تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 348
مشاہدے: 166008
ڈاؤنلوڈ: 3855


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 166008 / ڈاؤنلوڈ: 3855
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 3

مؤلف:
اردو

بھتيجے كے دست مبارك پر بيعت كريں ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے ان كى تجويز كو بھى منظور كرنے سے انكار كر ديا _(۱۷)

حضرت عباس كى تجويز كو حضرت علىعليه‌السلام نے كيوں منظور نہےں فرمايا اس كا ذكر بعد مےں كيا جائے گا ، يہاں ابوسفيان كى تجويز كے بارے ميں وضاحت كر دينا ضرورى ہے كہ ابو سفيان كى كى پيشكش حسن نيت پر مبنى نہيں تھى بلكہ اس كا مقصد اختلاف و فتنہ پرپا كرنا تھا اس نے جانشينى پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بارے ميں مسلمانوں كى رسہ كشى اور اختلاف كو اچھى طرح محسوس كر ليا تھا وہ جانتا تھا كہ ابو بكر و عمر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كے چكر ميں ہےں اور اسے يہ معلوم تھا كہ سياسى اور معنوى اعتبار سے بنى ہاشم ہى ان كا مقابلہ كر سكتے ہيں لہذا وہ اپنے ناپاك مقصد كے حصول كے غرض سے خدمت امامعليه‌السلام مےں آيا اور آپ كو جنگ كيلئے ابھارا _

آپ نے ابوسفيان كى گفتگو سے اس اختلاف كا اندازہ لگا ليا تھا چنانچہ آپ خود فرماتے ہيں ميں ايك طوفان ديكھ رہا ہوں كہ جس كى منھ زوريوں كو خون ہى روك سكتا ہے(۱۸) پھر آپ اپنى رائے مےں صحيح تھے اگر بنى ہاشم اور ان كے سردار حضرت على بن ابيطالبعليه‌السلام فداكارى اور صبر سے كام نہ ليتے تو اس طوفانى اختلاف كو كشت و خون كے علاوہ كوئي چيز خاموش نہيں كر سكتى تھى _

سقيفہ كے واقعات كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كا ردعمل

سقيفہ ميں جو اجتماع ہوا تھا وہ اس طرح اختتام پذير ہوا كہ انصار و مہاجرين مےں سے چند افراد نے ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كر لى اس كے بعد يہ مجمع مسجد كى جانب روانہ ہوا تاكہ وہاں عام مسلمان بيعت كر سكيں عمر اس مجمع مےں پيش پيش تھے اور راہ ميں جو بھى ملتا اس سے كہتے كہ وہ ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كر لے _(۱۹)

حضرت علىعليه‌السلام ابھى پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جسد مبارك كے تكفين و تدفين مےں مشغول و منہمك تھے كہ لوگوں كے شورو غل كى صدائيں سنائي ديں اور صحيح واقعے كا اس كے ذريعے علم ہوا خلافت كى اہليت كے

۴۱

بارے ميں جب مہاجرين كى يہ حجت و دليل آپ كو بتائي گئي كہ انہوں نے اس بات پر احتجاج كيا كہ خليفہ خاندان قريش اور شجر نبوت كى شاخ ہو تو اس پر آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ انہوں نے تكيہ تو درخت پر ہى كيا ليكن اس كے پھل كو تباہ كر ڈالا _(۲۰)

حضرت علىعليه‌السلام كا دوسرا رد عمل پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جسد مبارك كى تدفين كے بعد ظاہر ہوا _ حضرت علىعليه‌السلام مسجد مےں تشريف فرما تھے اس وقت بنى ہاشم كے افراد بھى كافى تعداد ميں وہاں موجود تھے بعض وہ لوگ جو ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كر چكے تھے آپ كے اور افراد بنى ہاشم كے گرد جمع ہو گئے اور كہنے لگے كہ طائفہ انصار نيز ديگر افراد نے ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كر لى ہے آپ بھى بيعت كر ليجئے ورنہ تلوار آپ كا فيصلہ كرے گى _

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميں ان سے زيادہ بيعت كے لئے اہل وقابل ہوں تم لوگ ميرے ہاتھ پر بيعت كرو تم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قربت كے باعث خلافت انصار سے لے لى اور انہوں نے بھى يہ حق تسليم كر ليا خلافت كے لئے ميرے پاس بھى دلائل موجود ہيں مےں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں ہى نہےں بلكہ رحلت كے وقت بھى ان كے سب سے زيادہ قريب و نزديك تھا ميں وصى ' وزير اور علم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا حامل ہوں ميں كتاب خدا اور سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بارے مےں سب سے زيادہ واقف و باخبر ہوں امور كے نتائج كے بارے ميں تم سے زيادہ جانتا ہوں ، ثبات و پائداراى مےں تم سے سب سے بہتر محكم و ثابت قدم ہوں اس كے بعد اب تنازع كس بات پر ہے؟(۲۱)

اس پر عمر نے كہا : آپ مانيں يا نہ مانيں ہم آپ كو بيعت كئے بغير جانے نہيں ديں گے حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں فيصلہ كن انداز ميں جواب ديتے ہوئے فرمايا كہ دودھ اچھى طرح دوہ لو اس مےں تمہارا بھى حصہ ہے آج خلافت كے كمر بند كو ابو بكر كيلئے مضبوط باندھ لو كل وہ تمہيں ہى لوٹا ديں گے _(۲۲)

اس وقت وہاں عبيدہ بھى موجود تھے انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ اے ميرے چچا زاد بھائي رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آپ كى قرابت داري، اسلام ميں آپ كے سابق

۴۲

الاسلام ،اور اس كے مددگار اور آپ كى علمى فضيلت سے ہميں انكار نہيں ليكن آپ ابھى جو ان ہيں اور ابوبكر آپ ہى كے قبيلے كے معمر آدمى ہيں اس بار خلافت كو اٹھانے كيلئے وہ بہتر ہيں آپ كى اگر عمر نے وفا كى تو ان كے بعد خلافت آپ كو پيش كر دى جائي گى لہذا آپ اس وقت فتنہ و آشوب بپانہ كيجئے يہ آپ كو بخوبى علم ہے كہ عربوں كے دلوں ميں آپ كى كتنى دشمنى ہے _ (۲۳)

حضرت علىعليه‌السلام كا تيسرا رد عمل وہ تقرير تھى جو آپ نے مہاجرين و انصار كے سامنے فرمائي اسى تقرير كے دوران آپ نے فرمايا تھا '' اے مہاجرين و انصار خدا پر نظر ركھو اور ميرے بارے ميں تم نے جو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عہد و پيمان كيا تھا اسے فراموش نہ كرو حكومت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يہ كو ان كے گھر سے اپنے گھر مت لے جاؤ

تم يہ بات جانتے ہو كہ ہم اہل بيت اس معاملے مےں تم سے زيادہ حقدار ہيں _ كيا تم كسى ايسے شخص كو نہيں چاہتے جسے مفاہيم قرآن، اصول و فروع دين اور سنت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عبور حاصل ہے تاكہ وہ اسلامى معاشرے كا بحسن و خوبى نظم ونسق برقرار كرسكے ميں خدائے واحد كو گواہ كركے كہتا ہوں كہ ايسا شخص ہم ميں موجود ہے اور تمہارے درميان نہيں ، نفسانى خواہشات كى پيروى مت كرو اور حق سے دور نہ ہوجائو نيز اپنے گذشتہ اعمال كو اپنى بد اعماليوں سے فاسد و كثيف نہ ہونے دو ''_

بشير بن سعد نے انصار كى ايك جماعت كے ساتھ كہا : اے ابوالحسن اگر انصار نے آپ كى يہ تقرير ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كرنے سے پہلے سن لى ہوتى تو دہ آدمى بھى ايسے نہ ہوتے جو آپ كے بارے ميں اختلاف كرتے_(۲۴)

علىعليه‌السلام نے كيوں عجلت نہيں كي؟

تاريخ كے اس حصے كا مطالعہ كرنے كے بعد ممكن ہے كہ يہ سوال سامنے آئے كہ اگر حضرت علىعليه‌السلام بھى دوسروں كى طرح امر خلافت ميں عجلت كرتے اور حضرت عباس و ابوسفيان كى تجويز مان ليتے

۴۳

تو شايد يہ منظر سامنے نہ آيا ہوتا اس بات كى وضاحت كے لئے يہاں اس بات كا واضح كردينا ضرورى ہے كہ آپ كى خلافت كا مسئلہ دو حالتوں سے خالى نہ تھا يا تو رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ كو خداوند تعالى كے حكم سے اس مقام كے لئے منتخب كرليا تھا (اس پر شيعہ عقائد كے لوگوں كا اتفاق ہے) ايسى صورت ميں عوام كا بيعت كرنا يا نہ كرنا اس حقيقت كو بدل نہيں سكتا اور اگر بالفرض خلافت كے معاملے ميں امت كو اس كے فيصلے پر آزاد چھوڑديا تھا تو پھر كيوں حضرت علىعليه‌السلام لوگوں كے حق انتخاب كو سلب كرتے_ وہ امت كو اس حال پر چھوڑديتے كہ وہ جسے بھى چاہيں اپنا خليفہ مقرر كريں _

اس سے بھى زيادہ اہم بات يہ ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا جسد مبارك ابھى زمين كے اوپر ہى تھا ، حضرت علىعليه‌السلام پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وصى كے لئے ايسى صورت ميں يہ كيسے ممكن تھا كہ وہ جسد اطہر پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو زمين پر ركھے رہنے ديں اور خود اپنے كام كے چكر ميں نكل جائيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے پہلے اپنا فرض ادا كيا پھر لوگوں كے سامنے تشريف لائے _ دوسرے بھى يہ بات جانتے تھے كہ اگر ايسے ميں حضرت عليعليه‌السلام تشريف لے آتے تو وہ ہرگز اپنے مقصد و ارادے ميں كامياب نہ ہوتے_ چنانچہ دوسروں نے امر خلافت كے سلسلے ميں عجلت كى اور حضرت علىعليه‌السلام كو اس وقت اطلاع دى جب كام تمام ہوچكاتھا_(۲۵)

۴۴

سوالات

۱_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد كيا واقعہ پيش آيا اور وہ كس طرح رفع ہوا؟

۲_ زمانہ مستقبل ميں اسلام كى قيادت ورہبرى كے سلسلے ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نظر ميں كونسى ممكن راہيں تھيں سب كى كيفيت بتايئے اور ہر ايك كا مقصد بيان كيجئے؟

۳_ اگر پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب سے كوئي شخص جانشين كى حيثيت سے منتخب نہ كيا گيا ہوتا تو مستقبل ميں اسلام كے لئے كيا خطرات لاحق ہوسكتے تھے مختصر طور پر لكھيئے؟

۴_ خلافت كے سلسلے ميں جس شورى كى تشكيل كى گئي تھى اسكى نفى كے لئے دو تاريخى شواہد و دلائل بيان كيجئے؟

۵_ امر خلافت ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وصايت كو پيش نظر ركھا تھا اس ميں تاريخ و احاديث كى بنياد پر دو دليل پيش كيجئے؟

۶_ سقيفہ كا واقعہ كس طرح پيش آيا ، مہاجرين ميں سے وہاں كون لوگ موجود تھے وہ وہاں كس لئے پہنچے اور اس كا كيا نتيجہ برآمد ہوا؟

۷_ بيعت كے سلسلے ميں حضرت علىعليه‌السلام پر اپنے چچا عباس اور ابوسفيان كى تجاويز كا كيوں اثر نہ ہوا؟

۸_ واقعہ سقيفہ كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كا كيا رد عمل تھا؟

۴۵

حوالہ جات

۱_ حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كے دوواقعات جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں پيش آئے وہ مختصر طور پر تاريخ عصر نبوت ميں بيان كرديئے گئے ہيں _

۲_ آل عمران ۱۴۴ _( وَمَا مُحَمَّدٌ إلاَّ رَسُولٌ قَد خَلَت من قَبله الرُّسُلُ أَفَإين مَاتَ أَو قُتلَ انقَلَبتُم عَلَى أَعقَابكُم ) (محمد اس كے سوا كچھ نہيں كہ بس ايك رسول ہيں ان سے پہلے اور رسول گذر چكے ہيں اگر وہ مرجائيں يا قتل كرديئے جائيں تو تم لوگ الٹے پائوں پلٹ جاؤ گے_

۳_ تاريخ طبرى ج ۳/۲۰۰ كامل ابن اثير ج ۲/ ۳۲۳، شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۱۲۸_

۴_ سقيفہ كے لغوى معنى سايبان ہيں _ سقيفہ مدينہ ميں مسجد النبىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ۶۰۰ قدم كے فاصلے پر باب السلام كے راستے ميں واقع ہے _ يہ جگہ بنى ساعدہ بن كعب خزرمى سے متعلق تھى _ لوگ اس سايبان كے نيچے اپنے معاملات كا فيصلہ كرنے كے لئے جمع ہوتے تھے بعد ميں يہ جگہ سقيفہ بنى ساعدہ كے نام سے مشہور ہوگئي_ (معجم البلدان ج ۳/ ۲۲۸)_

۵_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۶/ ۵۱، المراجعات / ۲۶۰ _ ۲۵۹ منقول از صحيح بخارى و مسلم ، تاريخ ابى الفدا ج ۱/۱۵۱ائتونى بدواة وصحيفة اكتب لكم كتاباً لا تضلون بعده _

۶_ وامرہم شورى بينہم (سورہ شورى آيت ۳۸)_

۷_ حضرت ابوطالبعليه‌السلام و حضرت خديجہعليها‌السلام كى وفات كے بعد پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قبيلہ بنى عامر كے درميان سخت رنجش پيدا ہوگئي جس كے باعث قريش پہلے كى نسبت اب زيادہ آپ پر دبائو ڈالنے لگے نيز حملات كرنے كى كوشش كرنے لگے تھے_

۸_ سيرة ابن ہشام ج ۲ / ۶۶ ''الامر الى الله يضعه حيث يشائ''

۹_ گذشتہ فصل ميں حديث ثقلين كے علاوہ ديگر احاديث كا مختصر جائزہ لياجاچكا ہے اسى وجہ سے يہاں اس كے دوبارہ نقل كرنے سے گريز كيا گيا ہے_

۱۰ _ تاريخ اس امر كى گواہ ہے كہ خلفاء وقت نے جب كبھى ضرورت محسوس كى حضرت علىعليه‌السلام سے رجوع كيا اور آپ سے درخواست كى ان كى مشكلات حل كرنے ميں انكى مدد فرمائيں _ ان واقعات كى كيفيت آيندہ ابواب ميں بيان كى جائے گا_

۴۶

يہ حصہ كتاب تشيع مولود طبيعى اسلام ترجمہ التشيع والاسلام_ شہيد باقر الصدر سے ماخوذ ہے ص۲۸_

۱۱_ الامامة والسياسة ج ۱/ ۱۴_ ۳۱_

۱۲_ يہاں يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ ابوبكر كى تقرير كے بعد عمر نے بھى اپنے خيالات كا اظہار كيا اور كہا كہ ميں نے راستہ طے كرنے كے دوران كسى منصوبے يا لائحہ عمل كے بارے ميں غور و فكر نہيں كيا ہے سوائے اس كے جو ابوبكر نے بيان كيا ہے مجھے اس سے كلى اتفاق ہے اور جو كچھ انہوں نے اپنى زبان سے كہاہے بلكہ اس سے بھى سنے بہترما من شى كنت زرته فى الطريق الا انا به او باحسن منه _ تاريخ طبرى ج ۳/ ۲۱۹ ، كامل ابن اثير ج ۲/ ۳۲۷ _

۱۳_ طرح ہاى رسالت (ج ۱ / ۲۵۷ _ ۲۵۵)كا خلاصہ_

۱۴_ الامامة والسياسة (ج ۱/ ۲۱_۱۶)كامل ابن اثير ج ۲/ ۳۲۹_ ۲۲۸)تاريخ طبرى (ج ۳/ ۲۲۰_ ۲۱۸)_

۱۵_ ان پانچ رائے ميں سے تين تو ابوبكر، عمر اور ابوعبيدہ كى تھيں اور انصار ميں سے دو رائے بشير ابن سعد واسيد بن حضير كى تھيں _ ان پانچ افراد كے علاوہ باقى لوگ اپنے سرداران قبائل كے تابع تھے_ چنانچہ ہر قبيلے كا سردار جو رائے ديتا اس قبيلے كے تمام افراد اس كى پيروى كرتے اور اپنى مرضى سے كوئي رائے نہ ديتے_

۱۶_ كامل ابن اثير ج ۲/ ۳۲۶ _ تاريخ طبرى ج ۳/ ۲۰۹ ارشاد مفيد ۱۰۲_

۱۷_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۲۳۰ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۱۹۲_

۱۸_انى لارى عجاجةلا يطفئها الالدم _ شرح ابن ابى الحديد ج ۱۲/ ۴۴_ كامل ج ۲/ ۳۲۵ _ تاريخ طبرى ج ۳/ ۲۰۹_

۱۹_ شرح ابن ابى الحديد ج ۳/۲۰۹_

۲۰_ احتجوا بالشجرة واضاعوا الثمرة_ نہج البلاغہ خ ۶۶_

۲۱_ احتجاج طبرى ج ۱/۹۵ الامامة والسياسة ج ۱ / ۱۸_

۲۲_ احلب حلباً ہناك شطرہ وشد لہ اليوم ليرد عليك غداً_

۲۳_ الامامة والسياسة ج ۱ / ۱۸ شرح ابن ابى الحديد ج ۶/ ۱۲_۱۱_ احتجاج طبرسى ج ۱/ ۹۶ _

۲۴_ الامامة والسياسة ج ۱۹/ ۱۸ _ احتجاج طبرسى ج ۱/ ۹۶ _

۲۵_ ماخوذ از كتاب ''خلافت و ولايت'' /۶۳_

۴۷

تيسرا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۲

حضرت علىعليه‌السلام كے گھر ميں پناہ گزيني

انصار سے مدد چاہنا

حساس صورت حال

قيام نہ كرنے كے دلائل اور وجوہات

معقول فوجى طاقت كى كمي

اسلام اور اسلامى وحدت كا تحفظ

جاہليت كى طرف بازگشت

كينہ توز دشمن

بيعت كا انجام

مسئلہ فدك

فدك پر قابض ہونے كے محركات

۱)مخالفين كو اپنى جانب متوجہ كرنا۲) جمع وخرچ كى مد ميں كمي

علىعليه‌السلام كى اقتصادى قوت كے باعث خطرے كا احتمال

مخالفين كى سركوبي

شورش كا دباجانا

حضرت فاطمہعليه‌السلام كى وفات

سوالات

حوالہ جات

۴۸

حضرت علىعليه‌السلام كے گھر ميں پناہ گزيني

صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں ايسے پاك طينت لوگ بھى موجود تھے جنہوں نے ابوبكر كى بيعت نہيں كى تھي_ چنانچہ موصوف كو خليفہ بنائے جانے پر انہوں نے اعتراض كيا اور اس كے اظہار كے لئے انہوں نے پناہ گزينى كى راہ اختيار كى اور اس مقصد كے لئے بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت فاطمہعليه‌السلام كے گھر ميں جمع ہوگئے_

ان ميں سے بعض افراد كے نام مورخين نے اپنى كتابوں ميں درج كئے ہيں _(۱)

حضرت فاطمہعليه‌السلام كا گھر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حيات ميں خاص احترام كى نظر سے ديكھا جاتا تھا_ چنانچہ بنى ہاشم ' بعض مہاجرين اور اہل بيتعليه‌السلام كا آپ كے گھر ميں پناہ گزيں ہونے كا فطرى طور پر مقصد ہى يہ تھا كہ كوئي شخص زبردستى پناہ گزينوں كى بيعت كى غرض سے مسجد ميں لانہيں سكتا تھا _ بالاخر عمر كو ايك دستے كے ساتھ مقرر كيا گيا كہ وہ حضرت فاطمہعليه‌السلام كے گھر پر جائيں اور پناہ گزينوں كو نكال كر باہر لائيں تاكہ وہ خليفہ كے ہاتھ پر بيعت كريں _ عمر ايك گروہ كے ساتھ حضرت فاطمہعليه‌السلام كے گھر كى جانب روانہ ہوئے اور بڑى كشمكش كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كو باہر لايا گيا اور آپ كو مسجد لے گئے جہاں آپ كو مجبور كيا گيا كہ ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كريں ليكن حضرت علىعليه‌السلام اپنے ارادے پر قائم رہے_

جب ديكھا كہ حضرت علىعليه‌السلام اپنے عزم وارادے پر قائم ہيں تو لوگ بھى آپ سے دستكش ہوگئے_(۲)

۴۹

انصار سے مدد چاہنا

اس واقعے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام اور حضرت فاطمہعليه‌السلام راتوں كو انصار كے گھر تشريف لے جاتے اور اہل بيت سے متعلق پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وصايا اور احاديث كى جانب توجہ دلاتے ہوئے ان سے مدد كے خواہاں ہوتے وہ لوگ جواب ميں كہتے اے بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم اس شخص كے ہاتھ پر بيعت كرچكے ہيں اگر تمہارے چچا كے بيٹے نے ابوبكر سے قبل ہم سے بيعت كرنے كے لئے كہا ہو تا تو ہم علىعليه‌السلام كے مقابل كسى دوسرے شخص كو ترجيح نہ ديتے_ اس پر حضرت علىعليه‌السلام فرماتے كيا عجيب بات ہے كيا تمہيں مجھ سے يہ توقع تھى كہ جنازہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تكفين و تدفين كيئےغير اسے يونہى گھر ميں چھوڑ ديتا اور اس حكومت كو حاصل كرنے كى غرض سے' جو اس عظےم المرتبت انسان نے چھوڑى تھى ، كشمكش و تنازع ميں پڑجاتا ؟

فاطمہ زہراعليه‌السلام فرماتيں : ابوالحسن نے جو كچھ كيا وہ صحيح تھا اور لوگوں نے جو كچھ كيا ہے خدا ان سے باز پرس كرے گا _(۳)

حساس صورتحال

حضرت علىعليه‌السلام جس كيفيت وحالت سے گذر رہے تھے وہ بہت زيادہ حساس تھى كيونكہ آپ كو جو فرض سپرد كيا گيا تھا وہ نہايت ہى مشكل مگر بہت ہى عظےم واہم تھا_ ايك طرف آپ ديكھ رہے تھے كہ خلافت واسلامى قيادت اصل راہ سے دور ہوگئي ہے جس كے باعث فطرى طور پر بہت سے حقوق پائمال ہوكر رہ جائيں گے_

دوسرى طرف آپ ديكھ رہے تھے كہ مسلمان چونكہ گروہوں ميں تقسيم ہوگئے تھے،اسى لئے ان ميں اختلافات بھى شروع ہوگئے ہيں _ اب ديكھنا يہ ہے كہ اس حساس حالت و كيفيت ميں حضرت علىعليه‌السلام كا كيا فرض ہے كيا داخلى موقع پرست جماعت كى خود غرضى پر مبنى حركات كو برداشت كركے سكوت اختيار كئے رہنا يا ان حالات كے خلاف سركشى اور كسى تحريك كا آغاز كرنا؟

۵۰

اگرچہ مسجد نبوى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں مہاجرين و انصار كى موجودگى ميں حضرت علىعليه‌السلام اور آپ كے طرفداروں كى پند ونصےحت نيز روشن و واضح تقارير نے اس حقيقت كو آشكارا كردياتھا _ آپ كے سامنے اب دو ہى راہيں تھيں پہلى تو يہى كہ بغاوت كركے اپنا حق واپس لے ليا جائے اور دوسرى يہ كہ اسلام كے تحفظ كى خاطر سكوت اختيار كياجائے_

موجود قرائن ودلائل سے ثابت ہے كہ ان حالات ميں حضرت علىعليه‌السلام كے لئے قيام كرنا اسلام كے حق ميں ہرگز سود مند نہ تھا _ جس كا نتيجہ يہ ہوسكتا تھا كہ اسلامى معاشرہ منتشر ہوكر رہ جائے اور لاتعداد گروہ و افراد دين اسلام سے برگشتہ ہوكر واپس عہد جاہليت ميں اور ديگر خرافات كى جانب چلے جائيں _

قيام نہ كرنے كے دلائل اور وجوہات

حضرت علىعليه‌السلام نے مختلف مواقع پر جو تقارير كيں اگر ہم ان كا اور ان حالات كا جو اس وقت اسلامى معاشرہ پر مسلط و طارى تھے جائزہ ليں تو ہميں اس سوال كا جواب مل جائے گا كہ حضرت علىعليه‌السلام نے كيوں قيام نہيں كيا اب ہم ان نكات كو بيان كر رہے ہيں جن سے يہ باتيں روشن ہوجائےں گي_

۱_ معقول فوجى طاقت كى كمي

مندرجہ بالا سوال كا جواب ديتے ہوئے خود حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا تھا:

امر خلافت ميں ميرى كوتاہى موت كے خوف كى وجہ سے نہيں تھى بلكہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كے مطابق تھى كيونكہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ امت نے تجھ سے خيانت كى ہے ، انہوں نے مجھ سے جو عہد كيا ہے اسے وہ وفا نہيں كريں گے_ درحاليكہ تم ميرے لئے ايسے ہى ہو جيسے حضرت موسىعليه‌السلام

۵۱

كے لئے حضرت ہارون عليه‌السلام تھے_

اس كے بعد آپ نے مزيد فرمايا كہ ميں نے سوال كيا كہ ايسى حالت ميں مجھے كيا كرنا چاہيئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ اگر كوئي ايسا شخص مل گيا جو تمہارى مدد كرے تو تم ان سے جنگ وجدال كرنا اور اپنا حق حاصل كرلينا اگر ايسا نہ ہوا تو تم اس خيال سے در گذر كرنا ، اپنى خون كى حفاظت كرنا تاكہ تم ميرے پاس مظلوم آؤ _(۴)

آپ نے ايك جگہ اور بھى اس تلخ حقيقت كى صراحت كرتے ہوئے فرمايا تھا: اگرمجھے چاليس با عزم افراد مل جاتے تو ميں اس گروہ كے خلاف انقلاب اور جنگ و جدال كرتا_(۵)

ايك جگہ آپ نے يہ بھى فرمايا تھا كہ ميں نے اپنے اطراف ميں نظر ڈالى اور ديكھا كہ جز ميرے اہل بيتعليه‌السلام كے ميرا كوئي يار ومددگار نہيں مجھے يہ گوارانہ ہوا كہ انہيں موت كے منہ ميں دے دوں _(۶)

۲_ اسلام اور اسلامى وحدت كا تحفظ

وہ نو مسلم عرب جن ميں سے دور جاہليت كے رسم ورواج كى عادت و خوا بھى مكمل طور پر ختم نہيں ہوئي تھى اور جذبہ ايمان واسلامى عقيدہ ان كے دلوں ميں پورے طور پر راسخ نہيں ہوا تھا انہيں مد نظر ركھتے ہوئے ہر قسم كى داخلى جنگ مسلمانوں كى طاقت كے انحلال اور اسلام كے انہدام كا باعث ہوتى بالخصوص ان حالات ميں جب كہ ''اہل ردہ'' نے جزيرہ العرب كے اطراف ميں مركزى حكومت كے خلاف اپنا پرچم لہرادياتھا(۷) ان كے علاوہ ايران اور روم كى دو شاہنشاہى طاقتيں اس موقع كى تلاش ميں تھيں كہ قائم شدہ حكومت سے برسر پيكار ہوں اگر حضرت علىعليه‌السلام ان متزلزل مسلمانوں اور بيرونى دشمنوں كو پيش نظر ركھتے ہوئے بھى تلوار كا سہارا ليتے اوراپنا حق حاصل كرنے كى خاطر ابوبكر سے جنگ وجدال كرتے تو نوعمر اسلامى طاقت اور مركزيت كو مدينہ ميں نقصان پہنچتا اور اسلام كو نيست ونابود كرنے كى غرض سے بيرونى طاقتوں كے لئے يہ بہترين

۵۲

موقع ہوتا شايد يہى وجہ تھى كہ سقيفہ كے واقعات سے متعلق آپ نے جو تقرير كى تھى اس ميں اتحاد كى اہميت اور تفرقہ اندازى كے برے نتائج كى جانب اشارہ كرتے ہوئے فرمايا تھا: فتنے كى امواج كو نجات كى كشتيوں سے چاك كردو، اختلاف پيدا كرنے سے گريز كرو ، فخر فروشى كى علامات كو سرسے اتار دو ، ميرى خاموشى كا سبب ميرى وہ دانش وباطنى آگاہى ہے جس ميں ميں غرق ہوں اگر تم بھى ميرى طرح باخبر ہوتے تو كنويں كى رسى كى مانند مضطرب و لرزاں ہوجاتے_ (۸)

۳_ جاہليت كى طرف بازگشت

قرآن مجيد ميں ايك آيت اس امر كى جانب اشارہ كر رہى تھى كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد ايك گروہ واپس دور جاہليت كى طرف چلاجائے گا چنانچہ فرماتا ہے :( فان مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ) _(۹)

اس آيت مباركہ كى روشنى ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اسلامى معاشرہ كى آيندہ زندگى كے بارے ميں سخت تشويش تھى _ سقيفہ ميں جو واقعہ پيش آيا اس كا جائزہ لياجائے تو يہ بات واضح ہوجائے گى اس روز كس طرح يہ راز روشن عياں ہوگيا اور ايك بار پھر قبائلى تعصبات اور دور جاہليت سے متعلق افكار و خيالات دونوں جانب سے تقارير كے دوران اشارہ و كنايہ ميں نماياں ہوگئے_

اس كے عالوہ قبائل ميں سے بعض گروہ جو كچھ عرصہ قبل ہى مسلمان ہوئے تھے، رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خبر رحلت سنتے ہى مرتد ہوگئے اور اپنے آبا واجدا كے دين كى طرف واپس چلے گئے اور مركزى حكومت كى مخالفت شروع كردي_

دوسرى طرف ''مسيلمہ'' ، ''سجاح'' اور ''طليحہ '' نے بھى نجد ويمامہ كے علاقوں ميں اپنى نبوت كا دعوا كركے دوسرا پرچم لہراديا اور كچھ لوگوں كو بھى اپنے گرد جمع بھى كرليا_

اگرچہ حضرت علىعليه‌السلام حق بجانب تھے مگر اس وضع وكيفيت كو ديكھتے ہوئے كيا يہ زيبا تھا كہ اپنا پرچم لہراكر انقلاب وقيام كا اعلان كرديں ؟ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام نے اہالى مصركو جو خط لكھا تھا اس ميں آپ

۵۳

نے اس نكتے كى جانب اشارہ فرمايا تھا ميں نے ديكھا ہے كہ لوگوں ميں ايك گروہ دين اسلام سے برگشتہ ہوگيا ہے اور وہ اس فكر ميں ہے كہ آئين محمدى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو نيست ونابود كردے ، مجھے يہ خوف محسوس ہواكہ اگر ميں اسلام اور اہل اسلام كى مدد نہ كروں تو مجھے اس بات كے لئے بھى تيار رہنا چاہيئے كہ اسلام كى تباہى كا منظر اپنے آنكھوں سے ديكھوں دنيا كى حكومت چند روزہ ہے جو سراب يا ابر كى طرح سرعت سے گذر جانے والى ہے _ اسلام كى تباہى اس حكومت كے ترك كرنے سے زيادہ مجھ پر شاق والمناك گذرے گى _(۱۰)

۴_ كينہ تو ز دشمن

حضرت علىعليه‌السلام كے مسلمانوں ميں ہى بہت سے دشمن موجود تھے اور يہ وہ لوگ تھے جن ميں سے كسى كا باپ ' كسى كا بھائي يا كوئي دوسرا قرابت دار جنگ كے دوران آپ كے ہاتھوں مارا گيا تھا اور يہ دشمنى وكينہ توزى ان كے دلوں ميں اسى وقت سے چلى آرہى تھي_

ايسے حالات ميں جب كبھى حضرت علىعليه‌السلام نے مسلح ہوكر قيام كيا اور اپنا حق طلب كرنے كى كوشش كى تو يہى دشمن فريب ونفاق كو ہوا دينے لگتے اور يہ كہتے پھرتے كہ علىعليه‌السلام نے مسلمانوں كے درميان رخنہ پيدا كرديا ہے اور دين كے نام پر جنگ و پيكار بر اتر آئے _اگر حضرت علىعليه‌السلام نے ان سے جنگ كى ہوتى تو اس كے يہ نتائج نكل سكتے تھے_

ممكن تھا كہ جنگ كے ابتدائي چند لمحات ميں ہى آپعليه‌السلام كے بہت سے عزيز و ہمدرد تہ تيغ كئے جاتے اور پھر بھى حق حقدار كو نہ ملتا_

جب آپ كے دوست خير خواہ تہ تيغ كرديئے جاتے تو مخالفين كا قتل ہونا بھى فطرى امر تھا اور اس كا مجموعى نتيجہ يہ ہوتا كہ مركز ميں مسلمانوں كى طاقت رو بزوال ہونے لگتي_

اور جب مركزى طاقت كمزور ہونے لگتى تو وہ قبائل جو مركز سے دور تھے اور جن كے دلوں ميں دين اسلام نے پورى طرح رسوخ نہيں كيا تھا ، مرتدين كى صفوں ميں جاملتے اور شايد ان كے طاقتور ہونے اور مركز ميں رہبر كى زبونى كے باعث اسلام كے چراغ كى روشنى ماند پڑنے لگتي_

۵۴

بيعت كا انجام

اكثر مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے حضرت فاطمہعليه‌السلام كى رحلت تك ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت نہيں كي_(۱۱)

حضرت فاطمہ(سلام عليہا) كى وفات كے بعد جب آپعليه‌السلام نے لوگوں كى بے رخى اور مسلمانوں كى پريشان حالى كا مشاہد ہ كيا تو آپعليه‌السلام نے اسلام اور مسلمانوں كى خاطر خاموشى اختيار كرنے ميں ہى مصلحت سمجھى مگر اس كے باوجود يہ تلخ واقعات آپعليه‌السلام كے دل سے كبھى محو نہ ہوسكے اور ہميشہ ان دنوں كو ياد كركے شكوہ و شكايت كرتے تھے_

چنانچہ خطبہ''شقشقيہ '' ميں فرماتے ہيں : ''فرائت ان الصبر على ہاتااحجى فصبرت وفى العين قذى و فى الملق شجا''(عقل اور اس فرض كے مطابق جس كا پورا كرنا مجھ پر واجب تھا) مجھ پر يہ بات واضح و روشن تھى كہ ميرے لئے صبر و شكيبائي كے علاوہ كوئي چارہ نہيں لہذا ميں نے صبر وتحمل سے كام ليا مگر اس طرح گويا ميرى آنكھ ميں خار اور گلے ميں ہڈى اٹك گئي ہو_(۱۲)

مسئلہ فدك

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كو ابھى دس دن بھى نہ گذرے تھے كہ حضرت فاطمہعليه‌السلام كو يہ خبر ملى كہ خليفہ كے كارندوں نے ان كے كام كرنے والوں كو ''فدك'' سے باہر نكال ديا ہے اور اس كے تمام كاموں كو اپنے اختيار ميں لے ليا ہے_

بنت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس زمين كو حاصل كرنے كى غرض سے بنى ہاشم كى خواتين كے ہمراہ خليفہ كے پاس گئيں اس وقت ابوبكر اور حضرت فاطمہعليه‌السلام كى درميان جو گفتگو ہوئي وہ ذيل ميں درج ہے:

حضرت فاطمہعليه‌السلام : تم نے ميرے كارندوں كو ''فدك'' سے كيوں باہر نكالا اور مجھے ميرے حق سے محروم كيا ؟

خليفہ: ميں نے آپ كے والد سے سنا ہے كہ پيغمبركوئي چيز ميراث ميں نہيں چھوڑتے_

۵۵

حضرت فاطمہ عليه‌السلام : فدك كى زمين ميرے والد نے اپنے زمانہ حيات ميں مجھے بخش دى تھى اور اس وقت اس كى مالك ميں ہى تھي_

خليفہ: آپ كے پاس اس دعوے كے ثبوت ميں كيا شاہد و گواہ موجود ہيں ؟

حضرت فاطمہعليه‌السلام : ہاں ميرے شاہد وگواہ علىعليه‌السلام اور ام ايمن ہيں چنانچہ ان حضرات نے حضرت زہراعليه‌السلام كى درخواست پر يہ شہادت دى كہ آپعليه‌السلام پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں اس كى مالك تھيں _(۱۴) بعض مورخين نے يہ بھى نقل كيا ہے كہ حضرت امام حسنعليه‌السلام و حضرت امام حسينعليه‌السلام نے بھى گواہى دي_(۱۵)

فخر رازى نے يہ قول نقل كيا ہے كہ : پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے غلاموں ميں سے ايك غلام نے بھى حضرت فاطمہعليه‌السلام كے مالك ہونے كى گواہى دى بلاذرى نے اس غلام كے نام كے تصريح بھى كى ہے اور لكھا ہے كہ اس كا نام ''رباح'' تھا_( ۱۶)

جب يہ گواہياں گذر گئيں تو حضرت علىعليه‌السلام نے خليفہ كو ان (ابوبكر)كى خطاء كى طرف متوجہ كيا (كيونكہ خليفہ نے گواہى اس شخص سے طلب كى تھى جس كے تصرف ميں فدك تھا اور متصرف (قابض) سے گواہى مانگنا اسلامى ميزان و عدل كے سراسر خلاف ہے) اور فرمايا كہ اگر ميں اس مال كا دعويدار ہوں جو دوسرے كے قبضے ميں ہے تو آپ گواہ كس سے طلب كريں گے مجھ سے كہ مدعى ہوں يا اس سے جس كے تصرف ميں مال ہے؟

ابوبكر نے كہا كہ آپ گواہ پيش كريں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ فدك ہمارے تحت تصرف ہے اور اب دوسروں نے يہ دعوى كيا ہے كہ يہ اموال عامہ ہيں ايسى صورت ميں وہ گواہ پيش كريں ناكہ ہم(۱۷)

خليفہ نے حضرت علىعليه‌السلام كى اس دليل پر سكوت اختيار كيا اور حلبى كے قول كے مطابق انہوں نے بذريعہ تحرير اس بات كى تصديق كى كہ فدك حضرت فاطمہ زہراعليه‌السلام كى ملكيت ہے _ ليكن عين اسى وقت عمر وہاں پہنچ گئے اور دريافت كيا كہ يہ كيسا مكتوب ہے ؟ اس پر ابوبكر نے كہا كہ ميں نے اس ورق

۵۶

پر تصديق حق مالكيت حضرت فاطمہ عليه‌السلام كى ہے عمر نے كہا كہ فدك سے جو آمدنى ہوگى اس كى تو آپ كو ضرورت ہے كيونكہ عرب مشركين نے اگر كل كہيں مسلمانوں كے خلاف بغاوت كردى تو آپ جنگ كے اخراجات كہاں سے مہيا كريں گے_

چنانچہ اس نے ابوبكر سے ورق ليا اور چاك كرديا_(۱۸)

فدك پر قابض ہونے كے محركات

خليفہ كى جانب سے فدك پر قابض ہونے كے جو مختلف محركات تھے ان كى كيفيت ذيل ميں درج ہے:

۱_ مخالفين كو اپنے جانب متوجہ كرنا

خليفہ وقت نے اس بات كو بخوبى سمجھ ليا تھا كہ وہ عوام پر اس وقت تك اپنى فرمانروائي قائم نہيں كرسكتے تاوقتى كہ وہ اپنے مخالفين كو اپنا ہمنوا و ہمخيال نہ بناليں اور مختلف طريقوں سے جب تك ان كے افكار و قلوب كو اپنى جانب متوجہ نہ كريں گے ان دستوں پر حكمرانى كرتے رہنا ان كے لئے مشكل ہوگا_

بااثر افراد اشخاص ميں سے ايك ابوسفيان كہ جس كے اعتقاد كو بدلا جاسكتا تھا كيونكہ سقيفہ كا واقعہ جب پيش آيا تو اس نے حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے بيعت لينے كى تجويز پيش كى تھى نيز مسلح ہوكر قيام كرنے كو دعوت دى تھى اور(بنى ہاشم سے خطاب كرتے ہوئے) كہاتھا كہ آپ لوگ اٹھيں اور زمام امور اپنے ہاتھ ميں ليں تو ميں مدينہ كو سوار وپيادہ فوج سے بھردوں گا_(۱۹) ليكن يہ شور و غل ابتدائي چند روز تك برقرار رہا اس كے بعد ختم ہوگيا_

خليفہ وقت نے ابوسفيان كى خوشنودى حاصل كرنے كى غرض سے وہ دولت جو بيت المال و زكات كے نام پر جمع كركے لائے تھے ، اسے بخش دى اس كے علاوہ اس كے لڑكے يزيد كا بھى

۵۷

انہوں نے سپاہ اسلام كے فرماندار كى حيثيت سے شام كے علاقے فتح كرنے كے لئے انتخاب كيا اور بالآخر اسے عالم اسلام كے شاداب ترين علاقے يعنى شام كا فرمانروا مقرر كرديا جس وقت يہ خبر ابوسفيان كو پہنچى اس نے كہا ابوبكر نے صلہ رحم كيا ہے_(۲۰)

جن افراد كى خوشنودى حاصل كرنا خليفہ كيلئے ضرورى تھى وہ بہت سے افراد تھے_ اور بہت سے افراد مہاجرين اور انصار ميں سے ايسے تھے جو سقيفہ ميں موجود نہيں تھے يا بعد ميں جنہوں نے مجبوراً خليفہ كى بيعت كى تھى ان كا شمار بھى اس زمرے ميں تھا_

اس كے علاوہ خزرجى قبيلے كے لوگوں نے چونكہ پہلے دن بيعت نہيں كى تھى ان كى دلجوئي بھى خليفہ كے لئے ضرورى تھى يہى نہيں بلكہ انصار كى خواتين بھى خليفہ كے عطيات سے بے بہرہ نہ رہيں _(۲۱)

۲_ جمع وخرچ كى مد ميں كمي

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس جو كچھ اثاثہ و سرمايہ تھا اسے آپ نے رحلت سے قبل تقسيم كرديا اور رحلت كے بعد آپ كے جو بھى نمايندگان مدينے پہنچے وہ بھى اس شہر ميں مختصر پونچى لے كر داخل ہوئے مگر يہ قليل آمدنى نئي قائم شدہ حكومت كى نظر ميں كافى نہ تھى بالخصوص ان حالات ميں جب كہ اطراف كے قبائل نے مخالفت كا پرچم لہرا ديا تھا اور مركزى حكومت كو زكات دينے ميں پس وپيش كررہے تھے_

۳_ علىعليه‌السلام كى اقتصادى قوت كے باعث خطرے كا احتمال

قيادت ورہبرى كى جو شرائط ہوسكتى ہيں وہ سب حضرت علىعليه‌السلام ميں موجود تھےں او رمالى اعتبار سے بھى اگر آپ كى حالت قوى ہوتى تو فطرى طور پر ضرورت مند افراد آپ كے گرد جمع ہونے لگتے چنانچہ ممكن تھا كہ افراد كايہ اجتماع خلافت كى مشينرى كے لئے كوئي مسئلہ پيدا كرديتا_

۵۸

مخالفين كى سركوبي

اپنى خلافت كے ابتدائي دنوں ميں ابوبكر كے سامنے جو مشكلات آئيں ان ميں سے ايك يہ تھى كہ بعض مسلمان مرتد ہوگئے تھے ان كا مقابلہ كرنے كى غرض سے خليفہ نے جنگ كا حكم ديا اور ان سے جنگ كرنے كے لئے سپاہى روانہ كيئے_

يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ وہ لوگ جو ابوبكر كے دور خلافت ميں ''اہل ردّہ'' كے نام سے مشہور ہوئے تھے كيا واقعى وہ اسلام سے برگشتہ ہوگئے تھے يا محض اس لئے كہ انہوں نے حكومت وقت كے سامنے چونكہ اپنا سر خم نہيں كيا تھا اس لئے انہيں مرتد كہہ كر بدنام كرديا گيا در حاليكہ وہ اصلى و حقيقى اسلام پر كاربند تھے؟

اس سوال كى وضاحت كے لئے يہ بتانا ضرورى ہے كہ : لفظ ارتدادكا مادہ ''ردد'' ہے اور اس كے معنى ہيں واپس ہوجانا' عرف عام اور مسلم فقہاء كى اصطلاح ميں اس كے معنى دين سے پھر جانا ہے اور يہ ضرورى نہيں كہ لفظ دين اس كے ساتھ استعمال ہو _ اب بھى ردد اور ارتداد كے معانى دين سے پھر جانا كے ہے _

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جان سوز خبر رحلت جب پھيلى تو بعض وہ لوگ جو كچھ عرصہ قبل ہى مسلمان ہوئے تھے اور دور دراز مقامات پر آباد تھے تردد ميں مبتلا ہو كر دين سے برگشتہ ہوگئے اور بالخصوص اس وقت جبكہ مشركين ميں ہمت و حوصلہ پيدا ہونے لگا تھا اور وہ اسلام كے خلاف بر سر پيكار ہونے كے لئے زيادہ سنجيدگى سے سوچنے لگے تھے_

ليكن اطراف وجوانب كى باقى مسلمانوں كى نگاہيں مركز پر لگى ہوئي تھيں اور وہ اس بات كا انتظار كر رہے تھے كہ ديكھيں جانشينى كا مسئلہ كہاں جاكر ختم ہوتا ہے چنانچہ جب انہيں اس واقعے كى اطلاع ملى كہ بعض افراد نے سقيفہ بنى ساعدہ ميں ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كرلى مگر بعض قبائل كے لوگوں نے جن ميں بنى ہاشم اور ان كے سربراہ حضرت علىعليه‌السلام چند صحابہ رسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قبيلہ خزرج كے سردار (سعد بن عبادہ) نے بيعت كرنے سے انكار ركرديا ہے_

۵۹

مدينہ ميں مسئلہ خلافت پر جو كشمكش ہوئي اس كے باعث كچھ عرب قبائل سقيفہ ميں ابوبكر كے ہاتھ پر كى جانے والى بيعت كى مخالفت پر اتر آئے اور انہيں حكومت وقت كو زكات ادا كرنے ميں تامل ہوا (كيونكہ زكات اس شخص كو دى جاسكتى تھى جسے متفقہ طور پر خليفہ وقت تسليم كرليا گيا ہو)جس كا سبب قانون زكات سے منكر ہونا نہ تھا كيونكہ اس كى ادائيگى كو وہ جزو دين سمجھتے تھے بلكہ اس كا اصل سبب يہ تھا كہ حكومت جيسے شاندار منصب كے لئے اس شخص كو جوپيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا جانشين كہلائے جانے كا بھى مستحق نہيں تھا ، اسے متفقہ طور پر تسليم نہيں كيا گيا تھا_

ابوبكر نے خالد بن وليد كى سركردگى ميں چند سپاہى زكات وصول كرنے كى غرض سے روانہ كئے اور يہ ہدايت دى كہ اگر لوگ زكات نہ ديں تو ان سے جنگ كى جائے _ ابن ماجہ كے علاوہ اہل سنت كے ديگر تمام محدثين نے ابوہريرہ سے نقل كيا ہے كہ عمر نے اس مسئلہ پر ابوبكر سے اختلاف كيا اور كہا كہ آپ كيوں بے سبب لوگوں كا خون بہانے پرتلے ہوئے ہيں درحاليكہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تو يہ فرمايا ہے كہ ميں اس كام كے لئے مامور كيا گيا ہوں كہ لوگوں سے اس وقت تك جنگ كر تا رہوں جب تك وہ شہادين نہ كہہ ليں ، مگر اس كے بعد ان كا خون نيز ان كا مال قابل احترام ہے_ اس پر ابوبكر نے فرمايا قسم ہے خدا كى كہ اگر لوگ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو زكات ميں خواہ اونٹ كى رسى ہى ديتے تھے مگر مجھے نہ ديں گے اور نماز وزكات كے درميان تفرقہ ڈاليں گے تو ميں ان سے جنگ كروں گا _ يہ سن كر عمر نے كہا كہ ميں نے ديكھا ہے كہ خداوند تعالى نے ابوبكر كا سينہ قتال(جنگ وپيكار) كے لئے فراخ كرديا ہے اور ميں نے جان ليا ہے كہ وہ حق بجانب ہےں _(۲۲)

جامعة الازہر كے استاد دانشكدہ ادبيات عالم متبحر حسن(۲۳) ابراہيم حسن فرماتے ہيں كہ ابوبكر جن لوگوں سے اس بنا پر جنگ كررہے تھے كہ وہ مرتد ہوگئے تھے در حقيقت ان ميں سے كوئي بھى مرتد نہيں ہوا تھا وہ لوگ دين اسلام سے نہيں پھرے تھے بلكہ حكومت سے ان كے اختلاف كا سبب كچھ اور تھا_(۲۴)

اس كے بعد ابوبكر كى ان لوگوں سے جنگ كے محرك كے متعلق لكھتے ہيں خليفہ نے مرتدين

۶۰