تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 348
مشاہدے: 166422
ڈاؤنلوڈ: 3858


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 166422 / ڈاؤنلوڈ: 3858
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 3

مؤلف:
اردو

رغبت دلانے كى خاطر تقرير كى اور فرمايا كہ :

اب تم جہاد كرنے دشمن كى جانب روانہ ہونے كيلئے تيار ہوجاؤ پير كے دن '' نخيلة '' نامى مقام پر عسكر گاہ ميں تمہيں جمع ہونا ہے ہم نے منصفين كا انتخاب اسى لئے كيا تھا كہ وہ قرآن كى بنياد پر حكم كريں گے مگر تم نے ديكھ ليا كہ انہوں نے كلام اللہ اور سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف اقدام كيا خدا كى قسم ميں ان سے جنگ كروں گا اگر كسى نے بھى ساتھ نہ ديا تو ميں تنہاہى ان سے نبرد آزمائي كروں گا_(۲۷)

اس كے بعد آپعليه‌السلام '' نخيلہ'' كى جانب روانہ ہوئے اور بصرہ كے صوبہ دار كو خط لكھ كر اس سے مدد چاہى جب خوارج كو يہ علم ہوا كہ سپاہ اسلام نخيلہ ميں جمع ہو رہى ہے تو انہوں نے حَرُوراء ميں قيام كرنا تحفظ كے اعتبار سے خلاف مصلحت سمجھا اور اس جگہ كو ترك كرنے كا فيصلہ كرليا_

اس سے قبل كہ وہ اپنى قيام گاہ كو خالى كر كے جائيں اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اتمام حجت كے طور پر انھيں خط لكھا اور انھيں يہ دعوت دى كہ وہ ديگر سپاہ كے ساتھ آن مليں تا كہ معاويہ كى جانب روانہ ہوا كر اس كے ساتھ جنگ كى جاسكے مگر انہوں نے اس خط كا جواب نفى ميں ديا_(۲۸)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام جب خوارج كو راہ حق پر لانے ميں مايوس ہوگئے تو آپ نے يہى فيصلہ كيا كہ انھيں انہى كے حال پر چھوڑ كر اصل مقاصد كى جانب روانہ ہوا جائے چنانچہ آپعليه‌السلام نے نخيلہ ميں بھى تقرير كا اہتمام كيا اور افواج كى معاويہ سے جنگ كرنے كے لئے حوصلہ افزائي كى اس ضمن ميں آپعليه‌السلام نے فرمايا: كہ ميں نے بصرہ كے بھائيوں كو بھى خط لكھا ہے اور جيسے ہى وہ يہاں پہنچ جائيں گے ہم دشمن كى جانب روانہ ہوں گے_(۲۹)

بصرہ كى فوج جو تين ہزار دو سو سے زيادہ سپاہيوں پر مشتمل تھى آن پہنچى سپاہ كى مجموعى تعداد تقريبا اڑسٹھ(۶۸) ہزار ہوگئي(۳۰) اس سے پہلے كہ لشكر روانہ ہو بعض سپاہ نے دبى آواز ميں كہنا شروع كيا كہ كيا ہى اچھا ہوتا كہ پہلے خوارج سے جنگ كرلى جاتى اور جب ان كا كام تمام ہوجاتا تو

۲۸۱

ہم صفين كى جانب رخ كرتے_

ليكن اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں اس امر كى جانب متوجہ كيا كى معاويہ كے ساتھ جنگ كى كيا اہميت ہے اور اسے كيوں مقدم سمجھنا چاہيئے اور انھيں سمجھايا كى فى الحال خوارج كے مسئلے كى طرف سے خاموشى اختيار كى جائے اور سردست ان كا نام تك نہ ليا جائے_

سپاہ نے جب اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے يہ اقوال سنے تو اس نے كہا كہ فيصلہ كن اقدام كے لئے ہمارى جانب سے آپ كو كل اختيار ہے اور كہا كہ ہم ايك متحد جماعت اورآپعليه‌السلام كے خير خواہ ہيں جس گروہ كى جانب لے جانے ميں آپ خيرہ و صلاح سمجھيں ادھرہى ہميں لے چليں(۳۱)

خوارج كے ساتھ جنگ كى ضرورت

خوارج كى سرگرميوں كے بارے ميں انتہائي اختصار كے ساتھ اوپر اشارہ كيا جاچكا ہے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كوجب ان كے ان مجرمانہ افعال كے خبريں مليں تو اس كے بعد آپعليه‌السلام نے ان كى طرف سے چشم پوشى كرنا اور انھيں ان كے حال پر چھوڑ دينا مناسب نہ سمجھا كيونكہ يہاں مسئلہ اظہار خيال و رائے كا نہ تھا بلكہ معاشرے كے امن ميں خلل انداز ہونا اورشرعى حكومت كے خلاف مسلح گروہ كى بغاوت تھى چنانچہ اس بناپر آپعليه‌السلام نے معاويہ سے جنگ كئے جانے كے فيصلے كو بدل ديا_

'' عبداللہ بن خباب'' كا قتل اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كيلئے اس قدر گرانبار ہوا كہ آپ نے ان خوارج كے سامنے جنہوں نے يہ اعتراف كيا كہ ہم ان كے قاتل ہيں فرمايا: اگر خطئہ ارض كے تمام لوگ يہ كہيں كہ ہم ان كے قتل ميں شريك ہيں اور ميں ان كے خون كا بدلہ لے سكوں تو سب كو قتل كر ڈالوں گا_(۳۲)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے مزيد اطلاعات حاصل كرنے كيلئے '' حارث بن مُرّہ '' كو خوارج

۲۸۲

كے پاس روانہ كياخوارج نے انھيں قتل كرديا ان كے اس اقدام نے سپاہ كو پہلے سے كہيں زيادہ متاثر اور غضبناك كرديا چنانچہ اس نے بآواز بلند كہا كہ يا اميرالمومنين كيا آپ انھيں اسى ليئے بے مہار چھوڑ رہے ہيں كہ وہ ہمارے پيچھے ہمارى عزت و ناموس اور مال و اموال كے ساتھ جو چاہيں كريں ؟ پہلے آپ عليه‌السلام ہميں ان كى طرف لے چلئے ان سے فراغت پا لينے كے بعد ہم '' شامي'' دشمن كى جانب روانہ ہوں گے _(۳۳)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے بھى ان كى بات مان لى چنانچہ سپاہ كو ان كا تعقب كرنے كيلئے '' پل(۳۴) ''كے اس پار جانے كا حكم ديا يہاں سے يہ لشكر '' دير ابوموسي'' كى جانب روانہ ہوا اور دريائے فرات كے كنارے '' نہروان(۳۵) '' نامى جگہ پر پڑا و ڈالا_

راہ ميں حضرت علىعليه‌السلام كو يہ اطلاع دى گئي كہ خوارج پل پار كر كے آگے آچكے ہيں اس موقع پر اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے ساتھيوں كے عقيدہ كو مستحكم كرنے نيز اپنى معنوى عظمت كے بارے ميں بتانے كى خاطر فرمايا: كہ ان كى قتل گاہ نہر كے اس طرف ہى ہے خدا كى قسم اس جنگ و پيكار ميں اگر ان كے دس آدميوں نے نجات حاصل نہ كى تو تم ميں بھى دس افراد قتل نہيں ہوں گے_(۳۶)

جس وقت سپاہ دريائے فرات كے كنارے پہنچى معلوم ہوا كہ خوارج نے دريا پار نہيں كيا ہے حضرت علىعليه‌السلام نے نعرہ تكبير بلند كيا اور فرمايا: ''الله اكبر صدق رسول الله'' (۳۷)

جنگ كا سدّ باب كرنے كى كوشش

دونوں لشكر دريائے نہروان كے كنارے ايك دوسرے كے مقابل آچكے تھے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے نبرد آزمائي سے قبل ہر ممكن كوشش كى كہ جنگ نہ ہو چنانچہ آپعليه‌السلام نے مندرجہ ذيل شرائط ركھيں

۱_ خوارج سے كہا كہ وہ عبداللہ بن خباب كے قاتلوں نيز شہداء كو ہمارے حوالے كرديں تا كہ

۲۸۳

ہم تم سے دستبردار ہو كر شام كى جانب روانہ ہوجائيں انہوں نے جواب ديا كہ ہم سب ہى قاتل ہيں اور مزيد يہ كہا كہ تمہارا اور ان كا خون بہانا ہمارے لئے جائز و مباح ہے (۳۸)

۲_ آپعليه‌السلام نے يہ تجويز ركھى كہ تم ميں سے كون شخص اس كام كيلئے آمادہ ہے كہ قرآن مجيد اٹھائے اور اس جماعت كو كلام اللہ كى جانب آنے كى دعوت دے طائفہ بنى عامر كے ايك نوجوان نے اپنے آمادگى كا اعلان كيا انہوں نے قرآن پاك اپنے ہاتھ ميں ليا اور خوارج كو اس كى جانب آنے كى دعوت دى خوارج نے ان پر بھى تيروں كى بارش كردى اگر چہ ان كے چہرے پر سب سے زيادہ تير لگے تھے مگر اس كے باوجود وہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے نزديك آگئے اور چند لمحہ بعد ہى شہيد ہوگئے_(۳۹)

۳_ قيس بن سعد اور ايوب انصارى جيسے اصحاب نے بھى اتمام حجت كے طور پر خوارج كے سامنے تقارير كيں ان حضرات كے علاوہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام بذات خود تشريف لے گئے اور آخرى مرتبہ انھيں مخاطب كرتے ہوئے فرمايا ''ميں تمہيں كل كے لئے آگاہ كيئے ديتا ہوں كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ امت اسلاميہ تمہيں لعنت و ملامت سے ياد كرے كيونكہ تمہارے جسم تو اسى نہر كے كنارے زمين پر گريں گے اور تم كوئي محكم دليل يا سنت بطور سند اپنے بارے ميں چھوڑ كر نہيں جاؤگے''

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے حكميت كے افسوناك واقع اس معاملے ميں اپنے نيز خوارج كے كردار اور اپنے ہى قول سے ان كى روگردانى و خلاف ورزى كے بارے ميں تقرير كى اس ضمن ميں آپعليه‌السلام نے مزيد فرمايا: كہ اگر چہ حكمين نے كلام اللہ اور سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منحرف و رو گردان ہو كر اپنے نفسانى ميلان كى بنيادپر حكم جارى كيا مگر ہم اب بھى اپنى اس سابقہ روش پر قائم ہيں اس كے بعد تم كہو كہ كيا كہنا چاھتے ہو اور كہاں سے آگئے ہو؟(۴۰)

۳_ تقرير ختم كرنے كے بعد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے پرچم امان ابو ايوب انصارى كے حوالے كيا اور انھيں حكم ديا كہ اعلان كريں كہ جو شخص بھى اس پرچم كے نيچے آجائے گا امن و امان

۲۸۴

ميں رہے گا اس كے علاوہ جو كوئي شہر ميں داخل ہوگا يا عراق كى جانب واپس چلا جائے گاوہ بھى امان ميں رہے گا ہميں تمہارا خون بہانے كے ضرورت نہيں (۴۱)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جيسے ہى پرچم امان لہرايا تو بہت سے لوگوں نے بآواز بلند كہناشروع كيا التوبہ ، التوبہ يا اميرالمومنين چنانچہ اس كے بعد تقريبا آٹھ ہزار افراد مخالفت سے دستبردار ہوكر پرچم امان كے نيچے جمع ہوگئے_(۴۲)

۲۸۵

سوالات

۱_ منصفين كس تاريخ كو اور كہاں جمع ہوئے ان ميں سے ہر ايك كى ابتدائي رائے كس كے حق تھى اور انہوں نے كس مسئلے پر اتفاق رائے كيا؟

۲_ حكميت كے نتيجے كا عراق كے لوگوں پر كيا رد عمل ہوا حضرت علىعليه‌السلام نے حكميت كے ناپسنديدہ اثرات دور كرنے اور عامہ پر حقائق كى وضاحت كيلئے كيا اقدامات كيئے؟

۳_ اس سے قبل خوارج كہ دہشت پسندانہ راہ و روش اختيار كريں حضرت علىعليه‌السلام كا ان كے ساتھ كيسا سلوك و رويہ تھا؟ اس سلسلے ميں حضرت علىعليه‌السلام كے اقوال ميں سے ايك قول بطور نمونہ پيش كيجئے_

۴_ خوارج كے فكرى دائرہ عمل كى تشكيل كن چيزوں پر منحصر تھي؟

۵_ حضرت علىعليه‌السلام نے معاويہ سے جنگ كرنے كے بجائے اپنى توجہ كس بناپر خوارج كى جانب كردي؟

۶_ حضرت علىعليه‌السلام نے خونريزى روكنے كيلئے كيا اقدامات كئے؟ اس كے دو نمونے پيش كيجئے

۲۸۶

حوالہ جات

۱_ اس كا شمار مدينہ كے قريات ميں ہوتا ہے

۲_ ملاحظہ ہو وقعہ صفين ۵۳۳، مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۰

۳_ ملاحظہ ہو وقعہ صفين ۵۳۶

۴_ وقعہ صفين ۵۳۴، واللہ ان لو استطعت لاحين سنة عمر

۵_ وقعہ صفين ۵۳۴

۶_ ملاحظہ ہو الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۱۸، وقعہ صفين ۵۴۴

۷_ وقعہ صفين ۵۴۶-_ ۵۴۵، الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۱۸

۸_ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۱۹

۹_ خوارج جمع ہے خارجہ كى اصطلاحا اس كا اطلاق اس فرقے پر ہوتا ہے جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف شورش و سركشى كى اور نہروان نامى مقام پر آپ سے بر سر پيكار ہوئے ابن ملجم كا شمار بھى خوارج ہى ميں ہوتا ہے حضرت علىعليه‌السلام اسى شخص كے ہاتھوں شہيد ہوئے (كتاب ملل و نحل تاليف شہرستانى ج ۱ ص ۱۴۴)

۱۰_ان لكم عندنا ثلاثا لا نمنعكم صلواة فى هذا المسجد و لا نمنعكم نصيبكم من هذا الفي ى ما كانت ايديكم مع ايدينا و لا نقتلكم حتى تقاتلونا (تاريخ طبرى ج ۵ ص ۷۴ كامل ج ۳ ص ۳۳۵، المجموعہ الكاملہ ج ۵ ص ۱۷۱)

۱۱_ سورہ زمر آيت ۶۵

۱۲_ سورہ روم آيت ۶۰

۱۳_ شرح ابن ابى الحديد ج ۲ ص ۳۱۱، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۷۳

۱۴_ان سكتوا عمعناهم ان تكلموا حججنا هم و ان خرجوا علينا قاتلنا هم (تاريخ طبرى ج ۲۷۵، كامل بن اثير ج ۳ ص ۳۳۴)

۱۵_ خوارج كے نعرہ '' لاحكم الا للہ'' سے جو مطلب اخذ كيا گيا تھا اسى مفہوم ميں اس كا ذكر حضرت علىعليه‌السلام كے خطبہ نہج البلاغہ ۴۰ ميں بھى ملتا ہے ابتداء ميں ان كى رائے يہ تھى اجتماع كو امام وقت اور حكومت كى ضرورت نہيں اور

۲۸۷

لوگوں كو چاہيئے كہ خود براہ راست كلام اللہ پر عمل كريں مگر اس رائے كو ظاہر كرنے كے بعد انہوں نے حضرت عبداللہ بن وہب راسبى سے رجوع كيا اور انہى كے ہاتھ پر بيعت كى (كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۳۵)

۱۶_ جاذبہ و دافعہ علىعليه‌السلام منقول از ضحى الاسلام و ملل و نحل شہرستاني

۱۷_ان الحكم الا لله يقص الحق و هو خير الفاصلين (فيصلہ كا سارا اختيار اللہ كو ہے وہى امر حق بيان كرتا ہے اور وہى بہترين فيصلہ كرنے والا ہے (سورہ الانعام آيت ۵۷)

۱۸_ شوہر اور بيوى كے اختلاف كا ذكر سورہ نساء كى آيت ۳۵ ميں آچكا ہے اور ہم اس كا پہلے ذكر كرچكے ہيں ليكن احرام كى حالت ميں اگر كوئي محرم ديدہ و دانستہ شكار كرے تو اسے چاہيئے كہ كفارہ ادا كرے اور بطور كفارہ وہ جو جانور ذبح كرے اس كى حكميت دو عادل انسان كريں چنانچہ قرآن مجيد فرماتا ہےو من قتله منكم متعمدا فجزاء مثل ما قتل من النعم يحكم به ذوا عدل منكم (احرام كى حالت ميں شكار نہ مارو اور اگر تم ميں سے كوئي جان بوجھ كر ايسا گذرے تو جو جانور اس نے مار اہے اسى كے ہم پلہ ايك اور جانور اسے مويشيوں ميں سے نذر دينا ہوگا جس كا فيصلہ تم ميں سے دو عادل آدمى كريں گے (سورہ مائدہ آيت ۹۴)

۱۹_كلمة حق يراد بها باطل نعم انه لا حكم الا الله و لكن هولاء يقولون لا امرة الا لله انه لا بد للناس من امير من بر او فاجر ...(نہج البلاغہ خ ۴۰)

۲۰_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۳۳۵

۲۱_يا اخواننا ضربوا جباههم و وجوههم بالسيف حتى يطاع الرحمن عزوجل

۲۲_ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۳۳، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۷۵، كامل ج ۳ ص ۳۳۶

۲۳_شرح نہج البلاغہ خوئي ج ۴/۱۲۷

۲۴_ ستكون بعدى فتنہ يموت فيہا قلب الرجل كما يموت بَدَنُہُ يمسى مومنا و يصبح كافر افَكُن عنداللہ المقتول و لا تكن القاتل(شرح نہج البلاغہ خوئي ج ۴ ص ۱۲۸، تاريخ طبرى ج ۵/۸۱

۲۵_ شرح نہج البلاغہ خوئي ج ۴ ص ۱۲۸، تاريك طبرى ج ۵ ص ۸۱، اعيان الشيعہ ج ۱ص ۵۲۲ (دس جلديں مطبوعہ بيروت)و كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۴۱

۲۸۸

۲۶_ شرح نہج البلاغہ علامہ خوئي ج ۴ ص ۱۲۸، اعيان الشيعہ ج ۱/ ۵۲۳

۲۷_ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۲۳

۲۸_ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۲۳

۲۹_ تاريخ طبرى ج ۵ ص ۷۸، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۳۹

۳۰_ كامل ج ۳ ص ۳۴۰

۳۱_سر بنا يا اميرالمومنين حيث احببت فنحن حزبُكَ و انصارك ، الامامہ و السياسة ج ۱ ص ۱۲۵، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۸۰، كامل ج ۳ ص ۳۴۱

۳۲_والله لو اقر اهل الدنيا كلهم بقتله بكذا و انااقدر على قتلهم به لقتلتهم شرح نہج البلاغہ خوئي ج ۴ ص ۱۲۸ و ابن ابى الحديد ج ۲ ص ۲۸۲

۳۳_ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۲۷، تدع ہولاء القوم و ارثنا يخلفوننا فى عيالنا و اموالنا ؟سربنا اليہم فاذا فرغنا نہضنا الى عدونا من اہل الشام

۳۴_ يہ پل دريائے طبرستان پر حلوان اور بغدادكے درميان واقع تھا اور شاہراہ خراسان اسى پل سے گذرتى تھى (مروج الذہب ج ۲ ص ۴۰۵)

۳۵_ اس نام كے تين گاؤں ہيں جو طول ميں ايك دوسرے كے بعد آباد تھے ان كى شناخت نہروان اعلى نہروان اوسط اور نہروان اسفل سے كى جاتى تھى يہ گاوں واسطہ اور بغداد كے درميان آباد تھے

۳۶_مصارعهم دون النطفة واللّه لا يغلت منهم عشرة و لايهلك منكم عشره نہج البلاغہ خ۵۹

۳۷_ مروج الذہب ج ۲ ص ۴۰۵

۳۸_انا كلنا قتلنا هم كلنامُستَحل لدمائ كُم و دمائهم الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۲۷

۳۹_ شرح نہج البلاغہ خوئي ج ۴ ص ۱۲۹

۴۰_فما نبوكم و من اين ايتتم ؟ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۲۷، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۸۴، كامل ج ۳ ص ۳۴۳

۴۱_ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۲۸ ، كامل ج ۳ ص ۳۴۵، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۸۵

۴۲_ شرح نہج البلاغہ خوئي ج ۴ ص ۱۳۵

۲۸۹

پندرھواں سبق

مارقين _ جنگ نہروان

دو سپاہ كے درميان جنگ و نبرد

جنگ كے بعد

اصل دشمن كى جانب توجہ

غاليوں كا وجود

جنگ نہروان كا نتيجہ

جہاد كى دعوت

حضرت مالك كا صوبہ دار مصر كى حيثيت سے تقرر

حضرت مالك كى شہادت

مصر پر لشكر كشي

حضرت محمد بن ابى بكر كى شہادت

لوگوں كى تنبيہ و سرزنش

سوالات

حوالہ جات

۲۹۰

دو سپاہ كے درميان جنگ و نبرد

حضرت علىعليه‌السلام نے اگر چہ صلح كى ہر ممكن كوشش كى مگر اس كے باوجود ان ميں سے چار ہزار سے زيادہ خوارج باقى رہ ہى گئے_ وہ عبداللہ بن وہب كے زير فرمان اب بھى اپنے پر انے عقيدے پر پورى طرح قائم تھے اور الرواح الرواح الى الجنة(بڑھو جنت كى طرف) كے نعرے لگاتے ہوئے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر پر حملہ آور ہوگئے(۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے بھى اپنى سپاہ كى صفين آراستہ كيں چنانچہ ميمنہ پر حجر بن عدى اور ميسرہ پر شبث بن ربعى كو متعين كيا_ سوار فوج كى فرماندارى ابو ايوب انصارى اور پيادہ لشكر كى ابوقتادہ كے سپرد كى قيس بن سعد كو مدينہ كے لوگوں كا سردار مقرر كيا ان كى تعداد بھى تقريبا آٹھ سوار افراد پر مشتمل تھى قلب لشكر ميں آپ بذات خود موجود رہے(۲)

تيراندازى خوارج كى جانب سے شروع ہوئي چنانچہ جب ايك شخص كو خون آلود حالت ميں آپعليه‌السلام كے سامنے لايا گيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ حملہ كرو كيونكہ اب اس گروہ كا قتل كرنا ہمارے لئے جائز ہے_(۳)

دونوں لشكر ايك دوسرے پر حملے آور ہوئے شروع ميں اگر چہ لشكر اسلام كے سوار فوج، دشمن كے سنگين حملے كے باعث اپنے مقام سے پيچھے ہٹ گئے اور پورى صف لشكر سے الگ ہوگئے خوارج اس پر تير كى تيزى سے حملے آور ہوئے وہ قلب لشكر پر حملہ كرنے كے ارادے سے آگے بڑھے ہى تھے كہ يكايك جنگ كا نقشہ ہى بدل گيا تير اندازوں كے اس دستے كو جو پہلے سے ہى اس مقام كى پشت پر متعين تھا جہاں سوار فوج كى جگہ مقرر كى گئي تھى انہيں اپنے تيروں كانشانہ بنايا اور اپنى طرف سے غافل و بے خبر پا كر ان پرحملہ كرديا يہ حملہ ايسا اچانك اور سخت تھا كہ ان كے لئے

۲۹۱

نہ آگے بڑھنا ممكن تھا اور نہ پيچھے ہٹنے كے لئے كوئي چارہ تھا خوارج كا خيال تھا كہ سوراوں كے لشكر نے ان كى طرح سے پشت كرلى ہے ليكن اس نے دائيں اور بائيں بازو كے پرے ساتھ لے كر انھيں اپنے درميان زنبور كى طرف نرغے ميں لے ليا اور دم شمشير و سرنيزے سے ان كى خوب خاطر و تواضع كى _ قلب لشكر اسلام كے درميان محاذ پر متعين دستے كو چونكہ ابھى تك كوئي نقصان نہيں پہنچا تھا وہ بھى ان كى سركوبى كرنے كى غرض سے حملہ آور ہوا سپاہ دشمن كے فرماندار عبداللہ بن وہب كے علاوہ ذوالثديہ ، اخنس طائي ، مالك بن وضَّاح و غيرہ جيسے ديگر فرماندار لشكر، حضرت على عليه‌السلام كى شمشير كے باعث ہلاك ہوئے(۴)

خوارج چونكہ سخت نرغے ميں آگئے تھے اسى لئے وہ اس ميں برى طرح پھنس گئے اور دو گھنٹے بھى نہيں گذر نے پائے تھے كہ وہ زمين پر اس طرح گرنے لگے جيسے خزاں كے دونوں ميں درختوں سے پتے گرتے ہيں گويا يہ بھى كوئي كن فيكون كى طرح تكوينى حكم تھاجس كے تحت ان سے كہا گيا كہ مرجاؤ اور وہ مرگئے چار ہزار افراد ميں سے صرف نوشخص يعنى شہدائے اسلام كى تعداد كے برابر اپنى جان بچا كر بھاگ گئے اور اس طرح امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كى پيشيں گوئي صحيح ثابت ہوئي_

جنگ كے بعد

جنگ ختم ہوجانے كے بعد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے حكم ديا كہ '' ذوالثديہ''كى تلاش و جستجو كريں (رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ نہروان ميں مقتولين كى جو خصوصيات بتائيں تھيں وہ اس شخص ميں موجود تھيں حضرت علىعليه‌السلام نے اس كى جستجو اس لئے كرائي تھى كہ حق كى روشن دليل اور تائيد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام واضح ہوجائے)

سپاہى اس كى لاش تلاش كرنے كے لئے نكلے مگر ناكام واپس آگئے اس كے بعد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام خود اس كى لاش نكالنے كے لئے تشريف لے گئے كچھ دير بعد اس كى لاش ديگر مقتولين

۲۹۲

كى لاشوں كے نيچے سے نكل آئي اسے ديكھ كر آپ مسرور ہوئے اور فرمايا اللہ اكبر ميں نے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى كوئي بات كبھى غلط نہ پائي رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ اس كاايك ہاتھ چھوٹا ہوگا جس ميں ہڈى نہ ہوگى اس كے ايك طرف پستان جيساگوشت كا گولہ ابھرا ہوا ہوگا جس پر پانچ ياسات بال اگے ہوئے ہوں گے جس وقت اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے يہ تمام خصوصيات ديكھيں تو آپ فورا سجدے ميں تشريف لے گئے اور خدا كا شكر بجالائے_(۵)

اس كے بعد آپعليه‌السلام گھوڑے پر سوار ہوئے اور مقولين كى لاشوں كے پاس سے گذرے اور فرمايا افسوس تمہارے اور اس كے حال پر جس نے تمہيں مغرور كيااور اس حال كو پہنچا ديا _دريافت كيا گيا كہ كس شخص نے انھيں مغرور كيا؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا شيطان اور نفس امارہ انھيں غرور كى جانب لے گيا آرزوں نے انھيں فريب ديئے نا فرمانياں انھيں حسين و جميل نظر آئيں اور فتح و نصرت كے وعدے نے انھيں اپنا فريفتہ كرليا_(۶)

حضرت علىعليه‌السلام نے وہ ہتھيار اور چوپائے جو ميدان جنگ ميں بطور مال غنيمت ہاتھ آئے تھے سپاہ كے درميان تقسيم كرديئے خوارج كے باقى سامان، ان كے كنيز و غلام و غيرہ كو كوفہ واپس آنے كے بعد ان كے وارثوں كے حوالے كرديا_(۷)

اصل دشمن كى جانب توجہ

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے خوارج كى سركوبى كے بعد جد وجہد كے اصل محاذ اور اسلام كے دفاع كى جانب رخ كيا اس جد و جہد كى خصوصيت و اہميت بتانے، معاويہ كے خلاف جہاد مقدس كى لشكر اسلام كو ترغيب دلانے اور عوام كو معاويہ كى حكومت كے عواقب و انجام سے باخبر كرنے كى غرض سے آپعليه‌السلام نے تقرير كى اور فرمايا كہ اے لوگو جب فتنہ و فساد كى لہريں ہر طرف پھيل چكى تھيں اور اس كابحران اپنے انتہائي درجہ كو پہنچ چكا تھا اس وقت كسى ميں اتنى جرات و ہمت نہ تھى كہ ميدان كار زار ميں داخل ہو اس وقت ميں ہى ايسا شخص تھا جس نے اس فتنے كو خاموش كرديا

۲۹۳

ياد ركھو فتنوں ميں سب سے زيادہ بھيانك خطرہ بنى اميہ كے فتنے كا ہے يہ فتنہ سياہى اور اندھيرے كا فتنہ ہے اور جب اس كا سايہ پھيل جائے گا تو اس كى بلا خاص طور پر نيك لوگوں پر نازل ہوگي ان كے اذيت ناك مظالم تم پر سالہا سال تك جارى رہيں گے ان پر تمہارافاتح ہونا اتنا ہى اہم ہے جتنا غلاموں كا اپنے مالك پر غالب آنا يا پيروكاروں كا اپنے پيشوا پر غلبہ حاصل كر لينا اس وقت قريش يہ چاہيں گے ان كے پاس جو كچھ اس دنيا ميں ہے اسے خرچ كركے بس ايك بار اسے ديكھ ليں اگر چہ وقت چند ہے لمحات پر منحصر ہے بس اتنا ہے جتنا ايك اونٹ كو نحر كرنے ميں صرف ہوتا ہے آج وہ چيز جس كا صرف ايك حصہ ميں ان سے مانگ رہاہوں اور وہ نہ دينے پر بضد ہيں كل اسے مجھے دينے كے لئے اصرار كريں گے اور يہ چاہيں گے كہ ميں اسے قبول كرلوں _

غاليوں كاوجود(۸)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنى حقانيت ثابت كرنے، خواب غفلت ميں سوئے ہوئے لوگوں بالخصوص خوارج كو جگانے اور چند ديگر مصلحتوں كى بنا پر بہت سے غيبى مسائل كى پشين گوئي كرنا شروع كردى ليكن كچھ كم ظرف لوگوں نے آپ كے بارے ميں مبالغے سے كام ليا وہ خوارج كے عين مقابل آگئے اور چونكہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى غير معمولى عقل و نظر اور دانش و بينش سے وہ حيرت زدہ و مرغوب تھے اسى لئے وہ آپعليه‌السلام كو حد انسانيت اور مخلوقيت سے بالاتر سمجھنے لگے اور آپعليه‌السلام كى الوہيت كے قائل ہوگئے_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے نظريے كے مطابق دونوں ہى گروہ ہلاك و بدبختى سے دوچار ہوئے چنانچہ اس سلسلے ميں آپعليه‌السلام خود فرماتے ہيں كہ ميرے معاملے ميں دو شخص ہلاك ہوئے ايك وہ جس نے مبالغہ كيا اور دوسرا ميرا بدخواہ دشمن(۹)

ايك روز اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام تقرير فرمارہے تھے سا معين ميں سے ايك شخص جو آپعليه‌السلام كا والہ و شيدائي تھا اپنى جگہ سے اٹھا ا ور كنہے لگا انت ، انت آپ (ع)نے فرمايا

۲۹۴

افسوس تيرے حال پر ميں كيا ہوں ؟ اس نے كہا انت اللہ يہ سن كر اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے حكم ديا كہ اس كے ہم عقيدہ ساتھيوں كو گرفتار كرليا جائے(۱۰)

غلات جو غيب كى باتيں اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام سے سنتے تھے انھيں لوگوں ميں مشہور كرديتے اور كہتے كہ ايسے كاموں كا كرنا خدا كے علاوہ كسى كے بس كى بات نہيں اسى بنا پر علىعليه‌السلام يا تو خدا ہيں يا كوئي ايسى شخصيت ہے جس كے وجود ميں ذات خداوندى حلول كرگئي ہے(۱۱)

جنگ نہروان كے نتائج و عواقب

جنگ نہروان كا خاتمہ اگرچہ خوارج كى سركوبى پر ہوا ليكن اس كے جو نتائج پر آمد ہوئے وہ نہايت مضر اور اندوہناك ثابت ہوئے جن ميں سے بعض كا ذكر ذيل ميں كيا جاتا ہے_

۱_ اس جنگ ميں مقتولين كى تعداد چونكہ بہت زيادہ تھى اس لئے سپاہ عراق كے دلوں پر بہت زيادہ خوف و ہراس غالب آگيا اور باہمى اختلاف كى بنا پر وہ دو گروہ ميں تقسيم ہوگئے اس كے علاوہ وہ لوگ جن كے عزيز و اقربا اس جنگ ميں مارے گئے تھے وہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام سے سخت بدگمان ہوگئے_

۲_ لشكر اسلام ميں سركشى اور نافرمانى كاجذبہ بہت زيادہ بڑھ گيا چنانچہ نوبت يہاں تك پہنچى كہ سپاہ يہ بہانہ بنا كر كہ جنگ كى كوفت دور كر رہے ہيں حضرت علىعليه‌السلام كے فرمان بجالانے ميں سستى اور كاہلى سے كام لينے لگے بالخصوص اس وقت جب كہ وہ جنگ سے واپس آكر اپنے خاندان كى گرم آغوش ميں پہنچے اور اہل خاندان كے چہروں پر غم و اندوہ كے آثار ديكھے يہ عامل نيز اس كے ساتھ ہى ديگر عوامل اس امر كا باعث ہوئے كہ انہوں نے ہميشہ كيلئے جنگ كا ارادہ ترك كرديا اور معاويہ كے ساتھ آشتى كرنے كو ان كے ساتھ جنگ كرنے پر ترجيح دينے لگے_

مورخين نے لكھا ہے كہ جب جنگ نہروان ختم ہوگئي تو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام اپنى سپاہ كے سامنے كھڑے ہوئے اور فرمايا: كہ خداوندتعالى نے تمہيں آزمايا اور تم اس كے امتحان ميں پورے

۲۹۵

اترے اسى لئے اس نے تمہارى مدد كى اب تم جلدى سے معاويہ اور اس كے ظالم و ستمگر ساتھيوں سے جنگ كرنے كے لئے روانہ ہوجاؤ انہوں نے كلام اللہ كو پس پشت ڈال ديا ہے اور نہايت معمولى قيمت پر دشمن سے ساز باز كرلى ہے يہ سن كر ساتھيوں نے كہا كہ اميرالمومنين عليه‌السلام ہمارى طاقت اب جواب دے چكى ہے ہمارے زرہ بكتر پارہ پارہ ہوچكے ہيں تلواريں ٹو ٹ چكى ہيں اور نيزوں كى نوكوں ميں خم آگئے ہيں ہميں وطن جانے كى اجازت ديجئے تا كہ وہاں ہم اپنا اسلحہ تيار كر سكيں وہاں رہ كر كچھ وقت خوشى و خرمى ميں بسر كريں اور اپنے ساتھيوں كى تعداد ميں اضافہ كريں ايسى صورت ميں ہم دشمن كا بہتر طور پر مقابلہ كرسكيں گے(۱۲)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام جانتے تھے كہ واپس جانے كا كيا انجام ہوگا ليكن جب آپعليه‌السلام نے اكثريت كو اس نفاق انگيز نظريے كى جانب مائل ديكھا تو مجبورا ًان كے سات اتفاق كيا اور نخيلہ كى جانب واپس آگئے يہاں آپعليه‌السلام نے(سپاہ كو تاكيد كردى كہ وہ اپنى لشكر گاہ(چھاؤني) كو چھوڑ كرنہ جائيں اہل و عيال كى جانب كم توجہ ديں اللہ كے جہاد كيلئے تيارى كرتے رہيں سپاہ ميں سے چند ہى لوگ ايسے تھے جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كى ہدايات پر عمل كيا چنانچہ چند روز تك يہاں قيام كرنے كے بعد آہستہ آہستہ اپنے اپنے گھروں كى جانب واپس جانے لگے جہاں انہوں نے آرام كى زندگى بسر كرنا شروع كردي_(۱۳)

جہادكى دعوت

جب حضرت علىعليه‌السلام كوفہ واپس تشريف لے آئے تو آپعليه‌السلام كوشش كرنے لگے كہ ہر ممكن طريقے سے لوگوں كو معاويہ سے جہاد كرنے كى ترغيب دلائيں ايك موقعے پر تقرير كرتے ہوئے آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ اے لوگو اس دشمن كى جانب روانہ ہونے كيلئے تيار ہوجاؤ جس كے ساتھ جنگ كرنا خداوند تعالى كى قربت كا سبب ہے وہ لوگ جو امر حق سے روگرداں ہوچكے ہيں كلام اللہ سے دور ہيں اور دين كے كاموں ميں پيچھے رہ گئے ہيں درحقيقت اندھيرے اور گمراہى ميں ڈوبے

۲۹۶

ہوئے ہيں ان كے خلاف تم جتنے سپاہى اور گھوڑے فراہم كرسكتے ہو مہيا كر لو اور خداوند تعالى پر بھروسہ كرو_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى تقرير كا لوگوں پر ذرا بھى اثر نہ ہوا اور جنگ پر جانے كے لئے انہوں نے كوئي آمادگى ظاہر نہيں كى حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں چند دنوں كے لئے ان كے حال پر چھوڑديا اس عر صے ميں آپعليه‌السلام نے سرداران قوم كو دعوت دى اور ان كا نظريہ جاننا چاہا بعض نے عذر و بہانہ بنايا(۱۴) كچھ نے رضايت كا اظہار كيا مگر چند لوگ ايسے بھى تھے جنہوں نے اس دعوت كو قبول كيا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام دوبارہ عوام كے اجتماع ميں كھڑے ہوئے اور فرمايا كہ اے اللہ كے بندو ميں جب بھى حكم ديتاہوں آخر تم كيوں زمين سے چپك پر بيٹھ جاتے ہو كيا آخرت كى زندگى كے مقابلے اس چند روزہ دنيا كى خوشيوں پر فريفتہ ہو گئے ہو؟ عزت كى بجائے تم نے ذلت و خوارى كو اختيار كر ليا ہے آخر كيا وجہ ہے كہ ميں تمہيں جب بھى جہاد كى دعوت ديتاہوں تم آنكھيں پھيرنے لگتے ہو؟ ايسا معلوم ہوتا ہے كہ تم موت كے كنارے آپہنچے ہو يا تمہارے دل سراسيمہ و پريشان ہيں جو سمجھ نہيں سكتے آنكھيں بند ہيں جو ديكھ نہيں سكتيں شاباش تم پر اور تمہارى دليرى پر فرصت كے لمحات ميں تم گويا جنگل كے شير ہو اور جب تمہيں جنگ كيلئے دعوت دى جائے تو لومڑيوں كى طرح فرار كرنے لگتے ہو اب مجھے تم پر اعتماد نہيں رہا(۱۵)

حضرت مالك كا صوبہ دا مصر كى حيثيت سے تقرر

مالك اشتر ايك بااثر و رسوخ سردار اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے محكم و طاقتور فرماندار نيز آپعليه‌السلام كے سچے حامى و طرفدار تھے عثمان كے قتل كے بعد وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كي'' بيعت كرتے وقت بہت ہى پريشانى كے عالم ميں كہا تھا كہ ''كيا ان تين افراد كے بعد بھى آپعليه‌السلام زمام حكومت سنبھالنے كيلئے تيار

۲۹۷

نہيں(۶۱)

اس كے اگلے دن مسجد ميں لوگوں كے درميان جو حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے آئے تھے انہوں نے كہا تھا كہ يہ پيغمبروںصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وصى اور علم انبياء كے وارث اور وہ بزرگ ہستى ہيں جو سخت آزمايشوں سے گذرے ہيں كلام اللہ اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ كے رضوان بہشت ہونے كى شہادت دى ہے آپ وہ شخص ہيں جو فضائل كے اعتبار سے كمال كى منزلت پر پہنچ چكے ہيں آپ كى نيك طينتى اور دانشمندى كے بارے ميں ان لوگوں كو بھى شك نہ تھا جو اس دنيا سے گذر چكے ہيں اور جو آئندہ آئيں گے وہ بھى اس پر يقين كريں گے آپ لوگ اٹھيے اورآپ كے دست مبارك پر بيعت كيجئے(۱۷)

اس كے بعد وہ ہرجگہ اور ہر مرحلے پر اپنى لاثانى اور بے نظير بہادرى كے باعث ہميشہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دوش بدوش رہے ان كے اثر و رسوخ اور سياسى تدبر كااندازہ اس فرمان سے لگايا جاسكتا ہے جو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ان كے نام حكومت مصر تفويض كرتے وقت جارى كيا تھا اس كے علاوہ وہ خطوط جو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ان كے نام تحرير فرمائے تھے نيز وہ مراكز جن كى فرمانروائي انہوں نے قبول كى تھى ان كے حسن تدبر و معاملہ فہمى كے آئينہ دار ہيں(۱۸)

جنگ صفين اور واقعہ حكميت كے بعد سپاہ عراق ميں بتدريج كمزورى اور پراگندگى كے باعث لوگوں كے درميان بالخصوص دارالخلافت سے دور و دراز كے علاقوں ميں استقامت و پايدارى كاوہ جذبہ جس سے خوشى و نشاط ہوتى ہے نيز معاويہ سے جنگ كرنے كاجوش و خروش آہستہ آہستہ سرد ہونے لگا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو اطلاع ملى كہ معاويہ كاحامى و طرف دار معاويہ بن خديج نامى ايك شخص مصر ميں عثمان كے خون كابدلہ لينے كے لئے اٹھ كھڑا ہوا ہے اس نے وہاں كے امن و امان كو درہم برہم ، صوبہ دار محمد بن ابى بكر كى حيثيت و منزلت كو متزلزل اور وہاں كے لوگوں كا زندہ رہنا

۲۹۸

سخت دشوار كر ركھا ہے اميرالمومنين حضرت على عليه‌السلام نے فيصلہ كيا كہ صوبہ دار كا تبادلہ كرديا جائے مالك اشتر چونكہ نصبين(۱۹) ميں مامور تھے اس لئے جنگ صفين كے بعد وہ واپس وہيں چلے گئے تھے حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں بلايا اور مصر سے متعلق مسائل كے بارے ميں انھيں سمجھا كر محمد بن ابى بكر كا جانشين مقرر كرديا(۲۰) اس ضمن ميں فرمايا كہ تمہارے علاوہ اس جگہ كيلئے كوئي اور اہل و شايستہ نہيں اس لئے اس طرف روانہ ہوجاؤ(۲۱) اس كے ساتھ ہى آپعليه‌السلام نے وہاں كے لوگوں كے لئے مراسلہ روانہ كيا جس ميں آپعليه‌السلام نے مرقوم فرمايا كہ بندہ خدا على اميرالمومنينعليه‌السلام كى جانب سے مسلمانان مصر كو معلوم ہو كہ جب لوگوں نے خطہ ارض پر حكم خدا سے روگردانى كى تو انہوں نے اس كے غضب كو دعوت دى ميں ايك ايسے بندہ خدا كو تمہارى طرف روانہ كر رہا ہوں جو خوف و ہراس كے دنوں ميں چين كى نيند نہيں سوتا سخت و بحرانى وقت ميں وہ دشمن سے خوفزدہ نہيں ہوتا اور وہ بد كار لوگوں كے لئے آگ سے زيادہ سوزناك ہے اس كا نام مالك بن حارث ہے_

حضرت مالك كى شہادت

مالك مصر جانے كيلئے تيار ہوگئے كوفہ ميں مقيم معاويہ كے جاسوسوں نے اس واقعے كى اطلاع اسے دے دى معاويہ جانتا تھا كہ اگر مالك مصر پہنچ گئے تو وہ اس پر قبضہ كرنے ميں ہرگز كامياب نہ ہوسكے گا چنانچہ اس نے خفيہ طور پر علاقہ ''قلزم''(۲۲) كے تحصيلداركے نام فرمان جارى كيا كہ جس طرح بھى ممكن ہوسكے مالك كو مصر پہنچنے سے قبل ہى قتل كردے اور اس سے يہ وعدہ كيا كہ اگر وہ اس مقصد ميں كامياب ہوگيا تو تا دم حيات اس علاقے كى مالگذارى اسے عطا كرے گا_

اس پر فريب فرمان كے جارى كرنے كے بعد اس نے دعاگوئي كے لئے ايك جلسہ طلب كيا تا كہ حاضرين جلسہ مالك كى تباہى كے لئے دعا كريں كہ اگر كہيں اس كا يہ حربہ كامياب ہو گا تو وہ لوگوں كو يہ كہہ كر خوش فہمى ميں مبتلا كر سكے كہ ان كى موت تمہارى دعاؤں كے اثر سے واقع ہوئي ہے_

۲۹۹

حضرت مالك جب قلزم پہنچے وہ ايك شخص (۲۳) جو ان كى ہلاكت كے لئے مامور كيا گيا تھا ان كے پاس آيا اورانھيں اپنے گھر آنے كى دعوت دى حضرت مالك نے اس كى دعوت قبول كرلى ميزبان نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام كى حكومت كى تعريف كے ايسے پل باندھے كہ مالك كو اس پر اعتماد ہوگيا اس نے دسترخوان بچھايا اور شہد كا شربت جس ميں مہلك زہر يلا ہوا تھا سامنے لاكر ركھ ديا مالك نے اسے پيا اورتھوڑى دير بعد ہى وہيں شہيد ہوگئے(۲۴) اس شہادت كے باعث اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو سخت رنج ہوا اور معاويہ بہت خوش و خرم دونوں حضرات نے جو باتيں ان كے بارے ميں كہيں ان سے اندازہ ہوتا ہے كہ يہ ايك عظيم سانحہ تھا_

قبيلہ ''نخع'' كے چند سردار پرسہ دينے كے لئے حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے انہوں نے آپعليه‌السلام كى كيفيت كو ان الفاظ ميں بيان كياہے'' آپعليه‌السلام مالك كى شہادت سے سخت مضطرب خاطر تھے اس موقعے پر آپ نے فرمايا كہ اس شہادت كااجر خدا ہى دے _مالك كى كيا تعريف كروں خدا كى قسم اگر اسے پہاڑ سے بھى تراشا گيا ہوتا تو وہ يكتا و ممتاز زمانہ ہوتا اگر وہ پتھر كا بھى انسان ہوتا تو ايسا ہى محكم اور ارادے كا مضبوط ہوتاكوئي سوارى اس كے كہسار وجود سے بالاتر نہ ہو سكتى كوئي پرندہ اس كى عظمت كے اوج بلندى سے نہيں گذرسكتا(۲۵)

معاويہ تو حضرت مالك كا جانى دشمن تھا جب اس نے يہ خبر سنى كہ وہ شہيد ہوگئے ہيں تو اس نے كہا كہ علىعليه‌السلام كے دو ہاتھ تھے ان ميں سے ايك تو جنگ صفين ميں قطع ہوگيا وہ تھا عمار اور دوسرا ہاتھ مالك اشتر تھا جو آج شہيد ہوگيا(۲۶)

مصر پر لشكر كشي

معاويہ كو جب يہ معلوم ہوا كہ عراق كى سپاہ نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے حكم سے روگردانى كى ہے اور آرام طلبى و تن پرورى كو اس نے اپنا شعار بناليا ہے تو اس نے عمر و عاص ، ضحاك بن

۳۰۰