فصل سوم
دیگر مختلف و صیتیں
فرزند! اللہ تمہیں ہر خیر کی توفیق دے اور ہر شر سے محفوظ رکھے۔ حب دنیا کو دل سے نکال دو۔ یہ ایک زہر قاتل اور مرض مہلک ہے۔ اس کا انجام رحمت خدا سے دوری اور آتش جہنم ہے۔
محبت دنیا کے دل سے نکال لنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دنیا کے بارے میں غور کر، کہ یہ کوئی عمدہ شے ہوتی تو رب کریم اپنے اولیاء و انبیاء کو اس سے محروم کیوں کرتا، جبکہ ان کی عقلیں سب سے زیادہ کامل تر تھیں اور وہ اس سے اس طرح الگ نہ رہتے جس طرح ہم لوگ شیر سے دور بھاگتے ہیں۔ (اصول کافی ۲ ، ۳۱۵)
٭ پروردگار نے مختلف آیات میں محبت دنیا کی مذمت کی ہے اور احادیث میں اس کی شدید تاکید وارد ہوئی ہے۔
امام سجاد علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ بہترین عمل بغض دنیا ہے کہ دنیا کی محبت میں گناہ کے بے شمار رخ نکلتے ہیں۔ ایک رخ تکبر ہے جس میں ابلیس مبتلا ہوا۔ ایک حرص ہے جس کی وجہ سے حوّا نے آدم علیہ السلام کو گندم کھانے کی دعوت دی۔ ایک حسد ہے جس کی وجہ سے قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد حب نساء، حب دنیا، حب ریاست، حب راحت، حب کلام، حب ثروت و بلندی وغیرہ ہے کہ جس میں حب دنیا تمام برایؤں کی اصل ہے۔ (اصول کافی ۲ ، ص ۳۱۵)
روایات متواترہ میں حب دنیا کی مذمت وارد ہوئی ہے اور بعض روایات میں حب دنیا کو آخرت کی فراموشی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے اور اس کی طلب کو آخرت کا نقصان بتایا گیا ہے۔
٭ دنیا و آخرت دو سَو٘ت ہیں جو ایک گھر میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ (مستدرک ۲ ، ص ۳۳۰)
٭ دنیا و آخرت مشرق و مغرب ہیں جو ایک سے قریب ہوگا وہ دوسرے سے دور ہو جائے گا۔ (مستدرک ۲ ، ۳۳۱)
٭ دنیا و آخرت مثل آگ اور پانی کے ہیں جن کا اجتماع ناممکن ہے۔ اور سچ پوچھئے تو محبت دنیا ایک طرح کا شرک ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کو آخرت پر اعتماد اور کتاب و سنت کے بیانات پر اطمینان نہیں ہے۔ ورنہ آخرت کے ہوتے ہوئے دنیا سے دل لگانے کا کیا مطلب ہے۔
فرزند! دنیا میں زہد اختیار کرو حرام کو چھوڑو کہ عذاب کا خطرہ ہے۔ شبہات سے پرہیز کرو کہ عتاب کا اندیشہ ہے۔ حلال میں بھی حساب ہے لہٰذا اس سے بھی ہوشیار رہو۔ انھیں خواہشات پر عمل کرو جنھیں شریعت نے سہارا دیا ہے جیسے نکاح۔ اس کے بعد کم سے کم پر قناعت کرو۔ لباس و غذا معمولی رکھو۔ آخرت پر توجہ دو تاکہ لذت آخرت سے آشنا ہو سکو۔
یاد رکھو کہ زہد کے معنی کھانے پینے کے ترک کر دینے کے نہیں ہیں اس کے معنی مقدر پر راضی رہنے کے ہیں اور وسعت میں بھی میانہ روی اختیار کرنے کے ہیں۔
٭ امام صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے کہ زہد مال کی بربادی اور حلال کی حرام سازی نہیں ہے۔ زہد کے معنی صرف یہ ہیں کہ اپنے ہاتھ کے مال پر وعدہ خدا سے زیادہ اعتماد نہ ہو۔ (مستدرک ۲ ، ص ۳۳۱)
٭ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ دنیا میں زہد کے معنی امیدوں میں کمی نعمتوں پر شکر اور حرام سے پر ہیز ہے۔ (مستدرک ۲ ، ص ۳۳۳)
فرزند! رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آل رسول علیہم السلام سے توسل اختیار کرو کہ میں نے تمام روایات کے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ پروردگار نے جس نبی(ص) کے ترک اولیٰ پر توبہ قبول کی ہے اسے انھیں کے وسیلہ سے قبول کیا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد انوار معصومین (ع) کو عرش سے ان کے صلب میں منتقل کردیا اور ملائکہ کا سجدہ درحقیقت اسی نور کے طفیل میں تھا اور اصل سجدہ پروردگار کا تھا کہ اس کے حکم پر سجدہ ہو رہا تھا یہ اللہ کی بندگی محمد و آلِ محمد علیہم السلام کی تعظیم اور حضرت آدم علیہ السلام کی اطاعت کا ایک مظاہرہ تھا۔
جب آدم علیہ السلام نے سوال کیا پروردگار یہ انوار کس کے ہیں تو ارشاد ہوا کہ یہ بہترین مخلوقات ہیں۔ بزرگ ترین بندے ہیں۔ انھیں کے ذریعہ میں عطا کرتا ہوں اور انھیں کے ذریعہ ثواب و عتاب کا کام ہوتا ہے۔ آدم (ع) انھیں وسیلہ بناؤ تاکہ تمہاری مشکل حل ہو جائے۔ میں نے یہ طے کر لیا ہے کہ ان کے ذریعہ مانگنے والے کو مایوس نہ کروں گا اور سائل کو ردنہ کروں گا۔
اس کے بعد جناب یعقوب علیہ السلام جناب یوسف علیہ السلام سب نے انھیں کو وسیلہ بنایا ہے تو ان کی دعائیں قبول ہوئی ہیں۔ (تفسیر صافی، ص ۲۴۲)
فرزند! عزائے سید الشہداء کا خیال رکھنا اور روزانہ بقدر امکان عزا قائم کرنا اور اگر مصارف نہ ہوں تو گھروالوں کو جمع کر کے مصائب سنا دینا اس لئے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام پروردگار کو بہت عزیز ہیں۔ انھوں نے شہادت کا عظیم درجہ حاصل کیا ہے اور راہ خدا میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہے۔ ان سے توسل میں خیر دارین اور فلاحِ دنیا و آخرت ہے۔
فرزند! زیارت امام حسین علیہ السلام کا بھی خیال رکھنا اور روزانہ کم از کم ایک مرتبہ زیارت ضرور پڑھنا اور ممکن ہو تو ہر مہینہ کربلا جانا اور یہ بھی نہ ہو سکے تو سال میں سات مواقع پر کربلا میں ضرور حاضری دینا۔
شب عاشور اور روزِ عاشور
اربعین
اوّل رجب
۱۵! رجب
۱۵! شعبان
شب عید الفطر
روز عرفہ۔ (جوادی)
اور یہ بھی ممکن نہ ہوا تو کم از کم سال میں ایک مرتبہ حاضری دینا۔ (وسائل الشیعہ ۲ ، ص ۳۹۳)
اس لئے کہ اس کے بے شمار اثرات ہیں اور میں نے زیارت و عزاداری کے ایسے اثرات دیکھے ہیں جو عقل سے بالاتر ہیں اور کم از کم مشاہدہ یہ ہے کہ جب بھی زیارت حسین علیہ السلام کی ہے ایک نہ ایک مشکل ضرور حل ہوئی ہے اور رزق میں اضافہ ہوا ہے اس کے بعد ثواب تو سب سے بالاتر ہے۔ (وسائل الشیعہ ۲ ، ص ۳۹۰)
فرزند! خدا تمہیں ہر عمل خیر کی توفیق دے اور عمر طبیعی تک زندہ رکھے دیکھو بزرگوں کا احترام کرنا۔ پروردگار ان کے ذریعہ بلاؤں کو رد کرتا ہے۔ (حدیث قدسی) خبردار انھیں ناراض نہ کرنا کہ اس کے برے اثرات ہیں۔
جس قدر ممکن ہو ماں باپ کا احترام اور ان کے ساتھ نیکی کرنا کہ قرآن و حدیث میں اس کی شدید تاکید وارد ہوئی ہے۔ خبردار ان کے معاملہ میں سستی نہ برتنا کہ امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جب جناب یعقوب علیہ السلام جناب یوسف علیہ السلام کے پاس آئے تو انھوں نے سواری سے اتر کر باپ کا استقبال نہیں کیا تو اس ترکِ اولیٰ کا نتیجہ یہ ہوا کہ جناب جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور یوسف علیہ السلام کی ہتھیلی سے ایک نور نکال لیا۔ یوسف علیہ السلام نے سوال کیا، جبرئیل یہ کیا؟ فرمایا کہ اب نبوت آپ کی اولاد میں نہیں رہے گی اس لئے کہ آپ نے باپ کا مکمل استقبال نہیں کیا ہے اور پروردگار نے اس کے زیرِاثر آپ کی نسل سے سلسلۂ نبوت ختم کردیا ہے۔ (مجمع البیان ۵ ، ص ۲۶۴)
ظاہر ہے کہ یہ روایتیں اخلاقیات کی اہمیت کے اظہار کے لئے ہیں ورنہ نبوت کا فیصلہ روز اوّل ہو چکا ہے اس کا انحصار تعظیم اور عدم تعظیم پر نہیں ہے۔ (جوادی)
احترامِ علماء
فرزند! علماء عاملین کا احترام کرنا۔ یہ دین کے منارے، شریعت کے امانتدار اور امام عصر(ع) کے نائب ہیں۔ البتہ بے عمل علماء سے دور بھاگنا جس طرح شیر سے فرار کرتے ہیں کہ یہ بحکم امام (ع) عالم نہیں ہیں اور ان کا ضرردین کے بارے میں لشکر یزید بن معاویہ سے زیادہ ہے۔ (تفسیر برہان ۱ ، ص ۱۱۸)
احترام ذریت پیغمبر اسلام(ص)
فرزند! اولادِ رسول(ص) کا احترام کرنا کہ یہ ذریت علی (ع) و فاطمہ (ع) ہیں اور ان کی محبت مطلوب پروردگار ہے۔ جہاں تک ممکن ہو ان کا احترام کرنا کہ رضائے پروردگار اور خیر دنیا و آخرت ہے۔ (مستدرک، ص ۴۰۰)
اور دیکھو خبردار! اپنے احترام کو صرف نیک کردار سادات تک محدود نہ رکھنا کہ ان کا حکم علماء کا نہیں ہے کہ بے عمل قابل احترام نہ ہوں ان کا حکم اولاد کا ہے اور اولاد بہر حال اولاد ہوتی ہے۔ ہاں اگر ترک احترام سے ہدایت کا امکان ہو تو احترام نہ کرو تاکہ ہدایت کے راستے پر آجائیں اور یہ نہی عن المنکر کا ایک طریقہ ہے۔ اگرچہ اس میں بھی احتیاط یہی ہے کہ ظاہراً احترام کرتے رہو اور تنہائی میں نصیحت کر دو جیسا کہ احمد بن اسحاق اشعری کے واقعہ میں ہے کہ حسین بن حسن فاطمی ان سے ملنے کے لئے آئے تو انھوں نے شرابی ہونے کی وجہ سے ملنے سے انکار کر دیا اور جب حج میں جاتے ہوئے سامرہ میں امام عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے بھی ملاقات سے انکار کر دیا۔ جب اصرار شدید کے بعد اجازت ملی تو ابن اسحاق نے عرض کی فرزند رسول(ص) آپ ناراض کیوں ہیں؟ فرمایا تم نے حسین بن حسن کو کیوں روکا تھا۔ عرض کی میرا مقصد شراب سے پرہیز کرانا تھا۔ فرمایا صحیح ہے۔ نہی عن المنکر فریضہ ہے لیکن احترام میں فرق نہیں آنا چاہئے۔ ابن اسحاق نے یہ بات محفوظ کرلی اور واپسی پر حسین کا بے حد احترام کیا۔ انھوں نے گھبرا کر سبب پوچھا۔ احمد نے سبب بیان کیا۔ حسین پر اس بیان کا اس قدر اثر ہوا کہ توبہ کر کے شراب کے سارے ظروف توڑ کر پھینک دیئے اور مسجد میں اعتکاف کر کے انتقال کر گئے۔ (مستدرک مسائل ۲ ، ص ۴۰۰)
یہ بھی یادر کھو کہ یہ تاکید غیر فاطمی سادات کے لئے نہیں ہے۔ اگر چہ ہاشمی ہونے کے اعتبار سے اشرف اور محترم ہیں لیکن ان کا شمار ذریت و قربیٰ رسول میں نہیں ہے اور داخل النسب افراد کا احترام تو بالکل نہیں ہونا چاہئے اور ان کے احترام سے پر ہیز ہی اولیٰ اور النسب ہے۔ مشتبہ حالات میں احتیاط سے کام لینا چاہئے البتہ جو لوگ ماں کی طرف سے سید ہیں ان کا احترام ہونا چاہئے اس لئے کہ بیٹی کی اولاد بھی اولاد ہی ہوتی ہے اور امام حسن اور امام حسین علیہم السلام اسی رشتے سے ابناء پیغمبر(ص) ہیں۔ صرف اس رشتہ کے لوگوں کو خمس کا استحقاق نہیں ہوتا کہ روایت مرسلہ جماد بن عیسیٰ میں خمس کے لئے باپ کی طرف سے سیّد ہونے کی شرط ہے ورنہ احترام میں دونوں برابر ہیں اور دونوں کا احترام ہونا چاہئے۔
صلۂ رحم
فرزند! قرابت داروں سے تعلقات قائم رکھو کہ اس سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور رزق میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ یہ رضا بے شمار نفع دنیا و آخرت کا ذریعہ ہے۔ وہ قطع تعلق بھی کریں تو تم رابطہ قائم رکھو جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ قطع تعلق کرنے والے قرابتداروں سے صلہ رحم کرنا زیادہ فضیلت اور ثواب رکھتا ہے اور نفس کی اطاعت سے زیادہ محفوظ رکھتا ہے۔
خبردار! قطع رحم نہ کرنا کہ قرابت اللہ کی راہ میں فریادی رہتی ہے کہ پروردگار جو مجھ سے تعلق رکھے تو اس سے تعلق رکھنا اور جو مجھ سے قطع تعلق کر لے تو اس سے قطع تعلق کر لینا۔
میں نے صلۂ رحم کے بے شمار اثرات دیکھے ہیں اور قطع تعلق رکھنے والے کے ساتھ تعلقات کا عجیب و غریب اثر مشاہدہ کیا ہے لہٰذا تم اس باب میں سستی اور کمزوری سے کام نہ لینا اور برابر تعلقات کو استوار رکھنا۔
مفلوک الحال شیعوں کا خیال رکھنا بالخصوص ہمسایہ اور قرابت دار کہ ان کے خیال میں عزت دنیا و آخرت ہے اور مرضیٔ پروردگار بھی ہے۔ امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جناب یعقوب علیہ السلام پر فراق یوسف کی افتاد اس لئے پڑی تھی کہ انھوں نے ایک دنبہ ذبح کیا اور ہمسایہ کے حالات دریافت کئے بغیر استعمال کر لیا حالانکہ ہمسایہ میں ایک شخص فاقہ شکنی کے لئے آذوقہ کا محتاج تھا۔ (تفسیر صافی، ص ۲۶۹)
(یہ بھی ترک اولیٰ کی ایک قسم ہے جس پر انبیاء کرام(ع) کا امتحان سخت ہو جاتا ہے لہٰذا تم بھی نعمات دنیا سے استفادہ کرنے سے پہلے دوسروں کا لحاظ کرو ورنہ کسی وقت بھی تمہارا امتحان ہو سکتا ہے۔ جوادی)
فرزند! اپنے جملہ امور میں میانہ روی سے کام لینا۔ اس کا انجام بہتر اور عاقبت قابل تعریف ہے۔ مالک کائنات نے اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اقتصاد و میانہ روی کا حکم دیا ہے اور جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا گیا کہ راہِ خدا میں کیا خرچ کیا جائے تو قرآن نے یہی جواب دیا کہ ’’اپنی ضرورت سے زیادہ۔‘‘
فرزند! ہمیشہ اپنے سے پست افراد کے حالات پر نگاہ رکھنا اور شکر خدا کرتے رہنا کہ ان سے بہتر ہو۔ اپنے سے اچھے حالات والوں پر نگاہ نہ کرنا کہ نفس کو اذیت ہو اور راحت دنیا اور اجر آخرت دونوں کا خاتمہ ہو جائے۔
فرزند! جہاں تک ممکن ہو لوگوں سے زیادہ میل جول نہ رکھنا کہ اس طرح انسان حق سے غافل اور موت سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ عبادت کا وقت کم ہو جاتا ہے اور تحصیل علم دین، ذکر، فکر کے مواقع ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ لوگوں کے حالات کی طمع پیدا ہو جاتی ہے اور غیبت، بہتان وغیرہ سننے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی مہمل قسم کے لوگوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے اور اس طرح فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے اور قیامت کے دن ندامت کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے خبردار وقت گزار نے سے پہلے ہوشیار ہوجاؤ۔
فرزند! خبردار خواہشات نفس کی مخالفت کرو۔ نفس کی متابعت ہلاکت اور زہر قاتل ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ سب سے زیادہ خطرہ خواہشات کے اتباع اور امیدوں کے طول طویل ہونے سے ہے کہ خواہشات کا اتباع حق سے روک دیتا ہے اور امیدوں کا طول آخرت کو بھلا دیتا ہے۔ (روضہ کافی، ص ۵۸) دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا: ’’اپنے خواہشات سے اس طرح بچو جس طرح دشمن سے بچتے ہو۔ خواہشات سے بدتر دنیا کا کوئی دشمن نہیں ہے۔ ہر تبائی خواہشات اور بدزبانی سے پیدا ہوتی ہے۔ (اصول کافی ۲ ، ص ۲۳۵) فرزند! صبح کے وقت شام اور شام کے وقت صبح کی فکر نہ کرو ورنہ امیدیں غافل بنادیں گی۔ ہر وقت یہ سوچو کہ دوسرے وقت نہیں رہنا ہے اور اپنی حیثیت اس جنازہ کی ہے جو غسال کے سامنے رکھا ہوا ہے۔