تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 348
مشاہدے: 166403
ڈاؤنلوڈ: 3858


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 166403 / ڈاؤنلوڈ: 3858
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 3

مؤلف:
اردو

شريك گناہ ہيں '' اس پر مالك نے كہا كہ تم اپنى بات كر رہے ہو تم وہ لوگ ہو جنہوں نے اپنے برگزيدہ لوگوں كو قتل كرا ديا اور جو پست فطرت تھے وہ زندہ ہيں ايسى حالت ميں تم خود كو كس طرح حق پر سمجھ سكتے ہو؟ كيا اس وقت جب تم شاميوں كو قتل كر ہے تھے يا اس وقت جب كہ تم كشت و كشتار سے دستبردار ہوگئے ہو؟ دوسرى صورت ميں تمہيں يہ بات تسليم كر لينى چاہيئے كہ تمہارے وہ عزيز جو قتل ہوئے تم سے بہتر و افضل تھے اگرچہ تم ان كى فضيلت سے انكار نہيں كر سكتے مگر اب وہ اپنى آگ ميں خود جل رہے ہيں ''

وہ لوگ جو مالك كى منطق و دليل كا جواب نہ دے سكے انہوں نے كہا'' كہ اب آپ ہم سے حجت و بحث نہ كيجئے كيونكہ ہم نے راہ خدا ميں ہى جنگ كى تھى اور راہ خدا ميں ہى اس جنگ سے دستكش ہو رہے ہيں آپ كى اطاعت ہرگز نہيں كريں گے بہتر ہے كہ آپ اپنى راہ ليں ...''

مالك نے چاہا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام اس جنگ كو جو شاميوں سے ہو رہى تھى سركشوں پر مسلط كرديں _

ليكن انہوں نے چلانا شروع كرديا كہ اميرالمومنينعليه‌السلام نے حكميت كو تسليم كر ليا ہے قرآن كے حكم پر وہ راضى ہيں اس كے علاوہ ان كے لئے كوئي چارہ نہيں اس پر اشتر نے كہا كہ اگر اميرالمومنينعليه‌السلام نے حكميت كو قبول كر ليا ہے تو ميں بھى اس پر راضى اور خوش ہوں ''

حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ ديكھا كہ سركش لوگ آپعليه‌السلام ہى كى موجودگى ميں دروغ گوئي سے كام لے رہے ہيں تو آپعليه‌السلام نے كوئي بات كہے بغير نظريں زمين پر جھكا ليں(۲۲) ليكن جب سب لوگ خاموش ہوگئے تو آپعليه‌السلام اپنى جگہ سے اٹھے اور فرمايا كہ : تم جب تك مجھ سے متفق و ہم خيال تھے جنگ كر تے رہے يہاں تك كہ جنگ نے تمہيں زبوں و ناتواں كرديا خدا كى قسم جنگ كے زبونى و ناتوانى نے تمہيں پكڑ ليا ہے اور تمہيں تمھارے حال پر چھوڑ ديا ہے تمہيں يہ جان لينا چاہيئے كہ كل تك ميں اميرالمومنينعليه‌السلام تھا مگر آج ميں حكم بجالانے كے لئے مامور ہوں كل تك مجھے اختيار تھا اور تمہيں حكم دے سكتا تھا مگر آج ميں اس حكم سے محروم ہوں آج ميرے حكم كو ٹھكرايا جا رہا ہے اس

۲۴۱

لئے ميں تمہيں تمہارى مرضى كے خلاف مجبور نہيں كر سكتا''(۲۳)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام ان سے خطاب كرنے كے بعد تشريف فرما ہوئے قبائل كے سرداروں نے اپنے خيالات كا اظہار كيا ان ميں سے بعض جنگ كى حامى و طرفدار تھے اور بعض صلح كے متمنى و خواہشمند(۲۴)

نفاق و حماقت كے خلاف جدوجہد

اگرچہ سپاہ شام كى طرف سے يہ آوازيں بلند ہو رہى تھيں كہ '' ہم نے قرآن كے سامنے اپنے سر خم كرديئے ہيں اور تم بھى قرآن كى حكومت كو تسليم كر لو'' مگر عمل ميں وہ لوگ در حقيقت قرآن كے حكم سے روگرداں تھے كيا اب تك اميرالمومنين علىعليه‌السلام نے قرآن كے احكام كو تسليم نہيں كيا تھا اور كيا آپعليه‌السلام كا عمل قرآن كے حكم كى بنياد پر نہ تھا يا جيسے ہى سپاہ شام كے سرداروں نے قرآن كو نيزوں پر چڑھايا اور ظاہر دارى سے كام ليا تو قرآن كا حكم بھى بدل گيا اور يہيں سے علىعليه‌السلام كا راستہ قرآن سے عليحدہ ہوگيا؟شاميوں نے در حقيقت اپنے اس عمل سے حق و عدالت كو نفاق كے پيروں تلے روند ڈالا_

انہى لوگوں ميں كچھ تعداد ايسے لوگوں كى بھى تھى جنہوں نے اپنے ہادى و پيشوا كو نہ پہچانا انہوں نے اپنى حماقت و نادانى سے اپنى خواہشات ہى نہيں بلكہ دشمن كى خواہشات كو اميرالمومنينعليه‌السلام پر مسلط كر كے ظلم و نفاق كى بنيادوں كو مضبوط كرديا جب كچھ كوتاہ فكر اور كج انديش لوگ ان سے آكر مل گئے تو نفاق كى گرم بازارى پہلے سے كہيں زيادہ بڑھ گئي_ ان حالات ميں نفاق سے ٹكر لينا گويا اس وقت ايسا اقدام كرنا حماقت و نادانى سے پنجہ نرم كرنا تھا_

اميرالمومنينعليه‌السلام ايسى حساس صورتحال كے روبرو تھے جس ميں ايك طرف منافق و مفاد پرست لوگ قرآن كو نيزوں پر بلند كئے ہوئے تھے اور دوسرى طرف وہ لوگ تھے جو بظاہر محاذ حق پر جنگ و جدال كر رہے تھے مگر اس كے ساتھ ہى اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام پر تلوار كھينچے كھڑے تھے

۲۴۲

كہ حكم قرآن كو تسليم كيجئے_ اور وہ اس بات سے قطعى بے خبر تھے كہ اس بارے ميں قرآن كا صريح ارشاد ہے كہ '' ان طائفتان من المومنين اقتتلوا فاصلحوا بينہما فان بغت احداہما على الاخرى فقاتلوا التى تبغى حتى تفى الى امر اللہ''(۲۵) اور اگر اہل ايمان ميں سے دو گروہ آپس ميں لڑ جائيں تو ان كے درميان صلح كر او پھر اگر ان ميں سے ايك گروہ دوسرے گروہ پر زيادتى كرے تو زيادتى كرنے والے سے لڑويہاں تك كہ وہ اللہ كے حكم كيطرف پلٹ آئے_

باغى و سركش جانتے تھے كہ مسلمانوں كے قانونى و شرعى زمامدار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام ہيں اور معاويہ آپعليه‌السلام سے باغى و برگشتہ_ اسے چاہيئے كہ سركشى سے دستبردار ہوجائے_ حق كے سامنے گردن خم كردے _ اور اگر ايسا نہيں تو حكم قرآن كے مطابق جنگ و جدال كريں _

سركشوں نے حيلہ و نيرنگ پر كاربند رہ كر قرآن كو تو نيزوں پر چڑھاديا مگر ان سے يہ نہيں كيا گيا كہ ہم اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كو تسليم كرنے كے لئے آمادہ ہيں _ بلكہ وہ تو يہ چاہتے تھے كہ انھيں كوئي ايسا موقعہ مل جائے جس كے ذريعے وہ اپنى يورش و سركشى كو جارى ركھ سكيں مگر سپاہ عراق ميں سے كچھ ظاہر بين اور كج انديش افراد انجانے ميں ان كے ہاتھوں كا كھلونا بن كر رہ گئے جس كا يہ نتيجہ ہوا كہ رنج و افسوس كے علاوہ انہيں كچھ نہ ملا_

حكميت و ثالثى كى دعوت

معاويہ نے سپاہ عراق كے درميان اختلاف پيدا كرنے اور مسئلہ حكميت كى پيش كش كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں خط لكھا كہ ہمارا اختلاف كافى طويل ہوگيا ہے اور دونوں طرف سے بہت زيادہ خون بہايا جاچكا ہے اور ڈر ہے كہ كہيں حالت پہلے سے زيادہ بد تر نہ ہوجائے اور اس كى ذمہ دارى ہم دونوں پر ہوگى كيا آپ اس بات سے متفق ہے كہ لوگوں كى كشت و كشتار كو روكا جائے اور دينى اخوت و محبت برقرار ہوجائے_

۲۴۳

اس كى راہ يہى ہے كہ آپ اور ميرے ہوا خواہوں سے دو معتبر حكم (ثالث) انتخاب كئے جائيں اور وہ كلام اللہ كى اساس و بنياد پر فيصلہ كريں _ كيونكہ ہمارے ليئے يہى بہتر ہے كہ خوف خدا كو دل ميں ركھيں اور اگر اہل قرآن ہيں تو اس حكم كا پاس كريں _ (۲۶)

معاويہ ايسا نافہم تو نہيں تھا كہ اسے يہ معلوم نہ ہوتا كہ حضرت علىعليه‌السلام اس ظاہر سازى كا فريب نہ كھائيں گے اس نے اتنا يقينا سوچ ہى ركھا تھا كہ اس خط كا مضمون سپاہ عراق كے بعض كج انديش او رمنافق افراد كے كانوں تك ضرور پہونچے گا اور وہ اس سے متاثر بھى ہوں گے_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے مدلل بيان سے صريح الفاظ ميں واضح و قطعى جواب ديتے ہوئے اسے لكھا كہ معاويہ تم مجھے حكميت قرآن كى دعوت دے رہے ہو جبكہ تم اس سے كہيں دور ہو اور تم اس كتاب مقدس كو اپنا حكم بنانا نہيں چاہتے ہو ہم نے دعوت قرآن كو حكميت كى بنياد پر قبول كيا ہے نہ كہ تمہارى تجويز پر(۲۷)

معاويہ كى جانب روانگي

اشعث جو دستہ مخالفين اور صلح پسندوں كا سردار بنا ہوا تھا معاويہ كے خط كى تشہير كرنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا اور كہنے لگا كہ ميں ديكھ رہا ہوں كہ لوگ شاميوں كى دعوت حكميت سے خوش و خرم ہيں اگر آپ اجازت ديں تو ميں معاويہ كے پاس جاؤں اور اس سے پوچھوں كہ كيا چاہتے ہو_(۲۸)

كيا اشعث واقعى يہ نہيں جانتا تھا كہ معاويہ كيا چاہتا ہے آخر وہ كون سا مقصد تھا جس كى خاطر وہ معاويہ كے پاس جانے كى كوشش كر رہا تھا اسے ان تمام باتوں كا علم تھا اور وہ يہ بھى جانتا تھا كہ اب فيصلہ كرنے كا اختيار كس كے ہاتھ ميں ہے وہ حضرت علىعليه‌السلام كے ان الفاظ كو نہيں بھولاتھا جو آپعليه‌السلام نے چند لمحہ قبل فرمائے تھے كہ '' ميں كبھى امير تھا مگر اب تابع و مامور ہوں ليكن اس كے باوجود اس نے حضرت علىعليه‌السلام سے اجازت مانگى تا كہ وفد كے اراكين كے درميان اس كى حيثيت مامور كى

۲۴۴

رہے_

حضرت علىعليه‌السلام نے اسے بہت بے اعتنائي سے جواب ديا كہ اگر چاھو تو معاويہ كے پاس جاسكتے ہو(۲۹) اشعث تو اس موقع كى تلاش ميں تھا ہى اورخود كو اس نے وفد كا رہبر فرض كر ليا تھا وہ ظاہراً حضرت علىعليه‌السلام كے نمائندے كى حيثيت سے معاويہ كے پاس گيا اور اس كے سامنے چند سوال پيش كئے معاويہ نے اس كے وہى جواب ديے جو وہ خط ميں حضرت علىعليه‌السلام كو لكھ چكا تھا_

اس پر اشعث نے كہا يہ سب مبنى بر حق ہے اس كے بعد وہ حضرت علىعليه‌السلام كے پاس واپس آگيا_

جب يہ خبر پھيل گئي كہ اشعث كو وفد كا سربراہ بنايا گيا ہے تو لوگوں نے بآواز بلند كہنا شروع كيا كہ : ہم اس حكم پر راضى ہيں اور ہميں يہ منظور ہے_

اس كے بعد شام و عراق كے لشكروں كے قارى يكجا جمع ہوئے اور انہوں نے اس بات پر اتفاق كيا كہ حكم قرآن كو بحال كيا جائے_(۳۰)

حكمين (ثالثوں ) كا انتخاب

يہ تو پہلے سے معلوم تھا كہ معاويہ كا حكم عمروعاص ہوگا اور شام كے لوگوں كو بھى اس كے انتخاب كئے جانے پر اتفاق ہوگا چنانچہ معاويہ نے بغير كسى مشورے كے حكم مقرر كرديا اور اپنى سپاہ كو اپنے اس انتخاب كے ذريعہ مطمئن كرديا_

عراق كے لوگ اپنے ہادى اور پيشوا كى حكم عدولى كے باعث اگر چہ تباہى اور ہلاكت كے دہانے تك پہنچ چكے تھے مگر اس كے باوجود انہوں نے حكم كے انتخاب كے حق سے بھى اميرالمومنينعليه‌السلام كو محروم كرديا اشعث نے ان قاريان قرآن كے ہمراہ (جو بعد ميں خوارج شمار كئے گئے) بلند كہنا شروع كيا كہ '' ہم ابو موسى اشعرى كو انتخاب كرتے ہيں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ : مجھے اس پر اتفاق نہيں كيونكہ ميں انہيں اس كام كا اہل نہيں سمجھتا اشعث ، زيد بن حصين اور مسعر بن فدكى

۲۴۵

نے قاريان قرآن كے ساتھ يك زبان ہوكر كہا كہ ہمارا انہيں پر اتفاق ہے كيونكہ وہيں ہيں جنہوں نے ہميں ا س جنگ كى مصيبت سے محفوظ ركھا اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ مجھے يہ انتخاب منظور نہيں كيونكہ انہوں نے ميرا ساتھ چھوڑ ديا تھا اور وہ لوگوں كو ميرى مدد كرنے سے منع كر رہے تھے اس كے بعد وہ فرار كر گئے چنانچہ كئي ماہ گذر جانے كے بعد ميں نے انھيں امان و پناہ دي'' ميں اس كام كے لئے عباس كو اہل و شايستہ سمجھتا ہوں _

ليكن وہ لوگ حسب سابق اپنى ضد پر قائم رہے اور كہنے لگے كہ ہمارے لئے آپ كے ہونے يا عباس كے ہونے ميں ذرا فرق نہيں ليكن ہم يہ چاھتے ہيں كہ حكم ايسے شخص كو بنايا جائے جو آپ كى اور معاويہ كى طرف سے بے لاگ ہو اور اس كى نظر ميں دونوں افراد يكساں و برابر ہوں _

حضر ت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميں پھر مالك اشتر كو مقرر كرتا ہوں اس پر اشعث نے بلند آواز سے كہا كيا اشتر كے علاوہ كوئي اور شخص تھا جس نے سارى زمين ميں آگ لگائي؟ اگر ہم ان كا نام منظور كر ليتے ہيں تو ہميں ان كا پابند رہنا ہوگا حضرت علىعليه‌السلام نے دريافت فرمايا كہ ان كا حكم كيا ہے سب نے ايك آواز ہو كر كہا يہ كہ شمشير ہاتھ ميں ليكر تمہارا اور اپنا مدعا حاصل كرنے كى خاطر جان تك كى بازى لگاديں _

حضرت علىعليه‌السلام كو انكى ضد اور خود سرى پر طيش آگيا اور فرمايا كہ ابو موسى كے علاوہ كسى اور كو اپنا حكم تسليم نہيں كروگے؟ انہوں نے كہا نہيں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا جو چاھو وہ كرو(۳۱)

۲۴۶

سوالات

۱_ معاويہ نے جنگ سے فرار كرنے اور اپنى حالت و حيثيت كى حفاظت كے لئے كيا اقدامات كئے؟

۲_ معاويہ اور عمروعاص نے شكست سے نجات پانے كے خاطر كيا سازش كي؟

۳_ جب قرآن مجيد كو نيزوں پر بلند كيا گيا تو سپاہ عراق كا كيا رد عمل ظاہر ہوا؟

۴_ سپاہ عراق ميں كون لوگ جنگ جارى ركھنے كے حق ميں تھے اور كون اس مقصد كے لئے پيش پيش تھے؟

۵_ وہ لوگ كون تھے جنہوں نے فتح و نصرت كے آخرى لمحات ميں حضرت علىعليه‌السلام كو جنگ بندى پر مجبور كيا؟

۶_ حكميت كا مسئلہ پہلى مرتبہ كس كى طرف سے پيش كيا گيا حضر ت علىعليه‌السلام اور سركش سپاہ كا حكم مقرر كرنے كے سلسلے ميں كيا نظريہ تھا؟

۲۴۷

حوالہ جات

۱_ وقعہ صفين ۴۰۹_۴۰۸

۲_ وقعہ صفين ۴۱۳_ ۴۰۹

۳_ وقعہ صفين ۴۷۷_ ۴۷۶

۴_ وقعہ صفين ۴۷۶و لم يبق منهم الا آخر نفس انا غار عليهم بالغداة احاكمهم الى الله عزوجل

۵_ وقعہ صفين ۴۸۱_۴۸۰

۶_اعيذكم باالله ان ترضعوا الغنم ساير اليوم يہ اس بات پر كنايہ ہے كہ اگر تمہيں فتح نصيب نہ ہو تو تمہارى حالت عورتوں جيسى ہوجائے گى جو چوپاؤں كا دودھ دوہا كرتى ہيں _

۷_ وقعہ صفين ۴۷۶_۴۷۵ ، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۱_۳۱۵

۸_ وقعہ صفين ص ۴۷۹، مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۰

۹_ مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۰ ہلم مخباتك يابن عاص فقد ہلكنا

۱۰_ مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۰ ايك قول كے مطابق ليلة الہرير ميں ہى معاويہ كے جاسوسوں نے اشعث كى بات اس تك پہنچادى تھى چنانچہ اس كے بعد ہى معاويہ نے اس بات كا فيصلہ كيا تھا كہ قرآن كو نيزوں پر چڑھا ديا جائے وقعہ صفين ۴۸۱

۱۱_نجيب الى كتابه الله عزوجل نتنيب اليه ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۴۸ ، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۱۶ ، مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۰

۱۲_تاريخ طبرى ج ۵ ص ۴۸، مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۱ كامل ج ۳ ص ۳۱۶

۱۳_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱۶ ص ۱۳۴

۱۴_ وقعہ صفين ۴۸۳_۴۸۲

۱۵_ وقعہ صفين ۴۸۳_۴۸۲

۱۶و۱۷_ وقعہ صفين ۴۸۳_۴۸۲

۲۴۸

۱۸_ وقعہ صفين ۴۸۲

۱۹_فان تطعيونى فقاتلوا و ان تعصونى فاصنعوا ما بدالكم

۲۰_ ملاحظہ ہو، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۱۷_ ۳۱۶ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۴۹ ، وقعہ صفين ۴۹۰_۴۸۹

۲۱_ وقعہ صفين ۴۹۱ _ ۴۹۰ كامل ج۳ ص ۳۱۷ تاريخ طبرى ج ۵ ص ۴۹

۲۲_ وقعہ صفين ۴۹۱_۹۰ ، كامل ج ۳ ص ۳۱۷، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۵۰

۲۳_ وقعہ صفين ۴۸۴

۲۴_ وقعہ صفين ۴۸۵_۴۸۴

۲۵_ سورہ حجرات آيت ۸

۲۶_ وقعہ صفين ۴۹۳

۲۷_ وقعہ صفين ۴۹۳، نہج البلاغہ مكتوب ۴۸

۲۸_ وقعہ صفين ۴۹۹_۴۹۸

۲۹_ وقعہ صفين ۴۹۹

۳۰_ وقعہ صفين ص ۴۹۹

۳۱_ وقعہ صفين ۵۰۰_۴۹۹ ، كامل ابن اثير ۳۱۹_۳۱۸

۲۴۹

تيرھواں سبق

قاسطين (جنگ صفين)۵

خوارج كى نامزدگي

حكميت كا معاہدہ

جنگ صفين كے عبرت آموز درس

جنگ كے نتائج

سركشوں كى تشكيل و گروہ بندي

حضرت علىعليه‌السلام خوارج كے درميان

منافقين كى تحريك

سوالات

حوالہ جات

۲۵۰

خوارج كى نامزدگي

ان سركشوں اور باغيوں كى حماقتيں اور كوتاہيوں جو بعد ميں (خوارج) كے نام سے مشہور ہوئے ايك دو نہ تھيں _ ان سے جو لغزشيں اور خطائيں سرزد ہوئيں ان ميں سے ايك يہ بھى تھى كہ انہوں نے حاكم كا انتخاب صحيح نہيں كيا_ اگرچہ ان كا دعوى تو يہ تھا كہ انہوں نے غير جانبدار شخص كو منتخب كرنے كى كوشش كى ہے_ مگر جس شخص كو انہوں نے اس كام كے لئے نامزد كيا اس كى عداوت و دشمنى حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ دوسروں كى نسبت كہيں زيادہ تھي_ ليكن اس كے بر عكس معاويہ كو حق انتخاب اس شخص كيلئے ديا گيا كہ جو اس سے كہيں زيادہ مال و جاہ كا حريص اور اس كا فرمانبردار تھا_

ابو موسى وہ شخص تھا جس نے اس وقت جبكہ كوفہ كى فرمانروائي اس كے ہاتھ ميں تھى اپنے پيشوا كے حكم سے سرتابى كى تھى اور جنگ جمل كے موقع پر لوگوں كو حضرت علىعليه‌السلام كى مدد سے منع كيا تھا_

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام نے انہيں ايك خط ميں لكھا تھا كہ تمہارى طرف سے جو بات مجھ تك پہنچى ہے اس ميں تمہارا نفع بھى ہے اور نقصان بھي_ جيسے ہى ميرا پيغام رساں تمہارے پاس پہنچے تم اپنى كمر كس لينا _ اور اس پر مضبوطى سے پٹكا باندھ لينا_ اور اپنى كمين گاہ سے نكل كر باہر آجانا _ جو افراد تمہارے ساتھ ہيں انہيں بھى باخبر كردينا_ اگر ميرے اس حكم پر عمل كرنا مقصود ہو تو قدم آگے بڑھانا_ اگر خوف غالب ہو اور سستى تمہارے وجود سے عياں ہوتى ہو تو كہيں اور نكل جانا_ خدا كى قسم تمہارى گيلى اور سوكھى ہر لكڑى كو جلا كر خاك كردوں گا_ اور اتنا موقع نہيں دوں گا كہ بيٹھ كر دم لے سكو تمہيں پيٹھ پيچھے جس چيز كا خوف اور ڈر ہے اسے بھى تم اپنے سامنے پاؤں گے_(۱)

ليكن اس سركش كارندے نے نہ صرف كمر ہى نہ كسى اور حضرت علىعليه‌السلام كى دعوت كا مثبت جواب

۲۵۱

نہ ديا بلكہ حضرت علىعليه‌السلام كا وہ وفد جو حضرت امام حسنعليه‌السلام كى سركردگى ميں گيا تھا اس كى بھى مخالفت كى _ اور جو لوگ اپنا فرض ادا كرنے كى غرض سے ابوموسى كے پاس آئے تھے تا كہ اپنا فريضہ معلوم كريں تو يہ ان سے كہتا تھا كہ اگر آخرت كى فكر ہے تو اپنے گھروں ميں جاكر بيٹھو_ عثمان كى بيعت ابھى ہمارى گردنوں پر ہے_ اگر جنگ كرنا ہى مقصود ہے تو پہلے عثمان كے قاتلوں سے جنگ كرو_(۲)

اسى وجہ سے جنگ جمل ميں حضرت علىعليه‌السلام كے اقدام كو ايك قسم كا فتنہ بتايا تھا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے يہ حديث نقل كى تھى كہ جس وقت فتنہ بپا ہو تو بيٹھے رہنے سے بہتر ہے كہ ليٹ جاؤ_ اگر كھڑے ہو تو بہتر ہے كہ بيٹھ جاؤ اور اگر چل رہے ہو تو اس سے اچھا ہے كہ اپنى جگہ كھڑے رہو_ يہ كہہ كر وہ لوگوں كو اس بات كى جانب ترغيب دلا رہا تھا كہ اپنى تلواروں كو ميان ميں ركھدو اور نيزوں كو توڑ ڈالو تا كہ اس فتنے كے شر ان كا دامن كو نہ پكڑ لے_(۳)

آيا ايسا شخص جو اس طرز فكر كا حامل ہو اور جس كا حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف اس طرح كا يہ موقف رہا ہو ، كيا وہ اس لائق ہو سكتا تھا كہ اسے حضرت علىعليه‌السلام كے نمائندے كى حيثيت سے منتخب كيا جائے؟

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام ہميشہ اس فكر ميں رہتے تھے كہ وہ لوگ جو توہمات ميں غرق ہيں ان پر صحيح افكار كو روشن اور حقيقت كو واضح كرديا جائے_ اسى لئے آپعليه‌السلام نے يہ فيصلہ كيا كہ چونكہ ابوموسى كا تعلق خوارج كے گروہ سے ہے حكميت كے واسطے ان كے منتخب كئے جانے كے مسئلے كو مزيد و سيع پيمانے پر پيش كريں _ اور سب كے سامنے وہ دلائل پيش كرديں جن كى بنا پر وہ حكميت كيلئے ان كا نام منظور كرنا نہيں چاہتے ہيں _ چنانچہ انہوں نے اپنے تمام ساتھيوں كو جمع كيا اور فرمايا كہ : يہ جان لو كہ شاميوں نے اس شخص كا انتخاب كيا ہے جو قضيے ميں ان سب سے زيادہ نزديك ہے _ ليكن تم نے اس شخص كو منتخب كيا ہے جو اس قضيے ميں تمہارى نفرت كا سب سے زيادہ حقدار ہے_ كيا تم بھول گئے ہو كہ يہ ابوموسى ہى تھا جو يہ كہا كرتا تھا كہ جنگ جمل محض ايك فتنہ ہے_ اس مقصد كيلئے تم اپنى كمانوں كے چلے نہ چڑھاؤ اور اپنى تلواروں كو ميان ميں ركھ لو _ اگر اس كى اس بات ميں حقيقت تھى تو وہ كيوں بحالت مجبورى جنگ صفين ميں شريك ہوا _ اگر يہ صورتحال نہيں

۲۵۲

ہے تو اس پردروغگوئي كا الزام عائد كيا جانا چاہئے عمروعاص كے اندرونى ارادے كو عبداللہ بن عباس كے ذريعے خاك ميں ملا دو _ اس موقعے كو ہاتھ سے جانے نہ دو _ اسلام كے اطراف ميں جو سرحديں ہيں ان كى حفاظت كرو _ كيا تم ديكھتے نہيں ہو كہ تمہارے شہروں پر حملہ كئے جا رہے ہيں ور تمہيں تيروں كا نشانہ بنايا جا رہا ہے_ (۴)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام چاہتے تھے كہ عباس كو حكم مقرر كر كے جنگ بندى كے ان تلخ و ناگوار اثرات كو كم كرديں جنہوں نے ان لوگوں كے دل و دماغ پر غفلت كا پردہ ڈال ديا تھا_ كيونكہ عمروعاص كى نيرنگيوں اور ديگر كمزوريوں سے دوسروں كے مقابل وہ زيادہ واقف و باخبر تھے_ اس كے علاوہ مذاكرہ ميں بھى وہ ان سے زيادہ محكم و قوى تھے_(۵)

ليكن ايسا معلوم ہوتا تھا كہ حضرت علىعليه‌السلام كى بات كسى كى كان تك نہيں پہنچى اور كسى كے دل و دماغ پر اس كا اثر نہ ہوا _ اشعث تو حضرت علىعليه‌السلام كى بات سن كرہى بر افروختہ ہوگيا بالخصوص اس وقت جب كہ اس نے يہ ديكھا كہ جس شخص كو مذاكرے كيلئے منتخب كيا جا رہا ہے وہ قريش ميں سے ہے _ اور اشعث يہ سمجھتا تھا كہ ان كا حكم مقرر كيا جانا قبيلہ يمن كى مذمت كئے جانے كى واضح و روشن دليل ہے_ اور اسى بنا پر وہ كہہ رہا تھا كہ عبداللہ بن عباس ميں حكم ہونے صلاحيت نہيں ہے_ چنانچہ انہوں نے ناراض ہوكر با آواز بلند كہا كہ : خدا كى قسم قيامت تك قبيلہ مُضر كے افراد بيك وقت حكم نہيں بنائے جاسكتے_(۶) معاويہ نے چونكہ حكم كيلئے قبيلہ مُضر كے شخص كا انتخاب كيا ہے اس لئے آپعليه‌السلام ايسے شخص كا انتخاب كريں جو قبيلہ يمن كے لوگوں ميں سے ہو_ اس پر آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ : مجھے ڈر ہے كہ كہيں تمہارا يمنى دھو كہ نہ كھا جائے_ اشعث نے كہا اگر وہ دھو كہ كھا گيا اور وہ بات جو ہمارے لئے پسنديدہ نہيں اس نے اسى كو فيصلے ميں تسليم كر ليا تو اس سے بہتر ہے كہ دونوں ہى افراد قبيلہ مضر سے ہوں تا كہ ہمارى مرضى كے مطابق حكم كے فرائض انجام دے سكيں _

اس طرح اشعث نے اپنے باطنى نفاق كو ظاہر و آشكار كرديا_ وہ اقتدار حاصل كرنے كى غرض سے چاہتا تھا كہ حكم كسى ايسے شخص كو بنايا جائے جو انہى كے قبيلے كا ہو_ ليكن اس نظريے كے پس

۲۵۳

پشت ان يمنيوں كا قبائلى تعصب كارفرما تھا جو سپاہ عراق و شام ميں بكثرت شامل تھے_ ايسى صورت ميں اگر دو حكم ميں سے ايك اسى قبيلے كا ہو تو وہ كيوں نہ خلافت پر نظر ركھيں _ ابوموسى كے موقف سے اشعث بخوبى واقف تھا اور يہ جانتا تھا كہ وہ معاويہ كى طرفدارى نہيں كرے گا_ جس كى وجہ يہ تھى كہ ابوموسى اسے بھى فتنہ سمجھتا تھا_ اس كے برعكس دوسرى طرف ان كے ماضى كو مد نظر ميں ركھتے ہوئے كہا جا سكتا تھا كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كا بھى جانبدار نہ ہوگا_ چنانچہ اسى وجہ سے اسے بہترين طاقت سمجھا گيا تھا_

اشعث كتنا اقتدار پسند اور جاہ طلب تھا اس كى شاہد ذيل كى داستان ہے_

طايفہ '' بنى وليعہ'' ان طائفوں ميں سے تھا جوپيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد مرتد ہو گئے تھے_ جس وقت زياد ابن لبيد انصارى نے ان سے جنگ كى اور انہيں اپنى تلوار كى دھار كا مزہ چكھايا تو وہ اشعث كى حمايت حاصل كرنے كى غرض سے طائفہ كندہ كے سردار كے پاس گئے اس نے اس موقع كو سلطنت حاصل كرنے كا بہانہ سمجھا اور ان سے كہا كہ اگر تم مجھے اپنا بادشاہ تسليم كر لو تو ميں تمہارى مدد كرنے كيلئے تيار ہوں _ انہوں اس كى اس شرط كو مان ليا _ چنانچہ وہ بھى دائرہ اسلام سے خارج ہوگيا _ اور '' قطحان'' خاندان كے بادشاہوں كى طرح رسم تاج پوشى ادا كى گئي_(۷)

اس كے بعد ان كى قيادت كرتے ہوئے وہ مسلمين كے ساتھ بر سر پيكار ہوا _ ليكن زياد كے لشكر نے جيسے ہى دباؤ ڈالا اور اس قلعے كا جس ميں اس نے پناہ لى تھى محاصرہ كيا تو انہوں نے فيصلہ كيا كہ اپنى زندگى كو خيانت كے ذريعے خريد ليں اور اپنے ساتھيوں سے دور ہو كر اس نے اپنے نيز اپنے دس قرابت داروں كے لئے پناہ مانگى _ اس كے بعد اس نے قلعے كا دروازہ كھول ديا اور باقى لشكر كو موت كے منھ ميں دھكيل ديا_(۸)

ان خيانت كاريوں كى وجہ سے اسے مسلمانوں اور كفار كے درميان ہميشہ لعن طعن اور نفرت كى نظر سے ديكھا جاتا تھا _ بالخصوص كندہ طائفے كى عورتيں اس بزدلى اور خيانت كارى كى وجہ سے جو اس سے سرزد ہوئي تھى اور جس كے باعث اس طائفے كے ايك گروہ كو سخت نقصان پہنچا تھا ، سخت

۲۵۴

لعنت و ملامت كيا كرتى تھيں _ اور عام طور پر '' عرف النار '' (آگ لگانے والا جاسوس) كہا كرتى تھيں _ اور اس اصطلاح كا اطلاق اس شخص پر كيا جاتا تھا جس كى سرشت ميں مكر ، فريب اور دغہ باز ى شامل ہو_(۹)

ابوموسى بھى جس كا نام اشعث نے حكميت كيلئے پيش كيا تھا_ كسى طرح بھى اشعث سے كم نہ تھا _ جس وقت جنگ جارى تھى اس نے جانبين كى طرف سے كنارہ كشى اختيار كر كے اور شام ميں اس مقام پر جو '' عرض'' كے نام سے مشہور تھا گوشہ نشينى اختيار كر لى تھى _ ليكن جيسے ہى اس كے غلام نے يہ اطلاع دى كہ لوگ جنگ سے دست كش ہوگئے ہيں اور تمہارا نام حكم كى حيثيت سے ليا جا رہا ہے تو صفين كى جانب روانہ ہوا اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر تك پہنچ گيا_

مالك اشتر اور احنف ابن قيس جيسے امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے_ اور ابوموسى كے اوصاف و افكار بيان كرنے كے بعد عرض كيا كہ انہيں حكم منتخب نہ كيا جائے_ اس ضمن ميں انہوں نے يہ بھى كہا كہ اس كا اعلان كرنے كيلئے وہ خودتيار ہيں _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ان كا نظريہ لوگوں كے سامنے بيان كيا_ ليكن اس پر خوارج نے كہا كہ ہم ابوموسى كے علاوہ كسى دوسرے شخص كو منتخب نہ كريں گے_(۱۰)

اس سلسلے ميں انہوں نے مزيد كہا كہ : ابوموسى وہ شخص ہيں جن پر شام و عراق كے لوگوں كو اعتماد ہے_ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس يمن كے لوگوں كا نمائندہ بن كر آچكے ہيں اورمال غنيمت كے سلسلہ ميں حضرت ابوبكر كے امين اور حضرت عمر كے كارگزار رہ چكے ہيں _(۱۲)

آخر كار ابوموسى اشعرى سپاہ عراق كى جانب سے حكميت كيلئے مقرر كرديا گيا_

حكميت كا معاہدہ

جب حكمين مقرر كرلئے گئے تو معاہدہ صلح اس طرح لكھا گيا (ہذا ما تقاضى عليہ على بن ابى طالب اميرالمومنين عليہ السلام و معاويہ بن ابى سفيان ...) ليكن اس پر

۲۵۵

معاويہ نے اعتراض كيا اور كہا كہ : اگر ميں نے انہيں اميرالمومنين تسليم كرليا ہوتا تو ان سے جنگ نہ كرتا_ عمروعاص نے بھى يہى كہا كہ : ہرچند على عليه‌السلام تمہارے امير ہيں ليكن وہ ہمارے نہيں _ اس لئے صرف ان كا اور ان كے والد كا نام لكھا جائے_(۱۳)

ليكن احنف بن قيس نے كہا كہ : اس لقب كو حذف نہ كيا جائے اس كے لئے خواہ كتنا ہى خون ہوجائے كيونكہ مجھے ڈر ہے كہ اگر يہ لقب ايك دفعہ حدف كرديا گيا تو پھر واپس نہ ديا جائے گا_(۱۴)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كافى دير تك اس فكر ميں محور ہے كہ يہاں تك كہ اشعث آگيا_ اس كى آنكھوں ميں فاتحانہ چمك تھى اور لہجہ خيانت سے سرشار و شرابور_ اس نے فخريہ انداز ميں كہا كہ: اس نام كو حذف كرديجئے_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو ماضى كا وہ واقعہ ياد آگيا جب كہ '' صلح حديبيہ '' كا معاہدہ لكھا جارہا تھا '' (ہذا ما تصالح عليہ محمد رسول اللہ و سہيل )ابن عمرو سہيل كو يہ ضد تھى كہ لقب '' رسول اللہ '' حذف كيا جائے اور رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انتہائي صبر سے اس كى اس ضد كو برداشت كر رہے تھے_

حضرت علىعليه‌السلام كيلئے لقب رسول اللہ حذف كرنا گواراہ نہ تھا ليكن رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ اسے حذف كرديا جائے اور فرمايا كہ اس لقب كے حذف كئے جانے سے مجھے رسالت سے تو محروم نہيں كرديا جائے گا_ اس كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب رخ كر كے فرمايا كہ : ايك دن تمہارے سامنے بھى يہى مسئلہ آئے گا_ اگر چہ تمہيں بہت زيادہ كوفت ہوگى مگر تمہيں بھى يہى كرنا ہوگا _(۱۵)

اب وہ زمان موعود آن پہنچا تھا_ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام نے پورى رضا و رغبت اور مكمل اطمينان كے ساتھ اس كلام كو ملحوظ ركھتے ہوئے جو رسول گرامىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زبان مبارك سے ادا ہوا تھا فرمايا كہ : '' لا الہ اللہ و اللہ اكبر'' تاريخ خود كو دھرا رہى ہے(۱۶) _

۲۵۶

آج ميں ان كى آل و اولاد كيلئے اس طرح لكھ رہا ہوں جيسا رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان كے آباواجداو كيلئے تحرير فرماچكے ہيں _(۱۷)

معاہدے كا متن لقب '' اميرالمومنين'' حذف كر كے طرفين كى اتفاق رائے سے جس طرح تحريرى شكل ميں آيا اس كا اجمالا ذكر ہم ذيل ميں اس كے اہم نكات كے ساتھ كريں گے_

۱_ طرفين قرآن و سنت پيغمبريصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مطابق حكم خداوندى كو قبول كريں گے_ حكم قرآن او سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جو خلاف ہے اسے وہ دور كرنے كى كوشش كريں گے_

۲_ حكمين ابوموسى اشعرى اور عمروعاص ہيں _ جب تك حق سے تجاوز نہ كريں ان كے جان و مال اور ناموس كو حفظ و امان ميں ركھا جائے گا_

۳_ حكمين اور تمام مسلمين پر فرض ہے كہ وہ حكم كو قرآن و سنت كے مطابق قبول كريں _ اور اس پر عمل پيراہوں _

۴_ جب تك حكمين كا حكم جنگ بندى برقرار ہے اس وقت تك طرفين ميں سے كسى كو بھى دوسرے پر تجاوز كرنے كا حق نہيں _

۵_ منصفين كو اختيار ہے كہ وہ شام و عراق كے درميان كوئي متوسط نقطہ متعين كرسكتے ہيں _ ان افراد كے علاوہ جن كے بارے ميں اتفاق رائے ہوگا كسى بھى شخص كو مجلس منصفين ميں داخل ہونے كى اجازت نہيں دى جائے گى _ منصفى كى مدت ماہ رمضان كے آخر تك معين ہے_

۶_ اگر منصفين نے مقررہ مدت تك قرآن و سنت كے مطابق حكم صادر نہيں كيا تو طرفين كو حق حاصل ہوگا كہ اپنى پہلى حالت پر واپس آجائيں اور ايك دوسرے سے جنگ كريں _

مذكورہ معاہدے پر حضرت علىعليه‌السلام كے طرفداروں ميں سے عبداللہ بن عباس، مالك اشتر، حضرت امام حسن (ع)، حضرت امام حسين (ع)، سعيد بن قيس نيز اشعث نے اور معاويہ كى طرف سے حبيب بن مسلمہ ، ابوالاعور بُسروغيرہ نے دستخط كئے_(۱۸)

اور اس طرح ايك سودس روزہ جنگ ستر مرتبہ سے زيادہ مقابلوں كے بعد تاريخ ۱۷ صفر

۲۵۷

سنہ ۳۷ ہجرى كو اختتام پذير ہوئي_ (۱۹)

مورخين نے اس جنگ كے جانى نقصانات كے مختلف اعداد درج كيئے ہيں _ بعض نے مقتولين كى تعداد ايك لاكھ دس ہزار بتائي ہے_ جن ميں سے نوے ہزار شام كے سپاہى اور بيس ہزار عراقى فوج كے لوگ شامل تھے اور پچيس ہزار عراق كے لوگ_(۲۰)

جنگ صفين كے عبرت آموز سبق

جنگ صفين كا نتيجہ اسلام كى فتح و نصرت كے ساتھ يہ ہونا چاہيئے تھا كہ فتنہ و فساد و نيز درخت نفاق كى بيخ كنى ہو اور اس كے ساتھ ہى فرمانروائے شام كى بيدادگرى كا قلع قمع ہوجائے_ ليكن عراقى فوج كے بعض كمانڈروں كى خود سرى اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے حكم سے روگردانى كے باعث جو نتائج برآمد ہوئے وہ انتہائي تلخ و ناگوار ہونے كے ساتھ ، عبرت آموز بھى ثابت ہوئے اس سے قبل كہ جنگ صفين كے نتائج كا اجمالى جائزہ ليا جائے ہم يہاں اس كے بعض درس آموز نكات كى جانب اشارہ كريں گے:

۱_ جنگ صفين نے ثابت كرديا كہ معاويہ كے بارے ميں اميرالمومنينعليه‌السلام نے جو بھى پيشين گوئي كى اور ابتدائے امر سے ہى جتنے بھى موقف اختيار كئے وہ تمام حق پر مبنى تھے اور اس بات كے آئينہ دار تھے كہ حضرت علىعليه‌السلام كو ايسے عناصر كى كتنى گہرى شناخت تھى _

معاويہ كى سياسى سرگرمى كے باعث ناسازگار ماحول پيدا ہوگيا تھا اور وہ افراد جنہوں نے اپنے كرو فر كى خاطر انھيں ان كے مرتبے پر برقرار ركھا تھا اگر اس ہنگامہ آرائي ميں سرگرم عمل نہ ہوتے تو وہ تمام ہلاكتيں تباہياں نہ ہوتيں جو اس جنگ كى وجہ سے رونما ہوئيں اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اس كى معزولى كا فرمان جارى كر كے اور جنگ و نبرد آزمائي كے ذريعے اس كى سركشى و بالا دستى كا جس طرح قلع و قمع كيا اس سے آپعليه‌السلام نے يہ ثابت كرديا كہ اس جيسے كسى بھى غير پسنديدہ عنصر كو ہرگز برداشت نہيں كيا جاسكتا تھا_

۲۵۸

۲_ جنگ كے دوران لشكر شام پر يہ بات ثابت ہوگئي كہ لشكر اسلام كو قوت ايمانى اور دليرانہ حوصلہ مندى كے باعث اس پر نماياں فضيلت و برترى حاصل ہے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ معاويہ نے اپنى شكست و نابودى سے نجات پانے كے لئے فريب كارى و نيرنگى كا سہارا ليا_

بلاشك و ترديد كہا جاسكتا ہے كہ اس فضيلت و برترى كا بنيادى عامل خود حضرت علىعليه‌السلام نيز ان كے فرزندوں اور اصحاب كا جذبہ ايثار و قربانى تھا_

۳_ اسلامى افواج جب تك حضرت علىعليه‌السلام كے زير فرمان رہيں انھيں نماياں كاميابى حاصل ہوئي ليكن جيسے ہى افواج كے سرداروں نے خود سرى اختيار كر كے آپ كے احكام سے روگردانى كى تو نہ صرف مسلمانوں بلكہ دين اسلام كو سخت ناگوار نتائج و حادثات سے دوچار ہونا پڑا_

۴_ جنگ صفين نے يہ سبق سكھايا كہ اگر پيروان حق اپنے موقف پر ثابت قدم رہيں تو حق ہى غالب رہتا ہے_ اور اس كا ہى بول بالا ہوتا ہے_ اس كے برعكس اگر وہ اپنے جزئي جانى مالى نقصان كى وجہ سے اپنے موقف سے پھر جائيں اور سازش و ريشہ دوانى كا رويہ اختيار كرليں تو ظاہر ہے كہ باطل كو ہى ان پر برترى و بالا دستى حاصل ہوگئي _

جنگ كے نتائج

صفين كى تباہ كن جنگ كے باعث دونوں ہى لشكروں كا سخت مالى و جانى نقصان ہوا اس كے ساتھ ہى اس جنگ كے جو سودمند و ضرر رساں نتائج برآمد ہوئے ان كى كيفيت مندرجہ ذيل ہے_

۱_ جب لشكر عراق ميدان جنگ سے واپس آيا تو اس كى فوج ميں سخت باہمى اختلاف پيدا ہوگيا_ چنانچہ ان ميں سے بعض كو تو ميدان كارزار ترك كرنے كا اتنا سخت افسوس وملال ہوا تھا كہ ان كے دلوں ميں ان لوگوں كے خلاف دشمنى و عداوت پيدا ہوگئي جو ميدان جنگ ترك كرانے كے اصلى محرك تھے_چنانچہ يہ دشمنى و عداوت اس حد تك پہنچى كہ بھائي بھائي سے اور بيٹا باپ سے

۲۵۹

نفرت كرنے لگا _ اور كہيں كہيں تو نوبت يہاں تك آئي كہ انہوں نے ا يك دوسرے كو خوب زد كوب كيا_ (۲۱)

۲_ اگر چہ معاويہ كا نقصان بہت زيادہ ہوا ليكن اس كے باوجود وہ عمرو عاص كى نيرنگى كے باعث اپنى سياسى حيثيت برقرار ركھنے ميں كامياب ہوگيا _ جنگ سے قبل وہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كا معزول و باغى كارگزار تھا ليكن اس معاہدے كى رو سے جو اس جنگ كے بعد كيا گيا اس كا مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام كے ہم پايہ و ہم پلہ تھا_ اور اسے سركارى سطح پر رہبر شام تسليم كرليا گيا تھا_

۳_ اگر چہ لشكر عراق ميں ايسے سپاہيوں كى تعداد كم ہى تھى جنہوں نے اس جنگ سے درس عبرت ليا اور راہ حق پر كاربند رہے ليكن اس ميں ايسے ظاہربين فوجيوں كى تعداد بہت زيادہ تھى جو منافق اور اقتدار پرست افراد كے دام فريب ميں آگئے اور انہوں نے اپنى نيز دين اسلام كى تقدير كو حيلہ گر ، نيرنگ ساز،كج انديش حكمين كے حوالے كرديا اور اپنے لئے مصائب و آلام كو دعوت دے دى _

۴_ اس جنگ كا دوسرااہم نتيجہ فتنہ و آشوب كا بيج بويا جانا تھا اور يہ در حقيقت عراقى فوج كے بعض نادان افراد كى خود سرى و ضد كا ثمرہ تھا_

چنانچہ اشعث اس معاہدے كو لے كردونوں لشكروں كے سپاہيوں كى جانب روانہ ہوا اور اس كى شرائط پڑھ كر انھيں سنائيں _ شاميوں نے سن كر خوشى كا اظہار كيا اور انہيں قبول بھى كرليا ليكن فوج عراق ميں سے بعض نے تو اس پر رضايت ظاہر كي، بعض نے مجبور انھيں پسند كيا مگر چند ايسے بھى تھے جنہوں نے سخت مخالفت كى اور معترض ہوئے_

مخالفت كى پہلى صدا طايفہ '' عَنزہ ''كى جانب سے بلند ہوئي جو چار ہزار سے زيادہ افراد پر مشتمل تھا_ اور ان ميں دو افراد نے بلند كہا لا حكم الا اللہ يعنى خدا كے علاوہ كسى كو حاكميت كا حق نہيں _ اس كے بعد وہ معاويہ كے لشكر پر حملہ آور ہوگئے مگر شہيد ہوئے_(۲۲)

۲۶۰