تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي0%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 298
مشاہدے: 153125
ڈاؤنلوڈ: 3564


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153125 / ڈاؤنلوڈ: 3564
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد 2

مؤلف:
اردو

ميں آگئيںاور پھر نئے سرے سے دو لشكروں كے درميان جنگ شروع ہوگئي_

مسلمان حواس باختہ ہوگئے اور نہ صرف دشمن كے ہاتھ سے مارے جانے لگے بلكہ ايك دوسرے كو بھى مار نے لگ گئے_

دوبارہ شروع ہونے والى غير مساوى جنگ كے شور و غوغہ كے دوران ''ابن قمئہ ''نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دفاع ميں مصروف اسلامى لشكر كے اہم سردار ''مصعب بن عُمير ''پر حملہ كرديا اور وہ خدا سے عہد و پيمان نبھاتے ہوئے اپنے خون ميں غلطان ہوگئے_

''مصعب ''نے لڑائي كے وقت چہرے كو چھپا ركھا تھا تا كہ پہچانے نہ جائيں_ ''ابن قمئہ ''نے سمجھا كہ اس نے پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قتل كرديا ہے_ اس وجہ سے چلّايا كہ '' اے لوگو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قتل ہوگئے ''_ اس خبر سے قريش كے سردار اس قدر خوش ہوئے كہ ہم آواز ہو كر چلّانے لگے ''محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قتل ہوگئے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قتل ہوگئے''_(۱۳)

اس بے بنياد خبر كا پھيلنا دشمن كى جرا ت كا باعث بنا اور لشكر قريش سيلاب كى طر ح اُمنڈ پڑا ، مشركين كى عورتوں نے مصعب كے پاك جسم اور شہدا ميں سے بہت سے افراد كے اجساد اطہار كو مثلہ كرديا_

دوسرى طرف اس خبر نے جنگ ميں مصروف مجاہدين اسلام كو بہت بڑا روحانى صدمہ پہنچايا، اكثر لوگوں نے ہاتھ روك ليا اور پہاڑ پر پناہ لينے كے لئے بھاگ گئے _بعض ايسے حواس باختہ ہوئے كہ انھوں نے يہ سوچا كہ كسى كو فوراً مدينہ ميں عبداللہ بن اُبّى كے پاس بھيجيں تا كہ وہ واسطہ بن جائے اور قريش سے ان كے لئے امان مانگے _

پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں كو اپنى طرف بُلا رہے تھے اور فرماتے تھے'' اے بندگان خدا ميرى طرف آؤ اے فلاںفلاں ميرى طرف آؤ'' ليكن جو لوگ ايمان سے بے بہرہ

۴۱

تھے اپنى جان بچانے كے ليے جيسے بھاگ رہے تھے ويسے ہى بھاگتے رہے_ ان ميں سے بعض پہاڑ كے دامن ميں بھاگتے ہوئے خدا كى جانب سے كئے گئے وعدہ فتح سے بد گمان ہوگئے زمانہ جاہليت كے افكار و خيالات نے ان كاپيچھا كرنا شروع كرديا بعض نے قرار پر فرار كو ترجيح دى اور مدينہ چلے گئے اور تين دن تك اپنے آپ كو چھپائے ركھا_(۱۴)

پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا دفاع كرنيوالوں كى شجاعت

درّے ميںچند افراد باقى رہ گئے اور ايسى شجاعت كے ساتھ دشمن كے پے درپے حملوں كو روك كر پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا دفاع كر رہے تھے جس كى تعريف نہيں كى جاسكتى _ علي(ع) نے ايك لمحہ كے لئے بھى ميدان نہيں چھوڑا_ آپ اپنى تلوار سے مسلسل دشمن كے سَر پر مَوت برسا رہے تھے اور بعض كو موت كے گھاٹ اتار كر دوسروں كو فرار پر مجبور كر رہے تھے_

حضرت على (ع) نے بہت زخم كھائے ليكن پھر بھى نہايت تيزى كے ساتھ شير كى طرح غُرا كر شكار پر حملہ كرتے اور پروانہ وار پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گرد چكّر لگاتے كہ مبادا كوئي نور خدا كى اس شمع كے وجود كو خاموش كردے ايسا منظر باربارآتا رہا كہ خدا اس بہادرى كا گواہ ہے _

جبرئيل (ع) نے آسمان سے آواز بلند كى _

لا فتى الا على لا سيف الا ذوالفقار(۱۵)

تاريخ بھى اس حقيقت كى گواہ ہے _ اہل سنت كے مورخ ابن ہشام لكھتے ہيںكہ '' احد كى جنگ ميں قريش كے زيادہ تر افراد حضرت علي(ع) كے ہاتھوں قتل ہوئے''(۱۶)

احد كے معركہ ميں بہادرى كا جوہر دكھانيوالوں ميں لشكر اسلام كے دلير سردار جناب حمزہ

۴۲

بن عبدالمطلب بھى تھے جنہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا دفاع كرتے ہوئے دلاورانہ جنگ ميں بہت سے مشركين كو واصل جہنم كيا _ ابوسفيان كى بيوى ہند نے جبير ابن مطعم كے ''وحشي'' نامى غلام سے وعدہ كيا تھا كہ اگر تم محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حمزہ (ع) يا على (ع) كو قتل كردو تو آزاد ہوجاؤ گے_ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تك تو نہ پہنچ سكا اور علي(ع) بھى ميدان جنگ ميں ہر طرف سے چوكّنے تھے_ اس نے جب جناب حمزہ كو ديكھا كہ وہ شدّت غيظ و غضب ميں ارد گرد سے بے خبر ہيں تو اپنے ذہن ميں ان كے قتل كا نقشہ ترتيب دينے لگا جناب حمزہ شير كى طرح قلب لشكر پر حملہ آور ہوتے اور جس شخص تك پہنچتے اس كو خاك و خون ميں غلطان كرديتے _

وحشى ايك پتّھر كى آڑ ميں چھپ گيا اور جب جناب حمزہ مصروف جنگ تھے اس وقت اُس نے اپنے نيزے كا نشانہ ان كى طرف لگا كر ان كو شہيد كرديا_ جبكہ ابوسفيان كى بيوى ہندنے جناب حمزہ (ع) كے جسمَ پاك كو مثلہ كيا_

پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا دفاع كرنے والوں ميں سے ايك ابو دجانہ بھى تھے مسلمانوں كے ميدان جنگ ميں واپس آجانے كے بعد جب آتش جنگ دوبارہ بھڑ كى تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك تلوار لى اور فرماياكہ'' كون ہے جو اس تلوار كو لے اور اس كا حق ادا كرے؟'' چند افراد اٹھے، ليكن ان ميں سے كسى كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تلوار نہيں دى اور پھر اپنى بات دُہرائي_اس دفعہ ابودجانہ اٹھے اور انہوں نے كہا يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں آمادہ ہوں_

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ اس شمشير كا حق يہ ہے كہ اسے دشمن كے سر پر اتنا مارو كہ يہ ٹيڑھى ہوجائے اور اس بات سے مكمل طور پر ہوشيار رہوكہ كہيں دھو كے ميں تم كسى مسلمان كو قتل نہ كردينا _ يہ كہہ كر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ تلوار ان كو عطا فرمائي _(۱۷)

ابودجانہ نے ايك سُرخ رنگ كا كپڑا اپنے سَر پر باندھا اور دشمن كى طرف مغرورانہ

۴۳

انداز ميں بڑھے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' اس طرح كى چال كو خدا پسند نہيں كرتا مگر يہ كہ جنگ كا ہنگام ہو، ابودجانہ نے راہ خدا ميں قلب دشمن پر حملہ كيا اور ان كے سروں پر تلوار كے اتنے واركئے كہ تلوار ٹيڑھى ہوگئي_

اُمّ عمارہ شير دل خاتون

اُمّ عمارہ وہ شير دل خاتون ہيں جو مدينہ سے سپاہ اسلام كے ساتھ آئي تھيں تا كہ محاذ كے پيچھے رہ كر ديگرخواتين كے ساتھ لشكر اسلام كيلئے امدادى كاموں ميں شركت كريں، ان كے زخموں كى مرہم پٹى كا انتظام كريں، زخميوں كے زخموں پر پٹى باندھيں اور مجاہدين كو پانى پہنچائيں _

اگرچہ جہاد عورتوں پر واجب نہ تھا مگر جب اُمّ عمارہ نے ديكھا كہ لوگ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس سے پراگندہ ہوگئے ہيں اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو آگ و خون كے درميان تنہا اور بے يار و مدد گار چھوڑ ديا ہے اور ان كى جان خطرے ميں ہے تو ام عمارہ نے وجود اسلام خطر ے ميں گھرا ہوا ديكھ كر ايك بھاگنے والے كى تلوار اُچك لى اور مردانہ وار دشمن كے لشكر كى طرف بڑھيں اور ہر طرف لڑنے لگيں تا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جان محفوظ رہے_ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس شير دل خاتون كى شجاعت سے بہت خوش ہوئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ نُسَيبہ ( اُمّ عمارہ ) دختر كعب كى منزلت آج كے دن ميرے نزديك فلاں فلاں سے زيادہ بلند ہے_(۱۸)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے سپَر بنے ہوئے چند افراد كى بے مثال فداكارى كے باوجود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شديد زخمى ہوئے_

''عتبہ'' نے چار پتّھر پھينك كر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چند دانت شہيد كر ديئے _ ''ابن قمئہ ''نے

۴۴

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چہرے پرايسا شديد زخم لگايا كہ آپ كے خود كى كڑياں آپ كے رخساروںميں پيوست ہوگئيںپيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زخموں كى بناپر كافى كمزور ہوگئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ظہر كى نماز بيٹھ كر اداكي_

ميدان چھوڑ دينے والوں ميں سے سب سے پہلے كعب بن مالك نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كو پہچانااور چلّا كر كہا '' پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندہ ہيں'' ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے خاموش رہنے كا حكم ديا_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو درّے كے دہانے تك لے جايا گيا جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں پہنچے تو بھاگ كر وہاں آئے ہوئے مسلمان بہت شرمندہ ہوئے_ ''ابوعبيدہ جراح ''نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چہرہ مبارك ميں در آنے والى زنجير كى كڑيوں كو باہر نكالا حضرت على (ع) اپنى سپر ميں پانى بھر ا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اپنا خون آلود سر اور چہرہ دھويا_

لشكر كى جمع آوري

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم درّے كے دہانے پر پہنچ گئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں كو بلايا ،جب لشكر اسلام نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو زندہ ديكھا تو گروہ گروہ اور فرد فرد اكٹھے ہونے لگے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كو راہ خدا ميں جنگ و جہاد اور پہلى جگہوں پر واپسى كى دعوت دى _

شكست كے بعد پھر سے اسلامى فوجيں منظم ہوگئيں، افراد اور سامان جنگ كى كمى كے باوجود دوبارہ حملہ شروع كرديا گيا اور جنگ كى آگ بھڑكانے والوں كو پھر سے اپنى لپيٹ ميں لے ليا_ مشركين كى فوج نے عقب نشينى شروع كى اور مسلمان دوبارہ اپنى اپنى جگہوں پر پہنچ گئے_

اسلامى لشكر كى شجاعت و بہادرى نے دوبارہ دشمن كے سياہ قلب كو خوف و وحشت ميں

۴۵

مبتلا كرديا، مشركين كے لشكر كے سردار ابوسفيان نے اس خطرے كے باعث كہ كہيں مجاہدين اسلام آغاز جنگ كى طرح دوبارہ ان پر جھپٹ پڑيں، جنگ بندى كے حكم كے ساتھ جنگ كے خاتمے كا اعلان كرديا_

۴۶

سوالات

۱_ منافقين نے جنگ ميں كيسے خيانت كي؟

۲_ لشكر اسلام اور شرك كا جنگى توازن بيان فرمائيں؟

۳_ كيا وجہ تھى كہ دشمن نے سپاہ اسلام كا محاصرہ كرليا تھا؟

۴_ كن لوگوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كا دفاع كرنے ميں جواں مردى كا ثبوت ديا؟

۴۷

حوالہ جات

۱_ الصحيح مين سيرة النبى ج ۴، ص ۱۹۳و مغازى واقدى ج۱ ، ص ۲۱۵_

۲_ مغازى واقدى ج ۱ ، ص ۲۱۶_

۳_ مغازى واقدى ج ۱، ص ۲۱۹_

۴_ مغازى واقدى ج ۱ ص ۲۶۴_

۵_ مغازى واقدى ج ۱ ص ۳۱۷_

۶_( اذهَمَّت طائفَتَان منكُم اَن تفشَلا و الله وليُّهُما و على الله فَليَتَوكَّل المؤمنون ) _ (آل عمران۱۲۲) مغازى واقدى ج ۱ ص ۳۱۹_ جوامع السيرة ص ۱۵۹_ تاريخ پيامبر دكتر آيتى ص ۲۸۶ طبع ششم اعيان الشيعہ ج ۱ ص ۲۵۴_

۷_ مغازى واقدى ج ۱، ص ۲۲۰ سے ۲۲۴تك _

۹_ يہ نقشہ جزل طلاس كى كتاب'' پيامبر و آئين نبرد ''سے استفادہ كرتے ہوئے تھوڑى سى تبديلى كے ساتھ تيار كيا گيا ہے_

۱۰_ مغازى واقدى ج ۱_ ص ۲۲۳_

۱۱_ مغازى واقدى ج۱ ص ۲۲۳_

۱۲_ نحن بنات الطارق_ نمشى على النَّمَارق_ ان تقبلو _ او تُدبر والفارق _ مغازى واقدى ج ۱، ص ۲۲۳/ ۲۲۵_

۱۳_ مغازى واقدى ج ۱ ص ۲۲۹،۲۳۲_

۱۴_ مغازى واقدى ج ۱ ص ۲۳۷، الصحيح ج ۳،ص ۲۲۶_ كامل ج ۲،ص ۱۰۹_

۱۵_ على (ع) جيسا كوئي جواں مرد اور ذوالفقار جيسى كوئي تلوار نہيں ہے_

۱۶_ سيرة ابن ہشام ج ۲ ، ص ۱۰۰_ تفسير البرہان ج ۱ ، ص ۳۱۳_

۱۸_ سيرة ابن ہشام ج ۲، ص ۶۸_ مغازى واقدى ج ۲ ، ص ۲۵۹_

۱۹_ مغازى واقدى ج ۱، ص ۲۶۹_ تفسير على ابن ابراہيم ج ۱ ، ص ۱۱۶_ اور شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۴ ، ص ۲۶۶_

۴۸

تيسرا سبق

شہيدوں كے پاكيزہ جسم كے ساتھ كيا سلوك ہوا؟

طرفين كے نقصانات

مفہوم شہادت

نفسياتى جنگ

كہاں جارہے ہيں؟

احد ميں مسلمانوں كى شكست كے اسباب كا جائزہ

شہداء كى لاشيں

ان كو يہيں دفن كروانيكى دعا مستجاب ہوگئي

مدينہ كى طرف

نماز مغرب كا وقت آن پہنچا

شہيدوں كى ايك جھلك

ايك عقلمند صاحب ثروت كى شہادت

بوڑھے عارف كى شہادت

حجلہ خون

مدينہ ميں منافقين كى ريشہ دوانياں

مدينے سے ۲۰ كيلوميٹر دور '' حمراء الاسد'' ميں جنگى مشق

ابو عزّہ شاعر كى گرفتاري

سوالات

حوالہ جات

۴۹

شہيدوں كے پاكيزہ جسم كے ساتھ كيا سلوك ہوا؟

جنگ كے خاتمہ اور ميدان جنگ كے خالى ہوجانے كے بعد قريش كى اوباش عورتيں اور مشركين كے سپاہي، شہيدوں كے پاكيزہ اجسام كى طرف بڑھے اور انتقام كى آگ بجھانے كے لئے انہوں نے لرزادينے والے مظالم ڈھائے اور شہيدوں كے پاكيزہ اجسام كو مثلہ كيا ، ابوسفيان كى بيوى ہند اس گروہ ميں شامل عورتوں ميں پيش پيش تھى اس نے جناب حمزہ اور تمام شہيدوں كے اعضا كاٹ كر گلوبند اور دست بند بنايا اور جب جناب حمزہ كے جسد اطہر كے پاس پہنچى اُن كے سينہ كو چاك كر كے جگر نكال كر دانت سے چبانا چاہا ليكن كوشش كے باوجود چبانہ سكى بالآخر زمين پر پھينك ديا_

اس بدترين جُرم كے ارتكاب كے بعد وہ '' ہند جگر خوار'' كے نام سے مشہور ہوگئي _

حنظلہ كے علاوہ كہ جن كا باپ(ابوعامر) سپاہ مشركين ميں تھا، تمام شہيدوں كے جسموں كو مثلہ كرديا گيا_(۱)

طرفين كے نقصانات

جنگ احد ميں مسلمانوں كى طرف سے ستّر (۷۰ )آدميوں نے جام شہادت نوش فرمايا

۵۰

ان ميں چار افراد مہاجرين اور بقيہ انصارميں سے تھے اور تقريباً ستر (۷۰ )افراد زخمى ہوئے_مشركين ميں سے بائيس(۲۲) سے ليكر چھبيس(۲۶) افراد تك ہلاك ہوئے جن ميں سے آدھے حضرت على (ع) كى تلوار كا نشانہ بنے_(۲)

مفہوم شہادت

منافقين مدينہ ميں سے'' قزمان'' نامى ايك شخص تھا _ جب بھى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے اس كا ذكر كيا جاتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے كہ '' وہ جہنمّى ہے''_

جب جنگ احد كا آغاز ہوا تو قزمان لشكر اسلام سے روگردانى كر كے عبداللہ بن ابّى اور ديگر منافقين سے جاملا_ جب وہ مدينہ پہنچا تو عورتوں نے اس كو لعنت و ملامت كى اسے غيرت محسوس ہوئي تو وہ اسلحہ سے ليس ہو كر احد كى طرف روانہ ہوا، مردانہ وار جنگ كى اور نہايت شجاعت اور دليرى كے ساتھ چند مشركين كو قتل اور زخمى كيا _ جنگ كے آخرى لمحات ميں بہت زيادہ زخمى ہوكر ميدان جنگ ميں گر پڑا مسلمان اس كى طرف دوڑے اور كہا'' خوش ہوجاؤ كہ جنت تمہارا ٹھكانہ ہے'' اس نے كہاكہ ميں كيوں خوش ہوں؟ ميں نے صرف اپنے قبيلے كى عزت كے لئے جنگ كى ہے اگر ميرا قبيلہ نہ ہوتا تو ميں جنگ نہ كرتا زخموں كے درد كو اس سے زيادہ برداشت نہ كرسكا اور تركش سے ايك تير نكال كے خودكشى كرلى _(۳)

نفسياتى جنگ

لوگوں كے افكار و عقائد ميں نفوذ كرنے كے لئے مناسب وقت كى ضرورت ہوتى ہے

۵۱

جبكہ افكا۷ر و عقائد كو خراب كرنے كے ليے شكست اور مصيبتوں ميں مبتلا ہونے والے زما۷نے جيسا مناسب اور كوئي زمانہ نہيںہوتا، موقع كى تلاش ميں رہنے والے دشمن نے اس اصول كے تحت شكست كے آخرى لمحات كو اپنے عقائد كى نشر و اشاعت كے لئے غنيمت سمجھا اور مخالف اسلام نعروں كے ذريعہ سادہ لوح افراد كو دھوكہ دينے اور انہيں متاثر كرنے كى كوشش كى _كيونكہ يہ ايسا موقع تھا جب غلط پروپيگنڈہ نہايت آسانى كے ساتھ شكست خوردہ قوم كے دلوں پراثر كر سكتا تھا_

ابوسفيان اور عكرمہ بن ابى جہل نے ''اُعلُ ھُبل '' (ھبل سرفرازرہے )كا نعرہ بلند كيا_ يعنى ہمارے بتوں نے ہميں كامياب كيا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ تم كہو''اَلله اَعلى وَ اَجَلّ'' خدا برتر اور بزرگ ہے_ مشكرين كا نعرہ تبديل ہوا اور ابوسفيان چلايا:''نَحنُ لَنَا العُزّى وَ لا عزّى لَكُم'' ہمارے پاس عُزّى نامى بُت ہے ليكن تمہارے پاس نہيں ہے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ تم بھى بلند آواز سے كہو''الله مَولانَا وَ لا مَولى لَكُم'' اللہ ہمارا مولا ہے اور تمہارا كوئي مولا نہيں ہے_

مشركين كا نعرہ دوبارہ بدل گيا ابوسفيان نے نعرہ بلند كيا كہ '' يہ دن روز بدر كا بدل ہے''_ مسلمانوں نے پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے كہا كہ '' يہ دونوں دن آپس ميں برابر نہيں ہيں'' ہمارے مقتولين بہشت ميں اور تمہارے مقتولين جہنم ميں ہيں_ ابوسفيان نے كہا كہ '' ہمارا اور تمہارا آئندہ سال مقام بدر ميں وعدہ رہا''_(۴)

كہاں جا رہے ہيں؟

جنگ كى آگ بُجھ گئي ، دونوں لشكر ايك دوسرے سے جُدا ہوگئے، مشركين كے لشكر نے

۵۲

كوچ كا ارادہ كيا پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سوچنے لگے ، ديكھيں يہ لوگ كہاں جاتے ہيں؟ كيا يہ لوگ موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مدينہ پر حملہ كرنا چاہتے ہيں يا مكّہ كا راستہ اختيار كرتے ہيں؟ حالات سے آگاہى كے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت على (ع) سے فرمايا '' اے على (ع) تم جاكر دشمن كى خبر لاؤ اگر تم نے ديكھا كہ يہ لوگ گھوڑوں پر سوار اونٹوں كو كھينچتے ہوئے لے جاتے ہيں تو سمجھنا كہ مدينہ پر حملہ كا ارادہ ہے_ اس صورت ميں خدا كى قسم ہم ان سے لڑيں گے_ اور اگر وہ اونٹوں پر سوار ہوكر گھوڑوں كو كھينچتے ہوئے لے چلے تو سمجھنا كہ مكّہ جانے كا ارادہ ركھتے ہيں''(۵) _

حضرت على (ع) دور سے دشمن پر نظر ركھے ہوئے ديكھ رہے تھے كہ وہ انٹوں پر سوار ہوكر اپنے ديار پلٹ جانے كا ارادہ ركھتے ہيں_

احد ميں مسلمانوں كى شكست كے اسباب كا جائزہ

جنگ كے پہلے مرحلے ميں سپاہ اسلام كى فتح اور بعد كے مرحلہ ميں ان كى شكست كى وجہ احد كے واقعات ديكھنے كے بعد بڑى آسانى سے واضح ہوجاتى ہے_ليكن وحى كى زبان سے مسلمانوں كى شكست كے اسباب مختصراً بيان كيئے جاتے ہيں_

۱_ جنگى نظم و ضبط كى كمى ، سردار كى نافرمانى اور جنگى اعتبار سے اہم جگہ كو چھوڑ دينا مسلمانوں كى شكست كى اہم وجوہات ہيں_ قرآن كہتا ہے كہ '' خدا نے ( احد ميں دشمنوں پر) فتحيابى كا تم سے سچّاوعدہ كيا _ اس موقع پر تم اس كے فرمان كے مطابق جنگ كر رہے تھے (اور يہ كاميابى جارى تھي)_ يہاں تك كہ تم سست ہوگئے اور اپنے كام ميں نزاع كرنے لگے _ جس چيز كو تم دوست ركھتے تھے ( دشمن پر غلبہ كو ) تمہيں دكھا ديا گيا پھر اس كے بعد تم نے نافرمانى كى _(۶)

۵۳

۲_ ايمان كى كمزورى اور دنيا پرستي، نئے نئے مسلمان ہونے والوں ميں ايك گروہ نے دشمن كا پيچھا كرنے كى بجائے مال غنيمت جمع كرنے كو ترجيح دى اور اسلحہ ركھ كرمال غنيمت جمع كرنے لگا_ قرآن مندرجہ بالا آيات كے آخر ميں كہتا ہے كہ ''تم ميں سے بعض دُنيا طلب تھے اور بعض آخرت كے خواہاں، اس كے بعد اللہ نے تم كو ان سے منصرف كرديا( اور تمہارى كاميابى شكست پر تمام ہوئي) تا كہ تم كو آزمائے_(۷)

دوران جنگ ايك بڑى تعداد كا اپنى جان بچانے كيلئے ميدان فرار اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تنہا دشمن كے نرغے ميں دشمن كے حوالے كرنا،ا ن افراد كے دنيا پرست اور ضعيف ايمان كا بہت بڑانمونہ ہے_

پيغمبر كے قتل كى افواہ ، اور وہ اس طرح كہ بعض مسلمان تو اسلام كى بنياد ہى سے نااميد ہوگئے تھے قرآن اس سلسلہ ميں كہتا ہے كہ '' محمد نہيں ہيں مگر فرستادہ خدا كہ اُن سے پہلے بہت سے پيامبر ہوچكے اور اس دنيا سے جاچكے ہيں_ اگر وہ بھى مرجائيں يا شہادت پاجائيں تو كيا تم اپنے جاہليت كے دين پر پلٹ جاؤگے؟(۸)

شہداء كى لاشيں

مشركين كے لشكر كے ميدان جنگ سے نكل جانے كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لشكر اسلام كے مجاہدين كے ساتھ شہيدوں كى ميّت پر حاضر ہوئے تا كہ ان كو سُپرد خاك كريں_ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شہيدوں كے مُثلہ شدہ اجسام ، خصوصاً سيّد الشہداء حضرت حمزہ كے پارہ پارہ بدن كو ديكھا تو دل غم سے پاش پاش ہوگيا اور مشركين كى طرف سے آپ كے دل ميں مزيد غصّہ اور نفرت كا طوفان اُٹھ كھڑا ہوا_وہاں مسلمانوں نے يہ عہد كيا كہ اگر دوسرى لڑائي ميں وہ مشركين پر فتح پائيں گے تو ايك آدمى كى تلافى ميں كافروں كے تيس اجسام كو

۵۴

مثلہ كريں گے ليكن مندرجہ ذيل آيت نازل ہوئي اور مسلمانوں نے اس خيال كو ترك كرديا_

''اگر تم چاہتے ہو كہ ان كو سزا دو تو اپنى سزا ميں ميانہ روى اختيار كرو اور حد اعتدال سے

خارج نہ ہوجاؤ اور اگر صبر كرو تو يہ صبر كرينوالوں كے لئے بہتر ہے_(۹)

پھر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت حمزہ كے پاكيزہ جسم پر نماز پڑھى اور ان كے پہلو ميں ايك ايك شہيد كو لٹا كر ہر ايك پر الگ الگ نماز پڑھى اس طرح ستر نمازيں پڑھى گئيں_(۱۰)

حضرت حمزہ كى بہن ''صفيہ '' اپنے شہيد بھائي كا جنازہ ديكھنے آئيں تو ان كے بيٹے زبير نے روكنا چاہا ( تا كہ بہن اس حال ميں بھائي كونہ ديكھے) ليكن جناب صفيہ نے فرمايا كہ ''مجھے معلوم ہے ميرى بھائي كو مثلہ كيا گيا ہے _ بخدا اگر ميں ان كے سر ہانے پہنچوں گى تو اپنے غمگين ہونے كا اظہار نہيں كروں گى اور راہ خدا ميں اس مصيبت كو برداشت كروں گي'' لوگوں نے ان كو چھوڑ ديا وہ اپنے بھائي كے سرہانے آئيں اور ان كے لئے خدا سے دُعائے مغفرت كي_

رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے حكم ديا كہ قبريں كھودى جائيں اور ان اجسام كو دفن كرديا جائے شہدا اپنے لباس كے ساتھ دفن ہوئے اور جس شہيد كے تن پر مناسب لباس نہ تھا اس كے جسم كو ايك پارچے سے ڈھانپ ديا گيا_ اكثر شہدا كو اسى ميدان جنگ ميں سپرد خاك كيا گيا كچھ لوگ اپنے شہدا كو مدينہ لے گئے _ اس طرح سے شہيدوں كا پہلا قبرستان ''گلزار شہدائ'' مدينہ كے نزديك كوہ احد كے دامن(۱۱) ميں بنا_

ان كو يہيں دفن كر وانيكى دُعا مستجاب ہوگئي

عمر و بن حرام كى بيٹى ''ہند ''جس كے شوہر ''عمر و بن جموح ''بيٹے خلاد ''اور بھائي ''

۵۵

''عبداللہ عمرو ''اس مقدّس جہاد ميں شہيد ہوئے ، احد ميں آئي تا كہ اپنے عزيزوں كى ميتيںمدينہ لے جائے_ ہند نے ان تينوں كے جنازے اونٹ پر ركھے اور مدينہ كا راستہ ليا_ مدينہ جاتے وقت راستے ميں كچھ عورتيں مليں جو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صحيح خبر پانے كے لئے احد كى طرف آر ہى تھيں_ عورتوں نے ہند سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كا حال دريافت كيا تو اس نے نہايت خندہ پيشانى سے جواب ديا كہ ' ' الحمد للہ رسول خدا زندہ ہيں_ ( گويا اس نعمت كے مقابل تمام مصيبتيں ہيچ تھيں) دوسرا مدہ يہ ہے كہ خدا نے كافروں كے رُخ كو پھير ديا جبكہ وہ غيظ و غضب سے بھرے ہوئے تھے _عورتوں نے اس سے پوچھا '' يہ جنازے كس كے ہيں؟ '' اس نے كہا '' ايك ميرے شوہر ، دوسرا ميرے بيٹے اور تيسرا ميرے بھائي كا جنازہ ہے''_

وہ عورت اونٹ كى مہار كو مدينہ كى طرف كھينچ رہى تھى ليكن اونٹ بڑى مشكل سے راستہ طے كر رہا تھا_ ان عورتوں ميں سے ايك نے كہا كہ ''شايد اونٹ كا بار بہت گراں ہے'' ہند نے جواب ديا :'' نہيں يہ اونٹ بہت آسانى سے دو اونٹوں كا بار اٹھاتا ہے''_ ہند جب اونٹ كو احد كى طرف پلٹاتى تو اونٹ بڑى آسانى سے چلنے لگتا ، اس نے اپنے دل ميں كہا كہ '' يہ كيا بات ہے؟'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئي اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سارا ماجرا بيان كيا _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہند سے سوال كيا كہ '' جب تيرا شوہر گھر سے باہر نكلا تو اس نے خدا سے كيا مانگا تھا؟ '' ہند نے كہا ، اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ جب گھر سے باہر نكلے تھے تو اس وقت انكى دُعا تھى '' خدا يا مجھے ميرے گھر واپس نہ پلٹانا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمايا: '' تيرے شوہر كى دُعا مستجاب ہوئي'' خدا نہيں چاہتا كہ يہ جنازے گھر كى طرف واپس جائيں تم تينوں جنازوں كو احد ہى ميں دفن كرو اور يہ جان لو كہ يہ تينوں افراد دوسرى دُنيا ميں بھى ساتھ ہى رہيں گے''_

۵۶

ہند نے سسكتے ہوئے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ خدا سے دُعا كيجئے كہ ميں بھى (آخرت ميں) ان كى پاس رہوں_(۱۲)

مدينہ كى طرف

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے شہيد اصحاب كو دفن كرچكے تو انہوں نے مدينہ كى طرف روانہ ہونے كا حكم ديا_ بہت سے مسلمان زخمى تھے_ جناب فاطمہ زہرا (ع) كے ساتھ زخميوں كے ديكھ بھال كے لئے احد ميں جو چودہ عورتيں آئي تھيں وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ تھيں_

كچھ لوگ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ديدار اور استقبال كے لئے شہر سے باہر آئے تا كہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سلامتى كا اطمينان حاصل كريں_ قبيلہ بنى دينار كى ايك عورت نے جب اپنے باپ ، شوہر اور بھائي كے شہيد ہوجانے كى خبر سُنى تو اس نے كہا كہ '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى كيا خبر ہے؟'' لوگوں نے بتايا كہ ''رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ٹھيك ہيں''_ اس عورت نے كہا كہ '' ذرا مجھے راستہ ديد و تا كہ ميں خود ان كى زيارت كروں'' اور جب اس نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو زندہ وسلامت ديكھا تو كہا كہ '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندہ ہيں تو اب اسكے بعد ہر مصيبت آپكے وجود كى وجہ سے بے وقعت ہے_(۱۳)

''حمنہ بنت حجش ''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئيں تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمايا '' حمنہ ميں تجھے تعزيت پيش كرتا ہوں''_ انہوں نے پوچھا كہ كس كى تعزيت ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ''تمھارے ماموں حمزہ كى '' حمنہ نے كہا: انا للہ و انا اليہ راجعون ،خدا ان كى مغفرت كرے اور ان پر اپنى رحمت نازل فرمائے انہيں شہادت مبارك ہو، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' ميں پھر تعزيت پيش كرتا ہوں'' حمنہ نے كہا '' كس كى تعزيت''؟ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' تمہارے

۵۷

بھائي عبداللہ بن حجش كى '' حمنہ نے كہا خدا ان كى مغفرت كرے اور ان پر اپنى رحمتيں نازل كرے اور ان كو بہشت مبارك ہو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر فرمايا كہ '' ميں پھر تم كو تعزيت پيش كرتا ہوں''حمنہ نے پوچھا '' كس كى تعزيت؟ آپ نے فرمايا كہ '' تمہارے شوہر مصعب بن عمير كى '' حمنہ نے ايك آہ سرد بھرى اور گريہ كرنا شروع كيا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' شوہر جو مقام عورت كے دل ميں ركھتا ہے وہ كسى كا نہيں ہوتا''_ اس كے بعد لوگوں نے حمنہ سے پوچھا كہ تم اس قدر كيوں غمزدہ ہوگئيں ؟ حمنہ نے كہا كہ '' ميں نے اپنے بچّوں كى يتيمى كو ياد كيا تو ميرا دل بھر آيا_(۱۴)

شہيد عمروبن معاذ كى ماں ''كبشہ '' آگے بڑھيں اور انہوں نے بڑے غور سے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا چہرہ مبارك ديكھا اور اس كے بعد كہا'' اب جب ميں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو صحيح و سالم ديكھ ليا تو مصيبت كا اثر ميرے دل سے زائل ہوگيا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كے بيٹے عمروبن معاذ كى شہادت پر ان كو تعزيت پيش كى ، دلاسہ ديا اور فرمايا '' اے عمرو كى ماں ميں تجھے مدہ سناتا ہوں اور تم شہيدوں كے اہل و عيال كو مدہ سنادو كہ ان كے شہدا بہشت ميں ايك دوسرے كے ساتھ ہيں اور ہر ايك اپنے عزيزوں اور خاندان والوں كى شفاعت كرے گا_'' عمرو كى ماں نے كہا '' اے پيغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اب ميں خوش ہوں'' اور اس كے بعد عرض كيا '' اے پيغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان كے پس ماندگان كے لئے دعا فرمايئےرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اس طرح دعا كى '' خدايا ا ن كے دلوں سے غم كو زائل كردے ، ان كے مصيبت زدہ دل كے زخموں پر مرہم ركھ اور ان كے پس ماندگان كے لئے بہترين سرپرست قرار دے_(۱۵)

۵۸

نماز مغرب كا وقت آن پہنچا

بلال نے اذان دي، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد ميں اس حالت ميں تشريف لائے كہ لوگ ان كے شانوں كو پكڑے ہوئے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز پڑھى واپسى پر ديكھا كہ نالہ و شيون كى آوازوںميں شہر مدينہ ڈوبا ہوا ہے ، لوگ اپنے شہيدوں كى عزادارى اور ان پر رونے ميں مصروف ہيں _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا:

'' ليكن حمزہ كا كوئي نہيں ہے جو ان پر گريہ كرے'' مدينہ كى عورتيں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر آئيں اور مغرب سے لے كر رات تك نوحہ و عزادارى ميں مصروف رہيں _

شہيدوں كى ايك جھلك

صرف ايك سجدہ وہ بھى محراب عشق ميں خون بھرا سجدہ_

انصار ميں سے عمروبن ثابت نامى ايك شخص جن كى عرفيت'' اصيرام'' تھي_ ہجرت كے بعد جب انكے سامنے اسلام پيش كيا گيا_ انھوں نے اسے قبول كرنے سے انكار كرديا ليكن

جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا احد كے لئے نكلے تو ان كے دل ميں نور ايمان جگمگا اُٹھا_ انھوں نے تلوار اُٹھائي اور نہايت سرعت كے ساتھ لشكر اسلام سے جاملے ، مردانہ وار جنگ كى اور زخموں سے چور ہوكر گر پڑے_ جب مسلمانوں نے اپنے مقتول سپاہيوں كو ميدان جنگ ميں ڈھونڈھنا شروع كيا تو اس وقت ان كو بھى ديكھا كہ ابھى زندہ ہيں، لوگوں نے ان سے دريافت كيا كہ '' تم نے اپنے قبيلہ كى حمايت ميں جنگ كى ہے يا تم مسلمان ہوگئے ہو؟ '' انھوں نے جواب ديا كہ '' ميں مسلمان ہوگيا ہوں ميں نے ميدان جہاد ميں قدم ركھ ديا ہے اور اب اپنے خون ميں غلطاں ہوں_'' ابھى تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ وہ شہيد ہوگئے ، جب

۵۹

ان كا واقعہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے بيان كيا گيا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' كہ وہ جنّتى ہے'' ہاں قبل اس كے وہ نماز پڑھے اور خدا كے لئے سجدہ كرے، اس نے جنّت كى راہ لي، اس نے صرف ايك سجدہ كيا وہ بھى خون بھرا سجدہ محراب عشق ميں_(۱۶)

ايك عقلمند صاحب ثروت كى شہادت

''مخيرق ''ايك يہودى دانش مند اور مال دار آدمى تھا خرمے كے درخت اور بہت زيادہ مال و متاع كا مالك تھا جب احد كا دن آيا تو اس نے يہوديوں سے مخاطب ہوكر كہا '' خدا كى قسم تمہيں خوب معلوم ہے كہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نصرت تم پر واجب ہے ''_ يہوديوں نے عذر پيش كيا كہ آج ہفتے كا دن ہے(۱۷) _اس نے كہا كہ '' تمھارے نزديك اب كوئي ہفتہ نہيں ہے''_ پھراس نے لباس جنگ زيب تن كيا اپنے جسم پر ہتھيار سجائے اور احد كى طرف روانہ ہونے كے لئے تيار ہوا نكلنے سے پہلے اس نے اپنے رشتہ داروں سے كہا '' اگر ميں آج قتل كرديا جاؤں تو ميرے سارے مال كا اختيار محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ہے، وہ جہاں چاہيں خرچ كريں''_ اس كے بعد وہ احد كى طرف چل پڑا اور مجاہدين راہ خدا سے جاملا ، جہاد كرتے ہوئے شہيد ہوا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كى وصيّت كے مطابق ان كے مال كو اپنى تحويل ميں لے ليا اور ابن اسحاق كى تحرير كے مطابق مدينہ ميں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے بہت سے اوقاف اور امور خير انجام دينے والى چيزيں انہى كے مال سے تھيں_(۱۸)

بوڑھے عارف كى شہادت

''خيثمہ''بوڑھے مگر صاحب معرفت تھے ان كے بيٹے بدر كى لڑائي ميں شہادت كے

۶۰