو نو ں لشكروں كا مقابلہ ''حُنَين(۲۵) نا مى جگہ پر ہوامشركین كا لشكر پہلے ہى وادى حنین میں اتر چكا تھا اور اس نے سارے نا كو ں پر قبضہ كر لیا تھا وہ سپاہ اسلام كے اس ہر اول دستے پر جس كا سپہ سالار''خالد بن ولید ''تھا اچانك حملہ اور ہوا اور اس دستے كو منتشر و پراكندہ كر ديا ، يہ صورتحال ديكھ كر باقى سپاہيوں نے بھى فرار كو قرار پر ترجيح دى اور سرپاؤں ركھ كر بھاگے_صرف دس افراد ہى ایسے تھے جو رسول خدا (ص) كے دوش بدوش رہے(۲۶)

ابو سفیان اور وہ قریش جو چند روز قبل ہى مسلمان ہو ئے تھے مسلمانوں كى اس شكست پر بہت مسرور ہوئے اور اس پر تمسخر كر نے لے(۲۷) _

اگرچہ پےغبر اكرم(ص) اس وقت تنہا رہ گئے تھے لیکن ان چند اصحاب كے ساتھ جو اس وقت اپ(ص) كے ساتھ تھے میدان جنگ میں پورى استقامت اور پائدارى كے ساتھ اپنى جگہ پر رہے اور جو لوگ فرار كر نے لگے تھے انہیں واپس انے كى دعوت دي_ اس مو قع پر اپ (ص) نے فر میا كہ:''اے لو گوكہاں بھاگے چلے جا رہے ہو؟واپس اجا ئومیں محمد (ص) بن عبد اللہ رسول خدا (ص) تمہیں بلارہا ہوں''_(۲۸)

رسول خدا(ص) كے ایماء پر حضرت ''عباس بن عب المطلب''نے انحضرت (ص) كا پےغام با واز بلند لو گوں تك پہنچیا جسے سن كر مسلمان ایك ایك كر كے واپس انے لگے_رسول خدا(ص) نے انہیں از سر نو مر تب كیا اور جنگ كى آگ دو بارہ شعلہ ور ہو گئي_

امیر المومنین حضرت علي(ع) سب سے زیا دہ جو ش و خروش میں تھے اور دشمنوں كو خاك و خون میں ملا رہے تھے يہاں تك كہ قبيلہ ہوا زن كے چاليس افراد آپ (ع) كى شمشير سے ہلاك ہوئے(۲۹) دوسرے مسلمانوں نے بھى شكست كى تلافياں كيں اور چند لمحہ فرار رہنے كى وجہ سے جو خفت ہوئي تھى اسے دور كرنے كيلئے جان كى بازى لگا دى بالخوص اس

۲۵۶

وقت جب كہ انہوں نے يہ ديكھا كہ '' ام عمارہ ، ''ام سليم ، '' ام سليط ،، اور '' ام حارث '' جيسى دلير خواتين بھى ميدان كار رزار ميں اترآئيں ہيں اور رسول خدا(ص) كا مردانہ وار دفاع و كر رہى ہيں( ۳۰ ) _

رسول خدا(ص) نے سپاہ میں مزيد جوش و خروش پيدا كرنے كى خاطر اعلان فرمايا كہ' ' جو كوئي كسى كافر كو قتل كرے گا وہ مقتول كے لباس اوراسلحہ كا مالك ہو گا ''( ۳۱)

اس وقت ہوازن كا پر چمدار ''ابو جرول '' سرخ اونٹ كے اوپر سوار بلند نيزہ ہاتھ ميں لئے اس پر سياہ جھنڈا لہرا رہا تھا وہ اپنے لشكر كے آگے آگے چل رہا تھا حضرت على (ع) كے ہاتھوں اس كے قتل(۳۲) كى وجہ سے دشمن كيلئے فرار كے علاوہ كوئي چارہ نہ رہا چنانچہ فتح اسلام كے حصے ميں آئي

اس جنگ ميں چھ ہزار سپاہى قيد ہوئے ان كے علاوہ چوبيس ہزار (۲۴۰۰۰) اونٹ، چاليس ہزار بھيٹريں اور وزن میں چار ہزار اوقيہ (تقريبا ۸۵۰ كلو گرام) چاندى بطور مال غنيمت مسلمانوں كے ہاتھ آئي (۳۳ )_ باقى جو سپاہ بچى تھى وہ بھاگ كر '' طائف ، '' نخلہ ،، اور '' اوطاس ،، كى طرف نكل گئي( ۳۴ ) _ رسول خدا(ص) نے '' بُدَيل بن ورقائ'' كو اس كام پر مامور فرمايا كہ وہ مال غنيمت كو''جعرانہ''(۳۵ ) نامى مقام پر لے جائيں اور وہيں اس كى حفاظت كريں تاكہ جنگ ختم ہونے كے بعد اسے تقسيم كيا جا سكے اور آپ(ص) بذات خود سپاہ اسلام كو ساتھ لے كر ''طائف ''كى جانب روانہ ہوئے كيونكہ '' مالك بن عوف '' ثقيف كے ديگر لشكرں كے ہمراہ بھاگ كر اس طرف نكل گيا تھا وہاں پہنچ كر آپ(ص) نے قلعے كا محاصرہ كر ليا _قلعہ طائف كا محاصرہ تقريبا بيس روز تك جارى رہا (۳۶ )_ دشمن كى استقامت و پايدارى كو ختم كرنے كيلئے مسلمانوں نے منجنيقيں اور جنگى گاڑياں بھى استعمال كيں ليكن اس

۲۵۷

كا كوئي نتيجہ بر آمد نہ ہوا _ قلعے كے استحكام ، اسلحہ جنگ اور سامان خوراك كے ذخيرے كى وجہ سے دشمن كى استقامت و پائدارى پہلے سے كہيں زيادہ بڑھ گئي_

رسول خدا(ص) نے صحابہ كے مشورے سے محاصرہ جارى ركھنے كا خيال ملتوى كرديا اور جعرانہ كى طرف روانہ ہو گئے( ۳۷) _

اس فيصلے كى شايد يہ وجہ يہ تھى كہ رسول خدا(ص) نے دشمن كے وسائل و اسلحہ كا جائزہ لينے كے بعديہى نتيجہ اخذ كيا كہ طائف كو فتح كرنے كيلئے زيادہ وقت دركار ہے اور مدينہ سے آنحضرت(ص) كوسوں دور تھے _ اس كے علاوہ مختلف افكار و خيالات كے حامل بارہ ہزار سپاہيوں كو كافى عرصے تك قلعہ طائف كے محاصرہ كے لئے يكجا ركھا بھى نہيں جا سكتا تھا _ كيونكہ ايك طرف تو لشكر كيلئے سامان خوراك كم ہوتا چلا جارہا تھا _ اور دوسرى طرف ماہ حرام اور حج كا زمانہ قريب چلا آ رہا تھا _( ۳۸ ) اس كے علاوہ چھ ہزار جنگى قيديوں كے مسئلے كے بارے میں بھى غور كرنا تھا تاكہ جس قدرجلد ہو سكے يہ مسئلہ حل ہو جائے _

مال غنيمت كى تقسيم

رسول خدا(ص) جب '' جعرانہ '' واپس تشريف لائے تو ہوازن كا وفد آنحضرت(ص) كى خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے دين اسلام قبول كرنے كے بعد رسول خدا(ص) سے درخواست كى كہ قيديوں كو آزاد كر ديا جائے رسول اكرم(ص) نے مسلمانوں كے ساتھ گفتگو كرنے كے بعد اور ان كا دل جيتنے كى خاطر ہوازن كے چھ ہزار قيديوں كو فديہ لئے بغير آزاد كر ديا( ۳۹ ) _ اور باقى مال غنيمت كو آپ(ص) نے قريش كے درميان تقسيم كر ديا اور وہ لوگ جو حال ہى ميں مشرف بااسلام ہوئے تھے ان كے سرداروں كو آپ(ص) نے بيشتر حصہ( ۴۰ ) عطا كيا تاكہ اس طريقے

۲۵۸

سے ان كے دل اسلام كى جانب بيشتر مائل ہو سكيں

جو لوگ چند روز قبل ہى مسلمان ہوئے تھے ان كے سرداروں كو آنحضرت(ص) كى زيادہ عطا بعض افراد بالخصوص انصار كو ناگوار گزرى حالانكہ يہ بخشش رسول(ص) خدا كے اپنے حصے ''خمس'' سے ہى تھي(۴۱) جس كى وجہ يہ تھى كہ مال غنيمت سے ان كا حصہ نظر انداز كر ديا گيا تھا ليكن جب انہوں نے رسول خدا(ص) كى نصيحتيںسنيں اور اس كى حكمت كے بارے ميں انہيں علم ہوا تو وہ آنحضرت(ص) كے اس اقدام سے مطمئن ہو گئے( ۴۲) _

رسول خدا(ص) نے عمرہ كرنے كے ارادے سے '' جعرانہ '' میں احرام باندھا عمرہ كرنے كے بعد آپ(ص) نے '' عتاب بن اسيد'' كو مكہ كا گورنر مقرر فرمايا اور حضرت '' معاذ بن جبل '' كو احكام دين كى تعليم دينے كيلئے متعين فرمايا اور خود آنحضرت(ص) واپس مدينہ تشريف لے آئے(۴۳) _

غزوہ حنين كى ابتدا میں مسلمانوں كى شكست اور آخر میں كاميابى كے اسباب

الف _ ابتدائي مرحلے میں شكست

۱_ كثرت سپاہ كى وجہ سے احساس تكبر اور غيبى مدد كى جانب سے غفلت و چشم پوشي_ جس وقت بارہ ہزار افراد پر مشتمل سپاہ اسلام كى شان و شوكت اور طاقت ،جناب ابوبكر نے ديكھى تو اسكى كى زبان پر يہ جملہ آہى گيا كہ اب طاقت كى كمى كے باعث اب ہم مغلوب نہ ہوں گے( ۴۴ ) _

۲۵۹

اور اس كے بارے میں قرآن مجيد كا ارشاد ہے كہ

( لَقَد نَصَرَكُم الله ُ فى مَوَاطنَ كَثيرَة: وَيَومَ حُنَين: إذ أَعجَبَتكُم كَثرَتُكُم فَلَم تُغن عَنكُم شَيئًا وَضَاقَت عَلَيكُم الأَرضُ بمَا رَحُبَت ثُمَّ وَلَّيتُم مُدبرينَ )

''اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہارى مدد كر چكا ہے ابھى غزوہ حنين كے روز بھى اس نے تمہارى دستگيرى كى جس كى شان تم ديكھ چكے ہو اس روز تمہيں اپنى كثرت تعداد كا غرور تھا مگر وہ تمہارے كچھ كام نہ آئي اور زمين اپنى وسعت كے باوجود تم پر تنگ ہو گئي اور تم پيٹھ دكھا كر بھاگ نكلے''_( ۴۵ )

۲_ سپاہ اسلام ميں اہل مكہ كے دو ہزار ايسے افراد كى موجودگى جو حال ہى میں مسلمان ہوئے تھے ان میں سے بعض منافق تھے اور بعض محض مال غنيمت جمع كرنے كى خاطر سپاہ اسلام كے ساتھ ہو گئے تھے نيز كچھ لوگ بغير مقصدو ارادہ ہى مكہ سے باہر نكل آئے تھے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ ابتدائي مرحلے پر جب دشمن كا اچانك حملہ ہوا تو سب سے پہلے جو سر پر پير ركھ كر بھاگے وہ يہى لوگ تھے(۴۶) _ اور يہى وہ لوگ تھے جنہوں نے سپاہ اسلام پر لعن و طعن شروع كر دى تھى حتى كہ بعض نے تو رسول خدا(ص) كو قتل كرنے كا ارادہ تك كرليا تھا(۴۷) _ چنانچہ ايسے عناصر كى ان حركات كا باقى سپاہ پر اثر انداز ہونا اور ان كى قوت ارادى و حوصلہ مندى میں ضعف آنا طبيعى اور و قدرتى امر تھا _

۳_ دشمن كے سپاہى جس جگہ جمع تھے نيز جہاں دونوں لشكروں كے درميان معركہ ہوا اس جگہ كا محل وقوع ،دشمن كا كمين گاہوں ،دروں اور پہاڑى شگافوں پر قبضہ اور اذان فجر

۲۶۰