تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 348
مشاہدے: 166091
ڈاؤنلوڈ: 3855


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 166091 / ڈاؤنلوڈ: 3855
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 3

مؤلف:
اردو

فتنہ خريت

خوارج كے تباہ كن و خطرناك عقائد ان لوگوں كے دلوں ميں جو ذہنى طور پر فرسودہ و ناكارہ ہوچكے تھے اور اس كج رفتارى كيلئے آمادہ تھے بتدريج قوت پانے لگے اور ان كى وجہ سے اسلامى معاشرے كے لئے وہ نئي مشكل پيدا ہوگئي جس كا ذكر ذيل ميں آئے گا_

'' خريت بن راشد''(۲۱) بہت سرسخت خوارج ميں سے تھا جب حكميت كے نتيجے كا اعلان كيا گيا تو وہ اپنے حواريوں كوساتھ لے كر حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا اور كہنے لگا كہ اس كے بعد مجھ سے آپعليه‌السلام كى اطاعت و فرمانبردارى نہ ہوسكے گى ميں آپعليه‌السلام كے پيچھے نماز بھى ادانہ كروں گا اور كل ميں آپ سے عليحدہ ہوجاؤں گا _

اپنے اس فيصلے كا محرك وہ مسئلہ حكميت كو سمجھتا تھا حضرت علىعليه‌السلام نے اس كو جواب دينے ميں نرم رويہ اختيار كيا اور اسے پند و نصيحت كرنے كے بعد فرمايا : كہ وہ حكميت كے بارے ميں چاہيں تو بحث و گفتگو كرسكتے ہيں اس وقت تو اس نے گفتگو كرنا مناسب نہ سمجھاالبتہ اگلے دن كا وعدہ كر كے چلا گيا مگر رات كے وقت وہ اپنے حواريوں كو ساتھ لے كر فرار كرگيا_

اور ديگر خوارج كى طرح دہشت پسندى اور غارتگرى شروع كردى چنانچہ راہ ميں اسے جتنے بھى كينہ پرور و عناد پسند لوگ ملے وہ اس كے ہمراہ ہوگئے وہ مدائن پہنچ گيا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام '' زياد بن خصفہ'' كو ان كا تعاقب كرنے كے لئے روانہ كيا اور مختلف شہروں ميں اپنے كار پردازوں كو بھى لكھا تا كہ وہ ان علاقوں ميں جو ان كے زير فرمان ہيں ان كى تلاش و جستجو كے لئے اپنے كارندے مقرر كريں اور اس كے نتائج سے آپ كو مطلع و باخبر كرتے رہيں(۲۲) _

حضرت علىعليه‌السلام كے ''قرظہ بن كعب نامى '' كارپرداز نے اسے اپنى حراست ميں لے ليا اور اس واقعے كى حضرت علىعليه‌السلام كو اطلاع كى حضرت علىعليه‌السلام نے زياد كو اس بارے ميں مطلع كيا اور حكم ديا كہ اسے ميرے پاس روانہ كردو اگر وہ آنے سے انكار كرے تو ان كے ساتھ جنگ كرو كيونكہ اس نے نيز

۳۲۱

اس كے حواريوں نے حق كو پس پشت ڈال كر لوگوں كا ناحق خون بہلايا ہے اور راستوں ميں بد امنى پھيلا ركھى ہے_(۲۳)

زياد ا ور خريت ايك دوسرے كے مقابل آئے دونوں كے درميان گفتگو اور سوال و جواب ہوئے خريت اپنے عقيدے ميں پابر جاتھا دونوں كے درميان سخت جنگ ہوئي اور ان كے بيشتر افراد كارى زخموں كے باعث مجروح ہوئے جب رات ہوگئي تو خريت فرار كر كے اہواز كى سمت چلاگيا اور زيادہ واپس بصرہ تشريف لے آئے_

اہواز ميں بہت سے راہزن ، اس كے ہم عقيدہ عرب اور سطحى مسلمان جو اس كى تحريك كو دين پر ضرب لگانے، خراج ادا نہ كرنے اور قانون كى ہر قيد و بند سے خارج ہونے كا ذريعہ و وسيلہ سمجھتے تھے اس كے گرد جمع ہوگئے_

حضرت علىعليه‌السلام كو جب ان واقعات كى اطلاع ملى تو آپعليه‌السلام نے '' معقل بن قيس '' كو ايك ہزار افراد كے ہمراہ جنگ كرنے كے لئے بھيجا آپعليه‌السلام نے صوبہ دار بصرہ حضرت عبداللہ بن عباس كو بھى لكھا كو دو ہزار افراد كے ساتھ كسى دلير و بہادر نيز راستباز شخص كو روانہ كريں تا كہ وہ حضرت معقل كے ساتھ مل كر جنگ كر سكے اس كے ساتھ ہى آپعليه‌السلام نے زياد اور ان كے ہم قبيلہ لوگوں كى تعريف و توصيف كرتے ہوئے انھيں واپس آنے كے لئے حكم صادر كيا(۲۴) _

حضرت ابن عباس نے حضرت خالد بن معدان طائي كو دوہزار افراد كے ہمراہ روانہ كيا خريت كا تعاقب كرنے كے لئے حضرت معقل اہواز پہنچ كر اترے اس وقت خوارج وسيع دشت سے گذر كر كوہ رامہرمز كى بلنديوں كى جانب جانے كى كوشش و فكر ميں تھے تا كہ تعاقب كرنے والى جماعت كى نسبت وہ بہتر اور زيادہ مستحكم جگہ پر قيام كرسكيں ليكن معقل نے انھيں اچانك بے خبر نرغے ميں لے ليا اور ابھى وہ پہاڑ كے دامن سے اوپر نہيں گئے تھے كہ ان پر حملہ كرديا خونريز جنگ ، قبيلہ بنى ناجيہ كے تين سو ستر افراد كے قتل اور ان كے بے دين ساتھى كى كشت و كشتار(جن ميں كچھ عرب، بے دين اور بعض كر دشامل تھے) كے بعد خريت كيلئے فرار كے علاوہ كوئي چارہ باقى نہ رہ گيا

۳۲۲

(۲۵) يہاں سے فرار كرنے كے بعد خريت بحرين ميں دور ترين ممكن مقام پر پناہ گزيں ہوا يہاں بھى اس نے اپنے اغراض و مقاصد كا پر چار شروع كرديا اوردوبارہ لوگوں كو اپنے گرد آنے كى دعوت دينے لگے معقل نے حضرت علىعليه‌السلام كے حكم كے مطابق ان كا تعاقب كيا بحرين پہنچنے كے بعد اس نے سب سے پہلے حضرت علىعليه‌السلام كا وہ خط پڑھ كرسنايا جس ميں آپعليه‌السلام نے مسلمانوں ، عيسائيوں ، مرتدين اور بے دين لوگوں سے خطاب كيا تھا اس كے بعد انہوں نے پرچم دين لہرايا اور كہا كہ خريت اور اس كے ان حواريوں كى علاوہ جو كينہ و عداوت كے باعث مسلمانوں سے عليحدہ ہوگئے ہو جو شخص بھى اس پرچم كے زير سايہ آجائے گا وہ امن و امان ميں رہے گا اور ابھى چند لمحے ہى گذر ے تھے كہ خريت كے اطراف ميں اس كے اہل قبيلہ كے علاوہ كوئي شخص نہ رہا اس كے اور معقل كے درميان سخت جنگ ہوى تجاوز كاروں كى استقامت و پايدارى ايك گھنٹہ سے زيادہ قائم نہ رہ سكى ان كا رہبر اپنے ايك سوسترسے زيادہ افراد كے ساتھ قتل ہوا باقى ساتھى ايسے فرار كر گئے جيسے بھيڑوں كے درميان كوئي بھيڑيا آيا ہوليكن وہ بھى گرفتار و قيد ہوا ان ميں سے جو لوگ تائب ہوگئے معقل نے انھيں آزاد كرديا اور باقى افراد كو جو تعداد ميں پانچ سو سے زيادہ تھے كوفہ كى جانب روانہ كرديا_(۲۶)

آخرس سعى و كوشش

۳۹ ۴۰ ہجرى كے دوران معاويہ كى يورش ميں چونكہ بہت اضافہ ہوگيا تھا اسى لئے حضرت علىعليه‌السلام نے اس كے حملوں كو روكنے كے لئے ان فوجى دستوں كو بھيجنے كے علاوہ جن كى حيثيت محفوظ لشكر كى تھى يہ فيصلہ كيا كہ اپنى تمام سعى و كوشش شام كى جانب لازم و ضرورى فوجى طاقت روانہ كرنے كيلئے صرف كرديں تا كہ معاويہ كى تجاوز كارى كا ہميشہ كے لئے سد باب ہوسكے كيونكہ آپ كے لئے اس كے علاوہ كوئي چارہ باقى نہيں رہ گيا تھا كہ مكمل جنگى سطح پر اس كا مقابلہ كيا جائے تا كہ اس شر سے ہميشہ كے لئے نجات حاصل ہو اور وہ بھى اپنى جگہ خاموش ہركر بيٹھے رہے_

۳۲۳

اس فيصلے كے بعد آپ نے حضرت معقل بن قيس كو سَواد (۲۷) كوفہ(۲۸) كى جانب روانہ كيا تا كہ لوگوں كو جنگ ميں شريك ہونے كى دعوت دے سكيں _

آپعليه‌السلام نے والى آذربائيجان قيس بن سعد كو بھى خط لكھا جس ميں مرقوم فرمايا كہ وہ لوگوں كو شام كى جانب روانہ ہونے كيلئے آمادہ اور نظرياتى اعتبار سے ان ميں وحدت يكجہتى كرے(۲۹)

اس كے علاوہ حضرت علىعليه‌السلام نے خود بھى كوفہ كے لوگوں كو آمادہ كرنے كے لئے مفصل تقرير كى جس ميں آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ اے ا للہ كے بندو گذشتہ اقوام كى تاريخ پر غور و فكر كرنا تمہارے لئے بيش قيمت درس عبرت ہے كہاں ہيں وہ بادشاہوں كے غول اور ان كے وارثين سلطنت كہاں ہيں فراعنہ اور ان كے جانشين ؟ كدھر گئے وہ خاندان رس كے مدنى فرمانروا جن سب نے پيغمبروں كو تہ تيغ، سنت كے روشن چراغوں كو خاموش اور ستمگروں كى راہ و روش كو زندہ كيا تھا كہاں گئے وہ فرمانروا جو عظيم لشكر لے كر روانہ ہوئے اور جنہوں نے ہزاروں بلكہ لاكھوں كى سپاہ كو شكست دى كدھر جاچھپى فاتحين كى وہ فوج كثير تعداد جو يكجا جمع ہوئي اور جس نے نئے شہروں كى بنياد ركھي؟

...خدا كے برگزيدہ و نيك بندے سفر پرجانے كے لئے كمربستہ ہوگئے انہوں نے دنيا كا فانى و بے ثبات چند روزہ چيزوں كا سودا آخرت كى جاودانى زندگى سے كيا سچ تو يہ ہے كہ ہمارے وہ بھائي جنہوں نے جنگ صفين ميں اپنا خون بہايا تھا اگر آج اس دنيا ميں نہيں ہيں تو انہوں نے كون سا خسارہ برداشت كيا؟

كہاں ہيں وہ ميرے بھائي جنہوں نے جہاد كى راہ اختيار كى اور جادہ حق طے كيا كہاں ہيں عماريا كہاں گئے ابن تيہان ذوالشہادتين ؟اور كدھر گئے ان جيسے دوسرے لوگ جنہوں نے موت سے عہد و پيمان كيا اور شرپسندوں كے ہاتھوں اپنے سر قلم كرائے اس كے بعد آپعليه‌السلام نے ريش مبارك پر اپنے ہاتھ ركھے اور كافى دير تك گريہ و زارى كرتے رہے _اس كے بعد فرمايا: كہ افسوس افسوس كہاں گئے وہ ميرے بھائي جنہوں نے قرآن پاك كى تلاوت كى اور زندگى ميں اسے اپنا حاكم بنايا اپنے فرائض كے پابند رہے اور ہميشہ انھيں پورا كيا انہوں نے سنت نبوى كو زندہ

۳۲۴

اور بدعتوں كا قلع قمع كيا انہوں نے جہاد كى حكومت كو قبول كيا اور اپنے ہادى اور رہبر پر پورا اعتماد كرتے ہوئے اس كى پيروى كى _

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے بآواز بلند فرمايا: (جہاد جہاد) اے خدا كے بندو ميں تمہيں يہ بتادينا چاہتا ہوں كہ آج ميں بھى تمہارے ساتھ عسكر گاہ كى جانب چلوں گا جو شخص بھى خدا كى جانب جلد از جلد آنا چاہتا ہے وہ نكل كر ہمارے ساتھ آئے_(۳۰)

آپعليه‌السلام كى اس سعى و كوشش كا يہ نتيجہ بر آمد ہوا كہ تقريبا چاليس ہزار افراد عسكر گاہ ميں جمع ہوگئے_

بقول '' نوف بكالي'' آپعليه‌السلام نے دس ہزار سپاہ كا پرچم حضرت امام حسينعليه‌السلام كو ديا دس ہزار سپاہى حضرت قيس كے زير نگرانى كئے دس ہزار سپاہ حضرت ابوايوب انصارى كى زير فرماندارى مقرر كئے اور دس ہزار سپاہى ان ديگر فرمانداروں كے حوالے كئے جنہوں نے اس تعداد ميں مزيد اضافہ كيا تھا اور حكم ديا كہ پورى فوج صفين كى جانب روانہ ہوليكن ابھى جمعہ بھى نہ گذر ا تھا كہ آپعليه‌السلام كے سرمبارك پر ابن ملجم نے كارى ضرب لگائي جس كے باعث لشكر بحالت مجبورى واپس كوفہ آگيا_(۳۱)

حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف دہشت پسندانہ سازش

تمام مشكلات اور سختيوں كے باوجود حضرت علىعليه‌السلام جس زمانے ميں شام كى جانب روانہ ہوئے اور معاويہ سے جنگ كا تدارك كر رہے تھے اسى عرصہ ميں چند خوارج بظاہر مراسم حج بيت اللہ ادا كرنے كى نيت سے مكہ ميں جمع ہوئے يہاں انہوں نے چند جلسات كى تشكيل كى جس ميں ان مقتولين كو ياد كيا جو جنگ نہروان ميں كام آگئے تھے ان كے خيال ميں وہ لوگ بے قصور مارے گئے تھے اور ان كے قتل كے اصل ذمہ دار حضرت علىعليه‌السلام ، معاويہ اور عمروعاص تھے_

ان كے خيال ميں يہ تينوں ہى حضرات '' ائمہ ضلال (گمراہوں كے امام) تھے_ چنانچہ انہوں نے فيصلہ كيا كہ تينوں كا فيصلہ كرديا جائے تا كہ اس طرح باہمى اختلاف ، كشمكش اور ناانصافى كى بيخ

۳۲۵

كنى كرديں _

ان ميں سے تين افراد نے اس مقصد كے لئے اپنى زندگى داؤ پر لگادى _ تا كہ تينوں مذكورہ حضرات كى زندگى كو ختم كرديں حضرت علىعليه‌السلام كو قتل كرنے كا ذمہ عبدالرحمن ابن ملجم نامى نے ليا انہوں نے اس سازش كى تكميل كے لئے باہمى عہد و پيمان كئے اور يہ فيصلہ كيا كہ بتاريخ ۱۹ ماہ رمضان ۴۰ ھ صبح كے وقت وہ اپنى دہشت پسندانہ كاروائي پر عمل در آمد كريں گے اس كے بعد وہ ايك دوسرے سے جداہوگئے_

ابن ملجم كوفہ ميں داخل ہوا اور اپنى چچازاد بہن قَطَام كے گھر پہنچا وہ اس كے ساتھ پہلے بھى چونكہ معاشقہ كرچكا تھا اسى لئے اب اسے اپنى شادى كرنے كا پيغام ديا قَطَام خود خوارج ميں سے تھى اس كے بھائي اور باپ كا قتل جنگ نہروان ميں ہوچكا تھا اسى لئے اس كے دل ميں حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف سخت عداوت و دشمنى تھى اس نے كہا كہ ميں اس شرط پرشادى قبول كرسكتى ہوں كہ ايك كنيز و غلام اور تين ہزار درہم نقد دينے كے علاوہ تو علىعليه‌السلام كو قتل كردے اگر تو اس مقصد ميں كامياب ہوگيا تو تو ميرے كليجے كو ٹھنڈا كرے گا اور مجھ سے داد مراد پائے گا اور اگر كہيں تو خود مارا گيا تو تجھے دنيوى نعمتوں سے كہيں زيادہ عظيم اس كااجر و ثواب ملے گا _

ابن ملجم نے جب ديكھا كہ يہ عورت اس كام كے لئے بہت زيادہ اصرار كررہى ہے تو اس نے بتاديا كہ ميں يہى ناپاك ارادہ لے كر كوفہ سے آيا ہوں _(۳۲)

ابن ملجم نے شبيب بن بجرہ نامى دوسرے شخص سے جو خود بھى خوارج ميں سے تھا اس كام ميں مدد لى قطام نے و ردان بن مجالد كو بھى اس كے ساتھ كرديا تا كہ وہ بھى اس كام ميں اس كا مدد گار ہوسكے اس نے '' اشعث بن قيس'' كو بھى اپنا راز دار بناليا اس شخض نے بھى اس كام كو تمام كرنے كے لئے اس كى حوصلہ افزائي كي (۳۳)

۳۲۶

شہادت كا انتظار

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے احاديث نبوى اور علم لدنى كى بنياد پر يہ پيشين گوئي كردى تھى كہ آپعليه‌السلام كى شہادت ماہ رمضان المبارك كے آخرى عشرہ ميں واقعہ ہوگى جب ماہ رمضان آگيا تو افطار كے بعد آپعليه‌السلام كبھى امام حسنعليه‌السلام كبھى امام حسينعليه‌السلام اور بعض راتوں ميں حضرت عبداللہ بن عباس كے گھر قيام فرماتے ليكن افطار كے وقت تين لقموں سے زيادہ تناول نہ فرماتے جب اس كى وجہ دريافت كى گئي تو آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميرى يہ آرزو ہے كہ خداوند تعالى كا ديدار شكم سير ہوئے بغير كروں(۳۴)

ماہ مبارك كى انيسويں شب ميں اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام پر سخت ہيجانى كيفيت طارى تھى آپعليه‌السلام اچانك گھر كے اندر سے نكل كر صحن ميں تشريف لے آتے اور وہاں ٹہلنے لگتے اور آسمان كى طرف ديكھتے_ آپعليه‌السلام نے سب حاضريں كو بتادياتھا كہ آج كون سا عظيم حادثہ رونما ہونے والا ہے آپ يہ فرماچكے تھے كہ '' خدا كى قسم ميں غلط نہيں كہہ رہا رہوں اور مجھے غلط خبر نہيں دى گئي ہے كہ آج كى رات وہى رات ہے جس كا مجھ سے وعدہ كيا جاچكا ہے(۳۵)

اس رات حضرت علىعليه‌السلام تمام وقت بيدار رہے پورى رات تلاوت قرآن مجيد اور عبادت ميں گذرى طلوع فجر سے قبل جب آپ گھر سے مسجد تشريف لے جانے لگے تو راستے ميں مرغابياں آگئيں جنہيں راستے سے دور كرديا گيا اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ انھيں كچھ مت كہو يہ نوحہ و گريہ كر رہيں ہيں(۳۶)

شہادت

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام مسجد ميں تشريف لائے جو لوگ محو خواب تھے انھيں بيدار كيا كہ خداوند تعالى كى عبادت و مناجات ميں مشغول ہوں آپعليه‌السلام نے ابن ملجم كو بھى بيدار كيا(۳۱) وہ تو اول شب سے ہى آپعليه‌السلام كى آمد كا منتظر تھا ا وراس وقت خود كو سوتا ہوا بناليا تھا اس كے بعد

۳۲۷

آپعليه‌السلام نماز ادا كرنے كيلئے كھڑے ہوئے اور قلب و زبان كو ذكر خدا ميں مشغول كرديا_

اس وقت شبيب نے چاہا كہ آپعليه‌السلام پر تلوار سے وار كرے مگر اس كى تلوار محراب مسجد نے ٹكرا كر رہ گئي ابن ملجم تباہ كار جلدى سے آگے آيا اس نے اپنى تلوار اوپر اٹھائي اور باواز بلند كہا ''الحكم للہ لا لك يا على و لا لاصحابك'' يہ كہہ كر اس نے حضرت علىعليه‌السلام كے سر مبارك پر اپنى تلوار اٹھائي جو ٹھيك اسى جگہ لگى جہاں جنگ خندق ميں ''عمرو بن عبدود''(۳۷) كى تلوار آپ كے سرمبارك پر لگ چكى تھى حق و عدل كا وہ پيكر جو صريح و واضح كفر اور الحاد كے ضربات سے زمين پر نہيں گرسكا تھا آج نفاق اور جہل و تعصب آميز ظاہرى تقدس كے ايك ہى وار سے خاك و خون ميں لوٹنے لگا حضرت علىعليه‌السلام نے جيسے ہى ضرب شمشير كو محسوس كيا فرمايا: ''فزت و رب الكعبه'' (۳۸) قسم كعبہ كے خدا كى آج ميں نے كاميابى حاصل كي_

آپعليه‌السلام كے فرزندوں اور اصحاب پر تو گويا غم و اندوہ كا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہر طرف سے گريہ و نالہ اور آہ و بكا كى صدائيں سنائي دينے لگيں لوگ سراسيمگى كى حالت ميں مسجد كى جانب دوڑے_

حضرت علىعليه‌السلام كا سرمبارك حضرت امام حسنعليه‌السلام كى آغوش ميں تھا جس سے مسلسل خون جارى تھا زخم كى شدت اور بہت زيادہ خون بہہ جانے كى وجہ سے آپعليه‌السلام اب تك بے ہوشى كى حالت ميں تھے ابن ملجم بھى پكڑا گيا اور اسے حضرت امام حسنعليه‌السلام كى خدمت ميں پيش كيا گيا حضرت مجتبىعليه‌السلام نے اس سے فرمايا اے ملعون تو نے پيشوائے مسلمين حضرت علىعليه‌السلام كو قتل كرديا كيا نيكى اور خير خواہى كا بدلہ يہى ہے تو وہى شخص ہے جسے خليفہ وقت نے پناہ دى اور اپنا مقرب بنايا؟

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے والد محترم كى خدمت ميں عرض كيا بابا جان يہ آپ كا اور خدا كا دشمن بحمداللہ گرفتار كرليا گيا ہے وہ اس وقت آپ كے روبرو حاضر ہے_

حضرت علىعليه‌السلام نے چشم مبارك كو كھولا اور فرمايا كہ تو بہت عظيم سانحہ كا مرتكب ہوا ہے اور تو نے نہايت ہى خطرناك كام كيا ہے كيا ميں تيرے لئے برا امام ثابت ہوا؟ ايسى كون سى مہربانى اور بخشش تھى جو ميں نے تيرے حق ميں روانہ ركھى كيا لطف و مہربانى كا يہى بدلہ وصلہ ہے؟

۳۲۸

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے حضرت امام حسنعليه‌السلام سے فرمايا كہ اے فرزند عزيز اپنے اس قيدى كے ساتھ خاطر و مدارات كا سلوك كرنا اور اس كے ساتھ مہربانى و نوازش سے پيش آنا_

جو كچھ تم كھاؤ اور پيو وہى تم اسے كھلانا اور پلانا اگر ميں مرجاؤں توميرے خون كے قصاص ميں اسے قتل كردينا مگر اس كے ناك، كان نہ كاٹنا كيونكہ ميں نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زبان مبارك سے سنا ہے كہ اس كتے كے بھى ناك كان نہ كاٹو جس نے تمہيں كاٹا ہے اور اگر ميں بچ گيا تو ميں ہى جانتا ہوں كہ اس كے ساتھ كيا سلوك كروں گا اسے معاف كردينے ميں مجھے سب پر فضيلت حاصل ہے كيونكہ ہمارا خاندان وہ خاندان ہے جس نے بڑے بڑے گناہگاروں كو معاف كيا اور ان كے ساتھ ہم بزرگوارى كے ساتھ پيش آتے ہيں(۳۹)

حضرت امام حسنعليه‌السلام اپنے والد بزرگوار كو گھر لے آئے لوگ گريہ و نالہ كرتے اور آپ سے رخصت ہوتے عجب كہرام كا عالم تھا لگتا تھا كہ غمگساروں كى جان كھينچ كرلبوں پر آگئي ہے_

حضرت امام مجتبىعليه‌السلام نے بعض اطبا كو جن ميں اثير بن عمرو سكونى سب سے زيادہ ماہر و حازق طبيب تھے علاج كے لئے بلايا انہوں نے كہا كہ بھيڑ كا تازہ جگر لاؤ اس كى ايك رگ انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے زخم كے اندر ركھى اور اسے باہر نكال ليا انہوں نے ديكھا كہ مغز كى سفيدى اس رگ پر لگ گئي ہے اور دم شمشير كى ضرب نے دماغ تك اثر كيا ہے يہ ديكھ كر اس طبيب نے كہا '' يا اميرالمومنين اگر كوئي وصيت كرنا چاہيں تو كرديجئے''(۴۰)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے فرزندوں كو اخلاق حسنہ كى وصيت فرمائي اپنى زندگى كے قابل قدر و قيمت درس انھيں اور تمام مسلمين كو ديئے _ امور خلافت اپنے فرزند محترم امام حسنعليه‌السلام كو تفويض كيئے اور اس كا گواہ اپنے فرزندوں اور بزرگان خاندان كو بنايا كلام مجيد اور اپنا اسلحہ آپ كى تحويل ميں ديا_

جب حضرت علىعليه‌السلام اپنے فرزندوں كو پند ونصائح كرچكے تو آپعليه‌السلام نے موت كى علامات محسوس كيں اس كے بعد آپ قرآن پاك كى تلاوت ميں مشغول ہوگئے آخرى آيت جوآپ كى

۳۲۹

زبان مبارك پر آئي وہ يہ تھي_

) فمن يعمل مثقال ذرة خير ايره و من يعمل مثقال ذرة شر ايره ( (۴۱)

(پھر جس نے ذرہ برابر نيكى كى ہوگى وہ اس كو ديكھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدى كى ہوگى وہ اس كو ديكھ لے گا)

بتاريخ ۲۱ رمضان ۴۰ ھ اس وقت جب كہ آپ كاسن شريف تريسٹھ برس كا تھا آپ كى روح مقدس و مطہر اس جہان فانى سے پرواز كر كے عالم جاودانى كى جانب عروج كرگئي_

حضرت امام حسنعليه‌السلام نے اپنے ديگر بھائيوں اور حضرت علىعليه‌السلام كے اصحاب كى مدد سے اپنے شہيد والد محترم كى تجہيز كا انتظام كيا غسل و كفن كے بعد جب كچھ رات گذر گئي تو اس پيكر مقدس كو كوفہ سے باہر لے آئے تمام راستہ جنازے كے پيچھے رہ كر طے كيا اور جنازہ اس جگہ لايا گيا جو آج نجف اشرف كے نام سے مشہور و معروف ہے نماز جنازہ ادا كرنے كے بعد انتہايى خاموشى كے ساتھ اس پيكر تقدس كو سپرد خاك كرديا( ۴۲)

سلام عليه يوم ولد و يوم استشهد و يوم يبعث حيا

سلام ہو آپ پر جس دن آپ كى ولادت ہوئي اور جس دن شہيد كئے گئے اور جس دن زندہ اٹھائے جائيں گے_)

۳۳۰

سوالات

۱_ معاويہ نے كن محركات كے تحت دہشت پسند دستے ان مناطق ميں بھيجے جہاں حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت تھي؟

۲_ بسر بن ارطاہ نے جو قتل و غارتگرى كى اس كى كچھ مثاليں بيان كيجئے ان كے تجاوز كارانہ اقدام كا حضرت علىعليه‌السلام كى جانب سے كيا رو عمل ہوا؟

۳_ سپاہ عراق پر سپاہ شام كى كاميابى كے كيا عوامل تھے؟ نہج البلاغہ ميں بيان كئے گئے حضرت علىعليه‌السلام كے اقوال كى روشنى ميں اس امر كى وضاحت كيجئے؟

۴_ معاويہ كے حملات اور تجاوز كارانہ اقدامات كا سد باب كرنے كيلئے حضرت علىعليه‌السلام كا آخرى فيصلہ كيا تھا؟

۵_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو قتل كرنے كے لئے خوارج نے كيا سازش كى اس اقدام ميں كون سے عوامل كار فرماتھے؟

۶_ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے قاتل كے بارے ميں كيا ارشاد فرمايا؟ اور حضرت امام حسنعليه‌السلام كو اس سلسلے ميں كيا پند نصائح كيئے

۷_ حضرت علىعليه‌السلام كى شہادت كس تاريخ كو واقع ہوئي شہادت كے وقت آپ كا سن مبارك كتنا تھا؟

۳۳۱

حوالہ جات

۱_ يہ كوفہ كے مغرب ميں شہر انباركے نزديك بستى تھى (معجم البلدان ج ۴ پ ۱۷۶)الغارات ج ۲ /۴۴۵ ، طبرى ج ۵ / ۱۳۳ ، كامل ابن اثير ج ۳ / ۴۷۵ ، شرح ابى الحديد ج ۲ / ۳۰۵ _ ۳۰۱

۲_ يہ شہر دريائے فرات كے كنارے بغداد اور انبار كے درميان واقع تھا(معجم البلدان ۵/۴۲۰)

۳_ شرح ابن ابى الحديد ج ۲ ص ۸۵ ، كامل ابن اثير ج ۳/۳۷۶ و الغارات ج ۲ /۴۶۴

۴_ نہج البلاغہ خ ۲۷

۵_ يہ بستى شام كے اطراف ميں شام اور وادى القرى كے درميان اس راستے پر واقع ہے جہاں سے شام و دمشق كے حجاج گذر كر مكہ پہنچتے تھے (معجم البلدان ج ۲ /۶۷)

۶_ تاريخ طبرى ج ۵/۱۳۴ ، كامل ابن اثير ج ۳/۳۷۶ ، تاريخ يعقوبى ج ۲/۱۹۶

۷_ يہ كوفہ كے راستے ميں ايسى بستى تھى جہاں حجاج قيام كرتے تھے يہ خزيمہ سے پہلے اور شقوق كے بعد حجاج كى منزل گاہوں پر واقع تھي_

۸_ يہ جگہ كوفہ كے نزديك خشكى كى سمت واقع تھى سرزمين طف اور زندان نعمان بن منذر اسى جگہ تھى (معجم البلدان ج ۴/۳۷۴)

۹_ تاريخ طبرى ج ۵/۱۳۵ ، ليكن ثقفى نے الغارات كتاب ج ۳/۴۲۲ ميں لكھا ہے كہ ضحاك بن قيس نے عمرو بن عميس نيز اس كے ساتھيوں كو قتل كرديا_

۱۰_ تدمر سرزمين شام كا قديم شہر تھا يہ جگہ شہر حلب سے پانچ دن كے سفر پر وقع تھى (معجم البلدان )_

۱۱_ تاريخ طبرى ج ۵ /۱۳۵ ، الغارات ج ۲/۴۲۵_

۱۲_ ملاحظہ ہو الغارات ج ۲ /۶۰۰، و ديگر بعد كے صفحات ، نيز شرح ابن ابى الحديد ج ۲/۱۷_۷ و الغاتى ۱۶/۲۶۶_

۱۳_ نہح البلاغہ خ ۲۵_

۱۴ شرح ابن ابى الحديد ج ۲ / ۱۶_

۱۵_ تاريخ يعقوبى ج ۲ / ۲۰۰_

۳۳۲

۱۶_انى لعالم بما يصلحكم و يقم اودكم و لكنى لا ارى اصلاحكم بافساد نفسى نہج البلاغہ خ ۶۹_

۱۷_ نہج البلاغہ خ ۱۷_

۱۸_ نہج البلاغہ خ ۱۱۹_

۱۹_ نہج البلاغہ خ ۱۵۹_

۲۰_ ان كا ذكر سطور ذيل ميں آئے گا_

۲۱_ يہ حضرت جنگ جمل اور جنگ صفين ميں حضرت علىعليه‌السلام كے ہمراہ تھے جنگ جمل ميں تو انہوں نے قبيلہ نصر كى فرماندارى كے فرائض بھى انجام دئے ليكن مسئلہ حكميت كے بعد حضرت علىعليه‌السلام سے برگشتہ ہوگئے اور آپعليه‌السلام كى مخالفت پر اتر آئے _ الغارات ج ۱/۳۳۳_ ۳۳۲ _

۲۲_ الغارات ج ۱ ۳۳۸_۳۳۲_

۲۳_ الغارات ج ۱ ۳۴۲/۳۴۹_

۲۴_ الغارات ج ۱/۳۴۹_

۲۵_ الغارات جلد ،۱ ۳۵۳_۳۵۲_ كامل ابن اثير ج ۳ / ۳۶۸_۳۶۷_

۲۶_ الغارات ج ۱ /۳۵۹_كامل ابن اثير ۳/۳۶۹_

۲۷_'' سواد كوفہ '' اطراف كوفہ ميں وہ جگہ تھى جہاں كھجور كے درخت اس كثرت سے تھے كہ دور سے وہ جگہ سياہ نظر آتى تھى اسى وجہ سے اسے سواد كہا جاتا تھا يہ جگہ طول ہيں موصل سے آبادان تك اور عرض ميں غريب سے علوان تك پھيلى ہوئي تھى (مجمع البحرين ج ۳/۷۲)_

۲۸_ الغارات ج ۲ /۷۸۲ ، تقيح المقال ما مقانى ج۳/۲۹۷ _

۲۹_ تاريخ يعقوبى ج ۲ /۲۰۳_

۳۰_ ملاحظہ ہو نہج البلاغہ كا خطبہ ۱۸۲_

۳۱_ نہج البلاغہ خ ۱۸۲ ، ومناقب ابن شہر آشوب ج ۳ /۱۹۴_

۳۲_ مروج الذہب ج ۲/۴۱۱ ، بحار ج ۴۲/۲۲۸، مقاتل الطالبين ۱۸تاريخ طبرى ج ۵/۱۴۳_

۳۳۳

۳۳ _ حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كے قتل ميں اشعث بن قيس شركت تھا اس كى بيٹى نے حضرت امام حسنعليه‌السلام كو زہر ديااس كابيٹا محمد بھى حضرت امام حسينعليه‌السلام كے قتل ميں شريك تھا بحار ج ۴۲/۲۲۶_

۳۴_ بحار ج ۴۲/۲۲۴ ، ارشاد مفيد ۱۴_

۳۵_و الله ما كذبت و لا كذبت انها معى ليلة التى وعدت فيها بحار ج ۴۲/۲۲۶ ، ارشاد ۱۵ _

۳۶_ذروهن فانهن نوائح بحار ج ۴۲ /۲۲۶ ، و ارشاد مفيد/۱۵_

۳۷_ بحار ج ۴۲/۲۲۶ ، ارشاد ص ۱۲_

۳۸_ مناقب ج ۳/۳۱۲ ، بحار ج ۴۲/۲۳۹_

۳۹_ بحار الانوار ج ۴۲ /۲۸۸_۲۸۷_

۴۰_ مقاتل الطالبين ۲۳_

۴۱_ سورہ زلزال آيہ ۶_

۴۲_ بحارالانوار ج ۴۲/۲۹۴_

۳۳۴

فہرست

عرض ناشر: ۵

حضرت على _ كى زندگي مختلف ادوار ۶

پہلا سبق ۷

ولادت سے حضرت محمد مصطفي صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مبعوث بہ رسالت ہونے تك ۷

ولادت ۹

پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زير دامن آپ كى پرورش ۹

بعثت سے آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت تك ۱۱

بے نظيرقربانى ۱۲

ہجرت سے آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت تك ۱۲

علي عليه‌السلام رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے امين ۱۲

علي عليه‌السلام رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بھائي ۱۳

على عليه‌السلام اور راہ خدا ميں جنگ ۱۴

علي عليه‌السلام جنگ بدر كے بے نظير جانباز ۱۴

حضرت على عليه‌السلام رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تنہا محافظ ۱۵

مرحلہ فتح و كاميابى : ۱۵

مرحلہ شكست : ۱۶

جنگ خندق ميں على عليه‌السلام كا كردار ۱۷

على عليه‌السلام فاتح خيبر ۱۸

اميرالمومنين عليه‌السلام كى سياسى زندگى ميں جنگجوئي كے اثرات ۱۹

۳۳۵

حضرت على عليه‌السلام اور پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشيني ۲۰

حديث يوم الدار ۲۱

حديث منزلت ۲۲

قرآن مجيد ميں حضرت ہارون كے مقامات ومناصب: ۲۲

حديث غدير ۲۳

سوالات ۲۵

حوالہ جات ۲۶

دوسر ا سبق ۳۰

رسول اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳۰

رسول اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك(۱) ۳۱

وفات پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا ۳۱

غير متوقع حادثہ ۳۲

پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ شيعوں كى نظر ميں ۳۲

لاتعلقي ۳۴

لوگوں كا دور جاہليت كى جانب واپس چلے جانے كا خطرہ ۳۴

شورى ۳۵

وصى اور جانشين كا تقرر ۳۶

سقيفہ ميں رونما ہونے والے حالات ۳۷

اس خطبے كے اہم نكات ۳۸

انصار كا ردّعمل ۳۹

۳۳۶

على عليه‌السلام كى بيعت كے بارے ميں تجويز ۴۰

سقيفہ كے واقعات كے بعد حضرت على عليه‌السلام كا ردعمل ۴۱

على عليه‌السلام نے كيوں عجلت نہيں كي؟ ۴۳

سوالات ۴۵

حوالہ جات ۴۶

تيسرا سبق ۴۸

رسول اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۲ ۴۸

حضرت على عليه‌السلام كے گھر ميں پناہ گزيني ۴۹

انصار سے مدد چاہنا ۵۰

حساس صورتحال ۵۰

قيام نہ كرنے كے دلائل اور وجوہات ۵۱

۱_ معقول فوجى طاقت كى كمي ۵۱

۲_ اسلام اور اسلامى وحدت كا تحفظ ۵۲

۳_ جاہليت كى طرف بازگشت ۵۳

۴_ كينہ تو ز دشمن ۵۴

بيعت كا انجام ۵۵

مسئلہ فدك ۵۵

فدك پر قابض ہونے كے محركات ۵۷

۱_ مخالفين كو اپنے جانب متوجہ كرنا ۵۷

۲_ جمع وخرچ كى مد ميں كمي ۵۸

۳۳۷

۳_ على عليه‌السلام كى اقتصادى قوت كے باعث خطرے كا احتمال ۵۸

مخالفين كى سركوبي ۵۹

شورشوں كا دباجانا ۶۱

حضرت فاطمہ عليه‌السلام كى وفات ۶۱

سوالات ۶۴

حوالہ جات ۶۵

چوتھا سبق ۶۸

رسول اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳ ۶۸

سرزمين شام و عراق كى فتح ۷۰

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت ۷۱

حضرت على عليه‌السلام ' اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات ۷۱

جانشينى كا تعين ۷۲

قلمرواسلام كى وسعت ۷۳

فتوحات كى خوشخبريوں كے اثرات ۷۴

حضرت على عليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى وعلمى مشورے ۷۵

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني ۷۶

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي ۷۷

بيت المالك كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ ۷۸

خليفہ دوم كا قتل ۷۹

كونسى شوري؟ ۷۹

۳۳۸

مذكورہ شورى كے بارے ميں حضرت على عليه‌السلام كى نظر ۸۰

حضرت على عليه‌السلام كى شركت اور اس كى وجہ ۸۱

عثمان كى خلافت ۸۲

مسلمانوں كا بيت المال ۸۳

حضرت على عليه‌السلام كے پندو نصايح ۸۴

خليفہ سوم كا قتل ۸۶

حضرت على عليه‌السلام كى نظر ميں عثمان كا قتل(۴۶) ۸۷

پچيس سالہ حكومت خلفاء كے دوران على عليه‌السلام كے كارنامے ۸۸

سوالات ۹۰

حوالہ جات ۹۱

پانچواں سبق ۹۵

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۹۵

حضرت علي عليه‌السلام كى بيعت ۹۶

بيعت كے بعد لوگوں ميں سرور و شادماني ۹۸

قريش كى وحشت و پريشاني ۹۹

گوشہ نشين لوگ ۱۰۰

حضرت علي عليه‌السلام كى بيعت كے امتيازات ۱۰۱

سوالات كے جوابات ۱۰۲

حضرت على عليه‌السلام نے كن مقاصد كے تحت حكومت قبول فرمائي_ ۱۰۳

ابتدائي اقدامات ۱۰۴

۳۳۹

نيك اور صالح كاركنوں كا تقرر ۱۰۵

مساوى حقوق كى ضمانت ۱۰۷

لوٹے ہوئے مال كى واپسي ۱۰۸

بدعنوانيوں ميں ملوث دولتمندوں كى رخنہ اندازي ۱۱۰

سوالات ۱۱۱

حوالہ جات ۱۱۲

چھٹا سبق ۱۱۵

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۲ ۱۱۵

ناكثين(حكومت على عليه‌السلام كى مخالفت) ۱۱۶

ناكثين ۱۱۷

موقف ميں تبديلي ۱۱۹

مكہ ميں مخالفين كا جمع ہونا ۱۲۱

سپاہ كے اخراجات ۱۲۲

عراق كى جانب روانگي ۱۲۳

سپاہ كى جانب عثمان بن حنيف كے نمايندوں كى روانگي ۱۲۴

پہلا تصادم ۱۲۵

دھوكہ وعہد شكني ۱۲۷

جمل اصغر ۱۲۷

سردارى پر اختلاف ۱۲۸

خبر رساني ۱۲۹

۳۴۰