یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے
مجموعہ تقاریر حصہ اول
مصنف: مولانا جان علی شاہ کاظمی
مجلس ۱
بسم الله الر حمن الر حیم
فقد قال الله تبا ر ک و تعالی فی کتا به ا لمجید
( الذین یتبعو ن الرسو ل النبی الامی الذی یجدو نه مکتو با عنده م فی التو را ة و الانجیل )
اگر ہم دنیا کی طر ف نظر اٹھائیں تو مسلما ن مظلو م نظر آ ر ہے ہیں فلسطین میں مسلمین مظلو م ہیں لبنا ن میں مسلمین اور مو منین مظلو م ہیں عرا ق میں مو منین مظلو م ہیں کشمیر اور افغانستا ن میں مسلمین مظلو م ہیں آ ج دنیا کے مظلو م ظلم سے نجا ت چا ہتے ہیں تو مو لا حسین کی فر یا ده ل من نا صر ینصر نا پر لبیک کھیں اس کے علاو ہ کو ئی را ستہ نہیں ہے کہ مسلما ن ظلم کی وا دی سے نجا ت حا صل کر سکیں مگریہ کر بلا مظلومون کے لئے نجا ت کا پیغا م ہے کر بلا دنیا اور آ خر ت میں مسلمین اور مو منین کے لئے نو ر ہد ا یت ہے کر بلا وا لو ں نے ہمیں وہ در س دیا ہے اگر آج بھی دنیا کے مسلمان اس درس پر عمل کریں تو آ ج کے زمانے کے یزید شکست کھا سکتے ہیں آ ج کے زمانے کے فر عو ن نا بو د ہو سکتے ہیں آ ج کے یزید اور فر عو ن مسلما نو ں کو قتل کر رہے ہیں قو م پر ستی کے ذریعے سے انہیں نا بو د کر ر ہے ہیں اور دوسری طر ف اقتصا دیات پر بھی آج کے فر عو نو ں کا قبضہ ہے ورلڈ بینک IMF کے ذریعے سے مصنو عی غربت مصنو عی فقر اسلا می مما لک میں پید ا کر کے اور پھر مسیحی مبلغین کو بھجتے ہیں تا کہ وہ پیسہ کے ذریعے سے فقیر مسلما نو ں کے دین اور ایمان ختم کر یں
اور انہیں عیسا ئی بنائیں جبکہ خو د عیسائیت یو ر پ میں امر یکا میں دم تو ڑ چکی ہے خود وہاں کے عیسا ئی بڑے بڑے پڑھے لکھے لو گ اسلا م کو قبو ل کر ر ہے ہیں جب وہا ں اسلا م سے شکست کھا ئی تو وہ ان غریب مما لک کا ر خ کر تے ہیں.
ایک خبر ہم نے پڑ ھی ہے کہ اپریل سے پا کستا ن میں عیسا ئی مشنر ی والے ایک ریڈیو اسٹیشن کھولنے والے ہیں جس میں تقریبا پاکستان کی سا ری زبانون میں تبلیغ کر یں گے حتی کے بلتی زبا ن میں بھی، جبکہ بلتستا ن میں کو ئی ایک بھی عیسا ئی نہیں ہے اور وہ ریڈیو اتنا پا ور فل ہو گا کہ کو یت سے لیکر پاکستا ن ایران اس پو رے خطہ میں سنا جا ئے گا آپ دیکھ ر ہے ہیں کہ تبلیغ تو ہمیں کر نی چاہئے مسلما نون کو حق پہنچتا ہے کہ مسیحیو ن کو ہد ا یت دے کر مسلما ن بنا ئیں مگر الٹا یہ ہو ر ہا ہے کہ مسیحی مسلما نو ں کے مما لک میں آ کر مسلما نو ں کو عیسائی ا ور کا فر بنا ر ہے ہیں
جب سر کا ر محمد مصطفی ص نے اسلا م کا آ غا ز مکہ اور مد ینہ سے کیا اس زما نے میں عیسا ئی اور یہو دی با اثر تھے اور معجزا ت ما نگنے کے لئے آئے جب منکر ین نبو ت نے معجزے ما نگے تو اللہ کے رسول جب کنکر یا ں ہاتھوں پر لی تو پتھروں سے صد ا آنے لگی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ یہ عیسائی نہین مانیں گے انہو ں نے کہا ہم اس وقت مانیں گے جب آ پ اس در خت کو حکم دین تویہ درخت اپنی جگہ چھو ڑ کر آ پ کی خد مت میں آ جا ئے اللہ کے رسو ل نے اشا رہ کیا در خت نے اپنی جگہ چھو ڑ د یا اور در خت سے بھی وہی صد ا آئی لا الہ الااللہ محمد رسول
اللہ پھر بھی یہ منکر ین نبو ت نہیں مانے کہنے لگے ہم تب ما نیں گے کہ اس در خت کے دو ٹکڑے ہو جا ئیں اللہ کے رسول نے اشا رہ کیا در خت کے دو ٹکڑے ہو گئے پھر بھی نہ ما نیں کہنے لگے ہم تب ما نیں گے کہ یہ دو نوں ٹکڑے آپس میں مل جا ئیں اور وا پس پہلی جگہ پر چلے جا ئیں اللہ کے رسو ل نے اشا رہ کیا درخت کے دو نو ں ٹکڑے مل گئے اور در ختوں کے پتو ں سے آ واز آنے لگی لا الہ لااللہ محمد رسو ل اللہ یہ معجزا ت تھے جو ما ننے والے تھے ایما ن لے آئے یہو دی اور نصر انی انکا ر کر تے رہے
اللہ کے رسول نے منا ظرہ کی دعو ت دی ہم منا طرہ کر ناچاہتے ہیں اللہ کے رسول اپنی نبو ت کو تو ریت اور انجیل سے ثا بت کر نا چا ہتے تھے اور ثا بت کر چکے تھے اور دلا ئل پیش کر ر ہے تھے تین دن گذ ر گئے مگر پھر بھی یہ عیسا ئی اور یہو دی ایما ن نہ لائے اب پر وردگا ر نے حکم دیا میرے محبو ب اب منا ظرہ کی ضرورت نہین ہے
مبا ہلہ کی ضرورت ہے اب منا طر ہ بہت ہو چکا ہے تین دن سے آ پ زحمت کر ر ہے ہیں دلیل پر دلیل لا رہے ہیں مگر یہ ماننے والے نہیں ہیں ان سے کہہ دیں کہ منا ظر ہ کے لئے آؤ اب منا ظر ہ کیا ہے مبا ہلہ کیا ہے مناظر ہ میں آپ بھی دلیل دیتے ہیں سا منے والا بھی د لیل لا تا ہے
آ پ بھی ثبو ت پیش کر تے ہیں سا منے وا لا بھی ثبو ت پیش کرتا ہے جس کے دلائل مضبوط ہوتے ہیں اس کو فتح ملتی ہے اور جس کے دلائل کمزور ہوتے ہیں اس کو شکست ملتی ہے یہ تو ہے منا ظرہ، اب مبا ہلہ کیا ہے مباہلہ یہ ہے کہ اگر منا ظرہ سے نہین ما نتے ہیں تو تم بھی مید ان میں آؤ ہم بھی مید ان میں آئیں گے اور خد ا سے دعا ما نگتے ہیں پر وردگار جو با طل پر ہے اس پر عذا ب ناز ل کر. اب یہا ں ما ننے اور نہ ما ننے کا مسئلہ نہیں ہے اب یہا ن لمبی بحث کی ضرورت نہیں ہے پروردگا ر نے فر ما یا: اے میرے محبو ب ان سے کہدو( فقل تعالوا ندع انبا ئنا و ابنا ئکم ) تم اپنے بیٹو ں کو لیکر آؤ ہم بھی اپنے بیٹوں کو لیکر آئیں گے( وانفسنا وانفسکم ) تم اپنے نفسوں کو لیکر آ ؤ ہم اپنے نفسوں کو لیکر آئیں گے( نسا ئنا و نسائکم ) تم اپنی عورتوں کو لیکر آؤ ہم بھی ا پنی عورتوں کو لیکر آئیں گے
تا ریخ اسلا م گو اہ ہے تا ر یخ انسا نیت گواہ ہے جب پنچتن پا ک مید ان مبا ہلہ میں آ ئے جب ان نصر ا نی علما ء کی نظر حسن اور حسین کے چہر ہ پر پڑی، مولا علی - کے چہر ہ پر پڑی تو یہ کہنے لگے اے عیسائیو ں خبر دا ر مباہلہ نہ کر نا کیو ں کہ ہم ایسے چہروں کو دیکھ رہے ہیں کہ یہ اگر پہا ڑوں کو حکم دیں تو پہا ڑ اپنی جگہ سے ہٹ جا ئیں اگر تم نے مبا ہلہ کیا تو تمہا ر ی نسل ختم ہو جا ئے گی لہذا مباہلہ میں مسیحیو ں نے شکست کھا ئی اور منا ظرہ میں بھی شکست کھا ئی اور آج بھی اس توریت اور انجیل میں اس قدر آ یتیں مو جو د ہیں کہ کسی بھی مو ضو ع پر مسیحی مسلما نو ں کو شکست نہیں دے سکتے ہیں مگر افسوس کی با ت ہے کہ مسلما ن ذرا اس امر کی طر ف متو جہ نہین ہیں، عرض کیا گیا ہے کہ اگر ایک مسلما ن ا یک عیسا ئی کو مسلم بنا ئے تو دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے کیوں کہ اسلا م دین حق ہے اسلا م دین منطق ہے اسلا م کے پا س جو فلسفہ وہ دنیا کے کسی مذہب کے پا س نہیں ہے اسلا م ترقی یا فتہ مذہب ہے خد ا کا مذہب ہے تو ریت سے بھی ثا بت کر سکتے ہیں انجیل سے بھی ثا بت کر سکتے ہیں سا ئنس کو سامنے رکھ کر آ پ اسلا م کی عظمت کو سمجھ سکتے ہیں
ایک شخص افریقا، غانا کا تھا پہلے وہ مسیحی تھا پھر مسلما ن ہوا
پھر الحمد للہ مو من بن گیا اور جن آیتون سے وہ مسلما ن ہوا وہ حضر ت عزیر کے با رے میں تھی نیمیا چپڑ کا نمبر دس کہ حضرت عزیر نے سجدہ کیا اوریہی سجدہ والی آیت سبب بنی جو اس نے تحقیق کی، لیکن یہ ایک آ یت تھی جو عرض کی گئی ہے تو چپٹر کا نام جنیسز چپڑ کا نمبرسترہ ۱۷ اس میں ذ کر حضرت ابر اہیم کا ہے آیت کا نمبر تین t this abrah feel face down an the dust اور جب حضرت ابر ا ہیم نے اپنی پیشا نی کو خاک پر رکھا اور جب حضرت ابر ا ہیم نے اپنی پیشا نی کو خا ک پر رکھی تو اسی و قت خد ا کی طرف سے و حی نا ز ل ہو ئی اے ابر ا ہیم ، تو ہے چپڑ کا نمبر ۰ ۲ ہے آ یت کا نمبر ۶ moses and Aron trun away from the people and wen to the antrans of the trabule makel where they fel face dow n on the ground on thre gloryspresence of the lord apeard to them حضرت مو سی اور حضرت ہا رو ن ذرا لو گو ں سے دو ر ہوئے اور د و نوں نے اپنے پیشانیوں کو سجدہ میں رکھ دیا
جب مو سی اورہا ر ون سجدہ میں گئے انہون نے حا لت سجدہ میں قر ب پروردگار کو حا صل کیا، چپٹر کا نا م جشوعہ نمبر ۵ and this jshoa fell with his face to t he ground حضرت یو شع بن نو ن نے اپنے پیشا نی کو سجدہ میں رکھدیا
انجیل میں آ یا ہے چپٹر کا نمبر متھیو ۲۶ آ یة کا نمبر ۳۹حضرت عیسی کا ذ کر ہے he went on a little farther and fell face down on the ground praying my father if it is posible late this cup of sufring be taken away from me حضرت عیسی نے اپنی پیشا نی کو سجدہ میں ر کھا اور دعا ما نگی اگریہ ممکن ہے تو میری اس دعا کو قبو ل فر ما ئے
اب یہ تو ریت اور انجیل ہے حضرت ابر اہیم بھی سجدہ کر رہے ہیں حضرت مو سی کے سجدہ کا ذ کر ہے حضر ت عزیر کے سجدہ کا ذ کر ہے حضرت ہا ر ون کے سجدہ کا ذ کر ہے حضر ت عیسی کے سجدہ کا ذکر ہے تو ہم عیسا ئیو ں سے سوال کر سکتے ہیں کہ تمھا ر ا کر دا ر سچا ہے یا تو ریت اور انجیل سچی ہے کیو ں کہ تو ریت اور انجیل میں تویہ ہے کہ تمام بزر گ انبیا ء سجدہ کر تے ہو ئے اس د نیا سے گئے ہیں مگر عیسا ئیو ں کی کسی عبا د ت میں سجدہ نہیں ہے لہذا اگر تو ر یت اور انجیل حق ہے تو سجدہ کی عبا د ت بھی حق ہے اور نہ عیسائیوں کے یہا ں یہ عبا دت نظر آ تی ہے اور نہ یہو دیوں کے یہاں یہ عبا د ت نظر آ تی ہے مگر الحمد للہ مسلما ن پا نچ وقت ہر رکعت میں دو سجدہ کرتے ہیں
عزادا ری امام حسین بہتر ین عبا د ت ہے اسلا م میں کو ئی بھی عبا د ت شر ط اور شر ا ئط کے بغیر نہیں ہے اللہ کے رسو ل سر کا ر حضرت محمد مصطفی ص عبادت کے شر ا ئط میں ایک اہم شر ط بتا تے ہیں کو ئی بھی شر ط ہو روزہ ، نماز ، زکا ت ، کو ئی بھی عبا د ت ہویہ روا یت بحا ر الانوار کی آ یت ہے فر ما تے ہیں:العبادة مع الحر ام کالبناء علی الما ء اے عبا د ت کر نے والو! سنو! اے حا جیو! سنو ر سول خدا فر ما تے ہیں اگر کو ئی عبا دت بھی کر ر ہا ہے حرام کا ما ل بھی کھا ر ہا ہے رشو ت کا ما ل بھی کھا رہا ہے ظلم کا ما ل کھا رہا ہے اللہ کے رسو ل فر ما ر ہے ہیں: اس انسان کی مثا ل اس انسان جیسی ہے کہ جو پا نی پر گھر بنا نا چاہ رہا ہے فر ما یا، پا نی سمندر کے اندر گھر نہین بن سکتا ہے ا گر رزق حلا ل نہین ہے تو اس عبا د ت کا کو ئی فا ئدہ تجھے نہین ملتا ہے اس عبا د ت سے آخرت میں کو ئی نجات نہین مل سکتی ہے شر ط عبا دت یہ ہے کہ لقمہ حلا ل ہو نہج البلا غہ میں فر ما یا ہے کہ مو لا علی - اپنے پیا رے صحابی بصرہ کے گورنر، عثمان بن حنیف کو خط لکھتے ہیں اور اس میں فر ما تے ہیں حضرت عثمان بن حنیف بصرہ کے گو ر نر ہیں کچھ تاجر وں نے انہیں دعو ت دی و ہاں پر بڑے لذیذ کھا نے پکا ئے گئے مو لا علی -
-کے گو ر نر نے بڑی لذت سے انہیں کھا یا اوریہ خبر مو لا علی -تک پہنچی مو لا علی -اپنے گو رنر کو خط لکھتے ہیں فر ما یا: اے عثمان بن حنیف یا د رکھ اگر تو علی - کا ما نے والا ہے ا گر تو علی کا چاہنے والا ہے مو لا علی -کیا فر ما ر ہے ہیں : اے عثمان بن حنیف یا د رکھ جب بھی کو ئی لقمہ ان دو دا نتو ں کے در میا ن گذا ر دے تو پہلے یہ خود سوچ لے، تحقیق کر لے کہ یہ حلا ل سے حا صل کیا گیا ہے یا حرا م سے حا صل کیا گیا ہے؟ یہ نہیں کہ جو دعو ت میں بلا ئے چلے جاؤ پہلے تحقیق کرو. ظا ہرا مو من تھے مسلما ن تھے مو لا علی - فر ما تے ہیں تحقیق کرو جنہو ں نے تمہیں بلا یا ہے کیا ان کی کما ئی حلا ل سے ہے یا حرا م سے حا صل شدہ ہے اگر ان کا لقمہ حلا ل سے ہے تو پھر اس لقمہ کو نگلو ا گر شبہ بھی ہو جا ئے کہ اس لقمہ میں حر م شا مل ہے تو اسے پھنک دو
مو لا علی - کا دوسرا جملہ نہج البلا غہ میں فر ما تے ہیں: ”لا ورعہ“ ایسا کو ئی متقی نہیں ہے سب سے بلند تقوی کی تعریف مو لا علی -کی زبا ن سے سنئے ”لا و رعہ کالوقوف عند شبہ “ مو لا علی -نے فر ما یا ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی کا تقوا نہیں ہے اس سے بڑھ کرکوئی ایمان نہیں، اس سے بڑھ کر کو ئی پرہیز گا ر نہیں ہے کہ جہا ں تمہیں شبہہ ہو جا ئے کہ یہ حرا م ہے تو اس لقمہ کو پھینک دو مثلا ایک مو من ہے اس کی تنخواہ بیس لا کھ ہے مگر اس کا بنگلا پچا س لا کھ کا ہے اس کی گا ڑی بیس لا کھ کی ہے نہ اس کے یہا ں زمین ہے اور نہ کو ئی ا و ر کا رو با ر ہے لہذا یہاں شبہہ ہے کہ شا ید رشوت لے ر ہا ہو اگر کو ئی انسان شبہہ والی غذا کو چھو ڑ دے تو اس سے بڑھ کر کو ئی پر ہیزگا ری نہیں ہے یہ بڑا تقوا ہے اوریہی جملہ حضرت امام زمانہ عج ا پنی دعا میں فر ما تے ہیں، اے مو منو ن اس طر ح سے دعا ما نگو اس طرح سے زندگی بسر کرو مو لا کس طرح سے مو لا فر ما تے ہیں:و طهر بطو ننا من الحرا م و الشبهه اے میرے ا للہ میرے پیٹ کو حرا م سے بھی بچا اور جس غذا میں شبہہ ہو اس غذا سے بھی بچا ، مو لا علی
- فر ما تے ہیں: سب سے بڑا تقویٰ یہ ہے، امام زما نہ فر ما تے ہیں اس دعا پر عمل کرو شبہہ نا ک غذا کو بھی چھو ڑ دو، مو لا سے سوا ل کیا گیا اس کی کیا وجہ ہے اب مو لا اپنے خاص صحا بی کمیل سے اس کی وجہ بتا تے ہیں ، مو لا علی - فر ما تے ہیںیا کمیل القلب و اللسا ن یقو ما ن با لغذا اگر انسان کا دل نہ ہو تو عبا د ت نہیں ہو سکتی ہے دعا نہیں پڑھ سکتا ہے جب تک زبا ن نہ ہو یا قلبی ذ کر ہے یالسا نی ذ کر ہے، مو لا فر ما تے ہیں اے کمیل دل اور زبا ن سے عبا د ت ہو تی ہے تیری زبان اور قلب غذا سے قو ت لیتی ہے اگر تیری غذا حرام ہے تولم یتقبل الله تسبیحا و شکراً ا گر تو غذائے حر ام سے زبا ن اور دل کو طا قت د ے ر ہا ہے تو اے کمیل سن لے نہ تیری تسبیح قبو ل ہے اور نہ تیری عبا دت قبو ل ہے اگر تیری یہ زبا ن حر ام غذا سے طا قت لے رہی ہے تو نہ تیری تسبیح قبول ہے اور نہ تیری عبا د ت اور نہ تیرا شکر اللہ کی با ر گا ہ میں قبو ل ہے آج کے زما نے کا سب سے بڑا مشکل کام رزق حلال ہے اور رزق حلا ل کھا نا اس زما نے میں سب سے مشکل کا م ہے نا ممکن نہین مگر مشکل ضرور ہے جس طر ح سے مو لا نے فر ما یا: کہ تیری دعا قبو ل نہیں ہے نہ تیری نماز قبو ل ہے کیو ں قبو ل نہیں ہے یہ اس لئے ہے، مثا ل کے طور پر ہم فصل لگا نا چا ہتے ہیں مگر پا نی آ پ نے وہ دے دیا جو زہریلا ہے تو پورے درخت جل جا ئیں گے پھل نہین دیں گے ثمر نہین ملے گا ،مو لا علی - یھی فر ما نا چا ہتے ہیں اگر تیری غذا حلا ل نہیں ہے نہ نماز قبو ل ہے نہ رو زہ قبول ہے نہ کو ئی عزاداری قبو ل ہے ہر عبا د ت کے لئے شر ط ہے کہ لقمہ حلا ل ہو نا چاہئے اگر غذا حر ام ہے تو خدا کسی عبا د ت کو قبو ل نہین کر ے گا
اگر انسان کی نما ز قبو ل نہ ہو رو زہ قبو ل نہ ہو ا گر دیگر عبا د ا ت قبو ل نہ ہو ں تو یہ انسان کس قدر بدبخت ہے ایسے بدنصیبوں کے با ر ے میں قر آن نے فر ما یا، اے انسان جب تم اس پستی کے وا دی میں گرجا ؤکہ تیری عبا د ت قبو ل نہ ہو تیر ی دعا قبو ل نہ ہو( اولا ئک کا لانعا م بل ه م اضل ) اس و قت تو پست ترین حیو ان سے بھی بد تر ہے آ ج کا سب سے بڑا مشکل امر رزق حلال ہے کیوں کہ حر ام اس قدر زیا د ہ ہو چکا ہے کہ شنا خت ختم ہو چکی ہے کہ حلا ل کیا ہے حر ام کیا ہے اس قدر ا س زما نے میں حر ا م خوری عروج پر پہنچ چکی ہے اور اس قدر وہ قلیل مو منین ہیں جو فکر کر تے ہیں کہ بطن میں حرا م لقمہ نہ جائے اس لئے آج مصیبتیں ہیں اسی لئے آج فا سق اور فا جر حکمرا ن آپ پر مسلط ہیں کیو ں کہ دعا قبو ل نہیں ہو تی ہے
کو فہ میں ایسے مو منین بھی ہو ا کر تے تھے کہ جب با دشا ہ کو بد دعا دیتے تھے تو با دشا ہ مر جاتے تھے ایک با دشا ہ آ یا اسے بتا یا گیا کہ یہاں او لیا ء خدا رہتے ہیں جب وہ کسی با دشا ہ کو بد دعا کر تے ہیں تو وہ با دشا ہ مر جا تے ہیں ابن زیا د مر گیا فلا ن مر گیا ایک فہرست ہے اب اس با دشا ہ نے کہا ٹھیک ہے میں ان کا بندوبست کرو لوں گا کیا کیا ان تمام شہر والوں کو بلا یا کہا کہ میری طرف سے آ پ لوگوں کو دعوت ہے اور ان عابد وں کو دعو ت میں بلا کر ان کو حر ام کھلا یا ا ور پھر جب سب لو گ کھا چکے انہیں بتا بھی دیا اب جتنی دعا ئیں میرے خلا ف کر نی ہے کر تے رہو میں ہو ں ظا لم مگرمیں نے ا پنے دفا ع کا بندو بست کر لیا
میں نے تمہیں حرام کھلا دیا ا ب نہ تمہا ر ی دعا قبو ل ہے اور نہ بد دعا قبو ل ہے اوریہ حقیقت ہے ا گر لقمہ حرا م پیٹ میں ہو تو تم لو گو ں کی دعا قبو ل نہیں ہو تی ہے ہم کس نبی کے ما ننے والے ہیں کس مو لا علی - کے ماننے والے ہیں ا للہ کے رسول جب حضرت آئے تو و ہ ز ما نہ کس قدر فقر و فا قہ کا زمانہ تھا جنگوں پر جنگیں ہو رہی تھیں چا ر سو اصحا ب صفہ تھے وہ اس قدر غریب تھے نہ ان کے یہا ں اپنا گھر تھا
اور نہ کھا نے کے لئے پیسہ تھا یہ لو گ مسجد میں رہتے تھے اللہ کے رسو ل جو کچھ جہاں سے بھی مل گیا آ کر انہیں اپنے ہا تھوں سے کھلا تے تھے
اللہ کے رسول کو کچھ کھجو ریں ملیں تو وہ آ کر خود اپنے ہا تھوں سے ان کو تقسیم کی ایک نے کہا اللہ کے رسول مگر ہم میں سے کسی کا پیٹ نہیں بھر ا ہے. اللہ کے رسول نے کہا میرے پا س جو کچھ تھا لیکر آ یا ہوں پھر جہاں سے ملے گا میں آ پ کی خد مت میں حاضر کردوں گاا للہ کے رسو ل ص نے فر ما یا آ ج تم لو گ اس قدر فقیر ہو کہ تم پیٹ بھر کر کجھو رنہیں کھا سکتے ہو ا یک زما نہ آ ئے گا کہ مسلما ن اس قدر پیسہ وا لے ہوجا ئیں گے کہ ان کے گھروں کی دیوا ر یں اس قدر بلند ہو جا ئیں گی کہ وہ خا نہ کعبہ کی د یواروں سے بھی بلند ہو ں گی
اس زما نہ میں یہ تصور نہیں تھا کہ اتنے بڑے بڑے گھر بنا ئے جا ئیں گے اللہ کے رسول ص فر ما ر ہے ہیں کہ ا یک زما نہ میں مسلما ن اتنے امیر ہو جا ئیں گے کہ جب دستر خو ان پر بیٹھیں گے تو ان کے پلیٹوں میں بو ٹیا ں ہی بوٹیاں ہوں گی
وہ بیچا رے اصحا ب جو فقر و فا قہ کے شکا ر تھے کہنے لگے اللہ کے رسول کا ش ہم اس زمانے میں ہوتے، اللہ کے رسول نے فر ما یا: نہیں بہت برا زما نہ ہے یہ مت کہو کہ وہ اچھا زما نہ ہے سارے یہ چار سو فقرا ،اصحا ب حیر ان ہو گئے اللہ کے رسول ابھی تو آپ تعریف کر ر ہے تھے کہ وہ بہت اونچی اونچی عمارتیں بنا ئیں گے
جب دستر خو ان پر بیٹھیں گے تو و ہ ہما ری طر ح بھوکے وپیا سے نہین ر ہیں گے بلکہ گو شت ہی گو شت ان کے پلیٹو ں میں ہو گا مگر آ پ فر ما ر ہے ہیں وہ بہت بر ا زما نہ ہے اللہ کے رسول نے فرما یا وہ بہت بر ا ز ما نہ ہے ہا ن تم فقیر ہو مگر تمھا ر ے شکم میں لقمہ حر ام نہیں ہے مگر وہ زما نہ ہے کہ لو گوں کے پیٹ حرا م غذا سے بھر ے ہو ئے ہیں وا قعاًیہ وہی بر ا زما نہ ہے اللہ کے رسو ل اکثریت کی با ت کر ر ہے ہیں کہ اس زما نے میں اکثر لوگ حرام خور ہوں گے آ ج کتنے مسلما ن ہیں جو سود خو ر بھی بن چکے ہیں اور سود کو اپنے عقلی دلا ئل سے جا ئز ہو نے کے لئے کو شش کر تے ہیں یعنی خود کو خدا سے بھی زیا دہ عالم اور عاقل سمجھتے ہیں آ ج کے زما نے کا مشکل ترین زما نہ رزق حلا ل ہے اگر ہم نے رزق حلال حا صل کر لیا تو ہما ری ہر عبا د ت قبو ل ہے کس نبی کے ہم ما ننے والے ہیں کس مو لا علی - کے ما ننے والے ہیں تا ر یخ میں ملتا ہے کہ مو لا علی - کے پا س معمو لی کھجو ریں تھیں کجھو ر کے ساتھ رو ٹی کھا ر ہے تھے اور وہ کجھو ر کو ا لٹی میں سب سے ادنیٰ کوا لٹی کی کھجو ر یں تھیں پھر تاریخ میں ملتا ہے کہ مو لا علی - پا نی میں ابلا ہو ا کدو جو کی سو کھی رو ٹی کے سا تھ کھا رہے ہیں اور کھا نے کے بعد کہتے ہیں شکر الحمد للہ ہم اس علی - کے ماننے والے ہیں اس کے بعد مو لا فر ما تے ہیں: اے لوگو ں یہ انسان کا پیٹ ہے جو اس سادہ غذا سے بھی بھر جا تا ہے اس کے بعد پیٹ پر ہا تھ رکھ کر فر ما تے ہیں خدا کی لعنت ہو اس پر جو پیٹ کی وجہ سے جہنمی بنے آ خر کھا نے کی لذت کب تک ہے لذیذ سے لذیذ تب تک ہے جب تک کھا نا منہ میں ہے نگلنے کے بعد کو ئی لذت نہیں ہے وہی لذیذ کھا نا آٹھ گھنٹے کے بعد نجس تر ین بد بو دا ر تر ین شکل میں بیت الخلا میں بطن سے خا ر ج ہو جا تا ہے اس غذا کے لئے انسان خدا کی مخا لفت کر ے جو غذا آ ٹھ گھنٹے میں انتھا ئی نجس تر یں شکل وصور ت اور بد بو کے ساتھ بطن سے خا ر ج ہو جا تی ہے اس غذا کے لئے انسان اس قدر بد بخت بن جا ئے کہ نہ عبا د ت قبول، نہ نماز قبو ل، نہ ر و زہ قبو ل، کو ئی بھی عبا د ت قبو ل نہیں ہے حق ہے جو مو لا نے فر ما یا، لعنت ہو اس پر جو اس پیٹ کی وجہ سے جہنمی بنے اگر کو ئی شکم پرست ہے وہ خو د کو خدا پرست نہ کہلا ئے اگر کو ئی لذت پر ست ہے لذت کے سا منے خد ا کی بھی تو ہین کر ر ہا ہے نبی کی بھی تو ہین کر ر ہا ہے انسان شکم پر ست اور ہے خدا پر ست اور ہے خدا پرست کبھی شکم کی وجہ سے دو منٹ کی لذت کی وجہ سے لقمہ حرام کی طر ف ہاتھ نہیں بڑھا تا ہے اگر رزق حلال مل گیا تو سب کچھ مل گیا عبا د ت کے دس اجزا ء ہیں روزہ حج زکا ت یہ تمام عبا د تین جو ہیں اللہ کے رسول فر ما تے ہیں ا یک جز ء میں ہیں مگر عبا د ت کا نو حصہ رزق حلال کما کر رزق حلا ل کھا نے میں ہے نماز نو حصہ عبا دت نہیں ہے روزہ نو حصہ عبا د ت نہیں ہے فر ما یا سا ری عباد تیں ایک جز ء میں شامل ہیں مگر نو حصہ عبا د ت رزق حلا ل کمانے اور رزق حلال کھا نے میں ہے اگر انسان رزق حلا ل نہیں کھا ر ہا ہے تو وہ انسان کتے، خنزیر سے بھی بد تر ہے پیٹ تو کتا بھی اپنا بھر لیتا ہے پیٹ بھر نا کو ئی کما ل نہیں ہے خد ا رزق کا فر کو بھی دیتا ہے خد ا رزق نجس ترین حیو ان کو بھی دیتا ہے کمال یہ ہے کہ جب انسان لقمہ کو منہ میں رکھے اس کے با رے میں سو فیصدی یقین ہو کہ یہ حلال ہے آج کے زما نے میں کچھ لو گ جا نتے ہو ئے حرا م کھاتے ہیں رشو ت لیتے ہیں خیا نت کرتے ہیں کچھ لوگ بیچا ر ے نا د انی میں حرا م کھا تے ہیں کچھ لو گ یا ری دوستی میں حرا م کھا تے ہیں دو ست اس کا ما ل تو حرام ہے ا گر اس کے دعو ت میں نہ جا ئیں تو و ہ نا را ض ہو جا ئے گا مختلف بہانوں سے کسی نہ کسی طر ح سے یہ لقمہ حرا م پیٹ میں چلا جا تا ہے جہاں لقمہ حرام پہنچا وہا ں عبا د ت ضائع ہو جا تی ہے عبا د ت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہے اللہ کے رسول فر ما تے ہیں: ا گر کو ئی حرام کھا رہا ہے وہ ایسے کا م کر ر ہا ہے کہ جیسے کو ئی احمق اور نا دا ن دریا میں گھر بنا نا چا ہتا ہے پا نی میں گھر نہیں بن سکتا ہے، حرا م کھا نے والا اپنا گھر جنت میں نہیں بنا سکتا ہے
اختتام