تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي0%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 298
مشاہدے: 153304
ڈاؤنلوڈ: 3567


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153304 / ڈاؤنلوڈ: 3567
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد 2

مؤلف:
اردو

۱۹_ مغازى واقدى ج ۲ ص۶۴۳ _

۲۰_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۵ _۶۸۷_

۲۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۴۶_

۲۲_مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۴۶_

۲۳_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۴۹ _ '' لا تحلّ الجنّة لعاص''_

۲۴_ جرجى زيدان نے خيبر كے قلعوں كى تصوير اپنى كتاب تاريخ التمدن الاسلامى ميں دى ہے ج ۱ ص ۶۱_

۲۵_ لاعطين الراية غدا رجلا يحبہ اللہ و رسولہ و يحب اللہ و رسولہ كراراً غير فرار لا يرجع حتى يفتح اللہ على يديہ ، بحار الانوار ج ۲۱_۲۸ _

۲۶_ حضرت على (ع) نے فرمايا كہ اس كے بعد ميں درد چشم ميں ہرگز مبتلا نہيں ہوا_

۲۷_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۵۴ _۶۵۳_

۲۸_ ارشاد مفيد ص ۶۷_

۲۹_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۵۴_ ۶۵۵_

۳۰_ بحار الانوار ج ۲۱ ص ۲۶_

۳۱_صحيح بخارى ج ۵ ص ۷۱ ۱ و ج ۵ ص ۲۳ _ تاريخ بخارى ج ۱ ص ۱۱۵ و ج ۴ ص ۱۱۵ _ صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۱ و ج ۵ ص ۱۹۵ و ج ۷ ص ۱۲۰ _ مسند الحافظ ابى داؤد ص ۳۲۰_مسند امام احمد بن حنبل ج ۱ ص ۹۹ و ج ۲ ص ۳۸۴ سنن ترمذى ج ۵ ص ۶۳۸ _ سنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۶۵ _ خصايص ص ۴ _ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۳۱۰ _ طبقات ج ۳ ص ۱۵۶ _عقد الفريد ج ۳ ص ۹۴ _ مستدرك حاكم ج ۳ ص ۴۰۵_ معجم الصغيرطبرانى ص ۱۶۳_ حلية الاوليا ج ۱ ص ۴۳۰_ سنن الكبرى ج ۹ ص ۱۰۷ _ مناقب ابن مغازلى ص ۱۷۶ _ استيعاب در حاشيہ الاصابہ ج ۳ ص ۳۶۶ _ مصابيح السنة ج ۲ ص ۲۰۱_معالم التنزيل ج ۴ ص ۱۵۶ _الشفا قاضى عياض ج ۱ ص ۲۷۲ _ اسد الغابہ ج ۳ ص ۲۵ _ تذكرة الخواص سبط ابن جوزى ص ۱۵_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۴ ص ۲۲۱_ كفاية الطالب باب ۶۲ص ۱۱۶ _ البداية و النہاية ابن كثير ج ۴ ص ۱۸۴_ مجمع الزوائد ج ۹ ص ۱۲۳ _ الاصابة ج ۲ ص ۵۰۲ _ينابيع المودة ص ۴۱_

۱۶۱

نواں سبق

طرفين كے خسارئے كا تخمينہ

اسيروں كيساتھ اچھا برتاؤ

فتح كے وقت در گزر

مال غنيمت

مال غنيمت ميں خيانت كى سزا

مال غنيمت كى تقسيم

خيبر پر حملے كے نتائج

خيبر ميں لشكر اسلام كى كاميابى كے اسباب

فدك -- غزوہ وادى القري

تيما -- فتح خيبر كے بعد انجام پانے والے سرايا

مكہ كى طرف (عُمرَةُ القضائ)

جنگ موتہ ، عالمى استكبار سے پہلا مقابلہ

گريہ كيوں؟ -- غير مساوى طاقتوں كى جنگ

لشكر اسلام كے دلير سردار جعفر ابن ابى طالب كى شہادت

عبداللہ ابن رواحہ اور زيد ابن حارثہ كى شہادت

مجاہدين كى واپسي

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعفر ابن ابيطالب كے سوگ ميں

جنگ ذات السلاسل

سوالات

۱۶۲

طرفين كے خسارے كا تخمينہ

آخرى قلعہ كى فتح كے نتيجہ ميں يہوديوں كو شكست اور لشكر اسلام كو فتح حاصل ہوئي اس جنگ ميں يہوديوں كے ۹۳ سے زيادہ بڑے بڑے جنگجو ہلاك ہوئے جبكہ شہداء اسلام كى تعداد۲۰ افراد سے زيادہ نہ تھى _ اس كے علاوہ قلعوں پرحملے كے نتيجے ميں كچھ يہودى ، لشكر اسلام كى اسيرى ميں آئے_

اسيروں كيسا تھ اچّھا برتاؤ

قلعوں ميں سے جب ايك قلعہ فتح ہوا تو حيّ بن اخطب كى بيٹى صفيّہ اور ايك دوسرى عورت اسير ہوئي تو حضرت بلال ان دونوں كو يہوديوں كے مقتولين كى لاشوں كے قريب سے گزار كر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں لائے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُٹھے اور صفّيہ كے سر پر عباڈال دى اور دونوں عورتوں كے آرام كے لئے لشكر گاہ ميں ايك جگہ معين فرما دى پھر بلال سے سخت لہجہ ميں كہا '' كيا تمہارے دل سے مہرو محبّت ختم ہوگئي ہے كہ تم ان عورتوں كو ان كے عزيزوں كے پاس سے گزار كرلا رہے ہو ؟ '' صفّيہ ''كے دل پر پيغمبر كى محبّت نے بڑا اثر كيا بعد ميں آپ، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى باوفا بيويوں كے زمرہ ميں شامل ہوئيں _(۱)

۱۶۳

فتح كے وقت در گزر

تاريخ كے فاتحين نے جب بھى دشمن پر كاميابى حاصل كى تو شمشير انتقام سے اپنے كينہ كى آگ كو بجھايا اور دشمن كى تباہى ميں بڑى بے رحمى كا ثبوت ديا ليكن خدا رسيدہ افراد نے ہميشہ كاميابى كے موقعہ پر دشمنوں كے ساتھ نہايت لطف و محبّت كا سلوك كيا ہے _ فتح خيبر كے بعد ، خيبر كے جن افراد نے زيادہ مال صرف كر كے جنگ احزاب كى عظيم شورش بر پا كى تھى اور اسلام كو خاتمہ كے دہانہ پر لاكھڑا كيا تھا ان كے سروں پر پيغمبررحمتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لطف و عطوفت كا سايہ رہا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہيں اجازت دى كہ سرزمين خيبر ميں اپنے گھروں ميں كام اور حسب سابق كھيتى باڑى ميں مشغول رہيں اس كے بدلے خيبر كى آمدنى كا آدھا حصّہ مسلمانوں كو ديں_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح كے وقت نيزے كى نوك پر اسلام مسلّط نہيں كيا بلكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كو مذہبى شعائر و رسوم كى ادائيگى كى آزادى مرحمت فرمائي_(۲)

مال غنيمت

فتح خيبر اور يہوديوںكو غير مسلح كرنے كے بعد كافى مقدار ميں ہتھيار ، جنگى سازو سامان ، يہوديوں كے زيورات سے مالامال خزانہ ، كھانے كے برتن ،كپڑے ، بہت سے چوپائے اور كھانے پينے كا بہت زيادہ سامان مال غنيمت كے طور پر لشكر اسلام كے ہاتھ آيا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ ايك شخص جانبازان اسلام كے در ميان اعلان كرے كہ '' ہر مسلمان پر لازم ہے كہ مال غنيمت كو بيت المال ميں لا كر جمع كردے _چاہے وہ ايك سوئي اور دھاگہ ہى كيوں نہ ہو _ اس لئے كہ خيانت ننگ و عار ہے اور قيامت ميں اس كى سزا آگ ہے_(۳)

۱۶۴

پھر عادلانہ تقسيم كے لئے تمام مال غنيمت ايك جگہ جمع ہوا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ اس ميں سے كچھ نقد كى صورت ميں لوگ تبديل كر لائيں _

'' فروہ'' جو مال غنيمت بيچنے كے كام پر مامور كئے گئے تھے ، انہوں نے مال غنيمت ميں سے ايك دستار ،دھوپ سے بچنے كے لئے اپنے سر پر باندھ ركھى تھى ، فراغت كے بعد دستار اتارے بغيربے خبرى كے عالم ميں اپنے خيمہ ميں چلے گئے وہاں دستار كاخيال آيا تو فوراً خيمہ سے باہر نكلے اور دستار مال غنيمت كے ڈھير پر ركھ دى _ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو يہ خبر ملى تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' يہ آگ كى دستار تھى جو تم نے اپنے سر پر باندھ ركھى تھى _(۴)

مال غنيمت ميں خيانت كى سزا

سپاہيوں ميں سے '' كَركَرہ'' نامى ايك شخص رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے مركب كى نگہبانى پر مامور تھا واپسى كے دوران اسے ايك تير لگا اور وہ مارا گيا_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے لوگوں نے پوچھا كہ كيا ''كركرہ''شہيد ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' مال غنيمت ميں سے عبا چرا نے كے جرم ميں اب آگ ميں جل رہا ہے''_

اس موقع پر ايك شخص نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كہا كہ '' ميں نے بغير اجازت كے ايك جوڑا جوتا مال غنيمت سے لے ليا ہے _'' آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما يا '' واپس كردو ورنہ قيامت كے دن آگ كى صورت ميں يہ تمہارے پيروں ميں ہوگا _(۵)

مال غنيمت كى تقسيم

خمس نكالنے كے بعد ، جانبازان اسلام كے در ميان مال غنيمت تقسيم ہوا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے

۱۶۵

ان عورتوں كو جنہوں نے لشكر اسلام كى مدد اور تيمار دارى كى تھى بيش قيمت گلوبند و غيرہ عطا فرمائے_(۶)

ايك شخص كو ايك خرابہ سے دو سو درہم ملے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خمس نكال ليا اور بقيہ در ہم اس كو ديدئے_(۷)

لشكر اسلام خيبر سے كوچ كرنے ہى والا تھا كہ مہاجرين حبشہ كے سرپرست جعفر ابن ابى طالب حبشہ سے واپس آگئے جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مدينہ ميں نہيں پايا تو خيبر كى طرف چل پڑے _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعفر(ع) كى واپسى پر بہت خوش ہوئے سات قدم ان كے استقبال كے لئے بڑھے اور فرمايا سمجھ ميں نہيں آتا كہ كس بات كے لئے زيادہ خوشى مناؤں ؟فتح خيبر كے لئے يا جعفر كى واپسى كے لئے؟''(۸)

خيبر پر حملے كے نتائج

خيبر كا حملہ ، اسلام كے خلاف يہوديوں كى اقتصادى اور جنگى طاقت كى كمى كا باعث بنا_ اس حملے كے دوسرے نتائج ميں سے ايك يہ ہے كہ ، يہوديوں كے اس گروہ كے ہتھيار ڈال دينے كى بدولت مشركين كى فوج ميں خوف و ہراس پھيل گيا اوراسلام كى تحريك مزيد پائيدار ہوگئي_

خيبر ميں لشكر اسلام كى كاميابى كے اسباب

۱_ بہترين جنگى حربوں اور موثر حكمت عملى كا استعمال

۲_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام كى دقيق اور حكيمانہ سپہ سالارى اور لشكر اسلام كا سپہ سالار كے حكم پر مكمل عمل كرنا_

۱۶۶

۳_ جنگى حوالے سے مناسب جگہ پر پڑاؤ

۴_ خيبر كے كامل محاصرے تك لشكر اسلام كى مكمل پوشيدگى _

۵_ دشمن كے حالات كى اطلاع او ر ہر قلعہ ميں لشكر كى تعداد و كيفيت كے بارے ميں مكمل معلومات _

۶_ حضرت على (ع) كى بے امان جنگ '' ايسى جنگ كہ دشمن كے نقصانات ميں سے آدھا نقصان دست زبردست حيدر كرار كى توانائي كا نتيجہ تھا_

فدَك

خيبر سے ايك منزل اور مدينہ سے ۱۴۰ كيلوميٹر دور كچھ يہودى فدك نامى ايك قصبہ ميں رہتے تھے_يہ لوگ خيبر كے يہوديوں كے انجام سے خوفزدہ تھے ا ور خدا نے ان كے دل ميں خوف و دہشت مزيد بڑھاديا _ اس وجہ سے انہوں نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نمائندہ كے جواب ميں ايك شخص كو معاہدہ صلح كے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس بھيجا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معاہدہ كيا كہ آدھا فدك آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حوالہ كريں گے اور اسميں كھيتى كرنے كے ساتھ ساتھ اس كى آمدنى بھى ان كے حوالہ كريں گے _(۹)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فدك فاطمہ زہراء سلام اللہ عليھا كو عطا كرديا _ فدك كى سالانہ آمدنى ، ۲۴۰۰۰درہم تھى جناب فاطمہ(ع) اس آمدنى كا بيشتر حصّہ بے سہارا لوگوں كى امداد اور اجتماعى مصالح ايسے امور خير ميں صرف كرتى تھيں _(۱۰)

غزوہ وادى القري( ۷ ھ ق)

خيبر كى جنگ ختم ہونے كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدينہ سے ۳۵۰ كيلوميٹر دور وادى القرى كى

۱۶۷

طرف روانہ ہوئے جو يہوديوں كا ايك اہم مركز شمار كيا جاتا تھا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كا محاصرہ كر ليا ، قلعہ چند دنوں تك لشكر اسلام كے محاصرے ميں رہا _ انجام كار فتح و كامرانى كے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زمينوں كو انہى كے قبضہ ميں رہنے ديا اوروہى معاہدہ جو خيبر كے يہوديوں سے ہوا تھا ان سے بھى طے پايا_(۱۱)

تَيمائ( ۷ ھ ق)

مسعودى كى تحرير كے مطابق '' تيمائ''(۱۲) كے لوگ يہودى اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمن تھے جب ان لوگوں نے وادى القرى كے فتح ہونے كى خبر سنى تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے صلح كرلى اور جزيہ دينے پر تيار ہوگئے(۱۳) اس طرح سے جزيرة العرب سے يہوديوں كى طرف سے جنگى خطرہ بالكل ہى ختم ہوگيا_

فتح خيبر كے بعد انجام پانے والے سرايا

خيبر كى فتح كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ديرينہ دشمن كى طرف سے مطمئن ہوگئے اور مدينہ ميں وہ امن و سكون ہوا جو پہلے كبھى نہ تھا _ماہ صفر سے لے كر ذيقعدہ تك چند مہينوں كى مدّت ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرف چھ گروہ اطلاعات حاصل كرنے يا ان بكھرے دستوں اور جماعتوں كى تنبيہ و سزا كے لئے روانہ فرمائے جنہوںنے امن و امان ميں رخنہ ڈال ركھا تھا_ ان سرايا كے علاوہ كوئي دوسرا جنگى حملہ وقوع پذير نہيں ہوا_(۱۴)

مكہ كى طرف ( عمرة القضائ)

يكم ذيقعدہ ۷ ھ(بروز جمعرات بمطابق ۳ فرورى سنہ ۶۲۸ئ)

۱۶۸

صلح حديبيہ كے ايك سال بعد صلح نامہ كے مطابق مسلمان عمرہ بجالانے كے لئے تين روز تك مكہ ميں ٹھہر سكتے تھے _رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لشكر اسلام كے دو ہزار افراد كے ساتھ عمرہ كے لئے روانہ ہوئے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہمراہ صلح حديبيہ اور بيعت رضوان ميں شامل تمام افراد موجود تھے سوائے خيبر ميں شہيد يا اس سے قبل وفات پا جانے والے مسلمانوں كے ، البتہ ك۱چھ دوسرے لوگ بھى سفر ميں شريك ہوگئے تھے_

معاہدے كے مطابق چونكہ مسلمان سوائے تلوار كے (جو مسافر كا اسلحہ سمجھا جاتا تھا)اپنے ساتھ زيادہ ہتھيار نہيں ركھ سكتے تھے_ اس لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ممكنہ خطرے سے بچنے كے لئے لشكر اسلام كے ايك سردار كو دوسو جاں بازوں كے ہمراہ كافى اسلحہ كے ساتھ آگے بھيج ديا تا كہ وہ لو گ '' مرّ الظّہران'' پر مكہ سے ۲۲ كيلوميٹر شمال ميںٹھہريں اور ايك درّہ ميں آمادہ رہيں _

مسلمان ، مكہ كے قريب پہنچے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ناقہ قصوى پر سوار اور عبداللہ ابن رواحہ مہار تھامے ہوئے فخر كے ساتھ رجز پڑھتے جاتے تھے_

دو ہزار مسلمان خاص شان وشوكت كے ساتھ جبكہ ان كى آواز فرط شوق سے لرزرہى تھى '' لبيك اللّہم لبيك'' كى آواز بلند كرتے جارہے تھے_ برسوں بعد ، كعبہ كى زيارت كى توفيق نصيب ہوئي تھي_

قريش نے شہر مكہ خالى كرديا تھا اور پہاڑ كى بلنديوں سے مسلمانوں كى جمعيت كو ديكھنے ميں مشغول تھے_ مسلمانوں كى صدائے لبيك كى پر شكوہ گونج نے ان كے دلوں پر وحشت طارى كردى تھى ، عمرہ ادا كرنے كے بعد احتياطى فوج كى جگہ دوسرے گروہ نے لے لى اور انہوں نے عمرہ كے فرائض انجام ديئے_

۱۶۹

مكہ ميں تين روزہ قيام كى مہلت تمام ہوئي _ قريش نے ايك شخص كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس بھيجا اور مطالبہ كيا كہ جتنى ج ى ہو سكے مكّہ سے نكل جائيں_

اس سفر ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مكّہ كے شمال ميں ۱۲ كيلوميٹر كے فاصلہ پر مقام َسرف ميں جناب ميمونہ سے عقد فرمايا اور اس طرح قريش كے در ميان اپنى حيثيت اور زيادہ مضبوط كرلي_(۱۵)

عمرة القضاء كے بعد ۷ ھ ميں چار دوسرے سرايا بھى پيش آئے_

جنگ موتہ

يكم جمادى الاوّل ۸ ھ بمطابق اگست،ستمبر ۶۲۹ئ

عالمى استكبار سے پہلا مقابلہ

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بادشاہ بُصْرى كے پاس ايك سفير بھيجا سفير رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب شام كى سرحد پر واقع سرزمين ''موتہ ''پر(۱۷) پہنچے تو وہاں كے حاكم نے سفير كو قتل كر ديا _(۱۸) ربيع الاول كے مہينہ ميں پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے ۱۶ مبلغين مقام '' ذات اَطلاح'' كے سفر پر مامور كئے گئے وہ بھى اسى سرزمين كے لوگوں كے ہاتھوں قتل كرديئے گئے _ ان ميں سے ايك آدمى زخمى ہوا اور لاشوں كے بيچ گر پڑا اور پھر كسى طرح فرار ہو كر مدينہ پہنچا_(۱۹)

يہ واقعات سبب بنے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم موتہ كى طرف ايك لشكر روانہ فرمائيں_

جہاد كا فرمان صادر ہوتے ہى تين ہزار مسلمان جمع ہوگئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كے سپہ سالاروں كو مندرجہ ذيل ترتيب كے مطابق معين فر مايا_

۱۷۰

جب تك زيد ابن حارثہ زندہ رہيں وہ تمہارے سپہ سالار ہوں گے اور اگر زيد شہيد ہوگئے تو پھر جعفر ابن ابى طالب(۲۰) او ر ا گر وہ بھى شہيد ہو گئے تو عبداللہ ابن رواحہ اور اگروہ بھى شہيد ہوگئے تو مسلمان اپنے درميان سے خود ہى ايك سالار كا انتخاب كر ليں(۲۱)

گريہ كيوں؟

لشكر كى روانگى كے وقت اہل مدينہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہمراہ جانبازان اسلام كو رخصت كرنے كے لئے جمع ہوئے عبداللہ ابن رواحہ گھوڑے پر سوار تھے اور آگے اپنے بيٹے كو سوار كئے ہوئے تھے اور اسى حالت ميں شدّت كے ساتھ گريہ فرمارہے تھے _ لوگوں نے سوچا كہ وہ بيوى اور بيٹے كى محبت اور ان سے جدائي كے غم ميں يا موت كے خوف سے رورہے ہيں عبداللہ ابن رواحہ جب لوگوں كے گمان كى طرف متوجہ ہوئے تو سر اٹھايا اور كہا '' اے لوگوں ، ميرا گريہ زندگى ، بيوي، بيٹے، گھربار اور خاندان كى محبّت ميں نہيں ، ميں شہادت سے نہيں ڈرتا اور نہ ہى اس وجہ سے رورہا ہوں بلكہ ميرے گريہ كا سبب قرآن كى مندرجہ ذيل آيت ہے _

''( و انْ منْكُمْ الاّ وَاردُهَا كَانَ عَلى رَبّكَ حَتْمَاً مَقْضيّاً ثُمَّ نُنَجيَ الَّذينَ اتَّقَوا وَ نَذَرُ الْظَالمينَ فيهَا جثيّاً ) (۲۲)

''تم ميں سے كوئي شخص باقى نہيں رہے گا جز اس كے كہ دوزخ ميں جائے اور يہ تمہارے پروردگا ر كا حتمى حكم ہے _ دوزخ ميں داخل ہونے كے بعد ہم ان افراد كو جو خدا ترس اور

۱۷۱

باتقوا تھے، نجات ديں گے اور ستم گاروں كو چھوڑديںگے تا كہ وہ گھٹنوں كے بل آگ ميں گر پڑيں_

مجھے اطمينان ہے كہ مجھے جہنّم ميں لے جايا جائے گا ليكن يہ كيسے پتہ چلے كہ نجات دى جائے گى _(۲۳)

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں كے ساتھ شہر كے دروازہ تك مجاہدين كو رخصت كيا اور فرمايا ''دفع اللہ عنكم و ردّكم سالمين غانمين'' يعنى خدا تمہارا دفاع كرے اور سلامتى اور غنيمت كے ساتھ واپس پلٹائے ليكن عبداللہ ابن رواحہ نے جواب ميں شعر پڑھا جس كا مطلب تھا_ميں خداوند رحمان سے مغفرت طلب كرتا ہوں اور اس سے شمشير كى ايسى ضربت كا خواہاں ہوں جو ميرى زندگى كو ختم كردے_(۲۴)

خداحافظ كہتے وقت عبداللہ ابن رواحہ نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نصيحت كرنے كى خواہش كى ، حضرت نے فرمايا '' جب تم ايسى سرزمين پر پہنچو جہاں اللہ كى عبادت كم ہوتى ہے تو اس جگہ زيادہ سجدے كرو''_عبداللہ نے كہا كچھ اور نصيحت فرمائيں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدا كو ياد كرو، خدا كى ياد مقصد تك پہنچنے ميںتمہارى مددگار ہے ''(۲۵) _رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كے اميروں كو حكم ديا كہ '' خدا كے نام سے اس كى راہ ميں جنگ كرواور جو خدا كا انكار كرے اس سے لڑو _ دھوكہ بازى نہ كرو، بچوں كو قتل نہ كرو، جب مشركين سے سامنا ہوتو تين چيزوں ميں سے ايك كى دعوت دو اور جب كسى ايك كو قبول كرليں تو ان سے دست بردار ہو جاؤ _ پہلے اسلام كى دعوت دو اگر قبول كرليں تو ان سے جنگ نہ كرو_ دوسرے ان سے مطالبہ كرو كہ اپنى زمين سے چلے جائيں اور ہجرت كريں اگر قبول كرتے ہيں تو ان كے لئے وہى حقوق ہيں جو دوسروں كے لئے ہيں ،اگران دونوں باتوں كے قبول كرنے سے انكار كريں

۱۷۲

تو جزيہ ادا كرنے كى دعوت دو اگر ان تمام باتوں سے سرتابى كريں تو خدا سے مدد مانگو اور ان سے جنگ كرو''(۲۶) _

غير مساوى طاقتوں كى جنگ

لشكر اسلام موتہ كى جانب روانہ ہوا_ جنوب عمان ميں ۲۱۲ كيلوميٹر دور مقام ''معان''پرخبر ملى كہ بادشاہ روم ہرَقُل ايك لاكھ سپاہيوں كو ''بلقائ'' كے علاقہ ميں سرزمين ''مآب'' تك بڑھا لا يا ہے_ اور اس علاقہ كے ايك لاكھ عرب جنگجو روميوں كى مدد كے لئے لشكر روم سے آملے ہيں _

يہ خبر اميران لشكر كے آپس ميں مشورہ كا سبب بنى _ شروع ميں تو ان كا ارادہ تھا كہ اس واقعہ كى خبر پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو دى جائے اور ان سے معلوم كيا جائے كہ كيا كرنا چاہيئےكن عبداللہ ابن رواحہ نے شجاعانہ و حماسہ ساز تقرير كے ذريعے انہيںاس فكر سے بازر كھا_ آپ نے لشكر كو خطاب كرتے ہوئے كہا '' اے لوگوں خدا كى قسم ، جو چيز تمہيں اس وقت ناپسند ہے اسى كو طلب كرنے كے لئے تم نكلے ہو يہ وہى شہادت ہے جس كے شوق ميں تم نے سفر كى زحمت برداشت كى ہے ، ہم نے كبھى بڑے گروہ ، كثير جماعت اور عظيم لشكر كے ذريعہ جنگ نہيں كى ،ہم ايمان كى طاقت سے لڑتے ہيں جس كى بدولت خدا نے ہميں بزرگى دى ہے ، اٹھو اور اپنے راستہ پر چل پڑو ہمارے سامنے (احَدُ الحسنين ) دوا چھے راستے ہيں ، فتح يا شہادت_(۲۷)

عبد اللہ ابن رواحہ كى شعلہ بار تقرير كے بعد لشكر اسلام ٹڈى دل لشكر كى طرف چل پڑا _ اور بلقاء كى سر حد پر روم كا دو لا كھ كا لشكر تين ہزار مجاہدين سے روبرو ہوا _ لشكر اسلام كى بے

۱۷۳

امان جنگ شروع ہوئي اور اللہ والے جو شہادت كو بقاء كاراز سمجھتے تھے، شہادت كے استقبال كے لئے دوڑ پڑے_

لشكر اسلام كے دلير سردار جعفر ابن ابى طالب(ع) كى شہادت

جنگ كے شور و غل ميں جعفر ابن ابى طاب نے پرچم ہاتھ ميں ليا اور مردانہ وار قلب لشكر پر حملہ كرديا اور ان كے نرغہ ميں گھر گئے آپ نے اپنے گھوڑے كو پيچھے چھوڑ ديا تا كہ وہ دشمن كے ہاتھ نہ آسكے اور پيادہ لڑتے رہے(۲۸) جب آپ كا داہنا ہاتھ قلم ہوا تو پرچم كو بائيں ہاتھ ميں سنبھالا يہاں تك كہ آپ كا باياں ہاتھ بھى كٹ گيا اس كے بعد آپ نے پرچم كو سينے سے لگاليا _ يہاں تك كہ شہادت كى سعادت سے مشرف ہوئے خدا نے ان كے كٹے ہوئے ہاتھوں كے بدلے دو پر عنايت كئے تا كہ وہ فرشتوں كے ساتھ جنّت ميں پرواز كريں اس لئے آپ(ع) '' جعفر طيار'' كے لقب سے ملقب ہوئے _(۲۹)

عبداللہ ابن رواحہ اور زيد ابن حارثہ كى شہادت

جناب جعفر كى شہادت كے بعد زيد ابن حارثہ نے پرچم اٹھايا اور لشكر كفر پر حملہ كرديا اور دليرانہ جنگ كے بعد درجہ شہادت پر فائز ہوئے _ تيسرے سردار لشكر عبداللہ ابن رواحہ نے پرچم اٹھايا تھوڑى دير تك سوچتے رہے كہ جنگ جارى ركھى جائے يا نہيں ، آخر كار رجز پڑھتے ہوئے سپاہ دشمن پر حملہ آور ہوئے_

اے نفس ، اگر تو ابھى قتل نہيں ہوگا تو بالآخر مرہى جائے گا_كبوتر(فرشتہ) مرگ آن پہنچا ہے _

۱۷۴

جو تيرى آرزو تھى اس كا وقت بھى آگيا ہے _

اگر ان دونوں (جعفر اور زيد)كے راستے پر چلو گے تو نجات پاجاؤگے_

يہ رجز پڑھ كر عبداللہ دليرانہ انداز ميں قلب لشكر پر حملہ آور ہوئے ان كى تلوار كافروں كے سروں پر موت كے شعلے بر سار ہى تھى _ آخر كار عبداللہ بھى اپنے رب سے جا ملے اور انہيں اسى انداز ميں شہادت نصيب ہوئي جو انہوں نے خداوند عالم سے طلب كى تھى كہ ان كے جسم كو گلگوں بناديا جائے_(۳۰)

مجاہدين كى واپسي

عبد اللہ ابن رواحہ كى شہادت كے بعد سپاہيوں كى رائے اور پيش كش سے خالد ابن وليد(۳۱) سردار لشكر بنے _ خالد نے جنگ كو بے نتيجہ ديكھا اور رات تك تھوڑى بہت پراگندہ طور پر جنگ جارى ركھى ، رات كو جب دونوں لشكر جنگ سے رك گئے تو خالد نے لشكر گاہ كے پيچھے بہت سے سپاہيوں كو بھيجا تا كہ صبح كو خوب شور و غل مچاتے ہوئے لشكر سے آمليں _ صبح شور و غل سنكر روميوںنے يقين كر ليا كہ مدينہ سے ايك عظيم امدادى لشكر آن پہنچا ہے _ چونكہ رومى مسلمانوں كى تلوار كى طاقت اور ان كے جذبہ شہادت كوديكھ چكے تھے اس لئے جنگ ميں پس و پيش كرتے ہوئے حملہ كرنے سے باز رہے اور مسلمانوں كے حملہ كا انتظار كرتے رہے اور جب انہوں نے ديكھا كہ خالد كا حملہ كا كوئي ارادہ نہيں ہے تو عملى طور پر جنگ بندى ہو گئي _ خالد نے عقب نشينى كے ذريعہ مسلمانوں كو دشمن كے دولا كھ جنگجوؤں كے چنگل سے بچاليا_

اس جنگ كے نتيجہ ميں ايك طرف مسلمان روميوں كے جنگى حربوں اور طريقہ كار سے

۱۷۵

آگاہ ہوگئے اور دوسرى طرف شہادت كے شيدا لشكر اسلام كا رعب و دبدبہ روم كى مغرور فوج كے دلوں ميں بيٹھ گيا_ لشكر مدينہ واپس آيا لوگ نہايت بر انگيختہ اور غيظ وغضب كے عالم ميں تھے اور سپاہى ملول و خاموش ، لوگ آگے بڑھے اور خاك اٹھا كر سپاہيوں كے چہروں پر ڈالنے اور شور كرنے لگے كہ '' اے فراريو تم لوگ خدا كے راستے سے فرار كرتے ہو؟ سپاہى اپنے گھروں ميں چلے گئے اور ملامت كے خوف سے ايك مدّت تك گھروں سے باہر نہ نكلے _ يہاں تك كہ نماز جماعت ميں بھى نہيں آتے تھے _ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' يہ لوگ فرارى نہيں ہيں اور انشاء اللہ حملہ كرنے والے ہو جائيں گے''(۳۲) _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعفر ابن ابيطالب(ع) كے سوگ ميں

مسلمانوں كى كيفيت اور خصوصاً جعفر كى موت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بے حد غمگين تھے _ حضرت جعفر كے شہيد ہونے پر آپ نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شدّت كے ساتھ گريہ كيا جعفر كے گھر والوں كو تسلّى دينے كے لئے ان كے گھر تشريف لے گئے اور فرمايا كہ '' ميرے بچے ، عون ومحمد اور عبداللہ كہاں ہيں ؟ جناب جعفر كى بيوى اسمائ، حضرت جعفر كے بيٹوں كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں لائيں ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شہيد كے بچوںكو پيار كيا ، گلے لگايا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى آنكھوں سے آنسو نكل كرڈاڑھى پر بہنے لگے _حضرت جعفر كى بيوى نے پوچھا _ '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر فدا ہوں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرے بچوّںكو اس طرح پيار كررہے ہيں جيسے كسى يتيم كو پيار كياجاتا ہے گويا ان كے باپ اس دنيا ميں نہيں رہے ؟''رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمايا ، ہاں وہ قتل كرديئےئے ، پھر فرمايا، اے اسماء ايسا نہ ہو كہ تم اپنى زبان سے كوئي ناروا بات نكالو اور سينہ كو بى كرو ميں تمہيں خوشخبرى سناتا ہوں ، خدا نے جعفر كو دو ، ''پَر'' عطا كئے ہيں جن سے وہ بہشت ميں پرواز كرتے ہيں _(۳۳)

۱۷۶

جنگ ذات السّلاسل

جمادى الثانى ۸ ھ ق ستمبر ،اكتوبر ۶۲۹ ئ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اطلاع ملى كہ قبلائل بَليّ اور قضاعة كے كچھ لوگ جمع ہو كر مدينہ پر حملہ كرنے كى فكر ميں ہيں _

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے لشكر تيار ہوا اور اس كى سپہ سالارى عمروبن عاص كے سپرد ہوئي _ اسكى وجہ يہ تھى كہ عمرو كى بڑى ماں (دادى يا ناني) قبيلہ بليّ سے تھى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چاہا كہ عمرو بن عاص كو سپہ سالارى ديكر اس گروہ كے دلوں كو اسلام كى طرف مائل كيا جائے _ عمروبن عاص اور اس كا لشكر دن ميں كمين گاہ ميں چھپے رہتے اور راتو ں كو سفر كرتے جس وقت دشمن كے قريب پہنچے تو پتہ چلا كہ دشمن كى تعداد زياد ہے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابو عبيدہ جراح كو دو سو فراد كے ايك دستہ كے ساتھ مدد كے لئے بھيجا عمروبن عاص كے لشكر نے ابو عبيدہ كے امدادى لشكر كے ساتھ قبائل بليّ ، عذرہ اور بَلْقين كے تمام رہائشےى علاقہ كا دورہ كيا ليكن دشمن پہلے ہى خبر پا كر علاقہ سے بھاگ چكے تھے _

صرف آخرى مقام پر لشكر اسلام اور لشكر كفر كے در ميان ايك گھنٹہ تك ٹكراؤہوا جس ميں ايك مسلمان زخمى اور دشمن شكست كھا كر فرا كر گئے _(۳۴)(۳۵)

۱۷۷

سوالات

۱_خيبر ميں لشكر كى كاميابى كے اسباب كيا تھے؟

۲_مال غنيمت ميں خيانت كے سلسلہ ميں ايك واقعہ بيان كيجئے_

۳_ فدك كاواقعہ كيا ہے؟

۴_ عمرة القضاء كس مہينہ ميں تھا؟

۵_ روم كى بڑى طاقت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سپاہيوں نے كيوں جنگ كى ؟

۶_ روانگى كے وقت عبد اللہ ابن رواحہ كيوں رورہے تھے؟

۷_ جعفر ابن ابيطالب'' جعفر طياّر'' كے نام سے كيوں مشہور ہوئے؟

۱۷۸

حوالہ جات

۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۷۳

۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۷۱ و سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۵۱ _۳۵۲

۳_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۰

۴_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۱

۵_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۱

۶_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۵۶ _۳۵۷

۷_مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۲

۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۳_زاد المعاد ج ۳ ص ۳۳۳ _سنن ابى داود (۲۷۴۵ ) صحيح بخارى ج ۷ ص ۳۷۱

۹_مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۰۶_

۱۰_پوہشى عميق از زندگانى على (ع) ص ۲۶۱ _۲۶۶

۱۱_تاريخ طبرى ج ۳ ص ۱۷ _۱۶ سے تلخيص _ محمد رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم ص۲۸۴_فتوح البلدان ص ۴۷

۱۲_ تيماء ، مدينہ سے آٹھ منزل پر مدينہ اور شام كے راستہ ميں ايك مقام ہے _

۱۳_التنبيہ والاشراف ص ۲۲۴

۱۴_تاريخ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مصنفہ ڈاكٹر آيتى كے مطابق ص ۴۸۶ _۴۸۳_

۱۵_مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۴۰ _ ۷۳۱ يہاں خلاصہ ذكر كيا گيا ہے_

۱۶_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵_

۱۷_ يہ سرزمين ا ب شہداء موتہ كى آرام گاہ ہے اور سرزمين اردن ہاشمى ميں واقع ہے_

۱۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۵ _ بحارالانوار ج ۲۱_۵۸

۱۹_ طبقات كبرى ج ۲ ص ۱۲۸_مغازى ج ۲ ص ۷۸۲

۲۰_ اگر چہ اہل سنت كى بہت سى تاريخوں ميں يہ بات مرقوم ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كا پہلا اميرزيد بن حارث كو

۱۷۹

معيّن فر ما يا اور زيد كے قتل ہوجانے كى صورت ميں جعفر بن ابى طالب اور ان كے بعد عبداللہ بن رواحہ ليكن كعب بن مالك كے شہداء موتہ كے بارے ميں مرثيہ سے ثابت ہوتا ہے كہ جعفر لشكر كے پہلے امير تھے_ كعب كہتے ہيں كہ '' اذ يہتدون بجعفر ولوائة قدّام اوّلہم فنعم الاوّل'' سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۸_

۲۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۸ _ بحار الانوار ج ۲۱ ص ۵۵ _

۲۲_ سورہ مريم آيت ۷۱_۷۲_

۲۳_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵ _ اور تاريخ طبرى ج ۳ ص ۳۷

۲۴_'' ولكننّى ا سا ل الرّحمن مغفرة وضَربةً ذا ت فرع: تقذف الزّبداً '' سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵_

۲۵_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۸_

۲۶_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۷بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۱_

۲۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۷ _ تاريخ طبرى ج ۳ ص ۳۸_

۲۸_ بحارالانوار ج ۲۱ ص ۵۴_

۲۹_ بحارالانوار ج ۲۱ ص ۶۲ _ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۰_

۳۰_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۱ _

۳۱_ خالد ابن وليد اور عمرو ابن عاص دونوں آپس ميں دوست اور اسلام كے سخت ترين دشمن تھے مسلمانوں كى پے در پے فتوحات او رعمرة القضاء كے موقع پر ان كى شا ن و شوكت و عظمت ديكھنے كے بعد ان لوگوں نے يہ سمجھ ليا كہ اسلام كى كاميابى اور فتح يقينى ہے _ اس وجہ سے ان دونوں نے يہ الگ الگ طے كيا كہ مسلمان ہوجائيں _ لہذا دونوں ايك دوسرے سے الگ اور بے خبر مدينہ كى طرف چلے اور راستہ ميں اچانك ايك دوسرے سے مل گئے اور پھر مدينہ ميں رسول خدا كى خدمت ميں شرفياب ہوئے اور اسلام قبول كيا _(مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۴۱ _۷۵۰ملاحظہ ہو)_

۳۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۶۵_

۱۸۰