تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي0%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 298
مشاہدے: 153254
ڈاؤنلوڈ: 3564


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153254 / ڈاؤنلوڈ: 3564
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد 2

مؤلف:
اردو

بہانے تراشياں

منافقين جنگ ميں شركت نہ كرنے كے لئے بڑے لچر بہانے تراشتے رہتے تھے_رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے '' جدّ ابن قيس'' نامى ايك منافق سے كہا_

'' كيا تم روميوں كے ساتھ لڑنے كے لئے خود كو آمادہ كرنے كا ارادہ نہيں ركھتے؟''جدّا بن قيس نے جواب ديا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بات كى اجازت ديں كہ ميں شہر ہى ميں رہوں مجھے فتنہ ميں نہ ڈاليں _ اس لئے كہ ميرے قبيلہ كے لوگ جانتے ہيں كہ كوئي مرد بھى ميرى طرح عورتوں كا ديوانہ نہيں ، مجھے ڈر ہے كہ اگر ميں روم كى عورتوں كو ديكھوںگا تو فتنہ (وگناہ) ميں پڑ جاؤں گا''_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منہ پھير ليا اور فرمايا'' جہاں جانا چاہتے ہو جاؤ''(۱۷)

قرآن اس منافق كى بہانہ بازى كے بارے ميں فرماتا ہے:

'' ان ميں سے كچھ لوگ كہتے ہيں كہ ہم كوجہاد ميں شركت كرنے سے معاف ركھيں اور فتنہ ميں نہ ڈاليں آگاہ ہو جاؤ كہ يہ لوگ خود فتنہ ميں پڑے ہوئے ہيں اور بے شك دوزخ كافروں كو گھيرے ہوئے ہے ''_(۱۸)

منافقين كام ميں رخنہ ڈالنے اور جنگ كے بارے ميں لوگوں كے حوصلے پست كرنے كے لئے كہتے تھے اس گرمى كے موسم ميں جنگ كے لئے نہ جاؤ يہ موسم جنگ كے لئے مناسب نہيں ہے _خدا ان لوگوں كے بارے ميں فرماتا ہے :

'' جن لوگوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ركاب ميں حكم جہاد سے روگردانى كى وہ خوش ہيں اور راہ خدا ميں جان و مال كے ساتھ جہاد كرنے كوناگوار جانتے ہيں (اور مومنين كو بھى جہاد سے منع كرتے ہيں)وہ لوگ كہتے ہيں كہ اس گرمى ميں كوچ نہ كرو _ ان سے كہہ ديجئے كہ دوزخ

۲۲۱

كى آگ زيادہ جلانے والى ہے اگرلوگ سمجھ ليں _(۱۹)

منافقين، آرام طلب ثروت مندافراد اور كچھ ناواقف اعراب نے مختلف بہانوںسے جنگ ميں شركت كرنے سے گريز كيا_

خداوند عالم اعراب كے بارے ميں فرماتا ہے :

'' باديہ نشينوں (اعراب) ميں سے كچھ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس عذر كرتے ہوئے آئے اور جہاد سے معافى چاہ رہے تھے اور كچھ لوگ جو خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تكذيب كرتے تھے_ جہاد سے بيٹھ رہے كافر ج ہى دردناك عذاب ميں مبتلا ہوں گے''_(۲۰)

منافقين كے خفيہ مركز كا انكشاف

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر ملى كہ منافقين كا ايك گرو ہ سُوَيْلَمْ يہودى كے گھر ايك انجمن بنا كر سازشوں اور لوگوں كو جہاد ميں شركت كرنے سے روكنے كى پلا ننگ ميں مصروف ہے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جانتے تھے اگر ان كے ساتھ كوئي عبرتناك اور فيصلہ كن سلوك نہ كيا گيا تو يہ مكارانہ سازشوں سے اسلام كو نقصان پہنچائيں گے_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ اس گروہ كے مركز كو گھير كر آگ لگادى جائے _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے اسلام كے چند محافظين نے اس گھر كو آگ لگادى اور منافقين كے فرار كے نتيجہ ميں يہ گروہ ختم ہو گيا اور فرار كے دوران چھت سے گرنے كى وجہ سے ايك منافق كى ٹانگ ٹوٹ گئي_(۲۱)

جنگى اخراجات كى فراہمي

مضبوط لشكر مرتب كرنے كے لئے مخيّر اور ثروت مند مسلمانوں نے جاں بازان اسلام

۲۲۲

كى مالى امداد كى اور مسلمانوں نے اخراجات جنگ مہيا كرنے ميں بے مثال دلچسپى كے ساتھ حصہ ليا _ مسلمان عورتوں نے اپنے زيورات رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس بھيج ديئےا كہ جنگ كے اخراجات ميں كام آئيں _ ہر شخص اپنى طاقت كے مطابق مدد كرنے ميں كو شاں تھا_ مثال كے طور پر ايك غريب مزدور ايك صاع ( تين كيلو) خرما پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں لايا اور عرض كرنے لگا'' _ اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں نے نخلستان ميں كام كيا تو دو صاع خرما مزدورى ملى ايك صاع ميں نے اپنے گھر كے لئے ركھ ليا اور ايك صاع جنگ كے اخراجات جمع كرنے كے لئے لايا ہوں''_

منافقين نے يہاں بھى غلط پرو پيگنڈہ جارى ركھا _ اگر كوئي دولت مند مالى امداد كرتا تو كہتے '' ريا كارى كررہا ہے ''_ اور اگر كوئي غريب خلوص كى بناپر تھوڑى سى مدد كرتا تو كہتے كہ '' ''خدا كو اس مددكى ضرورت نہيں ''(۲۲)

منافقين كى ان باتوں كے بارے ميں قرآن مجيد ميں خدا فرماتا ہے:

'' جو لوگ مدد كرنے والے مومنين اور اپنى استطاعت كے مطابق عطا كرنے والوں كے صدقہ ميں عيب نكالتے اور مذاق اڑاتے ہيں خدا ان كا تمسخر كرتا ہے اور ان كے لئے دردناك عذا ب ہے'' _(۳۲)

اشك حسرت

منافقين كى سازشوں ،پروپيگنڈوں اور افواہوں كے بالمقابل پاكيزہ دل مومنين كا ايك گروہ جنگ ميں شركت كے شوق ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں حاضر ہوا چونكہ يہ لوگ غريب تھے اور سوارى كا انتظام نہ تھا لہذا انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خواہش كى كہ ان كو

۲۲۳

مركب عطا كيا جائے تا كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ركاب ميں صحراؤں كا سفر كركے جہاد مقدس ميں شركت كريں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _ ميرے پاس كوئي ايسى سوارى نہيں ہے جس پر تم كو سوار كروں _ يہ لوگ اس وجہ سے افسوس اور گريہ كرتے ہوئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس سے نكلے كہ ان كو جہاد ميں شركت كى توفيق حاصل نہ ہو سكى _ يہ جماعت تاريخ ميں گروہ '' بكّاؤون''(۲۴) كے نام سے مشہور ہوئي _ ( يعنى بہت رونے والے) خدا قرآن مجيد ميں ان كو اس طرح ياد كرتا ہے_

'' اى پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،مومنين جہاد كے لئے تيار ہو كر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئيں تا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان كو كسى مركب پر سوار كرديں ( اور ميدان جہاد لے جائيں ) اور آپ نے جواب ميں فرمايا كہ ميرے پاس مركب نہيںہے جس پر ميں تم كو سوار كروں اور وہ لوگ اس حالت ميں واپس چلے گئے كہ غم كى شدت سے ان كى آنكھوں سے آنسو جارى تھے كہ اخراجات سفر كيوں نہ فراہم كر سكے _ ايسے لوگوں پر جہاد ترك كردينے ميں كوئي گناہ نہيں ہے ''(۲۵)

۲۲۴

سوالات

۱_ طائف كى جنگ ميں كس قسم كا اسلحہ استعمال ہوا؟

۲_ ہوازن كے اسيروں كى رہائي نے ان كے اسلام كى طرف ميلان پر كيا اثر ڈالا_

۳_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بخششيںكن وجوہات كى بناء پر تھيں؟

۴_ لشكر كے چند افراد كا اعتراض كس چيز پر اور كس تصوّر كے زير اثر تھا؟

۵_ روم كى بڑى طاقت كے حملہ كے ارادہ اور ان كے فوجى نقل و حمل سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كس طرح آگاہ ہوئے؟

۶_ جنگ سے فرار كيلئے منافقين كيا بہانے تراش رہے تھے؟

۷_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منافقين كے گروہ كے گھر كے لئے كياحكم ديا؟

۲۲۵

حوالہ جات

۱_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۲۱_۱۲۵

۲_مغازى واقدى ج ۳ ص ۹۲۷

۳_ پيامبرى و حكومت ص ۳۷۶

۴_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۱۵۸

۵_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۳۰_۱۳۱

۶_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۳۳_

۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ص ۱۳۴_ ۱۳۵

۸_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۳۵

۹_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۳۹_ انجام كار وہ زمانہ امام على عليہ اسلام ميں خوارج كے رہبروں ميں سے ايك رہبر بنا اور نہروان كى جنگ ميں حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سپاہيوں كے ہاتھوں قتل ہو گيا_

۱۰_ يہ ياد دلانا ضرورى ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى گفتگو كاصرف كچھ حصّہ يہاں پر نقل ہوا ہے _

۱۱_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۴۱_۱۴۲

۱۲_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۴۳ _

۱۳_ شام كى سر حد پر حجر سے جو راستہ شام كو جاتا ہے اس كے درميان تبوك ايك مضبوط قلعہ تھا اور آج كل سعودى عرب ميں مدينہ سے ۷۷۸ كيلوميٹر دور ايك فوجى شہر ہے_

۱۴_ ہر اكيلو س بھى لكھا گيا ہے_

۱۵_امتاع الاسماع ج ۱ ص ۴۴۵_۴۴۶ _طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۱۶۵_ سيرت حلبى ج ۳ ص ۱۴۱_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵۹

۲۲۶

۱۶_ سيرت حلبيہ ، مطبوعہ بيروت ج ۳ ص ۱۴۴ _ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۷۳ _امتاع الاسماع ج ۱ ص ۴۸۰

۱۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵۹_

۱۸_( وَ منْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذنْ ليْ وَلاَ تَفْتنّى اَلاَ فى الْفتْنَة سَقَطوُا وَ اَنَّ جَهَنَّمَ مُحيطَةُ بالْكَافرين ) _(سورہ توبہ آيت ۴۹)

۱۹_( فرحَ الْمُخَلَّفُونَ بمَقْعَدهمْ خلاَفَ رَسُول اللّه وَ كَرهوُا اَنْ يُجَاهدوُا باَمْوالهمْ وَ اَنْفُسهمْ فى سبيل اللّه وَ قَالُوا لاَتَنْفَروُا فى الْحَر قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَراً لَوْ كَانوُا يَفْقَهُون ) _(توبہ/۸۱)_

۲۰_( وَ جَائَ الْمُعَذَّرُونَ منَ الْاَعْراب ليُؤْذَنَ لَهُمْ وَ قَعَدَ الَّذينَ كَذَّبُوا اللّه وَ رَسُولَهُ سَيُصيبَ الَّذين كَفَرُوا منْهُمْ عَذَابٌ اَليم ) (توبہ/۹۰)_

۲۱_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۰_

۲۲_ تفسير مجمع البيان ج ۵ص ۲۵۷_اسباب النزول واحدى ص ۱۷۲_

۲۳_( اَلَّذيْنَ يَلْمزُونَ الْمُطَّوعين منَ الْمُوْمنيْن فى الصَّدَقَات وَالَّذينَ لاَ يَجدُوْنَ الاَّ جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ منْهُمْ سَخرَ اللّهُ منْهُمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَليم ) (توبہ/۷۹)_

۲۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۱_

۲۵_( وَ لاَ عَلَى الَّذين اذَا مَا اَتَوْكَ لتَحْملَهُمْ قُلْتَ لاَ اَجدُ مَا اَحْملُكُمْ عَلَيْه تَوَلَّوْا وَ اَعيُنهمْ تَفيضُ منَ الدَّمْع حُزْناً الاّ يَجدوُا مَا يُنْفقُون ) (توبہ/۹۲)

۲۲۷

تيرھواں سبق

بے نظير لشكر

منافقين كى واپسي

شخصيت پر حملہ

تپتا صحرا

حضرت ابوذر كا واقعہ

لشكر اسلام تبوك ميں

دومة الجندل كے بادشاہ كى گرفتاري

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حملہ كى سازش

مسجد ضرار كو ويران كردو

اسلحہ فروخت نہ كرو

جنگ ميں دعا كى تاثير

غزوہ تبوك سے ماخوذ نتائج

سوالات

۲۲۸

بے نظير لشكر

منافقين كى رخنہ اندازى اور پروپيگنڈے ، راستہ كى دورى ، شديد گرمى ، خشك سالى ، دشمن كا بے شمارلشكر،ان ميں سے كوئي چيزبھى مسلمانوں كو وسيع پيمانہ پر جنگ ميں شركت سے نہ روك سكي_

تقريباً تيس ہزار افراد نے آمادگى كا اعلان كيا اور'' ثنية الوداع ''كى لشكر گاہ ميں خيمہ زن ہوگئے اس مسلح لشكر كے پاس دس ہزار گھوڑے اور بارہ ہزار اونٹ تھے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر گاہ ميں سپاہيوں كا معائنہ كيا ، پرچم ان كے حوالے فرمايا اور روانگى كے لئے آمادہ ہوگئے_(۱)

منافقين كى واپسي

منافقين كے سر براہ عبداللہ ابن ابى نے اپنے چند ساتھيوں كے ساتھ '' ذباب ''كے علاقہ ميں _ ثنية الوداع ميں جو لشكر گاہ تھى اس سے ذرا پيچھے_ خيمے نصب كئے اور وہيں سے مدينہ لوٹ گئے اور كہا '' محمد اس گرمى ، دورى ، اور سختى ميں روميوں سے لڑنے جارہے ہيں ، وہ سمجھتے ہيں كہ روميوں كے ساتھ جنگ ايك كھيل ہے خدا كى قسم ميں ديكھ رہا ہوں كہ كل ان كے اصحاب اسير اور گرفتار ہوجائيں گے_(۲)

۲۲۹

منافقين چاہتے تھے كہ عين روانگى كے موقع پر نفسياتى حربوں كے ذريعہ لشكر اسلام كے حوصولوں كو كمزور كرديا جائے _ ليكن ان كى يہ چال كارگر نہ ہوئي _(۳)

شخصيت پر حملہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ركاب ميں حضرت على (ع) كو ہر جنگ ميں شركت كا افتخار حاصل تھا ليكن اس جنگ ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے شريك نہيں ہوئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق مدينہ كى ديكھ بھال كے لئے مدينہ ميں ہى رك گئے _ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منافقين كى سازشوںسے آگاہ تھے كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ شرك پر باقى رہ جانے والے اعراب كى مدد سے منافقين ، شہر مدينہ پر مجاہدين سے خالى ہو جانے كى بنا پر حملہ كرديں اور كوئي ناگوار حادثہ پيش آجائے_ پريشان كن سياسى حالات ميں سازشوں كا مقابلہ كرنے كيلئے اسلام كے مركز كى ديكھ بھال صرف علي(ع) كر سكتے ہيں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت على (ع) كو اپنى جگہ پر اس لئے بٹھايا تا كہ اطمينان سے جہاد كے لئے جا سكيں _ منافقين نے علي(ع) كو اپنى سازشوں ميں ركاوٹ محسوس كيا تو ان كو ميدان سے ہٹانے كے لئے ما حول بنانا ، افواہيں پھيلانا اور در حقيقت ان كى شخصيت پر حملہ كرنا شروع كرديا _ انہوں نے يہ افواہ پھيلائي كہ '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،على (ع) سے افسردہ خاطر ہوگئے تھے اس ليے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے بے اعتنائي كى اور اپنے ساتھ نہيں لے گئے '' يہ باتيں على (ع) كے كانوں تك پہنچيں تو آپ(ع) نے اسلحہ اٹھايا اور مدينہ سے تين ميل دور مقام '' جرف'' ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جا ملے اور عرض گيا: اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منافقين كہتے ہيں كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھ سے تنگ آگئے ہيں اس لئے مدينہ چھوڑ ے جارہے ہيں ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا :

۲۳۰

'' وہ لوگ جھوٹ بولتے ہيں _ ميں نے اپنے بعد تمہيں مدينہ ميں حفاظت اور نگہبانى كے لئے چھوڑا ہے _اس وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہاں موجود بہت سارے اصحاب كے سامنے حضرت على (ع) سے فرمايا _

'' ميرے بھائي مدينہ واپس جاؤ، مدينہ كے لئے ميرے يا تمہارے علاوہ كوئي مناسب نہيں، تم ہى ميرے خاندان ، مقام ہجرت (مدينہ) اور ميرى قوم كے در ميان ميرے جانشين ہو ، كيا تمہيں يہ پسند نہيں كہ تم ميرے ليے ايسے ہى ہو جيسے موسي(ع) كےلئے ہارون(ع) مگر يہ كہ ميرے بعد كوئي پيغمبر نہيں ہوگا''_

حضرت على (ع) مدينہ لوٹ آئے اور رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے مقصد كے لئے روانہ ہوگئے _(۴)

تپتا صحرا

سختيوں ميں گھرے ہوئے لشكر '' جيش العُسْرَہ'' كى كمان ۶۱ سالہ با ہمت و جرى رہبر يعنى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہاتھ ميں تھى _دشمن تك پہنچنے كے لئے سپاہيوں كو ۷۷۸ ، كيلوميٹر كے گرم ريگستان كو عبور كرنا تھا _لشكر چل پڑا ، آفتاب آگ بر سارہا تھا _ شديد گرمى كا خطرہ دشمن سے كم نہ تھا_ ليكن لشكر اسلام بھى استقامت و مقاومت كا پيكر تھا _ صرف چند منافقين تخريب كارى اور اذيت رسانى كے ارادے سے ساتھ ہوگئے تھے_ يہ لوگ راستہ ميں خيانت آميز حركتيں اور زہر يلے پروپيگنڈے كررہے تھے_ لشكر اسلام كا گزر اصحاب '' حجر''(۵) كے علاقہ سے ہوا، اصحاب حجر كے ويران شہر ميں ايك كنواں تھا سپاہيوں نے كنويں سے پانى كھينچا اور ظروف بھر لئے _ جس وقت يہ لوگ اترے اور سپاہى آرام كرنے لگے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ نہ كنويں كا پانى پينا اور نہ آٹا گوندھنا اور اگرآٹا گوندھ ليا ہے تو اس كو نہ

۲۳۱

كھانا بلكہ چوپايوں كو ديدينا ''_

اسى طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' آج رات كوئي لشكر گاہ سے باہر نہ نكلے'' اس رات لشكر گاہ سے كوئي باہر نہيں گيا سوائے دو افراد كے اور ان كے ساتھ ناگوار حادثات پيش آئے_

صبح سويرے لشكر اسلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس طلب آب كے لئے پہنچا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا فرمائي ، بارش ہوئي اور پانى گڑھوں ميں بھر گيا _ جان بازوں نے بارش كے پانى سے مشكيں بھر ليں _ ايك منافق نے كہا '' ايك گذر تا ہوا بادل تھا جو اتفاقاً برس گيا_(۶) ايك جگہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا اونٹ گم ہو گيا كچھ لوگ ڈھونڈھنے كے لئے نكلے منافقين ميں سے ايك شخص نے كہا كہ يہ كيسے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں جو آسمانوں كى خبر ديتے ہيں ليكن يہ نہيں معلوم كہ ان كا اونٹ كہاں ہے _ يہ باتيں پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تك پہنچائي گئيں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' خدا جو بتاديتا ہے ميں غيب كى وہى باتيں جانتا ہوں '' اسى وقت جبرئيل نازل ہوئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اونٹ كى جگہ سے با خبر كيا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ميرااونٹ فلان وادى ميں ہے اور اس كى مہار فلاں درخت ميں الجھ گئي ہے جاؤ اس كو پكڑ لاؤ''_(۷)

حضرت ابوذر كا واقعہ

چلتے چلتے راستہ ميںحضرت ابوذر كا اونٹ بيٹھ گيا انہوں نے بڑى كوشش كى كہ كسى طرح قافلہ تك پہنچ جائيں _ ليكن كامياب نہ ہو سكے _ چنانچہ اونٹ سے اتر پڑے _ سامان پيٹھ پر لادا اور پيدل ہى چل پڑے _ آفتاب شدت كى گرمى بر سارہا تھا _ابوذر پياس سے نڈھال چلے جارہے تھے _ اپنے آپ كو بھلا چكے تھے اور صرف لشكر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تك پہنچنے كے علاوہ كوئي مقصد نہ تھا_ پياس سے تپتے ہوئے جگر كے ساتھ پيدل ، پستيوں اور بلنديوں كو پيچھے

۲۳۲

چھوڑتے ہوئے چلے جارہے تھے_ كہ دور سے آپ كى نگاہيں لشكراسلام پر پڑيں ، آپ نے اپنى رفتار بڑھادى اس طرف ايك سپاہى كى نظر ايك سياہى پر پڑى اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض كى كہ '' كوئي شخص ہمارى طرف آرہا ہے ''_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اچھى بات ہے وہ ابوذر ہونگے '' آنے والى سياہى اور قريب ہو گئي ايك شخص نے چلّا كر كہا '' وہ ابوذر ہيں'' خدا كى قسم وہى ہيں '' آنحضرت نے فرمايا:

خدا ابوذر پر رحمت نازل كرے وہ اكيلے راستہ طے كرتے ہيں ، تنہا مريں گے اور تنہا اٹھائے جائيں گے _(۸)

لشكر اسلام تبوك ميں

لشكر اسلام نے اپنا سفر جارى ركھا اور تبوك پہنچ گيا _ ليكن روميوں كو اپنے سامنے نہيں پايا اس لئے كہ رومى ، لشكر اسلام كى كثرت سے واقف ہو چكے تھے اور لشكر اسلام كى شجا عت اور بلند حوصلوں كى اطلاع ان كو پہلے سے تھى _(۹) اس بنا پر انہوں نے جان بچانے ہى ميں عافيت سمجھى اور شمال كى طرف عقب نشينى اختيار كرلى _(۱۰)

تبوك ميں لشكر اسلام نے اپنا پڑاؤ ڈال ديا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كے سامنے تقرير كى _(۱۱) مسلمان بيس دن تك تبوك ميں رہے_(۱۲) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہاں چند گروہوں كو اپنے زير اثر قبيلوں سے عہد و پيمان باندھنے كے لئے مختلف سرحدى علاقوں ميں روانہ فرمايا، سرحدى علاقوں ميں بسنے والے قبيلوں سے عہد و پيمان كے بعد جزيرة العرب كى سرحديں محفوظ ہوگئيں _

۲۳۳

دومة الجندل كے بادشاہ كى گرفتاري

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سواروں كے ايك دستہ كو خالدبن وليد كى سربراہى ميں دومة الجندل روانہ كيا _ خالد اور اس كے سپاہيوں نے وہاں كے بادشاہ اُكيدر اور اس كے بھائي حسان پر جب وہ ايك وحشى گائے كا پيچھا كررہے تھے غفلت كے عالم ميں حملہ كرديا _ حسان ماراگيا اور اُكيدر گرفتار ہو گيا _ خالد نے اُكيدر كو گرفتار كرنے كے بعد دُومةُ الجندل كو فتح كيا اور مال غنيمت كے ساتھ واپس پلٹا _ اُكيد ر كو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پيش كيا گيا _ رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے صلح كا معاہدہ كيا اور جزيہ ادا كرنا ضرورى قرار دے كر آزاد فرما ديا_(۱۳)

تبوك ميں شہر اَيْلَہ ، جہاں عيسائي آباد تھے ، كے رئيس يوحَنّا ابن رُوْبہَ نے دومة الجندل كے واقعات سننے كے بعد پيش قدمى كى اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں آكر اپنے آپ كو اور اپنے قبيلہ كو اسلام كى حمايت كے سايہ ميں پہنچا ديا _ وہاں يہ طے پايا كہ اہل اَيلہ سالانہ تين سو طلائي دينا ربعنوان جزيہ ادا كريںگے_(۱۴)

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حملہ كى سازش

مقام تبوك ميں بيس دن قيام كے بعد ، لشكر اسلام نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے بموجب واپسى كا ارادہ كيا _ منافقين نے ديكھا جنگ يا لشكر اسلام كے قتل اور زخمى ہونے كى نوبت ہى نہيں آئي تو انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے قتل كا منصوبہ بنايا كہ واپسى كے دوران گھاٹى ميں چھپ جائيں اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اونٹ كو بھڑ كا ديں تا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اونٹ سے گر كر درّوں ميں لڑھك كر ختم ہو جائيں_

جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس گھاٹى پر پہنچے تو خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو منافقين كے ارادوں سے آگاہ

۲۳۴

كرديا_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اصحاب سے فرمايا كہ وہ لوگ درّہ كے نيچے سے گزريں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود گھاٹى كے اوپر روانہ ہوئے _ عمار ياسر سے فرمايا كہ اونٹ كى مہار كھينچتے ہوئے لے چليں اور حذيفہ بن يمان سے فرمايا كہ اونٹ كو پيچھے سے ہانكتے رہيں _ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھاٹى كے اوپر پہنچے تو منافقين نے چاہا كہ حملہ شروع كريں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غصّہ كے عالم ميں حذيفہ كو حكم ديا كہ ان كو بھگادو جب حذيفہ نے ان پر حملہ كيا تو منافقين رسوائي كے ڈرسے فوراً ہى بھاگ كھڑے ہوئے اور شب كى تاريكى ميں لشكر سے جاملے _ دوسرے دن صبح اُسيد ابن حضير نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان لوگوں كو قتل كر ڈالنے كى اجازت مانگى ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اجازت نہيں دى _(۱۵)

مسجد ضرار كو ويران كردو

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تبوك سے واپسى پر جب منزل ذى آوان پر پہنچے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحى اور مندرجہ ذيل آيات كے نزول كے ذريعہ مسجد ضرار كے بانيوں كے منصوبہ سے باخبر ہوگئے قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے_

'' جن لوگوں نے ضرر پہنچانے ،كفر اختيا ركرنے ، مسلمانوں كے درميان تفرقہ ڈالنے اور ان لوگوں كے لئے مركز بنانے كے لئے جو اس سے پہلے خدا اورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ كرتے تھے _ مسجد بنائي ہے _ البتہ يہ لوگ قسم كھاتے ہيں كہ سوائے نيكى كے اور كچھ نہيں چاہتے اور خدا گواہى ديتا ہے كہ يہ لوگ جھوٹے ہيں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہرگز اس مسجد ميں نماز كے لئے نہ كھڑے ہوں _ وہ مسجد جو پہلے ہى دن سے اساس تقوى پر بنى ہے زيادہ بہتر ہے كہ آپ اس ميں كھڑے ہوں اس مسجد ميں وہ لوگ ہيں جو خود كو پاك و پاكيزہ ركھنے كو دوست ركھتے ہيں

۲۳۵

اور خدا بھى مطہرين كو دوست ركھتا ہے ''_(۱۶)

ان آيات كے نزول كے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند مسلمانوں كو حكم ديا كہ '' جاؤ اور اس مسجد كو كہ جس كو ستم گروں نے بناياہے ، ويران كردو اور جلاڈالو ''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم پر فوراً عمل ہوا اور مسجد كى چھت كو جو كھجور كى لكڑى سے بنائي گئي تھى آگ لگادى گئي ، منافقين بھاگ كھڑے ہوئے اور آگ بجھنے كے بعد مسجد كى ديواروں كو مليا ميٹ كرديا گيا _(۱۷)

اسلحہ فروخت نہ كرو

تبوك كے واقعہ كے بعد بہت سے جانبازوں نے يہ سمجھ كر كہ جہاد كا كام اب تما م ہوگيا اپنے اسلحہ كو بيچنا شروع كرديا _ دولت مند اسلحہ خريد نے لگے تا كہ اپنى قوت ميں اضافہ كريں جب يہ خبر پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ملى تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كام سے منع كيا اور فرمايا: '' ہمارى امت سے كچھ لوگ اسى طرح اپنے دين كا دفاع كرتے رہيں گے_ يہاں تك كہ دجال ظہور كرے''_(۱۸)

جنگ ميں دعا كى تاثير

تبوك كے واقعہ كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدواند عالم كى بارگاہ ميں شكر ادا كيا اور فرمايا

'' خدايا اس سفر ميں جو اجر ملا اور جو كچھ پيش آيا ہم اس پر تيرى بارگاہ ميں شكريہ ادا كرتے ہيں اس اجر و پاداش ميں وہ لوگ بھى ہمارے شريك ہيں جو عذر شرعى كى وجہ سے يہاں رك گئے تھے'' حضرت عائشےہ نے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ لوگوں كو سفركى تكليفيں

۲۳۶

اور سختياں جھيلنا پڑيں ايسے ميں جو لوگ گھروں ميں رہ گئے كيا وہ بھى آپ كے ساتھ شريك ہيں ؟ '' رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' ہم نے جہاں كہيں بھى سفر كيا ، جہاں كہيںبھى خيمہ زن ہوئے، جو لوگ مدينہ ميں رہ گئے تھے وہ ہمارے ساتھ تھے _ ليكن چونكہ يہ لوگ بيمارتھے اس لئے عملى طور پر ہمارے ساتھ نہ آسكے ، قسم اس ذات كى جس كے قبضہ قدرت ميں ميرى جان ہے _ ان كى دعا ہمارے ہتھياروں سے زيادہ دشمن پر انداز ہوئي _(۱۹)

غزوہ تبوك سے ماخوذ نتائج

۱_غزوہ تبوك موجب بنا كہ تاريخ اسلام ميں پہلى بار مسلمانو۷ں ميں سے ہر وہ شخص جو اسلحہ اٹھانے پر قادر تھا ، ميدان ميں آجائے(۲۰) اس طرح كہ مومنين ميں سے كسى نے بھى اس حكم كو ماننے سے انكار نہيں كيا مگر تين آدميوں نے كہ جنكى توبہ خدا نے بعد ميں قبول كرلى در حقيقت اس لشكر كشى نے مسلمانوں كى جنگى صلاحيتوں كو آشكار كيا _

۲_ تبوك كى جنگى مشق ، لشكر اسلام كے مضبوط ارادے اور جسمانى و روحانى طاقت كا مظاہرہ تھى اس لئے كہ نہايت نظم و نسق كے ساتھ ، اس دور كے ابتدائي وسائل كے ذريعہ انتہائي دشوار گزار اور طولانى راستہ طے كرنا ، لشكر اسلام كے حوصلوں كى بلندى اور تجربہ كارى كا ثبوت ہے _

۳_ غزوہ تبوك ، اعراب كى نظر ميں مسلمانوں كى عسكرى و معنوى عظمت بڑھانے كا موجب بنا _وہ اعراب جوابھى شرك پر باقى تھے اس حقيقت كو سمجھ گئے كہ جو لشكر نہايت سختى برداشت كركے روميوں سے لڑنے كے لئے سينكڑوں ميل كى مسافت طے كرسكتا ہے تو وہ بڑى آسانى سے مشركين عرب كا بھى مقابلہ كر سكتا ہے اور اسى لئے ہم ديكھتے ہيں كہ تبوك

۲۳۷

كے واقعہ كے بعد جزيرة العرب كے مختلف قبائل كى طرف سے مدينہ ميں وفود آنا شروع ہوگئے تا كہ اپنے قبيلہ كے مسلمان ہو جانے كا اعلان كريں اسى وجہ سے ہجرت كے نويں سال كو''و فود كا سال'' كہا جاتا ہے_

۴_ جزيرة العرب كى سرحدوں كا سرحدى قبائل سے معاہدہ كے بعد محفوظ ہو جانا _

۵_ منافقين كے مكروہ كردار كاپردہ فاش ہو جانا _ جو اس واقعہ ميں بے حد رسوا ہوئے_

۶_ غزوہ تبوك اس بات كا سبب بنا كہ مسلمان ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد بڑى آسانى سے شام اور روم كے مختلف علاقوں كو آزاد كراليں _

۲۳۸

سوالات

۱_ روم كى بڑى طاقت كے استكبارى لشكر سے لڑنے كے لئے كتنے مسلمان تيار ہوئے ؟

۲_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے راستہ ميں حضرت ابوذر كے بارے ميں كيا فرمايا؟

۳_ مدينہ سے تبوك كا فاصلہ كتنے كلو ميٹر ہے اور رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عمرمبارك اس سال كتنى تھى ؟

۴_ منافقين نے يہ كيوں چاہا كہ على (ع) مدينہ ميں نہ رہيں؟

۵_ منافقين نے كن مقاصد كيلئے مسجد ضرار كو تعمير كيا تھا؟

۶_كونسى آيات مسجد ضرار كے بارے ميں نازل ہوئيں پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مسجد كے بارے ميں كيا فرمان جارى كيا؟

۷_ غزوہ تبوك كے كيا نتائج رہے؟

۸_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ختم كردينے كى سازش والا واقعہ كيا تھا؟

۲۳۹

حوالہ جات

۱_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۹۹۶_۱۰۰۲_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۲_

۲_مغازى واقدى ج ۳ ص ۹۹۵_

۳_امتاع الاستماع ج ۱ ص ۴۵۰_

۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۳ _ارشاد شيخ مفيد ص ۸۳_امتاع الاسماع مقر يرى ج ۱ ص ۴۵۰_ انساب الاشراف ج ۱ ص ۹۴_۹۶ _صحيح بخارى ج ۵ (كتاب المغازى باب تبوك) ص ۱۲۹ _ صحيح مسلم ج ۲ص۳۶۰ _مسند احمد ابن حنبل ج ۳ ص ۵۰ _مستدرك حاكم ج ۳ ص ۱۰۹ _ سنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۴۲ _ الاستيعاب ج ۳ ص ۳۴ ، ۳۵ بر حاشيہ الاصابہ_

۵_''اصحاب حجر'' قوم ثمود كے معذب افراد تھے جنہوں نے ناقہ صالح كوپئے كرديا تھا اور خدا نے ان كو ان كے گناہ كے جرم ميں سخت عذاب ميں مبتلا كيا _ ان كا ويران شہر مدينہ اور دمشق كے درميان واقع ہے _ چونكہ ان لوگوں نے پہاڑ كے دامن ميں اپنے گھر بنائے تھے اس لئے اصحاب حجر كے نام سے پكارے گئے _ يہ علاقہ مدينہ منورہ سے ۳۴۴ كيلوميٹر كے فاصلہ پر واقع ہے_

۶_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۴_۱۶۶_ امتاع الاسماع ج ۱ ص ۴۵۶_

۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۶ _ امتاع الاسماع ج ۱ ص ۴۵۶_

۸_رَحمَ اللّهُ اَبَاذَر يَمْشى وَحْدَه وَ يَموُت وَحَده وَ يَبْعَث وَحْدَه _'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى يہ غيبى پيش گوئي پورى ہو كررہى كئي برس بعد جب عثمان نے ابوذر كو جلا وطن كيا تو وہاں آپ نے فقر ور نج كى بناء پر تنہائي اور غربت كے عالم ميں دم توڑا _ عبداللہ ابن مسعود نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے يہ بات خودسنى تھى آپ ان كے جنازہ پر پہنچے دوستوں كے ساتھ انكے دفن ميں شركت كى پھر وہيں آپ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اس بات كو ياد كيا اور روئے _ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۷ _

۲۴۰