آئینۂ اخلاق

آئینۂ اخلاق0%

آئینۂ اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

آئینۂ اخلاق

مؤلف: آیۃ اللہ الشیخ عبد اللہ المامقانی طاب ثراہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 8028
ڈاؤنلوڈ: 3782

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8028 / ڈاؤنلوڈ: 3782
سائز سائز سائز
آئینۂ اخلاق

آئینۂ اخلاق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

كتاب:آئینۂ اخلاق

مصنف: آیۃ اللہ الشیخ عبد اللہ المامقانی طاب ثراہ

عرض مترجم

’’تبلیغات ایمانی‘‘ کے سلسلے کے آغاز کے طور پر ’’یاد شہید صدر طاب ثراہ‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والی مجالس میں بمبئی حاضر ہوا تو حجتہ الاسلام و المسلمین آقائی سید محمد الموسوی دام لطفہ نے اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی جسے میں ایک عرصہ سے محسوس کر رہا تھا لیکن حالات کی مجبوری کی بناپر منزل عمل میں نہ لاسکا تھا۔ اور وہ یہ ہے کہ ہمارے دینی اور دنیوی دونوں طرح کے نظام تعلیم میں اخلاقیات کا تقریباً فقدان ہے اور دو ایک علمی کتابوں کے علاوہ اخلاقی تعلیم اور تربیت نہ ہونے کے برابر ہے جسکے اثرات کا ہر صنف میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور جب علوم دین و دنیا کے طلاب اخلاقی تربیت سے بیگانہ ہو جائیں تو عوام کا کیا کہنا ہے انھیں تو ویساہی ہونا چاہئے جیسے کہ ہیں یا اس سے بھی بدتر ہونا چاہئے۔

اس سلسلہ میں میں نے تنقیدی مضامین بھی لکھے اور اپنے رفقاء کار کی مدد سے تنظیم المکاتب کا ’’اخلاقیات نمبر‘‘ بھی نکالا لیکن حسب توقع اثر ظاہر نہ ہو سکا۔ اور نقش اوّل اتنا موثر ہوتا بھی نہیں ہے۔ اب حضرت موسوی دام لطفہٗ نے اپنے اثرات کو استعمال کرتے ہوئے دو کتابیں رائج کرنے کا ارادہ کیا ہے اور کمال محبت و عنایت سے دونوں کے ترجمہ کا کام حقیر کے حوالے کر دیا ہے۔ حالانکہ ملک میں بڑے بڑے صاحبانِ قلم، اہل علم اور صحیح ادبی ترجمہ کرنے والے موجود ہیں لیکن موصوف کو ’’بے ہنگم‘‘ کام ہی پسند ہے اور میری تو عادت ہی عجلت پسندی کی ہے یہاں تک کہ میرے استاد شہید خامس سرکار محمد باقر الصدر طاب ثراہ فرمایا کرتے تھے کہ میں اردو داں ہوتا اور اردو زبان میں کتاب لکھتا تو اتنی تیزی سے تالیف نہیں کر سکتا تھا جتنی تیزی سے یہ ’’سید‘‘ ترجمہ کرتا ہے۔ یا انھیں کے فیوض و برکات اور شہادت کے روحانی اثرات ہیں کہ دو ۲! دن میں ’’خلاصہ حلیتہ المتقین‘‘ کا ترجمہ کر کے روانہ کردیا اور اب تبلغاتِ ایمانی کے دوسرے دورہ میں حیدرآباد آیا تو چار دن کے مستقل قیام اور عمومی طور پر اہل علم و مال دونوں میں ’’دید و باز دید‘‘ کی ’’فرسودہ روایت‘‘ کے نہ ہونے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’مرآۃ الرشاد‘‘ کا ترجمہ کرکے حاضر کر رہا ہوں۔ عجلت کا کام جیسا ہوتا ہے اور اس کا جو انجام ہوتا ہے وہ اس کتاب میں بھی ہوگا۔ لیکن میری مصروفیت اور کم علمی کا لحاظ کرتے ہوئے آپ حضرات صحت اور ادبی سلاست و لطافت پر توجہ دینے کے بجائے کتاب کے مطالب پر توجہ دیں تاکہ اپنی نسل کی صحیح اخلاقی تربیت کر سکیں اور تعلیمات اسلام کے زیرسایہ زندگی کا دستور العمل مرتب کرسکیں۔

السید ذیشان حیدر جوادی

۳! جمادی الثانیہ ۱۴۰۳ ھ حیدرآباد

فصل اوّل

مختصر اصولِ دین کا تذکرہ

میرے فرزند! خدا تمہیں سیدھے راستے کی ہدایت کرے اور ہر عالم میں گناہ و معصیت و لغزش سے محفوظ رکھے۔ یاد رکھو کہ سب سے پہلا اسلامی فریضہ اصول دین کے بارے میں غور و فکر کرنا ہے کہ دلائل کے ساتھ عقیدے کی بنیاد مضبوط کی جائے اور خالق کائنات، انبیاء اور اولیاء کے بارے میں یقین کو مستحکم بنایا جائے انسان انسان سے پیدا ہوا ہے حیوان نہیں ہے۔

مقصد یہ نہیں ہے کہ انسان سراسر علم و حکمت اور کلام میں مشغول ہو جائے اور مفصل کتابوں کا مطالعہ شروع کر دے۔ اس کام سے تو میں کمال علم و عقل سے پہلے منع بھی کرتا ہوں کہ ان کتابوں میں ایسے شبہات موجود ہیں جو کسی وقت بھی انسان کو ہلاک کر سکتے ہیں اور اسی لئے ائمہ معصومین (ع) نے ان الجھنوں میں پڑنے سے منع کیا ہے بلکہ شدت سے منع کیا ہے۔

میرا مقصد یہ ہے کہ عقائد مجلسیؒ جیسی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے اور عقیدہ کو دلائل کے ذریعہ مضبوط بنایا جائے۔ مثلاً وجودِ خدا کے ثبوت کے لئے کائنات اور اس کے عجائبات کا مطالعہ کیا جائے اور سوچا جائے کہ کوئی اثر موثر کے بغیر نہیں پیدا ہو سکتا جیسا کہ شاعر نے کہا ہے۔

پئے وجودِ خدا کائنات کی ہر شے سکون ہو کہ ہو حرکت عظیم شاہد ہے۔

ہر ایک شے سے نمایاں ہے اسکی شان کمال یہ کائنات ہے آیت کریم واحد ہے۔

(جوادی)

امیر المومنین علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں اسی نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ’’ان انسانوں کا خیال ہے کہ یہ وہ گھاس ہیں جن کا اُگانے والا کوئی نہیں ہے وہ صورت ہیں جن کا مصور کوئی نہیں ہے۔ انھوں نے اپنے دعویٰ کی تحقیق بھی نہیں کی اور کسی دلیل کی جستجو بھی نہیں کی۔ کاش یہ سوچتے کہ کیا بغیر بانی کے کوئی بنا ہو سکتی ہے یا بغیر عامل کے کوئی عمل ہو سکتا ہے؟

اس ارشادِ گرامی سے امام علیہ السلام کا مقصد یہ ہے کہ محسوسات پر قیاس کر کے ایک ایسا طریقہ استدلال رائج کیا جائے جہاں منکر کو مدّعی کی صف میں کھڑا کر کے اس سے ثبوت کا مطالبہ کیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ جب عالم محسوسات میں کوئی شے بغیر موجد کے وجود میں نہیں آسکتی تو عالم کے بارے میں اس کے خلاف دعویٰ کرنے والے کی ذمہ داری ہے کہ اس کا ثبوت پیش کرے اور یہ مناظرہ کا وہ بہترین طریقہ ہے جہاں منکر کو مدعی بنا کر بارِ ثبوت اس کے سر ڈال دیا جاتا ہے اکہ اس کا دعویٰ قانون ارتکاز کے خلاف ہے جیسا کہ اعرابی نے وجودِ خدا کا اندازہ کر لیا کہ میگنی اونٹ کے وجود کی دلیل ہے اور نشان قدم راہرو کے گزرنے کا ثبوت ہیں تو اتنی بڑی کائنات و جودِ خدا کی دلیل کیوں نہ ہوگی۔

یہی طریقۂ استدلال ضعیفہ نے بھی استعمال کیا تھا کہ جب میرے بغیر چرخہ نہیں چلتا ہے تو خالق کے بغیر کائنات کیسے چل سکتی ہے اور یہ فطری اور ارتکازی طریقہ اس قدر مستحسن اور سنجیدہ ہے کہ روایات میں ضعیفہ جیسے ایمان کی تاکید کی گئی ہے اور اسے بہترین طریقۂ استدلال قرار دیا گیا ہے۔

فرزند! خدا تمہیں شرک و نفاق سے محفوظ رکھے۔ توحید پروردگار کی دلیل کے لئے یہ کافی ہے کہ خداؤں کا تعدد عالم کی تباہی کا باعث ہے جیسا کہ پروردگار عالم نے خود فرمایا ہے کہ اگر دو خدا ہوتے تو زمین و آسمان تباہ و برباد ہو جاتے اور امیر الموحدین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ’’اگر خدا کے علاوہ کوئی دوسرا بھی خدا ہوتا تو اس کے بھی پیغمبر اور رسول ہوتے‘‘۔ یہاں بھی امام(ع) نے منکر کو مدعی بنا دیا ہے کہ خدائی بغیر مرسلین کے نہیں ثابت ہو سکتی تو اگر کوئی دوسرے خدا مدعی ہو تو اس کے پیغمبر اور رسول بھی تلاش کرکے لائے۔

دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ دو خدا ہوں گے تو دونوں میں ایک جہت مشترک ہوگی اور ایک جہت امتیاز اور اس طرح دونوں مرکب ہو جائیں گے اور یہ خود ایک نقص ہے جو خدائی کے لئے مضر ہے۔ پھر اگر دونوں میں کوئی بھی خدائی کے لئے کافی نہ ہوگا تو دونوں خدائی سے خارج ہو جائیں گے اور اگر کوئی ایک بھی کافی ہو گا تو دوسرا خدا نہ رہ جائے گا اور اگر دونوں الگ الگ کافی ہوں گے تو اظہار خدائی میں اختلاف پیدا ہوگا اور کوئی چیز عالم وجود میں نہ آسکے گی۔

فرزند! صفاتِ سلبیہ کی نفی کے لئے بہترین ثبوت یہ ہے کہ یہ سب نقائص ہیں اور خدا نقائص سے پاک و پاکیزہ ہے جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’کمال اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفات کی نفی کی جائے کہ صفت موصوف سے الگ ایک شے ہوتی ہے۔‘‘

فرزند! نبوت مطلقہ کے ثبوت کے لئے یہ کافی ہے کہ لطف پروردگار کا فریضہ ہے اور لطف کا تقاضا یہ ہے کہ خالق و مخلوقات کے درمیان ایک واسطہ رہے جو اُدھر کے فیض کو اِدھر پہونچاتا رہے اور اس کے ارشادات کے مطابق خیر و شر، نفع و نقصان کی خبر دیتا رہے اور اس کے اوامر و نواہی کی تبلیغ کرتا رہے اس لئے کہ حقیقی مصالح و مفاسد تک پہونچنا وحی و الہام کے بغیر ممکن نہیں ہے اور وحی و الہام کا مرتبہ خواہشاتِ نفس میں ڈوبے ہوئے انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ وہ مرکز اعلیٰ تک رسائی نہیں حاصل کر سکتا اس کے لئے ایسا نفس درکار ہے جو غفلت کی نیند اور خواہشات کے نشہ میں نہ ہو۔ نفس امارہ کا قیدی اور دار ظلمت میں طالب آرام ہو۔ روحانیات و مجاہدات سے نفس کی تکمیل کرے اور توجہات پروردگار کا مرکز بن کر مر کز وحی و الہام قرار پا جائے۔

یہ بھی یاد رہے کہ وحی و الہام کا اندازہ ہر شخص کے لئے ممکن نہیں ہے اسلئے معجزہ ضروری ہے تاکہ نبوت ثابت ہو سکے اور عبد و معبود کے درمیان خصوصی رابطہ کا اندازہ ہو سکے۔

نبوت خاصہ (نبوت مرسل اعظم(ص)) کے لئے یہ دلیل کافی ہے کہ حضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ہاشمی و قرشی نے مکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے توحید اور نبوت کی دعوت دی ہے اور بے شمار معجزات کا اظہار کیا ہے اور جو ایسا کریگا وہ صاحبِ منصب ہوگا بشرطیکہ ویسے ہی کمالات کا حامل ہو جیسے کمالات سرکارِ دوعالم کو حاصل تھے اس لئے کہ خدا جھوٹے کی تائید نہیں کر سکتا اور اسے معجزہ نہیں دے سکتا۔

آپ(ص) کے معجزات میں قرآن مجید کا وجود کافی ہے کہ اسے قدرت نے آپ(ص) کو عطا فرمایا ہے جبکہ غلط مدعی کے ہاتھ میں معجزہ دینا قبیح اور تائید باطل ہے اور یہ شانِ عدالت پروردگار کے خلاف ہے۔

آپ(ص) کی نبوت سے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی نبوت بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ آپ(ص) نبی تھے اور آپ(ص) نے اس قدر انبیاء کی خبر دی ہے اور نبی غلط بیانی سے کام نہیں لے سکتا۔

قرآن مجید کے معجزہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ آپ(ص) نے قرآن مجید کو پیش کر کے اہلِ زبانِ عرب کے سامنے دو راستے رکھے تھے یا اِس قرآن کا جواب لے آئیں یا آپ(ص) کی نبوت پر ایمان لے آئیں۔ ورنہ پھر جنگ و جدال اور قتال کیلئے آمادہ ہو جائیں۔ جس کے نتیجہ میں ہر طرح کی قید و بند اور ذلت کا سامنا کرنا ہوگا لیکن عرب نے صاحب زبان ہونے کے باوجود سارے مصائب برداشت کئے اور جواب پیش نہیں کیا جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ جواب پیش کرنے سے عاجز تھے ورنہ اس طرح قتل و غارت اور غلامی و اسارت پر راضی نہ ہوتے۔

اور یہ خیال کہ کلام معجزہ نہیں ہوتا۔ ایک خیالِ فاسد ہے۔ معجزہ ہر اس شے کا نام ہے جس کے جواب لانے سے لوگ عاجز رہ جائیں اور اس سے یہ واضح ہو جائے کہ اس شخص کا رب العالمین سے خاص ارتباط ہے۔ معجزہ کے مافوق عادت ہونے کا ثبوت اہل فن کا اقرار ہوتا ہے جس طرح کہ ساحروں نے جناب موسیٰ علیہ السلام کے عصا کے بارے میں اقرار کیا تھا اور فصاحت و بلاغت کے رموز سے آشنا عرب نے قرآنِ مجید کے بارے میں اعتراف کیا ہے اور آیاتِ قرآن کے مقابلہ میں اپنے قصائد دیوار کعبہ سے اُتار لئے ہیں۔

ولایت مطلقہ کے بارے میں وہی تمام دلائل ہیں جو نبوت مطلقہ کے بارے میں بیان ہوئے ہیں اور ولایت خاصہ کے بارے میں وہ اخبار صریحہ دلیل ہیں جن میں پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کا اعلان کیا ہے اور اس کے بعد ان کی گیارہ اولاد کو امام قرار دیا ہے اسکے علاوہ ان حضرات کے کرامات خود بھی ایک دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بغض معاندین کا روایات کے بارے میں اعتراض کرنا ایک ہٹ دھرمی کے علاوہ کچھ نہیں ہے جس کے مکمل جوابات کتابوں میں مندرج ہیں اور یہ مسئلہ اس قدر واضح ہو چکا ہے کہ دشمن بھی دل کے اندر شبہ نہیں پیدا کر سکتا چاہے باہر سے کسی قدر انکار کیوں نہ کرے۔

قیامت کے بارے میں تمام اہل مذاہب کا اتفاق ہے کہ اس کا اقرار کرنا چاہئے اور انکار نہیں کرنا چاہئے اگر چہ بعض حکماء اور متکلمین نے تفصیلات میں شبہات پیدا کئے ہیں لیکن تفصیلات کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان کے لئے اجمالی ایمان کافی ہے جیسا کہ آیات کریمہ اور روایاتِ متواترہ نے بیان کر دیا ہے اور طریقۂ استدلال بھی بتا دیا ہے کہ عادلِ حکیم کو اعمال کے مطابق جزا و سزا دینی چاہئے اور اسی جسم کو دینا چاہئے جس سے اعمال سرزد ہوئے ہیں۔ جسم کا فنا ہو جانا اس کی دوبارہ واپس نہ ہو سکنے کی دلیل نہیں کہ پیدا کرنے والے نے عدم سے وجود دیا ہے تو اب دوبارہ پیدا کرنے میں کیا زحمت ہے جبکہ مادہ باقی ہے چا ہے کسی شکل میں ہو جیسا کہ قرآن مجید نے ارشاد کیا ہے کہ ’’جیسے پیدا کیا ہے ویسے ہی دوبارہ ایجاد کریں گے۔‘‘

فصل دوم

دعوتِ اطاعت اور تنبیہ معصیت

فرزند! خدا تمہیں اطاعت کی توفیق دے اور معصیت سے محفوظ رکھے پروردگار اپنی مخلوق سے بے حد محبت کرتا ہے جس طرح کہ ہر صانع کو اپنی صنعت سے پیار ہوتا ہے۔ اس نے واجبات و مستحبات و محرومات و مکروہات کے احکام صرف بندوں کی مصلحت اور انھیں نقصان سے بچانے کے لئے معین کئے ہیں ورنہ اُسے نہ کسی کی اطاعت سے کوئی فائدہ ہے اور نہ کسی کی معصیت سے کوئی نقصان ہے۔ وہ غنی مطلق اور بے نیاز ہے۔ اس کا مقصد بندوں کے حالات کی اصلاح کرنا اور انھیں فائدہ پہونچانا ہے۔ اس کے احکام کی نافرمانی کرنا شکرِ منعم اور اطاعتِ مولا کی خلاف ورزی کے علاوہ سفاہت اور حماقت بھی ہے اس لئے کہ یہ اپنے فائدہ کی مخالفت ہے اور اپنے کو نقصان کے حوالے کرنا ہے۔

فرزند! معصیت سے بچو کہ یہ دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب کا باعث ہے۔ آدم کو ایک ترک اولیٰ پر جنت چھوڑنا پڑی ہے تو تمہاری کیا حقیقت ہے۔

فرزند! خبردار سُستی اور بیکاری سے کام نہ لینا کہ شیطان اور نفسِ امارہ جب برائیوں کو آراستہ کرنے اور اچھائیوں کو بدنام کرنے سے عاجز ہو جاتے ہیں تو انسان میں سُستی پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ انسان نیک اعمال نہ کر سکے یاد رکھو کہ کھانے، پینے، سونے، مال جمع کرنے، تفریح کرنے، باہمی اجتماعات اور میٹنگ کرنے میں اتنا وقت صرف نہ کرو کہ اصل عبادت میں سُستی پیدا ہو جائے بلکہ ہر امر دنیا میں صرف مقدار ضرورت پر اکتفا کرو۔

خبردار! بے معنی اور غیر مفید کاموں میں عمر صرف نہ کرنا۔ تمہاری زندگی کا ہر لمحہ ایک قیمتی جوہر ہے بلکہ جوہر سے زیادہ باارزش ہے کہ جو ہر دولت صرف کرنے سے حاصل ہو جاتا ہے اور عمر دوبارہ واپس نہیں آتی۔ خبردار اسکا ایک لمحہ بھی بیکار ضائع نہ ہونے پائے۔

فرزند! ’’شباب کو ضعیفی آنے سے پہلے صحت کو مرض سے پہلے، فرصت کو مشغولیت سے پہلے، قوت کو ضعف سے پہلے اور حیات کو موت سے پہلے غنیمت سمجھو۔‘‘( ۱ )

روایات کا مضمون ہے کہ اہل جنت کو صرف ان لمحات پر افسوس ہوگا جو زندگی میں ذکر خدا کے بغیر گزر گئے ہیں کہ وہ لمحہ بھی یادِ خدا میں گذر کیا ہوتا تو درجات میں اور بھی اضافہ ہو جاتا۔

ہر نفسِ نیک و بد روزِ قیامت اپنے کو اس بات پر ملامت کرے گا کہ کاش کچھ اور اعمالِ خیر کر لئے ہوتے تو درجات میں اور بھی اضافہ ہو جاتا یا جو برائی کی ہے وہ نہ کی ہوتی تو عذاب سے محفوظ رہ جاتے۔

مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے حضرت ابوذر کو وصیت فرمائی کہ اپنی عمر کے خرچ کرنے میں درہم و دینار سے زیادہ بخل کرنا۔( ۲ )

بعض روایات میں ہے کہ ’’اوقات کا محفوظ رکھنا بہترین اطاعت ہے اور جو شخص بھی زراعت کے وقت کو ضائع کریگا وہ نتیجہ کے وقت شرمندہ ہوگا۔

( ۳ ) فرزند! خدا کے لئے اپنی زندگی کو بچاؤ اور ایسے کام میں ضائع نہ کرو جو مرنے کے بعد کام نہ آئے۔ عاقل وہی ہے جو آج، کل کے لئے کام کرے اور وقت کو ہاتھ سے جانے نہ دے۔ ہوشیار وہی ہے جو موت کے بعد کے لئے کام کرے اور احمق وہی ہے جو خواہشات کی پیروی کر کے پھر مغفرت کی تمنا کرے۔( ۴ )

زندگی کو بیکار باتوں میں صرف کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اپنے جواہرات کو سڑک پر پھینک دے پھر پتھر کھودنے لگے (بچوں کے کھیلنے کے لئے) ظاہر ہے کہ یہ کام انتہائی احمقانہ ہے۔

فرزند! نور نظر! لخت جگر! اپنی زندگی کی قدر پہچانو اور اسے نجات دہندہ اعمال کے علاوہ دوسرے اعمال میں ضائع نہ کرو۔ ریشم کا کیڑا نہ بنو جو اپنی ہی ہلاکت کے لئے سعی کرتا ہے۔ اس کے بعد بہترین اوصاف و بلند ترین اخلاق کو اختیار کرو۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

____________________

[۱] ارشادات مرسل اعظم۔ مجموعہ ورام، ص ۲۷۹

[۲] مجموعہ ورام، ۲، ص۵۲

[۳] البلاغہ

[۴] مجموعہ ورام ص ۱۶

زبان کی حفاظت

زبان کو بے معنی باتوں سے محفوظ رکھو کہ فرزند آدم کی خطاؤں کا زیادہ حصہ زبان ہی سے متعلق ہے اور زبان سے زیادہ کسی عضو کے گناہ نہیں ہیں۔( ۱ )

٭ خاموشی حکمت کے ابواب میں سے ایک دروازہ ہے۔( ۲ )

٭ اپنی زبان کو ہمیشہ محفوظ رکھو اور صرف وہ بات کرو جو جنت تک پہنچا سکے۔

٭ بندۂ مومن جب تک خاموش رہتا ہے اسکا شمار نیک کرداروں میں ہوتا ہے۔

٭ جو شخص دنیا و آخرت کی سلامتی چاہتا ہے اسے چاہئے کہ خاموش رہے۔

٭ انسان منھ کے بل جہنم میں صرف اپنی زبان کی وجہ سے پھینکا جاتا ہے۔

٭ پروردگار جب کسی بندے کو نیکی دینا چاہتا ہے تو اس کی زبان محفوظ بنانے میں اس کی مدد کرتا ہے اور اسے دوسروں کے عیوب کے بجائے اپنے جائزہ میں مصروف کردیتا ہے جس کا کلام کم ہوتا ہے اس کی عقل کامل اور قلب صاف ہوتا ہے اور جسکا کلام زیادہ ہوتا ہے اس کی عقل کم اور دل سخت ہوتا ہے۔

٭ انسان کا ایمان اس وقت درست ہوتا ہے جب دل درست ہوتا ہے اور دل اسی وقت درست ہوتا ہے جب زبان درست ہوتی ہے۔( ۳ )

٭ مومن کی زبان کو دل کے پیچھے رہنا چاہئے کہ پہلے فکر کرے پھر مناسب ہو تو کلام کرے ورنہ خاموش رہے۔ منافق کا معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے وہ صرف بکتا رہتا ہے اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ کیا کہہ رہا ہے۔( ۴ )

٭ خاموشی سے شرمندگی نہیں ہوتی لیکن کلام بعض اوقات دنیا اور آخرت دونوں میں شرمندہ بنا دیتا ہے۔( ۵ )

٭ انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا رہتا ہے۔( ۶ )

بیٹا! پہلے تولو پھر بولو۔ بات کو عقل و معرفت کے پیمانہ پر پرکھو برائے خدا ہو تو تکلم کرو ورنہ خاموش رہو۔ بالکل خاموش رہو بلکہ گونگے بن جاؤ۔

انسان کے جسم کا ہر عضو زبان سے فریاد کرتا رہتا ہے کہ خدا کے لئے ہمیں جہنم میں نہ ڈال دینا۔

تکلم اور خاموشی کا موازنہ کیا جائے تو تکلم چاندی ہے اور سکوت سونا۔( ۷ )

یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھی کلام سونا بن جاتا ہے اور خاموشی مٹی بن جاتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب کلام فقہ، علم دین، موعظہ و نصیحت، آدابِ شریعت اور اخلاقیات سے متعلق ہو۔ بلکہ ایسے وقت میں سکوت زہر قاتل بن جاتا ہے جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ کر سکوت اختیار کیا جائے۔

____________________

[۱] اصول کانی

[۲] اصول کافی

[۳] مستدرک وسائل

[۴] نہج البلاغہ

[۵] مستدرک وسائل

[۶] نہج البلاغہ

[۷] اصول کافی

تفکّر

فرزند! ہمیشہ غور و فکر سے کام لو کہ یہ نفس کی بیداری اور قلب کی پاکیزگی کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس سے کدورتیں دور ہوتی ہیں۔ خواہشات ٹوٹ جاتی ہیں اور انسان دنیا سے دوری اختیار کر کے آخرت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔

تفکر راس و رئیس عبادات ہے۔ یہ روح و جانِ بندگی ہے۔ بہترین عبادات، اللہ اور اس کی قدرت کے بارے میں غور و فکر ہے۔( ۱ )

علماء نے اس حدیث کی توجیہ یہ کی ہے کہ عبادت انسان کو ثواب تک پہونچاتی ہے اور فکر خود خدا تک پہونچاتی ہے اور ظاہر ہے خدا کا مرتبہ ثواب سے بالاتر ہے۔ اس کے علاوہ عبادت اعضا کا عمل ہے اور فکر دل کا عمل ہے اور دل کا مرتبہ اعضاء و جوارح سے بالاتر ہے۔ اس لئے ایک ساعت کی فکر کو ایک سال کی عبادت سے بہتر قرار دیا گیا ہے اور بعض روایات میں ساٹھ، ستّر سال کی عبادت سے بہتر بھی وارد ہوا ہے۔( ۲ )

فکر، انسان کو جہنم سے بھی بچا سکتی ہے جس طرح حضرت حر بن یزید ریاحی نے ایک ساعت فکر کی اور نجات کا انتظام کر لیا ورنہ زندگی بھر عبادت کرتے رہتے تو کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ ایسی ہی ایک ساعت کی فکر ۷۰! سال کی عبادت سے بھی بہتر ہے اور ایسی ہی فکر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ عبادت نماز و روزہ کا نام نہیں ہے عبادت اللہ کے بارے میں غور و فکر کرنے کا نام ہے۔

فرزند! کبھی گذشتگان کے بارے میں فکر کرو کہ وہ کہاں سے آئے تھے اور کہاں چلے گئے، کیا لے گئے اور کیا چھوڑ گئے؟ کیا کرتے رہے اور کس طرح سارا کاروبار چھوڑ کر روانہ ہو گئے؟ جو لوگ زمین پر قدم نہیں رکھتے تھے مخمل کے فرش پر آرام کرتے تھے، زمین پر اکڑ کر چلتے تھے اور اب اپنی دولت سے الگ عیال و اطفال سے دور، قصر و محلات، حشم و خدم سے جدا کفن پہنے خاک پر پڑے ہوئے ہیں۔ نرم و نازک رخسار مٹی میں ہیں اور کیڑے سانپ بچھو ان کے گرد ہیں۔ قبر کا کونہ ہے اور تنہائی ہے۔( ۳ )

٭ کبھی موت کے بارے میں سوچو کہ یہ اچانک آجاتی ہے اور ایک منٹ کی مہلت نہیں دیتی۔ ہر آن اس سے ہوشیار رہو اور ہر وقت اپنے کو آمادہ رکھو۔ توبہ و عمل میں تساہلی سے کام نہ لو اور کسی وقت بھی غافل نہ رہو۔ کتنے انسان ہیں جو اچانک چلے گئے اور انھیں توبہ و استغفار کی مہلت بھی نہ ملی۔ خبردار تمہارا شمار ایسے حسرت و ندامت والے افراد میں نہیں ہو اور تمہیں یہ نہ کہنا پڑے کہ پروردگار ایک مرتبہ اور واپس کردے۔( ۴ )

٭ کبھی اس بات پر غور کرنا کہ دنیا صرف محل تعب و رنج و مشقت و محنت ہے۔ اس کی صفائی میں گندگی ملی ہوئی ہے اور اس کی راحت میں بھی رنج کی آمیزش ہے۔ یہاں خالص آرام پیدا ہی نہیں ہوا جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد ہوتا ہے کہ وہ لوگ ہم سے دنیا میں راحت طلب کرتے ہیں حالانکہ ہم نے یہاں راحت پیدا ہی نہیں کی اور جہاں پیدا کی ہے وہاں تلاش نہیں کرتے۔

فرزند! ان مسائل پر غور کرو گے تو دنیا کی تکلیفیں آسان ہو جائینگی اور آخرت کی طرف رغبت پیدا ہوگی۔ دنیا کی زحمتوں کو آخرت کے لئے اختیار کرنا بہترین اور آسان ترین عمل ہے۔

٭ کبھی عالم مستقبل کے بارے میں فکر کرو کہ تمہارے سامنے قبر، برزخ، حشر، نشر، نامۂ اعمال ، حساب، کتاب، صراط و میزان، جنت و جہنم کا مرحلہ ہے۔

٭ کبھی اس بات پر غور کرو کہ مرنے کے بعد وہی مال کام آئے گا جو راہِ خدا میں دے دیا ہے۔ ساتھ جانے والا صرف کفن ہے۔ اولاد و اطفال و احباب و اعزا صرف خاک میں لٹانا جانتے ہیں اور پھر اعمال کے حوالے کر دیتے ہیں۔ کام آنے والے یہی اعمال ہیں جو تمہارے ساتھ رہیں گے اور تم سے جدا نہ ہوں گے۔ ان مسائل پر غور کرو گے تو نیک اعمال کروگے۔ نیت میں خلوص پیدا ہوگا اور وقت گزرنے سے پہلے آنے والے کل کی فکر کرو گے۔

٭ روایات میں وارد ہوا ہے کہ دنیا میں بہترین زہد یادِ موت ہے اور بہترین عبادت ذکر موت ہے۔ بہترین فکر بھی فکر موت ہے۔( ۵ )

ذکر موت سے غفلت برتنے والا بے معنی اعمال میں عمر ضائع کرتا ہے۔ اور موت کو یاد رکھنے والا بہترین اعمال میں وقت صرف کرتا ہے۔ موت بہترین واعظ اور بہترین ناصح ہے۔ ذکر موت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ تنگیٔ حالات کو آسان بنا دیتی ہے۔ مالدار کو سخاوت پر آمادہ کرتی ہے۔ انسان کو بے فائدہ کاموں سے روک دیتی ہے۔ اور بقول بعض مصیبتوں کو آسان بنانے والی قیامت کے فائدہ کی طرف زغبت دلانے والی، توبہ پر آمادہ کرنے والی، تلافی پر تیار کرنے والی، امیدوں کو قطع کرنے والی اور لیت و لعل سے دل بہلا نے کو روکنے والی موت ہی ہے۔

صبر

فرزند! تین باتوں کا خیال رکھنا۔ مصیبت پر صبر، نعمت پر شکر، قضائے الٰہی پر رضا۔ یہ تینوں باتیں کشائش احوال کا بہترین سبب ہیں اور اہل ایمان نے انھیں کے ذریعہ دنیا و آخرت کے بلندترین درجات حاصل کئے ہیں۔

فرزند! اپنے نفس کو مصائب پر اس طرح خوش رکھنا جیسے نعمتوں پر خوش رہتا ہے۔ اللہ صحت، مرض، عافیت، بلاء، شباب، ضعیفی، قوت، ضعف، غنا، فقر جس حال میں رکھے اس کو پسند کرنا۔ اس لئے کہ اس حالت کو اس نے انتخاب کیا ہے جو تمہارے انجام سے باخبر اور تم سے زیادہ تمہاری ذات سے محبت کرنیوالا ہے۔ وہ تمہیں تمہارے ماں باپ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے اور تم سے زیادہ تمہارے حال پر مہربان ہے۔

فرزند! مصیبت کے موقع پر جزع فزع شکوہ و فریاد نہ کرنا۔ خدائے حکیم کی مرضی پر راضی رہنا۔ مصیبتوں کا اعلان کر کے اس کی شکایت نہ کرنا۔

٭ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ بلاؤں میں شریفوں کی طرح صبر کرو اور مخلوقات سے خدا کی شکایت نہ کرو کہ یہ رحمن و رحیم کی شکایت بے رحموں سے ہے۔

فرزند! تکلیف میں راحت کی طرح، فاقہ میں مالداری کی طرح، بلاؤں میں عافیت کی طرح خوش رہنا۔ معصومین علیہم السلام کا ارشاد ہے کہ بلاء و مصیبت میں صبر سے بہتر اطاعتِ خدا پر صبر ہے اور اس سے زیادہ افضل محرمات سے پر ہیز کی منزل میں صبر ہے۔( ۱ )

مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے بھی مصیبت پر باقاعدہ صبر کر لیا اللہ اس کو تین سو درجات عنایت فرمائےگا کہ حد درجہ کی بلندی زمین و آسمان کے فاصلے سے زیادہ ہوگی اور جس نے اطاعت پر صبر کر لیا اسے چھ سو درجات عنایت کرے گا جن میں سے ہر ایک کی بلندی تحت الثریٰ سے عرش اعظم کے برابر ہوگی اور جس نے معصیت کے مقابلہ میں صبر کرلیا اسے نو سور ۹۰۰! درجات عنایت کرے گا جن میں سے ہر ایک کی بلندی آخر زمین سے آخر عرش تک ہوگی۔

٭ علماء اخلاق نے صبر کے چند مراتب قرار دیئے ہیں:

۱. خواہش کے مطابق صحت، سلامتی، مال، جاہ، کثرت عشیرہ، اسباب زندگی لذات دنیا کی طرف میلان سے صبر، کہ یہ انتہائی ضروری کام ہے اور اس میں غرق ہو جانا ہلاکت کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔

۲. اطاعتِ خدا پر صبر، کہ یہ ایک سخت مرحلہ ہے۔ نفس ذاتی طور پر بندگی سے آزاد اور مالکیت کا طلب گار ہے جیسا کہ بعض علماء نے کہا ہے کہ ہر نفس میں فرعونیت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ فرعون کو سہارا مل گیا تو فرعونیت سامنے آگئی ورنہ اندر اندر ہر شخص اپنے نوکر، اولاد اور خدام کے ساتھ فرعون ہی جیسا برتاؤ کرتا ہے اور ذرا سی تقصیر ہو جائے تو بے حد غیظ و غضب کا مظاہرہ کرتا ہے جو تکبر کی بہترین نشانی ہے۔

فرزند! اطاعت کے معاملہ میں عمل سے پہلے عمل کے ساتھ اور عمل کے بعد ہر مرحلہ پر صبر لازم ہے۔

٭ عمل سے پہلے صبر کرے تاکہ نیت صحیح ہو۔ عمل کے ساتھ صبر کرے تاکہ یادِ خدا سے غافل نہ ہو اور ریاکاری کا جذبہ قریب نہ آنے پائے۔ عمل کے بعد صبر کرے کہ خودپسندی نہ پیدا ہو ورنہ عمل ضائع اور برباد ہو جائے گا۔

۳. گناہوں کا ارتکاب کرنے سے صبر، انسان اپنے خیال میں ہر وقت گناہوں کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ جھوٹ، غیبت، چغل خوری، بہتان اس کی عادت بن چکا ہے اور عادت فطرت کا درجہ پیدا کرلیتی ہے۔ اس کے ساتھ جب خواہش کا اضافہ ہو جاتا ہے تو شیطان کے دو لشکر بیک وقت حملہ آور ہو جاتے ہیں اور گناہوں میں لذت پیدا ہو جائے تو اور بھی قیامت ہے۔

۴. اس موقع پر صبر جو اپنے اختیار میں نہ ہو جیسے کوئی شخص ستائے اور انسان اس کا بدلہ نہ لے۔ اس موقع پر صبر بہت ضروری ہے اور انسان کو چاہئے کہ اپنے معاملہ کو خدا کے حوالے کر دے چاہے انتقام اس کے اختیار میں ہو۔ اس لئے اس طرح روایات اور تجربات دونوں کا اتفاق ہے کہ پروردگار بہترین انتقام لینے والا ہے اور آخرت سے پہلے دنیا میں بھی سزادے دیتا ہے۔

۵. اس کام پر صبر جو ابتدا و انتہا کسی وقت بھی اختیار میں نہ ہو جیسے اعزا و احباب کے فقدان پر صبر یا اموال کی بربادی پر، صحت کی خرابی، اعضاء کے فساد، آنکھوں کی بینائی کے زوال، فقر و فاقہ وغیرہ پر صبر، کہ ان معاملات میں صبر ذرا مشکل ہوتا ہے لیکن اس کا اجر بہت عظیم ہے جیسا کہ پروردگار نے صابرین کے واسطے صلوٰت و رحمت اور ہدایت کا وعدہ کیا ہے۔( ۲ )

فرزند! خدا تمہیں ہر طرح کا صبر عنایت کرے۔ یاد رکھو کہ صبر کی قوت چند باتوں کے لحاظ سے پیدا ہوتی ہے:

۱. انسان صابرین کے اجر و ثواب پر نگاہ رکھے کہ روایات میں صابرین کے واسطے جنت میں جانے کا ذکر ہے۔( ۳ )

٭ صبر کرنے والے کے لئے ہمیشہ روزہ رکھنے والے اور تمام زندگی نماز قائم کرنے والے کا ثواب ہے۔ صابر کو پیغمبر اسلام صلی علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ جہاد میں شہید ہونے کا ثواب ملتا ہے۔( ۴ )

٭ فاقہ پر صبر جہاد کا رتبہ رکھتا ہے اور یہ ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔

٭ جو مومن کسی بلاء پر صبر کرے اسے ہزار شہیدوں کا اجر ملتا ہے۔( ۵ )

۲. ان مراتب پر نگاہ رکھے جو تجربہ کی بنیاد پر صابرین کے لئے مشاہدہ میں آئے ہیں۔

۳. یہ خیال کرے کہ مصیبت چند لمحوں کے بعد ختم ہو جائے گی اور زندگی بہر حال فانی ہے جو ساعت گزر جاتی ہے اس کی راحت و تکلیف دونوں ختم ہو جاتی ہیں آنے والی ساعت کا حال یوں بھی کسی کو نہیں معلوم ہے۔

۴. اس بات پر غور کرے کہ اس آہ و فریاد کا کوئی اثر بھی نہیں ہے۔ مقدر میں جو ہے وہ ہو کر رہے گا۔ صرف نالہ و فریاد سے اجر و ثواب میں کمی ہو سکتی ہے۔ ورنہ قضا و قدر کو کون بدل سکتا ہے۔ بندہ بندہ ہے اس کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔

۵. ان افراد کو یاد کرے جنھوں نے اس سے بڑے بڑے امتحانات دئے ہیں اور بہترین اجر حاصل کیا ہے۔

۶. یہ ملاحظہ کرے کہ امتحان ایک سعادت ہے اور بلاء اہل و لاہی کے لئے ہے بلکہ شدت بلاء مومنین کے لئے قرب الٰہی کی علامت ہے۔

۷. یہ یاد کرے کہ یہ مصیبت خدائے حکیم کی طرف سے ہے اور وہ اپنے بندوں کے لئے خیر ہی چا ہے گا وہ بے نیاز ہے غرض مند نہیں ہے کہ فائدہ اٹھائے۔

۸. یہ یاد کرے کہ یہ تزکیۂ نفس کا بہترین ذریعہ ہے۔

۹. یہ غور کرے کہ نالہ و فریاد سے دوست رنجیدہ ہوتے ہیں اور دشمن خوش حال ہوتا ہے۔

۱۰. یہ دیکھے کہ صبر کا انجام دنیا میں بھی اچھا ہی ہوتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے مصیبت پر صبر کیا تو خدا نے کتنی بڑی عزت عنایت کی کہ اللہ نے انھیں حاکم بنا دیا اور حاکم کو غلام بنا دیا اور ان کے بھائیوں کو ان کی رعایا میں شامل کر دیا۔ زلیخا کو سر راہ لا کر بٹھا دیا۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام کو دوبارہ اموال، ازواج و اولاد عطا کر دی۔ جبکہ راہِ امتحان میں سب کچھ فنا ہو چکا تھا اور ان کے گھر میں سونے کی بارش کر دی۔

اس سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کے مصائب کو یاد کیا جائے کہ ان پر سب سے زیادہ مصیبتیں پڑی ہیں جبکہ وہ سردار خلائق تھے اور انھیں کے لئے دنیا پیدا ہوئی تھی۔

اور خبردار تمہارا صبر عوام جیسا نہ ہو کہ وہ صبر سے زیادہ اظہار صبر کرتے ہیں اور یہ ریاکاری ہے۔ صبر کا طریقہ متقین کا صبر ہے جس میں اجر آخرت کی توقع ہوتی ہے۔ یا عارفین کا صبر ہے جس میں مصیبت پر لطف آتا ہے کہ یہ محبوب کی عطا ہے اور وہ انجام سے زیادہ باخبر ہے۔

فرزند! یہ بھی یاد رکھو کہ صبر منافی گریہ نہیں ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اپنے فرزند ابراہیم کے انتقال پر گریہ کیا اور جب کسی نے ٹوکا کہ ہم سے صبر کے لئے کہتے ہیں اور خود گریہ فرماتے ہیں تو آپ نے ڈانٹ کر فرمایا خبردار! دل میں تپش ضرور پیدا ہوگی اور آنکھوں سے آنسو بہر حال گریں گے۔ یہ ہمارا صبر ہے کہ ہم رضائے خدا کے خلاف کچھ نہیں کہتے۔

فرزند! مصیبت کے وقتاِنَّا لِلّٰ ه ِ وَ اِنَّا اِلَی ه ِ رَاجِعُون کہا کرو کہ اس سے صلوات و رحمت کا استحقاق پیدا ہوتا ہے اور انسان ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔

فرزند! امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جب صبر تمام ہوتا ہے تو فرحت نصیب ہوتی ہے اور تجربہ بھی اس کا گواہ ہے کہ ہر تنگی کے ساتھ ایک وسعت ہے۔

فرزند! یہ بھی یاد رکھو کہ صبر بہتیرے اوصاف و اخلاق کامرجع و مصدر ہے۔ حالات کے اعتبار سے اس کے نام الگ الگ ہیں ورنہ سب صبر کی شاخیں ہیں۔ شکم و شرمگاہ کے بارے میں صبر ہو تو اس کا نام عفت ہے۔ مصیبت پر صبر ہو تو اس کا نام صبر ہے جس کے مقابلہ میں جزع و فریاد ہے۔ ترک معصیت پر صبر ہو تو اس کا نام تقویٰ ہے۔ دولت کی برداشت پر ہو تو ضبط نفس ہے جس کی ضدا کڑہے۔ مصائب و حوادثِ دنیا پر ہو تو اس کا نام وسعت صدر ہے جس کی ضد تنگدلی ہے۔ جنگ میں ہو تو اس کا نام شجاعت ہے جس کی ضد بزدلی ہے۔ ضبط غیظ میں ہو تو اس کا نام حلم ہے جس کی ضد سفاہت ہے۔ کلام کے اخفاء میں ہو تو اس کا نام رازداری ہے جس کی ضدا فشاء راز ہے۔ فضول عیش کے مقابلہ میں ہو تو اس کا نام زہد ہے جس کی ضد حرص ہے۔ مختصر حصہ پر ہو تو اسکا نام قناعت ہے جس کی ضد لالچ اور ہوس ہے ۔ ۔ ۔ وغیرہ۔

____________________

[۱] اصول کافی ۲، ص۹۰

[۲] سورہ بقرہ ۱۵۶

[۳] وسائل الشیعہ ۳، ص ۴۵۱

[۴] وسائل الشیعہ

[۵] اصول کافی