تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي0%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 298
مشاہدے: 153298
ڈاؤنلوڈ: 3567


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153298 / ڈاؤنلوڈ: 3567
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد 2

مؤلف:
اردو

اپنا جانشين معين فرمايا اور لشكر اسلام كے ايك ہزار افراد كے ساتھ مختصر راستے سے شمال كى طرف روانہ ہوئے_ اور يوں ظاہر كيا كہ جيسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شام جار ہے ہوں ليكن چند منزليں طے كرنے كے بعد آپ داہنى طرف مُڑ گئے اور نہايت تيزى سے بَنى لحيَان كى طرف آگئے_مگر لشكر اسلام كى آمد سے، دشمن آگاہ تھے لہذا پہاڑوں كى طرف بھاگ گئے_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك جنگى مشق كى اور لشكراسلام كے دستوں كے ساتھ را ہ مكّہ ميں واقع ''عُسفَان ''كى طرف روانہ ہوئے اور پھر آپ نے دو جاسوسوں كو مامور كيا كہ وہ قريش كى خبر لائيں_

اس جنگى مشق نے قرب و جوار ميں آباد قبائل كى نفسيات پر بہت گہرا اثر ڈالا اور قريش كى شان و شوكت اور وقار ان كى نظروں سے گر گيا_لشكر اسلام اس مشق كے بعد واپس مدينہ لوٹ آيا(۳)

مفسدين فى الارض كا قتل ( مطالعہ كيلئے)

تاريخ: شوال ۶ہجري

قبيلہ عُرَينَہ سے آٹھ آدمى مدينہ آئے اور انہوں نے اسلام قبول كر ليا _ مدينہ كى آب وہوا ان كوراس نہ آئي اور وہ بيمار پڑگئے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كو اپنے اونٹوں كى چراگاہ پر بھيج ديا تا كہ وہ لوگ كھلى ہوا ميں تازہ دودھ پى كر صحت مند ہو جائيں_

چند دنوں تك جو ، ان لوگوں نے اونٹوں كا دودھ استعمال كيا تو تندرست و توانا ہوگئے ليكن بجائے اس خدمت كى قدر دانى كے انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چرواہے ''يسار'' كو نہايت بيدردى سے قتل كرديا اس كے ہاتھ پاؤں اور سر قلم كرديا ، زبان اور آنكھوں ميں

۱۲۱

كانٹے چبھوديئےور پھر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تمام پندرہ اونٹوں كو چُرا لے گئے_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''كُرزَ بن جَابر ''كو ۲۰ افراد كے ساتھ ان كا پيچھا كرنے كے لئے بھيجا_ كُرْز اور اس كے ساتھى ان كو اسير كر كے مدينہ لائے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ زمين پر فساد پھيلانے والوں كے ہاتھ پير كاٹ كر، سُولى پر لٹكا ديا جائے _اس طرح سے ان كو خيانت كى سزا مل گئي _قرآن مجيد كى يہ آيت مفسدين كے بارئے ميں نازل ہوئي كہ :

'' ان لوگوں كى سزا جو لوگ خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ جنگ كرتے ہيں اور زمين پر فساد پھيلانے كى كوشش كرتے ہيں، سوائے اس كے اور كچھ نہيں ہے كہ وہ قتل كئے جائيں يا سُولى چڑھا ديئےائيں يا ان كے ہاتھ پير مخالف سمتوں سے كاٹ ديے جائيں يا ان كو ملك بدر كرديا جائے ان كے لئے دنيا ميں تباہى اور آخرت ميں عذاب عظيم ہے_(۴)

غزوہ بنى مُصطَلق يا مُرَيسيع

شعبان ۶ ہجرى(۵) بمطابق نومبر ،دسمبر ۶۲۷ئ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر ملى كہ بنى مُصطَلق (قبيلہ خزاعہ كى ايك شاخ) سپاہ اسلام كے خلاف اسلحہ اور لشكر جمع كرنے كى فكر ميں ہيں_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تحقيق كے لئے بُريدة بن حُصَيد اَسلَمى كو اس علاقے ميں بھيجا ، برُيدہ ،بنى مُصطَلق كى طرف روانہ ہوئے اور اجنبى بن كر قبيلے كے سردار سے رابطہ قائم كيا اور واپسى پراس خبر كے صحيح ہونے كى تائيد كى _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابوذر غفارى كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر كيا اورايك ہزار جان بازوں كے ہمراہ پير كے دن دوسرى شعبان كو دشمن كى طرف چل پڑے اور چاہ مُريَسْيَع(۶) كے پاس خيمہ زن ہوئے اس غزوہ ميں كچھ ايسے منافقين بھى مال غنيمت كے لالچ ميں لشكر

۱۲۲

اسلام كے ساتھ ہوگئے جو كسى جنگ ميں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ نہيں تھے_

مقام مُريَسْيَع ميں دونوں لشكروں كى صفيں آراستہ ہوئيں _ فرمان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مطابق تيراندازوں نے حملہ كيا اور تھوڑى دير ميں بنى مصطَلق ہارگئے اور ان كا ايك آدمى بھى فرار نہ كر سكا _ ان كے دس آدمى مارے گئے اور باقى اسير ہوئے _اس حملے ميں ايك مسلمان بھى شہيد ہوا _

جنگ ميں مال غنيمت كے طور پر دو ہزار اونٹ اور پانچ ہزار گوسفندمسلمانوں كے ہاتھ آئے اور دو سو خاندان بھى اسير ہوئے(۷)

ايك حادثہ

جنگ ختم ہونے كے بعد واپسى راہ ميں ايك چھوٹا سا حادثہ پيش آگيا ، اگررسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس پر مخصوص مہارت كے ساتھ قابو نہ پاگئے ہوتے تو اسلام كے لئے ايك نيا خطرہ بن جاتا_

پانى كے بارے ميں جَہْجاہ غفارى جوكہ عمر بن خطاب كا غلام اور مہاجرين ميں سے تھا، اور سنَان جُہْنى جو كہ انصار ميں سے تھا، آپس ميں الُجھ گئے _ سنَا ن نے مدد كيلئے آواز دى اے انصار اورجہجاہ نے مدد كے لئے پكارا،اے مہاجرين نزديك تھا كہ بہت بڑا ہنگامہ كھڑا ہو جائے_ منافقين كے سردار عبد اللہ بن اُبى نے موقع كو غنيمت جانا اور اپنے آس پاس كے لوگوں سے بولا_

خدا كى قسم ہمارا اور ان جلابيب(۸) كا معاملہ اس مثل جيسا ہے كہ '' اپنے كُتّے كو موٹا كرو تا كہ وہ تمہيں ہى كو كاٹ كھائے_'' ليكن خدا كى قسم جب ہم مدينہ پلٹ كے جائيں

۱۲۳

گے تو چونكہ ہم مدينہ كے با عزّت لوگ ہيں اس لئے ان زبوں حال اور بے چارے مہاجرين كو باہر نكال ديں گے(۹)

زيد بن ارقم كا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر پہنچانا

زيد بن ارقم نے جب عبد اللہ بن اُبى كى باتيں سنيں تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس گئے اور اس كى سازش آميز اور منافقانہ باتوں كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے نقل كرديا _رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زيد كى خبر كے بارے ميں وحى كے ذريعہ اطمينان حاصل كرلينے كے بعد زيد كے كان كو پكڑ كر كہا '' يہ اس شخص كے كان ہيں جس نے اپنے كانوں كے ذريعہ خدا سے وفا كى ہے_''

عبد اللہ بن اُبيّ نے جب زيد كے اطلاع دينے كى خبر سُنى تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس پہنچا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے جھوٹى قسم كھا كر كہنے لگا كہ ميں نے ايسى بات نہيں كہى اور چونكہ وہ اپنے قبيلے كے درميان بزرگوں اور صاحب احترام شخصيتّوں ميں شمار كيا جاتا تھا اس لئے انصار ميں سے كچھ لوگ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حضور ميں پہنچے اور ابيّ كے فرزند كى حمايت ميں كہا كہ شايد زيد نے ايسى بات كا وہم كيا ہو يا ان كے كانون نے غلط سُنا ہو يہاں تك سورہ منافقون كے نازل ہونے كے بعد اس پاك دل نوجوان كو اطمينان حاصل ہوا اور عبداللہ بن ابيّ ذليل ہوا_(۱۰)

عمر بن خطاب نے اس واقعہ كو سُننے كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خواہش ظاہر كى كہ عبداللہ بن اُبيّ قتل كو كرديا جائے _ ليكن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما يا كہ '' ايسى صورت ميں دشمن كہيں گے كہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب كو قتل كررہے ہيں مصلحت يہ ہے كہ ہم جلد سے جلد نكل چليںتا كہ باطل انديشے دلوں سے رخت سفر باندھ كر نكل جائيں''_

۱۲۴

كوچ كا حكم ہونے كے بعد لشكر اسلام ايك رات دن مسلسل چلتا رہا_ يہاں تك كہ آفتاب ان كے سر پر پہنچ گيا، اس وقت ٹھہر نے كا حكم ديا گيا _ جاں بازان اسلام تھكن كى وجہ سے خاك پر پڑے رہے اور گہرى نيند سوگئے _ اس اطمينان اور خوشى كے ساتھ جو ايك لمبى اور غير معمولى تھكن كے بعد روح و اعصاب كو حاصل ہوتى ہے ، كدورتيں دلوں سے نكل گئيں اور كينہ كى آگ خود بخود بجھ گئي_(۱۱_۱۲)

باپ اور بيٹے ميں فرق

عبد اللہ بن اُبى كے بيٹے نے سوچا كہ شايد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كے باپ كے قتل كا فرمان صادر كريں گے تو فوراً رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آيا اور كہنے لگا '' اے رسول اللہ سب لوگ جانتے ہيں كہ كوئي بھى ميرى طرح باپ سے نيك بر تاؤنہيں كرتا ليكن اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا فرمان يہ ہے كہ وہ قتل كيا جائے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حكم ديں ميں خوداسے قتل كروں گا''_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب ديا '' نہيں تم اس كے ساتھ اچّھا سلوك كرو '' پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بزرگانہ سلوك نے ابن ابى ّكے دوستوں كے در ميان اس كى حيثيت و شخصيّت كو جھنجھوڑ كرر كھ ديا _ يہاں تك كہ لوگ كھلم كھلا اس كو برا بھلا كہنے لگے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عفو و در گذر كے ذريعے خطرناك دشمن كو ٹكڑ ے ٹكڑے كر ڈالا،ايك دن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عمر بن خطاب كو مخاطب كر كے فرمايا جناب عُمر سے خطاب كرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كہا كہ '' جس دن تم اس كو قتل كرنے كے لئے كہہ رہے تھے اگر ميں قتل كر ديتا تو اس كے دفاع ميں بجلياں كوند پڑتيںليكن اگر آج ہم اس كے قتل كا حكم ديديں تو لوگ اس كى جان كے درپے ہو جائيں گے_(۱۳)

۱۲۵

بَني مُصْطَلقْ كا اسلامى تحريك ميں شامل ہونا

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مال غنيمت اور اسارى كو مسلمانوں كے درميان تقسيم كيا اس وقت بنى مصطلق كے رئيس '' حارث بن ابى ضرار'' كى بيٹي''جوُيرْيہّ'' ايك مسلمان كے حصّے ميں آئيں انہوں نے اپنے مالك سے طے كيا كہ ميں كچھ رقم ادا كركے آزاد ہو جاؤں گى ليكن ان كے پاس پيسے نہيں تھے_ان كى صرف ايك اميد تھى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كالطف و مہرباني، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئيں اور كہا'' ميں حارث كى بيٹى ہوں اور اسير ہو كر آئي ہوں _،ور ميں نے يہ طے كر ليا ہے كہ كچھ پيسے ادا كركے آزاد ہو جاؤں اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں آئي ہوں تا كہ اس رقم كى ادادئيگى ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرى مدد فرمائيں _ ''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' آيا تمہيں يہ پسند ہے كہ ميںتمہارے لئے اس سے بہتر كا م انجام دوں ؟ جن پيسوں كى تم قرض دار ہو اس كو ميں ادا كردوں پھر تم سے شادى كرلوں ؟ جُوَيْريّہ اس پيش كش سے مسرور ہوگئيں_

جُوَيْريّہ سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شادى كى خبر اصحاب ميں پھيل گئي لوگوں نے بنى مُصطَلق كے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے رشتہ دار بن جانے كے احترام ميں اپنے اسارى كو آزاد كرديا _ جب بنى مُصْطَلق نے لشكر اسلام كا يہ بڑا پن اور در گذر ديكھا تو مسلمان ہو گئے اور ايك با بركت شادى كے نتيجہ ميں وہ سب كے سب اسلامى تحريك ميں شامل ہوگئے_(۱۴)

ايك فاسق كى رسوائي

بنى مصْطَلق كے مسلمان ہو جانے كے بعدرسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وَليد بن عُقْبة بن اَبى مُعيط كو ان كى طرف زكوة وصول كرنے كے لئے بھيجا_ بنى مصطلق نے جب سُنا كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا

۱۲۶

نمائندہ ان كى طرف آرہا ہے تو وہ استقبال كے لئے دوڑ پڑے ليكن وليد دڑگيا اور اس نے خيال كيا كہ وہ لوگ جنگ كرنے كے لئے آمادہ ہيں ، لہذا اس نے مدينہ واپس آكر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے كہا كہ '' وہ لوگ مجھے قتل كردينا چاہتے تھے اور انہوں نے زكوة ادا كرنے سے بھى انكار كرديا ہے ''_

بنى مُصْطَلق كے ساتھ دوبارہ جنگ كى باتيں لوگوں كى زبان پر چڑ ھ گئيں اس واقعہ كے بعد بنى مُصْطَلق كا ايك وفد مدينہ آيا اور اس نے حقيقت حال بيان كى(۱۵) اس واقعہ كے بارے ميں سورہ حجرات كى مندرجہ ذيل آيت نازل ہوئي :

'' اے ايمان لانے والو اگر كوئي فاسق تمہارے پاس كوئي خبر لائے تو اس كى تحقيق كرو كہيں ايسا نہ ہو كہ نادانى كى بنا پر لوگوں (كى جان و مال) كو نقصان پہنچادو پھر (جب معلوم ہو كہ فاسق نے جھوٹ بولا تھا )تو جو كچھ كيا ہے اس پر تم كو پشيمانى ہو_(۱۶)

آنحصرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيوى پر تہمت (واقعہ افك)(مطالعہ كيلئے)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب بھى سفر پر جانا چاہتے (حتّى كہ جنگ كے لئے بھي) تو اپنى بيويوں كے درميان قرعہ نكالتے تھے جس كے نام قرعہ نكل آتا اسى بيوى كو اپنے ساتھ لے جاتے تھے_

غزوہ بنى مُصْطَلق كے موقع پر جناب عائشےہ كے نام قرعہ نكلا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہيں اپنے ساتھ لے گئے_جنگ سے واپسى كے دوران جب مدينہ كے قريب پہنچے تو وہيں ٹھہر گئے اور آرام كرنے لگے_اسى اثنا ميں عائشےہ اس بات كى طرف متوجہ ہوئيں كہ ان كا گلوبند گم ہو گيا ہے اس كو ڈھونڈنے كے لئے آپ خيمہ گاہ سے دور چلى گئيں جب واپس پلٹيں تو لشكر اسلام وہاں سے كوچ كرچكا تھا اور عائشےہ تنہا رہ گئي تھيں_ ايك متقى اورنيك شخص جن كا نام صفوان

۱۲۷

بن مُعطل تھا اورجو لشكر اسلام كے پيچھے پيچھے اطلاعات حاصل كرنے كے لئے چلا كرتے تھے ، وہاںپہنچے اور جناب عائشےہ كو ديكھا كہ وہاں تنہا ہيں _ نہايت ادب سے اونٹ سے نيچے اُترے ، اونٹ كو زمين پر بٹھايا اور خود دوركھڑے ہوگئے يہاں تك كہ عائشےہ اونٹ كى پشت پر سوار ہوگئيں انہوں نے اونٹ كى مہار پكڑى اور راستے ميں گفتگو كئے بغير مدينہ لے آئے_جب يہ لوگ مدينہ پہنچے تو منافقين نے عبداللہ بن اُبيّ كى قيادت ميں صفوان اور عائشےہ كے بارے ميں تہمتيں تراشيں ، ناواقف ان تہمتوں كولے اڑے ،مدينہ ميں تہمتوں اور افواہوں كا بازار گرم تھا ، اور ہر آدمى ايك الگ بات كہنے لگا ، جناب عائشےہ بيمار ہوگئيں اور اس تہمت كے غم ميں جو بے گناہى كے با وجود ان پر لگائي گئي تھى روتى رہتيں اور كسى وقت چين نہ پاتيں ، قريب تھا كہ اس موضوع پر فتنہ بر پا ہوجائے كہ سورہ نور كى آيات نمبر ۱۱ سے ۲۷ تك نازل ہوئيں اور عائشےہ كو يہ خوش خبرى سنائي گئي كہ خدا تمہارى پاكيزگى پر گواہ ہے_(۱۷) پھر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تہمت لگانے والوں پر حد جارى كى _ جن لوگوں پر حدجارى كى گئي ان ميں حسّان بن ثابت اور حَمنہ كا نام بھى نظر آتا ہے_(۱۸)

ابن اسحاق كہتا ہے كہ بعد ميں معلوم ہوا كہ صفوان بن معطل در اصل مرادنگى سے عارى اور عورتوں كے ساتھ نزديكى نہيں كر سكتا تھے_ يہ مرد پارسا كسى جنگ ميں شہيدہو گئے_(۱۹)

صلح حديبيہ

ذى قعدہ ۷ ہجرى بمطابق فرورى و مارچ ۶۲۸ عيسوي

۱۲۸

مكہ كى راہ پر:

لشكر اسلام كى پے در پے كاميابيوں اور مشركين مكّہ كى گوشہ گيرى نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اس بات پر آمادہ كيا كہ دوسرى بار جزيرة العرب ميں مسلمانوں كى حيثيت و وقار كے استحكام كے لئے اقدام كريں _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ مسلمان سفر حج كے لئے تيار ہو جائيں اور ہمسايہ قبائل جو ابھى تك حالت شرك پر باقى تھے ان سے آپ نے مسلمانوں كے ساتھ اس سفر پر چلنے كى خواہش ظاہر كى _ ان ميں سے بہت سے لوگوں نے عذر پيش كيا اور ساتھ چلنے سے انكار كرديا _

اس سفر ميں عبادتى اور معنوى خصوصيات كے علاوہ مسلمانوں كے لئے وسيع اجتماعى اور سياسى مصلحتيں بھى تھيں_ اس لئے كہ عرب كے متعصب قبائل نے مشركين كے غلط پروپيگنڈے كى بنا پر يہ سمجھ ركھا تھا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خانہ كعبہ كے لئے'' جو سلف كى بارگاہ اور افتخار كا مظہر ہے'' ، كسى طرح اس كى قدر و منزلت كے قائل نہيں ہيں اور اسى وجہ سے اسلام كے پھيلاؤ سے شدتّ كے ساتھ ہر اساں تھے _ اب غلط خيالات كے پردے چاك ہوئے اور انہوں نے ديكھ ليا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حج كو ايك واجب فريضہ جانتے ہيں _ ايك طرف اگر قريش مانع نہيں ہوئے اور زيارت كعبہ كى توفيق ہوگئي تو يہ مسلمانوں كے لئے بڑى كاميابى ہوگى كہ وہ چند سال كے بعد ہزاروں مشركين كى آنكھوں كے سامنے اپنى عبادت كے مراسم ادا كريں گے دوسرى طرف اگر قريش مسلمانوں كے مكّہ ميں داخل ہونے سے مانع ہوئے تو اعراب كے جذبات طبعى طورپر مجرو ح ہوجائيں گے كہ ان لوگوں نے مسلمانوں كو فريضہ حج انجام دينے كے لئے آزادكيوں نہ چھوڑا _ يہ سفر چونكہ جنگى سفر نہ تھا اس لئے پرسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ ہر شخص اپنے ہمراہ صرف ايك تلوار '' مسافر كا اسلحہ '' كے

۱۲۹

عنوان سے ركھ سكتا ہے _ اسكے علاوہ اور كوئي ہتھياز ركھنے كى اجازت نہيں ہے _رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قربانى كے لئے ستر(۷۰) اونٹ مہيّا كئے اور چودہ سو مسلمانوں كے ساتھ مكہ كى طرف روانہ ہوئے اور مقام ذو الحليفہ ميں احرام باندھا_

آپ نے عباد بن بشر كو ۲۰ مسلمانوں كے ساتھ ہر اول دستہ كے عنوان سے آگے بھيج ديا تا كہ را ستے ميںآنے والے لوگوں كے كانوں تك لشكر اسلام كى روانگى كى خبر پہنچا ديں اور كسى خطرے يا سازش كى صورت ميں اس كى خبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ديں_(۲۰)

قريش كا موقف

جب قريش ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى روانگى سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے بتوں (لات و عزّي) كى قسم كھائي كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مكّہ ميں آنے سے روكيں گے _ قريش كے سرداروں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو روكنے كے لئے خالد بن وليد كو دو سو سواروں كے ساتھ مقام '' كُراع الغَميم ''بھيجا جہاں پہنچ كر يہ لوگ ٹھہر گئے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قريش كے موقف سے آگاہى كے بعد يہ چاہتے تھے كہ خونريزى كے ذريعے اس مہينے اور حرم كى حرمت مجروح نہ ہو اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے راہنما سے فرمايا كہ كارواں كو اس راستے سے لے چلو كہ جس راستے ميں خالد كا لشكر نہ ملے _

راہنما ، قافلہ اسلام كو نہايت دشوار گذار راستوں سے لے گيا يہاں تك كہ يہ لوگ مكہ سے ۲۲ كيلوميٹر دور'' حديبيّہ'' كے مقام پر پہنچ گئے_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب كو يہ حكم ديا كہ يہيں اُتر جائيں اور اپنے خيمے لگاليں(۲۱)

۱۳۰

قريش كے نمائندے آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں

قريش نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حقيقى مقصد سے با خبر ہونے كيلئے اپنے يہاں كى اہم شخصيتوں كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيجا تا كہ وہ مسلمانوں كا مقصد جان ليں_

قريش كے پہلے نمائندہ وفدميں بُديل خزاعى قبيلہ خزاعہ كے افراد كے ساتھ آيا _ جب وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' ميں جنگ كے لئے نہيں آيا ميں تو خانہ خدا كى زيارت كے لئے آيا ہوں '' نمائندے واپس چلے گئے اور انہوں نے يہ اطلاع قريش كو پہنچا دى _ليكن قريش نے كہا'' خدا كى قسم : ہم ان كو مكہ ميں داخل نہيں ہونے ديں گے ، چاہے ان كا آنا خانہ خدا كى زيارت كى غرض سے ہى كيوں نہ ہو '' _ د وسرے اور تيسرے نمائندہ وفود بھيجے گئے اور انہوں نے بھى '' بُديل '' والى صورت حال بيان كى _

قريش كے تيسرے نمائندے '' حليس بن علقمہ '' جو عرب كے تير اندازوں كا سر براہ تھا، نے قريش كے سرداروں كو مخاطب كر كے كہا كہ '' ہم نے ہرگز تم سے يہ معاہدہ نہيں كيا كہ ہم خانہ خدا كے زائرين كو روكيں گے ، خدا كى قسم اگر تم لوگ، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو آنے سے روكو گے تو ميں اپنے تيرانداز ساتھيوں كے ساتھ تمہارے اوپر حملہ كركے تمہارى اينٹ سے اينٹ بجادوں گا _ قريش اپنے اندر اختلافات رونما ہونے سے ڈرگئے اور انہوں نے ''حليس ''كو اطمينان دلايا كہ ہم كوئي ايسا راستہ منتخب كريں گے جوتمہارى خوشنودى كا باعث ہوگا_

قريش كا چوتھا نمائندہ ''عُروة بن مسعود ''تھاجس پر قريش اطمينان كامل ركھتے تھے_ وہ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملا تو اس نے كوشش كى كہ اپنى باتوں ميں قريش كى طاقت كو زيادہ اور اسلام كى قوّت كو كم كركے پيش كرے اور مسلمانوں كو جھك جانے اور بلا قيد و شرط واپس

۱۳۱

جانے پر آمادہ كرلے_ ليكن جب وہ واپس گيا تو اس نے قريش سے كہا كہ '' ميں نے قيصر و كسرى اور سلطان حبشہ جيسے بڑے بڑے بادشاہوں كو ديكھا ہے مگر جو بات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں ہے وہ كسى اور ميں نہيں ''_

ميں نے ديكھا كہ مسلمان ان كے وضو كا ايك قطرہ پانى بھى زمين پر گرنے نہيں ديتے وہ لوگ تبرك كے لئے اس كو جمع كرتے ہيں اور اگر ان كا ايك بال بھى گر جائے تو ان كے اصحاب فوراً تبرك كے لئے اُٹھا ليتے ہيں ، لہذا اس خطرناك موقع پر نہايت سوچ سمجھ كر قدم اٹھانات(۲۲)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سُفرائ

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك تجربہ كار شخص كو جسكا نام'' خراش ''تھا اپنے اونٹ پر سوار كيا اور قريش كے پاس بھيجا ، ليكن ان لوگوں نے اونٹ كو قتل كرديا اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نمائندے كو قتل كرنے پر اترآئے ، مگر يہ حادثہ تيراندازان عرب كے ايك دستے كى وساطت سے ٹل گيا _

قريش كى نقل و حركت يہ بتا رہى تھى كہ ان كے سر پر جنگ كاجنون سما يا ہوا ہے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسئلہ كے مسالمت آميز حل سے مايوس نہيں ہوئے _ لہذا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قريش كے پاس ايسے شخص كو نمائندہ بنا كر بھيجنے كا ارادہ كيا جس كا ہاتھ كسى بھى جنگ ميں قريش كے خون سے آلودہ نہ ہوا ہو، لہذا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمر بن خطاب كو حكم ديا كہ وہ قريش كے پاس جائيں _ ليكن انہوںنے جانے سے معذرت كرلى _ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے عثمان بن عفّان كو '' جن كى اشراف قريش سے قريب كى رشتہ دارى تھى '' اشراف قريش كے پاس بھيجا _ عثمان قريش كے ايك

۱۳۲

آدمى كى پناہ ميں مكّہ ميں وارد ہوئے اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيغام كو قريش كے سر كردہ افراد تك پہنچا يا _ انہوں نے پيش كش رد كرنے كے ساتھ ساتھ عثمان كو بھى اپنے پاس روك ليا اور واپس جانے كى اجازت نہيں دى _ مسلمانوں كے درميان يہ افواہ اڑ گئي كہ قريش نے عثمان كو قتل كردياہے_(۲۳)

بيعت رضوان

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نمايندے كى واپسى ميں تاخير كى وجہ سے مسلمانوں كے در ميان عجيب اضطراب اور ہيجان پيدا ہو گيا اور مسلمان جوش و خروش ميں آكر انتقام پر آمادہ ہو گئے_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كى جذبات كو متحرك كرنے كے لئے فرمايا '' ہم يہاں سے نہيں جائيں گے جب تك كوئي فيصلہ نہيں ہو جاتا _ '' اس خطرناك صورتحال ميں اگر چہ مسلمانوں كے كے پاس جنگ كے لئے ضرورى ہتھيار اور سازو سامان نہ تھا پھر بھى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارادہ كيا كہ اپنے اصحاب كے ساتھ عہد و پيمان كى تجديد كريں ، چنانچہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ايك درخت كے سايہ ميں بيٹھ گئے اور سوائے ايك كے تمام اصحاب نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہاتھ پر بعنوان بيعت ہاتھ ركھا اور قسم كھائي كہ خون كے آخرى قطرے تك اسلام كا دفاع كريں گے_

يہ وہى ''بيعت رضوان ''ہے كہ جس كے بارے ميں قرآن ميں آيا ہے :

'' خداوند عالم ان مومنين سے جنھوں نے تمہارے ساتھ درخت كے نيچے بيعت كي، خوش ہو گيا اور ان كے وفا و خلوص سے آگاہ ہو گيا، اللہ نے ان كے اوپر سكون كى چيز نازل كى اور عنقريب فتح ، اجر كے عنوان سے ان كے لئے قرار دى ہے''_(۲۴)

بيعت كى رسم ختم ہوئي ہى تھى كہ عثمان لوٹ آئے اور قريش كے وہ جاسوس جو دور سے

۱۳۳

بيعت كا واقعہ ديكھ رہے تھے پريشان ہو كر بھاگ كھڑے ہوئے( تا كہ اس خطرناك صورتحال كى خبر قريش كے گوش گزار كريں)_ قريش كے سر برآوردہ افراد نے '' سہيل بن عمرو'' كو صلح كا معاہدہ طے كرنے كے لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيجا_(۵ ۲)

صلح نامے كامتن

جب سہيل بن عمرو، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پہنچا تو يوں گويا ہوا '' قريش كے سربرآوردہ افراد كا خيال ہے كہ آپ اس سال يہاں سے مدينہ واپس چلے جائيں اور حج و عمرہ كو آيندہ سال انجام ديں ''_

پھر مذاكرات كا باب كھل گيا اور سہيل بن عمرو بات بات پر بے موقع سخت گيرى سے كام لے كر پر يشانى كھڑى كرتا رہا _ جب كہ پيغمبر-اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چشم پوشى كے رويے كو اس لئے نہيں چھوڑ رہے تھے كہ كہيں صلح كا راستہ ہى بند نہ ہو جائے _مكمل موافقت كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت على (ع) سے فرمايا كہ صلح نامہ لكھو ، حضرت على (ع) نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے لكھا:

بسم الله الرحمن الرحيم

سہيل نے كہا كہ ہم اس جملے سے آشنا نہيں ہيں آپ بسمك اللہم لكھيں _ ( يعنى تيرے نام سے اے خدا) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے موافقت فرمائي پھر حضرت على (ع) نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے لكھا ''يہ وہ صلح ہے جسے اللہ كے رسول محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انجام دے رہے ہيں''_

سہيل بولا '' ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت اور نبوت كو قبول نہيں كرتے اگر اس كو قبول كرتے تو آپ سے ہمارى لڑائي نہ ہوتى _

۱۳۴

لہذا آپ اپنا اور اپنے باپ كا نام لكھيں(۲۶)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علي(ع) كو حكم ديا كہ اس جملے كو مٹاديں ليكن حضرت علي(ع) نے عرض كيا '' ميرے ہاتھوں ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا نام مٹانے كى طاقت نہيں ہے '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ہاتھوں سے اس جملے كو مٹا ديا _(۲۷)

صلح نامے كى كچھ شرائط يوں تھيں:

۱_ قريش اور مسلمان دونوں عہدكرتے ہيںكہ دس سال تك ايك دوسرے سے جنگ نہيں كريں گے تا كہ جزير ةالعرب ميں اجتماعى امن و امان اور صلح قائم ہوجائے_

۲_ جب بھى قريش كا كوئي آدمى مسلمانوں كى پناہ ميں چلا جائے گا تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كو واپس كريںگے ليكن اگر مسلمانوں ميں سے كوئي شخص قريش كى پناہ ميں آجائے گا تو قريش پر لازم نہيں كہ وہ اس كو واپس كريں_

۳_ مسلمان اور قريش جس قبيلے كے ساتھ چاہيں عہد و پيمان كر سكتے ہيں_

۴_ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان كے اصحاب اس سال مدينہ واپس جائيں اور آئندہ سال زيارت خانہ خدا كے لئے آسكتے ہيں_ليكن شرط يہ ہے كہ تين دن سے زيادہ مكّہ ميں قيام نہ كريں اور مسافر جتنا ہتھيار لے كر چلتا ہے اس سے زيادہ ہتھيار اپنے ساتھ نہ ركھيں(۲۸) _

۵_ مكہ ميں مقيم مسلمان اس معاہدے كى روسے اپنے مذہبى امور آزادى سے انجام دے سكتے ہيں اور قريش انہيں آزار يا مجبور نہيں كريں گے كہ وہ اپنے مذہب سے پلٹ جائيںيا ان كے دين كا مذاق نہيں اڑائيں گے _اسى طرح وہ مسلمان جو مدينہ سے مكہ آئيں ان كى جان و مال محترم ہے_(۲۹)

معاہدہ كے دو نسخے تيار كئے گئے اور ايك نسخہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پيش كيا گيا اس

۱۳۵

كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جانوروں كو ذبح كرنے كا حكم ديا اور وہيں سرمنڈوايا(۳۰) اور اس طرح۱۹ دن كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدينہ كى طرف روانہ ہو گئے_

صلح كے مخالفين( مطالعہ كيلئے)

صلح كا معاہدہ كچھ مسلمانوں خصوصاً بعض مہاجرين كى ناراضگى كا باعث بنا اور مسلمانوں كو سب سے زيادہ تكليف صلح نامہ كى دوسرى شق كى وجہ سے ہوئي جس ميں مسلمانوں كے پاس پناہ لينے والوں كو واپس كردينے كو لازم قرار ديا گيا تھا ، مخالفين صلح ميں سب سے آگے عمر بن خطاب تھے واقدى كى روايت كے مطابق عمر اور ان كے ہمنوا افراد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پہنچے اور كہا كہ '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كيا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہيں كہا تھا كہ ہم جلدى ہى مكہ ميں داخل ہو كر كعبہ كى كنجى لے ليں گے اور دوسروں كے ساتھ عرفات ميں وقوف كريں گے ؟ اور اب حالت يہ ہے كہ نہ ہمارى قربانى خانہ خدا تك پہنچى اور نہ ہم خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمر كو جواب ديا كہ '' كيا ميں نے اسى سفر كے لئے كہا تھا؟ عمر نے كہا '' نہيں'' پھر مقبول رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمر كى طرف رخ كيا اور فرمايا كہ '' كيا تم احد كا دن بھول گئے ہو جس دن تم بھاگتے ہوئے پيچھے مُڑكر نہيں ديكھتے تھے اور ميں تمہيں پكار رہا تھا ؟ كيا تم احزاب كا دن بھول گئے ؟ كيا تم فلا دن بھول گئے ؟''

مسلمانوں نے كہا اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو كچھ سوچ ركھا ہے ہم نے اس

كے بارے ميں نہيں سوچا تھا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور اس كے حكم كو ہم سے بہتر جانتے ہيں_

اسى طرح جب صلح نامہ لكھا گيا تو عمر اپنى جگہ سے اُٹھ كر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئے اور كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كيا ہم مسلمان نہيں ہيں ؟ '' آپ نے فرمايا : '' بے شك ہم مسلمان

۱۳۶

ہيں '' عمر نے كہا كہ ''پھر دين خدا ميں ہم كيوں ذلت اور پستى برداشت كريں ؟آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ ميں خدا كا بندہ اور اس كا رسول ہوں ميں خدا كے حكم كى كبھى بھى مخالفت نہيں كروں گا اور خدا بھى مجھے تباہ نہيں كرے گا _(۳۱) عمر بن خطاب كہتے ہيں كہ'' ميں نے كبھى بھى حديبيہ كے دن كى طرح اسلام كے بارے ميں شك نہيں كيا_(۳۲)

ابو بصير كى داستان اور شرط دوم كا خاتمہ( مطالعہ كيلئے)

ابو بصير نامى ايك مسلمان جو مدت سے مشركين كى قيد ميں زندگى گزار رہے تھے مدينہ بھاگ آئے قريش نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خط لكھا اور خط بنى عامر كے ايك شخص كے حوالہ كيا اور اپنے غلام كو اس كے ساتھ كرديا اور ياددلايا كہ صلح حديبيہ كى دوسرى شق كے مطابق ابو بصير كو واپس كريںرسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاہدے كے مطابق ابو بصير سے كہا تمہيں مكہ لوٹ جانا چاہيے، كيونكہ ان كے ساتھ حيلہ بازى سے كام لينا كسى طرح بھى صحيح نہيںہے_ ميں مطمئن ہوں كہ خداتمہارى اور دوسروں كى آزادى كا وسيلہ فراہم كرے گا''_

ابو بصير نے عرض كيا'' كيا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھے مشركين كے سپر د كررہے ہيں تا كہ وہ مجھے دين خدا سے بہكاديں ؟ ''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر وہى بات دہرائي اور ان كو قريش كے نمائندے كے سپرد كرديا _ جب وہ لوگ مقام ذو الحليفہ ميں پہنچے تو ابو بصير نے ان محافظين ميں سے ايك كو قتل كر ديا_ اور اس كى تلوار اور گھوڑا غنيمت كے طور پر لے ليا اورمدينہ لوٹ آئے_ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پہنچے تو كہا_ '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ نے اپنے عہد كو پورا كيا اور مجھے اس قوم كے سپرد كرديا ميں نے اپنے دين كا دفاع كيا تا كہ ميرا دين بر باد نہ ہو ''_

ابو بصير چونكہ مدينہ ميں نہيں رہ سكتے تھے اس لئے صحرا كى طرف چلے گئے اور دريائے

۱۳۷

سرخ كے ساحل پر مكہ سے شام كى طرف جانے والے قافلوں كے راستے ميں چھپ گئے جو لوگ مكہ ميں مسلمان ہوئے تھے اور معاہدے كے مطابق مدينہ نہيں آسكتے تھے وہ ابو بصير كے پاس چلے جاتے تھے رفتہ رفتہ ان كى تعداد زيادہ ہو گئي اور انہوں نے قريش كے تجارتى قافلوں پر حملے كر كے نقصان پہنچا نا شروع كرديا _ قريش نے اس آفت سے بچنے كے لئے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خط لكھا اور ان سے عاجزانہ طور پر خواہش كى كہ ابوبصير اور ان كے ساتھيوں كو مدينہ بلاليں اور پناہ گزينوں كو واپس كرنے والى شرط صلح نامہ كے متن سے حذف كردى جائے_(۳۳)

صلح حديبيہ كے نتائج كا تجزيہ

۱_ پے در پے جنگيں ايك دوسرے سے براہ راست روابط ميں ركاوٹ بنى ہوئي تھيں ليكن اس صلح نے افكار كے آزادانہ ارتباط اور اعتقادى بحث و مباحثہ كا راستہ كھول ديا اور يہ روابط عرب معاشرے ميں اسلامى روش اور دلوں ميں اسلام كے نفوذ كى وسعت كا ذريعہ بن گئے اس طرح كہ صلح حديبيہ والے سال پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ مسلمانوں كى تعداد چودہ سو تھى جبكہ فتح مكہ والے سال دس ہزار افراد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ تھے_

۲_ صلح كے ذريعہ داخلى امن و امان قائم ہو جانے كے بعد اسلام كى عالمى تحريك كو سرحدوں كے پار لے جانے اور عالمى پيغام كو نشر كرنے كے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو موقع مل گيا _

۳_ يہ صلح در حقيقت تحريك اسلامى كو مٹانے كے لئے وجود ميں آنے والے ہر طرح كے نئے جنگى اتحاد كے لئے مانع بن گئي اور اس طرح لشكر اسلام كے ہاتھ يہ موقعہ آگيا كہ وہ خيبر كے يہوديوں جيسے بڑے دشمن كو راستے سے ہٹا سكيں _

صلح كے فوائد كے بارے ميں امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں ''پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كى تاريخ ميں كوئي واقعہ صلح حديبيہ سے زيادہ فائدہ مند نہيں تھا ''_(۳۴)

۱۳۸

سوالات

۱_ہجرت كا چھٹا سال كس اہميت كا حامل ہے؟

۲_ مفسدين فى الارض (زمين پر فساد پھيلانے والے)كون لوگ تھے اور كيوں قتل كئے گئے؟

۳_ بنى مُصْطَلق كيوں كر اسلام كے گرويدہ ہوئے؟

۴_ صلح حديبيہ كے معاہدہے كا كيا نتيجہ رہا؟

۵_ بيعت رضوان كے بارے ميں آپ كيا جانتے ہيں؟

۶_ كون لوگ صلح كے مخالف تھے؟

۷_ عبداللہ بن اُبيّ نے غزوہ بنى مصطلق ميں كيا كيا اور كون سا سورہ اس موقعہ پر نازل ہوا؟

۸_ حديث ''افك'' كيا ہے ؟ مختصراً بيان كيجئے_

۹_ آية ''( يا ايها الذين آمنوا ان جائكم فاسق بنباء فتبينوا ) كس كے بارے ميں اور كس موقع پر نازل ہوئي؟

۱۰_ صلح كى دوسرى شرط كيسے لغو ہوئي؟

۱۳۹

حوالہ جات

۱_ ڈاكٹر آيتى مرحوم كى كتاب '' تاريخ پيامبر'' ملاحظہ ہو ص ۳۸۹، ۴۶۴

۲_ اس غزوہ كى تاريخ ميں بھى اختلاف ہے واقدى كہتے ہيں كہ يہ يكم ربيع الاول ۶ھ ميں واقع ہوا تھا ليكن ابن ہشام كے مطابق يہ ماہ جمادى الاوّلى ميں واقع ہواہے_مغازى واقدى ج ۲ ص ۵۳۵ _سيرہ ابن ہشام ج ۳ ص ۲۷۹ ملاحظہ ہو_

۳_مغازى واقدى ج ۲ ص ۵۳۵_طبرى ج ۲ ص ۵۹۵ _طبقات ابن سعد ج ۲ص۷۸_سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۲۹۲_

۴_( انّما جزآؤا الذين يُحاربُونَ اللّهَ وَ رَسُولَه وَ يَسْعَوْنَ فى الْاَرض فَساداً ا َنْ يُقْتَّلوُا اَوْ يُصَلََََّبُوا اَوْ تُقَّطَّعَ اَيْديهم وَ اَرْجُلُهُم من خلاف اَوْ يُنْفَوا منْ اَلارْض ذلكَ لَهُم خزْيٌ فى الدُنيا وَ لَهُم فى الآخرَة عَذابٌ عَظيم ) (مائدہ_۳۳)(طبقات ج ۲ ص ۹۲)_

۵_ ابن سحاق ،اور ابن ہشام نے اس غزوہ كو ۶ ہجرى كے واقعات ميں نقل كيا ہے ا گر چہ واقدي، ابن سعد اور مسعودى جيسے تاريخ نويسوں نے اسے كو سنہ ۵ ہجرى كے واقعات ميں ذكر كيا ہے_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۰۲ _ مغازى واقدى ج ۱ ص ۴۰۴ _ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۹۳ _ التنبيہ و الاشراف ص ۲۱۵ _

۶_ مُريَسْيَع سے فُرع تك جو مدينہ سے آٹھ منزل پر واقع ہے ايك روز كى مسافت كا راستہ ہے_بعض لغت ميں ''مُريَسْيَع '' ذكر ہوا ہے اگر ايك روز مسافت والى بات درست مان لى جائے تو اس كا مدينہ سے فاصلہ صرف آٹھ كلوميٹر ہوگا جو كہ ايك بعيد بات ہے ( مصحح) _

۷_ تاريخ پيامبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ڈاكٹر آيتى مرحوم ص ۴۰۷_

۸_جَلابيب جلباب كى جمع ہے _ كشادہ پيرہن كو كہتے ہيں _ جو لوگ مسلمان ہو جاتے تھے مشركين ان كے لئے يہ لفظ استعمال كرتے تھے(ر _ك ) سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۰۳_

۱۴۰