آئینۂ اخلاق

آئینۂ اخلاق0%

آئینۂ اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

آئینۂ اخلاق

مؤلف: آیۃ اللہ الشیخ عبد اللہ المامقانی طاب ثراہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 8024
ڈاؤنلوڈ: 3782

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8024 / ڈاؤنلوڈ: 3782
سائز سائز سائز
آئینۂ اخلاق

آئینۂ اخلاق

مؤلف:
اردو

توبہ

فرزند! اگر شیطان تمہارے دل میں وسوسہ پیدا کر کے مخالفت پروردگار پر آمادہ بھی کردے تو خبردار توبہ کو فراموش نہ کردینا اور فی الفور توبہ کرلینا کہ توبہ گناہوں کو محو کردیتا ہے۔

ہمیشہ توبہ کرتے رہو کہ خدا جانے کب کون سی خطا ہوجائے اور قدم پھسل جائیں۔

فرزند! یاد رکھو توبہ فقط استغفار کا نام نہیں ہے کہ انسان گناہ کرتا رہے اور استغفر اللہ کہتارہے یہ توبہ نہیں ہے یہ تو پروردگار کا مذاق اڑانا ہے۔ توبہ کے معنی یہ ہیں کہ اس میں چھ چیزیں پائی جاتی ہوں۔

۱. گذشتہ پر ندامت۔

۲. آئندہ کے لئے عزم محکم کہ اب ایسا گناہ نہ کریں گے۔

۳. مخلوقین کے حقوق کی ادائیگی کہ مال ہے تو واپس کردیا جائے اور غیبت و غیرہ ہے تو معافی طلب کرلی جائے۔

۴. جن فرائض میں کوتاہی ہوگئی ہے ان کی قضا کی جائے۔

۵. جو گوشت مال حرام سے پیدا ہوا ہے اسے حزن و الم کے ذریعہ گھٹا دیا جائے کہ کھال اور ہڈی رہ جائے اور پھر سے نشو و نما ہو۔

۶. جتنی معصیت سے لذت حاصل کی ہے اتنی ہی اطاعت کی زحمت برداشت کی جائے۔

ان شرائط کے بعد توبہ مکمل ہوتی ہے اور اسے توبۂ کاملہ کہا جاتا ہے۔( ۱ )

یاد رکھو کہ یہ پروردگار عالم کا امت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر احسان ہے کہ اس نے توبہ و استغفار پر گناہوں کے بخشنے کا وعدہ کرلیا ہے ورنہ دورِ قدیم میں توبہ کا قانون اس قدر سخت تھا کہ آج کے انسانوں کے لئے ناقابل تصور ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے سورہ بقرہ کی آخری آیات کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ پروردگار نے اس امت سے بہت سے بوجھ اٹھا لئے ہیں اور اس کا بوجھ بالکل ہلکا کردیا ہے ورنہ زمانہ قدیم میں گناہ دروازے پر لکھ دیئے جاتے تھے توبہ کے لئے ترک لذات ضروری تھا اور اس امت میں پردہ پوشی سے کام لیا جاتا ہے اور آب و غذا بھی حرام نہیں ہوتا۔ سابق امتوں میں پچاس ۵۰! ، اسی ۸۰! اور سو ۱۰۰! سال توبہ کے بعد بھی ادنیٰ عتاب ضرور نازل ہوتا تھا اور اب مختصر توبہ پر بھی مستقل عذاب بر طرف ہو جاتا ہے چاہے انسان نے برسہا برس گناہ کئے ہوں۔( ۲ )

(اس روایت میں بے شمار نعمتوں اور رحمتوں کا تذکرہ ہے۔ تفسیر صافی کا مطالعہ اس باب میں بے حد مفید ہوگا۔ جوادی)

پروردگار عالم نے اس امت کے لئے توبہ کا مسئلہ اتنا آسان کردیا ہے کہ روایت میں ہے کہ ایک شخص نے ۹۹ آدمیوں کو قتل کر کے ایک عابد و زاہد سے دریافت کیا کہ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ اس نے اسے بھی تہہ تیغ کردیا اور اب ایک عالم کے پاس پہونچا، اس نے کہا کہ خدا ارحم الراحمین ہے اب بھی توبہ قبول کر سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ فلاں سرزمین پر ایک نبی خدا ہے اس کے پاس جاکر توبہ کرو۔ یہ شخص نبی خدا کی جستجو میں چلا۔ اثنائے راہ انتقال ہو گیا تو مصلحت پروردگار نے ملائکۂ رحمت و عذاب دونوں بھیجے، ایک کا کہنا تھا کہ گناہگار ہے، دوسرے کا کہنا تھا کہ راہِ توبہ پر جارہا تھا۔ ارشادِ قدرت ہوا کہ زمین معصیت اور زمین توبہ کی پیمائش کی جائے کہ یہ کس سے زیادہ قریب ہے۔ پیمائش کی گئی۔ زمین توبہ ایک بالشت کم نکلی۔ حکم خدا ہوا کہ ملائکۂ رحمت اسے لے جائیں اس لئے کہ یہ توبہ سے ایک بالشت زیادہ قریب ہو چکا تھا۔ اور بعض روایات کی بناء پر خود پروردگار نے زمین توبہ کا فاصلہ کم کردیا کہ ارادۂ توبہ ہی سب سے بڑی توبہ ہے۔

(واضح رہے کہ اس طرح کی روایات ایک قسم کی تمثیل ہیں جن سے اصل مقصد کی تفہیم مقصود ہے ورنہ بغیر اذنِ خدا کے فرشتے حرکت نہیں کر سکتے دو طرح کے فرشتوں کے آنے اور آپس میں تکرار کرنے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ جوادی)

فرزند! یاد رکھو، پروردگار اپنے بندوں پر بے حد مہربان ہے۔ اس نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے وہ توابین کو دوست رکھتا ہے۔( ۳ )

اور بعض روایات میں ہے کہ جب کوئی بندہ توبہ کرتا ہے تو خداوند اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جسے شام کے وقت صبح کا کھویا ہوا جانور مل جائے اس لئے کہ جانور کا پلٹ آنا آسان ہے اور انسان کا توبہ کرنا مشکل ہے۔( ۴ )

توبہ میں عجلت

فرزند! توبہ کرو۔ مسلسل توبہ کرو اور گناہ کے بعد فوراً توبہ کرو کہ معاملہ ہاتھ سے نکلنے نہ پائے اور عتاب الٰہی نازل نہ ہونے پائے۔ خبردار توبہ میں سستی اور کاہلی نہ برتنا کہ اس تاخیر میں سخت آفتیں ہیں۔ شاید ملک الموت ہی آجائیں اور وقت توبہ نکل جائے۔

گناہ کا حساب ایک معمولی پودے کا ہوتا ہے کہ فی الفور اکھاڑ لیا تو اکھاڑ لیا ورنہ جڑپکڑلی تو اکھاڑنا مشکل ہوجائے گا۔ یہی حال گناہوں کا ہے کہ فوراً توبہ کرلی تو خیر ورنہ عادت پڑ گئی تو تاخیر ہی ہوتی رہے گی اور توبہ نصیب نہ ہوگی۔

روایات میں ہے کہ پروردگار گناہ کے بعد سات ساعت، نو ساعت یا ایک دن کی مہلت دیتا ہے اور اتنی دیر تک گناہ درج نہیں کئے جاتے۔ اس کے بعد اگر توبہ نہیں کی تو گناہ ثبت کر دیئے جائیں گے اور توبہ بھی مشکل ہوجائے گی۔( ۵ )

٭ توبہ سے طول عمر، وسعت رزق اور حسن حال پیدا ہوتا ہے۔ خبردار اس میں کوتاہی اور سستی نہ ہونے پائے کہ تمام نعمتوں سے محروم ہوجاؤ۔

تلخی حالات پر صبر

فرزند! اللہ تم کو رزق اور عفت عنایت فرمائے۔ ہمیشہ تلخی حالات میں صبر کو شعار بنائے رکھنا۔ مالک کائنات نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے ارشاد فرمایا تھا کہ جب بھی دنیا کو اپنی طرف آتے دیکھو تو کہو اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون۔ یہ ایک عذاب ہے جو آرہا ہے۔ اور جب دنیا کو منھ پھیر تے دیکھو تو فقر کا استقبال کرو کہ یہ صالحین کا شعار ہے۔( ۶ )

٭ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ فقیری قدرت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔

٭ فقیری وہ نعمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نبی مرسل اور مومن کریم کو عطا کرتا ہے۔

٭ فقیری خدا کی طرف سے ایک کرامت اور عزت ہے۔( ۷ )

٭ فقیری مومن کی زینت ہے۔( ۸ )

٭ اہل جنت کی اکثریت فقراء کی ہے۔ جنت میں سب سے کم تعداد مالداروں اور عورتوں کی ہوگی۔ انسان جتنا ایمان میں ترقی کرتا جاتا ہے اتنی ہی معیشت میں تنگی بڑھتی جاتی ہے۔( ۹ )

٭ انبیاء میں سب سے آخر میں جناب سلیمان داخل جنت ہوں گے کہ انھیں پوری مملکت کا حساب دینا ہوگا۔

٭ فاقہ پر صبر ایک جہاد ہے۔ فاقہ ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے فقراء جنت میں اغنیاء سے پانچ سو سال پہلے داخل ہوں گے (جو آخرت کا آدھا دن ہوگا)۔ جنت میں یاقوت کے ایسے کمرے ہوں گے جنھیں اہل جنت اسی طرح حیرت سے دیکھیں گے جس طرح اہل زمین ستاروں کو دیکھتے ہے۔ ان کمروں کے ساکن نبی، شیعہ اور مومن نادار ہوں گے۔ فقراء جنت کے باشاہ ہیں۔ سارے انسان جنت کے مشتاق ہیں اور جنت فقیروں کی مشتاق ہے۔ فقراء جنت میں بلا حساب داخل ہوں گے۔ ان کی شفاعت ان تمام لوگوں کے بارے میں مقبول ہوگی جنھوں نے ان پر ایک گھونٹ پانی سے بھی احسان کیا ہے۔ فقیر پر تصدق ہونے والا ایک درہم امیر کو دئے جانے والے ہزار درہم سے بہتر ہے۔ اللہ مردِ مومن فقیر سے اسی طرح پیش آئے گا جس طرح ایک مومن اپنے برادرِ مومن سے معذرت کرتا ہے۔ یعنی منادی آواز دے گا فقراء مومنین کہاں ہیں؟ تو کچھ لوگ سامنے آئیں گے اور پروردگار ارشاد فرمائے گا میری عزت و جلال و بلندی و نعمت کی قسم ہم نے تم کو نعمات دنیا سے محروم اس لئے نہیں رکھا تھا کہ تم ہماری نگاہ میں ذلیل تھے، ہم نے تمہاری نعمتوں کو یہاں کے لئے ذخیرہ کیا تھا۔ دیکھو جس نے تمہارے ساتھ ایک گھونٹ پانی سے بھی احسان کیا ہے اسے اپنے ہمراہ جنت میں لے جا سکتے ہو۔

فرزند یاد رہے کہ فقر ممدوح کے لئے بھی چند شرائط ہیں۔

پہلی شرط: اس طرح باعفت رہے کہ لوگ اسے مالدار سمجھیں اور لوگوں سے اپنی غربت کا اظہار نہ کرے۔ اپنی ضرورت کی بلا ضرورت شکایت نہ کرے، اور اگر دل تنگ ہو جائے تو معتبر دوست یا برادر مومن سے بیان کرے اور وہ بھی اس امید کے ساتھ کہ وہ ضرورت کو رفع کر دے گا ورنہ حالات کا پوشیدہ رکھنا ہی بہتر ہے کہ اس طرح پروردگار پر رزق کی ذمہ داری پیدا ہو جاتی ہے ورنہ وہ اسی کے حوالے کر دیتا ہے جس سے فریاد کی ہے اور لوگ اسے ذلیل بھی سمجھتے ہیں۔( ۱۰ )

٭ جناب لقمان نے اپنے فرزند کو نصیحت کی کہ بیٹا میں نے مصبّر کا مزہ بھی چکھا ہے اور درخت کی چھال بھی کھائی ہے لیکن فقیری سے زیادہ تلخی کسی شے میں نہیں ہے لہٰذا کسی دن بھی فقیری پیدا ہو جائے تو لوگوں سے بیان نہ کرنا ورنہ لوگ ذلیل کریں گے اور کام بھی نہ آئیں گے۔ ان حالات میں مالک کی طرف رجوع کرو وہ حالات درست کرنے پر زیادہ قدرت رکھتا ہے۔ کون ایسا ہے جس نے اس سے مانگا ہو اور اس نے نہ دیا ہو۔ کون ایسا ہے جس نے اس پر اعتماد کیا ہو اور اس نے مصیبت سے نجات نہ دلائی ہو۔( ۱۱ )

دوسری شرط: قناعت ہے جس کی تفصیل گذشتہ صفحات میں بیان کی جاچکی ہے۔

تیسری شرط: صبر اور قضائے الٰہی پر رضا ہے جس کے بارے میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جبریل امین نے مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ پروردگار نے آپ کو ایسا تحفہ بھیجا ہے جو کسی نبی کو نہیں دیا ہے اور وہ ہے صبر، پھر ایک تحفہ اس سے بہتر ہے اور وہ ہے قناعت، اور ایک تحفہ اس سے بھی افضل ہے اور وہ ہے رضا، رضا کے معنی یہ ہیں کہ مالک دنیا دے یا نہ دے بندہ بہر حال ناراض نہ ہو اور اپنے معمولی عمل سے بھی خوش نہ ہو بلکہ زیادہ سے زیادہ عمل کرتا رہے۔( ۱۲ )

فرزند! قضائے الٰہی پر راضی رہنا بہت بڑا شرف ہے جس کیلئے جہاد ضروری ہے۔ حدیث قدسی میں ارشاد ہوتا ہے ’’جو شخص میری بلا پر صبر نہ کرے میری قضا سے راضی نہ ہو وہ میرے علاوہ کوئی دوسرا رب تلاش کرلے اور میرے زمین و آسمان سے نکل جائے۔‘‘( ۱۳ )

دوسری روایت میں ہے جو رزق خدا پر راضی رہے گا نہ ملنے پر بھی رنجیدہ نہ ہو گا اور جو شکوہ و فریاد کرے گا اسے کوئی نیکی نصیب نہ ہوگی بلکہ غضب خدا کا سامنا کرنا پڑے گا۔

فرزند! رضائے الٰہی حاصل کرو اور نفس کو اس کے فیصلہ پر مطمئن رکھو خبردار اس سے ناراض نہ ہونا اور نہ اس کی شکایت کرنا۔

چوتھی شرط: یہ ہے کہ ہر حالت میں شکر خدا کرتا رہے راحت ہو یا مصیبت، وسعت ہویا تنگی، پروردگار عالم نے قرآن مجید میں صبر کو شکر سے ملاکر رکھا ہے اور شاکر بندوں سے فضل و احسان کا وعدہ کرتے ہوئے کفرانِ نعمت پر عذاب شدید سے ڈرایا ہے۔

پانچویں شرط: یہ ہے کہ فقر و فاقہ کا مشتاق رہے اور اس کے فوائد کے پیش نظر اس کا استقبال کرے اور یہ دیکھے کہ پروردگار نے قارون جیسے دولت مند کو دھنسا دیا ہے اور عیسیٰ علیہ السلام جیسے نادار پیغمبر کو آسمان پر اٹھا لیا ہے۔

چھٹی شرط: خدا پر اعتراض نہ کرے۔

ساتویں شرط: حرام اور شبہات سے پرہیز کرتا رہے اور فقر و فاقہ میں بھی حرام کا ارتکاب نہ کرے۔

آٹھویں شرط: امر و نہی میں خدا کی اطاعت کرتا رہے اور فقر کی وجہ سے عبادت میں سستی نہ کرے۔ جس قدر ممکن ہو فاقہ میں بھی صدقہ دتیا رہے۔

نویں شرط: اغنیاء کے ساتھ نہ رہے اور دولت کی بناپر ان کا احترام نہ کرے ورنہ روایت میں ہے کہ جو شخص دولت مند کے گھر جاکر ’’دولت کی وجہ سے‘‘ اسکا احترام کریگا اسکا ایک تہائی دین برباد ہو جائے گا۔ دوسری روایت میں نصف دین اور دو تہائی دین کا بھی ذکر ہے (تفسیر صافی سورہ حج) اور جو شخص بھی مالدار کی دولت کے سامنے جھکے گا وہ جنت کا حقدار نہ ہوگا بلکہ آسمانوں میں دشمن خدا و رسول کے نام سے پکارا جائے گا اس کی کوئی دعا قبول نہ ہوگی اور کوئی حاجت پوری نہ ہوگی۔

فرزند! اسباب فقر، اسباب رنج و غم، اسباب نسیان، اسباب نقصانِ عمر سے پرہیز کرتے ہوئے اسباب وسعتِ رزق و طول عمر پر عمل کرو۔ جن کی تفصیل انشاء اللہ دوسرے رسالہ میں بیان ہوگی۔

فرزند! خدا تمہیں مومنین میں قرار دے اور منافقین کے شر سے محفوظ رکھے۔ برادرِ مومن کے حقوق ادا کرتے رہو کہ ہر مومن پر حق ہے اور اس سے برائت ذمہ کا واحد راستہ حق کا ادا کردینا یا معافی طلب کر لینا ہے ورنہ روزقیامت اسکا جواب دینا پڑیگا۔

____________________

[۱] نہج البلاغہ، وسائل الشیعہ ۲، ص ۴۸۲

[۲] تفسیر صافی، ص ۷۶

[۳] وسائل الشیعہ ۲، ص ۴۷۲

[۴] اصول کافی ۲، ص ۳۴۰

[۵] وسائل الشیعہ ۲، ص ۴۸۰

[۶] جامع السعادات ۲، ص ۷۶

[۷] جامع السعادات ۲، ص ۸۲

[۸] جامع السعادات ۲، ص ۸۱

[۹] اصول کافی ۲، ص ۲۶۱

[۱۰] اصول کافی ۲، ص ۱۴۸

[۱۱] وسائل الشیعہ ۲، ص ۵۴

[۱۲] وسائل الشیعہ ۲، ص ۴۴۴

[۱۳] منہاج النجاۃ کا شانی ص ۴۰

فصل چھارم

دیگر مختلف و صیتیں ۲

طلب علم اور اسکی فضیلت سے متعلق وصیتیں

فرزند! خدا تمہیں اپنی مرضی حاصل کرنے کی توفیق دے اور تمہارے مستقبل کو ماضی سے بہتر قرار دے۔ میں تمہیں علم دین حاصل کرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ اس پر واجبات کے ادا کرنے اور محرمات سے بچنے کا دارومدار ہے اور اسکے علاوہ وہ خود ایک امر حسن و مستحسن و باشرف و با فضیلت ہے۔ اس کا درجہ عظیم، منزل بلند، قدر و قیمت جلیل اور بحکم عقل و نقل وہ ایک شرف عظیم ہے۔

عقل کا فیصلہ ہے کہ انسان و حیوان کے درمیان وجہ امتیازیہی علم ہے۔ تمام قابل تصور اشیاء کی دو قسمیں ہیں، قابلِ نمو اور جامد اور واضح ہے کہ نامی جامد سے بہتر ہے۔ پھر نامی کی بھی دو قسمیں ہیں۔ حسّاس و غیر حسّاس۔ واضع سی با ت ہے کہ حساس کا مرتبہ غیر حساس سے بہتر ہے اور حساس کی بھی دو قسمیں ہیں، عالم اور جاہل، اور کھلی ہوئی بات ہے کہ عالم کا مرتبہ جاہل سے بہتر ہے اور اس طرح علم تمام معقولات اور قابل تصور امور میں سب سے عظیم درجہ کا مالک ہے۔

نقلیات میں سورہ اقراء جو بقول اکثر مفسرین قرآن مجید کا پہلا تنزیلی سورہ ہے۔ اس میں اعلان ہوتا ہے کہ رب اکرم نے انسان کو خلق کرنے کے بعد تمام امور کی تعلیم دے دی ہے اس طرح نعمت وجود کے بعد نعمت علم کا ذکر کیا گیا ہے جو دلیل ہے کہ علم کائنات کی سب سے عظیم نعمت ہے اور رب کریم نے انسان کو سب سے بڑا شرف یہی دیا ہے کہ اسے علق سے علم تک پہنچا دیا ہے۔ اس کے علاوہ ارشاد ہوتا ہے:

٭ کیا صاحبانِ علم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ یہ نکتہ صاحبانِ عقل ہی سمجھ سکتے ہیں کہ علم کا مرتبہ جہل سے بالاتر ہے۔( ۱ )

٭ جسے حکمت عطا ہو گئی اسے خیر کثیر مل گیا۔ حکمت توفیق علم و عمل ہے۔( ۲ )

٭ بندوں میں اللہ سے ڈرنے والے صرف علماء ہیں۔( ۳ )

اس کے علاوہ مختلف آیات میں اہل علم کا تذکرہ اپنی ذات کے ساتھ کیا گیا ہے جو شرف و عظمت کی بہترین دلیل ہے۔ روایات میں بھی علم کے بے حد فضائل وارد ہوئے ہیں۔

٭ عبد اللہ بن میمون قداح نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص بھی دین کے راستے پر چلتا ہے خداوند کریم اسے جنت کے راستے پرلے جاتا ہے اور ملائکہ اس کے پیروں کے نیچے پر بچھا تے ہیں۔ آسمان و زمین کی ہر مخلوق یہاں تک کہ ماہیانِ دریا بھی اس کے حق میں استغفار کرتی ہیں۔ عالم کا مرتبہ عابد کے مقابلے میں جیسے چودہویں کا چاند ستاروں کے مقابلہ میں۔ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیاء اپنی وراثت کے لئے درہم و دینار کا انتظام نہیں کرتے بلکہ علم کو وراثت قرار دیتے ہیں کہ جسے یہ میراث مل جائے اسے بہت کچھ مل گیا۔

(واضح رہے کہ روایات میں انبیاء کے اہتمام کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ درہم و دینار کو اپنی میراث نہیں بناتے ہیں اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ اگر ان کے مرنے پر درہم و دینار بچ جائیں تو ان کے ورثہ کے علاوہ کسی اور کو مل جائیں گے۔ وارث بنانا اور ہے اور وارث ہونا اور ہے۔ علم کے لئے وارث بناتے ہیں اور مال کے لئے وارث ہوتے ہیں چاہے دونوں ایک ہی ہوں یا الگ الگ۔ جوادی)

٭ اصبغ بن بناتہ نے امیر المومنین علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ علم حاصل کرو کہ اس کا پڑھنا نیکی ہے، مذاکرہ تسبیح ہے، بحث جہاد ہے اور تعلیم دینا ایک صدقہ ہے۔ علم صاحب علم کے لئے ذریعہ تقرب، وجہ معرفت حلال و حرام ہے اس کے ذریعہ جنت حاصل ہوتی ہے۔ وہ انیس وحشت، مونس تنہائی، سلاح جنگ اور زینت احباب ہے۔ اور پروردگار نے اسی کے ذریعہ افراد کو خیر کا قائد قرار دیا ہے کہ ان کے اعمال پر نگاہ رکھی جائے اور ان کے آثار کا اتباع کیا جائے۔ علم قلوب کی زندگی۔ آنکھوں کی بصارت، بدن کی قوت اور منازل ابرار تک جانے کا ذریعہ ہے۔ علم سے اللہ کی عبادت اور اطاعت، معرفت و توحید حاصل ہوتی ہے۔ علم کے ذریعہ صلۂ رحم، معرفت حلال و حرام ہوتی ہے۔ علم عقل کا امام ہے اور عقل علم کی تابع، علم نیک بختوں کے لئے الہام خداوندی ہے اور بد بختوں کی محرومی کا اظہار و اعلان ہے۔( ۴ )

٭ حسن بن ابی الحسن الفارسی نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے اللہ طالبان علم کو دوست رکھتا ہے۔( ۵ )

٭ ابو اسحاق نے اپنے وسیلہ سے امیر المومنین علیہ السلام کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ’’ایہا الناس‘‘ یاد رکھو دین کا کمال علم حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔ طلب علم طلب مال سے زیادہ واجب ہے۔ مال مقدر اور مضمون ہے اسے ایک عادل نے تقسیم کر کے اس کی ضمانت لے لی ہے وہ اپنے وعد کو وفا کرے گا۔ علم صاحبان علم کے پاس ذخیرہ ہے وہ تمہیں حاصل کرنا پڑے گا۔ لہٰذا حکم خداوندی کے مطابق علم حاصل کرو۔( ۶ )

٭ بو حمزہ شمالی نے امام سجاد علیہ السلام کا ارشاد نقل کیا ہے کہ اگر لوگوں کو طلب علم دین کا شرف معلوم ہوجائے تو جانیں دے کر اور دریاؤں میں گھس کر علم دین حاصل کرنے لگیں۔ پروردگار نے جناب دانیال کی طرف وحی کی کہ بد ترین بندہ جاہل اور اہل علم کی توہین کرنے والا، ان کی اقتداء نہ کرنے والا ہے اور محبوب ترین بندہ متقی۔ طالب ثواب۔ مصاحب علماء تابع علماء اور حکماء سے اثر قبول کرنے والا ہے۔( ۷ )

٭ وسری روایت میں ہے کہ جس عالم کے علم سے فائدہ اٹھایا جائے وہ ستر ہزار عابدوں سے بہتر ہے۔( ۸ )

٭ عاویہ بن عمار کی روایت ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ جو روایت کرنے والا آپ کی احادیث نشر کرے اور اسے مومنین کے قلوب میں ثبت کرے اور جو عابد یہ شان نہ رکھتا ہو ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ فرمایا کہ ایسا بافضل راوی ہزار عابدوں سے بہتر ہے۔( ۹ )

٭ سول اکر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم فرماتے ہیں کہ زندگی میں خیر صرف دو قسم کے لوگوں کے لئے ہے وہ عالم جس کی اطاعت کی جائے اور وہ سننے والا جو غور سے سنے اور حاصل کرے۔( ۱۰ )

٭ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بشیر دہان سے فرمایا کہ میرے اصحاب میں جو شخص علم دین حاصل نہ کرے وہ لا خیرا ہے۔ بشیر یاد رکھو جو شخص اپنے کو فقہ کے ذریعہ بے نیاز نہ بنائے گا وہ لوگوں کے علم کا محتاج ہوگا اور لوگ اسے لا علمی میں گمراہی کی طرف کھینچ لے جائیں گے۔( ۱۱ )

٭ لیمان بن جعفر کی روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ عالم کا مرتبہ روزہ دار، قائم اللیل مجاہدہ راہ خدا سے بہتر ہے۔ عالم کی موت سے اسلام میں وہ خلاء پیدا ہوتا ہے، جسے کوئی شے پر نہیں کر سکتی۔( ۱۲ )

٭ مام علیہ السلام نے فرمایا کہ ابلیس کی نظر میں عالم کی موت سے زیادہ محبوب کسی مومن کی موت نہیں ہے۔( ۱۳ )

٭ مام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ مومن کی موت پر آسمان کے ملائکہ، زمین کی تمام عبادت گاہیں اور آسمان کے تمام دروازے جن سے اس کے اعمال بلند ہوتے تھے سب گریہ کرتے ہیں اور اسلام میں ایک رخنہ پیدا ہوجاتا ہے کہ علمائے مومنین اسلام کے قلعے ہیں جس طرح شہر میں شہر پناہ کا قلعہ ہوتا ہے۔( ۱۴ )

اسکے علاوہ بے شمار روایات ہیں جو حدیث کی تفصیلی کتابوں میں پائے جاتے ہیں لہٰذا فرزند خبردار یہ عظیم مرتبہ، یہ بلند ترین شرف، یہ ثواب جسیم، یہ اجر جزیل تمہارے ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ خبردار مالِ دنیا کے چکر میں نہ پڑ جانا کہ اس کی وجہ سے علم دین کو ترک کردو بلکہ علم کے لئے فقر و فاقہ برداشت کرنے پر آمادہ ہو کہ اس کے ذریعہ دائمی بے نیازی اور ابدی عزت نصیب ہوتی ہے۔ امر معاش میں دشواری ہو تو آخرت کے جزا اور اجر جمیل کو یاد کرو اس کی وجہ سے تمام دشواریاں ہلکی ہو جائیں گی اور پھر یہ دیکھو کہ جن لوگوں نے علم دین کو ترک کر کے روزی کما نے کا راستہ اختیار کیا ہے وہی کون سے خوشحال اور مطمئن ہیں۔ وہ تو دنیا و آخرت دونوں کی سعادت سے محروم ہیں تمہیں کم از کم سعادتِ آخرت تو ہاتھ آگئی۔

اور فرزند دیکھو قناعت کو ساتھ رکھنا اور زینت دنیا کے چکر میں نہ پڑ جانا۔ اس دنیا نے فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی قدر نہیں کی تو تمہاری کیا حقیقت ہے۔ اس نے جب امام حسین علیہ السلام پر یزید نجس کو مقدم کر دیا تو ایسی بے وفا اور منحوس دنیا سے دل لگانا شعارِ عقل و محبت کے خلاف ہے۔ ابن سینا جیسے فلاسفہ نے بھی اس کی شدید مذمت کی ہے اور یہ کہا ہے کہ اس کا نتیجہ ہمیشہ اخس مقدمات کا تابع ہوتا ہے۔ (یہ ایک منطقی قانون ہے کہ مقدمات میں جو مقدمہ سب سے کمزور ہوتا ہے نتیجہ اسی کا تابع ہوا کرتا ہے۔ جوادی)

فرزند! خواہ علم میں جو بھی زحمت اور فقیری سامنے آئے اس سے بددل نہ ہونا اور اپنا کام کئے جانا۔ یہ یاد رکھنا کہ یہ دار رنج و تعب ہے یہاں راحت کا تلاش کرنا غلط ہے۔ یہ دنیا تمہاری طرف متوجہ ہوگئی تو تمہیں آخرت سے بیگانہ بنا دے گی۔ تقویٰ سے روک دے گی۔ مہملات کے فریب میں مبتلا کردے گی اور دھوکہ میں ڈال کر اپنا سارا بوجھ تمہارے ذمہ ڈال دے گی۔ اس کا طالب ہمیشہ پریشان حال رہتا ہے۔ اس کا حال جہنم کے جیسا ہے جہاں سے ہمیشہ ھَل٘ مِن٘ مَزِی٘د کی آواز آتی رہتی ہے اور کسی کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔ اس سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ آخرت سے دل لگاؤ پھر کوئی پریشانی، اضطراب اور رنج و غم باقی نہ رہ جائے گا۔

فرزند! میری جان کی قسم! ترکِ دنیا وہ لذت ہے جس کا ہزارواں حصہ بھی وہ شخص محسوس نہیں کر سکتا جو دنیا سے دل لگائے ہوئے ہے اور اس کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے مگر یاد رکھنا کہ ترک دنیا سے مراد صوفیت اور اظہار زہد یا ترک لذات اور تمام مال کا لٹا دینا نہیں ہے۔ یہ امور تو شریعت میں ناپسندیدہ ہیں۔ ترکِ دنیا سے مراد اس سے دل نہ لگانا۔ اس کی لذتوں کا عاشق نہ ہونا اور جو کچھ ہاتھ میں ہے اس پر خدا سے زیادہ بھروسہ نہ کرنا اور رضائے الٰہی پر راضی رہنا ہے جس کی طرف عبد اللہ بن ابی یعفور کی روایت صحیحہ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کی کہ میں دنیا سے محبت کرتا ہوں کہ وہ مجھے مل جائے۔ فرمایا اس قدر محبت ہے۔ مل جائے تو کیا کرو گے۔ عرض کی اپنے اوپر اور اپنے عیال پر خرچ کروں گا۔ راہِ خدا میں صدقہ دوں گا۔ حج و عمرہ کروں گا۔ فرمایا یہ طلبِ دنیا نہیں ہے طلب آخرت ہے۔( ۱۵ )

____________________

[۱] سورۂ زمر

[۲] صورہ بقرہ ۲۶۹

[۳] سورۂ فاطر ۲۹

[۴] بحار الانوار ص ۵۴

[۵] اصول کافی ص ۳۰

[۶] اصول کافی ۱، ص ۳۰

[۷] اصول کافی ۱، ص ۳۵

[۸] اصول کافی ۱، ص ۳۳

[۹] اصول کافی ۱، ص ۳۳

[۱۰] اصول کافی ۱، ص ۳۳

[۱۱] اصول کافی ۱، ص ۳۳

[۱۲] اصول کافی ۱، ص ۳۸

[۱۳] اصول کافی ۱، ص ۳۸

[۱۴] اصول کافی ۱، ص ۳۸

[۱۵] وسائل الشیعہ ۲، ۵۳۰