صبر
فرزند! تین باتوں کا خیال رکھنا۔ مصیبت پر صبر، نعمت پر شکر، قضائے الٰہی پر رضا۔ یہ تینوں باتیں کشائش احوال کا بہترین سبب ہیں اور اہل ایمان نے انھیں کے ذریعہ دنیا و آخرت کے بلندترین درجات حاصل کئے ہیں۔
فرزند! اپنے نفس کو مصائب پر اس طرح خوش رکھنا جیسے نعمتوں پر خوش رہتا ہے۔ اللہ صحت، مرض، عافیت، بلاء، شباب، ضعیفی، قوت، ضعف، غنا، فقر جس حال میں رکھے اس کو پسند کرنا۔ اس لئے کہ اس حالت کو اس نے انتخاب کیا ہے جو تمہارے انجام سے باخبر اور تم سے زیادہ تمہاری ذات سے محبت کرنیوالا ہے۔ وہ تمہیں تمہارے ماں باپ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے اور تم سے زیادہ تمہارے حال پر مہربان ہے۔
فرزند! مصیبت کے موقع پر جزع فزع شکوہ و فریاد نہ کرنا۔ خدائے حکیم کی مرضی پر راضی رہنا۔ مصیبتوں کا اعلان کر کے اس کی شکایت نہ کرنا۔
٭ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ بلاؤں میں شریفوں کی طرح صبر کرو اور مخلوقات سے خدا کی شکایت نہ کرو کہ یہ رحمن و رحیم کی شکایت بے رحموں سے ہے۔
فرزند! تکلیف میں راحت کی طرح، فاقہ میں مالداری کی طرح، بلاؤں میں عافیت کی طرح خوش رہنا۔ معصومین علیہم السلام کا ارشاد ہے کہ بلاء و مصیبت میں صبر سے بہتر اطاعتِ خدا پر صبر ہے اور اس سے زیادہ افضل محرمات سے پر ہیز کی منزل میں صبر ہے۔
مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے بھی مصیبت پر باقاعدہ صبر کر لیا اللہ اس کو تین سو درجات عنایت فرمائےگا کہ حد درجہ کی بلندی زمین و آسمان کے فاصلے سے زیادہ ہوگی اور جس نے اطاعت پر صبر کر لیا اسے چھ سو درجات عنایت کرے گا جن میں سے ہر ایک کی بلندی تحت الثریٰ سے عرش اعظم کے برابر ہوگی اور جس نے معصیت کے مقابلہ میں صبر کرلیا اسے نو سور ۹۰۰! درجات عنایت کرے گا جن میں سے ہر ایک کی بلندی آخر زمین سے آخر عرش تک ہوگی۔
٭ علماء اخلاق نے صبر کے چند مراتب قرار دیئے ہیں:
۱. خواہش کے مطابق صحت، سلامتی، مال، جاہ، کثرت عشیرہ، اسباب زندگی لذات دنیا کی طرف میلان سے صبر، کہ یہ انتہائی ضروری کام ہے اور اس میں غرق ہو جانا ہلاکت کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔
۲. اطاعتِ خدا پر صبر، کہ یہ ایک سخت مرحلہ ہے۔ نفس ذاتی طور پر بندگی سے آزاد اور مالکیت کا طلب گار ہے جیسا کہ بعض علماء نے کہا ہے کہ ہر نفس میں فرعونیت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ فرعون کو سہارا مل گیا تو فرعونیت سامنے آگئی ورنہ اندر اندر ہر شخص اپنے نوکر، اولاد اور خدام کے ساتھ فرعون ہی جیسا برتاؤ کرتا ہے اور ذرا سی تقصیر ہو جائے تو بے حد غیظ و غضب کا مظاہرہ کرتا ہے جو تکبر کی بہترین نشانی ہے۔
فرزند! اطاعت کے معاملہ میں عمل سے پہلے عمل کے ساتھ اور عمل کے بعد ہر مرحلہ پر صبر لازم ہے۔
٭ عمل سے پہلے صبر کرے تاکہ نیت صحیح ہو۔ عمل کے ساتھ صبر کرے تاکہ یادِ خدا سے غافل نہ ہو اور ریاکاری کا جذبہ قریب نہ آنے پائے۔ عمل کے بعد صبر کرے کہ خودپسندی نہ پیدا ہو ورنہ عمل ضائع اور برباد ہو جائے گا۔
۳. گناہوں کا ارتکاب کرنے سے صبر، انسان اپنے خیال میں ہر وقت گناہوں کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ جھوٹ، غیبت، چغل خوری، بہتان اس کی عادت بن چکا ہے اور عادت فطرت کا درجہ پیدا کرلیتی ہے۔ اس کے ساتھ جب خواہش کا اضافہ ہو جاتا ہے تو شیطان کے دو لشکر بیک وقت حملہ آور ہو جاتے ہیں اور گناہوں میں لذت پیدا ہو جائے تو اور بھی قیامت ہے۔
۴. اس موقع پر صبر جو اپنے اختیار میں نہ ہو جیسے کوئی شخص ستائے اور انسان اس کا بدلہ نہ لے۔ اس موقع پر صبر بہت ضروری ہے اور انسان کو چاہئے کہ اپنے معاملہ کو خدا کے حوالے کر دے چاہے انتقام اس کے اختیار میں ہو۔ اس لئے اس طرح روایات اور تجربات دونوں کا اتفاق ہے کہ پروردگار بہترین انتقام لینے والا ہے اور آخرت سے پہلے دنیا میں بھی سزادے دیتا ہے۔
۵. اس کام پر صبر جو ابتدا و انتہا کسی وقت بھی اختیار میں نہ ہو جیسے اعزا و احباب کے فقدان پر صبر یا اموال کی بربادی پر، صحت کی خرابی، اعضاء کے فساد، آنکھوں کی بینائی کے زوال، فقر و فاقہ وغیرہ پر صبر، کہ ان معاملات میں صبر ذرا مشکل ہوتا ہے لیکن اس کا اجر بہت عظیم ہے جیسا کہ پروردگار نے صابرین کے واسطے صلوٰت و رحمت اور ہدایت کا وعدہ کیا ہے۔
فرزند! خدا تمہیں ہر طرح کا صبر عنایت کرے۔ یاد رکھو کہ صبر کی قوت چند باتوں کے لحاظ سے پیدا ہوتی ہے:
۱. انسان صابرین کے اجر و ثواب پر نگاہ رکھے کہ روایات میں صابرین کے واسطے جنت میں جانے کا ذکر ہے۔
٭ صبر کرنے والے کے لئے ہمیشہ روزہ رکھنے والے اور تمام زندگی نماز قائم کرنے والے کا ثواب ہے۔ صابر کو پیغمبر اسلام صلی علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ جہاد میں شہید ہونے کا ثواب ملتا ہے۔
٭ فاقہ پر صبر جہاد کا رتبہ رکھتا ہے اور یہ ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔
٭ جو مومن کسی بلاء پر صبر کرے اسے ہزار شہیدوں کا اجر ملتا ہے۔
۲. ان مراتب پر نگاہ رکھے جو تجربہ کی بنیاد پر صابرین کے لئے مشاہدہ میں آئے ہیں۔
۳. یہ خیال کرے کہ مصیبت چند لمحوں کے بعد ختم ہو جائے گی اور زندگی بہر حال فانی ہے جو ساعت گزر جاتی ہے اس کی راحت و تکلیف دونوں ختم ہو جاتی ہیں آنے والی ساعت کا حال یوں بھی کسی کو نہیں معلوم ہے۔
۴. اس بات پر غور کرے کہ اس آہ و فریاد کا کوئی اثر بھی نہیں ہے۔ مقدر میں جو ہے وہ ہو کر رہے گا۔ صرف نالہ و فریاد سے اجر و ثواب میں کمی ہو سکتی ہے۔ ورنہ قضا و قدر کو کون بدل سکتا ہے۔ بندہ بندہ ہے اس کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔
۵. ان افراد کو یاد کرے جنھوں نے اس سے بڑے بڑے امتحانات دئے ہیں اور بہترین اجر حاصل کیا ہے۔
۶. یہ ملاحظہ کرے کہ امتحان ایک سعادت ہے اور بلاء اہل و لاہی کے لئے ہے بلکہ شدت بلاء مومنین کے لئے قرب الٰہی کی علامت ہے۔
۷. یہ یاد کرے کہ یہ مصیبت خدائے حکیم کی طرف سے ہے اور وہ اپنے بندوں کے لئے خیر ہی چا ہے گا وہ بے نیاز ہے غرض مند نہیں ہے کہ فائدہ اٹھائے۔
۸. یہ یاد کرے کہ یہ تزکیۂ نفس کا بہترین ذریعہ ہے۔
۹. یہ غور کرے کہ نالہ و فریاد سے دوست رنجیدہ ہوتے ہیں اور دشمن خوش حال ہوتا ہے۔
۱۰. یہ دیکھے کہ صبر کا انجام دنیا میں بھی اچھا ہی ہوتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے مصیبت پر صبر کیا تو خدا نے کتنی بڑی عزت عنایت کی کہ اللہ نے انھیں حاکم بنا دیا اور حاکم کو غلام بنا دیا اور ان کے بھائیوں کو ان کی رعایا میں شامل کر دیا۔ زلیخا کو سر راہ لا کر بٹھا دیا۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام کو دوبارہ اموال، ازواج و اولاد عطا کر دی۔ جبکہ راہِ امتحان میں سب کچھ فنا ہو چکا تھا اور ان کے گھر میں سونے کی بارش کر دی۔
اس سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کے مصائب کو یاد کیا جائے کہ ان پر سب سے زیادہ مصیبتیں پڑی ہیں جبکہ وہ سردار خلائق تھے اور انھیں کے لئے دنیا پیدا ہوئی تھی۔
اور خبردار تمہارا صبر عوام جیسا نہ ہو کہ وہ صبر سے زیادہ اظہار صبر کرتے ہیں اور یہ ریاکاری ہے۔ صبر کا طریقہ متقین کا صبر ہے جس میں اجر آخرت کی توقع ہوتی ہے۔ یا عارفین کا صبر ہے جس میں مصیبت پر لطف آتا ہے کہ یہ محبوب کی عطا ہے اور وہ انجام سے زیادہ باخبر ہے۔
فرزند! یہ بھی یاد رکھو کہ صبر منافی گریہ نہیں ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اپنے فرزند ابراہیم کے انتقال پر گریہ کیا اور جب کسی نے ٹوکا کہ ہم سے صبر کے لئے کہتے ہیں اور خود گریہ فرماتے ہیں تو آپ نے ڈانٹ کر فرمایا خبردار! دل میں تپش ضرور پیدا ہوگی اور آنکھوں سے آنسو بہر حال گریں گے۔ یہ ہمارا صبر ہے کہ ہم رضائے خدا کے خلاف کچھ نہیں کہتے۔
فرزند! مصیبت کے وقتاِنَّا لِلّٰ
ه
ِ وَ اِنَّا اِلَی
ه
ِ رَاجِعُون
کہا کرو کہ اس سے صلوات و رحمت کا استحقاق پیدا ہوتا ہے اور انسان ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔
فرزند! امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جب صبر تمام ہوتا ہے تو فرحت نصیب ہوتی ہے اور تجربہ بھی اس کا گواہ ہے کہ ہر تنگی کے ساتھ ایک وسعت ہے۔
فرزند! یہ بھی یاد رکھو کہ صبر بہتیرے اوصاف و اخلاق کامرجع و مصدر ہے۔ حالات کے اعتبار سے اس کے نام الگ الگ ہیں ورنہ سب صبر کی شاخیں ہیں۔ شکم و شرمگاہ کے بارے میں صبر ہو تو اس کا نام عفت ہے۔ مصیبت پر صبر ہو تو اس کا نام صبر ہے جس کے مقابلہ میں جزع و فریاد ہے۔ ترک معصیت پر صبر ہو تو اس کا نام تقویٰ ہے۔ دولت کی برداشت پر ہو تو ضبط نفس ہے جس کی ضدا کڑہے۔ مصائب و حوادثِ دنیا پر ہو تو اس کا نام وسعت صدر ہے جس کی ضد تنگدلی ہے۔ جنگ میں ہو تو اس کا نام شجاعت ہے جس کی ضد بزدلی ہے۔ ضبط غیظ میں ہو تو اس کا نام حلم ہے جس کی ضد سفاہت ہے۔ کلام کے اخفاء میں ہو تو اس کا نام رازداری ہے جس کی ضدا فشاء راز ہے۔ فضول عیش کے مقابلہ میں ہو تو اس کا نام زہد ہے جس کی ضد حرص ہے۔ مختصر حصہ پر ہو تو اسکا نام قناعت ہے جس کی ضد لالچ اور ہوس ہے ۔ ۔ ۔ وغیرہ۔
____________________