امام رضا
عليهالسلام
اور سیاست
حضرت امام رضاعليهالسلام
کا طرز زندگی بھی اپنے اجداد کی طرح تھا۔ آپعليهالسلام
نے بھی اپنی تمام زندگی ظالموں کے خلاف جہاد میں گزاری ، اور ان میں بنی عباس کے خلفاء سرفہرست تھے کہ جن کی خلافت کو آپعليهالسلام
نے کبھی بھی قانونی حیثیت نہیں دی۔
آپعليهالسلام
کے ایک صحابی سلیمان جعفری نے کہا کہ میں امامعليهالسلام
کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ مامون کی حکومت سے تعلقات کے بارے میں آپعليهالسلام
کا نظریہ کیا ہے؟
حضرت امام رضاعليهالسلام
نے جواب میں فرمایا:
"ان کی طرف عمداً اور جان بوجھ کر توجہ دینا گناہ کبیرہ میں سے ہے اور اس کی سزا آتش دوزخ ہی"
وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۸ بحار الانوار جلد ۷۵ صفحہ ۳۷۴
کیونکہ امام رضاعليهالسلام
نے ولی عہدی کو قبول کر لیا تھا اس لئے بعض افراد کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو تاتھا لیکن سوال یہ ہے کہ حضرت امام رضاعليهالسلام
نے کیوں ولی عہدی کو قبول کیا؟
اسلامی سلطنت میں بڑھتی ہوئی اسلامی تحریکوں کو دیکھ کر مامون کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ اب حکومت کو خطرہ لاحق ہے ، اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ حضرت امام رضاعليهالسلام
مدینہ میں تھے اور آپعليهالسلام
کا رابطہ عام لوگوں سے مضبوط تھا مامون نے اس رابطے کو توڑنے کے لئے اور آپعليهالسلام
کو زیر نگرانی رکھنے کے لئے ایک چال چلی ۔
خراسان سے مدینہ خط بھیجا کہ میں حکومت کے تمام امور آپعليهالسلام
کو سونپنا چاہتا ہوں اس لئے آپعليهالسلام
خراسان تشریف لے آئیے ۔
مدینہ کے گورنر نے حالات کو کچھ اس طرح سے بنایا کہ امامعليهالسلام
کو اپنی مرضی کے بغیر مدینہ چھوڑنا پڑا(البتہ تمام ائمہ اطہارعليهالسلام
کے لئے مدینہ چھوڑنا بہت مشکل ہو تا تھا کیونکہ وہاں پر رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور حضرت زہرا(علیہ السلام) کی مطہر اور منور قبریں ہیں )۔
جب حضرت امام رضاعليهالسلام
مامون کے پاس پہنچے تو مامون نے آپعليهالسلام
کو خلافت کی پیشکش کی۔ آپعليهالسلام
نے بڑی سختی سے اس کو رد کر دیا تقریباًدو ہفتہ تک اس گفتگو کا سلسلہ جاری رہا ایک دن مامون نے کہا کہ میں خلافت سے استعفاء دینا چاہتا ہوں اور خلافت کے امور آپعليهالسلام
کے ہاتھ میں سونپنا چاہتا ہوں ۔
امامعليهالسلام
نے اس کے جواب میں فرمایا:
"اگر یہ خلافت تمہاری ہے اور خدا نے اس کو تمہارے لئے قرار دیا ہے تو تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو لباس خدا نے تمہارے لئے سیا ہے تم اسے دوسرے کو پہنا دو اور اگر خلافت تمہاری چیز نہیں ہے توجائز نہیں ہے کہ جو چیز تمہاری نہیں ہے اس کو مجھے دے دو۔عیون اخبار الرضا جلد ۲ صفحہ ۱۳۹ ، ۱۴۰
مامون کا زور بڑھتا گیا اور آپعليهالسلام
کا انکار اپنی جگہ پر رہا مامون آپ کا انکار دیکھ کر کچھ نرم ہوا اور آپعليهالسلام
کو جانشینی کی پیشکش کی۔ آپعليهالسلام
نے اس کو بھی قبول کر نے سے انکار کر دیا مامون نے بہت زور دیا آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس گستاخ نے کہا کہ اگر آپعليهالسلام
نے جانشینی قبول نہیں کی تو میں آپعليهالسلام
کو قتل کر دوں گا۔
امامعليهالسلام
نے اس کے جواب میں فرمایا کہ:
خدا نے مجھ کو منع کیا ہے کہ میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالوں اور اب جب کہ تم زبردستی کر رہے ہو تو میں اپنی شرائط کے ساتھ جانشینی کو قبول کروں گا:
۱ ۔ کسی کو کسی کے مقام سے ہٹاؤں گا نہیں اور کسی کو کسی کے مقام پر فائز نہیں کروں گا۔
۲ ۔ فتویٰ نہیں دوں گا۔
۳ ۔ قضاوت نہیں کروں گا۔
۴ ۔ وہ چیز جو کہ قائم ہے اس کو تبدیل نہیں کروں گا۔
(مناقب آل ابیطالبعليهالسلام
جلد ۴ صفحہ ۳۶۳)
یہ شرائط اس بات کی مکمل نشاندہی کر رہی ہیں کہ امامعليهالسلام
نے مامون کی سیاست کو سمجھتے ہوئے اس کا جواب دیا مامون یہ چاہتا تھا کہ حضرت امام رضاعليهالسلام
کو حکومت میں لاکر یہ ثابت کر دے عام مسلمان کے لئے کہ میری حکومت قانونی ہے اور شرعی ہے لیکن امامعليهالسلام
نے اس کے مقابلے میں اپنی خاص روش اختیار کی اور یہ بات سمجھا دی کہ میرا مامون کی ظالم حکومت سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور جانشینی فقط ایک عنوان کی حیثیت رکھتی ہے۔
امامعليهالسلام
نے اپنی روش کے ذریعے سے دو چیزوں کی وضاحت کی۔
ٍ ۱ ۔ امامعليهالسلام
مامون کی حکومت سے راضی نہیں تھے۔
۲ ۔ جانشینی کو قبول کر نا ظاہری تھا کیونکہ امامعليهالسلام
کی نظر میں آپ کا زندہ رہنا معاشرے کے لئے ضروری تھا اور اس زمانے کے واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں امامعليهالسلام
نے یہ بات صریحاً بیان کر دی تھی کہ میں تم سے پہلے دنیا سے چلا جاؤں گا (یعنی مجھے جانشین بنا نا بے معنی ہی)امامعليهالسلام
نے جانشینی کو قبول کر نے کے بعد محروم اور نادار فقراء اور مساکین کی تاحد امکان مدد کی اور ان کے حقوق ان کو دلوائے۔
اپنی مفصل نشستوں میں شیعہ مذہب کی حقانیت کو ثابت کیا اور تشیع کے اصولوں کو جو کہ دراصل خالص اسلام کے اصول ہیں روشن اور واضح کیا اور ان کو پھیلایا جس کی وجہ سے شیعت کو عروج ملا اور بہت سے علاقوں میں شیعت پھیل گئی یہی مسائل تھے کہ جو آگے چل کر اس بات کا سبب بنے کے آپعليهالسلام
کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔
ان تمام شرائط کے با وجود امامعليهالسلام
نے مامون کی سیاست کو سمجھا اور اس کو موقعہ پر ختم کر دیا اور اس کے مقابل اپنے آپعليهالسلام
کوجھکا یا نہیں ، لیکن اگر امامعليهالسلام
ان تمام چالاکیوں کے سامنے سادگی سے بیٹھے رہتے اور سیاسی مسائل کو سمجھتے تو شاید وہ واقعات پیش نہ آتے جو کہ تاریخ میں ثبت ہوئے۔
ان تفصیلات کے ذیل میں ایک واقعہ بیان کر تا چلوں کہ کس طرح سے امام رضاعليهالسلام
نے مامون کی مخالفت کی ہے امامعليهالسلام
کو مدینہ اور حجاز سے یہ خبر دی گئی کہ وہاں پر مسلمانوں کی حالت بہت خراب ہے اور وہاں کے حکمرانوں نے بھی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے ہیں۔
ایک دن مامون ہاتھ میں لمبا چوڑا سا خط لئے امامعليهالسلام
کے پاس آیا اور اس خط کو پڑھا اس میں کابل کے اطراف کے کچھ علاقوں کی فتح کی خبر دی گئی تھی جب خط ختم ہو گیا تو امامعليهالسلام
نے مامون سے پوچھا کہ:
"کیا تم مشرک اور کافر قوموں کی کچھ زمین کو فتح کرنے کی وجہ سے خوش ہو؟"
مامون نے تعجب سے پوچھا آیا ان شہروں کی فتح خوشی کی بات نہیں ہے؟
امامعليهالسلام
نے اس کے جواب میں فرمایا:
"امت محمد کے سلسلے میں خدا کے فرمان کی مخالفت سے پرہیز کرواور اسی طرح سے قیادت کے سلسلے میں بھی جو کہ تمہارے ہاتھ میں ہے کیونکہ تم نے مسلمانوں کے امور کو تباہ و برباد کر دیا ہے اور عوام پر ایسے حکمرانوں کو مسلط کر دیا ہے جو کہ خدا کے فرمان کے خلاف کام کر تے ہیں اور تم یہاں پر بیٹھے ہوئے ہو اور مرکز وحی کو چھوڑ دیا ہے اور وہاں کے مظلوم عوام کی فکر میں نہیں ہو"
(عیون اخبار الرضا ج ۲ صفحہ ۱۵۹،۱۶۰)
یہاں پر امامعليهالسلام
نے مامون کو مبارک باد دینے کے بجائے اس کے نمائندوں کی بے عدالتی پر اس کو ڈانٹا اور مصلح کہنے کی بجائے ا س کوفاسد کہا۔
ائمہ اطہار (علیہم السلام) نے اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا کسی بھی زمانہ میں کسی بھی صورت حال میں ۔ ائمہ (علیہم السلام) کے ان ہی اصولوں میں مظلوم عوام کی حمایت تھی اور ان کی مدد کر نا تھی کبھی راتوں کو روٹیوں کی بوری کمر پر رکھ کر کبھی اندھے اور بوڑھے شخص کو کھانا کھلا کر ، کبھی جنگ کر کے اور کبھی درس و بحث کی محفلوں میں بیٹھ کر ، اس اصول کی حفاظت تمام ائمہ اطہار (علیہم السلام) نے اپنے حالات کے مطابق کی ۔ امام رضاعليهالسلام
نے بھی گو کہ سیاسی صورتحال سے اس قدر مضبوط نہ تھے مگر اس کے با وجود بھی کس قاطعیت اور یقین کے ساتھ آپعليهالسلام
نے ظالم حکمرانوں کے سامنے مظلوم مسلمانوں کی حمایت کی۔
ایک دفعہ ایک زاہد اور متقی شخص نے چوری کی اور وہ پکڑا گیا جب اس کو مامون کے دربار میں لایا گیا تو اس نے مامون سے بحث مباحثہ شروع کر دیا بحث نے طول پکڑایہاں تک کہ آخر میں مامون نے امامعليهالسلام
سے رائے معلوم کی امامعليهالسلام
نے کمال صراحت کے ساتھ مامون کے جواب میں فرمایا کہ:
"خدا نے حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے کہا کہ "فللّٰہ الحجة البالغہ" "خدا کے لئے دلیل قاطع ہے(سورہء انعام : ۱۴۹) اور یہ حجت وہی ہے کہ جاہل اپنے جہل کے باوجود اس کو سمجھ لیتا ہے اور عالم اپنے علم کے ذریعے سے اس تک پہنچتا ہے اور دنیا اور آخرت حجت اور دلیل کی بناء پر ہے اور یہ مرد اس کے پاس بھی دلیل ہے"
یہ سننا تھا کہ مامون غصہ میں آگیا لیکن کیونکہ دربار میں تھا اس لئے اس زاہد کو رہا کر دیا اور لوگوں سے کنارہ گیری اختیار کر لی اور امام رضاعليهالسلام
سے بھی ملاقاتیں بند کر دیں یہی سبب تھا کہ اس نے امام رضاعليهالسلام
کو شہید کر وا دیا اس کے علاوہ امامعليهالسلام
کے بہت سے اصحاب کو بھی شہید کر دیا۔ (عیون اخبار الرضا جلد ۲ صفحہ ۲۳۷ ، ۲۳۸)
ائمہ اطہار (علیہم السلام)کی عملی زندگی کو اگر ہم دقت کی نظر سے دیکھیں یا کم از کم دیکھ ہی لیں تو پھر ہمارے لئے یہ سوال باقی نہ رہے کہ ہم کس شخصیت کو اپنے لئے معیار بنائیں کس روش کو اپنائیں کس تنظیم کو اختیار کریں ہمارے لئے راستہ روشن ہے صرف اس بات کی دیر ہے کہ ہم اس پر اپنی عملی زندگی میں عمل کریں ۔ اور سیرت ائمہ (علیہم السلام) کو یہ کہہ کر نہ چھوڑ دیں کہ ہم تو اس قابل نہیں اور یہ عمل تو فقط ائمہ (علیہم السلام)ہی انجام دے سکتے تھے اگر ہم یہ سوچ کر ائمہ (علیہم السلام) کی زندگی کو چھوڑ دیں تو میرے خیال میں یہ سب سے بڑا ظلم ہو گا جو کہ ہم ان کے حق میں کریں گے۔