تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي0%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 298
مشاہدے: 153147
ڈاؤنلوڈ: 3564


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153147 / ڈاؤنلوڈ: 3564
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد 2

مؤلف:
اردو

والوں كو اٹھائے گا؟

لوگوں نے كہا '' جى ہاں'' ہم شہادت ديتے ہے''_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدايا گواہ رہنا'' بيشك ميں دوسرے جہان ميں جانے اور حوض كوثر كے كنارے پہنچنے ميں تم پر سبقت لے جاؤں گا _ اور تم حوض پر ميرے پاس حاضر ہوگے _ وہاں ستاروں كى تعداد ميں چاندى كے جام اور پيالے ہوں گے _ ديكھنا يہ ہے كہ تم ميرے بعد ان دو گراں بہا چيزوں سے كيا سلوك كرتے ہو جو ميں تمہارے درميان چھوڑے جارہا ہوں؟

مجمع ميں سے ايك شخص نے بلند آواز سے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ دو گراں قدر چيزيں كيا ہيں؟ فرمايا جو بزرگ ہے وہ كتاب خدا ہے جو تمہارے درميان اللہ كى مضبوط رسى ہے اور دوسرے ميرے اہل بيتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عترت ہيں _ خدائے مہربان اور عالم نے مجھے بتايا ہے كہ يہ دونوں ہر گز ايك دوسرے سے الگ نہيں ہوں گے يہاں تك كہ حوض (كوثر) پر ميرے پا س پہنچيں گے قرآن و عترت سے آگے نہ بڑھنا اور ان دونوں كى پيروى سے منہ نہ موڑنا ورنہ ہلا ك ہوجاؤ گے_

اس كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علي(ع) كے ہاتھ كو پكڑا اور اتنا بلند كيا كہ دونوں كى بغل كى سفيدى نماياں ہوگئي اور لوگوں نے ان كو ديكھا اور پہچانا_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اے لوگو اہل ايمان پر خود ان سے زيادہ حقدار كون ہے؟'' لوگوں نے كہا '' خدا اور اس كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہتر جانتا ہے _'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا:

''بيشك خدا ہمارا مولا ہے اور ميں مومنين كا مولا ہوں اور مومنين كے نفسوں سے اولى اور زيادہ حقدار ہوں _ لہذا جس كا ميں مولا ہوں على (ع) اس كے مولا ہيں _(۹) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۲۶۱

نے اس بات كو تين بار اور حنبلى حضرات كے پيشوا ، احمد بن حنبل كے قول كے مطابق چار بار تكرار فرمايا اس كے بعددعا كے لئے ہاتھ بلند كركے فرمايا

'' بارالہا تو اس كو دوست ركھ جو اسے (علي) دوست ركھے اور اس كو دشمن ركھ جو اس سے دشمنى كرے اس سے محبت فرما جو اس (على (ع) ) سے محبت كرئے اور اس كو مبغوض قرار دے جو اس (على (ع) ) سے بغض كرئے، اس كے دوستوں كى مدد فرما او رجو اس كو رسوا كرے اسے ذليل فرما اور اسے حق كا مدار و محور قرار دے ''(۱۰)

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرماياكہ'' حاضرين غائبين تك يہ پيغام پہنچاديں'' ابھى مجمع پراگندہ بھى نہيں ہوا تھا كہ جبرئيل امين ، وحى الہى لے كر آپہنچے اور آيہ كريمہ '( اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الاسلام دينا ً ) (۱۱) نازل ہوئي_

'' آج ميں نے تمہارے دين كو كامل كرديا ، تم پر اپنى نعمتيں تمام كرديں اور تمہارے لئے دين اسلام كو پسند كر ليا ہے ''_اس موقعہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: دين كے كمال ، نعمت كے اتمام اور ميرى رسالت و على كى ولايت پر خداوند متعال ك-ے راضى ہوجانے كے پر مسرت موقعہ پر ، '' اللہ اكبر'' (اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بلند آواز سے تكبير كہي) اس كے بعد مسلمانوں نے على ابن ابيطالب(ع) كو امير المومنين كے عنوان سے مبار ك باد دى اور سب سے پہلے ابوبكر و عمر ، حضرت على (ع) كى پاس آئے اور كہا '' مبارك ہو مبارك ہو ، اے ابوطالب (ع) كے بيٹے آج سے آپ(ع) ہمارے اور تمام مومنين كے مولا ہوگئے ''_

پھر شاعر انقلاب اسلام ، حسان بن ثابت نے كہا يارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر جازت ہو تو ميں اس سلسلہ ميں كچھ اشعار پڑھوں _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا خدا كى بركت سے پڑھو_ اور حسان نے فى البديہہ واقعہ غدير خم كو

۲۶۲

اشعار ميں بيان كيا _ ہم يہاں ان كے اشعار ميںسے تين شعر نقل كررہے ہيں _

يناديهم يوم الغدير نبيّهُم

بخُم فَاسْمَع بالرّسول مناديا

فقال لهم: قم يا على فَانَّني

رضيتك من بعدى اماما ً ''و هاديا''

فمن كنت مولاه فهذا وليّه

فكونوا له اتباعَ صدْق مواليّا

يعنى غدير كے دن پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں كو آواز دى ، كيا آواز رسا تھى على (ع) سے فرمايا كہ اٹھو ميںنے تمہيں اپنے بعد لوگوں كى ہدايت اور امامت كے لئے منتخب كيا _

ميں جس كا مولا ہوں على اس كے ولى ہيں ، لہذا از روئے صدق و راستى ان كے پيرو اور دوست بن كر رہو _(۱۲)

۲۶۳

سوالات

۱_ كو ن سى تاريخ كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع كے لئے تشريف لے گئے؟

۲_ غدير كے دن مسلمانوں كا كتنا مجمع تھا؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قافلہ روكنے كا حكم كيوں ديا؟

۴_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدير كے دن حضرت على (ع) كے بارے ميں كيا فرمايا؟

۵_ غدير كے واقعہ كے بعد كون سى آيت نازل ہوئي؟

۲۶۴

حوالہ جات

۱_مغازى واقدى ج ۳ص ۱۰۸۹ _سيرت ابن ہشام ج ۴ص۲۴۸_

۲_اہل سنت كى چند دوسرى كتابوں ميں اس طرح لكھا ہے كہ ''نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تم علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كيا چاہتے ہو؟علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھ سے ہيں اور ميں ان سے ہوں اور وہ ميرے بعد ہر مومن كے ولى وسرپرست و صاحب اختيار ہيں _ ترمذى ج ۵ ص ۶۳۲_ مستدرك حاكم ج ۳ص ۱۱۰_۱۱۱_البداية والنہاية ج ۷ ص ۳۴۵_اسد الغابہ ج ۴ ص ۱۰۷_۱۰۸ _ مسند احمد ابن حنبل ج ۵ ص ۳۵۶_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۵۰ ، تاريخ طبرى ج ۳ ص ۱۴۹

۳_ يہ تقرير سيرت كى مختلف كتابوں ميں دو طريقوں سے نقل كى گئي ہے ايك '' عرفہ ميں تقرير'' كے عنوان سے اور دوسرى '' منى ميں تقرير'' كے عنوان سے تفصيلات كيلئے رجوع كريں: مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۱۰۳_سيرت ابن ہشام ج۴ _ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۱۰ طبرى ج ۳ ص ۱۵۰_

۴_ مغازى واقدى ميں '' اياس بن ربيعة بن حارث '' ذكر ہوا ہے_

۵_انّى تَاركٌ فيْكُمُ الثَّقَلَيْن كتَاب اللَّه وَ عتْرَتى انْ تَمَسَّكْتُمَْ بهما لَنْ تَضّلُوا _ يہ عبارت اہل سنت كى جن معتبر كتابوں ميں مختصر انداز سے ذكر كى گئي ہے ان ميں سے چند كے نام مندرجہ ذيل ہيں _ صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۲ _ سنن ترمذى ج ۲ ص ۳۰۷_ سنن دارمى ج ۲ ص ۱۴و۱۷و۲۶و۵۹_ خصائص نسائي ص ۳۰_مستدرك حاكم ج ۳ ص ۱۰۹_ كفاية الطالب ج ۱ ص ۱۱_ طبقات ابن سعد ج ۴ ص ۸ _ عقد الفريد ج ۲ ص ۳۲۶و ۱۵۸_ اسد الغا بة ج ۲ ص ۱۲_ حلية الاوليا ج ۱ ص ۳۵۵_ تذكرة الخواص ص ۳۳۲_ منتہى الارب _ مصابيح السنة ج ۲ ص ۲۰۵_۲۰۶

۶_ سيرت ابن ہشام ج ۳،۴، ص ۶۰۳ _تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۱۰ _ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۱۰۳_ طبرى ج ۳ ص ۱۵۰ _

۷_( يَا اَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغْ مَا اُنْزلَ الَيْكَ منْ رَّبّكَ وَ انْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رسَالَتَهُ وَ اللّهُ يَعْصمُكَ منَ النّاس انَّ اللّهَ لاَ يَهْدى الْقَوْمَ الْكَافريَْن ) (مائدہ/۶۸)

۲۶۵

۸_مكہ اور مدينہ كے راستہ ميں جحفہ ايك بيابان ہے جہاں غدير خم واقع ہے يہاں سے ہر كارواں جدا ہو كر اپنے ديار كى طرف چلا جاتا ہے_

۹_من كنت مولاه فهذا على مولاه

۱۰_اللّهُمَّ وَالَ مَنْ وَالاهُ وَ عَاد مَنْ عَادَاهُ وَاَحَبّ مَنْ اَحَبَّهُ وَ اَبْغض مَنْ اَبْغَضَهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهْ وَ اْخْذُلْ مَنْ خَذََلَه وَ اَدْر الْحَقَ مَعَهُ حَيْثُ دَار _

۱۱_ سورہ مائدہ آيت ۳

۱۲_ الغدير ج ۱ ص ۹تا ۱۲_ تفسير الميزان ج ۶ ص ۵۳ تا ۵۹ _ علامہ امينى مرحوم نے گيارہويں جلدپر مشتمل اپنى عظيم اور تحقيقى كتاب الغدير ميں حديث غدير كو ايك سو دس اصحاب كى زبانى نقل كيا ہے نيز آپ نے غدير كے بارے ميں اہل سنت كے محدثين ومورخين كے اقوال كو ذكر فرمايا ہے_ يہ بھى ياد دلانا ضرورى ہے كہ يہ كتاب فارسى زبان ميں ترجمہ ہو گئي ہے _

۲۶۶

سولہواں سبق

شورشيں

اسود عنسى كا واقعہ

يمن ميں انقلابى بغاوت

مسيلمہ كذاب كا واقعہ

جھوٹے پيغمبر كى طرف ميلان كا سبب ''قومى تعصب''

جھوٹوں كا انجام

رحلت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وقت كے حالات كا تجزيہ

لشكر اسامہ كى روانگي

اہل بقيع كے مزار پر

واقعہ قرطاس يا نامكمل تحرير

ناتمام نماز

وداع پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

يہ نور ہرگز نہيں بجھے گا

سوالات

۲۶۷

شورشيں

حجة الوداع سے واپسى كے بعد تھكن كى شدت كى بناپر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چند دنوں تك بيمار رہے اس دوران آپ كى تھكاوٹ اور طبيعت كى ناسازى كى خبر چاروں طرف پھيل گئي اور موقعہ كى تلاش اور فائدہ كے چكر ميں رہنے والے افراد نے پيغمبرى كا دعوى كرديا_'' مسيلمہ كذاب'' نے يمامہ اور نجد ميں خود كو پيغمبر اور'' رحمان اليمامة ''كہا _ ''اسود عنسي'' نے يمن ميں خود كو پيغمبر كہا اور شورش كا آغاز كرديا_ اس كے علاوہ'' سجاح ''نامى عورت اور'' طليحہ'' نامى ايك شخص نے بھى اس طرح كے دعوى سے لوگوں كو دھوكہ دينا شروع كرديا _ اس فتنہ كى جڑيں بہت پھيلى ہوئي تھيں ان دھوكہ بازوں نے قومى اور قبائلى تعصب سے فائدہ اٹھا يا اور ايك جماعت كو اپنے گرد جمع كرليا اور جب ان كو قدرت حاصل ہوگئي تو اپنى حكومت و سلطنت كو وسعت دينے لگے_

اسود عنْسيّ كا واقعہ

نمونہ كے طور پر اَسوَد عنسى كا واقعہ پيش ہے جس كو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ناسازگارى طبع كى خبر نے نبوت كے لالچ ميں ڈال ديا اس نے يمن ميں زمانہ جاہليت كے طور طريقوں اور رسوم

۲۶۸

كو كتب عتيق كے قوانين كے ساتھ ملاكر ايك نئے نقطہ خيال كى بنياد ركھى وہ ايك كاہن اور شعبدہ باز تھا جو الٹى سيدھى باتوں كو مسجعّ اور مقفّى بنا كر اس طرح پيش كرتا كہ جو بھى سنتا بد دل ہو جا تا _ جنگجوئي ميں بڑا سنگدل اور چالاك تھا_ظلم و ستم ميں لوگوں كى جان و مال كى پروا نہيں كرتا تھا_

اَسوَدعنسيّ نے اپنے سپاہيوں كے ساتھ چند دنوں ميں نجران پر قبضہ كرليا اور بلافاصلہ يمن كے دار السلطنت صنعا ء پر حملہ كرديا_'' شہر ابن باذام''(۱) ايرانى جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى طرف سے آزادہ شدہ اور اس علاقہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے حكومت كرتے تھے ، انہوں نے لشكر تيار كيا تا كہ اسود كے راستہ كو روك ليں ليكن شورشيوں كے فورى حملہ كى بنا پر شہر ابن باذام كا لشكر ، اسود كے لشكر كا كچھ نہ كر سكا اور شہر ابن باذام اس حملہ ميں شہيد ہو گئے_

اسود عنسيّ كامياب اور كاميابى سے مغرور ہو كر صنعاء ميں داخل ہوا _ اعرابى جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھى دوبارہ اسود كے ہاتھوں اسلام سے خارج ہونے لگے گروہ در گروہ قبائل نے اس كى بيعت كرلى اور خود كو اس كے حوالہ كرديا _ تھوڑى ہى مدت ميں اسود نے تمام يمن ، طائف، بحرين اور حدود عدن پر تسلط جماليا _ان علاقوں ميں باقى ماندہ مسلمانوں نے بھى خوف سے سكوت اختيار كر ليا _اسود نے شہر ابن باذام كى بيوى ''آزاد '' كو زبردستى اپنى بيوى بناليا_(۲)

يمن ميں انقلابى بغاوت

بستر علالت ہى سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدعيان نبوت كے ساتھ جنگ كے لئے نمائندے بھيجنا اورخط لكھنا شروع كيئے_(۳)

۲۶۹

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك خط ميں يمن كے ايرانى ، سركردہ افراد كو حكم ديا كہ دين مقدس اسلام كے دفاع كےلئے قيام كريں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيغام كو دينداورں ، با حميت و غيرت مند افراد تك پہنچائيں اور كوشش كريں كہ فساد كى جڑ اَسود عنسى كو خفيہ يا آشكار ا طور پر ختم كيا جا سكے_(۴)

يمن كے آزاد ايرانيوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كے مطابق اسلام پر باقى رہ جانے والے قبائل كو اپنے ساتھ تعاون كے لئے بلايا اورجب يہ معلوم ہواكہ اسود اور سپہ سالار لشكر قيس ميں اختلاف ہے تو انہوں نے قيس كے سامنے نہايت خاموشى سے اس موضوع كو پيش كيا اور اس طرح سپہ سالار لشكر كو اپنے ساتھ ملاليا_(۵)

اسود كے قصركے اندرونى معلومات حاصل كرنے كے لئے ''آزاد'' سے رابطہ قائم كيا گيا جو شہر ابن باذام كى بيوى اور اسود كے تصرف ميں تھي_

'' آزاد'' ايك آزادى پسند، شير دل، مؤمنہ اور باعزت خاتون تھيں ان لوگوں كى مدد كى لئے اٹھ كھڑى ہوئيں اور مفيد و قيمتى راہنمائيوں كے ذريعہ انھوں نے مومنين كو اسود كے قتل پر آمادہ كيا _ قصر مكمل طور پر نگہبانوں كى نگرانى ميں تھا_ '' آزاد'' كى راہنمائي ميں ايك سرنگ كے ذريعہ جو اَسوَد عنسى كے كمرہ ميں پہنچتى تھى رات كو جب وہ نيم خوابيدگى كے عالم ميں تھا ، انقلابى مومنين نے حملہ كرديا _ فيروز نے اس كا سر زور سے ديوار سے ٹكرا ديا اور اس كى گردن مروڑدى _اسود كى آواز وحشى گائے كى طرح بلند ہوئي آزاد نے فوراً ايك كپڑا اس كے منہ ميں ٹھونس ديا _ پہرہ دارمحل كے اندر ہونے والى چيخ پكار سے مشكوك ہوگئے اور كمرہ كى پشت سے انہوں نے پوچھا كہ خيريت تو ہے؟ '' آزاد'' نے نہايت اطمينان سے جواب ديا _'' كوئي بات نہيں ہے پيغمبر پر وحى آرہى ہے'' اس طرح انقلابى مومنين اپنى مہم ميں كامياب ہوئے اور پيغمبرى كے جھوٹے دعويدار كو دوزخ ميں پہنچا ديا_دوسرے دن صبح

۲۷۰

مسلمانوں نے اسلامى نعرے لگائے اور كلمہ شہادتين زبان پر جارى كيا _ اَشْہَدُ اَنْ لاَ الہَ الاَّ اللّہ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمّدا رَسُولُ اللّہ _ اور اعلان كيا كہ لوگو اَسوَ د ايك جھوٹے شخص سے زيادہ كچھ نہ تھا اس كے بعد اس كا سر لوگوں كى طرف پھينك ديا _

شہر ميں ايك ہنگامہ شروع ہوگيا اور قصر كے نگہبانوں نے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محل كو لوٹ ليا اور جو كچھ اس ميں تھالے كر فرار ہوگئے _ اس وقت مسلمانوں نے آواز دى كہ نماز كے لئے لوگ صف بستہ ہوجائيں اور پھر نماز كے لئے لوگ كھڑے ہوگئے_(۶)

جس رات اَسوَد مارا گيا اسى رات وحى كے ذريعہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو معلوم ہوگيا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' كل رات ايك مبارك خاندان سے ايك مبارك شخص نے عنسى كو قتل كرديا'' لوگوں نے پوچھا ''وہ كون تھا''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _ فيروز تھا _فيروز كامياب رہے_(۷)

مسيلمہ كذاب كا واقعہ

يمامہ ميں مسيلمہ كذاب نے بھى پيغمبرى كا دعوى كركے اپنا ايك گروہ بناليا اورفتنہ پردازى ميں مشغول ہوگيا _ وہ كوشش كرتا تھا كہ بے معنى سخن گوئي كے ذريعہ قرآن سے معارضہ كرے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابھى سفر حج سے لوٹے تھے كہ دو افراد مسيلمہ كذاب كا خط آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس لے كر پہنچے _ اس ميں لكھا تھا '' مسيلمہ خدا كے رسول كى طرف سے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے رسول كے نام '' ميں پيغمبرى ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا شريك ہوں آدھى زمين قريش سے متعلق ہے اور آدھى مجھ سے، ليكن قريش عدالت سے كام نہيں ليتے _(۸)

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت ناراض ہوئے اور مسيلمہ كے نامہ بروں سے فرمايا '' اگر تم سفير اور قاصد

۲۷۱

نہ ہو تے تو ميں تمہارے قتل كا حكم ديديتا_ تم لوگ كس طرح اسلام سے جدا ہو كر ايك تہى مغز آدمى كے پيرو ہوگئے_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ مسيلمہ كو بہت سخت جواب لكھا جائے _ ''خدائے رحمن و رحيم كے نام سے محمد رسول اللہ كى طرف سے دروغ گو مسيلمہ كى طرف_ سلام ہو ہدايت كى پيروى كرنے والوں پر ، زمين ،خدا كى ملكيت ہے اور وہ اپنے صالح بندوں ميں سے جس كو چاہتا ہے زمين كا وارث قرار ديتا ہے اور نيك انجام پرہيزگاروں كے لئے ہے_(۹)

جھوٹے پيغمبر كى طرف ميلان كا سبب ''قومى تعصب''

طبرى كا بيان ہے كہ ايك شخص يمامہ گيا اور پوچھا مسيلمہ كہاں ہے؟

لوگوں نے كہا كہ '' پيغمبر خدا كہو''

اس شخص نے كہا '' نہيں ميں پہلے اس كو ديكھوں گا''

جب اس نے مسيلمہ كو ديكھا تو كہا كہ '' تو مسيلمہ ہے''؟

'' ہاں''

كيا تمہارے اوپر فرشتہ نازل ہوتا ہے؟

ہاں ،اور اس كا نام رحمن ہے_

نور ميں آتا ہے يا ظلمت ميں؟

مسيلمہ نے كہا '' ظلمت ميں''

اس شخص نے كہا كہ ميں گواہى ديتا ہوں كہ تو جھوٹا ہے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سچے ہيں ليكن ميں رَبيعہ كے جھوٹے كو مُضر (حجاز) كے سچّے سے زيادہ دوست ركھتا ہوں_(۱۰)

۲۷۲

جھوٹوں كا انجام

نبوت كى جھوٹى دعويدار سجاح كے ساتھ مسيلمہ نے شادى كرلى _(۱۱) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد لشكر اسلام نے اس كى سركوبى كى اور اس كے قتل كے بعد اس كى جھوٹى نبوت كى بساط اُلٹ گئي_(۱۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ ميں مدعيان نوبت ميں طُلَيحہ نامى ايك شخص تھا جو قبيلہ طيّ، اَسد اور قبيلہ غطفان ميں ظاہر ہوا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبيلہ بنى اسد ميں اپنے نمائندوں كو پيغام بھيجا كہ اس كے خلاف قيام كريں _ وہ لوگ اس پر حملہ آور ہوئے اور وہ فرار كر گيا_(۱۳) اس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تدبير سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كے آخرى دنوں ميں يا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد جھوٹے پيغمبروں كى بساط الٹ دى گئي_

رحلت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وقت كے حالات كا تجزيہ

بيمارى سے نسبتاً افاقہ كے كچھ ہى دنوں بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوبارہ عليل ہوئے _ ہر چند كہ تمام جزيرة العرب، حكومت اسلامى كے زير اثر تھا ليكن ايك طرف پيغمبرى كے جھوٹے دعويداروں نے سر اٹھا ركھا تھا اور بہت سے قبائل كے رؤساء كہ جن كے دلوں ميں ابھى تك اسلام كى جڑيں مضبوط نہيں ہوئيں تھيں_ اپنے سابقہ امتيازات سے ہاتھ دھو بيٹھے تھے جو كہ ان پر دشوار تھا_ وہ پيغمبرى كے جھوٹے دعويداروں سے مل كر شورش پر آمادہ ہوگئے_ دوسرى طرف موقعہ كى تلاش ميں رہنے والے منافقين كا مكمل پلا ننگ كے ساتھ يہ ارادہ تھا كہ اسلام كے عظيم رہبر كى آنكھ بند ہوتے ہى حكومت اسلامى پر قبضہ كرليں اور اس كو امامت وولايت كے صحيح راستہ سے منحرف كرديں_

۲۷۳

بہر حال ، رہبر اسلام كى رحلت ،شورشيوں اور مرتدين كے حوصلوں كى تقويت كاموجب ہوتى ، دوسرا اہم موضوع يہ كہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كے سلسلہ ميں كھينچا تانى كے نتيجہ ميں امت اسلامى كے درميان بہت بڑا شگاف پيدا ہوجاتاجوايك بہت بڑا خطرہ ثابت ہوتا _روم ايسى بڑى طاقت بھى انتظار ميں تھى كہ جزيرة العرب پر حملہ كركے اسلام كى جڑكو كاٹ دے _ فتنے اٹھ چكے تھے اندرونى و بيرونى تحريكيں اور سازشيں اسلام كى بنيادوں كو چيلنج كررہى تھى _

لشكر اسامہ كى روانگي

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اندرونى سازشوں كے خاتمہ اور خارجى تحريكوں كى سركوبى كے لئے لشكر اسامہ كى تشكيل اور روانگى كا حكم صادر فرمايا _ سپاہيوں كى حوصلہ افزائي كے لئے اپنے ہاتھوں سے پرچم بنا كر ۱۷ يا۱۸ سالہ جوان اسامہ كے سپرد كيا اور سپہ سالار معين فرمايا_(۱۴) اس بہادر نوجوان نے اس لشكر كى كمان سنبھالى جو عالمى استكبار سے جنگ كے لئے آمادہ تھا_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسامہ كو حكم ديا كہ اپنے باپ كى شہادت گاہ كى طرف روانہ ہو جاؤ اور جانے ميں جلدى كرو _ صبح كو نہايت تيزى سے ناگہانى طور پر دشمن پر حملہ كردو_(۱۵) پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں سے كہا كہ لشكر اسامہ ميں شركت كريں اور جتنى جلد ى ہو سكے روانگى كے لئے تيار ہو جائيں_

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے مقاصد ميں سے ايك مقصد يہ تھا كہ سازشوں كا تانابانا بننے والے ، لشكر كے ساتھ مدينہ سے خارج ہوجائيں تا كہ شہر سازشيوں كے وجود سے خالى ہوجائے اور امير المومنين على (ع) كى خلافت كے راستہ ميں ركاوٹ نہ بنيں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جوان سال اسامہ كا

۲۷۴

انتخاب بھى اس لئے فرمايا تھا كہ اولاً: آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يہ بتانا چاہتے تھے كہ ذمہ دارياں شخصيت اور لياقت كى بناپر ہوتى ہيں نہ كہ سن و سال اور موہوم شرافتوں كى بناپر، تا كہ آئندہ لوگ حضرت على (ع) كو يہ كہہ كر خلافت سے الگ نہ كر سكيں كہ وہ جوان ہيں _ثانياً: اسامہ كے والد زيدابن حارثہ روميوں كے ساتھ جنگ كرتے ہوئے شہيد ہوئے تھے اس لئے ان ميں روميوں كے خلاف جنگ كرنے كا زيادہ جذبہ تھا اور سپہ سالارى كا عہدہ سونپ دينے كے بعد عملى طور پر ان كى دلجوئي بھى ہو جاتى _

اسامہ نے مدينہ كے قريب مقام '' جرُف'' ميں پڑاؤ ڈال ديا_ بزرگ صحابہ اور مہاجرين سب كے سب اسامہ كے لشكر كے سپاہى اور ان كى ماتحتى ميں تھے _ يہ بات ان ميں سے بعض كےلئے بڑى سخت تھى انہوں نے اعلانيہ طور پر اسامہ كى سپہ سالارى پر اعتراض كيا كہ بزرگوں كى سپہ سالارى كے لئے نوجوان كو كيوں منصوب كيا گيا؟ لشكر كى روانگى ميں عملى طور پر خلاف ورزياں ہوئيں چند دنوں تك لشكر ركا رہا _ مخالفت كر نيوالوں نے لشكر كى روانگى ميں كوتاہى كى اوراپنے بے ہودہ مقاصد كو انجام دينے كے لئے روانگى ميں تاخير كرائي_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بستر علالت پر سمجھ ليا كہ لشكر گاہ سے لشكر كى روانگى كو روكنے كےلئے لوگ كيا كررہے ہيں ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بستر سے اٹھے اور بخار نيز غيظ و غضب كے عالم ميں مسجد ميں تشريف لائے خدا كى حمد كے بعد فرمايا '' اے لوگو ميں لشكر كى روانگى ميں دير ہونے سے بہت ناراض ہوں گويا اسامہ كى سپہ سالارى تم ميں سے ايك گروہ كے اوپر گراں گذرى اور تم نے اعتراضات شروع كرديئےم اس سے پہلے بھى ان كے باپ كى سپہ سالارى پراعتراض كررہے تھے ، خدا كى قسم اس كا باپ سپہ سالارى كے لئے مناسب تھا اور وہ خود بھى

۲۷۵

مناسب ہے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر واپس آگئے اور ہر اس صحابى سے جو آپ كو ديكھنے كے لئے آتا تھا فرماتے: '' لشكر اسامہ كو روانہ كرو''(۱۶)

ليكن سازشيں اس سے بالاتر تھيں يہاںتك كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _'' جو لشكر اسامہ سے روگردانى كرے اس پر خدا كى لعنت ہو''(۱۷)

اہل بقيع كے مزار پر

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شديد بيمارى كے عالم ميں حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (۱۸) كا سہارا لئے قبرستان بقيع كى طرف چلے، اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيچھے پيچھے روانہ ہوئے جب بقيع كے قبرستان ميں پہنچے تو فرمايا:'' ميں مامور ہوں كہ خداوند عالم سے اہل بقيع كے لئے طلب مغفرت كروں ''_پھر فرمايا'' اے زير خاك آرام كرنے والو تم پر ميرا سلام ہو، تم اطمينان و مسرت سے آرام كرو كہ تمھارا زمانہ ان لوگوں كے زمانہ سے زيادہ آسودہ ہے _ فتنے اندھيرى رات كے ٹكٹروں كى طرح بڑھ آئے ہيں '' پھر فرمايا '' على (ع) ہر سال جبرئيل (ع) ميرے پاس قرآن كو ايك مرتبہ پيش كرتے تھے اور اس سال دو بار انہوں نے پيش كيا اس لئے كہ ميرا وقت قريب آگيا ہے''(۱۹)

واقعہ قرطاس يا نا مكمل تحرير

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كے آخرى دن تھے ، جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آنكھيں كھوليں تو اپنے بستر كے ارد گرد چند اصحاب كو ديكھا جن كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق اس وقت لشكر اسامہ كے

۲۷۶

ساتھ ہونا چاہيئے تھا_ امت ميں اختلاف كى روك تھام كے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _'' كاغذ اور دوات لاؤ تا كہ ميں تمہارے لئے ايك چيز لكھ دوں كہ اس كے بعد گمراہ نہ ہوگے ''_ ان ميں سے ايك صاحب نے چاہا كہ اٹھ كر قلم دوات لے آئيں ليكن جناب عمر نے اظہار خيال فرمايا '' يہ ( پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب اشارہ)ہذيان بك رہے ہيں ، قرآن تمہارے پاس ہے اور كتاب آسمانى ہمارے لئے كافى ہے '' ايك گروہ نے عمر كا ساتھ ديا اور كچھ لوگوں نے ان كى مخالفت كى ، شور و غل بر پا ہوا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اٹھو اور ميرے گھر سے نكل جاؤ''_(۲۰)

ناتمام نماز

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى علالت كے دوران ايك دن حضرت بلال نے اذان دى اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر و دروازہ پر آكر آواز دى '' نماز خدا تمہارے اوپر رحمت نازل كرے'' _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت زيادہ بيمارتھے اس وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' لوگوں كو كوئي نماز پڑھا دے اس لئے كہ ميں بيمار ہوں''_ عائشےہ نے كہا كہ ابوبكر كو تلاش كرو اور حفصہ نے كہا عمر كو لاؤ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دونوں كى باتيں سنيں اور دونوں بيويوں سے كہا '' ان باتوں سے خود كو روكو كہيں تم ان عورتوں كى طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے يوسف كو گمراہ كرنا چا ہا تھا''_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شديد بيمارى كے عالم ميں اٹھے ، علي(ع) اور فضل بن عباس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دونوں شانوں كو سہارا دے ركھا تھا ، مسجد ميں تشريف لائے ، ابوبكر كو محراب ميں ديكھا كہ نماز كے لئے كھڑے ہوگئے ہيں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہاتھ سے اشارہ كيا كہ ہٹ جاؤ_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے ان كى نماز كومكمل نہ ہونے ديا اور دوبارہ نہايت مختصر نماز كا اعادہ كيا _ جب آپ-صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر تشريف لے گئے تو ابوبكر ،

۲۷۷

عمر اور دوسرے افراد كو بلوا بھيجا جب يہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے پوچھا كہ '' لشكر اسامہ كے ساتھ كيوں نہيں گئے؟ انہوں نے جواب ديا '' ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تجديد بيعت كے لئے لوٹ آئے اور ہم نے يہ نہيں چاہا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيمارى كى خبر دوسروں سے پوچھيں''(۲۱) _

وداع پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيمارى نے شدت اختيار كرلى ، فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بستر كے پاس بيٹھى ہوئي باپ كے نورانى اور ملكوتى چہرہ كو ديكھ رہى تھيں _جس پر بخار كى شدت كى بنا پر پسينہ كے قطرے جھلملار ہے تھے، جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوطالب عليہ السلام كا شعر جو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بارے ميں تھا پڑھا _

وَاْبيَضُ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بوجهه

ثمال اليتامى عصمة للارامل

يعنى : روشن چہرہ اس چہرہ كى آبرومندى كے وسيلہ سے بارش طلب كى جاتى ہے جو يتيموں كى پناہ گاہ اور بيوہ عورتوں كى نگہدار ى كرنے والا ہے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آنكھيں كھوليں اور فرمايا، بيٹى ، شعر نہ پڑھو ، قرآن پڑھو :

( وَ مَا مُحَمّد الاَ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مَنْ قَبْله الرُّسُل اَفانْ مَاتَ اَوقُتل انْقَلَبْتُمْ عَلَى اَعْقابكُمْ وَ مَنْ يَنْقَلبْ عَلَى عَقبَيْه فَلَنْ يَضُرَّ اللّهَ شَيْئاً وَ سَيَجْزى اللّهُ الشَّاكريْنَ ) (۲۲)

'' محمد نہيں ہيں مگر پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ، ان سے پہلے بھى بہت سے پيغمبر گزر چكے ہيں تو كيا اگر

۲۷۸

انكا انتقال ہوجائے يا قتل كرديئےائيں توكيا تم اپنے گزشتہ لوگوں كے عقائد كى طرف پلٹ جاؤ گے ؟ اور جو اپنے گزشتگان كے آئين كى طرف پلٹ جائے گا وہ خدا كو كوئي نقصان نہيں پہنچائے گا _ خدا شكر كرنے والوں كو نيك جزاء دے گا''_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آہستہ سے حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا كے كان ميں كوئي بات كہى آپ(ع) نے گريہ شروع كيا _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى بيٹى كى تكليف برداشت نہ كر سكے اور دوبارہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان(ع) كے كان ميں كوئي بات كہى تو جناب فاطمہ چپ ہوگئيں اور مسكرانے لگيں _

بعد ميں جب لوگوں نے جناب فاطمہ (ع) سے سوال كيا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ(ع) سے كيا كہا تھا كہ پہلى بار آپ(ع) روئيں اور دوسرى بار مسكرائيں ؟ آپ(ع) نے جواب ديا '' پہلى بار آنحضرت سے رحلت كى خبر سنى تو مغموم ہوگئي دوسرى بار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بشارت دى كہ اے فاطمہ ميرے اہل بيت (ع) ميں سے تم سب سے پہلے مجھ سے ملوگى اس پر ميں بشاش ہوگئي_(۲۳)

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى حيات كے آخرى لمحوں ميں على عليہ السلام كو بلايا اور فرمايا '' علي(ع) ميرا سر اپنى آغوش ميں لے لو كہ امر خدا آن پہنچا ہے''_

اے على (ع) جب ميں اس دنيا ميں نہ رہوں تو مجھے غسل دينا اور پہلى بار مجھ پر نماز پڑھنا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا سر علي(ع) كى گود ہى ميں تھا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحمت بارى سے جا ملے _

يہ عظيم حادثہ ۲۸/صفر ۱۱ ہجرى بروز پير بمطابق ۲۸ مئي ۶۳۲ ء كورونما ہوا(۲۴) _ ليكن مورخين اہل سنت كے مطابق پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت ۱۲ ربيع الاول سنہ ۱۱ ھ ق(۲۵) بمطابق ۱۰ جون سنہ ۶۳۲كو ہوئي_

حضرت على (ع) نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے پاكيزہ جسم كو غسل ديا، كفن پہنا يا اور نماز پڑھى اس عالم

۲۷۹

ميں كہ آنسو آپ(ع) كى آنكھوں سے رواں تھے اور فرمايا _

'' ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بيشك آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مرنے سے وحى كا سلسلہ منقطع ہو گيا ''_

وہ چيز جو دوسرے پيغمبروں كى موت كے بعد منقطع نہيں ہوئي ( يعنى نبوت و احكام الہى اور آسمانى خبريں) اگر آپ صبر كا حكم نہ ديتے اور نالہ و فغاں سے منع نہ فرماتے تو ميں آپ (ع) كے فراق ميں اتنا روتا كہ ميرے اشكوں كا سرچشمہ خشك ہو جاتا _(۲۶)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كى خبر نہايت تيزى سے مدينہ ميں پھيل گئي ، علي(ع) جب غسل و كفن ميں مشغول تھے اس وقت ايك گروہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جانشين كا مسئلہ حل كرنے كے لئے سقيفہ(۲۷) ميں الجھ رہا تھا _غسل دينے كے بعد پہلے علي(ع) نے نمازپڑھى پھر مسلمان دستہ دستہ آتے گئے اور نماز پڑھتے گئے ، پھر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كو مسجد كے پہلو ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر ميں دفن كرديا گيا_(۲۸)

يہ نور ہرگز نہيں بجھے گا

پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دار بقاء كى طرف روانہ ہوگئے ، ليكن يہ نور نہ تو گل ہوا ہے اور نہ ہوگا_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا آئين مشعل ہدايت كى طرح بشر كے لئے تاريك راستوں ميں راہنما ہے اور كروڑوں ، اربوں انسان صديوں سے اسے آئين كے پيرو ہيں_

آج بھى روزانہ ايك ارب سے زيادہ مسلمان سارى دنيا ميں كروڑوں بار '' اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمدرسول اللہ '' كى آواز گلدستہ اذان سے سن رہے ہيں اور بے پناہ محبت كے ساتھ اس آواز كے دلبر با ترنم كو اپنى زبان پر جارى كرتے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) پر درود بھيجتے

۲۸۰