توبہ
فرزند! اگر شیطان تمہارے دل میں وسوسہ پیدا کر کے مخالفت پروردگار پر آمادہ بھی کردے تو خبردار توبہ کو فراموش نہ کردینا اور فی الفور توبہ کرلینا کہ توبہ گناہوں کو محو کردیتا ہے۔
ہمیشہ توبہ کرتے رہو کہ خدا جانے کب کون سی خطا ہوجائے اور قدم پھسل جائیں۔
فرزند! یاد رکھو توبہ فقط استغفار کا نام نہیں ہے کہ انسان گناہ کرتا رہے اور استغفر اللہ کہتارہے یہ توبہ نہیں ہے یہ تو پروردگار کا مذاق اڑانا ہے۔ توبہ کے معنی یہ ہیں کہ اس میں چھ چیزیں پائی جاتی ہوں۔
۱. گذشتہ پر ندامت۔
۲. آئندہ کے لئے عزم محکم کہ اب ایسا گناہ نہ کریں گے۔
۳. مخلوقین کے حقوق کی ادائیگی کہ مال ہے تو واپس کردیا جائے اور غیبت و غیرہ ہے تو معافی طلب کرلی جائے۔
۴. جن فرائض میں کوتاہی ہوگئی ہے ان کی قضا کی جائے۔
۵. جو گوشت مال حرام سے پیدا ہوا ہے اسے حزن و الم کے ذریعہ گھٹا دیا جائے کہ کھال اور ہڈی رہ جائے اور پھر سے نشو و نما ہو۔
۶. جتنی معصیت سے لذت حاصل کی ہے اتنی ہی اطاعت کی زحمت برداشت کی جائے۔
ان شرائط کے بعد توبہ مکمل ہوتی ہے اور اسے توبۂ کاملہ کہا جاتا ہے۔
یاد رکھو کہ یہ پروردگار عالم کا امت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر احسان ہے کہ اس نے توبہ و استغفار پر گناہوں کے بخشنے کا وعدہ کرلیا ہے ورنہ دورِ قدیم میں توبہ کا قانون اس قدر سخت تھا کہ آج کے انسانوں کے لئے ناقابل تصور ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے سورہ بقرہ کی آخری آیات کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ پروردگار نے اس امت سے بہت سے بوجھ اٹھا لئے ہیں اور اس کا بوجھ بالکل ہلکا کردیا ہے ورنہ زمانہ قدیم میں گناہ دروازے پر لکھ دیئے جاتے تھے توبہ کے لئے ترک لذات ضروری تھا اور اس امت میں پردہ پوشی سے کام لیا جاتا ہے اور آب و غذا بھی حرام نہیں ہوتا۔ سابق امتوں میں پچاس ۵۰! ، اسی ۸۰! اور سو ۱۰۰! سال توبہ کے بعد بھی ادنیٰ عتاب ضرور نازل ہوتا تھا اور اب مختصر توبہ پر بھی مستقل عذاب بر طرف ہو جاتا ہے چاہے انسان نے برسہا برس گناہ کئے ہوں۔
(اس روایت میں بے شمار نعمتوں اور رحمتوں کا تذکرہ ہے۔ تفسیر صافی کا مطالعہ اس باب میں بے حد مفید ہوگا۔ جوادی)
پروردگار عالم نے اس امت کے لئے توبہ کا مسئلہ اتنا آسان کردیا ہے کہ روایت میں ہے کہ ایک شخص نے ۹۹ آدمیوں کو قتل کر کے ایک عابد و زاہد سے دریافت کیا کہ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ اس نے اسے بھی تہہ تیغ کردیا اور اب ایک عالم کے پاس پہونچا، اس نے کہا کہ خدا ارحم الراحمین ہے اب بھی توبہ قبول کر سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ فلاں سرزمین پر ایک نبی خدا ہے اس کے پاس جاکر توبہ کرو۔ یہ شخص نبی خدا کی جستجو میں چلا۔ اثنائے راہ انتقال ہو گیا تو مصلحت پروردگار نے ملائکۂ رحمت و عذاب دونوں بھیجے، ایک کا کہنا تھا کہ گناہگار ہے، دوسرے کا کہنا تھا کہ راہِ توبہ پر جارہا تھا۔ ارشادِ قدرت ہوا کہ زمین معصیت اور زمین توبہ کی پیمائش کی جائے کہ یہ کس سے زیادہ قریب ہے۔ پیمائش کی گئی۔ زمین توبہ ایک بالشت کم نکلی۔ حکم خدا ہوا کہ ملائکۂ رحمت اسے لے جائیں اس لئے کہ یہ توبہ سے ایک بالشت زیادہ قریب ہو چکا تھا۔ اور بعض روایات کی بناء پر خود پروردگار نے زمین توبہ کا فاصلہ کم کردیا کہ ارادۂ توبہ ہی سب سے بڑی توبہ ہے۔
(واضح رہے کہ اس طرح کی روایات ایک قسم کی تمثیل ہیں جن سے اصل مقصد کی تفہیم مقصود ہے ورنہ بغیر اذنِ خدا کے فرشتے حرکت نہیں کر سکتے دو طرح کے فرشتوں کے آنے اور آپس میں تکرار کرنے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ جوادی)
فرزند! یاد رکھو، پروردگار اپنے بندوں پر بے حد مہربان ہے۔ اس نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے وہ توابین کو دوست رکھتا ہے۔
اور بعض روایات میں ہے کہ جب کوئی بندہ توبہ کرتا ہے تو خداوند اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جسے شام کے وقت صبح کا کھویا ہوا جانور مل جائے اس لئے کہ جانور کا پلٹ آنا آسان ہے اور انسان کا توبہ کرنا مشکل ہے۔
توبہ میں عجلت
فرزند! توبہ کرو۔ مسلسل توبہ کرو اور گناہ کے بعد فوراً توبہ کرو کہ معاملہ ہاتھ سے نکلنے نہ پائے اور عتاب الٰہی نازل نہ ہونے پائے۔ خبردار توبہ میں سستی اور کاہلی نہ برتنا کہ اس تاخیر میں سخت آفتیں ہیں۔ شاید ملک الموت ہی آجائیں اور وقت توبہ نکل جائے۔
گناہ کا حساب ایک معمولی پودے کا ہوتا ہے کہ فی الفور اکھاڑ لیا تو اکھاڑ لیا ورنہ جڑپکڑلی تو اکھاڑنا مشکل ہوجائے گا۔ یہی حال گناہوں کا ہے کہ فوراً توبہ کرلی تو خیر ورنہ عادت پڑ گئی تو تاخیر ہی ہوتی رہے گی اور توبہ نصیب نہ ہوگی۔
روایات میں ہے کہ پروردگار گناہ کے بعد سات ساعت، نو ساعت یا ایک دن کی مہلت دیتا ہے اور اتنی دیر تک گناہ درج نہیں کئے جاتے۔ اس کے بعد اگر توبہ نہیں کی تو گناہ ثبت کر دیئے جائیں گے اور توبہ بھی مشکل ہوجائے گی۔
٭ توبہ سے طول عمر، وسعت رزق اور حسن حال پیدا ہوتا ہے۔ خبردار اس میں کوتاہی اور سستی نہ ہونے پائے کہ تمام نعمتوں سے محروم ہوجاؤ۔
تلخی حالات پر صبر
فرزند! اللہ تم کو رزق اور عفت عنایت فرمائے۔ ہمیشہ تلخی حالات میں صبر کو شعار بنائے رکھنا۔ مالک کائنات نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے ارشاد فرمایا تھا کہ جب بھی دنیا کو اپنی طرف آتے دیکھو تو کہو اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون۔ یہ ایک عذاب ہے جو آرہا ہے۔ اور جب دنیا کو منھ پھیر تے دیکھو تو فقر کا استقبال کرو کہ یہ صالحین کا شعار ہے۔
٭ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ فقیری قدرت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔
٭ فقیری وہ نعمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نبی مرسل اور مومن کریم کو عطا کرتا ہے۔
٭ فقیری خدا کی طرف سے ایک کرامت اور عزت ہے۔
٭ فقیری مومن کی زینت ہے۔
٭ اہل جنت کی اکثریت فقراء کی ہے۔ جنت میں سب سے کم تعداد مالداروں اور عورتوں کی ہوگی۔ انسان جتنا ایمان میں ترقی کرتا جاتا ہے اتنی ہی معیشت میں تنگی بڑھتی جاتی ہے۔
٭ انبیاء میں سب سے آخر میں جناب سلیمان داخل جنت ہوں گے کہ انھیں پوری مملکت کا حساب دینا ہوگا۔
٭ فاقہ پر صبر ایک جہاد ہے۔ فاقہ ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے فقراء جنت میں اغنیاء سے پانچ سو سال پہلے داخل ہوں گے (جو آخرت کا آدھا دن ہوگا)۔ جنت میں یاقوت کے ایسے کمرے ہوں گے جنھیں اہل جنت اسی طرح حیرت سے دیکھیں گے جس طرح اہل زمین ستاروں کو دیکھتے ہے۔ ان کمروں کے ساکن نبی، شیعہ اور مومن نادار ہوں گے۔ فقراء جنت کے باشاہ ہیں۔ سارے انسان جنت کے مشتاق ہیں اور جنت فقیروں کی مشتاق ہے۔ فقراء جنت میں بلا حساب داخل ہوں گے۔ ان کی شفاعت ان تمام لوگوں کے بارے میں مقبول ہوگی جنھوں نے ان پر ایک گھونٹ پانی سے بھی احسان کیا ہے۔ فقیر پر تصدق ہونے والا ایک درہم امیر کو دئے جانے والے ہزار درہم سے بہتر ہے۔ اللہ مردِ مومن فقیر سے اسی طرح پیش آئے گا جس طرح ایک مومن اپنے برادرِ مومن سے معذرت کرتا ہے۔ یعنی منادی آواز دے گا فقراء مومنین کہاں ہیں؟ تو کچھ لوگ سامنے آئیں گے اور پروردگار ارشاد فرمائے گا میری عزت و جلال و بلندی و نعمت کی قسم ہم نے تم کو نعمات دنیا سے محروم اس لئے نہیں رکھا تھا کہ تم ہماری نگاہ میں ذلیل تھے، ہم نے تمہاری نعمتوں کو یہاں کے لئے ذخیرہ کیا تھا۔ دیکھو جس نے تمہارے ساتھ ایک گھونٹ پانی سے بھی احسان کیا ہے اسے اپنے ہمراہ جنت میں لے جا سکتے ہو۔
فرزند یاد رہے کہ فقر ممدوح کے لئے بھی چند شرائط ہیں۔
پہلی شرط: اس طرح باعفت رہے کہ لوگ اسے مالدار سمجھیں اور لوگوں سے اپنی غربت کا اظہار نہ کرے۔ اپنی ضرورت کی بلا ضرورت شکایت نہ کرے، اور اگر دل تنگ ہو جائے تو معتبر دوست یا برادر مومن سے بیان کرے اور وہ بھی اس امید کے ساتھ کہ وہ ضرورت کو رفع کر دے گا ورنہ حالات کا پوشیدہ رکھنا ہی بہتر ہے کہ اس طرح پروردگار پر رزق کی ذمہ داری پیدا ہو جاتی ہے ورنہ وہ اسی کے حوالے کر دیتا ہے جس سے فریاد کی ہے اور لوگ اسے ذلیل بھی سمجھتے ہیں۔
٭ جناب لقمان نے اپنے فرزند کو نصیحت کی کہ بیٹا میں نے مصبّر کا مزہ بھی چکھا ہے اور درخت کی چھال بھی کھائی ہے لیکن فقیری سے زیادہ تلخی کسی شے میں نہیں ہے لہٰذا کسی دن بھی فقیری پیدا ہو جائے تو لوگوں سے بیان نہ کرنا ورنہ لوگ ذلیل کریں گے اور کام بھی نہ آئیں گے۔ ان حالات میں مالک کی طرف رجوع کرو وہ حالات درست کرنے پر زیادہ قدرت رکھتا ہے۔ کون ایسا ہے جس نے اس سے مانگا ہو اور اس نے نہ دیا ہو۔ کون ایسا ہے جس نے اس پر اعتماد کیا ہو اور اس نے مصیبت سے نجات نہ دلائی ہو۔
دوسری شرط: قناعت ہے جس کی تفصیل گذشتہ صفحات میں بیان کی جاچکی ہے۔
تیسری شرط: صبر اور قضائے الٰہی پر رضا ہے جس کے بارے میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جبریل امین نے مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ پروردگار نے آپ کو ایسا تحفہ بھیجا ہے جو کسی نبی کو نہیں دیا ہے اور وہ ہے صبر، پھر ایک تحفہ اس سے بہتر ہے اور وہ ہے قناعت، اور ایک تحفہ اس سے بھی افضل ہے اور وہ ہے رضا، رضا کے معنی یہ ہیں کہ مالک دنیا دے یا نہ دے بندہ بہر حال ناراض نہ ہو اور اپنے معمولی عمل سے بھی خوش نہ ہو بلکہ زیادہ سے زیادہ عمل کرتا رہے۔
فرزند! قضائے الٰہی پر راضی رہنا بہت بڑا شرف ہے جس کیلئے جہاد ضروری ہے۔ حدیث قدسی میں ارشاد ہوتا ہے ’’جو شخص میری بلا پر صبر نہ کرے میری قضا سے راضی نہ ہو وہ میرے علاوہ کوئی دوسرا رب تلاش کرلے اور میرے زمین و آسمان سے نکل جائے۔‘‘
دوسری روایت میں ہے جو رزق خدا پر راضی رہے گا نہ ملنے پر بھی رنجیدہ نہ ہو گا اور جو شکوہ و فریاد کرے گا اسے کوئی نیکی نصیب نہ ہوگی بلکہ غضب خدا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
فرزند! رضائے الٰہی حاصل کرو اور نفس کو اس کے فیصلہ پر مطمئن رکھو خبردار اس سے ناراض نہ ہونا اور نہ اس کی شکایت کرنا۔
چوتھی شرط: یہ ہے کہ ہر حالت میں شکر خدا کرتا رہے راحت ہو یا مصیبت، وسعت ہویا تنگی، پروردگار عالم نے قرآن مجید میں صبر کو شکر سے ملاکر رکھا ہے اور شاکر بندوں سے فضل و احسان کا وعدہ کرتے ہوئے کفرانِ نعمت پر عذاب شدید سے ڈرایا ہے۔
پانچویں شرط: یہ ہے کہ فقر و فاقہ کا مشتاق رہے اور اس کے فوائد کے پیش نظر اس کا استقبال کرے اور یہ دیکھے کہ پروردگار نے قارون جیسے دولت مند کو دھنسا دیا ہے اور عیسیٰ علیہ السلام جیسے نادار پیغمبر کو آسمان پر اٹھا لیا ہے۔
چھٹی شرط: خدا پر اعتراض نہ کرے۔
ساتویں شرط: حرام اور شبہات سے پرہیز کرتا رہے اور فقر و فاقہ میں بھی حرام کا ارتکاب نہ کرے۔
آٹھویں شرط: امر و نہی میں خدا کی اطاعت کرتا رہے اور فقر کی وجہ سے عبادت میں سستی نہ کرے۔ جس قدر ممکن ہو فاقہ میں بھی صدقہ دتیا رہے۔
نویں شرط: اغنیاء کے ساتھ نہ رہے اور دولت کی بناپر ان کا احترام نہ کرے ورنہ روایت میں ہے کہ جو شخص دولت مند کے گھر جاکر ’’دولت کی وجہ سے‘‘ اسکا احترام کریگا اسکا ایک تہائی دین برباد ہو جائے گا۔ دوسری روایت میں نصف دین اور دو تہائی دین کا بھی ذکر ہے (تفسیر صافی سورہ حج) اور جو شخص بھی مالدار کی دولت کے سامنے جھکے گا وہ جنت کا حقدار نہ ہوگا بلکہ آسمانوں میں دشمن خدا و رسول کے نام سے پکارا جائے گا اس کی کوئی دعا قبول نہ ہوگی اور کوئی حاجت پوری نہ ہوگی۔
فرزند! اسباب فقر، اسباب رنج و غم، اسباب نسیان، اسباب نقصانِ عمر سے پرہیز کرتے ہوئے اسباب وسعتِ رزق و طول عمر پر عمل کرو۔ جن کی تفصیل انشاء اللہ دوسرے رسالہ میں بیان ہوگی۔
فرزند! خدا تمہیں مومنین میں قرار دے اور منافقین کے شر سے محفوظ رکھے۔ برادرِ مومن کے حقوق ادا کرتے رہو کہ ہر مومن پر حق ہے اور اس سے برائت ذمہ کا واحد راستہ حق کا ادا کردینا یا معافی طلب کر لینا ہے ورنہ روزقیامت اسکا جواب دینا پڑیگا۔
____________________