یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے
مجموعہ تقاریر حصہ دوم
مصنف: مولانا جان علی شاہ کاظمی
مجلس ۱
امام زمانہ
بسم الله الرحمن ا لرحیم
( بقیة الله خیر لکم ان کنتم مومنین ) ۔(سورہ ہود آیت ۸۶)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ قر آن کریم میں فرما رہا ہے( بقیة الله خیر لکم ) بقیة اللہ کا وجود تمہارے لئے خیر ہے بہتر ہے( ان کنتم مومنین ) اگر تم مومن ہو تو بقیة اللہ کاوجود تمہارے لئے خیر ہے اب اس لفظ بقیة اللہ کا ترجمہ کیاہے بقیة اللہ یعنی وہ ہستی وہ عظیم الشان حجت خدا جسے خدا نے آج تک باقی رکھاہے ، یہ وہ آیت ہے جس میں پروردگار عالم نے حضرت امام زمانہ (عج) کے مشہور اور معروف اس نام کا تذکرہ کیا ہے کہ ہم زیارت میں بھی کہتے ہیںالسلام علیک یا بقیة الله بقیة اللہ بارہویں سرکار بارہویں امام کے مشہور صفات اور مشہور ناموں میں سے ایک نام ہے فر مایا ان کا وجود تمہارے لئے خیر و برکت کا سبب ہے ۔
خداوند عالم نے ہمیں امام عطا کیا ہے اور ہمارے امام آج بھی زندہ ہیں آج بھی ہماری نصرت اور مدد فرماتے ہیں آ ج بھی ان کے معجزات ایسے ہیں کہ کوئی انکار نہیں کرسکتا آج بھی وہ اپنے شیعوں کے مدد گار ہیں چہ جا ئیکہ غیب کے پردہ میں ہیں ۔
مگرآپ نے نہیں دیکھا کہ صدام بھی شیعوں کا دشمن تھا صدام نے دس لاکھ شیعوں کو بے گناہ قتل کیا تیس سال میں اس خبیث نے اس وقت کے یزید نے عرا ق میں دس لاکھ شیعوں کا قتل عام کیا اور امریکا بھی شیعوں کا دشمن ہے صدام بھی ہمارا دشمن ہے مگر سبحان اللہ یہ بارہویں امام کا معجزہ نہیں تو اور کیاچو تھے امام کی دعا ہے کہ پروردگار تو ظالم کو ظالم سے لڑا تا کہ مظلوم محفوظ ہو جائیں خدا نے لطف و کرم کیا امام زمانہ کا معجزہ ہے کہ خدا نے امام زمانہ کے لطف و کرم سے آج مو منین محفوظ ہیں یا امریکی مررہے ہیں یا صدامی مررہے ہیں۔
ہر زمانے میں امام لطف و کر م فر ماتے ہیں خود امام فر ماتے ہیں اے شیعو! اگر ہماری غیبی مدد تمہارے حال میں شامل نہ ہو تی تو دنیا تمہیں مٹا چکی ہوتی اس قدر بڑی بڑی طاقتوں نے اس عزاداری کو ختم کرنا چا ہا بنی امیہ کے بادشاہوں نے اس قدر پیسہ خرچ کئے کہ عزاداری مٹ جائے مگر ہر دن یہ عزاداری اور بڑھتی چلی جارہی ہے دنیا کے ہرکو نے کونے سے حسین،حسین کی صدا بلند ہوتی چلی جارہی ہے یہ اس لئے ہے کہ ہم بے سہارا نہیں ہیں ہمارے وارث امام زمانہ موجود ہیں مگر کیوں کہ ہمارے امام غیبت میں ہیں ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں ہر مسلمان کی ذمہ داریاں ہیں مگر خصوصاً جو خود کو مومن و شیعہ کہلا تے ہیں۔
غیبت میں ہماری ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں کیوں کہ ہمارے امام غیبت کے پر دے میں ہیں خصوصا ہم اپنے بچوں کو بارہویں سر کار کی معرفت کا نور دیں معرفت اگر نہیں ہو گی تو محبت بھی نہیں ہے اگر معرفت نہیں ہے تو یہ مشہور حدیث شیعہ سنی کتابوں میں موجود ہے کہ ”من مات و لم یعرف امام زمانه اگر کو ئی مرجا ئے اور اسے بارہویں امام اپنے زمانے کے امام کی معرفت نہ ہوفقد مات میتة جاهلیه تو وہ جہالت کی موت مر گیا وہ کفر کی موت مرگیا یعنی معرفت امام حاصل کرنا واجب ہے یہ ہر مو من پر واجب ہے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اس وقت حجت خدا کون ہے اس وقت نمائندہ خدا کون ہے۔
کچھ لوگ جو امام کے بارے میں اعتراضات کرتے ہیں ہمیں ان کے جوابات معلوم ہونے چا ہیئے تا کہ کوئی انسان کسی مومن کو گمراہ نہ کرسکے اس کے عقیدہ کو بگاڑ نہ سکے لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے امام کی اتنی لمبی عمر کیسے ہے؟ اس کا جواب، آپ حدیث سے دے سکتے ہیں قرآن سے دے سکتے ہیں عقل کی روشنی میں دے سکتے ہیں یہ کوئی مشکل سوال نہیں ہے البتہ سوال کا جواب ہر مومن کو آنا چاہئے ایک ہزاار سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا آپ کے امام ابھی تک زندہ ہیں یہ کیسے ممکن ہے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا وند عالم نے قر آن مجید میں فر مایا ہے ہم سب مسلمانوں کا عقیدہ ہے( ان الله علیٰ کل شئی قدیر ) کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے خدا کے لئے یہ کام مشکل نہیں ہے کہ کسی کو ایک سو سال کی زندگی دے یا دو ہزا ر سال کی زندگی دے خدا کے لئے یہ کام مشکل نہیں ہے۔
اب قرآن سے کچھ مثالیں ہیں کہ قر آن میں فر مایا ہے کہ حضرت نوح (ع) کی عمر قرآن میں نو سو سال سے زیادہ بتلائی ہے پروردگار نے انھیں نو سو سال سے زیادہ عمر دی ہے قر آن میں آ یا ہے کہ حضرت خضر اور امام زمان آج تک زندہ ہیں بعض مفسرین نے حضرت خضر کے بارے میں کہا ہے بعض نے کہا کے نبی ہیں بعض نے کہا کے نبی نہیں ہیں تیسری دلیل ہے کہ حضرت عیسی (ع) کے لئے قرآن کا صریح فیصلہ ہے کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں انہیں پھانسی نہیں دی گئی ہے اللہ نے انہیں بچالیا ہے اور وہ ابھی تک زندہ ہیں اور حدیث کہرہی ہے کہ جیسے ہم امام زمانہ کا انتظار کررہے ہیں ویسے حضرت عیسی بھی امام زمانہ کا انتظار کررہے ہیں۔
توجب حضرت عیسی(ع) اتنی لمبی زندگی پاسکتے ہیں حضرت خضر کو اتنی لمبی عمر مل سکتی ہے تو اس میں اعتراض کی کوئی بات نہیں ہے حضرت نوح نو سو سال زندہ رہ سکتے ہیں چلئے یہ تو اللہ کے انبیاء ہیں مگر ہم جتنے مسلمان ہیں ہم جب قرآن پڑھتے ہیں کہتے ہیں( اعوذ بالله من الشیطان اللعین الرجیم ) پروردگار میں تجھ سے پناہ مانگتاہوں کہ شیطان کے شر سے مجھے بچا یعنی سارے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ وہ شیطان جو سب سے پہلے گمراہ کرنے والاحضرت آدم سے بھی جو پہلے تھا وہ کمبخت شیطان ابھی تک زندہ ہے اگر مرگیا ہوتا تو ہم اعوذ باللہ کیوں پڑھتے وہ شیطان جو حضرت آدم (ع) سے بھی پہلے تھا وہ کمبخت شیطان اب تک موجود ہے توکیسے تعجب کی بات ہے کہ شیطان کی عمر پر یقین ہو اور امام کی عمر پر شک ہو جب شیطان جو گمراہ کرنے والا ہے اتنی بڑی عمر پاسکتا ہے مگر امام جو ہادی ہیں وہ اتنی لمبی عمر کیوں نہیں پاسکتے ہیں ؟۔
یہ جو اشکالات اعتراضات ہو تے ہیں ان کے جوابات ہر مومن کو آ ناچاہئیے ہمارے یہاں امام کی معرفت ہو ناچا ہئے معرفت کیسے حدیثو ں اور قرآن میں ہے کہ یہ جو نعمتیں آپ کو مل رہی ہیں یہ آپ کے بارہویں امام کے صدقے میں مل رہیں ہیں کیوں کے امام حجت خدا ہے ۔ مو لا علی کا خطبہ ہے کہ فر ما یا اے انسانو! سنو یہ زمین حجت خدا کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی ہے قانون خدا ایسا ہے کہ حجت خدا اس کائنات میں روح کی مانند ہے جیسے ہمارا یہ بدن تب تک باقی ہے تب تک زندہ ہے تب تک ہم بولتے ہیں جب تک کہ روح موجود ہے اگر روح نکل جائے تو وہیں بدن گر جاتا ہے بول نہیں سکتے دیکھ نہیں سکتے مو لا علی (ع) فر ما تے ہیں کائنات کی روح حجت خدا ہے یہ پو ری کائنات میں یہ در یا جو چل رہے ہیں ہوا ئیں چل رہی ہیں بچے پیدا ہو رہے ہیں زندگی ہے حرکت ہے جو کچھ نظام چل رہا ہے کیسے چل رہا ہے کیوں کہ اس کائنات میں رو ح موجود ہے اور ا مام زمانہ کائنات کی روح حجت خدا ہیں اللہ کی طرف سے حجت، اللہ کی طرف سے نمائندہ اگر یہ حجت خدا اس کائنات سے چلی جا ئے تو یہ کائنات میں جو ہر چیز ہے وہ رک جا تی ہے یعنی مو لا علی فر ما تے ہیں لوگوں یہ کائنات کبھی حجت خدا سے خالی نہیں ر ہ سکتی زمین کبھی امام کے وجود سے خالی نہیں ر ہ سکتی ۔
لہذا جو بھی ہمیں نعمت مل رہی ہے وہ امام زمانہ کے صدقے میں مل رہی ہے جب معرفت ہو گی تو خود بخود امام سے محبت ہو گی ہم مشکل میں تھے امام نے ہماری مشکل کو حل کردیا جب معرفت ہو گی تو خود بخود محبت پیدا ہو گی اور امام سے محبت کتنی کرنی ہے( قل لااسئلکم علیه اجراً الا المودة فی القربیٰ ) (سورہ شوری آیت ۲۳) محبت نہیں کرنی ہے مود ت کرنی ہے مودت کسے کہتے ہیں جہاں ساری محبتیں قربان ہو جائیں اسے مودت کہتے ہیں امام سے محبت والدین سے زیادہ کر نی ہے امام سے محبت اپنی جان سے بھی زیادہ کرنی ہے امام سے محبت اولا د سے بھی زیادہ کرنی ہے جب محبت ہو گی تو ملاقات کا عشق پیدا ہوگا کہ جس مولا کے صدقے میں مجھے ساری نعمتیں مل رہی ہیں کم سے کم اس مولا کی ایک مرتبہ زیارت تو ہو جائے ۔
اور یہی زیارت کا عشق انسان کو گناہوں سے بچا لیتا ہے کیوں کہ امام زمانہ فر ما تے ہیں اے شیعو! میں تم سے دو ر نہیں ہوں بلکہ تمہارے گناہوں نے تمہیں مجھ سے دو ر کردیا ہے مو لا ہمارے ساتھ ہو تے ہیں مگر ہم کیوں نہیں دیکھ پاتے ہیں اس لئے کہ یہ ہمارے گناہ پردہ بن جاتے ہیں جب معرفت ہوگی تومحبت بھی ہو گی جب محبت ہو گی تو عشق ملاقات پیدا ہوگا جب عشق ملاقات پیدا ہو گا تو انسان چاہے گا کہ گناہوں سے دورہو جا ئے خود کو پاک کرتا چلا جائے ،امام کی ملا قات کب ہوگی جب ا پ امام زمانہ کے اخلاق کی شبیہ بن جائیں کہ امام کو کون سی چیز پسند ہے وہی چیز ہم انجام دیں امام کو نماز تہجد پسند ہے تو ہم بھی شبیہ بنیں اور ہم بھی نماز تہجد کے عادی بنیں امام کو فقیروں مسکینوں یتیموں کی مدد کرنا بہت زیادہ پسند ہے تو ہم بھی یتیموں اور مسکینوں کی مدد کریں تبلیغ اسلام یہ امام کا مقصد و ہدف ہے کہ پوری کائنات میں اسلام کا پرچم لہرائے تو اگر ہم چا ہتے ہیں کہ امام کے اخلاق کی شبیہ بنیں تو ہم بھی کوشش کریں تو ہم بھی اپنے ان توا نائیوں طاقتو ں و علم کے ذریعے سے پو ری دنیا میں اسلام کا پرچم لہرائیں خصوصاًغیبت امام میں تبلیغ کرنا ہر مو من پر لازم ہے امام زمانہ کی یہ تمام ذمہ داریوں میں سے اہم ذمہ داری ہے کیوں کہ جس قدر جہالت بڑھے گی اس قدر امام زمانہ (عج) کا ظہور دور تر ہو تا چلا جائے گا جتنا علم بڑھے گا ،جتنا تقوا بڑھے گا اتنا امام کا ظہورنزدیک ہوتاچلا جائے گا تو عاشقان امام زمانہ کے لئے لازمی ہے کہ جہالت کومٹائیں غفلت کو مٹا ئیں گمراہی کو مٹا ئیں جتنی بھی جہالت بڑھے گی اتنا نقصان ہو گااسی جہالت کی وجہ سے انبیاء شہید کئے گئے گمراہی کی وجہ سے کربلا کا واقعہ نمودار ہوا کیوں کہ لوگ گمراہ تھے علم نہ تھا تزکیہ نفس نہ تھا تو جس قدر علم بڑھے گا اس قدر امام کے ظہورمیں تعجیل ہو گی ۔
انسان کے لئے سب سے بڑی مشکل جہالت ہے انبیاء کے لئے بھی تبلیغ میں جو مشکلات تھی وہ اسی گمراہی اور جہالت کی وجہ سے تھی آج مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ تبلیغ کریں اس کے علاوہ کوئی چارہ نجات نہیں ہے اگر تبلیغ دین نہ ہو تو دنیا بھی بر باد ہو جائے گی اور آخرت بھی برباد ہو جائے گی آج امریکا یہودیوں کا نوکر اور غلام بن چکاہے کیسے پو ری دنیا میں مسلمانوں کو بر باد کر رہا ہے پہلے وہ صرف ہمارے حکمرانوں کو خریدتے تھے یا مروادیتے تھے لیکن اب تو وہ باقائدہ ملکوں پر قبضہ کر نا شروع کردیا جس طرح سے افغانستان پر قبضہ کیا یہ سب یہودیوں کی پلاننگ ہے کہ انہوں نے ایک عظیم اسرائیل کا نقشہ تیار کیا ہے عراق پر حملہ کیا اور اس کے بعد اسرائیل کا وزیر اعظم کہ اس کے بارے میں کئی اخباروں میں بھی لکھا کہ وہ عراق کا دورہ کر کے چلا گیا بلکہ اس سے بھی بدتر بری خبر کہ یہودی کربلا اور نجف میں گھربھی خرید رہے ہیں اور زمینیں بھی خرید رہے ہیں وہاں کے علماء نے آیة اللہ سیستانی نے اوردیگر علماؤں نے فتویٰ بھی دیا کہ اپنے گھروں کو ا نہیں مت بچیں مگر لوگ تیس سال سے صدام کے زندان میں تھے ۔
کو ئی بیمار بھی تھے کسی کو آ پرشن کرنا ہے مجبور ہیں اور وہاں پر یہودی پراپرٹی خرید رہے ہیں اسرائیل ایسے ہی بنا تھا پہلے یہودیوں نے آ کر مکا نات خریدے تھے انہوں نے فلسطین پر قبضہ کر کے ایک لاکھ کے مکان کو انھوں نے پانچ لاکھ کا خریدا وہ فلسطینی بیچارے کہنے لگے کہ چا ر لاکھ کا فائدہ ہوگیا تو فلسطینی لوگ دھڑادھڑ مکان بیچنے لگے یہاں تک کہ اتنے مکان خرید لئے کہ انہوں نے اسرائیل ہو نے کا اعلان کردیا اب نہیں معلوم یہ خبیث اسرائیل، کیوں کہ امریکا وہاں موجود ہے کربلا اور نجف میں جو گھر خرید رہے ہیں ان کا کیا نقشہ ہے کہا پلاننگ کیاہے کہا سا زش ہے یہ یہودی اب تو ملکوں پر قبضہ کر رہے ہیں پو ری دنیا کے اقتصادیات کا کنٹرول اُن دنوں یھودیوں کے ہاتھ میں ہے وہ پوری کوشش کررہے ہیں کہ مسلمانوں کی اقتصادیات ان کے ہاتھوں میں آجائے جو یہاں آگئے تھے اور اٹم بم بنا لیا تھا اب وہ یہاں پاکستان میں نہ آسکیں اور اسے اتنا ذلیل کر دو کہ جو یو رپ امریکا میں جو مسلمان ہیں جو چا ہتے ہیں اپنے ملک میں خدمت کریں انہیں دکھا دیں کہ دیکھو ان کا حشر کیا ہوا تمہارا بھی وہی ہوگا اقتصادیات پر ان کا قبضہ ہے اب تو ان کی نظر پاکستان پر ہے ایران پر ہے شام پر ہے انہیں اپنے ہاتھ میں لینا چا ہتے ہیں یہ سا ری پلاننگ ان یہودیوں کی ہے اب ہم کیا کریں کیا ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں تو ہماری آنے والی نسلیں غلام ہو جائیں گی نہ ہم ان حکمرانوں کو بدل سکتے ہیں نہ ہم ٹکنالوجی میں مقابلہ کرسکتے ہیں نہ ہم میڈیا پر ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں راستے کھلے ہو ئے ہیں یہودیوں نے امریکا میں کئی سالوں سے پلاننگ کی اور امریکا پر کنٹرول کردلیا جسے چاہیں اُسے صدر بنا لیں بزنس ان کے ہاتھ میں ہے یونیورسٹی ان کے قبضے میں ہے انہوں نے بہت لمبی محنت کی ہے ۔
لیکن اب ہم کیا کریں ہمارے یہاں ایک ہی راستہ ہے کہ ہم تبلیغ اسلام کریں اگر ہم تبلیغ اسلام کے ذریعے سے انہیں عیسائیوں کو مسلمان بنا ناشروع کردیں تو یقینا ایک دن ایساآ سکتا ہے یہی لوگ وہاں پر مجارٹی میں ہو جا ئیں گے اکثریت میں ہو جا ئیں گے یہودیوں کا وہاں پر زور ٹوٹ جا ئے گا مگر ہم وہ زحمت ہی نہیں کرتے ہیں تبلیغ اسلام کریں ہم تو کہتے ہیں کہ ہم تقلید ہی نہیں کرتے تو تبلیغ کیسے کریں اگر ایک ایک مسلمان فقط ایک عیسائی کو مسلمان بنادیں تو کئی سالوں میں یہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ہو جا ئیں گے تو وہاں خود بخود انقلاب آ ئے گا اور عیسائیوں کو مسلمان بنا نا کوئی مشکل کا م نہیں، آپ کے دس رو پے اور دس منٹ خرچ ہو ں گے اور آپ کے دس منٹ اور دس رو پے خرچ ہو نے کے بعد آپ ایک مذہب اسلام کا پیغام ایک کروڑ سے زیادہ عیسائیوں کے گھروں تک پہنچا سکتے ہیں اب تو ہم انٹرنیٹ پر اگر چلے جا ئیں تو وہاں سے اپنی کتابوں کے ذریعے سے ا نہیں تبلیغ کریں آپ ایک مضمون لیکر اُسے بھیج دیں تو آپ ایک اسلام تشیع عزاداری کا پیغام مو لا علی کے فضا ئل کو ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں مگر ہم وہ بھی وقت نہیں دے پاتے جب کہ یہودی جن کے ہا تھ میں ہر چیز ہے پھربھی وہ انٹر نیٹ پر اسرائیل کی سائڈ ہے امریکا کی سائڈ ہے جب کہ پو ری دنیا ان کے ہاتھ میں ہے وہ پھربھی اپنا کام انجام دے رہے ہیں محنت کر رہے ہیں مگر ہم مسلمان دیکھ رہے ہیں ہر جگہ ہم غلامی میں ہیں مارے مارے پھر رہے ہیں اگر ہم تبلیغ بھی کر یں تو یقین جا نئے اگر ہم تبلیغ عیسائیوں کوکریں تو عیسائیوں کو مسلمان بنا نا بہت آ سان کام ہے کیوں کہ یہاں رو حانیت نہیں ہے وہ رو حانیت کے بھوکے اور پیاسے ہیں لنڈن میں ایک عیسا ئی اس کے یہاں بہت فیملی مشکلات تھے وہ بہت پریشان تھا وہ کہتا ہے کہ میں جتنے پریسٹ کے یہاں گیا تا کہ وہ میری مشکل کو حل کردیں مگر کوئی حل نہیں کر سکا وہ عیسائی ڈاوید تھا ایک دن اس کی ملاقات ایک مسلمان شیعہ سے ہو گئی اس نے انھیں اپنے مشکلا ت بتا یا اور کہا کہ ان کا کو ئی حل نہیں ہے تو اس مسلمان شیعہ نے اسے کہا کہ اس کا تو بہت آسان حل ہے یہ سن کر تو اس نے دوسرا مسئلہ پو چھا تو اس شخص نے کہا اس کا اسلام میں یہ حل ہے وہ مسلمان شخص جیسے گاڑی سے اترا تو وہ عیسا ئی گاڑی سے اتر کر اس کے یہاں آ یا کہنے لگا میں مسلمان ہونا چا ہتا ہوں وہ شیعہ مسلمان شخص حیران ہوگیا کہ اتنا جلدی کو ئی عیسائی مسلمان ہوسکتا ہے اس عیسا ئی نے کہا اب میں بالکل مطمئن ہو گیا ہوں کہ ان پروبلم کا حل عیسائیت میں کو ئی حل ہی نہیں اب میں مسلمان ہونا چا ہتا ہوں آ پ بتا ئے میں کیا کروں وہ اُسے امام بارگاہ میں لے گئے اور اسے سکرٹی کے حوالہ کردیا ا ورکھا کہ اسے کچھ کتابیں دے دو یہ مسلمان ہونا چا ہتا ہے ہم مسلمان تھوڑی کوشش کریں گے تو چند سالوں میں کئی عیسائیوں کو مسلمان بنا سکتے ہیں ان یہودیوں نے ایک دن میں آمریکا پر قبضہ نہیں کیا ہے ایک دن وہ بھی فحاش اگر آ پ امریکا کی تاریخ کو دیکھیں گے تو اکثر جگہ پر لکھا ہو تا تھا No Jues no dog کہ عیسائی یہودیوں سے اتنی نفرت کرتے تھے کہ کتا بھی نہیں آ ئے ا ور کوئی یہودی بھی نہ آئے مگر یہودیوں نے نیٹ ورک پر کام کیا اور پوری چیزوں پر کنٹرول کردیا۔
اگر ہم مسلمان چا ہتے ہیں کہ ہماری آ نے والی نسلیں غلام نہ بنے تو ہمیں کیا کر نا ہے ہمیں تبلیغ اسلام کر نا ہے تبلیغ اسلام کے لئے کئی راستے ہیں ایک شوشل پروبلم ان عیسائیوں کے پاس بہت زیادہ ہے اور دوسرا کیا کہ رو حا نی طور پر مسیحی ختم ہو چکے ہیں ۲۰۰۲شعبان میں نئی بحث چلی ہو ئی تھی کہ ان کے پریسٹ پادری اگر وہ غلیظ ترین گناہ میں مبتلا ہوں ہم جنس پرستی یہ وہ فعل جو کتا بھی نہیں کرتا حیوان بھی نہیں کرتا اس میں مبتلا ہیںانہوں یہ بحث کی کہ اگر کو ئی ہم جنس پرست پادری بننا چا ہے تو بن سکتاہے یا نہیں؟ آ خر اُن کے چرچ نے فیصلہ دے دیا کہ یہ کو ئی حرج نہیں ہے جنہوں نے قانوناً چھٹی دی ہے کہ ہم جنس پرست اُن کا مو لوی بن سکتا ہے تو اس مذہب میں رو حانیت کہاں ہو گی وہ بدترین گناہ کہ جو حیوانوں میں نہیں کُتے میں خنزیر میں نہیں خنزیر بھی نر نر کے ساتھ بدفعلی نہیں کر تا تو وہ ہم جنس باز کو اپنا مو لوی بنا تے ہیں وہاں کے لوگ بالکل پیاسے بھوکے رو حانیت کی تلاش میں ہیں یقین جا نئے اگر ہم انہیں فقط تھوڑی سی رو حانی غذا دے دیں تو وہ مسلمان بن جا ئیں گے اور رو حانی غذا ؤں کی ہمارے پاس کو ئی کمی نہیں ہے اس قدر اہل بیت کی دعائیں ہیں اس قدراذکا ر ہیں ایک ذرا سا دعاؤں کا مزہ انہیں مل جا ئے تو وہ اسلام کی طرف آ جا ئیں گے دو سرا خود یہ با ئبل ہے آ پ اس سے عیسا ئیوں سے مناظرہ کریں اسلام اور کرشنٹی میں سب سے بڑا فر ق کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم تو حید پرست ہیں ( وحدہ لاشریک لہ) خدا ایک ہے اس کا کو ئی شریک نہیں ان کے یہاں ہولی ٹرنٹی ہے ان کے یہاں تین خدا ہیں کبھی وہ حضرت عیسی کو خدا کہتے ہیں یا کبھی خدا کا بیٹا کہتے ہیں توریت چپڑ کا نمبرایک آیت ایک سو دس یہ لوگ بہت تیزی سے کام کر رہے ہیں اب یہ جو آیت پرانی بائبل میں تھا کنگزجینز اس میں خدا کے بارے میں تھا۔ There is non like God بالکل اسی آیت کا ترجمہ ہے ( لیس کمثلہ شئی ) خدا جیسا کو ئی بھی نہیں ہو سکتا کوئی شئی اس کے مثل نہیں ہوسکتی اور ایک سو دس چپٹر اور آ یت کا نمبر دس اس میں معلوم ہوگا کہ وہ پہلے کیسے لکھا تھا There is non like god اور اب انھوں نے بدل کے کیسے لکھا that no oneas powerful is the lord overs god اور وہ لوگ آہستہ آہستہ تبدلیاں لا رہے ہیں ہم اس آیت کے ذریعے سے آ رام سے ثابت کرسکتے ہیں کہ اے عیسائیو! اگر آپ کہتے ہو کہ تین خدا ،حضرت عیسیٰ خدا کا بیٹا ہے یہ تمہاری کتاب ہے کہ کہہ رہی ہے There is non like god کوئی اللہ جیسا نہیں ہے اور یہی قرآن ہے اور یہی تو حید ہے کہ ”( لیس کمثله شئی ) ۔
امام زمانے سے ہر مومن کا رابطہ مضبوط ہوناچاہئے ہمارے امام آ ج بھی مو جود ہیں جو بھی مشکل ہو جو بھی پریشانی ہو اپنے مو لا کی خدمت میں پیش کریں آج بھی اسی زمانے میں مو لا مدد کر رہے ہیں اور کتنے مریضوں کو شفا دے رہے ہیں ۔
ایران کا ایک شہرجس کا نام بافت ہے وہاں کا واقعہ ہے اور یہ واقعہ چودہ یا سولہ ہجری کا واقعہ ہے وہاں ایک بچہ ایک بیماری میں مبتلا ہو گیا تھا کہ اس کے سننے کی طاقت بھی چلی گئی اور بو لنے کی طاقت بھی چلی گئی وہ بچہ جب اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلتا تھا تو اس کے دوست اس کا مزاق اڑاتے تھے تو اس وجہ سے اس نے بچوں سے کھیلنا یا کسی سے ملنا جلنا چھوڑدیا بچے کی یہ حالت دیکھ کر والدہ کا دل دُکھتا تھا کہتی ہے میرا بچہ روتا رہتا ہے اگر وہ بچہ کچھ بولنا چاہتا تھا تو بول نہیں سکتا تھا تو ہمیشہ روتا رہتا تھا اس کی ماں نے اپنے بچے کے لئے دعا کی نذریں کی تو کسی نے اسے کہا کہ تم مسجد جمکران چلے جاو و ہاں بہت معجزات ہو تے ہیں امام زمانہ کی مسجد ہے اور وہاں کے خاص اعمال ہیں انشاء اللہ تیرے بیٹے کو شفا مل جا ئے گی یہ مو منہ مسجد جمکران میں ا ئی ا ور وہاں پر اعمال کئے اس نے دورکعت نماز پڑھی اور سو گئی تو خواب میں حضرت امام زمانہ (عج) کو دیکھتی ہے اُس نے خواب میں دیکھا کہ امام آ گے آ گے آ رہے ہیں اور امام کے پیچھے سادات ہیں تو اس خاتون نے ان سا دات سے سوال کیا کہ یہ کون ہیں تو انھوں نے کہا یہ امام زمانہ ہیں اس نے کہا کہ میری مشکل ہے میں اسی غرض سے یہاں آ ئی ہو ں تا کہ امام زمانہ میری مشکل کو حل کردیں تو وہ خاتون دوڑ تی ہو ئی امام کے نزدیک گئی اور کہا کہ میرا بچہ بول نہیں سکتا سن نہیں سکتا مجھ سے یہ دیکھا نہیں جا رہا ہے آپ لطف کریں تو امام فر ما تے ہیں میری دو رکعت نماز پڑھو تو اس نے کہا، امام یہ نماز ابھی پڑھی ہے امام نے فر ما یا دو بارہ پڑھو، دیکھیں کہ امام کتنا مو منین کو نماز کی طرف را غب کرتے ہیں امام فر ما تے ہیں دو بارہ نماز پڑھو تمہاری مشکل ختم ہو جا ئے گی اگر کوئی بھی انسان مشکل میں گرفتار ہو جائے تو وہ یہ دو رکعت نماز پڑھے گا تو یقیناً امام زمانہ آ پ کی مشکل کو حل کردیں گے اس نماز کا طریقہ یہ ہے کہ نیت کریں کہ دو کعت نماز امام زمانہ پڑھتا ہوں سنت قربة الا اللہ اور سورہ الحمد پڑھیں جب ”( ایاک نعبد و ایاک نستعین ) “ پر پہنچیں تو اس جملہ کو سو مرتبہ دہرا ئیں سو مر تبہ پڑھ کر سورہ کے آ گے کے جملے کو پڑھیں اور سورہ کو مکمل کریں الحمد کے بعد سورہ توحید پڑھیں اور اس کے بعد جب رکوع میں جا ئیں تو سات مرتبہسبحان ربی العظیم وبحمده اورپھرسجدہ میں جا ئیں تو سات مرتبہ کہیںسبحان ربی الاعلیٰ و بحمده پھر جب دوسری رکعت میں آ ئیں اسی طرح سے انجام دیں یعنی جب ”ایاک نعبد و ایاک نستعین “ پر پہنچیں تو اس جملہ کو سو مر تبہ تکرار کریں اور جب رکوع میں جا ئیں تو”سبحان ربی العظیم وبحمده “ کو سات مرتبہ پڑھیں اور پھر سجدہ میں جا ئیں تو سات مرتبہ کہیں ”سبحان ربی الاعلیٰ وبحمده جیسے ہی نماز ختم ہو جا ئے سجدہ میں چلے جا ئیں اور ایک تسبیح درودکی پڑھیں ،سجدہ سے سر اٹھا کر تسبیح حضرت فاطمة الزھرا پڑھیں اور اُس کے بعد دعا کریں تو انشاء اللہ امام زمانہ عالم غیب سے آپ کی مدد فر ما ئیں گے ۔
اس مو منہ نے یہ عمل کیا اور جب واپس گئی دیکھا کہ ابھی تک اس کا بچہ نہیں بول رہا ہے یہ بیچاری پھر رو نے لگی ابھی تو میں نے امام کی زیارت کی میں نے امام کو بھی دیکھا امام نے کہا کہ بچہ کو شفا ملے گی مگر کیا بات ہے ابھی وہ کچن میں سوچ رہی تھی اور کام بھی کر رہی تھی اچانک اس کے بچے کی آ واز آ ئی اماں میں با با سے ملناچاہتا ہوں اس خاتون نے شکر ادا کیا کہ مو لا نے ہماری مدد کی دیکھا کہ بچہ بول بھی رہا ہے اور سن بھی رہا ہے ۔
ان معجزات کو جمع کر نے کی ضرورت ہے ان معجزات سے بھی ہم بڑی تبلیغ کرسکتے ہیں امام ر ضا (ع) کے روضہ پر اور امام حسین (ع) کے رو ضے پر کتنے ہزاروں معجزے ہو تے ہیں ہم ان معجزات کو تو کتابوں میں لکھ دیتے ہیں مگر ان کی ویڈیو بنا نا چا ہئے تا کہ ہم دنیا کو بتا ئیں تا کہ میڈیا کو بتا ئیں تو ہزاروں لوگ مذہب اہل بیت کو قبول کر یں گے مجالس امام حسین (ع) میں بھی معجزات ہو تے ہیں ایران میں مجالس میں ان مریضوں کے لئے خاص جگہ بناتے ہیں مریض آ تے ہیں اور مو منین مل کر ان کے لئے دعا ء کرتے ہیں اور ان ہی مجالس میں کتنے لا علاج مریض شفا پا تے ہیں ہزاروں معجزات ہو رہے ہیں مگر یہ ہماری غفلت ہے کہ ہم انھیں جمع نہیں کر رہے ہیں آ ج کل ہمارے دروس میں خلوص ختم ہو گیا ہے ا ور پڑھنے والے کی پوری کوشش یہ ہو تی ہے کہ میں ایسی بات کروں تا کہ مجمع خوش ہو جا ئے جو انسان چاہتا ہے کہ اس کے د روس میں مجمع ہو جا ئے تو اس کے بارے میں مو لا علی نے فر ما یا رسول خدا (ص) نے فر ما یا: ”الریاء شرک کله “ ریاء کاری شرک ہے اس زمانے میں مبلغ ایک جملہ امر بالمعروف کا نہیں کر تا فقط وہ چیزیں کہتا ہے تا کہ مجمع خوش ہو جا ئے جب کہ کس قدر گمراہی پھیل رہی ہے حضرت امام جعفر صادق (ع) سے سوال کیا گیا یہ بہت نورا نی حدیث ہے کہ مو لا اگر ایک مومن کے جان کا خطرہ ہے مال کا خطرہ ہے میں اسے بچانے کے لئے جاوں یا دوسرا مومن کہ وہ جس کے دین اور ایمان کا خطرہ ہے تو میں کدھر جا وں ؟ امام نے فر ما یا اس کے پاس پہلے جاو جس کے دین ا ور ایمان کو خطرہ ہو ہرانسان کو کو ئی نہ کو ئی دن مر نا ہے مگر ا گر کو ئی بے دین ہو کر مر گیا تو اس کی ابدی زندگی چلی گئی امام کہتے ہیں جان کو اہمیت نہ دو دین ایمان کو زیادہ اہمیت دو سا ری طاقتیں ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کر رہی ہیں اے مو من اے نو جوان اگر تمہارے اندر غیرت ختم ہو گئی تو تمہارے اندر ایمان بھی ختم ہو جا ئے گا مو لا علی کا جملہ ہے فر ما تے ہیں غیرت یکطرفہ نہیں ہو تی غیرت دو طرفہ ہو تی ہے فقط وہ غیرت مند نہیں جو کہتا ہے کہ میری بہن کو کو ئی نہ دیکھے میری ماں کو کو ئی نہ دیکھے میں سب کی بہن ما وں کو دیکھوں، مو لا فر ما تے ہیں وہ بے غیر ت ہے، غیرت مند وہ ہے جس کے پاس دو طرفہ کی غیرت ہو وہ بھی نہیں دیکھتا اور وہ بھی نہیں چا ہتا کہ کو ئی میری ماں بہن کو دیکھے امام حسین کا مقصد وہ تھا جو تمام انبیاء کرام کا تھا ”( هو الذی بعث فی الا میین رسولاً منهم یتلو علیهم آ یاته ویزکیهم و یعلمهم الکتاب و الحکمة و ان کا نوا من قبل لفی ضلال المبین ) (سورہ جمعہ آیت ۲) یعنی انسانوں کے نفسوں کوپاک کرنا گمراہی سے نجات دلاناہے شیطان کی قید سے آ زاد کرانا ہے اللہ کی طرف لیکر آ نایہ مقصد حسین ہے
حسیؑن ۔ فاتح مباہلہ
آیۂ مباہلہ:
( فمن حاجَّکَ فیه من بعد ما جاءَ ک من العلم فقل تعالوا ندعُ ابناء نا و ابنائَکم و نساء نا و نساء کم و أنفسنا و أنفسکم ثُمَّ نبتهل فنجعل لعنت الله علی الکاذبین )
سید الشہداء مظلوم کربلا وارث انبیاء صاحب ھل أتیٰ حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کو بیان کرنے والی آیات میں سے ایک آیہ مباہلہ ہے، جسے تمام فرق اسلامی نے متفقہ طور پر تسلیم کیا ہے۔
مباہلہ کا تاریخ ساز واقعہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم کی رسالت کی حقانیت کی بہترین دلیل ہے اور اپنی رسالت و دعوت اسلامی پر ایمان و یقین کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لئے کہ اگر حضور سرور کائنات کو اپنی دعوت اسلامی پر ایمان کامل نہ ہوتا تو یہ واقعہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم کی تکذیب کیلئے دشمنوں کے ہاتھوں میں ایک مستحکم سند بن جاتا کیونکہ دو ہی صورتیں ممکن تھیں:
اول:
نصارائے نجران کی نفرین پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم کے حق میں مستجاب ہوجاتی۔
دوم:
یا یہ کہ نہ نفرین نصاریٰ قبول ہوتی اور نہ ہی نفرین سرور کائنات بہرحال دونوں صورتوں میں پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم کا دعویٰ نبوت باطل ہوجاتا اور دنیا کا کوئی صاحب عقل بھی ایسا کام نہیں کرتا ہے کہ جس کی وجہ سے دشمن اور مخالفین اس کی تکذیب کردیں۔
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم کو اپنے دعویٰ نبوت، استجابت دعا اور دشمن کی ہلاکت کا یقین کامل تھا اسی لئے کمال شجاعت کے ساتھ دشمن کو مباہلہ کی دعوت دے رہے تھے۔
حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین علیہما السلام کو مباہلہ میں لیکر جانا ان کی عظمت و صداقت اور بلند مرتبہ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہی حضرات بارگاہ خداوندی میں محبوب ترین اور مخلوق میں سب سے زیادہ لائق عزت و احترام ہیں۔
پس یہ آیہ کریمہ امام حسین علیہ السلام کی عظمت، شرافت، کرامت اور صداقت کی بہترین دلیل ہے کہ پیغمبر گرامی قدر بحکم پروردگار تمام امت اسلامی میں سے انہیں، ان کے والدین اور ان کے بھائی کو منتخب کرتے ہیں۔
اگرچہ اکثر مفسرین و محدثین اور مورخین نے واقعہ مباہلہ کو بیان کیا ہے لیکن اس کے باوجود ذوق مطالعہ رکھنے والے حضرات کیلئے چند منابع کا ذکر کرنا مناسب ہے۔
مثلاً: تفسیر طبری، بیضاوی، نیشاپوری، تفسیر کشاف، درمنثور، اسباب النزول واحدی، اکلیل سیوطی، مصابیح السنة، سُنن ترمذی و دیگر کتب۔
واقعہ مباہلہ کےسلسلہ میں اہل سنت کے عظیم مفسر جناب فخر رازی نے اس آیہ کریمہ کے ذیل میں جو روایت نقل کی ہے اسے یہاں بیان کردینا بھی مناسب ہے۔
روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم نے جب نصاریٰ نجران کو مختلف دلائل پیش کئے اور وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے اور کسی طرح سر تسلیم خم کرنے کیلئے تیار نہ ہوئے تو آنحضرت نے فرمایا: پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر تم لوگ میری دلیل و حجت کو قبول نہیں کرتے تو پھر میں تم سے مباہلہ کروں!
انہوں نے کہا:
اے ابا القاسم ہمیں گھر لوٹ کر کچھ سوچنے اور غور وفکر کرنے کا موقع دیجئے پھر ہم آپ کو جواب دیں گے!
جب یہ لوگ واپس پلٹ کر آئے تو عیسائیوں میں جو بافہم اور صاحب نظر شخص “عاقب” تھا اس سے رجوع کیا اور کہا: اے عبدالمسیح تمہاری کیا رائے ہے؟
اس نے کہا: اے گروہ نصاریٰ! تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم پیغمبر ِمرسل ہیں اورانہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارےمیں حق بات کہی ہے۔خدا کی قسم اسکےباوجودتم لوگ ان کی بات ماننےکیلئےتیارنہیں ہواوراپنی ہٹ دھرمی پرقائم ہو۔اب اگرایسا ہی ہےتو ان سےکوئی مصالحت کرکےاپنےدیارکی طرف پلٹ جاؤ(ورنہ ذلّت ورسوائی اورتباہ وبربادی کےسوا کچھ ہاتھ نہ آئےگا)
جب آنحضرت گھرسےچلےتوسیاہ عبا دوش پرڈالی،حسیؑن کوگودمیں لیا،حسؑن کا ہاتھ پکڑا، فاطمہ زہرا علام اللہ علیہا پیچھےپیچھےاورعلؑی انکےپیچھےچلے۔ پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم اس اندازسےمباہلہ کیلئےپہنچےاوران سےفرمایا:جب میں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا!
ادھرعیسائیوں کےبافہم اوربزرگ حضرات یہ منظردیکھ رہےتھے، انہوں نےعیسائیوں سےکہا:اےگروہ نصاریٰ!ہم ایسےچہرےدیکھ رہےہیں کہ اگروہ خداسےپہاڑکےچلنےکی درخواست کریں توخداضروراس کام کوانجام دیگا لہٰذا ایسی صورت میں ان سے ہرگز مباہلہ نہ کرو ورنہ سب کے سب عیسائی نابود ہوجائیں گے اور پھر قیامت تک کے لیے عیسائیوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔
عیسائی ان کی بات سن کراجتماعی طور پر پیغمبراسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں آئے اورکہنےلگے: اے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم ہم آپ سے مباہلہ نہیں کرنا چاہتے،آپ اپنے دین پر رہیے(اورہم اپنے دین پر)۔
حضورسرورکائنات نے فرمایا: تو پھر میں تم سے جنگ کروں گا!
کہنےلگے:ہم آپ سےجنگ کی طاقت نہیں رکھتےلیکن آپ سےمصالحت کےلئےتیارہیں،مگرشرط یہ ہےکہ آپ ہم سےجنگ نہیں کریں اورہمیں ہمارے دین سے نہ نکالیں گے اور ہم اس کے بدلے آپ کو سالانہ دو ہزار لباس۔(ایک ہزار ماہ صفر میں اور ایک ہزار ماہ رجب میں)۔ اور تیس عدد آہنی زرہ ادا کریں گے۔
سرکاررسالت فرماتے ہیں: خدا کی قسم ہلاکت و بربادی اہل نجران پر سایہ فگن تھی اگر یہ لوگ مباہلہ کرتےتو سب کےسب بندرولومڑی کی صورت میں مسخ ہوجاتے،آسمان سےان پرآگ برستی، خدا نجران و اہل نجران کوتباہ وبربادکردیتاحتیٰ کہ انکےدرختوں پربیٹھےہوئےپرندےاورایک سال کےاندرتمام نصاریٰ نابود ہوجاتے!
پس پیغمبراسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کو دیکھ کر اہل نجران بغیرمباہلہ کیئے واپس پلٹ جاتے ہیں اور ان میں مقابلہ کی ہمت پیدا نہیں ہوتی گویا پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ میرے اہل بیت علہم السلام ایسے ہیں کہ جنہیں دشمن اسلام دیکھ کر مقابلہ کی ہمت نہیں کرتا بلکہ بھیگی بلی کی طرح دم دبا کر خاموشی سے نکل جاتا ہے۔
پس یادرکھناچاہیےکہ جس طرح پیغمبراسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم فاتح مباہلہ ہیں حسین علیہ السلام بھی اسی طرح فاتح مباہلہ ہیں اگر ہم زندگی کے ہر مرحلہ میں انہیں اپنا راہنما اور نمونہ حیات قرار دیں تو کبھی نہ دشمن کے سامنے قدم ڈگمگائیں گے اور نہ ہی کبھی زندگی میں ناکام ہوں گے۔
قرآن کریم کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کا فرزندرسولصلىاللهعليهوآلهوسلم ہونا
سوال کیاجاتاہےکہ قرآن کریم کی کس آیت کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام فرزندرسول کہلائےجاتےہیں؟
جواب:
آیۂ مباہلہ ہی وہ آیت ہےجسکےذریعے امام حسین علیہ السلام فرزندسولصلىاللهعليهوآلهوسلم کہلائےجاتے ہیں۔شیعہ مفسرین ومحدثین نےتصریح کی ہےکہ یہاں ''أبناء نا''امام حسن وحسین علیہ السلام سےمخصوص ہے۔
ورنہ پیغمبراسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم کسی کوبھی اپنےساتھ لےجاتے۔اور یہ بھی ناممکن تھاکہ پیغمبراگرتنہاچلےجاتےیاحسنین کےعلاوہ کسی اورکولےجاتےاوردعاکرتے تودعا قبول نہ ہوتی۔بلکہ جب پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم دعاکرتےتویقیناًدعاءقبول ہوتی اورسارے عیسائی عذاب الٰہی میں گرفتار ہوجاتے۔ لیکن پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم شاید اسی حکمت کے تحت حضرات حسنؑین کو لیکر جارہے تھے تاکہ آیت کے مطابق امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کا فرزند رسول ہونا بھی ثابت ہوجائے نہ فقط ثابت ہوجائے بلکہ انہی مقدس حضرات میں فرزندیت محدود ہوجائے اور پھر کوئی غیر، فرزند رسول ہونے کا دعویٰ نہ کرسکے۔
شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری کتاب شریف احقاق الحق میں فرماتے ہیں:
''اجمع المفسّرون علٰی أنَّ ''أبناء نَا '' اشارة اِلی الحسن والحسین، و ''نِسَاء نَا'' اِلی فاطمة و ''أنفسَنا'' اشارَة اِلی علی ۔''
مفسّرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ ''ابناء نا'' سے مراد حسن و حسین، ''نساء نا'' سے مراد فاطمہ زہرا اور ''أنفسنا'' سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں۔
شہید کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امر پر شیعہ و سنی مفسرین کا اجماع ہے۔ اس کے علاوہ شہید جلد سوم و نہم یعنی ملحقات احقاق الحق میں ایک سو پچاس سے زیادہ اہل سنت کی معروف کتب کے نام بیان کرتے ہیں جن میں تفسیر فخر رازی جیسی مختلف راویوں سے روایات نقل کی گئی ہیں۔
(قاضی نورالله شوستری، ج٣، ص ٦٢۔ ٤٦ و ملحقات احقاق الحق ج١٠، ص ٩١۔ ٧٠)
واحدی، کتاب اسباب النزول میں فخر رازی جیسی روایت نقل کرتے ہوئے شعبی سے نقل کرتے ہیں:
''أبناء نا: الحسن و الحسین، ونساء نا: فاطمه، و أنفسنا: علی ابن ابی طالب''
(واحدی، اسباب النزول، ص ٥٩)
''ابناء نا'' سےمرادحسن وحسین ، ''نساء نا'' سے مراد فاطمہ زہرا اور ''أنفسنا'' سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔
امام حسین علیہ السلام مصداق ذوی القربی
آیۂ مودّت:
( قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى )
(سوره شوریٰ آیه ٢٣)
امام حسین علیہ السلام کی عظمت و رفعت بیان کرنے والی آیات میں سے ایک یہ آیۂ کریمہ ہے۔
احمد بن حنبل اپنی ''مسند'' میں اور ابو نعیم حافظ، ثعلبی، طبرانی، حاکم نیشاپوری، رازی، شبراوی، ابن حجر، زمخشری، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، سیوطی اور دیگر علماء اہل سنت حضرات نے ابن عباس سے روایت کی ہے:
جب یہ آیہ مبارکہ نازل ہوئی تو لوگ پیغمبرکے پاس آئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم ! آپ کے قرابت دار جن کی مودت ہم پر واجب قرار دی گئی ہے کون ہیں؟
سرورکائنات نےارشادفرمایا: علی وفاطمہ علیہما السلام اورانکےدونوں بیٹے۔
(احیاء المیت، ج٢؛ الاتحاف، ص ٥؛ صواعق ص ١٦٨؛ الأکلیل، ص ١٩١؛ الغدیر ج٢ ، ص٣٠٧؛ خصائص المبین، ج٥ ، ص ٥٢ تا ٥٥؛ عمدہ ابن بطریق، ف ٩ ، ص ٢٣ تا ٢٥)
شیخ شمس الدین ابن عربی نے آیت و روایت کے مفہوم کو بہت ہی خوبصورت انداز میں نظم کیا ہے:
رَأَیتُ وَلَائی آلَ طَه فَرِیضَةًعلیٰ زَغْمِ أهْلِ الْبُعْدِ یُورِثُنِی القُربیٰ فَمَا طَلَبَ المَبْعُوثُ أَجْراً علیٰ الهُدیٰ بِتَبْلِیغِه اِلَّا المَوَدَّةَ فِی القُرْبیٰ
(صواعق، ص ١٧٠؛ اسعاف الراغبین، ١١٩)
شافعی کہتے ہیں:
یَاأهلَ البَیْتِ رَسُولِ اللّٰه حُبُّکُم فَرَض مِنَ اللّٰه فی القرآن کریمِ أنْزَلَه ُکَفَا کُمْ مِن عظیم القدرأَنَّکُمْ مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْکُم لَاصلواةلَهُ
(نظم در رالسمطین، ص ١٨؛ اسعاف الراغبین، ص ١٢١؛ الاتحاف ص ٢٩؛ صواعق، ص١٤٨)
''اے اہل بیت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ کی محبت کو واجب قرار دیا ہے اور آپ کی قدر و منزلت کے لئے یہی کافی ہے کہ اگر نماز میں کوئی آپ پر صلوات نہ پڑھے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوسکتی۔''
امام حسیؑن مصداق اولی الامر
آیہ اولی الامر:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ )
(سورئہ نساء، ٥٩)
اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں۔''
اس آیۂ کریمہ میں( أُوْلِي الأَمْرِ ) سےمرادمعصوم امام ہی ہیں کہ پروردگارعالم وحضورسرورکائنات(صلىاللهعليهوآلهوسلم )کی طرف سےانسانی معاشرےکی مادّی ومعنوی رہبری کی ذمہ داری انہی کےسپردکی گئی ہے۔کیونکہ
اولاً: کلمہ( أُوْلِي الأَمْرِ ) نام خدا کے ساتھ استعمال ہوا ہے اور بغیر کسی قید و شرط کے ان کی اطاعت کو خدا و رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم کی اطاعت شمار کیا گیا ہے۔ لہٰذا( أُوْلِي الأَمْرِ ) کو پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم کی طرح معصوم ہونا چاہیے کیونکہ اگرمعصوم نہ ہونگے تو بجائے ہدایت و رہنمائی کے گمراہی کا سبب بن جائیں گے۔
ثانیاً: متعدد شیعہ منابع اور بعض منابع اہل سنت بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ”أُوْلِي الأَمْرِ“ سے مراد امام معصوم ہیں حتیٰ کہ بعض روایات میں ایک ایک امام کا نام صراحت سے ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ جناب جابربن عبداللہ انصاری سے نقل کیا گیا ہے کہ:
جب آیہ( أَطِيعُواْ اللّهَ ) نازل ہوئی تو میں نے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم سے سوال کیا یا رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم ! ہم نے خداا و رسول کو تو پہچان لیا لیکن یہ( أُوْلِي الأَمْرِ ) جن کی اطاعت آپ کی اطاعت کے ساتھ قرار دی گئی ہے یہ کون ہیں؟
فرمایا: اے جابر! یہ میرے بعد میرے جانشین اور مسلمانوں کے امام ہیں جن میں پہلے علی ابن ابی طالب علیہ السلام ان کے بعد ان کے فرزند حسن پھر حسین، پھر علی بن الحسین ، پھر محمد بن علی علیہ السلام جنہیں توریت میں باقرکہاگیاہے اور تم انہیں عنقریب درک کرو گے جب تم ان سے ملاقات کرو تو انہیں میراسلام پہنچا دینا۔ان کے بعد صادق، جعفر بن محمد، پھر موسیٰ بن جعفر، پھر علی بن موسیٰ پھر محمد بن علی پھرعلی بن محمدپھرحسن بن علی(علیہم السلام)پھرآخری امام عجل اللہ جومیرےہمنام ہیں اور جو میری کنیت (ابو القاسم) ہے وہ ہی ان کی کنیت ہے۔ وہ زمین پر حجت خدا اور بقیة الله ہیں۔ حسن بن علی کے فرزند وہی ہیں جن کے ذریعے خدا مشرق و مغرب تک پورے عالم میں اپنے نام کا سکہ چلا دے گا۔
(تفسیر نمونه، ج٣، ص ٤٣٥۔ ٤٤٤؛ المیزان ج٤، ص ٤٠٩؛ ینابیع المودة، ج١، ص ٣٤١۔ ٣٥١؛ البرهان فی تفسیر القرآن کریم؛ تفسیر نورالثقلین، ذیل آیهٔ، ٥٩سوره نساء)
امام حسیؑن مصداق شہداء
( وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا )
(نساء، آيه٦٩)
اور جو بھی اللہ و رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جس پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفیق ہیں۔
جناب امّ سلمہؓ سے روایت کی گئی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:
( الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ ) '' میں ہوں،( الصِّدِّيقِينَ ) سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام،( الشُّهَدَاء ) سے مراد حسن و حسین علیہما السلام،( الصَّالِحِينَ ) سے مراد حمزہ اور( حَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا ) سے مراد میرے بعد بارہ امام ہیں۔
(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ١٨٣؛ علامه مجلسی، بحار،ج، ۳۴ ، ص ۳۴۷ ، ح٢١٤؛ بحرانی، البرهان، ج١،ص ٣٩٢ ، ح٣)
امامت نسل امام حسین علیہ السلام میں
( وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ )
(سوره زخرف ، آيه٢٨)
اور انہوں نے اس پیغام کو اپنی نسل میں ایک کلمہ باقیہ قراردیدیا کہ شاید وہ لوگ خدا کی طرف پلٹ آئیں۔
ابو ہریرہ سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم سے اس آیۂ کریمہ کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:
”جَعَلَ الْإِمَامَةَ فِي عَقِبِ الْحُسَيْنِ يَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ تِسْعَةٌ مِنَ الْأَئِمَّةِ وَ مِنْهُمْ مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ ثُمَّ قَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَ الْمَقَامِ ثُمَّ لَقِيَ اللَّهَ مُبْغِضاً لِأَهْلِ بَيْتِي دَخَلَ النَّارَ “۔
پروردگار نے حسین علیہ السلام کی نسل میں امامت کو قرار دیا ہے اور ان کے صلب سے نو امام آئیں گے جن میں آخری مہدی (عج) ہوں گے۔
پھر فرمایا: اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان خدا کی عبادت کرتا ہوا مرجائے اور اس کے دل میں بغض اہل بیت ہو تو یقینا جہنم واصل ہوگا۔(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ٧٦؛ علامه مجلسی، بحار، ٣٦، ص٣١٥، ح١٦٠؛ بحرانی، البرهان، ج٤، ص١٤٠، ح٩۔)
سورہ فجر اور امام حسین علیہ السلام
سورہ فجر حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام سے مشہور ہے خود سورہ کا مضمون اور اس کے بارے میں نقل ہونے والی روایات اس کی وضاحت کررہی ہیں۔ سورہ کی ابتداء میں ہم متعدد قسموں کا مشاہدہ کرسکتے ہیں مثلاً: فجر کی قسم، دس راتوں کی قسم، طاق و جفت کی قسم و۔۔۔ یہ قسمیں مذکورہ چیزوں کی اہمیت کے ساتھ ساتھ بعد میں آنے والی آیات میں ذکر ہونے والے جباروں کیلئے تہدید بھی ہے۔
ان قسموں کے ذکر کے بعد سرکش اقوام جیسے قوم ثمود ، عاد و فرعون اور ان پر ہونے والے عذاب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ سنن الٰہی میں سے ایک سنت ہے کہ جب کوئی قوم سرکشی پر کمر باندھ لیتی ہے اور ظلم وستم حد سے تجاوز کرجاتا ہے تو خداوند ان کی ہلاکت و نابودی کے اسباب فراہم کردیتا ہے؛ جیسا کہ حضرت موسیٰ کو فرعون اور فرعونیوں کے ہاتھوں سے بنی اسرائیل کی نجات کا ذریعہ قرار دیا۔
اس تذکرے کے بعد انسان کی آزمائش اور اس کی انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جبکہ سورہ کے آخر میں اس عظیم المرتبت شخصیت کا ذکر کیا گیا ہے جو رضائے الٰہی اور نفس مطمئنہ کی منزل پر فائز ہے۔
اس مفہوم و مطلب پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ملکوتی شخصیت اس کا بہترین مصداق ہیں، کیونکہ انہوں نے موسیٰ کلیم اللہ کی طرح دین خدا کی نابودی و بربادی کے لئے کمربستہ بنو امیہ کے تسلط و حکمرانی کو نیست و نابود کردیا اور خونی انقلاب و قیام کرکے ظلم و ستم کی سیاہی پر فجر ایمان و عقیدہ و آزادی نمودار کردی۔
بنابریں اگر بنی امیہ کی حکومت کو شام مرگ و تیرگی ظلمت شمار کیا جائے تو یاد رکھیئے قیام حسینی و خون شہدائے کربلا اس فجر عظیم کا نام ہے کہ جس نے تاریکی ظلمت کو شگافتہ کرکے فجر بیداری عطا کی ہے۔
علاوہ بر ایں حضرت امام حسین علیہ السلام ہی صاحب نَفْسُ الْمُطْمَئِنَّه ہیں اور انہوں نے کربلا میں اپنے عظیم کردار سے اس حقیقت کو ثابت کیا ہے شاید یہ بھی اس سورہ کے امام حسین علیہ السلام سے منسوب ہونے کی ایک علت ہوسکتی ہے جیسا کہ امام صادق سے روایت نقل کی گئی ہے:
''ہر واجب و مستحب نمازمیں سورہ فجر پڑھا کرو کیونکہ یہ سورہ حسین بن علی علیہ السلام ہے۔۔۔ ابو اسامہ نے کہا: کس طرح یہ سورہ امام حسین علیہ السلام سے مخصوص ہے؟ فرمایا: کیا تم نے
( يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّة )
نہیں سنا؟ اس آیت سے امام حسین علیہ السلام ہی مراد ہیں۔ وہ ہی صاحب نفس مطمئنہ اور راضیہ و مرضیہ کی منزل پر ہیں ۔ ان کے ساتھی بھی رسالت کے پیروکار ہیں وہ قیامت کے دن خدا سے راضی ہوں گے اور خدا ان سے راضی ہوگا۔
(بحار الانوار، ج٣٦، ص ١٣١)
نوک نیزہ پر تلاوت قرآن کریم
اکثر اہل قلم کے مطابق سرمظلوم کربلا نوک نیزہ پر سورہ کہف کی آیت نمبر ٩ کی تلاوت کرتا ہوا نظر آرہا تھا۔
زید ابن ارقم کا کہنا ہے: میں نے سر مبارک کی طرف دیکھا تو وہ نوک نیزہ پر اس طرح قرآن کریم کی تلاوت کررہا تھا:
( أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا )
کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ اصحاب کہف و رقیم ہماری نشانیوں میں سے ایک عجیب اور تعجب خیز نشانی تھے۔ میں یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا اور کہنے لگا یہ ماجرا تو اصحاب کہف کے واقعہ سے بھی زیادہ تعجب خیز ہے۔
(ارشاد، ج٢، ص ١١٦)
یہ واقعہ پڑھ کر کبھی کبھی ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر مظلوم کے سر نے سورہ کہف کی اس آیت کا انتخاب کیوں کیا تھا؟
شاید ان آیات کے انتخاب کی علت یہ رہی ہو کہ امام ان آیات کی تلاوت سے لوگوں کو یہ سمجھانا چاہتے ہوں کہ شاید تم لوگ داستان اصحاب کہف کو عجیب سمجھتے ہو کہ کس طرح انہوں نے اپنے دین و ایمان کے تحفظ کی خاطر ترک وطن کیا اور غار میں پناہ لے لی۔
نہیں، اس سے زیادہ عجیب ہماری داستان ہے کیونکہ ہم اپنے زمانے کے ستمگر اور ظالم کے مدّمقابل ڈٹ گئےہم نے انکے خلاف قیام کیا حتیٰ کہ اپنے بچوں اور عورتوں کو بھی جہاد میں لیکر آگئے۔
شہادت امام حسین علیہ السلام پر زمین و آسمان کا گریہ
جس وقت کربلا میں امام حسین علیہ السلام کوتین دن کاپیاساشہیدکیا گیا تو کیا زمین وآسمان خون کےآنسوروئےتھے؟آسمان سےخون برسااورزمین نےخون اگلنا شروع کردیا تھا؟ یا یہ صرف ایک شاعرانہ بات ہے؟
متعدد روایات میں سورہ دخان کی ٢٩ ویں آیت میں زمین و آسمان کے خون بار گریہ کو امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے پرتطبیق کیا گیا ہے۔ ذیل میں آیت اور اس کے مفہوم اور زمین و آسمان کے گریہ کے معنی بیان کئے جارہے ہیں۔
”فَما بَکَتْ علیهم السمَّاءُ والأرضُ وَمَا کَانُوا مُنْظَرِینَ “
تو ان لوگوں پر آسمان وزمین کو بھی رونا نہیں آیا اور نہ ہی انہیں مہلت ہی دی گئی۔
فرعونیوں کی بدبختی یہ تھی کہ جب ان کے عذاب کے دن آگئے تو انہیں ایک لمحہ کی بھی مہلت نہیں دی گئی اور دریائے نیل میں غرق کردیئے گئے اور ان کی ذلت و رسوائی کی علامت یہ ہے کہ ان کے مٹ جانے پر زمین و آسمان میں کوئی تاثر پیدا نہ ہوا جبکہ ان کا خیال تھا کہ ہم مرجائیں گے تو قیامت آجائے گی اور بات بھی صحیح تھی کیونکہ وہ فرعون کو خدا سمجھ رہے تھے اور ”خدا“ کے مرجانے کے بعد کائنات کے باقی رہنے کا کیا سوال ہوتا تھا۔ لیکن قدرت نے واضح کردیا کہ باطل خدا بھی بن جائے تو اس کے مرنے پر زمین و آسمان میں کوئی تغیّر پیدا نہیں ہوتا۔
آیت اسی بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ فرعونیوں کے غرق ہونے کے بعد ان پر نہ زمین نے گریہ کیا نہ آسمان نے اس لئے کہ ان کا وجود دنیا کیلئے خباثت سے بھرپور تھا گویا جہان ہستی و عالم بشریت سے انہیں کوئی ربط نہ تھا اسی لئے ان کے غرق ہونے کے بعد کسی نے ان کی جگہ خالی ہونے کا احساس تک نہ کیا۔ نہ زمین و آسمان نے اور نہ ہی کسی انسان نے، اس لئے کسی نے ایک قطرہ اشک تک ان پر بہانا گوارا نہ کیا۔
ہاں کوئی بندہ پروردگار راہ خدا میں کام آجائے تو اس کی شہادت پر زمین بھی رو سکتی ہے اور آسمان بھی گریہ کرسکتا ہے جیسا کہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں نقل کیا گیا ہے۔ کہ بیت المقدس کی زمین سے جو پتھر اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے سے خون تازہ جوش مار رہا تھا اور یہی حال آسمان کا بھی تھا کہ اس سے خون کی بارش ہورہی تھی۔
تاریخ میں ایسے بہت سے مواقع نقل کئے گئے ہیں جہاں صاحبان ایمان و اخلاص کے مرنے پر زمین و آسمان میں تاثرات کا اظہار ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی سب سے بالاتر تھی تو اس کا اثر بھی سب سے زیادہ ہوا اور کربلا سے بیت المقدس تک ساری زمین متاثر ہوگئی اور شاید یہ بھی شہادت کی ایک معراج ہے کہ اس کے اثرات مسجد الاقصیٰ تک پہنچ جائیں اور زمین و آسمان میں ایک زلزلہ پیدا ہوجائے۔
بہرحال شیعہ کتب ہوں یا کتب اہل سنت مزید منابع اہل سنت کے لئے فضائل پنجتن در صحاح ستہ کا مطالعہ کریں)
(اقبال الاعمال، ص ٥٤٥؛ بحار الانوار، ج ١٤، ص ١٨٢۔ ١٨٣؛ ج٤٥ ص ٢١٠۔ ٢١١) (مقتل الحسین، ج٢، ص ٨٩۔ ٩٠ )
دونوں نے ان روایات کو نقل کیا ہے جن میں بیان کیا گیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر زمین و آسمان نے گریہ کیا، آسمان سے خون کی بارش ہوئی اور جس پتھر کو بھی زمین سے اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے خون تازہ پایا جاتا تھا۔
اس واقعہ میں زمین و آسمان کے گریہ کے بارے میں چند معنی بیان کئے گئے ہیں۔
الف: یہ اس دن کی شدت مصائب کی طرف کنایہ ہے۔
ب: ممکن ہے کہ یہ کنایہ نہ ہو بلکہ اس دن کے مصائب کی شدت نے زمین و آسمان میں کوئی فزیکل تبدیلی پیدا کی ہو جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ: آسمان سوائے یحی ابن ذکریا و حسین بن علی علیہ السلام کے کسی پر نہیں رویا اور اس کا گریہ آسمان کی سرخی ہے(جو کہ اس وقت شدید سرخ ہوگیا تھا)
(بحار الانوار ج١٤، ص ١٨٢۔ ١٨٣)
ج: روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تعبیر، کنایہ نہیں ہے اور فقط آسمان سرخ ہی نہیں ہوا تھا بلکہ واقعاً آسمان سے خون برس رہا تھا اور زمین خون سے رنگین ہوئی تھی۔
لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دن رونما ہونے والا یہ واقعہ حوادث ملکوتی میں سے ہو اور ہر طرف خون موجود ہو لیکن تمام لوگ اس کا مشاہدہ نہ کرسکتے ہوں بلکہ خاص افراد ہی اسے دیکھ سکتے ہوں۔
امام حسین علیہ السلام مظلوم
جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے القاب میں سے ایک لقب ”مظلوم“ مشہور ہے بلکہ یہ لقب امام حسین علیہ السلام کے نام کے ساتھ اتنا کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ جب لفظ ”مظلوم کربلا“ زبان پر آتا ہے یا کانوں سے سنائی دیتا ہے تو فوراً ذہن میں امام حسین علیہ السلام ہی کا نام آجاتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ کبھی کبھی سوال ہوتا ہے کہ کیا قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بھی امام حسین علیہ السلام کا یہ لقب ثابت کیا جاسکتا ہے؟
جواب:
قرآن کریم کتاب ہدایت ہے اس میں ہر خشک و تر کا ذکر موجود ہے لیکن قرآن کریم میں موجود ہر خشک و تر کو وہ ہی بیان کرسکتا ہے جسے قرآن کریم کا پورا علم ہو، قرآن کریم میں کلّی احکامات کو بیان کیا گیا ہے جبکہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام مفسر و مبیّن قرآن کریم ہیں۔ انہی کے فرمودات کے مطابق ہم ایسی آیات کا مشاہدہ کرتے ہیں جن میں مظلومیت کا تذکرہ موجود ہے اور اہلبیت علیہم السلام نے ان کی تفسیر بیان کی ہے۔
امام حسین علیہ السلام کے اس مشہور و معروف لقب کی زیارت نامہ ، دعاؤوں اور احادیث میں بے حد تاکید کی گئی ہے مثلاً زیارت اربعین میں آیا ہے :
”السَّلَامُ عَلَى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِيد “
(تهذیب، ج٦، ص ١١٣؛ مفاتیخ الجنان، ص ٨٤٨؛ بحار الانوار، ج٤٤، ص٢١٨۔ ٢١٩۔ ٢٩٨؛ ج٥١ ص ٣٠؛ ینابیع المودّة، ج٣، ص ٢٤٣؛ تاویل الآیات الظاهرة فی فضائل العترة الطاهرة ج١، ص ٢٨٠)
بعض مفسرین نے بھی روایات کو مدّنظر رکھتے ہوئے بعض آیات کو امام حسین علیہ السلام پر تطبیق کیا ہے؛ مثلاً
١۔( سَیَعْلَمُ الذینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ )
(سورہ شعراء، آيه٢٢٧)
عنقریب ظالمین کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس جگہ پلٹا دیئے جائیں گے۔
٢۔( ومَنْ قُتِلَ مَظلوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهِ سُلْطَاناً )
(سورہ اسراء، آيه٣٣)
جو مظلوم قتل ہوتا ہے ہم اس کے ولی کو بدلے کا اختیار دیدیتے ہیں۔ یہ آیت لوگوں کے خون کو محترم اور ان کے قتل کی شدید حرمت بیان کرتے ہوئے متوجہ کررہی ہے
کہ خبردار کسی کو مظلومانہ قتل نہ کرنااگر کسی نے ایسا کیا تو یاد رکھو ان کے ولی اور وارث کےلئے حق قصاص ثابت و مسلم ہے۔ روایت میں یہ مفہوم شہادت امام حسین علیہ السلام پر تطبیق کیا گیا ہے۔ کسی شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی تو آپ نے فرمایا:
''هُوَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ قُتِلَ مَظْلُوماً وَ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُهُ وَ الْقَائِمُ مِنَّا إِذَا قَامَ طَلَبَ بِثَأْرِ الْحُسَيْن''
اس سےمرادحسین علیہ السلام ہیں جومظلومانہ قتل کئےگئےہیں اورہم ان کےوارث ہیں اورہمارے قائم(حجة بن الحسن العسکری عجل اللہ تعالی فرجھم)ان کے انتقام کیلئے قیام کریں گے۔
(تفسیر نور الثقلین، ج٤، ص ١٨٢)
حسیؑن ۔ فاتح مباہلہ
آیۂ مباہلہ:
( فمن حاجَّکَ فیه من بعد ما جاءَ ک من العلم فقل تعالوا ندعُ ابناء نا و ابنائَکم و نساء نا و نساء کم و أنفسنا و أنفسکم ثُمَّ نبتهل فنجعل لعنت الله علی الکاذبین )
سید الشہداء مظلوم کربلا وارث انبیاء صاحب ھل أتیٰ حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کو بیان کرنے والی آیات میں سے ایک آیہ مباہلہ ہے، جسے تمام فرق اسلامی نے متفقہ طور پر تسلیم کیا ہے۔
مباہلہ کا تاریخ ساز واقعہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم کی رسالت کی حقانیت کی بہترین دلیل ہے اور اپنی رسالت و دعوت اسلامی پر ایمان و یقین کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لئے کہ اگر حضور سرور کائنات کو اپنی دعوت اسلامی پر ایمان کامل نہ ہوتا تو یہ واقعہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم کی تکذیب کیلئے دشمنوں کے ہاتھوں میں ایک مستحکم سند بن جاتا کیونکہ دو ہی صورتیں ممکن تھیں:
اول:
نصارائے نجران کی نفرین پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم کے حق میں مستجاب ہوجاتی۔
دوم:
یا یہ کہ نہ نفرین نصاریٰ قبول ہوتی اور نہ ہی نفرین سرور کائنات بہرحال دونوں صورتوں میں پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم کا دعویٰ نبوت باطل ہوجاتا اور دنیا کا کوئی صاحب عقل بھی ایسا کام نہیں کرتا ہے کہ جس کی وجہ سے دشمن اور مخالفین اس کی تکذیب کردیں۔
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم کو اپنے دعویٰ نبوت، استجابت دعا اور دشمن کی ہلاکت کا یقین کامل تھا اسی لئے کمال شجاعت کے ساتھ دشمن کو مباہلہ کی دعوت دے رہے تھے۔
حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین علیہما السلام کو مباہلہ میں لیکر جانا ان کی عظمت و صداقت اور بلند مرتبہ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہی حضرات بارگاہ خداوندی میں محبوب ترین اور مخلوق میں سب سے زیادہ لائق عزت و احترام ہیں۔
پس یہ آیہ کریمہ امام حسین علیہ السلام کی عظمت، شرافت، کرامت اور صداقت کی بہترین دلیل ہے کہ پیغمبر گرامی قدر بحکم پروردگار تمام امت اسلامی میں سے انہیں، ان کے والدین اور ان کے بھائی کو منتخب کرتے ہیں۔
اگرچہ اکثر مفسرین و محدثین اور مورخین نے واقعہ مباہلہ کو بیان کیا ہے لیکن اس کے باوجود ذوق مطالعہ رکھنے والے حضرات کیلئے چند منابع کا ذکر کرنا مناسب ہے۔
مثلاً: تفسیر طبری، بیضاوی، نیشاپوری، تفسیر کشاف، درمنثور، اسباب النزول واحدی، اکلیل سیوطی، مصابیح السنة، سُنن ترمذی و دیگر کتب۔
واقعہ مباہلہ کےسلسلہ میں اہل سنت کے عظیم مفسر جناب فخر رازی نے اس آیہ کریمہ کے ذیل میں جو روایت نقل کی ہے اسے یہاں بیان کردینا بھی مناسب ہے۔
روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم نے جب نصاریٰ نجران کو مختلف دلائل پیش کئے اور وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے اور کسی طرح سر تسلیم خم کرنے کیلئے تیار نہ ہوئے تو آنحضرت نے فرمایا: پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر تم لوگ میری دلیل و حجت کو قبول نہیں کرتے تو پھر میں تم سے مباہلہ کروں!
انہوں نے کہا:
اے ابا القاسم ہمیں گھر لوٹ کر کچھ سوچنے اور غور وفکر کرنے کا موقع دیجئے پھر ہم آپ کو جواب دیں گے!
جب یہ لوگ واپس پلٹ کر آئے تو عیسائیوں میں جو بافہم اور صاحب نظر شخص “عاقب” تھا اس سے رجوع کیا اور کہا: اے عبدالمسیح تمہاری کیا رائے ہے؟
اس نے کہا: اے گروہ نصاریٰ! تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم پیغمبر ِمرسل ہیں اورانہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارےمیں حق بات کہی ہے۔خدا کی قسم اسکےباوجودتم لوگ ان کی بات ماننےکیلئےتیارنہیں ہواوراپنی ہٹ دھرمی پرقائم ہو۔اب اگرایسا ہی ہےتو ان سےکوئی مصالحت کرکےاپنےدیارکی طرف پلٹ جاؤ(ورنہ ذلّت ورسوائی اورتباہ وبربادی کےسوا کچھ ہاتھ نہ آئےگا)
جب آنحضرت گھرسےچلےتوسیاہ عبا دوش پرڈالی،حسیؑن کوگودمیں لیا،حسؑن کا ہاتھ پکڑا، فاطمہ زہرا علام اللہ علیہا پیچھےپیچھےاورعلؑی انکےپیچھےچلے۔ پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم اس اندازسےمباہلہ کیلئےپہنچےاوران سےفرمایا:جب میں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا!
ادھرعیسائیوں کےبافہم اوربزرگ حضرات یہ منظردیکھ رہےتھے، انہوں نےعیسائیوں سےکہا:اےگروہ نصاریٰ!ہم ایسےچہرےدیکھ رہےہیں کہ اگروہ خداسےپہاڑکےچلنےکی درخواست کریں توخداضروراس کام کوانجام دیگا لہٰذا ایسی صورت میں ان سے ہرگز مباہلہ نہ کرو ورنہ سب کے سب عیسائی نابود ہوجائیں گے اور پھر قیامت تک کے لیے عیسائیوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔
عیسائی ان کی بات سن کراجتماعی طور پر پیغمبراسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں آئے اورکہنےلگے: اے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم ہم آپ سے مباہلہ نہیں کرنا چاہتے،آپ اپنے دین پر رہیے(اورہم اپنے دین پر)۔
حضورسرورکائنات نے فرمایا: تو پھر میں تم سے جنگ کروں گا!
کہنےلگے:ہم آپ سےجنگ کی طاقت نہیں رکھتےلیکن آپ سےمصالحت کےلئےتیارہیں،مگرشرط یہ ہےکہ آپ ہم سےجنگ نہیں کریں اورہمیں ہمارے دین سے نہ نکالیں گے اور ہم اس کے بدلے آپ کو سالانہ دو ہزار لباس۔(ایک ہزار ماہ صفر میں اور ایک ہزار ماہ رجب میں)۔ اور تیس عدد آہنی زرہ ادا کریں گے۔
سرکاررسالت فرماتے ہیں: خدا کی قسم ہلاکت و بربادی اہل نجران پر سایہ فگن تھی اگر یہ لوگ مباہلہ کرتےتو سب کےسب بندرولومڑی کی صورت میں مسخ ہوجاتے،آسمان سےان پرآگ برستی، خدا نجران و اہل نجران کوتباہ وبربادکردیتاحتیٰ کہ انکےدرختوں پربیٹھےہوئےپرندےاورایک سال کےاندرتمام نصاریٰ نابود ہوجاتے!
پس پیغمبراسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کو دیکھ کر اہل نجران بغیرمباہلہ کیئے واپس پلٹ جاتے ہیں اور ان میں مقابلہ کی ہمت پیدا نہیں ہوتی گویا پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ میرے اہل بیت علہم السلام ایسے ہیں کہ جنہیں دشمن اسلام دیکھ کر مقابلہ کی ہمت نہیں کرتا بلکہ بھیگی بلی کی طرح دم دبا کر خاموشی سے نکل جاتا ہے۔
پس یادرکھناچاہیےکہ جس طرح پیغمبراسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم فاتح مباہلہ ہیں حسین علیہ السلام بھی اسی طرح فاتح مباہلہ ہیں اگر ہم زندگی کے ہر مرحلہ میں انہیں اپنا راہنما اور نمونہ حیات قرار دیں تو کبھی نہ دشمن کے سامنے قدم ڈگمگائیں گے اور نہ ہی کبھی زندگی میں ناکام ہوں گے۔
قرآن کریم کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کا فرزندرسولصلىاللهعليهوآلهوسلم ہونا
سوال کیاجاتاہےکہ قرآن کریم کی کس آیت کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام فرزندرسول کہلائےجاتےہیں؟
جواب:
آیۂ مباہلہ ہی وہ آیت ہےجسکےذریعے امام حسین علیہ السلام فرزندسولصلىاللهعليهوآلهوسلم کہلائےجاتے ہیں۔شیعہ مفسرین ومحدثین نےتصریح کی ہےکہ یہاں ''أبناء نا''امام حسن وحسین علیہ السلام سےمخصوص ہے۔
ورنہ پیغمبراسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم کسی کوبھی اپنےساتھ لےجاتے۔اور یہ بھی ناممکن تھاکہ پیغمبراگرتنہاچلےجاتےیاحسنین کےعلاوہ کسی اورکولےجاتےاوردعاکرتے تودعا قبول نہ ہوتی۔بلکہ جب پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم دعاکرتےتویقیناًدعاءقبول ہوتی اورسارے عیسائی عذاب الٰہی میں گرفتار ہوجاتے۔ لیکن پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم شاید اسی حکمت کے تحت حضرات حسنؑین کو لیکر جارہے تھے تاکہ آیت کے مطابق امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کا فرزند رسول ہونا بھی ثابت ہوجائے نہ فقط ثابت ہوجائے بلکہ انہی مقدس حضرات میں فرزندیت محدود ہوجائے اور پھر کوئی غیر، فرزند رسول ہونے کا دعویٰ نہ کرسکے۔
شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری کتاب شریف احقاق الحق میں فرماتے ہیں:
''اجمع المفسّرون علٰی أنَّ ''أبناء نَا '' اشارة اِلی الحسن والحسین، و ''نِسَاء نَا'' اِلی فاطمة و ''أنفسَنا'' اشارَة اِلی علی ۔''
مفسّرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ ''ابناء نا'' سے مراد حسن و حسین، ''نساء نا'' سے مراد فاطمہ زہرا اور ''أنفسنا'' سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں۔
شہید کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امر پر شیعہ و سنی مفسرین کا اجماع ہے۔ اس کے علاوہ شہید جلد سوم و نہم یعنی ملحقات احقاق الحق میں ایک سو پچاس سے زیادہ اہل سنت کی معروف کتب کے نام بیان کرتے ہیں جن میں تفسیر فخر رازی جیسی مختلف راویوں سے روایات نقل کی گئی ہیں۔
(قاضی نورالله شوستری، ج٣، ص ٦٢۔ ٤٦ و ملحقات احقاق الحق ج١٠، ص ٩١۔ ٧٠)
واحدی، کتاب اسباب النزول میں فخر رازی جیسی روایت نقل کرتے ہوئے شعبی سے نقل کرتے ہیں:
''أبناء نا: الحسن و الحسین، ونساء نا: فاطمه، و أنفسنا: علی ابن ابی طالب''
(واحدی، اسباب النزول، ص ٥٩)
''ابناء نا'' سےمرادحسن وحسین ، ''نساء نا'' سے مراد فاطمہ زہرا اور ''أنفسنا'' سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔
امام حسین علیہ السلام مصداق ذوی القربی
آیۂ مودّت:
( قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى )
(سوره شوریٰ آیه ٢٣)
امام حسین علیہ السلام کی عظمت و رفعت بیان کرنے والی آیات میں سے ایک یہ آیۂ کریمہ ہے۔
احمد بن حنبل اپنی ''مسند'' میں اور ابو نعیم حافظ، ثعلبی، طبرانی، حاکم نیشاپوری، رازی، شبراوی، ابن حجر، زمخشری، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، سیوطی اور دیگر علماء اہل سنت حضرات نے ابن عباس سے روایت کی ہے:
جب یہ آیہ مبارکہ نازل ہوئی تو لوگ پیغمبرکے پاس آئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم ! آپ کے قرابت دار جن کی مودت ہم پر واجب قرار دی گئی ہے کون ہیں؟
سرورکائنات نےارشادفرمایا: علی وفاطمہ علیہما السلام اورانکےدونوں بیٹے۔
(احیاء المیت، ج٢؛ الاتحاف، ص ٥؛ صواعق ص ١٦٨؛ الأکلیل، ص ١٩١؛ الغدیر ج٢ ، ص٣٠٧؛ خصائص المبین، ج٥ ، ص ٥٢ تا ٥٥؛ عمدہ ابن بطریق، ف ٩ ، ص ٢٣ تا ٢٥)
شیخ شمس الدین ابن عربی نے آیت و روایت کے مفہوم کو بہت ہی خوبصورت انداز میں نظم کیا ہے:
رَأَیتُ وَلَائی آلَ طَه فَرِیضَةًعلیٰ زَغْمِ أهْلِ الْبُعْدِ یُورِثُنِی القُربیٰ فَمَا طَلَبَ المَبْعُوثُ أَجْراً علیٰ الهُدیٰ بِتَبْلِیغِه اِلَّا المَوَدَّةَ فِی القُرْبیٰ
(صواعق، ص ١٧٠؛ اسعاف الراغبین، ١١٩)
شافعی کہتے ہیں:
یَاأهلَ البَیْتِ رَسُولِ اللّٰه حُبُّکُم فَرَض مِنَ اللّٰه فی القرآن کریمِ أنْزَلَه ُکَفَا کُمْ مِن عظیم القدرأَنَّکُمْ مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْکُم لَاصلواةلَهُ
(نظم در رالسمطین، ص ١٨؛ اسعاف الراغبین، ص ١٢١؛ الاتحاف ص ٢٩؛ صواعق، ص١٤٨)
''اے اہل بیت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ کی محبت کو واجب قرار دیا ہے اور آپ کی قدر و منزلت کے لئے یہی کافی ہے کہ اگر نماز میں کوئی آپ پر صلوات نہ پڑھے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوسکتی۔''
امام حسیؑن مصداق اولی الامر
آیہ اولی الامر:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ )
(سورئہ نساء، ٥٩)
اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں۔''
اس آیۂ کریمہ میں( أُوْلِي الأَمْرِ ) سےمرادمعصوم امام ہی ہیں کہ پروردگارعالم وحضورسرورکائنات(صلىاللهعليهوآلهوسلم )کی طرف سےانسانی معاشرےکی مادّی ومعنوی رہبری کی ذمہ داری انہی کےسپردکی گئی ہے۔کیونکہ
اولاً: کلمہ( أُوْلِي الأَمْرِ ) نام خدا کے ساتھ استعمال ہوا ہے اور بغیر کسی قید و شرط کے ان کی اطاعت کو خدا و رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم کی اطاعت شمار کیا گیا ہے۔ لہٰذا( أُوْلِي الأَمْرِ ) کو پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم کی طرح معصوم ہونا چاہیے کیونکہ اگرمعصوم نہ ہونگے تو بجائے ہدایت و رہنمائی کے گمراہی کا سبب بن جائیں گے۔
ثانیاً: متعدد شیعہ منابع اور بعض منابع اہل سنت بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ”أُوْلِي الأَمْرِ“ سے مراد امام معصوم ہیں حتیٰ کہ بعض روایات میں ایک ایک امام کا نام صراحت سے ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ جناب جابربن عبداللہ انصاری سے نقل کیا گیا ہے کہ:
جب آیہ( أَطِيعُواْ اللّهَ ) نازل ہوئی تو میں نے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم سے سوال کیا یا رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم ! ہم نے خداا و رسول کو تو پہچان لیا لیکن یہ( أُوْلِي الأَمْرِ ) جن کی اطاعت آپ کی اطاعت کے ساتھ قرار دی گئی ہے یہ کون ہیں؟
فرمایا: اے جابر! یہ میرے بعد میرے جانشین اور مسلمانوں کے امام ہیں جن میں پہلے علی ابن ابی طالب علیہ السلام ان کے بعد ان کے فرزند حسن پھر حسین، پھر علی بن الحسین ، پھر محمد بن علی علیہ السلام جنہیں توریت میں باقرکہاگیاہے اور تم انہیں عنقریب درک کرو گے جب تم ان سے ملاقات کرو تو انہیں میراسلام پہنچا دینا۔ان کے بعد صادق، جعفر بن محمد، پھر موسیٰ بن جعفر، پھر علی بن موسیٰ پھر محمد بن علی پھرعلی بن محمدپھرحسن بن علی(علیہم السلام)پھرآخری امام عجل اللہ جومیرےہمنام ہیں اور جو میری کنیت (ابو القاسم) ہے وہ ہی ان کی کنیت ہے۔ وہ زمین پر حجت خدا اور بقیة الله ہیں۔ حسن بن علی کے فرزند وہی ہیں جن کے ذریعے خدا مشرق و مغرب تک پورے عالم میں اپنے نام کا سکہ چلا دے گا۔
(تفسیر نمونه، ج٣، ص ٤٣٥۔ ٤٤٤؛ المیزان ج٤، ص ٤٠٩؛ ینابیع المودة، ج١، ص ٣٤١۔ ٣٥١؛ البرهان فی تفسیر القرآن کریم؛ تفسیر نورالثقلین، ذیل آیهٔ، ٥٩سوره نساء)
امام حسیؑن مصداق شہداء
( وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا )
(نساء، آيه٦٩)
اور جو بھی اللہ و رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جس پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفیق ہیں۔
جناب امّ سلمہؓ سے روایت کی گئی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:
( الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ ) '' میں ہوں،( الصِّدِّيقِينَ ) سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام،( الشُّهَدَاء ) سے مراد حسن و حسین علیہما السلام،( الصَّالِحِينَ ) سے مراد حمزہ اور( حَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا ) سے مراد میرے بعد بارہ امام ہیں۔
(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ١٨٣؛ علامه مجلسی، بحار،ج، ۳۴ ، ص ۳۴۷ ، ح٢١٤؛ بحرانی، البرهان، ج١،ص ٣٩٢ ، ح٣)
امامت نسل امام حسین علیہ السلام میں
( وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ )
(سوره زخرف ، آيه٢٨)
اور انہوں نے اس پیغام کو اپنی نسل میں ایک کلمہ باقیہ قراردیدیا کہ شاید وہ لوگ خدا کی طرف پلٹ آئیں۔
ابو ہریرہ سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم سے اس آیۂ کریمہ کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:
”جَعَلَ الْإِمَامَةَ فِي عَقِبِ الْحُسَيْنِ يَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ تِسْعَةٌ مِنَ الْأَئِمَّةِ وَ مِنْهُمْ مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ ثُمَّ قَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَ الْمَقَامِ ثُمَّ لَقِيَ اللَّهَ مُبْغِضاً لِأَهْلِ بَيْتِي دَخَلَ النَّارَ “۔
پروردگار نے حسین علیہ السلام کی نسل میں امامت کو قرار دیا ہے اور ان کے صلب سے نو امام آئیں گے جن میں آخری مہدی (عج) ہوں گے۔
پھر فرمایا: اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان خدا کی عبادت کرتا ہوا مرجائے اور اس کے دل میں بغض اہل بیت ہو تو یقینا جہنم واصل ہوگا۔(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ٧٦؛ علامه مجلسی، بحار، ٣٦، ص٣١٥، ح١٦٠؛ بحرانی، البرهان، ج٤، ص١٤٠، ح٩۔)
سورہ فجر اور امام حسین علیہ السلام
سورہ فجر حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام سے مشہور ہے خود سورہ کا مضمون اور اس کے بارے میں نقل ہونے والی روایات اس کی وضاحت کررہی ہیں۔ سورہ کی ابتداء میں ہم متعدد قسموں کا مشاہدہ کرسکتے ہیں مثلاً: فجر کی قسم، دس راتوں کی قسم، طاق و جفت کی قسم و۔۔۔ یہ قسمیں مذکورہ چیزوں کی اہمیت کے ساتھ ساتھ بعد میں آنے والی آیات میں ذکر ہونے والے جباروں کیلئے تہدید بھی ہے۔
ان قسموں کے ذکر کے بعد سرکش اقوام جیسے قوم ثمود ، عاد و فرعون اور ان پر ہونے والے عذاب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ سنن الٰہی میں سے ایک سنت ہے کہ جب کوئی قوم سرکشی پر کمر باندھ لیتی ہے اور ظلم وستم حد سے تجاوز کرجاتا ہے تو خداوند ان کی ہلاکت و نابودی کے اسباب فراہم کردیتا ہے؛ جیسا کہ حضرت موسیٰ کو فرعون اور فرعونیوں کے ہاتھوں سے بنی اسرائیل کی نجات کا ذریعہ قرار دیا۔
اس تذکرے کے بعد انسان کی آزمائش اور اس کی انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جبکہ سورہ کے آخر میں اس عظیم المرتبت شخصیت کا ذکر کیا گیا ہے جو رضائے الٰہی اور نفس مطمئنہ کی منزل پر فائز ہے۔
اس مفہوم و مطلب پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ملکوتی شخصیت اس کا بہترین مصداق ہیں، کیونکہ انہوں نے موسیٰ کلیم اللہ کی طرح دین خدا کی نابودی و بربادی کے لئے کمربستہ بنو امیہ کے تسلط و حکمرانی کو نیست و نابود کردیا اور خونی انقلاب و قیام کرکے ظلم و ستم کی سیاہی پر فجر ایمان و عقیدہ و آزادی نمودار کردی۔
بنابریں اگر بنی امیہ کی حکومت کو شام مرگ و تیرگی ظلمت شمار کیا جائے تو یاد رکھیئے قیام حسینی و خون شہدائے کربلا اس فجر عظیم کا نام ہے کہ جس نے تاریکی ظلمت کو شگافتہ کرکے فجر بیداری عطا کی ہے۔
علاوہ بر ایں حضرت امام حسین علیہ السلام ہی صاحب نَفْسُ الْمُطْمَئِنَّه ہیں اور انہوں نے کربلا میں اپنے عظیم کردار سے اس حقیقت کو ثابت کیا ہے شاید یہ بھی اس سورہ کے امام حسین علیہ السلام سے منسوب ہونے کی ایک علت ہوسکتی ہے جیسا کہ امام صادق سے روایت نقل کی گئی ہے:
''ہر واجب و مستحب نمازمیں سورہ فجر پڑھا کرو کیونکہ یہ سورہ حسین بن علی علیہ السلام ہے۔۔۔ ابو اسامہ نے کہا: کس طرح یہ سورہ امام حسین علیہ السلام سے مخصوص ہے؟ فرمایا: کیا تم نے
( يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّة )
نہیں سنا؟ اس آیت سے امام حسین علیہ السلام ہی مراد ہیں۔ وہ ہی صاحب نفس مطمئنہ اور راضیہ و مرضیہ کی منزل پر ہیں ۔ ان کے ساتھی بھی رسالت کے پیروکار ہیں وہ قیامت کے دن خدا سے راضی ہوں گے اور خدا ان سے راضی ہوگا۔
(بحار الانوار، ج٣٦، ص ١٣١)
نوک نیزہ پر تلاوت قرآن کریم
اکثر اہل قلم کے مطابق سرمظلوم کربلا نوک نیزہ پر سورہ کہف کی آیت نمبر ٩ کی تلاوت کرتا ہوا نظر آرہا تھا۔
زید ابن ارقم کا کہنا ہے: میں نے سر مبارک کی طرف دیکھا تو وہ نوک نیزہ پر اس طرح قرآن کریم کی تلاوت کررہا تھا:
( أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا )
کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ اصحاب کہف و رقیم ہماری نشانیوں میں سے ایک عجیب اور تعجب خیز نشانی تھے۔ میں یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا اور کہنے لگا یہ ماجرا تو اصحاب کہف کے واقعہ سے بھی زیادہ تعجب خیز ہے۔
(ارشاد، ج٢، ص ١١٦)
یہ واقعہ پڑھ کر کبھی کبھی ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر مظلوم کے سر نے سورہ کہف کی اس آیت کا انتخاب کیوں کیا تھا؟
شاید ان آیات کے انتخاب کی علت یہ رہی ہو کہ امام ان آیات کی تلاوت سے لوگوں کو یہ سمجھانا چاہتے ہوں کہ شاید تم لوگ داستان اصحاب کہف کو عجیب سمجھتے ہو کہ کس طرح انہوں نے اپنے دین و ایمان کے تحفظ کی خاطر ترک وطن کیا اور غار میں پناہ لے لی۔
نہیں، اس سے زیادہ عجیب ہماری داستان ہے کیونکہ ہم اپنے زمانے کے ستمگر اور ظالم کے مدّمقابل ڈٹ گئےہم نے انکے خلاف قیام کیا حتیٰ کہ اپنے بچوں اور عورتوں کو بھی جہاد میں لیکر آگئے۔
شہادت امام حسین علیہ السلام پر زمین و آسمان کا گریہ
جس وقت کربلا میں امام حسین علیہ السلام کوتین دن کاپیاساشہیدکیا گیا تو کیا زمین وآسمان خون کےآنسوروئےتھے؟آسمان سےخون برسااورزمین نےخون اگلنا شروع کردیا تھا؟ یا یہ صرف ایک شاعرانہ بات ہے؟
متعدد روایات میں سورہ دخان کی ٢٩ ویں آیت میں زمین و آسمان کے خون بار گریہ کو امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے پرتطبیق کیا گیا ہے۔ ذیل میں آیت اور اس کے مفہوم اور زمین و آسمان کے گریہ کے معنی بیان کئے جارہے ہیں۔
”فَما بَکَتْ علیهم السمَّاءُ والأرضُ وَمَا کَانُوا مُنْظَرِینَ “
تو ان لوگوں پر آسمان وزمین کو بھی رونا نہیں آیا اور نہ ہی انہیں مہلت ہی دی گئی۔
فرعونیوں کی بدبختی یہ تھی کہ جب ان کے عذاب کے دن آگئے تو انہیں ایک لمحہ کی بھی مہلت نہیں دی گئی اور دریائے نیل میں غرق کردیئے گئے اور ان کی ذلت و رسوائی کی علامت یہ ہے کہ ان کے مٹ جانے پر زمین و آسمان میں کوئی تاثر پیدا نہ ہوا جبکہ ان کا خیال تھا کہ ہم مرجائیں گے تو قیامت آجائے گی اور بات بھی صحیح تھی کیونکہ وہ فرعون کو خدا سمجھ رہے تھے اور ”خدا“ کے مرجانے کے بعد کائنات کے باقی رہنے کا کیا سوال ہوتا تھا۔ لیکن قدرت نے واضح کردیا کہ باطل خدا بھی بن جائے تو اس کے مرنے پر زمین و آسمان میں کوئی تغیّر پیدا نہیں ہوتا۔
آیت اسی بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ فرعونیوں کے غرق ہونے کے بعد ان پر نہ زمین نے گریہ کیا نہ آسمان نے اس لئے کہ ان کا وجود دنیا کیلئے خباثت سے بھرپور تھا گویا جہان ہستی و عالم بشریت سے انہیں کوئی ربط نہ تھا اسی لئے ان کے غرق ہونے کے بعد کسی نے ان کی جگہ خالی ہونے کا احساس تک نہ کیا۔ نہ زمین و آسمان نے اور نہ ہی کسی انسان نے، اس لئے کسی نے ایک قطرہ اشک تک ان پر بہانا گوارا نہ کیا۔
ہاں کوئی بندہ پروردگار راہ خدا میں کام آجائے تو اس کی شہادت پر زمین بھی رو سکتی ہے اور آسمان بھی گریہ کرسکتا ہے جیسا کہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں نقل کیا گیا ہے۔ کہ بیت المقدس کی زمین سے جو پتھر اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے سے خون تازہ جوش مار رہا تھا اور یہی حال آسمان کا بھی تھا کہ اس سے خون کی بارش ہورہی تھی۔
تاریخ میں ایسے بہت سے مواقع نقل کئے گئے ہیں جہاں صاحبان ایمان و اخلاص کے مرنے پر زمین و آسمان میں تاثرات کا اظہار ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی سب سے بالاتر تھی تو اس کا اثر بھی سب سے زیادہ ہوا اور کربلا سے بیت المقدس تک ساری زمین متاثر ہوگئی اور شاید یہ بھی شہادت کی ایک معراج ہے کہ اس کے اثرات مسجد الاقصیٰ تک پہنچ جائیں اور زمین و آسمان میں ایک زلزلہ پیدا ہوجائے۔
بہرحال شیعہ کتب ہوں یا کتب اہل سنت مزید منابع اہل سنت کے لئے فضائل پنجتن در صحاح ستہ کا مطالعہ کریں)
(اقبال الاعمال، ص ٥٤٥؛ بحار الانوار، ج ١٤، ص ١٨٢۔ ١٨٣؛ ج٤٥ ص ٢١٠۔ ٢١١) (مقتل الحسین، ج٢، ص ٨٩۔ ٩٠ )
دونوں نے ان روایات کو نقل کیا ہے جن میں بیان کیا گیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر زمین و آسمان نے گریہ کیا، آسمان سے خون کی بارش ہوئی اور جس پتھر کو بھی زمین سے اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے خون تازہ پایا جاتا تھا۔
اس واقعہ میں زمین و آسمان کے گریہ کے بارے میں چند معنی بیان کئے گئے ہیں۔
الف: یہ اس دن کی شدت مصائب کی طرف کنایہ ہے۔
ب: ممکن ہے کہ یہ کنایہ نہ ہو بلکہ اس دن کے مصائب کی شدت نے زمین و آسمان میں کوئی فزیکل تبدیلی پیدا کی ہو جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ: آسمان سوائے یحی ابن ذکریا و حسین بن علی علیہ السلام کے کسی پر نہیں رویا اور اس کا گریہ آسمان کی سرخی ہے(جو کہ اس وقت شدید سرخ ہوگیا تھا)
(بحار الانوار ج١٤، ص ١٨٢۔ ١٨٣)
ج: روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تعبیر، کنایہ نہیں ہے اور فقط آسمان سرخ ہی نہیں ہوا تھا بلکہ واقعاً آسمان سے خون برس رہا تھا اور زمین خون سے رنگین ہوئی تھی۔
لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دن رونما ہونے والا یہ واقعہ حوادث ملکوتی میں سے ہو اور ہر طرف خون موجود ہو لیکن تمام لوگ اس کا مشاہدہ نہ کرسکتے ہوں بلکہ خاص افراد ہی اسے دیکھ سکتے ہوں۔
امام حسین علیہ السلام مظلوم
جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے القاب میں سے ایک لقب ”مظلوم“ مشہور ہے بلکہ یہ لقب امام حسین علیہ السلام کے نام کے ساتھ اتنا کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ جب لفظ ”مظلوم کربلا“ زبان پر آتا ہے یا کانوں سے سنائی دیتا ہے تو فوراً ذہن میں امام حسین علیہ السلام ہی کا نام آجاتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ کبھی کبھی سوال ہوتا ہے کہ کیا قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بھی امام حسین علیہ السلام کا یہ لقب ثابت کیا جاسکتا ہے؟
جواب:
قرآن کریم کتاب ہدایت ہے اس میں ہر خشک و تر کا ذکر موجود ہے لیکن قرآن کریم میں موجود ہر خشک و تر کو وہ ہی بیان کرسکتا ہے جسے قرآن کریم کا پورا علم ہو، قرآن کریم میں کلّی احکامات کو بیان کیا گیا ہے جبکہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام مفسر و مبیّن قرآن کریم ہیں۔ انہی کے فرمودات کے مطابق ہم ایسی آیات کا مشاہدہ کرتے ہیں جن میں مظلومیت کا تذکرہ موجود ہے اور اہلبیت علیہم السلام نے ان کی تفسیر بیان کی ہے۔
امام حسین علیہ السلام کے اس مشہور و معروف لقب کی زیارت نامہ ، دعاؤوں اور احادیث میں بے حد تاکید کی گئی ہے مثلاً زیارت اربعین میں آیا ہے :
”السَّلَامُ عَلَى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِيد “
(تهذیب، ج٦، ص ١١٣؛ مفاتیخ الجنان، ص ٨٤٨؛ بحار الانوار، ج٤٤، ص٢١٨۔ ٢١٩۔ ٢٩٨؛ ج٥١ ص ٣٠؛ ینابیع المودّة، ج٣، ص ٢٤٣؛ تاویل الآیات الظاهرة فی فضائل العترة الطاهرة ج١، ص ٢٨٠)
بعض مفسرین نے بھی روایات کو مدّنظر رکھتے ہوئے بعض آیات کو امام حسین علیہ السلام پر تطبیق کیا ہے؛ مثلاً
١۔( سَیَعْلَمُ الذینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ )
(سورہ شعراء، آيه٢٢٧)
عنقریب ظالمین کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس جگہ پلٹا دیئے جائیں گے۔
٢۔( ومَنْ قُتِلَ مَظلوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهِ سُلْطَاناً )
(سورہ اسراء، آيه٣٣)
جو مظلوم قتل ہوتا ہے ہم اس کے ولی کو بدلے کا اختیار دیدیتے ہیں۔ یہ آیت لوگوں کے خون کو محترم اور ان کے قتل کی شدید حرمت بیان کرتے ہوئے متوجہ کررہی ہے
کہ خبردار کسی کو مظلومانہ قتل نہ کرنااگر کسی نے ایسا کیا تو یاد رکھو ان کے ولی اور وارث کےلئے حق قصاص ثابت و مسلم ہے۔ روایت میں یہ مفہوم شہادت امام حسین علیہ السلام پر تطبیق کیا گیا ہے۔ کسی شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی تو آپ نے فرمایا:
''هُوَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ قُتِلَ مَظْلُوماً وَ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُهُ وَ الْقَائِمُ مِنَّا إِذَا قَامَ طَلَبَ بِثَأْرِ الْحُسَيْن''
اس سےمرادحسین علیہ السلام ہیں جومظلومانہ قتل کئےگئےہیں اورہم ان کےوارث ہیں اورہمارے قائم(حجة بن الحسن العسکری عجل اللہ تعالی فرجھم)ان کے انتقام کیلئے قیام کریں گے۔
(تفسیر نور الثقلین، ج٤، ص ١٨٢)