آئینۂ اخلاق

آئینۂ اخلاق0%

آئینۂ اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

آئینۂ اخلاق

مؤلف: آیۃ اللہ الشیخ عبد اللہ المامقانی طاب ثراہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 8027
ڈاؤنلوڈ: 3782

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8027 / ڈاؤنلوڈ: 3782
سائز سائز سائز
آئینۂ اخلاق

آئینۂ اخلاق

مؤلف:
اردو

وصیت

فرزند! بلوغ کے بعد ہی اپنا وصیت نامہ تیار کرلو اور جب بدلنے کی ضرورت پڑے تو اسے بدل دو۔ اپنے قرضے اور مطالبے بھی لکھ کر رکھو۔ مجھے اکثر یہ اتفاق ہوا ہے کہ شدید سردی کے زمانے میں اگر بستر پر لیٹنے کے بعد یاد آیا کہ میں نے کسی سے ایک یا دو درہم قرض لیا ہے تو میں بستر سے اٹھ کھڑا ہوا اور پہلے اسے نوٹ کیا اور اس کے بعد آکر لیٹا کہ مبادا موت آجائے اور یہ قرض میرے ذمہ رہ جائے کہ اگر قرض خواہ مطالبہ نہ کرے تو میں مقروض رہ جاؤں اور اگر مطالبہ کرلے تو ورثہ اس سے گواہی یا قسم کا مطالبہ کریں گے اور یہ اسکو بلا سبب زحمت ہوگی۔ جبکہ اس نے قرض دے کر احسان کیا ہے اور احسان کا بدلہ یہ نہیں ہے کہ اسے گواہی یا قسم کی زحمت میں ڈالا جائے اور اگر ثبوت فراہم نہ کر سکے اور ورثہ ادا نہ کریں تو میں مسؤل الذمہ رہ جاؤں۔

قرض کی گواہی

فرزند! جب بھی کوئی قرض لو یا دو تو حکم قرآن کے مطابق اسے ضبط تحریر میں لے آؤ اور اس پر گواہ بھی معین کرو کہ شریعت کے ایک حرف کا ترک کرنے والا بھی محتاج ہو سکتا ہے۔ رب کریم نے ہر قانون مصلحت سے بنایا ہے اور کوئی قانون بیکار نہیں بنایا لہٰذا خبردار ان مصلحتوں کو ضائع اور برباد نہ ہونے دینا۔

فرزند! خدا تمہاری عمر دراز کرے اور تمہارے امور کی اصلاح کرے اور تمہیں علم و عمل میں کمال عطا کرے۔ آداب شرعیہ کا التزام کرو جملہ حرکات و سکنات وضو، غسل، کھانا، پینا، سونا، جاگنا، بیت الخلاء، ہمبستری، لباس، مکان ہر کام میں احکام شریعت کی پابندی کرو۔ یہ احکام بلا سبب نہیں بنائے گئے ہیں۔ ان کے دنیا و آخرت میں نتائج اور فوائد ہیں۔ ان کے بارے میں غفلت اور سستی سے کام نہ لینا۔ میں عنقریب تمہارے لئے یہ سارے آداب ایک رسالہ میں جمع کر دوںگا تاکہ تمہیں تلاش کرنے کی زحمت نہ ہو اور صرف عمل کرنے کی ذمہ داری باقی رہ جائے۔

ذکر خدا

فرزند! ہر وقت خدا کو یاد رکھنا۔ یادِ خدا سے دل کی زندگی، رب کا قرب، برکت کی زیادتی، ہلاکت سے نجات، شیطان سے دوری، رحمان سے قربت حاصل ہوتی ہے۔

معصوم علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ ہمارے شیعہ کی پہچان ہے کہ تنہائیوں میں برابر خدا کو یاد کرتا رہتا ہے اور جو بھی خدا کو یاد کرتا ہے خدا اسے دوست رکھتا ہے اور اسے نفاق اور جہنم دونوں سے محفوظ رکھتا ہے اور جنت میں جگہ دیتا ہے۔ اہل جنت کسی چیز پر نادم نہیں ہوں گے مگر اس لمحہ پر ضرور نادم ہوں گے جو یادِ خدا کے بغیر گزر گیا ہے کہ کاش اس لمحہ میں بھی یادِ خدا کی ہوتی تو درجات اور بلند ہو جاتے۔

فرزند! خبردار کوئی مجلس یادِ خدا سے خالی نہ رہے کہ امام علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جس مجلس میں ہمارا اور خدا کا ذکر نہ ہو وہ صاحب مجلس کے لئے وبال اور حسرت بن جائے گی۔( ۱ )

یہ یاد رہے کہ یاد سے مراد فقط زبانی تذکرہ نہیں ہے بلکہ توجہ قلب ہے جس کا مقدمہ ذکر لسان میں ہوتا ہے۔ پروردگار عالم نے حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کو اسی بات پر خلیل بنا دیا کہ خدا کو بہت یاد کرتے تھے۔ ذکر قلب ذکر زبان سے ستر گنا زیادہ ثواب رکھتا ہے۔( ۲ )

استغفار

فرزند! سحر کے وقت استغفار کرو اور ہر صبح کو سو ۱۰۰! مرتبہ

مَا شآئَ اللّٰ ه ُ لاَ حَولَ وَ لاَ قُوَّ ة َ اِلاَّ بِاللّٰ ه ِ اَستَغفِرُ اللّٰ ه َ ۔

دس مرتبہ

سُبحَانَ اللّٰ ه ِ وَ الْحَمدُ لِلّٰ ه ِ وَلَآ اِلٰ ه َ اِلاَّ اللّٰ ه ُ وَ اللّٰ ه ُ اَکبَرُ کہا کرو۔

گھر سے نکلتے وقت عمامہ کا سرا لٹکادو اور یہ دعا پڑھو:

بِسمِ اللّٰ ه ِ وَ بِاللّٰ ه ِ اٰمَنتُ بِاللّٰ ه ِ مَا شَآئَ اللّٰ ه ُ لاَ حَولَ وَلاَ قُوَّ ة َ اِلاَّ بِاللّٰ ه ِ تَوَکَّلتُ عَلَی اللّٰ ه ِ ۔( ۳ )

کوئی بھی واقعہ دیکھو سوال کرنے کی کوشش نہ کرو۔ لقمان حکیم نے جناب داؤد کو زرہ بنا تے دیکھا تو ارادہ کیا کہ دریافت کریں پھر حکمت آڑے آگئی اور چپ ہوگئے۔ تھوڑی دیر میں جناب داؤد نے اسے مکمل کر کے پہن لیا اور پھر فرمایا کہ جنگ کے لئے بہترین زرہ ہے۔ لقمان نے کہا بیشک خاموشی ایک حکمت ہے مگر اس پر عمل کرنے والے بہت کم ہیں۔

فرزند! مستحبات کو خلوتوں میں انجام دو تاکہ ریاکاری کا امکان نہ رہے لوگوں کے سامنے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کہتے رہو کہ یہ بہترین ذکر بھی ہے اور خاموشی سے ہو بھی سکتا ہے کہ اس کے تمام حروف ساکت ہیں اور اسی لئے اسے ذکرِ خفی قرار دیا گیا ہے اور اس کا فضل دیگر اذکار پر ستر گنا زیادہ ہوگا۔

فرزند!لاَ اِلٰ ه َ اِلاَّ اللّٰ ه ُ لاَ حَولَ وَلاَ قُوَّ ة َ اِلاَّ بِاللّٰ ه ِ العَلِیِّ العَظِیمِ صَلَّی اللّٰ ه ُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ ه ِ الطَّا ه ِرِین

کثرت سے کہا کرو کہ اس میں شیاطین کو بھگانے کی عجیب و غریب تاثیر پائی جاتی ہے۔

فرزند! معصومین (ع) کی جتنی دعائیں ہیں سب کی تلاوت کرو چاہے زندگی میں ایک ہی مربتہ ہو اور ہر عمل پر عمل کرو چاہے ایک ہی بار ہو کہ ہر عمل کا ایک خاص اجر اور ہر دعا کی ایک خاص تاثیر ہے۔ تم اس اجر و اثر سے کیوں محروم رہ جاؤ۔ عبادتوں اور دعاؤں کا حساب پھلوں کا ہے کہ انسان جس باغ میں داخل ہوتا ہے اس کے ہر پھل کو چکھنا چاہتا ہے تو جب بستانِ عبادت میں داخل ہو تو اسے ہر عبادت اور ہر دعا کا ذائقہ محسوس کرنا چاہیئے۔

فرزند! روزانہ کسی نہ کسی مقدار میں قرآن ضرور پڑھو۔ بالخصوص سحر کے وقت تلاوت بھی کرو اور معانی پر غور بھی کرو تاکہ اس کے احکام پر عمل کر سکو۔ ائمہ معصومین (ع) کی تفسیر کا مطالعہ کرتے رہو تاکہ مشکلات قرآن حل ہوتے رہیں۔

فرزند! جہاں تک ممکن ہو باطہارت رہو۔ طہارت شیطان کے مقابلہ میں مومن کا اسلحہ ہے اس سے عذاب قبر دفع ہوتا ہے حاجت روائی ہوتی ہے۔ عمر میں زیادتی، رزق میں وسعت، جاہ و عزت میں اضافہ، بلندی رفعت و منزلت، صحت بدن، فرحت و نشاط اور حافظہ و ذہن حاصل ہوتا ہے۔ وضو نصف ایمان ہے۔( ۴ )

مومن جب تک باوضو رہے ثواب تعقیبات حاصل کرتا رہتا ہے۔( ۵ )

باطہارت مرنے والا شہید مرتا ہے۔( ۶ )

باوضو سونے والا تمام رات عبادت گزار شمار ہوتا ہے۔( ۷ )

باوضو بستر پر آنے والے کے لئے بستر مسجد کا مرتبہ رکھتا ہے۔( ۸ )

مومن کی روح خواب کے عالم میں ملاء اعلیٰ کی سیر کرتی ہے تو اسے باطہارت رہنا چاہئے تاکہ وہاں رب سے ملاقات کرنے کے قابل ہو اور برکتیں حاصل کر سکے۔

فرزند! وسوسہ شیطانی کے وقت اعوذ باللہ پڑھو اسکے بعد کہو

’’اٰمَنتُ بِاللّٰ ه ِ وَ رُسُلِ ه مُخلِصًا لَ ه ُ الدِّین ۔‘‘

فرزند! فرائض کو اول وقت ادا کرو کہ یہ افضل بھی ہے اور برائتِ ذمہ کا بہترین ذریعہ بھی ہے اس سے بدن کو راحت رہتی ہے اور روح کو سکون رہتا ہے۔ روایت میں ہے کہ نماز سے پہلے کوئی عمل قبول نہیں ہوتا تو پہلے نماز ادا کرلو تاکہ ہر عمل قابل قبول ہوجائے اور رزق میں وسعت بھی ہو۔( ۹ )

نوافل کی پابندی

فرزند! دن و رات کے تمام نوافل ادا کر دو چا ہے مختصر طریقہ ہی پر کیوں نہ ہو۔ نوافل سے فرائض کی تکمیل ہوتی ہے اور تجربہ یہ کہتا ہے کہ نافلۂ شب سے وسعت رزق اور نافلۂ ظہرین سے توفیقات میں اضافہ ہوتا ہے۔

خبردار! نوافل کو اس لئے ترک نہ کرنا کہ مشغولیت زیادہ ہے۔ توافل مشغولیت کے مددگار ہیں منافی نہیں ہیں۔ علم عمل کا مقصد ہوتا ہے۔ علم کی خاطر عمل کا ترک کر دینا بے فائدہ ہے۔

فرزند! جہاں تک ممکن ہو فرائض کو جماعت کے ساتھ ادا کرو چاہے امام بنو یا ماموم کہ جماعت کا ثواب بے پناہ ہے وہ ضالع نہ ہونے پائے۔

(روایت میں ہے کہ جماعت میں ایک نفر کا ثواب ڈیڑھ سو گنا ہے پھر جیسے جیسے افراد بڑھتے جائیں گے ثواب دو گنا ہوتا جائے گا یہاں تک کہ جب مجمع اس سے بڑھ جائے گا تو ثواب بے حساب ہو جائے گا کہ انسان و جنات مل کر بھی حساب نہیں کر سکتے) جوادی۔

فرزند! نماز کے بعد تسبیح فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی پابندی کرو۔ اور سجدۂ شکر ضرور ادا کرو۔ کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو سجدۂ شکر کی نیت سے پیشانی خاک پر رکھو اور وہ دعا پڑھو جو جبرئیل امین نے حضرت یوسف علیہ السلام کو تعلیم دی تھی جس کے بعد وہ قید سے رہا ہو گئے تھے اور کنوئیں سے باہر نکل آئے تھے۔ وہ دُعا یہ ہے:

اَللّٰهُمَّ اِنِّىْ اَسْئَلُكَ بِاَنَّ لَكَ الْحَمْدُ لَأ اِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ الْمَنَّانُ، بَدِيْعُ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِ، ذُو الجَلاَلِ وَ الْاِكْرَام، اَنْ تُصَلِّىَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَ اَنْ تَجْعَلَ لِىْ مِمَّا اَنَا فِيْهِ فَرَجًا وَ مَخْرَجًا، وَارْزُقْنِىْ مِنْ حَيْثُ اَحْتَسِبُ وَ مِنْ حَيْثُ لاَ اَحْتَسِبُ، اَسْئَلُكَ بِمَنِّكَ الْعَظِيْم وَ اِحْسَانِكَ الْقَدِيْمِ.

اس کے بعد دایاں رخسار زمین پر رکھے اور یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ اِنْ كَانَتْ ذُنُوْبِىْ قَدْ اَخْلَقَتْ وَجْهِىْ عِنْدَكَ فَلَنْ تَرْفَعَ لِىْ اِلَيْكَ صَوْتًا وَ لَنْ تَسْتَجِيْبَ لِىْ دَعْوَةً فَاِنِّىْ اَتَوَجَّهُ اِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ نَبِىِّ الرَّحْمَةِ مُحَمَّدٍ وَ عَلِىٍّ وَّ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ وَ الْاَئِمَّةِ عَلَيْهِمُ السَّلاَمِ اِلاَّ مَا فَرَّجْتَ عَنِّىْ

اس کے بعد بایاں رخسار زمین پر رکھے اور یہ دعا پڑھے: جس کے پڑھنے سے جناب یعقوب علیہ السلام کی بصارت واپس آگئی اور ان کے فرزند سے ملاقات ہو گئی۔

يَا مَنْ لاَ يَعْلَمُ اَحَدٌ كَيْفَ هُوَ وَ حَيْثُ هُوَ وَ قُدْرَتُهُ اِلاَّ هُوَ، يَا مَنْ سَدَّ الْهَوَآءَ بِالسَّمَآءِ وَ كَبْسَ الْاَرْضَ عَلَى الْمَآءِ وَ اخْتَارَ لِنَفْسِه اَحْسَنَ الْاَسْمَآءِ اِئْتِنِىْ بِرُوْحٍ مِنْكَ وَ فَرِّجْ مِنْ عِنْدَكَ

فرزند! ہر مہینے کے پہلے اور آخری پنجشنبہ اور درمیانی چہار شنبہ کو روزہ رکھو کہ یہ تمام زندگی کے روزے کے برابر ہے۔( ۱۰ )

فرزند! روزانہ کم از کم تین مرتبہ سورۂ قل ہو اللہ پڑ ھو کہ ایک قرآن ختم کرنے کے برابر ہے اور اسی لئے جناب سلمان نے اس بات پر ناز کیا تھا کہ میں تمام روز روزہ رکھتا ہوں تمام رات عبادت کرتا ہوں اور روزانہ ختم قرآن کرتا ہوں اور جب عمر نے اعتراض کیا تو سلمان نے کہا کہ میں ہر مہینے کے تین روزہ رکھ کے (دس گنا ثواب لیکر) اسے مہینے کے برابر بناتا ہوں۔ ہر رات با وضو سو کر شب بیداری کا ثواب لیتا ہوں اور روزانہ تین مرتبہ قل ہو اللہ پڑھ کر پورے قرآن کا ثواب لیتاہوں۔ اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلمان کے اس دعویٰ کی تصدیق فرما دی۔

فرزند! اگر مستحبی روزہ رکھ کر کسی مومن کے یہاں جاؤ اور وہ کھانے کے لئے کہے تو روزہ ا اظہار کئے بغیر کھا لو کہ اظہار سے اس کے اوپر ثواب افطار دینے کا احسان ہو جائے گا اور یہ شان مہمانی کے خلاف ہے۔ بغیر اظہار افطار کرینے میں پروردگار ایک سال کے روزے کا ثواب عنایت فرمائے گا۔( ۱۱ )

____________________

[۱] اصول کافی ۲، ص ۴۹۸

[۲] اصول کافی ۲، ص ۴۷۲

[۳] اصول کافی ۲، ص ۱۴۳

[۴] مستدرک ۱، ص۴۱

[۵] وسائل ۱، ص ۴۰۴

[۶] مستدرک ۱، ص ۴۲

[۷] وسائل ۱، ص ۵۰

[۸] وسائل ۱، ص۵۰

[۹] مستدرک ۱، ص ۱۷۱

[۱۰] مستدرک ۱، ص ۵۹۳

[۱۱] فروع کافی ۴، ص ۱۵۰

مطالعہ احادیث و مواعظ

فرزند! احادیث و مواعظ کا برابر مطالعہ کرتے رہو اور روزانہ کم سے کم ایک گھنٹہ مطالعہ کرو کہ اس میں عجیب و غریب تاثیر پائی جاتی ہے اس سے دل زندہ ہوتا ہے اور نفس امارہ سر کشی سے محفوظ رہتا ہے۔

فرزند! خبردار زیادہ کھانا نہ کھانا کہ اس سے سستی اور سنگ دلی پیدا ہوتی ہے۔

٭ روایات میں ہے کہ انسان شیطان سے اس وقت قریب تر ہو جاتا ہے جب اس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے۔( ۱ )

٭ خدا کے نزدیک نا پسندیدہ ترین شے شکم سیری ہے۔( ۲ )

٭ مومن کے لئے مضرترین شے پیٹ کا بھرا ہونا ہے ہمیشہ ایک تہائی شکم پانی کے لئے رکھو۔ ایک تہائی سانس کے لئے اور ایک تہائی کے برابر کھانا کھاؤ کہ یہی مزاج کے لئے سازگار اور بدن کے لئے صالح ہے۔

خبردار! یہ نہ سمجھنا کہ قوت زیادہ کھانے سے پیدا ہوتی ہے ہرگز نہیں قوت کا تعلق ہاضمہ سے ہے کھانے سے نہیں۔ اور ہاضمہ کم کھا نے ہی میں کام کرتا ہے زیادہ کھانے میں نہیں۔ معدہ ایک پتیلی ہے او پتیلی میں جتنی جگہ خالی ہوگی اتنی ہی اچھی غذا پختہ ہوگی۔

خبردار! شکم سیری میں اشتہاء کے بغیر نہ کھانا کہ اس سے بد ہضمی، برص، حماقت اور نادانی پیدا ہوتی ہے۔( ۳ )

خبردار زیادہ سونا بھی نہیں کہ اس سے عمر عزیز ضائع ہوتی ہے۔ اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم ریاضت میں لگ جاؤ، نہیں، یہ کام تو اور بُرا ہے، اس سے تو الگ ہی رہنا چاہئے اور آب و ہوا کے مطابق غذا استعمال کرتے رہنا چاہئے۔ مطلب صرف یہ ہے کہ ہر کام بقدرِ ضرورت انجام دو اور زیادتی نہ ہونے پائے۔

زیادہ ہنسی

فرزند! خبردار، زیادہ ہنسی سے کام نہ لینا کہ اس سے دل مردہ اور چہرہ بے آبرو ہو جاتا ہے۔ ہنسی کا بہترین علاج انگوٹھے پر نگاہ کرنا ہے کہ اس سے ہنسی رک جاتی ہے اور ہنسی کا کفارہ اَللّٰہُمَّ لاَ تَمقُتنِی ہے۔

مختصر ہنسی میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یہ خوش خلقی کی علامت ہے ممدوح صفت ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہنسی بقدرِ تبسّم ہوا کرتی تھی۔

٭ ہنسی کی طرح زیادہ مذاق بھی نہ کرنا کہ اس سے آبرو جاتی رہتی ہے۔( ۴ )

٭ نورِ ایمان ختم ہوجاتا ہے۔( ۵ )

٭ مروّت کم ہو جاتی ہے۔( ۶ )

٭ عداوت پیداہوتی ہے۔( ۷ )

٭ مختصر مزاح بہترین شے ہے اور یہی ائمہ معصومین (ع) کا طریقہ رہا ہے۔ اور انھوں نے اصحاب کو بھی یہی تعلیم دی ہے کہ اس کا شمار مومن کو خوش کرنے میں ہے جو بہترین کارِ ثواب ہے۔

فرزند! خبردار کسی مومن کے قتل پر خوش نہ ہونا کہ امام رضا علیہ السلام کا ارشاد ہے جو کسی کے عمل سے خوش ہوتا ہے اس کا شمار عمل کرنیوالوں میں ہوتا ہے۔

٭ ارشاد ہوتا ہے کہ اگر مومن کا قتل مشرق میں ہوتا ہے اور دوسرا شخص مغرب میں اس سے خوش ہوجائے تو اس کا شمار بھی قاتلوں میں ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ امام عصر علیہ السلام ظہور کے بعد قاتلانِ حسین علیہ السلام کی اولاد سے انتقام لیں گے کہ وہ اپنے بزرگوں کے عمل سے راضی رہی ہے۔( ۸ )

فرزند! خبردار، غیبت اور بہتان سے اپنے کو محفوظ رکھنا کہ ان کی وجہ سے نامہ عمل نیکیوں سے خالی اور برائیوں سے پر ہو جاتا ہے۔ اور غیبت کرنے والے کی نیکیاں اس کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں جس کی غیبت کی ہے اور اس کی برائیاں اس کی طرف آجاتی ہیں اور اس طرح یہ بالکل خالی ہاتھ ہوجاتا ہے۔( ۹ )

حسد

فرزند! خبردار، حسد سے ہوشیار رہنا کہ حسد کرنے والے کا عمل چھٹے آسمان تک بھی نہیں پہونچتا اور راستے ہی سے اس کے منھ پر مار دیا جاتا ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں میں پریشان رہتا ہے۔ دنیا میں اپنے حسد کی بنا پر اور آخرت میں عذاب الٰہی کی بنا پر۔

٭ حسد کی برائی کے لئے یہ کافی ہے کہ شیطان حسد ہی کا مارا ہوا ہے، برادرانِ یوسف علیہ السلام کی ذلت و رسوائی حسدہی کا نتیجہ تھی۔( ۱۰ )

٭ حسد کرنے والا کبھی سردار ہو نہیں سکتا۔( ۱۱ )

٭ حسد ایمان کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ خبردار! پروردگار کے افعال پر اعتراض نہ کرنا۔ یہ بھی نہ کہنا کہ ہوا کس قدر گرم یا سرد ہے۔ یا کاش اس نے مجھے مالدار بنایا ہوتا۔ کاش مجھے شفادے دی ہوتی۔ کاش لڑکی کی بجائی لڑکا دے دیا ہوتا۔ کاش میری اولاد، میرا مکان یا میری ملکیت باقی رہ جاتی۔ کاش ایسا ایسا ہوتا تو بہت بہتر ہوتا کہ ان سب کا مقصد مصالح خدا پر اعتراض کرنا ہے اور اس کا شمار مخفی شرک میں ہوتا ہے۔

فرزند! خبردار، اپنے لئے کسی برائی کو طلب نہ کرنا کہ پروردگار مجھے موت دے دے یا میری زندگی لے لے کہ یہ سب مصلحت خدا وندی کے خلاف ہے۔ جناب یوسف علیہ السلام نے قید خانہ میں دعا کی کہ پروردگار مجھے یہ زندان کیوں دے دیا گیا ہے تو ارشاد ہوا کہ تم نے کہا تھا کہ ان کے ملک سے قید خانہ بہتر ہے یہ کیوں نہ کہا کہ ان کی دعوت سے عافیت بہتر ہے۔( ۱۲ )

(یعنی انسان کو دعائے عافیت کرنی جاہئے اور اس کا طریقہ معین نہیں کرنا چاہئے۔ وہ پروردگار کی مصلحت پر ہے جس شے میں عافیت دیکھے گا وہی عطا کرے گا۔ بندہ کو اعتراض یا شکایت کرنے کا حق نہیں ہے۔ جوادی)

بردار! کسی کے خوف سے معصیت اختیار نہ کرنا کہ معصیت ترک کر دینے ہی میں نجات اور عافیت ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب یوسف علیہ السلام نے خوف خدا سے زلیخا سے دامن بچا لیا تو پروردگار نے انھیں ملک مصر عطا کردیا۔

کذب

فرزند! خبردار غلط بیانی سے کام نہ لینا کہ اس سے خدا ناراض ہوتا ہے اور بندہ کو ذلیل بنا دیتا ہے۔ جھوٹے کا دنیا میں کوئی اعتبار نہیں ہوتا اس کے اقوال و افعال کا بھروسہ نہیں رہ جاتا۔ حتی الامکان توریہ سے بھی پرہیز کرنا چاہئے اگرچہ یہ جھوٹ نہیں ہے لیکن تجربہ یہی کہتا ہے کہ نجات سچائی ہی میں ہے۔ اکثر اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ پروردگار نے سچ کے طفیل میں بڑے بڑے مصائب سے نجات دلا دی ہے۔

(توریہ کے معنی ایسے الفاظ کا استعمال کرنا ہے کہ سننے والا دوسرے معنی سمجھے اور کہنے والے کا منشا دوسرا ہو۔ مثال کے طور پر کوئی دروازہ پر آواز دے کر صاحب خانہ کے بارے میں سوال کرے اور نوکر کہہ دے کہ یہاں نہیں ہیں کہ سننے والا ’’یہاں‘‘ کا مطلب پورا گھر سمجھے اور کہنے والا ’’یہاں‘‘ سے وہ جگہ مراد لے جس جگہ وہ خود کھڑاہے۔ ظاہر ہے کہ ایک جگہ پر دو آدمی کھڑے نہیں ہو سکتے۔ جوادی)

اور دیکھو ایسی باتیں بھی نہ کرنا جن سے کوئی بد نفس جھوٹ بولنا سیکھ لے جیسا کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب جناب یعقوب علیہ السلام نے یہ کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یوسف (ع) کو بھیڑیا نہ کھا جائے تو انھوں نے اپنے علم غیب کا اظہار کیا تھا لیکن برادرانِ یوسف علیہ السلام نے اسی سے بھیڑئے کی داستان تیار کرلی۔ یعنی مومن کو ایسے الفاظ سے بھی پرہیز کرنا چاہئے جس سے دوسروں کو جھوٹ بنانے کا راستہ مل سکے۔

طعن و طنز

خبردار! کسی کو برے حالات کا طعنہ نہ دینا کہ ایسے آدمی کے اعمال اس کے منھ پر مار دیئے جاتے ہیں اور یہ اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں پروردگار اسے بھی ایسے حالات میں مبتلا نہ کردے۔( ۱۳ )

سنگ دلی

خبردار! ایسا کوئی عمل نہ کرنا جس سے سنگ دلی پیدا ہو کہ سنگ دلی بدترین شے ہے۔ (شاید آخر کتاب میں سنگدلی کے اسباب پر روشنی ڈالی جا سکے)

____________________

[۱] مستدرک ۳، ص ۸۱

[۲] مستدرک وسائل ۳ ص ۸۰

[۳] وسائل ۳، ص ۲۶۳

[۴] وسائل ۲، ص ۲۰۶

[۵] مستدرک ۲، ص ۷۸

[۶] مستدرک ۲، ص۷

[۷] وسائل ۲، ص ۲۱۷

[۸] تفسیر صافی

[۹] مستدرک ۲، ۱۰۶

[۱۰] مجمع البیان ۵، ص ۲۱۱

[۱۱] مستدرک

[۱۲] تفسیر صافی، ص ۲۲۴

[۱۳] وسائل ۱، ص ۷۳

تکبر اور غرور

خبردار! تکبر سے محفوظ رہنا کہ میں نے بار بار دیکھا ہے کہ پروردگار نے متکبرین کو ذلیل کیا ہے اور مغرورین کی ناک رگڑی ہے۔ غرور کا نتیجہ ناکامی، مایوسی، ذلت و رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

٭ خدا ان متکبروں کو سخت ناپسند کرتا ہے جن کی چال میں اکڑ ہوتی ہے اور ایسے لوگوں پر زمین و آسمان لعنت کرتے ہے۔( ۱ )

٭ اکڑنے والا خیار سماوات وارض خدا کا دشمن ہوتا ہے۔( ۲ )

یاد رکھنا کہ تکبر اور اکڑ سفاہت اور حماقت کا نتیجہ ہے ورنہ انسان کے پاس اکڑ کا ذریعہ کیا ہے۔ وہ اپنے اول و آخر کو یاد کرلے تو ابتدا میں نطفۂ نجس تھا اور آخر میں مردار ہوجائے گا تو اب تکبرّ اور اکڑ کی کیا وجہ ہے۔( ۳ )

٭ بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ انسان کے شکم میں پائخانہ کا وجود اس جذبۂ غرور کو مٹانے کے لئے ہے کہ جو اپنے ساتھ شکم میں غلاظت لئے پھرتا ہے وہ کس بات پر اکڑتا ہے۔( ۴ )

فرزند! خبردار، غرور، اکڑ اور اس کے اسباب سے محفوظ رہنا۔ زمین پر خط دینے والا لباس نہ پہننا کہ اس سے غرور پیدا ہوتا ہے اور ایسا آدمی بوئے جنت سے بھی محروم رہتا ہے۔( ۵ )

٭ ایسے شخص کی قبر جہنم کی طرف دھنس جاتی ہے اور اسکا حشر قارون کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ بھی زمین میں دھنس گیا تھا۔( ۶ )

دوسرے لوگ تعظیم کے لئے کھڑے ہوں اور تم بیٹھے رہو یہ بھی غرور کا انداز ہے پروردگار ایسے انسان کو اہل جہنم میں شمار کرتا ہے جو مغرورانہ انداز سے بیٹھا رہے اور لوگ اس کے گرد کھڑے رہیں۔( ۷ )

(اہل اقتدار و اہل ریاست اس نکتہ پر توجہ فرما ئیں۔ جوادی)

٭ ائمہ معصومین علیہم السلام نے غرور کا علاج پیونددار لباس، کہنہ نعلین گرد آلود چہرہ اور بازار سے سامان لا نے، معمولی سواری پر سوار ہونے اور مساکین کی ہم نشینی کو قرار دیا ہے۔ اور یہی طرز عمل اپنایا بھی ہے۔( ۸ )

٭ اللہ نے تکبر کرنے والوں سے نعمتیں سلب کرلی ہیں۔ شیطان کا انجام پیش نظر ہے کہ وہ اس ایک تکبر کی وجہ سے نعمت قرب الٰہی سے محروم ہو گیا۔ لہٰذا خبردار اس جلاد سے محفوظ رکھنا اور اس کے اسباب سے بھی اپنے کو بچائے رکھنا۔

تواضع و انکسار

فرزند! خاکساری اختیار کرنا کہ اس میں خیر دنیا و آخرت دونوں ہے روایات میں ہے کہ تواضح سے بلندی حاصل ہوتی ہے۔( ۹ )

٭ تواضع میں شرف ہے۔( ۱۰ )

٭ تواضع سے حکمت آباد ہوتی ہے۔( ۱۱ )

٭ تواضع و خشوع، خوفِ خدا اور حیا و غیرت کی کھیتی ہے۔( ۱۲ )

٭ پروردگار تواضع کرنے والوں پر فخر کرتا ہے اور اس نے ہر انسان پر ایک ملک کو معین کر کے اس کی پیشانی ملک کے قبضہ میں دے دی ہے۔ کہ جب وہ اکڑ کر سر اٹھاتا ہے تو ملک جھگا دیتا ہے اور جب انکسار سے سر جھکاتا ہے تو ملک اسے سربلند کر دیتا ہے۔( ۱۳ )

٭ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو ان کی تواضع و خاکساری کی بنا پر کلیم بنادیا تھا کہ انھوں نے خاک پر پیشانی رکھی تھی تو اللہ نے انھیں سب سے بلند کردیا اور پورے زمانہ سے ممتاز کردیا۔

فرزند! خبردار، دوسروں کو حقیر نہ سمجھنا کہ اس میں خالق کی توہین ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جناب نوح علیہ السلام ایک خارش زدہ کتے کے قریب سے گزرے اور انھوں نے حقارت سے فرمایا کہ یہ کیسا کتا ہے تو وہ بحکم خدا گویا ہوا کہ خداوند عالم نے مجھے ایساہی بنایا ہے اگر آپ کو پسند نہیں تو مجھے اس سے اچھا بنا دیجئے۔ جناب نوح علیہ السلام بے حد شرمندہ ہوئے اور اس ترک اولیٰ پر چالیس سال گریہ کرتے رہے جس کے بعد انھیں نوح خطاب ملا حالانکہ ان کا نام عبد الجبار تھا۔( ۱۴ )

اسی طرح جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا گیا کہ ایک ایسی مخلوق کولے کر آؤ جس سے تم بہتر ہو تو وہ ایک خارش زدہ کتے کو لے کر چلے اور راستہ میں چھوڑ دیا تو مقام مناجات میں ارشاد ہوا کہ اگر تم اس کو لیکہ آجاتے تو میں تمہارا نام دیوان نبوت سے محو کردیتا کہ میرے مقربین کسی طرح کے غرور کا شکار نہیں ہوتے۔ بقول عارفین جب تک انسان میں یہ احساس رہے گا کہ وہ دنیا میں کسی ایک سے بھی بہتر ہے اس میں تکبر برقرار رہے گا۔

(کھلی ہوئی بات ہے کہ اس قسم کے واقعات درس اخلاق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ورنہ کوئی نبی نہ مغرور ہو سکتا ہے اور نہ اس کا نام دیوانِ نبوت سے کٹ سکتا ہے۔ اللہ نے انبیاء کو ذریعہ بنایا ہے۔ عام انسانوں کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی کے لئے جیسا کہ اس سے پہلے جناب نوح علیہ السلام، جناب یعقوب علیہ السلام اور جناب یوسف علیہ السلام کے تذکرہ میں گزر چکا ہے۔ جوادی)۔

حرص

فرزند! خبردار، حرص اور لالچ سے محفوظ رہنا کہ جناب حوّا کو اسی راستہ سے سمجھایا گیا تھا کہ گندم استعمال کریں ورنہ ان کے پاس جنت میں کس نعمت کی کمی تھی اور پھر انھوں نے یہی مسئلہ جناب آدم علیہ السلام کے سامنے رکھ دیا تھا۔

حرص سے پرہیز کرنے کی نصیحت خود شیطان نے بھی کی ہے۔ جناب نوح علیہ السلام سے کہا ہے کہ لالچ سے محفوظ رہنا اور خبردار کسی ایسی جگہ پر نہ رہنا جہاں نا محرم عورت تمہارے ساتھ ہو اور کوئی تیسرا نہ ہو ورنہ تیسرا میں ہو جاؤں گا۔( ۱۵ )

خود پسندی

خبردار! خود پسندی کا شکار نہ ہونا کہ یہ دین کے لئے فساد اور عمل کے لئے بربادی کا ذریعہ ہے کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کا ساتھی ان کے ساتھ بسم اللہ کہہ کر دریا پر چل پڑا اور جب درمیان میں یہ خیال آیا کہ اب تو میں بھی عیسیٰ علیہ السلام جیسا ہو گیا ہوں تو وہیں ڈوبنے لگا اور فریاد کی۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام نے اسے سنبھال لیا اور سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ خود پسندی کا نتیجہ ہے۔ آپ نے توبہ کی تلقین کی اس نے توبہ کی اور پھر کمال واپس آگیا کہ بسم اللہ کہہ کر پانی پر سے گزر جانا تھا۔( ۱۶ )

ریاکاری

فرزند! ریاکاری سے بھی بچتے رہنا کہ یہ شرک کے مترادف ہے اور روایات میں وارد ہوا ہے کہ جو شخص غیر خدا کو دکھانے کے لئے عمل کرتا ہے اللہ روز قیامت اس کو اسی کے حوالے کردے گا۔( ۱۷ )

٭ ریاکار قیامت کے دن چار ناموں سے بلایا جائے گا، فاجر، کافر، غدار اور خسارت کار۔ اس کے اعمال برباد، اجر معطل اور اسے انجام کار اس کے حوالے کر دیا جائے گا جسکے دکھانے کے لئے عمل انجام دیا تھا۔( ۱۸ )

٭ بعض روایات میں ہے کہ انسان خدا کے لئے قلیل عمل کرتا ہے تو وہ بندوں میں کثیر بنا کر پیش کردیتا ہے اور بندوں کیلئے کثیر عمل انجام دیتا ہے تو وہ قلیل بنا دیتا ہے چاہے رات بھر بیدار ہی کیوں نہ رہا ہو اور اپنے جسم کو تھکا ہی کیوں نہ ڈالا ہو۔( ۱۹ )

٭ عقل بھی اس بات کو پسند نہیں کرتی کہ بظاہر خدا کی عبادت کی جائے اور واقعا غیر اللہ کیلئے عمل کیا جائے۔ آخر انسان کی بندگی میں کیا فائدہ ہے اور وہ بیچارہ جو ایک مچھر کو اپنے سے دفع نہیں کر سکتا وہ کسی کو کیا دے سکتا ہے۔ جو مکھی کی چھینی ہوئی شے کو واپس نہیں لے سکتا اس سے انسان کیا توقع رکھتا ہے اور اس کی رضامندی کے لئے عمل کر کے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔

مايوسی

فرزند! خبردار، مایوسی کا شکار نہ ہونا کہ عذاب خدا کی طرف سے اطمینان اور رحمتِ خدا سے مایوسی گناہ کبیرہ میں ہے اور اس سے خدا سخت ناراض ہوتا ہے بلکہ اس میں توہین پروردگار بھی ہے۔

میں نے بعض ایسے گناہگاروں کو دیکھا ہے کہ جہنم کے بارے میں شیطان صرف گناہگار بنادینے پر راضی نہیں ہوا بلکہ انھیں رحمت خدا سے مایوس کر کے توبہ سے بھی روک دیا اور نتیجہ میں وہ دہرے گناہ کے مرتکب ہو گئے۔ معصیت بھی کی اور رحمت خدا سے مایوس بھی ہوئے اور آخر میں توبہ واجب کو بھی ترک کیا۔

____________________

[۱] وسائل ۲، ص ۴۷۲

[۲] وسائل ۲، ص ۴۷۲

[۳] مستدرک ۲، ص ۳۳۰

[۴] فروع کافی ۳، ص ۷۰

[۵] وسائل الشیعہ ۲۸۳

[۶] وسائل الشیعہ ۱، ص ۲۸۳

[۷] جامع السعادات ۱، ص ۳۰۹

[۸] مستدرک ۲، ص ۳۲۹

[۹] وسائل ۲، ص ۴۰۷

[۱۰] مستدرک ۲، ص ۳۰۶

[۱۱] وسائل ۲، ص ۴۰۷

[۱۲] مستدرک ۲، ص ۳۰۶

[۱۳] وسائل ۲، ۴۷۱

[۱۴] مستدرک ۲، ص ۲۶۲

[۱۵] مستدرک ۲، ص ۳۳۰

[۱۶] اصول کافی ۲، ص ۳۰۶

[۱۷] اصول کافی ۲، ص ۲۹۳

[۱۸] وسائل ۱، ص ۱۱

[۱۹] اصول کافی ۲، ص ۲۱۶