ائمہ علیھم السلام اور سیاست

ائمہ علیھم السلام اور سیاست0%

ائمہ علیھم السلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

ائمہ علیھم السلام اور سیاست

مؤلف: سید افتخار عابد نقوی
زمرہ جات:

مشاہدے: 5878
ڈاؤنلوڈ: 3308

تبصرے:

ائمہ علیھم السلام اور سیاست
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5878 / ڈاؤنلوڈ: 3308
سائز سائز سائز
ائمہ علیھم السلام اور سیاست

ائمہ علیھم السلام اور سیاست

مؤلف:
اردو

امر بالمعروف ونہی عن المنکر۱

ہجرت کا نواں سال تھاحضرت پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اطلاع ملی کہ روم کے لشکر نے جس کی تعداد ۴۰ ہزار تھی مدینہ سے ۶۱۰ کلومیٹر دور تبوک کے مقام پر پڑاو ڈالا ہوا ہے اور مسلمانوں پر حملہ کی تیاری میں مصروف ہے۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے جنگ کی تیاری کیلئے فوجی بھرتی کا اعلان کردیا مدینہ میں رہنے والے مسلمانوں نے بڑے جوش وخروش کے ساتھ جنگ کی تیاری شروع کر دی لیکن ان افراد میں سے تین ایسے بھی افراد تھے جنہوں نے ان تمام تیاریوں سے اپنے آپ کو الگ رکھا اور پھر بعد میں جنگ کے لئے بھی نہیں گئے۔ یہ تین افراد کعب ابن مالک، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ تھے البتہ یہ لوگ منافق یا مخالف اسلام نہیں تھے بلکہ انہوں نے اس معاملے میں سستی سے کام لیا بے توجہی دکھائی۔

لشکراسلام نے جنگ کے لئے تبوک کی طرف کوچ کیا دشمن کو جب اسکی اطلاع ملی تو دشمن نے اپنی فوجوں کو واپس بلا لیا اس طرح سے اسلامی فوج پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قیادت میں جنگ کئے بغیر واپس آگئی۔

وہ تین افراد مدینہ میں پیغمبر کی خدمت میں حاضرہوئے اور ان سے جنگ میں شرکت نہ کرنے پر معذر ت چاہی پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا حتیٰ کہ ایک جملہ تک نہیں کہا اور مسلمانوں کو بھی حکم دیا کہ کوئی بھی ان سے بات نہ کرے ان تین افراد کا سوشل بائیکاٹ شروع ہوگیا یہاں تک کہ ان کے گھرو الوں نے بھی ان سے بات کرنا چھوڑدی اس سوشل بائیکاٹ کا اس قدر دباو تھا کہ قرآن اس سلسلے میں فرماتا ہے۔

( حَتّٰی اِذَا اَضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضَ بِمَا رَحُبَتْ )

زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی۔

(سورةتوبہ آیت ۱۱۸)

جب انہوں نے مسلمانوں کی یہ حالت دیکھی توسمجھ گئے کہ اب خدا کے علاوہ کوئی ہمارا حامی نہیں اور کوئی ہماری سننے والا نہیں ہے یہ سمجھ کر انہوں نے ایک دوسرے سے بھی رابطہ منقطع کرلیا اور بیابانوں کی طرف نکل گئے اور راز ونیاز اور استغفار میں مشغول ہوگئے۔ ۵۰ دن تک توبہ میں مشغول رہنے کے بعد خدا نے ان کی توبہ قبول کی اور سورہ توبہ کی ۱۱۸ نمبر آیت پیغمبر پرنازل ہوئی

( وَّ عَلَی الثَّلااَاثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْاط حَتّٰیآا اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوْآ اَنْ لَّامَلْجَاَ مِنَ اللهِ اِلَّاآ اِلَیْهِط ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوْبُوْاط اِنَّ اللهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ )

"اور ان تینوں پربھی فضل کیا جو (جہاد) میں پیچھے رہ گئے تھے (اور ان پر سحتی کی گئی) یہاں تک کے زمین باجود اس وسعت کے ان پر تنگ ہوگئی اور ان کی جانیں (تک) ان پر تنگ ہوگئیں اور ان لوگوں نے سمجھ لیا کہ خدا کے سوا اورکہیں پناہ کی جگہ نہیں۔ پھرخدا نے ان کو توفیق دی تاکہ وہ خدا کی طرف رجوع کریں بے شک خدا بڑاتوبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔"

یہ سزا ہے ایسے افراد کی جوکہ مسلمانوں کے امور میں بے توجہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

اس واقعہ کو نظر میں رکھتے ہوئے ہم ائمہ کی زندگی میں موجود ایک اورمشترک اصول کی طرف اشارہ کریں گے اور وہ ہے "امر با المعروف و نهی عن المنکر "

ائمہ اطہار(علیہم السلام)زندگی کے مختلف شعبوں میں لوگوں کو برائیوں سے روکتے تھے اور ان کے پھیلاؤ کے مقابلے میں رکاوٹ بنتے تھے۔ ائمہ (علیہم السلام) کی عملی زندگی میں بحث کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ مقدمہ کے طورپر ایک بحث کو بیان کیا جائے۔

جنگ،جنگ کا لفظ سنتے ہی آپ کا ذہن سرحدوں پر ہو نے والی جنگ کی طرف جائے گا جس میں ٹینک اور توپوں کا آزادانہ استعمال ہوتاہے لیکن جب دشمن اپنے حریف کو پوری طرح زیر کرنا چاہتا ہو اور اس کو اپنا غلام بناناچاہتاہو تو پھر وہ تین طرح کی جنگیں تین مختلف محاذوں پر پے در پے شروع کرتاہے ۔

۱ ۔سیاسی جنگ ۲ ۔فوجی جنگ

۳ ۔ثقافتی جنگ۔

۱ ۔سیاسی جنگ

اس کے اندر دشمن کچھ پست فطرت یا نادان افراد کو مختلف چیزوں کا لالچ دے کر اپنا آلہ کار بنالیتاہے یہ افراد ظاہراً تو وطن پرست ہوتے ہیں لیکن باطن میں دشمن کے ساتھ ملے ہوتے ہیں یا پھر ایسے کام کرتے ہیں جو کہ دشمن کے فائدہ کے ہوتے ہیں ۔ان کا سب سے بڑا مقصد سیاسی بد امنی پھیلانا ہوتاہے یہ افرادمختلف عناوین سے معصوم لوگوں کو اپنے گرد جمع کرلیتے ہیں اور ان کو اپنے ناپاک عزائم پورے کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں البتہ ان کی پہچان بڑ ی مشکل ہوتی ہے۔

۲ ۔فوجی جنگ

اس جنگ میں دشمن اپنی تمام قوت کے ساتھ اپنے حریف کے مد مقابل ہوتا ہے اور کسی بھی چالاکی سے گریز نہیں کرتا۔ اس کی کوشش فقط یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح بھی مد مقابل کو زیر کرلیا جائے ۔اس جنگ میں کامیابی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ مورد حملہ قرار پانے والی قوم سختیوں کو برداشت کرے اور اتحاد اور ایمان کے ساتھ مد مقابل دشمن کا سامنا کرے۔

۳ ۔ثقافتی جنگ

یہ سب سے خطرناک جنگ ہے ۔فوجی جنگ کے مقابلے میں اس میں کسی قسم کا کوئی شور اور ولولہ دشمن کی طرف سے نہیں پایا جاتا اور دشمن نہایت اطمینان اور خاموشی کے ساتھ یہ کوشش کرتاہے کہ مد مقابل کے عوام کی فکر و سوچ کو ثقافتی حربوں سے مورد حملہ قرار دے اور اس کی سوچوں کو منحرف اور بے اساس بنادے۔

دشمن کی ثقافتی یلغار ایک شب خون کی طرح ہے اور ثقافتی قتل و غارتگری ہے جوکہ انسان کو اندر سے خالی کردیتی ہے وہ شخص جوکہ ثقافتی جنگ میں مغلوب ہوجائے وہ جسمانی طورپر زخمی نہیں ہے لیکن اس کی فکر اور سوچ مجروح و آلودہ ہے ۔ظاہری طور پر وہ دشمن کا اسیر نہیں ہے لیکن اندر سے جھوٹی اقدار وغیرہ کا اسیر ہے ۔ جنگ قیدی اپنی دلیری اور شجاعت کی وجہ سے قوم کیلئے مایہ افتخار ہیں جبکہ ثقافتی قیدی قوم کی شرمندگی کا سبب ہیں۔

جس طرح سے فوجی جنگ میں دشمن کے خلاف ہر ایک فرد کا حرکت میں آنا ضروری ہے اسی طرح سے ثقافتی جنگ میں بھی قوم کے ہر فرد کا حرکت میں آنا ضروری ہے اور اس موقعہ پر بے توجہی کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ہے۔البتہ بعض افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ فقط امام جماعت ، امام کعبہ یا علماء کا فریضہ ہے کہ وہ اس کے خلاف جہاد کریں یہ اسلام کے نقطہ نظر کے بالکل الٹ سوچ ہے اور تمام لوگوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ زبانی ،عملی اور قلبی طور پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو انجام دیں ۔مختلف مناسب اور معقول طریقوں سے اس تباہی اور بربادی کے خلاف اٹھیں اوراس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک دشمن کی نابودی کا یقین حاصل نہ ہوجائے۔

قرآن اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر

قرآن میں امر بالمعروف و نہی ازمنکر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ۱۰ سے زائد مقامات پر اس کا تذکرہ کیا گیا ہے اور خداوند کریم کی ذات سے لے کر ایک ایک فرد کوذمہ دار بنایاگیا ہے۔

"( وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُوٴْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍلازموقف یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللهَ وَ رَسُوْلَهط اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُهُمُ اللهُ اِنَّ اللهَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ) "

(سورئہ توبہ : آیت ۷۱)

مومنین اور مومنات ایک دوسرے کے ولی (دوست)ہیں ایک دوسرے کو امربالمعروف ونہی ازمنکر کرتے ہیں اور نماز پڑھا کرتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں ،خدا اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں خدا بہت جلد اپنی رحمت ان پر نازل فرمائے گا خداوند عزیز و حکیم ہے۔

قرآن میں سب سے پہلے خود ذات خداوند کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

( اِنَّ اللّٰهَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَیَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ ) "

خدا عدل اور احسان کا حکم دیتاہے اور فحش اور ظلم و ستم سے منع کرتاہے۔

(سورئہ نحل :آیت ۹۰)

انبیاء(علیہم السلام) کے فریضہ کے بارے میں انکے اوصاف گنواتے ہوئے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو ان کی صفات میں شمارکیاہے۔ارشاد ہوا:

"( یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ ) "

(سورئہ اعراف:آیت ۱۵۷)

صالح حکمران یعنی ائمہ اور معاشرے کے ذمہ دار افراد کیلئے قرآن کا بیان کچھ یوں ہے:

"( اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ ٰاتَوُا الزَّکٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ ) "سورئہ حج :آیت ۴۱

"خدا کے دوست وہ لوگ ہیں کہ جب بھی زمین پر ان کو قدرت دی جائے تو وہ نماز قائم کریں گے زکوٰة ادا کریں گے امربالمعروف ونہی عن المنکر کریں گے اور تمام کاموں کا اختتام خدا کے ہاتھ میں ہے"۔

مومنین کے وہ گروہ جو کہ اس امر کو انجام دیں قرآن میں اس کا بیان یہ ہے:

"( وَ لااَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَهُمُ الْبَیِّنٰتُط وَ اُولٰٓئِکَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ) "

(سورہ آل عمران : آیت ۱۰۴)

"تمہارے درمیان ایک گروہ ہوناچاہئے جوکہ نیک کاموں کی دعوت دے اور امر بالمعروف ونہی ازمنکر کرے اور یہی فلاح پائے ہوئے ہیں"۔

تمام کی تمام امت پر اس کام کو انجام دینا ضروری ہے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:

"( کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ ) "

(سورہ آل عمران : آیت ۱۱۰)

"تم سب سے بہتر قوم کی حیثیت رکھتے ہو جو کہ لوگوں کے لئے آئی ہے کیوں کہ تم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کر تے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو"

ہر صالح فرد ہر مومن شخص ہر نیک آدمی کے لئے امر بالمعروف نہی عن المنکر کرنا ضروری ہے۔

قرآن میں دوجگہ پر ایسے مومن افراد کا ذکر ہوا ہے ایک مومن آل فرعون اور ایک مومن آل یٰسین جس کا تذکرہ قرآن یوں کر تا ہے:

"( وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌصلیقا مِّنْ ٰالِ فِرْعَوْنَ یَکْتُمُ اِیْمَانَهٓ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلااًا اَنْ یَّّقُوْلَ رَبِّیَ اللهُ وَ قَدْ جَآئَکُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّکُمْ ) " (سورہ مومن : آیت ۲۸)

"وہ خاندان آل فرعون کا مومن مر د جس نے اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھا اور اپنی قوم سے کہا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اس کو قتل کر و جس نے یہ کہا کہ میرا رب اللہ ہے جب کہ اس کے لئے وہ اپنے ساتھ محکم اور واضح دلیلیں تمہارے پر ور دگار کی طرف سے لایا ہے۔ "

"( وَ جَآءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَةِ رَجُلٌ یَّسْعٰی قَالَ ٰیقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِیْنَ ) " ( سورة یٰسین آیت ۲۰)

"مومن شخص دور سے آیا اور کہا کہ اے میری قوم کے لوگوں خدا کے بھیجے ہوئے افراد کی پیروی کرو"۔

ان تمام آیات سے جو کہ اوپر بیان کی گئیں یہ بات واضح طور سے سامنے آجاتی ہے کہ اسلام کی نظر میں یہ دو فریضے اہمیت کے حامل ہیں اور تمام افراد، چاہے وہ انبیاء ہوں، چاہے صالح حکمران ہو ں ، چاہے مومنین کے گروہ اور چاہے تنہا ایک شخص ہی کیوں نہ ہو سب کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس فریضہ کو ترک نہ کریں اور کسی بھی لمحہ بے تو جہی کا اظہار نہ کریں ۔

آخر میں رسول گرامی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ایک حدیث نقل کر تا چلوں آپ فرماتے ہیں:

"خدا کسی امت کے تمام افراد کو ایک خاص گروہ کے گناہوں کی وجہ سے عذاب میں مبتلا نہیں کر تا مگر اس وقت جب تک لوگ اپنے درمیان منکرات کو دیکھیں اور نہی عن المنکر پر قدرت رکھتے ہوں مگر نہی عن المنکر نہ کریں تو خدا وند عام و خاص تمام لوگوں پر عذاب نازل کر تا ہے"۔ (تفسیر المنار ، جلد ۹ ، صفحہ ۶۳۸)

یہاں پر یہ کہنا ضروری ہے کہ عذاب سے مراد فقط دنیا کا عذاب یا آخرت کا عذاب نہیں ہے بلکہ اجتماعی، سیاسی ، اخلاقی اور اقتصادی عذاب بھی اس میں شامل ہیں

امربالمعروف ونہی ازمنکر ائمہ (علیہم السلام) کی زندگی میں

ائمہ اطہار(علیہم السلام)نے جب کوئی تحریک شروع کی تو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لئے تھی ۔ اگر حکومت وقت سے جنگ کر نے کی قدرت تھی یا منکرات اس قدر بڑھ گئے تھے کہ قیام ضروری ہو گیا تھا تو ہمیں کر بلا کی وہ نہ بھولنے والی تحریک یاد آتی ہے جس کا مقصد خود امام حسینعليه‌السلام کچھ یوں بیان فرماتے ہیں:

"میں نے ہوس اور جاہ طلبی کے لئے قیام نہیں کیا ہے میرا خروج اور قیام اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے ہے میں چاہتا کے نیکی کی دعوت دوں اور برائیوں سے روکوں"۔

(نفس المہوم۔ صفحہ ۴۵)

اور اگر قیام نہ کر سکے تو قول اور عمل سے یہ جہاد انجام دیا اور جابر سے جابر حکمرانوں کے سامنے حق گوئی کو ترک نہ کیا۔

شقرانی رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے آزادکر دہ غلام کا بیٹا تھا اسی وجہ سے خاندان نبوت سے آشنائی بھی تھی لیکن اس کے با وجود شراب پیتا تھا وہ خود نقل کر تا ہے کہ: ایک دفعہ منصور دوانیقی لوگوں میں تحفے تقسیم کر رہا تھا لوگوں کا ہجوم لگ گیامیں کسی کو نہیں پہچانتا تھا جس کے ذریعے سے یہ تحفہ حاصل کر تا ۔ دیکھا کہ امام صادقعليه‌السلام وہاں سے گزر رہے ہیں میں نے اپنی حاجت ان سے بیان کی امامعليه‌السلام نے اس کو قبول کر لیا اور آگے جا کر میرے لئے تحفہ لے لیا اور مجھ کو تحفہ دیتے ہوئے فرمایا:

"اے شقرانی نیکی ہر شخص سے ہو اچھی ہے مگر تم سے بہت اچھی کیونکہ تم سے ہماری نسبت ہے اور برائی ہر شخص سے ہو بری ہے لیکن تم سے ہماری نسبت ہے اس لئے بہت بری ہے"۔

انوار البھیہ صفحہ ۲۴۵

ایک دفعہ امام جعفر صادقعليه‌السلام حیرہ کے سفر پر گئے ہوئے تھے (حیرہ کو فہ اور بصرہ کے درمیان ایک شہر ہے )وہاں پر منصور دوانیقی بھی موجود تھا اور اس نے اپنے بیٹے کی ولادت کی خوشی میں جشن کا اہتمام کیا تھا امام صادقعليه‌السلام کو بھی نا گزیر وہاں پر جانا پڑا دسترخوان بچھا یا گیا اور مہمان کھانے میں مشغول ہو گئے اسی دوران کسی نے پانی مانگا تو پانی کے بجائے اس کو شراب پیش کی گئی جیسے ہی شراب کا جام اس کے ہاتھ میں دیا گیا ویسے ہی امام صادقعليه‌السلام اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے اور یہ فرماتے ہوئے جشن کی محفل کو ترک کر دیا کہ رسول خدا کا ارشاد ہے۔

ملعون ہے وہ شخص جو ایسے دسترخوان پر بیٹھے کہ جہاں شراب ہو۔

(فروع کافی جلد ۶ صفحہ ۲۶۸)

لمحہ فکر یہ ہے ہمارے لئے کہ کیا ہم کسی ایسی محفل میں ہوتے جس میں سر عام گناہ انجام پا رہے ہوں تو کیا ہم اس کو ترک کر سکتے ہیں ۔ اگر ہم واقعاً امامعليه‌السلام کے پیرو کار ہیں تو ہمیں یہ کر نا پڑے گا۔

یعقوب سراج کہتے ہیں کہ ایک دفعہ امام صادقعليه‌السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دیکھا کہ گہوارے کے نزدیک اپنے فرزند (موسیٰ کاظمعليه‌السلام ) سے باتیں کر رہے ہیں جب فارغ ہوئے تو میں ان کے نزدیک گیا۔ مجھ سے فرمانے لگے کہ اپنے مولا کے نزدیک جاؤ اور سلام کرو میں گہوار ے کے نزدیک گیا اور سلام کیا موسی بن جعفرعليه‌السلام جو کہ بچے تھے اور گہوارے میں تھے متانت کے ساتھ میرے سلا م کا جواب دیا اور مجھ سے فرمانے لگے کہ جاؤ جو نام کل تم نے اپنی بیٹی کے لئے چنا ہے اس کو تبدیل کردو اور پھر میرے پاس آؤ کیونکہ خدا اس قسم کے ناموں کو پسند نہیں کر تا ۔ امام صادقعليه‌السلام نے مجھ سے فرمایا کہ جاؤ اور اس کے حکم کے مطابق عمل کرو تا کہ ہدایت پاؤ یعقوب سراج کہتے ہیں کہ میں نے بھی فوراً اپنی بیٹی کا نام تبدیل کر دیا۔ (اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۳۱۰)

عام طور پر لوگ اس طرف توجہ نہیں کر تے اور بچوں کے نام رکھتے ہوئے بے احتیاطی سے کام لیتے ہیں جب کہ بچوں کے ناموں کا ان کی شخصیت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ نام کے چناؤ کے وقت اس بات کو ضرور مد نظر رکھیں کہ وہ خدا کو پسند ہو۔

موسی بن بکیر کہتے ہیں کہ حضرت امام موسیٰ کاظمعليه‌السلام کے حضور میں تھا اور کچھ دینار حضرت کے آگے رکھے ہوئے تھے آپعليه‌السلام نے ان میں سے ایک سکہ کو اٹھایا اور دو ٹکڑے کر کے مجھے دیتے ہوئے فرمایا:

"اس جعلی دینار کو کنوئیں میں پھینک دو تاکہ اس سے کوئی معاملہ نہ ہو سکے" (اصول کافی جلد ۵ ، صفحہ ۱۶۰)

امامعليه‌السلام کے پاس حکومت نہیں تھی لیکن پھر بھی امامعليه‌السلام کے لئے یہ بات قابل بر داشت نہ تھی کہ معاشرے میں لوگوں کے ساتھ کسی قسم کی خیانت ہو ۔

حضرت امام رضاعليه‌السلام جب خراسان میں تشریف فرما تھے تو مامون کے حکم سے مختلف فرقوں کے علماء و اکابر مناظرہ کے لئے آتے تھے اور امامعليه‌السلام ان سے بحث و مناظرہ فر ماتے تھے۔ اسی طرح کی ایک نشت میں عمران صابی جو کہ نامور دانشمندوں میں سے تھا امامعليه‌السلام سے توحید کے سلسلے میں سوال و جواب کر رہا تھا ۔ اما معليه‌السلام محکم دلیلوں کے ذریعے سے اس کے نظریات کو رد کر رہے تھے بحث اور مناظرہ اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا نماز کا وقت ہو گیا۔ امامعليه‌السلام نے مامون کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا " اَلصَّلٰوةُ قَدْ حَضَرَتْ "نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ عمران صابی نے کہا:

"اے میرے مولا میرے سوالوں کے جوابات کو منقطع نہ کیجئے ورنہ میرا دل ٹو ٹ جائے گا"

امامعليه‌السلام نے عمران صابی کے اس جملہ کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور فر مایا: نصلی و نعود "نماز پڑھ کر واپس آجاؤں گا۔ "

امامعليه‌السلام اپنے اصحاب کے ساتھ اٹھے اور نماز پڑھنے کے بعد دوبارہ سے بحث کا آغاز کیا۔

جب امام رضاعليه‌السلام کا قیام خراسان میں تھا ، تو کسی دور دراز علاقہ سے شیعوں کا ایک گروہ امامعليه‌السلام کی زیارت کے لئے آیا یہ لوگ کہنے کو تو شیعہ تھے مگر گناہوں میں آلودہ تھے تقریباً ایک مہینہ تک ان لوگوں کا خراسان میں قیام رہا اور ہر روز دو مر تبہ اما م کے گھر زیارت کے لئے جاتے تھے لیکن گھر کا دربان ان کو گھر میں داخل ہو نے کی اجازت نہیں دیتا تھا آخرتھک ہار کر ایک دن انہوں نے دربان کے ذریعے سے امام کے حضور پیغام بھجوایا کہ ہم بہت دور سے آپ کی زیارت کے لئے آئے ہیں اگر آپ سے ملاقات نہ ہوئی تو روسیاہ ہو جائیں گے اور جب وطن واپس پہنچیں گے تو لوگوں کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ہمیں ملاقات کی اجازت دے دیجئے ۔ دربان نے ان لوگوں کا پیغام امامعليه‌السلام کی خدمت میں پہنچادیا۔ امامعليه‌السلام نے ان کو اجازت دی جب انہوں نے امامعليه‌السلام کو دیکھا تو شکایت کی ۔ امامعليه‌السلام نے ان لوگوں کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا کہ یہ جو میں تم لوگوں کو اجازت نہیں دے رہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ تم لوگ یہ دعوی کرتے ہو کہ تم شیعان علیعليه‌السلام میں سے ہو لیکن تم لوگوں کا کہنا غلط ہے۔ علیعليه‌السلام کے شیعہ تو حسنعليه‌السلام و حسینعليه‌السلام سلمان و ابوزر و مقداد و عمار جیسے لوگ تھے تم لوگ یہ دعوی ٰکر تے ہو کہ تم علیعليه‌السلام کے شیعہ ہو لیکن اپنے اکثر کاموں میں تم ان کی مخالفت کر تے ہو۔

یہ سنتے ہی ان افراد کے سر شرم کے مارے جھک گئے اسی وقت امامعليه‌السلام کے سامنے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور امامعليه‌السلام نے بھی ان کو بغل گیر کر لیا۔ (بحار الانوار جلد ۶۸ ، صفحہ ۱۵۸ ، ۱۵۹ سے اقتباس )

امام محمد تقیعليه‌السلام کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا جو بہت خوش نظر آرہا تھا ۔ امامعليه‌السلام نے خوشی کا سبب دریافت کیا اس نے کہا کہ یا بن رسول اللہ میں نے آپ کے والد بزر گوار سے سنا ہے کہ "بہترین دن وہ ہے کہ جب انسان خدا کی طرف سے یہ توفیق حاصل کرے کہ اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ نیکی کر ے اور ان کی مدد کرے اور اس دن ضرور خوش ہو"میں نے آج دس نادار اور بے سہارا افراد جو کہ بال بچوں والے تھے ان کی مالی مدد کی ہے اور آج میں بہت خوش ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ ہاں ضرور خوش ہو لیکن اس شرط کے ساتھ کے اس نیکی کو تباہ و بر باد نہ کرو اس شخص نے کہا کہ کس طرح سے میں اس نیکی کو تباہ کر سکتا ہوں جب کہ میں آپ کے خالص شیعوں میں سے ہوں امامعليه‌السلام نے فرمایا کہ اس آیت کی وجہ سے کہ جس میں ارشاد ہوتا ہے:

"( وَلااَا تَبْطُلُوا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی ) "

"اپنے صدقات کو جتانے اور تکلیف پہنچانے کی وجہ سے بر باد نہ کرو"

اس نے کہا کہ جن افراد پر میں نے احسان کیا نہ ان پر جتایا نہ ان کو کسی قسم کی تکلیف پہنچائی ۔ امامعليه‌السلام نے فرمایا: یہاں پر مراد ہر قسم کی تکلیف ہے نہ فقط ان لوگوں کی جن کی تم نے مدد کی ہے تمہاری نظر میں ان کو تکلیف دینا عذاب کا سبب ہے یا فرشتوں کو جو کہ تمہارے اوپر مامور کئے گئے ہیں؟ یا ہم اھل بیت کو تکلیف پہنچانا؟ اس نے کہا کہ آپعليه‌السلام اہل بیت کو اور ملائکہ کو تکلیف پہنچنا حضرت نے فرمایا کہ تم نے مجھ کو تکلیف پہنچائی ہے اور تمہارا احسان اور نیکی سب بر باد ہو گئی۔ اس نے کہا کہ کیوں اور کس طرح؟

امامعليه‌السلام نے فرمایا: کہ یہی بات جو تم نے کہی کہ میں کس طرح اپنی نیکی کو بر باد کر سکتا ہوں جب کہ آپ کا مخلص شیعہ ہوں۔ امامعليه‌السلام نے پوچھا تم کو پتا ہے کہ ہمارا خالص اور مخلص شیعہ کون ہے؟ اس نے تعجب سے جواب دیا نہیں!

امامعليه‌السلام نے فرمایا:مومن آل فرعون، سلمان، ابوذر، مقداد اور عمار تم نے اپنے آپ کو ان افراد کے برابر سمجھا ہے کیا تم نے اپنی اس بات سے مجھ کو اور فرشتوں کو تکلیف نہیں پہنچائی اس نے کہا کہ: استغفراللّٰہ واتوب الیہ یا بن رسول اللّٰہ " تو پھر میں کیا کہوں؟ امامعليه‌السلام نے فرمایا کہ:

تم کہو کہ "میں آپ کے چاہنے والوں میں سے ہوں آپ کے دوستوں کو دوست اور دشمنوں کو دشمن رکھتا ہوں۔ " اس نے کہا کہ میں یہی کہوں گا اور جو کچھ پہلے کہا اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ کو یا فرشتوں کو تکلیف دوں اور میں نے توبہ کی ۔ حضرت نے فرمایا کہ ہاں اب تمہاری وہ نیکیاں جو بر باد ہو گئیں تھیں تم کو واپس مل گئیں ۔

متوکل خلیفہ عباسی کو جاسوسوں نے اطلاع دی کہ امام ہادیعليه‌السلام اسلحہ جمع کر رہے ہیں اور خلیفہ کے خلاف قیام کا ارادہ رکھتے ہیں متوکل نے حکم دیا کہ امامعليه‌السلام کے گھر پر رات میں چھاپہ مارا جائے اور وہ جس حال میں بھی ہوں ان کو میرے پاس لے آؤ۔ جب امامعليه‌السلام کو متوکل کے پاس لائے تو وہ اپنے دوستوں کے ساتھ شراب پینے میں مشغول تھا اس نے کھڑے ہو کر اما معليه‌السلام کا ستقبال کیا اور اپنے برابر میں ان کو بیٹھنے کی جگہ دی اور امامعليه‌السلام کو شراب کا جام پیش کیا۔

اما معليه‌السلام نے فرمایا: ہر گز میرا گوشت و خون شراب سے آلودہ نہیں ہوا ہے تو متوکل نے کہا پھر کوئی شعر سنائیے۔ امامعليه‌السلام نے فرمایا کہ مجھے زیادہ شعر حفظ نہیں ہیں متوکل نے زیادہ اصرار کیا تو امام نے چند شعر سنائے۔

باتواعلی قلل لجبال تحر سهم

غلب الرجال فما اغنتهم القلل

والستنزد بعد عز عن معاقلهم

فادوعا حفرا بئس مانزلوا

ناداهم صارخ من بعد ماقبروا

ابن الاسرته و الیبجاغن الحلل

ابن الوجوه التی کانت منعمة

من عونها تضرب الاستار الکلل

فافصح القبر عنهم حین ساء لهم

تلک الوجوه علیها الدور یقتل

قد طالما اکلوا دهرا وما شربوا

فاصحبوا بعد طول الدهر قد اکلوا

ترجمہ اشعار:

۱ ۔ظالم افراد پہاڑوں کی چوٹیوں پر سوتے ہیں اور اپنے لئے قوی ہیکل دربان اور نگہبان کا انتخاب کر تے ہیں تا کہ وہ ان کے لئے پہرہ دے سکیں لیکن جب موت ان کے پاس آتی ہے تو وہ دربان کچھ نہیں کر سکتے۔

۲ ۔ان کو ان کی پناہ گاہوں سے کھینچ کر نکالا جاتا ہے اور تاریک گڑھوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے ہاں یہ کیسی خراب جگہ ہے۔

۳ ۔اور جب دفن کر دیئے جاتے ہیں تو منادی ندا دیتا ہے کہ ہاں کہاں گئے وہ تخت و تاج اور شاہانہ لباس۔

۴ ۔کہاں گئے وہ چہرے جو ہمیشہ نازو نعمت میں رہتے تھے اور ہمیشہ تاج پہنتے تھے۔

۵ ۔قبر ان کی طرف سے جواب دے گی یہاں ہیں وہ چہرے کہ جن کو کھانے کے لئے کیڑے ایک دوسرے پر دوڑ پڑے ہیں، اور جو کیڑوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں ۔

۶ ۔ایک زمانے تک کھانے پینے میں مشغول رہنے کے بعد اب یہ کیڑے مکوڑوں کی غذا بنے ہوئے ہیں۔

یہ شعر سننے کے بعد تمام افراد رونے لگے اور متوکل نے حکم دیا کہ اس شراب کی بساط کو اٹھا دیں۔ اور امام ہادیعليه‌السلام کو عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا۔

امر بالمعروف اور نہی ازمنکر کا طریقہ

ہر کام کو صحیح انجام دینے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے بارے میں پوری طرح سے آگاہی حاصل ہو تاکہ صحیح نتیجہ تک پہنچا جا سکے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اس کے صحیح راستہ سے اس کو انجام دیں ۔

امر بالمعروف کو نتیجہ تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ دو چیزوں کی پابندی کی جائے۔

۱ ۔ظاہری طریقہ ۲ ۔بنیادی طریقہ

۱ ۔ظاہری طریقہ

یعنی معاشرے کے ظاہری ڈھانچے کو محفوظ رکھا جائے مثلا اگر معاشرے میں لڑکیاں اور خواتین حجاب کی پابندی نہ کریں یا بے حجاب مجمع عام میں آنے لگیں تو نہی عن المنکر کے طور پر ان کو روکا جائے تا کہ معاشرے کی عفت محفوظ رہے ۔ ظاہری طریقے میں ضروری ہے۔

گناہ گار کو سمجھایاجائے اگر اہل منطق ہے تو دلائل کے ساتھ اگر نہیں ہے تو پھر آرام اور پیار سے اس سے یہ بات کی جائے۔

جیسا کہ سورہء نحل کی آیت ۱۲۵ میں لفظ "ھی احسن" استعمال ہوا ہے ۔ ارشاد ہے:

"حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ پرور دگا ر کی طرف دعوت دو اور ان کے ساتھ اچھے طریقہ سے مناظرہ کرو"

حکمت: اشارہ ہے منطق ، دلائل اور عقلی راستوں کی طرف۔

موعظہ:اشارہ ہے محبت کے راستوں کی طرف۔

مجادلہ: اشارہ ہے مناظرہ اور دوستانہ گفتگو کے مختلف طریقوں کی طرف ۔

۲ ۔بنیادی طریقہ

یہ ایک گہرا اور بنیادی راستہ ہے جو کہ انسان کے اندر درست راستہ کی ضمانت فراہم کر تا ہے اس طرح ہے کہ گناہ اور انحراف اس کی زندگی میں اجنبی ہو جاتے ہیں ۔ جیسے صفائی کے مسئلہ میں جو کہ علاج سے پہلے ہے اگر انسان صفائی کا خیال رکھے تو بیمار نہیں ہو گا اور اگر ہو بھی گیا تو صفائی کے دوسرے طریقوں سے جیسے واکسینشن کے ذریعہ سے اس کو دور کر دیا جائے گا۔

اسلام میں صفائی وہ بنیادی راستہ ہے جو کہ انسان کو گناہ اور انحراف سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس راستہ میں چند امور کی پابندی ضروری ہے۔

۱ ۔خاندان کی تربیت

بچوں کی صحیح پر ورش والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گناہ کے نقصانات جسمانی نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں اور اس کے مضر اثرات بھی بہت زیادہ ہیں لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ڈاکٹر کی طرح ہر کسی کو اس کی بیماری کے مطابق نسخہ لکھ کر دیا جائے:

اگر بچپن ہی میں بچے کو واکسی نیٹ کر دیا جائے جیسے جسمی طور پر کیا جاتا ہے تو وہ پھر بڑے ہو کر گناہ نہیں کر ے گا۔

حدیث میں آیا ہے:

"ہر بچہ فطرت (اسلامی) پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں خدا رحمت کرے ان والدین پر جو اپنے بچوں کو صحیح راستے تک مدد کرتے ہیں"

(فرع کافی جلد ۶ صفحہ ۴۸)

حضرت امیرا لمومنینعليه‌السلام ارشاد فر ماتے ہیں:

"فرزند کا حق والدین پر یہ ہے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھیں ، ادب سکھائیں اورقرآن کی تعلیم دیں۔

(نہج البلاغہ حکمت ۳۹۹)

۲ ۔اچھی اور بری چیزوں کی پہچان

یعنی انسان پاک اور ناپاک آدمیوں کی شناخت رکھتا ہو اور اپنی روح کی سلامتی کے لئے ناپاک انسانوں سے رابط منقطع کر دے۔

رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرماتے ہیں:

"انسان اپنے دوست اور ہم نشین کے دین پر ہوتا ہے"

(اصول کانی جلد ۲ صفحہ ۳۷۵)

حضرت امام محمد تقی جو ادعليه‌السلام کا فرمان ہے:

"بدکار شخص سے دوستی مت کرو کیونکہ وہ اس تلوار کی مانند ہے جس کا ظاہر خوبصورت ہے اور باطن برا ہوتا ہے "

(بحار جلد ۷۳ صفحہ ۱۹۵ )

اقسام امر بالمعروف و نہی عن المنکر

اور انہیں سے وہ لوگ کہ جو نہ زبان سے ، نہ دل سے اور نہ ہاتھ سے (نہی عن المنکر نہیں کر تے ہیں) وہ حقیقت میں مردہ ہیں اور زندوں کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں !"

(نہج البلاغہ حکمت ۲۷۴ )

کمترین مرحلہ قلبی یہ ہے کہ دل میں نیک آدمی سے محبت کر ے اور برے آدمی سے نفرت۔ جب اچھے آدمی سے ملے تو خوشی کے ساتھ اور برے آدمی ملے تو غصہ اور ناراضگی کی حالت میں ۔

اگر قلبی طور پر ظاہر نہ ہو تو پھر زبان کی باری ہے ۔ اور زبان کے تین مر حلے ہیں۔

۱ ۔حکمت دلائل ۲ ۔ نصیحت ۳ ۔مجادلہ

اگر زبانی طور پر اثر نہ ہو تو پھر عمل کی باری ہے جس کے مختلف مراتب ہیں کتاب چھپوانا، مقالہ نویسی، مدارس کا قیام، مراکز تربیتی ، دینی محافل دینی اور تبلیغ کے مراکز قائم کر نا اور برائی وگناہ کے ٹھکانوں کو ختم کر نا۔

اس امید کے ساتھ کہ ان واقعات کو پڑھ کر عام نوجوان یہ سوچ پیدا کریں کہ یہ تمام سیرت کے لائق تقلید ہیں یہ درست ہے کہ ہم رسول گرامی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرح صادق وامین کی صفات پیدا نہیں کر سکتے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کہ ہم خیانت اور جھوٹ کو عام کرنا شروع کر دیں۔

ہمیں یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ ائمہ (علیہم السلام) کی زندگی قابل تقلید ہے اگر ایسا نہ ہو تو فلسفہ امامت بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیرت ائمہ (علیہم السلام) پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرمائے