تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي0%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 298
مشاہدے: 153300
ڈاؤنلوڈ: 3567


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153300 / ڈاؤنلوڈ: 3567
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد 2

مؤلف:
اردو

۳۳_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۶۷ _بحارلاانوارج ۲۱ _ ص ۵۶_۵۷

۳۴_ مغاز ى واقدى ج ۲ ص ۷۶۹ سے ۷۷۲ _ تاريخ طبرى ج ۳ ص ۳۳_۳۲ سے خلاصہ بيان كيا گيا ہے_

۳۵_ شيعہ منابع ميں يہ واقعہ يوں درج ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صحابہ ميں سے تين افراد ابو بكر ، عمر اور عمر و بن عاص ، كو اس سريہ كا امير مقرر فرمايا _ ليكن وہ لوگ جنگى كاميابى حاصل نہ كر سكے اس لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چوتھى بار حضرت على (ع) كو امير بنا كر لشكر كے ساتھ روانہ فرمايا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علي(ع) اور سپاہيوں كو مسجد احزاب تك رخصت كيا _حضرت علي(ع) صبح سويرے دشمن پر حملہ آور ہوئے ، دشمن ايك گروہ كثير كے ساتھ حملہ روكنے كے لئے آگئے ليكن حضرت على (ع) كى بے امان جنگ و پيكار نے دشمن كے دفاعى حملہ كو ناكام بنا ديا اور دشمن كو شكست دينے كے بعد على (ع) كامياب و سرفراز ہو كر مال غنيمت اور اسيران جنگ كے ساتھ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پلٹے پروردگارقہار سورہ والعاديات ميں اس واقعہ كى طرف اشارہ كرتا ہے_

( بسم الله الرحمن الرحيم_والعاديات ضَبْحاً_ فالموريات قدحا_ً فالمغيرات صبحاً_ فاثرن به نقعا_ً فوسطن به جمعا_ً )

قسم ہے ان گھوڑوں كى جو نتھنوں كو پُھلاتے پتّھر پرٹاپ مار كر چنگارياں نكالتے ہيں پھر صبح دم حملے كرتے ہيں _ (كفار كے ديار ميں وہ) گردو غبار بلند كرتے اور دشمن كے دل ميں گھس جاتے ہيں _

تفضيلات كےلئے ارشاد شيخ مفيد ص ۸۶ _۹۰ مجمع البيان ج ۱۰ ص ۵۲۸_ بحارالانوار ج ۲۱ ص ۷۶ _ ۷۷ مناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص۱۴۰_۱۴۲كى طرف رجوع كريں

۱۸۱

دسواں سبق

فتح مكہ(۱)

قريش كى عہد شكني

تجديد معاہدہ كى كوشش

لشكر اسلام كى تياري

راستوں كوكنٹرول كرنے كيلئے چيك پوسٹ

ايك جاسوس كى گرفتاري

مكہ كى جانب

دشمن كو ڈرانے كيلئے عظيم جنگى مشق

مشركين كا پيشوا مومنين كے حصار ميں

مكہ ميں نفسياتى جنگ

شہر كا محاصرہ

ايك فوجى دستہ كے ساتھ مشركين كى جھڑپ

سوالات

۱۸۲

فتح مكہ

قريش كى عہد شكني

روانگى كى تاريخ: ۱۰ رمضان المبارك ۸ ھ(۱) بمطابق ۶جنورى ۶۲۹ ئ

فتح كى تاريخ : ۱۹ رمضان المبارك ۸ ھ بمطابق ۱۳ جنورى ۶۲۹

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس فكر ميں تھے كہ مكّہ ، يہ خانہ توحيد جو مشركين كے گھيرے ميں ہے اس كو آزاد كراديں ،ليكن اس راستے ميں صلح حديبيہ ركاوٹ تھي_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہيں چاہتے تھے كہ اس معاہدے كو توڑكرمكہ فتح كريں كہ جس كى رعايت كا انہوں نے خود كو پابند بنايا تھا_ ليكن جب كسى امّت كا وقت قريب آتا ہے اورمہلت كى مدّت ختم ہوجاتى ہے تو الہى قانون كے مطابق ايسے حالات پيدا ہوجاتے ہيں كہ ايك قوم يا گروہ كا خاتمہ ہوجائے اور ان كے مد مقابل كے لئے كاميابى كا راستہ كھل جائے_

موتہ كى جنگ اس بات كا سبب بنى كہ قريش مسلمانوں كو كمزور سمجھنے لگے اور صلح حديبيہ كا معاہدہ توڑنے كى سوچنے لگے لہذا جب روميوں كے مقابلہ ميں مسلمانوں كى شكست كى خبر مكہ پہنچى تو قريش نے اس كو لشكر اسلام كى كمزورى پرحمل كيا اور مسلمانوں كے ہم پيمان اور ہمدرد قبيلوں كو آنكھيں دكھانے لگے_

۱۸۳

صلح حديبيہ كے معاہدہ كے مطابق كوئي بھى قبلہ دونوں گروہوں يعنى قريش يا مسلمانوں كے ساتھ معاہدہ كر سكتا تھا _ خزاعہ نے حضرت محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے اور بنى بكر نے قريش سے معاہدہ كيا ۸ ھ ميں خزاعہ اور بنى بكر كے در ميان جھگڑا ہوا قريش نے اس حملہ ميں خزاعہ كے خلاف بنى بكر كى خفيہ طريقہ سے مدد كى ، چہرہ پر نقاب ڈال كر ان كے ساتھ مل كر حملہ كيا _

اس حادثہ ميں قبيلہ خزاعہ كے كچھ لوگ مظلومانہ طريقہ سے قتل كرديئے گئے اور اس طرح صلح حديبيہ كا عہد و پيمان ٹوٹ گيا _ كيونكہ قريش رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حليف قبيلہ كے خلاف جنگ ميں كود پڑے تھے_(۲)

تجديد معاہدہ كى كوشش

ابو سفيا ن بھانپ گيا كہ يہ گستاخى جواب كے بغير نہيں رہے گى درحقيقت قريش نے لشكر اسلام كے لئے خود ہى حملہ كا موقعہ فراہم كرديا تھا لہذا وہ لوگ فوراً ہى مدينہ پہنچے كہ شايد معاہدہ كى تجديد ہو جائے_

ابوسفيان مدينہ ميں اپنى بيٹى ، رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا كى زوجہ '' اُمّ حبيبہ'' كے گھر پہنچا چونكہ باپ اور بيٹى نے كئي سال سے ايك دوسرے كو نہيں ديكھا تھا _ اس لئے باپ كا خيا ل تھا كہ بيٹى بڑے اچھے انداز سے استقبال اور پذيرائي كرے گى اور اس طرح وہ اپنے مقصد كو عملى جامہ پہننانے ميں كامياب ہو جائے گا _ ليكن جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے گھر ميں وارد ہوا اور چاہا كہ بستر پر بيٹھ جائے تو بيٹى نے بے اعتنائي كے ساتھ بستر كو لپيٹ ديا _ ابو سفيان نے تعجب سے پوچھا كہ '' تم نے اس كو لپيٹ كيوں ديا _؟ '' بيٹى نے جواب ديا كہ '' آپ مشرك اور نجس ہيں ،

۱۸۴

ميں نے يہ مناسب نہيں سمجھا كہ آپ ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جگہ بيٹھيں_

ابو سفيا ن نے صلح نامہ كى مدّت بڑھانے كےلئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے رجوع كيا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كوئي جواب نہيں ديااور صرف خاموش رہے_ ابوسفيان نے بزرگوں ميں سے ہر ايك سے وساطت كےلئے رابطہ قائم كيا مگر نفى ميں جواب ملا _حضرت على (ع) كى راہنمائي ميں ابوسفيان مسجد كى طرف آيا اور يك طرفہ صلح نامہ كى مدّت ميں اضافہ كا اعلان كيا پھر غصّے اور مايوسى كے عالم ميں بغير كسى نتيجہ كے مكّہ واپس پلٹ گيا _(۳)

ستم رسيدہ قبيلہ '' خزاعہ'' كے افراد نے اپنى صدائے مظلوميت پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے كانوں تك پہنچانے كے لئے عمروابن سالم كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيجا وہ مدينہ ميں وارد ہوا اور سيدھا مسجد كى طرف گيا اور لوگوں كے در ميان كھڑے ہو كر مخصوص انداز سے ايسے دردناك اشعار پڑھے جو قبيلہ خزاعہ كے استغاثہ اور مظلوميت كى حكايت كررہے تھے اس نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ''خزاعہ'' كيساتھ كئے جانے والے معاہدے كى قسم دلائي اور فريادرسى كا طلب گار ہوا اس نے كچھ اشعار پڑھے جن كا مطلب يہ تھا _

اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آدھى رات كو ہم جب وَتيْرَہ(۴) كے كنارے تھے اور ہم ميں سے كچھ لوگ ركوع و سجود كى حالت ميں تھے تو مشركين نے ہم پر حملہ كيا ،جبكہ ہم مسلمان تھے ، انہوں نے ہمارا قتل عام كيا(۵) _

عمرو كے جاں گداز اشعار سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كا مہر و محبت سے لبريز دل درد سے تڑپ اٹھا_ لہذا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' اے عمرو ہم تمہارى مدد كريں گے''(۶)

۱۸۵

لشكر اسلام كى تياري

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے روانگى كا مقصد بتائے بغير لشكر اسلام كو تيار ہونے كا حكم ديا اور قريبى قبائل اور مدينہ والوں نے لشكر ميںشركت كى _مجموعى طورپر دس ہزار جانبازوں نے خود كو روانگى كے لئے تيار كر ليا ،كسى كو خبر نہيں تھى كہ اس تيارى كا مقصد كيا ہے ؟ اور لشكر كا آخرى ہدف كہاں جا كر تمام ہوگا ؟ اس لئے كہ كچھ لوگوں كا يہ خيا ل تھا كہ حديبيہ كا معاہدہ ابھى تك باقى ہے_

راستوںكو كنٹرول كرنے كيلئے چيك پوسٹ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن كو غافل ركھنے كے لئے نہايت خفيہ طريقہ سے قدم اُٹھار ہے تھے اور بہت باريك بينى سے كام لے رہے تھے اس كام كے لئے ان كے حكم سے مدينہ كے تمام راستوں پر پہرے بيٹھاديئےئے تھے اور مشكوك افراد كى رفت و آمد پر كٹرى نگاہ ركھى جارہى تھى كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ قريش كے جاسوس لشكر اسلام كى روانگى سے آگاہ ہوجائيں_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا كى ،خدايا آنكھوں اور خبروں كو قريش سے پوشيدہ كردے تا كہ ہم اچانك ان كے سروں پر پہنچ جائيں_(۷)

ايك جاسوس كى گرفتاري

سخت حفاظتى تدابير كے با وجود ، حاطب ابن ابى بلتعہ نامى ايك مسلمان نے اس لالچ ميں آكر كہ اگر اس نے قريش كى كچھ خدمت كردى تو اس كے وابستگان ،مكہ ميں گزند سے محفوظ رہيں گے اور يہ سمجھ كر كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شايد مكہ كاہى قصد ركھتے ہوں ، ايك خط قريش كو لكھا تا كہ ان كو خبر كردے اور يہ خط سارہ نامى ايك عورت كے حوالے كيا جو پہلے گا نے

۱۸۶

بجانے والى عورت تھى اوراسے كچھ پيسے بھى ديئےا كہ وہ غير معروف راستہ سے مدينہ سے مكہ جائے اور يہ خط قريش كے سر كردہ افردا تك پہنچا دے _

جبرئيل امين (ع) نے آكر پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو يہ خبر پہنچا دى اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بلا تاخير على ابن ابى طالب(ع) كو زبير كے ساتھ اس عورت كو گرفتار كرنے كے لئے روانہ كيا_ يہ لوگ نہايت تيزى كے ساتھ مكہ كى طرف چلے اور راستہ ميں مقام خُلَيْقَہ ميں اس عورت كو گرفتار كركے اس كے سامان كى تلاشى لى ليكن كوئي خط نہيں ملا ، سارہ نے بھى كسى خط يا كسى خبر كے اپنے ساتھ ركھنے كا شدّت سے انكار كيا _ ليكن على (ع) نے بہ آواز بلند كہا كہ '' خدا كى قسم پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كبھى بھى غلط بات نہيں كہتے لہذا جتنى جلد ى ہو سكے خط نكال دے ورنہ ميں تجھ سے خط نكلوالوں گا '' عورت نے جب دھمكى كو يقينى سمجھا توكہنے لگى '' آپ لوگ ذرا دور ہٹ جائيں ميں خط دے رہى ہوں اس وقت اس نے اپنے جوڑے (سر كے بندھے ہوے بالوں ) ميں سے ايك خط نكالا اور على (ع) كے حوالہ كرديا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خط لكھنے والے كو طلب كيا اور بازپرس كى اس نے خدا كى قسم كھائي اور كہا كہ اس كے ايمان ميں كسى طرح كى تبديلى نہيں ہوئي ہے ليكن چونكہ ميرے بيوى بچّے مشركين قريش كے ہاتھوں ميں اسير ہيں اس لئے ميں نے چاہا كہ اس خبر كے ذريعہ ميرے گھر والوں كى تكليف ميں كچھ كمى ہو جائے(۸) _

اس غرض سے كہ ايسا واقعہ پھر نہ دہرا يا جائےچند آيتيں نازل ہوئيں ايك آيت ميں ارشاد ہوتا ہے _'' اے ايمان والو ميرے دشمن اور اپنے دشمن كو دوست نہ بناؤ اور ان كے ساتھ محبت اور دوستى كى پينگيں نہ بڑھاؤ''(۹)

پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كى جاہلانہ خطا كو معاف كرديا اور اس كى توبہ قبول كرلي_

۱۸۷

مكّہ كى جانب

كہاں جانا ہے اور كس مقصد سے جاناہے يہ تو معلوم نہ تھا اس كے علاوہ حكم صادر ہونے كے وقت تك يہ بھى معلوم نہ تھا كہ كس وقت جانا ہے _ رمضان المبارك كى دسويں تاريخ ۸ ھ ق كو روانگى كا حكم صادر ہوا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدينہ كے باہر لشكر اسلام كا معائنہ كيا پھر روانگى كا حكم ديا اور مدينہ سے تھوڑے سے فاصلہ پر(حد ترخّص سے نكلنے كے بعد) پانى مانگ كر روزہ افطار كيا اور سب كو حكم ديا كہ روزہ افطار كرليں _ بہت سے لوگوں نے افطار كر ليا ليكن ايك گروہ نے يہ سوچا كہ اگر روزہ كى حالت ميں جہاد كريں تو اس كا زيادہ اجر ملے گا _ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس گروہ كى حكم عدولى سے ناراض ہوئے اور فرمايا كہ يہ لوگ گنہگار اور سركش ہيں _(۱۰)

لشكر اسلام بغير كسى توقف كے تيزى سے بڑھتا رہا _ دس ہزار جانبازوں نے مدينہ سے مكہ كا راستہ ايك ہفتہ ميں طے كيا اور رات كے وقت مكہ سے ۲۲ كيلوميٹر شمال كى جانب '' مرّ الظہران'' پہنچ كر خيمہ زن ہو گيا_(۱۱)

دشمن كو ڈرانے كيلئے عظيم جنگى مشق

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مرّ الظہران ميں حكم ديا كہ دس ہزار كا لشكر پورے ميدان ميں بكھر جائے او ر ہر آدمى آگ جلائے تا كہ لشكر اسلام كى عظمت نماياں ہو اور مشركين قريش كے دل ميں زيادہ سے زيادہ خوف پيدا ہو اور وہ سمجھ ليں كہ اب اس عظيم لشكر سے مقابلہ كى طاقت ان ميں نہيںہے اور ہر طرح كے مقابلہ سے نا اميد ہو جائيں ، تا كہ مكہ بغير كسى خونريزى كے فتح ہو جائے اور حرمت خانہ خدا محفوظ رہ جائے_

۱۸۸

رات كے اندھيرے ميں آگ كے شعلے لپك رہے تھے_ صحرا آگ كا ايك وسيع و عريض خرمن نظرآرہا تھا _ لشكر اسلام كے ہمہمہ كى آواز دشت ميں گونج رہى تھي_

ابوسفيان ، حكيم بن حزام اور بديل بن ورقائ، ديكھنے اور پتہ لگانے كے لئے مكّہ سے باہر نكلے(۱۲) _دوسرى جانب عباس ابن عبدالمطلب نے جو مقام حجفہ سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہمركاب تھے_ دل ميں سوچا كہ كيا ہى بہتر ہو اگر طرفين كے فائدہ كے لئے كام كيا جائے تا كہ خونريزى نہ ہو _ لہذا سفيد خچّر پر سوار ہو كر مكّہ كى طرف چلے كہ شايد كسى كے ذريعہ لشكر اسلام كے حملہ اور محاصرہ كى خبر قريش كے سر بر آوردہ افراد كے كانوں تك پہنچا سكيں اور ان كو دلاور ان اسلام كى عظيم طاقت اور بے پناہ جرا ت و ہمت سے آگاہ كركے ہر طرح كے مقابلہ كى بات سوچنے سے باز ركھيں_

جناب عباس نے رات كى تاريكى ميں ابوسفيان كى آواز سنى وہ كہہ رہا تھا '' ميں نے ابھى تك اتنى زيادہ آگ اور اتنا باعظمت لشكر نہيں ديكھے''_

ابوسفيان كا ساتھى كہہ رہا تھا ''يہ قبيلہ خزاعہ والے ہيں جو جنگ كے لئے جمع ہوئے ہيں ''

ابوسفيان نے كہا كہ '' ايسى آگ روشن كرنا اور اس طرح لشكر تشكيل دينا خزاعہ كے بس كى بات نہيں''_

عباس نے ان كى بات كاٹى اور كہا كہ ابوسفيان

ابوسفيان نے عباس كى آواز پہچان لى اور فوراً كہا '' عباس تم ہو'' كيا كہہ رہے ہو _ عباس نے جواب ديا '' خدا كى قسم يہ آتش رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لشكر نے روشن كى ہے وہ ايك طاقتور اور نہ ہارنے والا لشكر لے كر قريش كى طرف آئے ہيں اور قريش ميں ان سے مقابلہ كرنے كى ہرگز طاقت نہيں ہے _

۱۸۹

عباس كى باتوں سے ابوسفيان كے دل ميں اور زيادہ خوف پيدا ہوا، خوف كى شدّت سے كا نپتے ہوئے اس نے كہا '' عباس ميرے ماں باپ تم پر فدا ہوں بتاؤ ميں كيا كروں؟ عباس نے جب ديكھا كہ ان كى بات مؤثر ثابت ہوئي تو فرمايا '' اب صرف چارہ يہ ہے كہ تم ميرے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ملاقات كےلئے آؤ اور ان سے امان طلب كرو ورنہ سارے قريش كى جان خطرہ ميں ہے '' _

اس كے بعد آپ نے اس كو اپنى سوارى پر سوار كيا اور لشكرگاہ اسلام كى طرف لے چلے''(۱۳)

مشركين كا پيشوا ، مومنين كے حصار ميں

عباس نے ابوسفيان كو سپاہ اسلام كى عظيم لشكر گاہ سے گزارا، سپاہيوں نے عباس اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مخصوص سوارى كو ، جس پر عباس سوار تھے، پہچانا اور ان كے گزر نے سے مانع نہيںہوئے بلكہ ان كے لئے راستہ چھوڑ ديا راستے ميں عمر كى نظر ابوسفيان پر پڑى تو انہوں نے چاہا كہ اسى جگہ اس كو قتل كرديں ليكن چونكہ عباس نے اسے امان دى تھى اس لئے وہ اپنے ارادہ سے باز رہے يہاں تك كہ عباس اور ابوسفيان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خيمہ كے پاس پہنچ كر سوارى سے اترے_ عباس اجازت لينے كے بعد پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خيمہ ميں آئے _ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے عباس اور عمر ميں كچھ لفظى جھڑپ ہوئي ، عمر يہ اصرار كررہے تھے كہ ابوسفيان دشمن خدا ہے اور اس كو اسى وقت قتل ہو نا چاہئے ليكن عباس كہہ رہے تھے كہ ميں نے اسے امان دى ہے _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ ابوسفيان كو ايك خيمہ ميں ركھا جائے اور صبح كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس لايا جائے _ صبح سويرے عباس ، ابوسفيان كو پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حضور ميں لائے _ جب

۱۹۰

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نظر ابوسفيان پرپڑى تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' كيا ابھى وہ وقت نہيں آيا ہے كہ تو يہ سمجھے كہ خدا ئے يكتا كے سوا اور كوئي خدا نہيں ہے ؟ ''ابوسفيان نے جواب ديا ميرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كتنے بردبار ، كريم اور وابستگان كے اوپر مہربان ہيں،_ ميں نے اب سمجھ ليا كہ اگر خدائے واحد كے علاوہ كوئي اورخدا ہوتا تو ہمارى مدد كرتا _

جب اس نے خدا كے يگانہ ہونے كا اعتراف كر ليا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' كيا ابھى وہ وقت نہيں آيا ہے كہ تم جانو كہ ميں خدا كا پيغمبر ہوں''_

ابوسفيان نے كہا مجھے آپ كى رسالت ميں تردد ہے '' عباس تردد سے ناراض ہوئے اور اس سے كہا '' اگر تم اسلام قبول نہيں كروگے توتمہارى جان خطرہ ميں ہے'' _ابوسفيان نے خدا كى يگانگى اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كى گواہى دى _(۱۴) اور بظاہر مسلمانوں كى صف ميں داخل ہوگيا _اگر چہ كبھى بھى حقيقى مومن نہيں ہوا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جانتے تھے كہ ابوسفيان كو ابھى رہا كرنے كا وقت نہيں ہے _ ہوسكتا ہے كہ وہ مكّہ جا كر كوئي سازش كرے اس لئے مناسب ہے كہ وہ اسلام كى طاقت كا بخوبى مشاہدہ كرلے اور فتح مكّہ كے سلسلے ميں سپاہ اسلام كے ارادہ كو مكمل طور پر محسوس كرلے اور اس خبر كو تمام مشركين قريش تك پہنچادے تا كہ تمام سر كردہ افراد مقابلہ كا خيال اپنے دل سے نكال ديں اس وجہ سے ابوسفيان كو ايك درّہ ميں كھڑا كيا گيا ، سپاہ اسلام اسلحہ ميں غرق منظم دستوں كى صورت ميں اس كے سامنے سے گزرنے لگى ، جنگى مشق كے دوران مجاہدين اسلام كى تكبير كى آواز كوہ و دشت مكہ ميں گونج اٹھتى اور مجاہدين كے دل وفور شوق سے لبريز ہو جاتے تھے_

لشكر اسلام كے مسلح دستوں كى عظمت نے ابوسفيان كو اتنا ہر اساں كرديا كہ اس نے بے

۱۹۱

اختيار عباس كى طرف مخاطب ہو كر كہا '' كوئي بھى طاقت ان لشكروں كا مقابلہ نہيں كر سكتى سچ مچ تمہارے بھتيجے نے بڑى زبردست سلطنت حاصل كرلى ہے ''_

عباس نے غصّہ ميں كہا '' يہ سلطنت نہيں بلكہ خداوند عالم كى طرف سے نبوت و رسالت ہے _(۱۵)

عباس نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ابوسفيان جاہ پرست آدمى ہے اس كو كوئي مقام عطا فرمائيں''_

رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' ابوسفيان لوگوں كو اطمينان دلا سكتا ہے كہ جو كوئي اس كى پناہ ميں آجائے گا امان پائے گا _ جو شخص اپنا ہتھيار زمين پر ركھ كر اس كے گھر ميں چلا جائے اور دروازہ بند كرلے يامسجد الحرام ميں پناہ لے لے وہ سپاہ اسلام سے محفوظ رہے گا_(۱۶)

مكہ ميں نفسياتى جنگ

ابوسفيان مكمل طور پر حواس باختہ اور لشكر اسلام كى جنگى طاقت سے ہراساں تھا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مصلحت اسى ميںسمجھى كہ اس كو رہا كرديں _ تا كہ وہ اپنى قوم ميں جا كران كے حوصلوں كو متزلزل كرے يہ وہى مقصد تھا جو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چاہتے تھے _

ابوسفيان نے اس كام كو بخوبى انجام ديا _ اس نے مكہ ميں نفسياتى دباؤ بڑھا كر قريشيوں كو ہراساں كرنے اور بغير خونريزى كے ہتھيا ر ڈال دينے ميں بڑا اہم كردار ادا كيا _(۱۷)

شہر كا محاصرہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سپاہيوں كو چار دستوں ميں تقسيم فرمايا اور ہر دستہ كو ايك سمت سے شہر كے اندر روانہ كيا _ اور فوج كے كمانڈروں كو حكم ديا كہ جو تم سے لڑے (صرف اسى سے لڑنا)اس

۱۹۲

كے علاوہ كسى سے جنگ نہ كرنا _ چنانچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرف چند مفسدين كو جن كى خيانت كى سزا موت سے كم نہ تھى مستثنى ركھا(اور ان سے جنگ كا حكم ديا)_(۱۸)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چاروں طرف سے شہر كے محاصرہ كى تركيب اپنا كر مشركين كے فرار كو ناممكن بناديا اور ان كے لئے صرف ايك ہى راستہ باقى چھوڑاكہ ہتھيار ڈال ديں _

ايك فوجى دستہ كے ساتھ مشركين كى جھڑپ

لشكر اسلام كے شہر ميں داخل ہوتے وقت مشركين متعرض نہيں ہوئے _ صرف قريش كا ايك افراطى گروہ'' صفوان ابن اميّہ ابن خلف ''اور عكرمةبن اَبيْ جہل كى رہبرى ميں خالد ابن وليد والے دستہ سے ٹكرا گيا _ اس جھڑپ ميں دشمن كے ۲۸_ افراد نہايت ذلت سے مارے گئے اورباقى لوگ مكہ سے بھاگ گئے_(۱۹)

۱۹۳

سوالات

۱_ قريش نے صلح حديبيہ كے معاہدہ كى خلاف ورزى كس طرح كي؟

۲_ اپنى عہد شكنى پر قريش كا رد عمل كيا رہا؟

۳_ جاسوس جال ميں كيسے پھنسا؟

۴_ فتح مكہ ميں كون سے تركيبيں استعمال كى گئيں؟

۱۹۴

حوالہ جات

۱_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۳۱

۲_ اتبا ع الاسماع ج۱ ص ۳۵۷ _ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۲_

۳_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۳۸ _۳۹

۴_ وتيرہ ، مكہ سے جنوب مغرب كى طرف ۱۶ كيلوميٹر كے فاصلہ پر واقع تھا

۵_ قبيلہ خزاعہ كے افراد اسلام سے پہلے بنى ہاشم كے ہم پيمان تھے اس لئے كہ عبد المطلب نے ان سے معاہدہ كيا تھا _ عمروابن سالم جو مدد طلب كرنے كے لئے آيا تو اس نے اسى قديم معاہدہ كو بنياد قرارد يكر كہا _

يا ربّ انّى ناشدٌ محمداً حلْفَ ابينا وابيه الْاَتْلدا (اى القديم)

انّ قريشاً اخلفو ك المَوْعدَا وقتلونا رُكَّعاً وَ سُجَّدَاً (سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۳۶)

۶_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۳۷_

۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۳۹_

۸_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۰ _۴۱

۹_( يا ا َيُها الَّذينَ آمَنُوا لا تَتَخذُوا عَدُوى وَ عَدُوّ كُم ا َولياء تَلْقون الَيهم بالْمَوَدَة ) (ممتحنہ/۱) ''سيرة ابن ہشام '' ج ۴ ص ۴۱_

۱۰_مغازى واقدى ج ۲ ص ۸۰۲ _

۱۱_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۲_

۱۲_مغازى واقدى ج ۲ ص ۸۱۴_

۱۳_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۴_۴۵

۱۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۵ _۴۶

۱۵_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۶_۴۷

۱۶_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۶

۱۱۷_ پيامبر و آئين نبرد جنرل طلاس ص ۴۶۲_

۱۸_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۸_ ۵۱ مغازى واقدى ج ۲ ص ۸۲۵_

۱۹_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۹ _ مغازى واقدى ج ۲ ص ۸۲۵ _

۱۹۵

گيارھواں سبق

شہر مكہ ميں داخلہ

صدائے اتحاد

اذان بلال

بت شكن، بت پرست

آزاد شدہ شہر ''مكہ'' كيلئے والى اور معلم دين كا تقرر

اسلام كے نام پر خونريزى اور جرائم

جنگ حنين

دشمن كى سازش سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى آگاہي

حنين كى طرف روانگي

دشمن كى اطلاعات اور تياري

درہ حنين ميں

فرار

واپسى مقابلہ، كاميابي

عورتوں اور بوڑھوں كو قتل نہ كرو

آغاز جنگ ميں مسلمانوں كى شكست كاتجزيہ

سوالات

حوالہ جات

۱۹۶

شہر مكہ ميں داخلہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لشكر اسلام كے ساتھ فاتحانہ انداز ميں شہر مكّہ ميں داخل ہوئے آپ كے چہرہ اقدس پر ايسار عب و دبدبہ اور ہيبت و جلال تجلى ريز تھا جو تعريف كى حد سے باہر ہے _

اسلام كو بہت بڑى فتح نصيب ہوئي تھى آپ اہل مكہ كے گھروں ميں نہيں گئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے جان نثار اور مہربان چچا ابوطالب(ع) كے مزار كے پاس مقام حَجونٌ ميں خيمہ لگا ياگيا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كچھ دير تك خيمہ ميں آرام فرماتے رہے پھر غسل كے بعد جنگى لباس پہن كر مركب پر سوار ہوئے مجاہدين بھى تيار ہوگئے اور پھر سب مسجد الحرام كى طرف روانہ ہوئے _ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نگاہ كعبہ پر پڑى تو آگے بڑھے اور حجر اسود كواستلام كيا(۱) حالانكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مركب پر سوار تھے_اسى حالت ميں تكبير كہتے جاتے تھے اور لشكر اسلام آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جواب ميں صدائے تكبير بلند كرتا جاتا تھا_(۲) '' حق آيا اور باطل ختم ہو گيا اور باطل تو ختم ہونے والا ہى تھا_(۳)

صدائے اتحاد

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كعبہ كى كنجى عثمان ابن طلحہ سے لى اور دروازہ كھول ديا _ تمام مسلمانوں نے مل كر دعائے وحدت پڑھى _

''لا اله الا اللّه وَحدَه لا شَريكَ لَه ، صدق وَعْدَه ،

۱۹۷

ونصر عبده و هزم الاحزاب وحده'' (۴)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كعبہ كے اندر تشريف لے گئے اور جناب ابراہيم (ع) اور دوسرے افراد كى جو تصويريں مشركين نے بنا ركھى تھيں ان كو ديوار كعبہ سے مٹا ديا اور اسى حالت ميں فرمايا ''خدا ان لوگوں كو قتل كرے جو ان چيزوں كى تصويريں بناتے ہيں جن كو انہوں نے پيدا نہيں كيا''(۵) _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور بتوں كو توڑ نے كے لئے ان كے كاندھے پر سوار حضرت على نے تمام بتوں كو توڑ ڈالا اور خانہ توحيد كو تمام كفر و شرك كى علامتوں سے پاك كرديا _(۶) اس كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں كے سامنے جن كى آنكھيں فرمان پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى منتظر تھيں '' مندرجہ ذيل خطبہ ارشاد فرمايا _

'' اس خدا كى تعريف جس نے اپنا وعدہ سچ كردكھايا اور اپنے بندہ كى مدد كى ، جس نے تنہا ،احزاب (گروہوں ) كو شكست دى ، تم كيا كہتے ہو اور كيا تصوّر كرتے ہو؟ '' مكہ والوں نے كہا كہ '' خير و نيكى اور نيكى كے سوا ہميںاور كوئي گمان نہيں ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بزرگورا بھائي اور صاحب اكرام بھتيجے ہيں ''_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' ميں وہى بات كہتا ہوں جو ہمارے بھائي يوسف نے كہى تھى : قال لا تثريب عليكم اليوم يغفر اللہ لكم و ہو ارحم الراحمين(۷) آج تمہارے اوپر كوئي ملامت نہيں ہے خدا تم كو بخش دے وہ رحم كرنے والوں ميں سب سے زيادہ مہربان ہے _

اس كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ ہر وہ ربا(سود) جو جاہليت ميں معمول بن گيا تھا اور ہر وہ خون اور مال جوتمہارى گردن پر تھا اور فضول فخر و مباہات ، پا مال اور ختم كرديئےئے ہيں_ ليكن كعبہ كى نگہبانى ، پردہ داري، كليد بردارى اور حاجيوں كو سيراب كرنے كا افتخار باقى

۱۹۸

ہے _ جو لوگ تازيانہ يا غلطى و خطا سے قتل كرديئےائيںان كے لئے سوا يسى اونٹنياں ديت كے طور پر دى جائيں جن ميں چاليس اونٹنياں حاملہ ہوں _ خدا نے جاہليت كے كبر و غرور اور آباؤ اجداد پر افتخار كو ختم كرديا تم آدم(ع) كى اولاد ہو اور آدم (ع) مٹى سے پيدا كئے گئے ہيں اور تم ميں سب سے زيادہ خدا كے نزديك قابل عزت وہ ہے جو تم ميں سب سے زيادہ پر ہيزگار ہے _ بے شك خدا نے مكّہ كوز مين و آسمان كى پيدائشے كے وقت حرم امن قرار ديا ہے اور اللہ كى عطا كى ہوئي حرمت كى بنا پر يہ ہميشہ حرم الہى رہے گا_

ہم سے پہلے اور ہمارے بعد كسى كے لئے بھى اس كى حرمت پامال كرنا نہ جائز تھا اور نہ جائز ہے_ اور ميرے لئے بھى اس كى حرمت صرف ايك دن تھوڑى دير كے لئے اٹھائي گئي (اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ہاتھ سے تھوڑى مدّت كى طرف اشارہ فرمايا) مكہ كے جانوروں كا نہ شكار اور نہ ان كو مكہ سے ہنكانا چاہيئےہاں كے درختوں كو كاٹنا نہيں چاہيئےور اس سرزمين پر پڑى ہوئي گم شدہ چيز كو اٹھانا جائز نہيں ہے _ مگر اس كے لئے جو اعلان كرنے كا ارادہ ركھتا ہو_ اور مكّہ كے سبزے كو اكھاڑنا بھى جائز نہيں ہے _'' عباس نے كہا اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سوائے ''اذخر''(۸) كے پودوں كے كہ قبروں اور گھروں كو صاف كرنے كے لئے جس كو اكھاڑ پھينكنے كے علاوہ كوئي چارہ ہى نہيں ہے _'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھوڑى دير تك چپ رہے پھر فرمايا سوائے اذخر كے كہ اس كا اكھاڑنا حلال ہے _ وار ث كے بارے ميں وصيت صحيح نہيں ہے اور كسى عورت كے لئے حلال نہيں ہے كہ وہ اپنے شوہر كى دولت سے اجازت كے بغير بخشش وعطا كرے _مسلمان ، مسلمان كا بھائي ہے اور تمام مسلمان آپس ميں بھائي ہيں ، مسلمانوں كو چاہيئےہ دشمن كے مقابل متحد اور ہم آہنگ رہيں ، ان كا خون محفوظ رہے، ان ميں دور و نزديك سب برابر ہيں_جنگ ميں ناتوان اور توانا برابر مال غنيمت سے بہرہ مند

۱۹۹

ہوں _ لشكر كے ميمنہ اور ميسرہ ميں شركت كوئي معيار نہيں ، مسلمان كافر كے خون كے بدلے قتل نہيں كيا جائے گا اور كوئي صاحب پيمان ، معاہدہ ميں قتل نہيں كياجائے گا _ دو مختلف دين ركھنے والے ايك دوسرے كى ميراث نہيں پائيں گے _ مسلمان اپنے علاقہ والوں كو ہى صدقات و زكوة ديں گے دوسرى جگہ والوں كو نہيں ، عورت اپنى پھو پھى اور خالہ كى سوتن نہ بنے ، مدعى كو دليل اور شاہد پيش كرنا چاہيئےور منكر كے ذمّہ قسم ہے _

كوئي عورت بغير محرم كے ايسے سفر پر نہ جائے جس كى مدّت تين روز سے زيادہ ہو_عيد الفطراور عيد قربان كے روزں سے منع كرتا ہوں _ اور ايسا لباس پہننے سے منع كرتا ہوں جس سے تمہارى شرمگاہ كھلى رہے يا ايسا لباس پہننے سے منع كرتا ہوں كہ جس سے تمہارى شرمگاہ كھلى رہے يا ايسا لباس پہنتے سے منع كرتا ہوں كہ جب تمہارے لباس كا كنارہ ہٹ جائے توتمہارى شرمگاہ نظر آنے لگے _ مجھے اميد ہے كہ تم نے يہ سارے مطالب سمجھ لئے ہوں گے_(۹)

اذان بلال

ظہر كا وقت آن پہنچا ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بلال كو حكم ديا كہ كعبہ كى چھت پر جا كر اذان ديں جس وقت بلال بلند آواز ميں اشہد انَّ محمداً رسول اللہ'' پر پہنچے تو گھروں ميںخوفزوہ دبكے ہوئے مشركين كے سر كردہ افراد نے باتيں بنائيں اور توہين آميز جملے كہے _ابو سفيان نے كہا '' ليكن ميں كچھ نہيں كہتا اس لئے كہ اگر ميں كوئي بات كہوں گا تويہى ريت كے ذرّے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر پہنچا ديں گے اور ہر ايك كى بات آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم تك پہنچ جائے گى _

۲۰۰