مھدی منتظر اور اسلامی فکر

مھدی منتظر اور اسلامی فکر0%

مھدی منتظر اور اسلامی فکر مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

مھدی منتظر اور اسلامی فکر

مؤلف: سید محمد نقوی
زمرہ جات:

مشاہدے: 9310
ڈاؤنلوڈ: 2842

تبصرے:

مھدی منتظر اور اسلامی فکر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 14 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9310 / ڈاؤنلوڈ: 2842
سائز سائز سائز
مھدی منتظر اور اسلامی فکر

مھدی منتظر اور اسلامی فکر

مؤلف:
اردو

حدیث:۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام پیغمبر کے نواسے حضرت امام حسن علیہ السلام کی اولادسے ہیں۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حضرت حسن علیہ السلام کی اولادسے ہونے کے بارے میں کتب اہل سنت میں صر ف ایک حدیث بلکہ عالم اسلام کی کتابوں میں اس کے علاوہ کوئی دوسری حدیث نہیں ہے۔

اوراس حدیث کوابو داودسجستانی نے اپنی سنن میں ذکرکیاہے وہ کہتے ہیں میرے لیے ہارون بن مغیرہ سے نقل کیا گیا کہ اس نے عمربن ابوقیس سے اوراس نے شعیب بن خالدسے اوراس نے ابواسحاق سے روایت کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت امام حسن علیہ السلام کودیکھ کرفرمایا:۔

"ان ابنی هذا سید کما سماه النبی صلی علیه وآله وسلم وسیخرج من صلبه رجل یسمی باسم نبیکم ،یشبههه فی الخلق ولایشبهه فی الخلق "

"میرا یہ بیٹاسردارہے جیسا کہ نبی اکرم نے اسے یہ نام دیاہے اوراس کی صلب سے ایک مولودہوگا جو تمہارے نبی کا ہمنام ہوگا وہ خلق (اخلاق)میں نبی کا مشابہ ہوگا نہ خلقت میں"

اس کے بعدیہ جملہ فرمایا کہ وہ زمین کو عدل سے پرکردے گا(سنن ابوداود ۴:۱۰۸۔۴۲۹۰، اسی سے جامع الاصول میں نقل ہوا ہے ۱۱:۴۹۔۵۰۔ ۷۸۱۴، کنزالعمال ۱۳:۲۵۷۔۳۷۶۳۶،نعیم بن حمادنے اسے الفتن میں ذکرکیاہے۱:۳۷۴۔۱۱۱۳)

حدیث کے باطل ہونے پرسات دلیلیں نعیم بن حمادکی الفتن ۱:۳۷۵ ،اوراسی سے تشریف بالنن میں نقل ہوا ہے :۱۷۶۔۲۳۷ باب نمبر۶۳

حدیث کے باطل ہونے پر سات دلیلیں

اس حدیث کی سند اورمتن میں غور کرنے اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حضرت امام حسین علیہ السلام کی اولادسے ہونے والی احادیث کے ساتھ اگرموازنہ کرنے سے بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ یہ حدیث جعلی ہے۔

پہلی دلیل:

۔یہی حدیث ابوداؤدسے مختلف طریقوں سے نقل ہوئی ہے چنانچہ جزری شافعی (متوفی ۸۳۳ہجری)نے اس حدیث کو اپنی سندکے ساتھ خودابوداؤد سے نقل کیا ہے اوراس حدیث کو سندکے ساتھ خودابوداؤد سے نقل کیا ہے اوراس میں حضرت امام حسن علیہ السلام کی بجائے حضرت امام حسین کا نام لکھتے ہیں:۔

"صحیح یہ ہے کہ حضرت امام مہدی حسین ابن علی علیھما السلام کی اولادسے ہیں کیونکہ اس بات کی خود حضرت علی علیہ السلام نے وضاحت فرمائی ہی"۔

جیسا کہ شیخ عمربن حسن رقی نے مجھے یہ خبردی ہے انہوں نیابوالحسن بخاری سے ، اس عمربن محمدقزی سے اس ابوبدرکرخی سے اس بے ابوبکرخطیب سے ، اس نے ابوعمرہاشمہ سے اس نیابوعلی لولوئی سے اوراس نے حافظ ابوداودسے وہ لکھتے ہیں مجھے ہارون بن مغیرہ سے نقل کیا گیااس نے عمربن ابوقیس سے اس نے شعیب بن خالدسے اوراس نے ابواسحاق سے روایت کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرف دیکھ کرفرمایا:۔

"ان ابنی هذا سید کما سماه النبی صلی الله علیه وآله وسلم ،وسیخرج من صلبه رجل یسمی باسم نبیکم ، یشبهه فی الخلق ،ولا یشبهه فی الخلق "

"میرا یہ بیٹاسیدہے جیساکہ پیغمبراکرم نے اس کانام رکھاہے اوراس کے صلب سے ایک مولودہوگا جوتمہارے نبی کا ہمنام ہوگا وہ ان کے خلق (اخلاق )میں مشابہ ہوگا نہ کہ خلقت میں "۔

پھر یہ جملہ ارشادفرمایاکہ وہ زمین کوعدل سے پرکردے گا۔

ابوداؤدنے اسے اپنی سنن میں اسی طرح روایت کیا ہے اوراس پرکوئی تبصرہ نہیں کیا(اسمی الماقب فی تھذیب اسنی المطالب ، علامہ جزری دمشقی شافعی :۱۶۵۔۱۶۸۔۶۱)ہم نے بعینہ اصلی الفاظ کونقل کیا ہے

مقدسی شافعی نے عقدالدررصفحہ۴۵باب اول پراسے ذکرکیاہے اس میں حضرت امام حسن علیہ السلام کانام ہے اوراس کی تحقیق کرنے والے نے حاشیے پرلکھا ہے کہ ایک دوسرے نسخے میں حضرت امام حسین علیہ السلام کانام ہے

اس نسخہ کی تائیدیوں ہوتی ہے کہ سیدصدرالدین نے اس نسخے سے نقل کیاہے کیونکہ انہوں نے عقد االدررسے حدیث نقل کی ہے اوراس میں حضرت امام حسین علیہ السلام کانام ہے (المہدی سید صدرالدین صدر:۶۸)

دوسری دلیل

حدیث منقطع ہے کیونکہ اسے حضرت علی علیہ السلام سے ابواسحاق سبعجی نے روایت کیا ہے اوراس کے متعلق ثابت نہیں ہے کہ اس نے حضرت علی علیہ اسلام سے ایک بھی حدیث سنی ہو جیسا کہ منزری نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے کہا ہے(مختصرسنن ابی منزری ۶:منزری ۶:۱۶۲۔۴۱۲۱)

کیونکہ امیرالمومنین علیہ السلام کی شہادت کے وقت اس کی عمرسات برس تھی کیونکہ ابن حجرکے قول کے مطابق خلافت عثمان کے ختم ہونے سے دوسال پہلے پیدا ہوئے تھا(تہذیب التہذیب ۸:۵۶۔۱۰۰)

تیسری دلیل

اس کی سند مجہول ہے کیونکہ داودکا کہنا ہے کہ مجھے ہارون بن مغیرہ سے نقل کیاگیا معلوم نہیں نقل کرنے والا کون ہے اوربالاتفاق مجہول حدیث ہراعتمادنہیں کیاجاسکتا۔

چھوتھی دلیل

مذکورہ حدیث کو اہل سنت بزرگ عالم دین ابوصالح سلیلی نے اپنی سندکے ساتھ حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے انہوں نے اپنے باپ داداحضرت امام جعفرابن محمدصادق علیھما السلام سے ، انہوں نے اپنے جدحضرت علی ابن ابیطالب علیھما السلام سے روایت کیا ہے اوراس میں حضرت امام حسین علیہ السلام کانام ہے نہ حضرت امام حسن علیہ السلام کا(سید ابن طاوس کی التشریف بالنن :۲۸۵۔۴۱۳باب نمبر ۷۶،انہون نے اسے فتن سلیلی سے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔)

"لولم یبق من الدنیا الا یوم واحد ،لطول الله عزوجل ذلک الیوم حتی یبعث فیه رجلا من ولدی اسمه اسمی "

"دنیااگر کا ایک دن باقی ہو تواس دن کوبھی اللہ تعالی اس قدرطول دے گا کہ اس میں میری اولادمیں سے ایک مرد کو بھیجے گا جومیراہمنام ہوگا"۔

سلمان فارسی نے کھڑے ہوکردریافت کیا یارسول اللہ آپ کے کون سے بیٹے سے ؟

فرمایا :۔من ولدی هذا " میرے اس بیٹے سے اوراپنا ہاتھ حضرت امام حسین علیہ السلام پررکھا"

(ابن قیم نے المنارالنیف :۱۴۸۔۳۲۹ فصل نمبر۵۰ ،میں طبرانی کی کتاب الاوسط سے نقل کیاہے عقدالدرر :۴۵ باب اول(اوراس میں ہے کی اسے حافظ ابو نعین نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حالات میں ذکرکیا ہے )محب طبری کی ذخائز العقبی :۱۳۶(اوراس میں کہا ہے کہ گزشتہ سب حدیثو ں کو اس مقید پر حمل کیا جائے گا)فرائد السمطین ۲:۳۲۵۔۵۷۵باب ۶۱ابن حجر کی القول المختصر۷:۳۷ باب اول ،فرائد فوائد الفکر ۲:باب ۱، السیرة الحلبیہ۱: ۱۹۳،ینابیع المودة ۳:۶۳باب نمبر ۹۴

اسی طرح کی مندرجہ ذیل کتابوں میں احادیث ہیں۔

خوارزمی حنفی کی مقتل الحسین ۱:۱۹۶،فرائد السمطین ۲:۳۱۰۔ ۳۱۵ الاحادیث :۵۶۱،ینابیع المودة ۳:۱۷۰۔۲۱۲ باب نمبر ۹۳، ۹۴

شیعہ کتب میں ملالحظہ ہوں۔

کشف الغمہ۳:۲۵۹، کشف الیقین:۱۱۷، اثبات الھداة ۳:۶۱۷۔۱۷۴باب ۳۲،حلیةالابرار۲:۷۰۱۔۵۴ باب نمبر۴۱،غایہ المرام:۶۹۴۔۱۷ باب۱۴۱ اور "منتخب الاثر"میں اس سلسلے میں طرفین کی ذکرکردہ بہت ساری احادیث نقل کی ہیں

چھٹی دلیل

ابو داؤدکی حدیث میں کتابت کی غلطی کا احتمال بھی بعید نہیں ہے کہ حسین کی جگہ حسن لکھ دیاہوکیونکہ اس کی نقل میں اختلاف ہے رہا یہ احتمال کہ حسن کی جگہ حسین ہو گیاہوتویہ خبرواحد ہے جو متواتر کا مقابلہ نہیں کرسکتی جیسا کہ اس کی تفصیل ہم ذکرکریں گے۔

ساتویں دلیل

گزشتہ وجوہات کی بنا پریہ احتمال قوی ہے کہ یہ حدیث جعلی ہواس احتمال کی تائیداس بات سے ہوتی ہے کہ حسنین اوران کے پیروکاروں اورمددگاروں کاخیال یہ ہے کہ محمد بن عبداللہ بن الحسن المثنی بن امام حسین علیہ السلام ہی امام مہدی ہیں کہ جنہیں ۱۴۵ئھ میں منصورعباسی کے زمانے میں قتل کردیاگیا۔

جیساکہ اس کے بعد عباسیوں اورا ن کے پیروکاروں نے کہا کہ انہوں نے عباسی خلیفہ محمد بن عبداللہ منصور جس کالقب مہدی تھا کے امام مہدی ہونے کا دعوی کیااوراس کے ذریعے وہ اپنے بڑے بڑے سیاسی مقاصدمیں پہنچنا چاہتے تھے جن تک اس مختصرراستے کے بغیرپہنچنا ممکن نہیں تھا۔

مذکورہ حدیث ان حدیثوں کے ساتھ تعارض نہیں رکھتی جو دلالت کرتی ہیں

کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام حضرت امام حسین کی اولادمیں سے ہیں

گزشتہ سب اشکالات سے اگر صرف نظرکرکے ہم اس حدیث کو صحیح مان لیں توبھی ان احادیث کے ساتھ تضادنہیں رکھتی جوواضح طورپرکہتی ہیں کہ حضرت امام مہدی منتظرعلیہ السلا م حضرت امام حسین علیہ السلام کی اولادمیں سے ہیں اوران کے درمیان جمع کرناممکن ہے۔

ا س طرح کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام باپ کی طرف سے حسینی اورماں کی طرف سے حسنی ہوں کیونکہ چوتھے امام زین العابدین کی بیوی اورحضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی ماں حسن مجتبٰی علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا ہیں۔

پس حضرت امام باقرعلیہ السلام باپ کیطرف سے حسینی اورماں کی طرف سے حسنی ہیں تودرحقیقت آپ کی اولا دونوں نواسوں کی اولادسے ہوئی۔

اسی جمع کی قرآن مجید بھی تائیدکرتا ہے چنانچہ ارشاد ہے۔

"( ووهبنا له اسحاق کلا هدینا ونوحا هدینا من قبل ومن زریته داودو سلیمان ) ۔۔۔( وعیسیٰ والیاس کل من الصالحین ) "انعام ۶:۸۴۔۸۰

اورہم نے ابراہیم کو اسحاق ویعقوب عطا کیے ہم نے سب کی ہدایت کی اوران سے پہلے نوح کی (بھی )ہم نے ہدایت کی اوران ہی کی اولادسے داؤد سلیمان ۔۔۔۔اورعیسیٰ والیاس (سب کی ہدایت کی)یہ سب خدا کے نیک بندوں میں سے ہیں۔

اس آیت میں جناب عیسیٰ کو جناب مریم کی وجہ سے انبیاء کی اولادشمارکیاگیاہے لہذااگرحضرت امام محمدباقر علیہ السلام کی اولادکوماں کی وجہ سے حضرت امام حسن علیہ السلام کی اولادشمارکرلیاجائے تواس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔

یہ اس صورت میں ہے کہ داودکی حدیث مان لیں ورنہ مذکورہ ادلہ کی روشنی میں حدیث صحیح ہی نہیں ہے

یہاں تک یہ بات واضح ہوگئی کہ دوسر احتمال (یعنی حضرت امام مہدی علیہ السلام کا حضرت امام حسین علیہ السلام کی اولاد سے ہونا)صرف احتمال نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے چاہے ہم حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حضرت امام حسن علیہ السلام کی اولادسے ہونے والی حدیث کوصحیح سمجھیں یانہ ۔

اگر صحیح سمجھیں تو یہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حضرت امام حسین کی اولادسے ہونے والی احادیت کی مویدبن جائے گی۔

اوراگر اس حدیث کو صحیح نہ مانیں جیسا کہ ہم سات دلیلوں سے ثابت کرچکے ہیں پھرحقیقت کو جاننے کے لیے کسی اورچیزکی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم بتاچکے ہیں کہ دونوں احتمال باطل نہیں ہوسکتے لہذا ایک کا بطلان خودبخود دوسرے احتمال کو ثابت کردیتا ہے۔

کیونکہ یہ تویقینی ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام جناب زھراسلام اللہ علیھا کی اولادسے ہیں۔

وہ حدیثیں جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے امام حسین علیہ السلام کی اولادہونے کے ساتھ تضادرکھتی ہیں

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے سلسلہ نسب کے بارے میں جوبحث کی ہے اس سے واضح ہوگیاہے کہ آپ امام حسین علیہ السلام کی اولادہیں۔

اورشیعوں کے اس عقیدے کو کہ حضرت امام مہدی امام حسین کے نویں فرزندہیں اورآپ پیداہوچکے ہیں اورآپ کے والدگرامی امام حسن عسکری ہیں ثابت کرنے والی احادیث کوذکرکرنے سے پہلت کچھ ان روایات کے بارے میں بحث کرنا ضروری ہے جوان کے معارض ہیں۔

یہ اہل سنت کی وہ روایات ہیں جو حضرت امام مہدی کے والد کا نام عبداللہ بتاتی ہیں اس وجہ سے بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ مہدی عبداللہ کافرزندمحمدہے جو ابھی تک پیدانہیں ہوااورآخری زمانے میں ااپنے ظہورسے کچھ عرصہ قبل پیداہوگا۔

اورچونکہ تواترسے یہ ثابت ہے کہ مہدی ایک ہی ہے لہذافریقین میں سے ایک یقینافرضی مہدی کا منتظرہے فرزندہرفریق کواپنے نظرئیے کی ادلہ میں غور کرناچاہیے مبادہ وہ صحیح نہ ہوں اوردوسرے کی ادلہ میں بھی غورکرنا چاہیے مبادہ وہ صحیح ہوں۔

یہ کام اگرچہ مشکل ہے لیکن اس پر عمل کرنے والا یقینا منزل تک پہنچ جائے گا اوریہ جاننے کے لیے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے والد کانام عبداللہ ہے یا حسن چندباتیں قابل ذکرہیں۔

احادیث :"اسم ابیہ اسم ابی (عبداللہ )

ان احادیث کی تحقیق سے پہلے اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ بعض شیعہ علماء نے ان احادیث کو دیانت داری کی وجہ سے صرف نقل کیا ہے ان پران کا اعتقاد نہیں ہے کیونکہ یہ ان کے بنیادی عقائد کے خلاف ہیں یا اس امیدپرکہ ان کی تاوئل کرکے انہیں اپنے بنیادی عقائد سیکار سازبنایا جاسکتا ہے اور یا بعینہ نقل کرکے مسلمانوں کو ان پرجرح و بحث کی دعوت دی ہے وہ احادیث مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ ابن ابی شیبہ،طبرانی اورحاکم سب نے عاصم بن ابی نجودسے اس نے زربن حبیش سے اس نے عبداللہ بن مسعود سے اورانہوں نے پیغمبراکرم سے روایت کی ہے

کہ آپ نے فرمایا :۔

"لا تذهب الدنیا حتی یبعث الله رجلا یواطی اسمه اسمی‘واسم ابیه اسم ابی "

"دنیا اسوقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک اللہ کے ایسے بندے کو نہ بھیج دے جومیراہمنام ہوگا اوراس کا والد میرے والد کے ہمنام ہوگا"(ابن ابی شیبہ کی المصنف۱۵:۱۹۸۔۱۹۴۹۳‘طبرانی کی المعجم الکبیر ۱۰: ۱۶۳۔۱۰۶۱۳،اور۱۰:۱۶۶۔ ۱۰۲۲۲، مستدرک حاکم ۴:۴۴۶، شیعوں میں سے اسے قتل کیاہے مجلسی نے بحارالانوار میں ۵۱:۸۶۔۲۱، اردبیلی کی کشف الغمہ سے ۳:۲۶۱،اوراردبیلی نے اسے ابو نعیم کی کتاب الاربعین سے نقل کیا ہے۔)

۲۔ ابو عمر ودانی اوعرخطیب بغدادی دونوں نے عاصم بن ابی نجودسے اس نے زربن حبیش سے اس نے عبداللہ بن مسعود سے اورانہوں نے حضرت پیغمبر اسلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:۔

"لا تقوم الساعة حتی یملک الناس رجل من اهل بیتی ،یواطی اسمه اسمی واسم ابیه اسم ابی "

اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک میرے اہل بیت کاایک شخص لوگوں کا حاکم نہ بن جائے جو میرا ہمنام ہوگااوراس کا باپ میرے باپ کا ہمنام ہوگا"(سنن ابوعمر ودانی :۹۴۔۹۵ ،تاریخ بغدارا:۳۷۰،اوراس کی روایت کوکسی شیعہ نے نقل نہیں کیا ہے۔)

۳۔ نعیم بن حماد،خطیب اورا بن حجر سب نے عاصم سے اوراس نے زرسے اوراس نے ابن مسعودسے اورانہوں نے پیغمبر سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:المهدی یواطی اسمه اسمی واسم ابیه اسم ابی "

"مہدی میراہمنام ہے اوراس کا والدمیرے والدکاہم نام ہے"(تاریخ بغداد ۵:۳۹۱، نعیم بن حماد کی کتاب الفتن ۱:۳۶۷ ۔۱۰۷۶،۱۰۷۷، اس میں ابن حمادکابیان ہے "میں نے یہ حدیث کئی دفعہ سنی ہے اوراس میں ان کے والدکانام نہیں تھا" کنزالعمال ۱۴:۳۸۶۷۸،پرابن عسا کرسے نقل کیا ہے اورسیدابن طاوس نے اسے التشریف بالنن :۱۵۶۔۱۹۶۔۱۹۷ باب ۱۶۳، میں ابن حمادکی الفتن سے نقل کیاہے اورا بن حجرنے اسے القول المختصرمیں بطورمرسل نقل کیا ہے:۴۰۔۴)

۴۔ نعیم بن حمادنے اپنی سندکے ساتھ ابوالطفیل سے نقل کیا ہے کہ پیغمبراکرم نے فرمایا:۔

المهدی اسمه اسمی واسم ابیه اسم ابی "

"مہدی کا وہی نام ہے اوراس کے باپ کا وہی نام ہے جومیرے باپ کانام ہے(نعیم بن حمادکی الفتن ۱:۳۶۷ ۔۱۰۸۰ اوراسی سے سیدابن طاوس نے التشریف بالنن :۲۵۷۔ ۲۰۰ پرنقل کیا ہے)

اس تعارض کی حقیقت اور اس کی علمی حیثیت

یہی وہ احادیث ہیں کہ جنہوں نے بعض لوگوں کے لئے محمدبن عبداللہ کومہدی آخرالزمان ماننے کا جوازفراہم کیا۔

لیکن یہ ان کے لیے دلیل نہیں بن سکتیں کیونکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ پہلی تینوں روایات عاصم بن ابوالبخود کے سلسلے سے ابن مسعودتک پہنچتی ہیں اوراس سلسلے کی حقیقت عنقریب واضح ہو جائے گی۔

رہی چوتھی حدیث تواس کی سند بالا تفاق ضعیف ہے کیونکہ اس کی سندمیں رشدین بن سعدمھری ہے کہ جس کے ضعیف ہونے پر اہل سنت کے علماء کااتفاق ہے۔

چنانچہ رشدین کے متعلق احمد بن حنبل سے منقول ہے ۔

وہ پروا نہیں کرتاتھاکہ کس سے روایت نقل کررہا ہے "۔اورحرب بن اسماعیل کا کہنا ہے کہ :۔

"میں نے اس کے متعلق احمدبن حنبل سے سوال کیا توانہوں نے اسے ضیعف قراردیا"۔

یحیی بن معین سے منقول ہے کہ اس کی حدیث لکھی نہیں جاتی ابوذرعہ سے منقول ہے کہ یہ ضعیف ہے اورحاتم کا کہنا ہے کہ اس کی حدیچ قابل قبول نہیں ہے۔

جوزجانی کا بیان ہے کہ اس کے ہاں بہت ساری معضل اورنا قابل قبول روایات ہیں اورنسائی کا کہنا ہے اسکی احادیث قابل قبول نہیں ہیں اوروہ لکھی نہیں جاتی تھیں خلاصہ میں نے کسی شخص کو نہیں دیکھا جس نے اسے موثق قراردیاہو۔

ہاں فقط ھیثم بن ناجة نے احمدبن حنبل کی موجودگی میں اسے موثق قراردیاہے تواحمدہنسنے لگا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے ضعیف ہونے پرسب کااتفاق ہے (تہذیب الکمال ۹:۱۹۱ ۔۱۹۱۱ اورتہذیب التھذیب ۳:۲۴۰ ان دونو ں کتابوں میں رشد ین ابی رشدین کے بارے میں سب کچھ موجودہے)

لہذا اتنے اہم مسئلہ کے متعلق رشدین ابن رشدین جیسے غیرمعتبرشخص کی بات نہیں مانی جاسکتی۔

اوررہا مسئلہ پہلی تین احادیث کا تووہ بھی کسی طرح سے دلیل نہیں بن سکتیں کیونکہ ان کی عبارت "اسم ابیہ اسم ابی"کو کسی بڑے محدث اورحافظ نے روایت نہیں کیا بلکہ ان سے فقط یہ عبارت اسمہ اسمی اس کا نام میرانام ہے ثابت ہے کہ جیسا کہ ہم عنقریب اس کودلیل سے ثابت کریں گے ۔

اس کے علاوہ بہت سارے علماء اہل سنت نے عاصم بن ابی النجودکے سلسلہ روایت میں تحقیق کرکے وضاحت کی ہے کہ اس میں یہ اضافہ ہے اس کی تفصیل آگے آئے گی

نیز ان تینوں حدیثوں کی سندابن مسعود تک پہنچتی ہے اورخود ابن مسعودسے اسمہ اسمی وہ میراہمنام ہوگامروی ہے جیسا کہ مسند احمد میں کئی مقامات پریہ عبارت موجود ہے(مسنداحمد۱:۳۷۶۔۳۷۷۔۴۳۰۔۴۴۸)

اسی طرح ترمذی نے بھی اس حدیث کواس اضافے کے بغیرروایت کیاہے اورساتھ ساتھ اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ابوسعیدخدری ام سلمہ ابوھریرہ سے "اسمه اسمی "(وہ میرا ہمنام ہوگا)مروی ہے۔

پھراسی عبارت کیساتھ ابوسعیدسے حدیث کو روایت کرنے کے بعدکہتاہے اس باب میں حضرت علی ابوسعید خرری ام سلمہ اورابوھریرہ سے بھی روایات ہیں اوریہ حدیث ھسن صحیح ہے(سنن ترمذی ۴:۵۰۵۔۲۲۳۰)

اکثر حفاظ نے ایسا ہی نقل کیا ہے مثال کے طورہے طبرانی نے اسی حدیث کوخودابن مسعودسے کئی دوسرے سلسلوں سے روایت کیاہے کہ جن کی عبارت "اسمہ اسمی "(میرا ہمنام )ہے اس کی المعجم الکبیرکی مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیں۔

:۱۰۲۰۴۔۱۰۲۱۵۔۱۰۲۱۶۔۱۰۲۱۷۔۱۰۲۱۸۔۱۰۲۱۹۔۱۰۲۲۰۔۱۰۲۲۱۔۱۰۲۲۳۔۱۰۲۲۵۔۱۰۲۲۶۔۱۰۲۲۷۔۱۰۲۲۹۔۱۰۲۳۰۔

اسی طرح حاکم نے مستدرک میں اس حدیث کوابن مسعودسے فقط ان الفاظ کے ساتھ روایت کیاہے "اسمه اسمی "ا سکا نام میرا نام ہے "اس کے بعدلکھتے ہیں "یہ حدیث بخاری اورمسلم کے معیارکے مطابق صحیح ہے لیکن انہوں نے اسے ذکرنہیں کیا"(مستدرک حاکم ۴:۴۴۲)

ذھبی نے بھی اس بات میں حاکم کی پیروی کی ہے اسی طرح بغوی نے بھی اس حدیث کوابن مسعودسے اس اضافے کے بغیرروایت کیا ہے اور حسن قرار دیا ہے(مصباح السنة :۴۹۲۔۴۲۱۰)

مقدسی شافعی نے واضح طورپرلکھا ہے کہ اس اضافے کو آئمہ حدیث نے روایت نہیں کیا اوراس حدیث کواس اضافے کے بغیرابن مسعود سے ذکرکرنے کے بعدلکھا ہے کہ :۔

"آئمہ حدیث کی ایک جماعت نے اسے اپنی اپنی کتابوں میں ذکرکیاہے جیسے امام ابوعیسی ترمذی نے اپنی جامع میں امام ابوداود نے اپنی سنن میں اورحافظ ابوبکر بیہقی اورشیخ ابوعمرودانی نے"

لیکن سب نے اس اضافے کے بغیرنقل کیا ہے(عقدالدرر :۵۱باب نمبر ۲)

یعنی اس میں یہ نہیں کہا کہ :۔اسم ابیه اسم ابی "

"اس کا باپ میرے باپ کاہمنام ہے"

پھراس کی تائیدکرنے والی دوسری بہت سے روایات ذکرکی ہیں اوراس کیساتھ ہی اشارہ کیا ہے کہ ان حفاظ :طبرانی ۔احمد حنبل ۔ترمذی ۔ابوداؤد ۔حافظ ابوداؤد اوربیہقی نے اسے عبداللہ بن مسعود عبداللہ بن عمراورحذیفہ سے روایت کیا ہے(عقدالدرر :۵۱۔۵۲ باب نمبر۲)

اوراس سے پہلے ہم بتا چکے ہیں کہ ترمذی نے ان روایات کو حضرت علی ابوسعیدخدری ۔ام سلمہ اورابوھریرہ سے روایت کیا ہے اورسب میں فقط یہی تھا"اسمه اسمی "وہ میرا ہمنام ہے"۔

اوریہ ممکن نہیں ہے کہ اتنے سارے حفاظ اس میں اس اضافے "اسم ابیه اسم ابی "

(اس کے باپ کا نام میرے باپ کانام ہے)کو حذف کریں یہ واقعا ابن مسعود سے مروی ہوتاتوکبھی بھی اس کے حذف ہونے پراس قدراتفاق نہ ہوتا بلکہ ان کے اس اضافے کو ساقط کرنے کاتصورہی محال ہے کیونکہ مخالفین کے لیے تویہ بہت بڑاہتھیار تھا۔

یہی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ جملہ ابن مسعود کی عاصم سے روایت میں بڑھایاگیاہے اس کی وجہ یاتوحسنیوں اوران کے طرفداروں کی طرف سے محمد بن عبداللہ حسن المثنی کی مہدویت کی ترویج کرنا تھا یا عباسیوں اوران کے پیروکاروں کی طرف سے منصورعباسی کی مہدویت کوثابت کرناتھا

اس حدیث کے جعلی ہونے کی ،مزتائیداس بات سے ہوتی ہے کہ ان میں سے سے پہلے کی زبان چونکہ تتلی تھی اس لئے اس کے پیروکاابو ھریرہ کیطرف غلط نسبت دینے پرمجبرہوئے کاابو ھریرہ نے کہا "بیشک مہدی کا نام محمدبن عبداللہ ہے اوراس کی زبان تتلی ہے"(یہ جعلی حدیث معجم احادیث الامام المہدی میں مقاتل الطالبین سے نقل کی گئی ہے:۱۶۳۔۱۶۴)

چونکہ پہلی تینوں احادیث جوعاصم بن ابوالنجودنے زر بن حبیش سے اوراس نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہیں ان دوسری احادیث کے مخالف ہیں کہ جو علماء حدیث نے عاصم سے روایت کی ہیں

لہذا حافظ ابونعیم اصفہانی (متوفی ۴۳۰ہجری)نے اپنی کتاب "مناقب المہدی "میں عاصم کی اس حدیث کے طرق کی تحقیق کرکے انہیں اکتیس تک شمارکیاہے ورکسی ایک میں بھی یہ عبارت نہیں ہے

"اسم ابیه اسم ابی "

(اس کے والدکانام میرے والد کانام ہے)

بلکہ سب کے سب اسی جملہ پرمتفق ہیں کہ "اسمہ اسمی"وہ میراہمنام ہوگاان کی عبارت کوکنجی شافعی (متوفی ۶۳۸ہجری)نے نقل کرنے کے بعدکہاہے کہ

اس حدیث کو زرسے عاصم کے علاوہ عمرو بن حرة نے بھی روایت کیاہے ان سب نے یہی روایت کی ہے "اسمہ اسمی"اس کانام میرا نام ہے سوائے عبیداللہ بن موسی کے اس نے زائدہ سے اوراس نے عاصم سے روایت کی ہے "اسم ابیہ اسم ابی"اس کے والد کا نام میرے والدکانام ہے

لیکن کسی ذی شعور کی نظرمیں اس اضافے کی کوئی اہمیت نہیں ہوسکتی کیونکہ محدثین نے اسے قبول نہیں کیا۔

مزیدکہتا ہے اس سلسلے میں فیصلہ کن بات یہ ہے کہ امام احمدنے جواحادیث کے سلسلے میں انتہائی دقیق ہیں اس حدیث کو اپنی مسندمیں کئی مقامات پرنقل کیا ہے

اوران سب میں فقط یہ ہے "اسمہ اسمی"اسکانام میرانام ہے(البیان فی اخبار صاحب الزمان کنجی شافعی:۴۸۲۔

لہذا ان ساری باتوں سے ی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث "اسم ابیه اسم ابی "اس کے والدکا نام میرے والدکانام ہے اس قددضعیف ہے کہ حضرت امام مہدی کے والد کے نام کے تعین میں اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔

لہذا جوشخص محمدبن عبداللہ نامی مہدی کامنتظرہے وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق درحقیقت اس سراب کاانتظارکررہا ہے جسے پیاساپانی کاسمجھتاہے۔

اس سلسلے میں ازھر یونیورسٹی کے پروفیسرسعدمحمدحسن واضح طورپرکہتے ہیں یہ احادیث "اسم ابیه اسم ابی "اس کے والدکا نام میرے والدکا نام ہے جعلی ہے لیکن تعجب اس پرہے کہ انہوں نے ان جعلی احادیث کوشیعوں کی طرف منسوب کیاجاتاہے تاکہ اس کے ذریعے اپنے نقطہ نظرکی تائیدکی جاسکیں (المہدیة فی الاسلام استادسعدمحمد حسن:۶۹)

پس نسب حضرت امام مہدی حضرت امام حسین کی اولادمیں سے ہیں کیونکہ باقی اس کے خلاف سب احادیث ضعیف ہیں اورکوئی قرینہ ان کی صحت کی تائیدنہیں کرتا بلکہ اس کے برخلاف سارے قرائن ان کے جعلی ہونے کوثابت کرتے ہیں اورمتواتر روایات اسی کی تائیدکرتی ہیں

حضرت امام مہدی کے حضرت امام حسین کی اولادسےہونے کی تائیدکرنے والی احادیث

شیعوں کی کتابوں میں کثیرتعدادمیں ایسی روایات موجودہیں کہ جن میں بارہ اماموں کے نام ذکرکیے گئے ہیں اوران کی ابتداء حضرت علی سے اوران کی انتہا حضرت امام مہدی پرہوتی ہے نیزایسی احادیث کہ جن میں پہلے امام نے بعدوالے امام کو معین کیا ہے

خوداہل سنت کی صحاح میں ایسی متعدد روایات ہیں جو آئمہ کی تعداد بیان کرتی ہیں اور ان کی مناقب وغیرہ کی کتابوں میں ایسی احادیث ہیں جو ان کے نام بھی بتاتی ہیں۔

نیز کئی ایسی احادیث ہیں جن کی صحت پراتفاق ہے اوروہ اس بات کوبیان کرتی ہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اس وقت تک زندہ ہیں جب تک دنیا میں دوانسان ہیں اوریہ اس صورت میں ہی ہوسکتاہے کہ جب حضرت امام مہدی حضرت امام حسین کے نویں فرزند ہوں یہاں ہم ان میں سے صر ف ان احادیث کو ذکر کریں گے جنکے ذریعے فریقین کی کتابوں میں استدلال کیاگیاہے۔

حدیث ثقلین

اس میں شک نہیں کہ جب پیغمبراسلام کا انتقال ہو تواس وقت تک آپ کی احادیث کی مکمل طورپرتدوین نہیں ہوئی تھی جبکہ آپ نے قیامت تک باقی رہنے والی اپنی رسالت میں کوئی کوتاہی نہیں کی تھی۔

نیزاپنی امت پرشفیق اورمہربان ہونے کی وجہ سے اسے شتربے مہارکی طرح نہیں چھوڑدیاتھاتوپھرکس طرح انہیں تنہاقرآن کے سپردکردیتے کہ جس میں محکم ،متشابہ ،مجمل ومفصل اورناسخ ومنسوخ آیتیں موجود ہیں۔

اس کے علادہ اس کی آیا ت میں کئی کئی احتمالات پائے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سارے اسلامی فرقے اورمذاہب اپنی اپنی متضادآرا کوثابت کرنے کے لیے انہیں دلیل کے طورپرپیش کرتے ہیں

بالخصوص اس تناظرمیں کہ آپ کو علم تھا کہ جب آپ کی زندگی میں آپ پرجھوٹ بولا گیاتوپھرآپ کی وفات کے بعدکیاہوگا

اس کے ثبوت میں حضرت کی یہ حدیث ہے جسے عل، درایت کی کتابوں میں تواترلفظی کی مثال کے طور پر پیش کیاجاتاہے کہ آپ نے فرمایا:۔

"من کذب علی متعمد افلیتبوامقعده من النار "

لہذا معقول نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم اپنی شریعت کودوسرے لوگوں کے اجتہادکے رحم وکرم پرچھوڑجائیں اوراس کے لیے کوئی ایسا راہمنا اورجامع اصول معین نہ کریں جوپورے قرآن کا حقیقی علم رکھتا ہواورسنت کواس کی پوری تفاصیل کے ساتھ جانتاہو۔

پس رسالت کو بچانے اس کی حفاظت کرنے ،اسکی راہ کودوام بخشنے اورتمام عالم بشریت تک پہنچانے کے لیے ایک ہدایت گراورراہنما کاہونا بہت ضروری ہے یہیں سے حدیث ثقلین (قرآن وعترت )اور امت کے دین حق حاصل کرنے کے لیے ان کی طرف رجوع کرنے کی اہمیت واضح ہو

جاتی ہے۔

نیزواضح ہوجاتا ہے کہ آنحضرت غدیرخم جیسے مختلف مواقع اورمقامات پراورآخرمیں اپنی بیماری کی حالت کیوں اس پرزوردیتے رہے زیدبن اسلم پیغمبر سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:۔

"کا ننی قد دعیت فاجیب ،انی تارک فیکم الثقلین احد هما اکبرمن الآخر:کتاب الله،وعترتی اهل بیتی فانظرواکیف تخلفونی فیهما ،فانهمالن یفتر قا حتی یردا علی العوض ،ان الله مولایی ،ولیی کل مومنمن کنت مولاه فعلی مولاه اللهم وال من والاه وعار من عاداه "

"گویا مجھے نداآچکی ہے اورمیں نے اس پرلبیک کہہ دیا ہے میں تم میں دوگراں قدرچیزیں چھوڑکے جارہاہوں ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہیں۔اللہ کی کتاب اورمیری عترت اھل بیت دیکھنا میرے بعدتم ان دوکے بارے میں کیا روش اپناوگے یہ آپس میں ہرگزجدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثرپرمیرے پاس پہنچ جائیں گی۔

بیشک اللہ میرامولیٰ ہے اورمیں ہرمومن کا مولیٰ ہوں اورجس کا میں مولاہوں اسکے علی مولی ٰ ہیں اے اللہ اس کو دوست رکھ جوعلی کودوست رکھے اوراس کودشمن رکھ جو علی کودشمن رکھے"(مستدرک حاکم ۳:۱۰۹۔)

ابوسعید خدری پیغمبراکرم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:۔

"انی تارک فیکم الثقلین ما ان تمسکتم به لن تضلو ابعدی ،احدهما اعظم من الآخر:کتاب الله حبل ممدود من السماء الارض ،وعترتی اهل بیتی ،واهل لن یفترقا حتی یردا علی العوض ،فانظرواکیف تخلفونی فیهما "

"میں تم میں چھوڑکے جارہا ہوں جب تک تم اس سے تمسک رکھوگے میرے بعدہرگزگمراہ نہیں ہوگے ان میں سے ایک دوسری سے زیادہ عظیم ہے اللہ کی کتاب جو آسمان سے زمین تک درازہی ہے اورمیری عترت اھل بیت کہ دودونوں حوض کوثرپرمیرے پاس آنے تک آپس میں ہرگزجدانہیں ہوں گے پس دیکھنامیرے بعدتم ان دوکے بارے میں کیا روش اپناتے ہو(سنن ترمذی ۵:۶۶۲۔۳۷۸۶، اورحدیث ثقلین تیس سے زیادہ صحابہ سے مروی ہے اوربعدوالی میں اس کے راوی سینکڑوں کی تعدادمیں ہیں)

چنانچہ کبھی اہل بیت کو کشتی نجات کہا کبھی امت کے لیے امان اورکبھی باب حطہ سے تعبیرکیا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ صحابہ کو پیغمبر سے سوال کرنے کی ضرورت نہیں پڑی کہ اہل بیت سے مراد کون لوگ ہیں کیونکہ انہوں نے دیکھا تھا کہ مباہلہ میں صرف وہی افراد آپ کے ہمراہ تھے جو اہل کساتھے اورآپ فرما رہے تھے:

"اللهم هو ء اهل بیتی " "خدایا یہ میرے اھل بیت ہیں "اورصحابہ اس کلام کی خصوصیات کوسب سے زیادہ جانتے تھے ۔

اوراس میں جو حصراوراختصاص ہے اس سے وہ اچھی طرح واقف تھے اورابن عباس کا کہنا ہے کہ نوماہ تک پیغمبر ہر صبح جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کے دروازے پر کھڑے ہوکراس آیت کی تلاوت کرتے تھے۔(سید علی حسینی میلانی کی کتاب "حدیث الثقلین تواترہ فقہہ ")

( انمایریدالله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهرکم تطهیرا ) (الاحذب ۳۳:۳۳)پیغمبر اسلام کی در فاطمہ سلام اللہ علیھا پر کھڑے ہوکرآیت کریمہ کی تلاوت کرنے کے واقعے کے لئے ملاحظہ ہوطبری ۶:۲۲

اورپیغمبراکرم کا یہ عمل لوگوں کے اہل بیت علیھم السلام کو پہچاننے کے لیے کافی تھا

لہذا پیغمبر اسلام سے سوال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ امت قرآن کے ہمراہ کن لوگوں کے ساتھ تسمک کرکے گمراہی سے بچ سکتی ہے

اورامت (اورصحابہ)کو ان میں صرف پہلے شخص کوجاننے کی ضرورت تھی تاکہ پیغمبرکے بعدوہ دینی امورمیں اس کیطرف رجوع کریں اوروہ ان کوگمراہی سے بچا سکے۔پھروہ ہے کہ اپنے بعدایک شخص کومعین کرے جوامت کوگمراہیوں سے بچانے والا ہو اور یونہی اس کاسلسلہ چلتارہے یہاں رک کہ امر کو گمراہی سے بچانے والا آخری محافظ قرآن کے ہمراہ حوض کوثرپیغمبرکے پاس پہنچ جائے ۔

اور جب واضح ہے کہ حضرت علی بے شمار حدیثوں کی رو سے پیغمبراکرم کی طرف سے معین کیے گئے ہیں کہ ان میں سے ایک یہی حدیث ثقلین ہے توپیغمبر کے لیے ضروری نہیں تھا کہ ہرزمانے میں امت کوگمراہی سے بچانے والے ک نام لیں یہ مصلحت کاتقاضاہو

لحاظ ہرزمانے کے امام کی معرفت کا معیا ریاتو یہ ہے کہ سارے اماموں کوایک ہی دفعہ معین کردیا جائے یایہ کہ امام بعدوالے کو معین کرے اوروہ ا پنے بعد والے کو یہی وہ طبعی روش ہے جسے انبیاء اوراوصیا نے اپنایاتھا اورابتداء سے لے کرآج تک اس سے سبھی واقف ہیں۔

اہلبیت کی ماام پرطرفین سے بہت زیادہ حدیثیں ہیں اوراگرتاریخ کا مطالعہ کیاجائے تومعلوم ہوجائے گا کہ آئمہ علیھم السلام نے حکومت وقت کے سامنے اپنی امامت کا دعوی کیااوراپنے آپ کوکوامام قائدبارکرایااورآپ کے لاکھوں پیروکارآپ کوامام وقائدتسلیم کرتے تھے۔

اورہر امام اپنے پیروکار کو اپنے بعد والے امام کا نام بتارہاتھا اسی وجہ سے وہ ہمیشہ حکومت کی قیدوبند کی مصیبتیں جھیلتے رہے اورحکام کے ہاتھوں کبھی زہر سے اورکبھی میدان جنگ میں شہید کئے گئے۔

اوراگرایک امام نے اپنے بعدکسی امام کومعین نہ کیاجبکہ حدیث کی روسے معین کرناضروری تھاتواس کا مطلب یہ ہوگاکہ یہ امام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قرآن کے ساتھ رہے گا کیونکہ یہ حدیث ہرگزایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثرپرمیرے پاس پہنچ جائیں گے

واضح طورپردلالت کررہی ہے کہ ہرزمانے میں قرآن کے ساتھ عترت میں سے ایک امام ہوگااسی لئے ابن حجرکانظریہ ہے کہ جواحادیث اہل بیت کیساتھ تمسک کرنے کا حکم دیتی ہیں ان میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قیامت تک کوئی نہ کوئی فردہوگاجواسی تمسک کا اسی طرح اہل ہو گاجس طرح قرآن ہے۔

اس لیے وہ اہل زمین کے لیے امان ہیں اوریہ حدیث بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ میری امت کی ہرقوم میں میری اہلبیت کے عادل لوگ ہیں(صواعق محرقہ :۱۴۹)

حدیث:من مات ولم یعرف امام زمانہ

"جوشخص مرجائے اوراپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے"

یہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ شیعہ سنی دونوں فرقوں کی اہم کتابوں میں موجود ہے اورا ن سب کی بازگشت ایک معنی اور ایک مقصد کی طرف ہے

اس کی صحت کے لیے کافی ہے کہ اسے اہل سنت میں سے بخاری اورمسلم نے(صحیح بخاری ۵:۱۳ باب الفتن ،صحیح مسلم ۶:۲۱۔۲۲۔۱۸۴۹

)اورشیعوں میں سے کلینی ،صدوق ان کے والد ، حمیری اورصفار نے روایت کیا ہے(اصول کافی ۱:۳۰۳۔۵،۱:۳۰۸۔۱،۲۔۳۷۸۔۲روضہ کافی ۸:۱۲۹۔۱۲۳، کمال الدین ۲:۴۱۲۔۴۱۳ ۔و۱۰،و۱۱،و۱۲،و۱۵)باب ۳۹، الامامة والبتصرة :۲۱۹۔۶۹،و۷۰و۷۱،قریب الاسناد:۳۵۱۔۱۲۶۰بصائر الدرجات :۲۵۹و۵۰۹و۵۱۰)

اوربہت سارے علماء نے اسے اتنے زیادہ طرق کے ساتھ ذکر کیا ہے جن کا شمار کرنا ممکن نہیں ہے(مسند احمد ۲:۸۳ ،۳:۴۴۶،۴:۹۶م ،مسند ابوداؤد طیالسی :۲۵۹طبرانی کی معجم کبیر۱۰:۳۵۰۔۱۰۶۸۷،مستدرک حاکم ۱:۷۷، حلیة الاولیاء ۳:۲۲۴، الکنی والاسماء ۲:۳، سنن بیہقی ۸:۱۵۲،۱۵۷، جامع الاصول ۴:۷۰نووی کی شرح مسلم ۱۲:۴۴۰ ،ذھبی کی تلخیص المستدرک ۱:۷۷و۷۷ا، ھیثمی کی مجمع الزوائد ۵:۲۱۸،۲۱۹،۲۱۳،۲۱۵،۳۱۲،تفسیر ابن کثیر ۱:۵۱۷، جیسا کہ کشی نے اس کو اپنے رجال :۲۳۵۔۴۲۸ میں سالم بن ابی حفصہ کے حالات میں ذکر کیاہے)

لہذاکو یہ اس کی سندمیں نقص نہیں کرسکتا اگرچہ ابن زھرہ نے یہ توہم کیا ہے کہ یہ روایت فقط کافی ہے(الامام الصادق ابوزھرہ :۱۹۴)

جبکہ بعیدنہیں ہے کہ یہ حدیث متواترہو اوراس میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں ہے اوروہ شخص یہ کہتاہے کہ امام جس کی معرفت کے مرنے والا جاہل کی موت مرتا ہے اس سے مراد بادشاہ اورحاکم ہے چاہئے ظالم اورفاسق ہی ہو !تواس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے دلیل سے یہ ثابت کرے کہ ظالم وفاسق کی معرفت دین کاجزہے

اورپھر یہ کہ عقلا ء کے لیے فاسق اورظالم کی معرفت کے فوائد ہیں کہ اگر اس کی معرفت کے بغیرمرجائے تووہ جاہلیت کی موت مرا

بہرحال حدیث واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ ہرزمانے میں امام حق موجود ہے اوریہ بات تب ہی صحیح ہوسکتی ہے جب ہم حضرت امام مہد ی کے کو تسلیم کریں جو اولاد فاطمہ سلام اللہ علیھا سے ہے جیسا کہ ہم ثابت کرچکے ہیں

حدیث :ان الارض لاتخلومن قائم لله بحجة

"زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی"

اس حدیث سے بھی طرفین نے استدلال کیا ہے اورانہوں نے اسے کئی طریقوں سے نقل کیا ہے

(اس حدیث کو اسکافی معتزلی نے المعیار والموازنہ میں ذکر کیا ہے :۸۱ابن قتیبہ نے عیون اخبار میں :۷،یعقوبی نے اپنی تاریخ میں ۲:۴۰۰، ابن عبدربہ نے العقد الفرید میں ۱:۲۶۵، ابو طالب مکی نے قوت القلوب فی معاملة المحبوب")میں ۱:۲۲۷، بیہقی نے المحاسن والمساوی میں :۴۰ خطیب نے اپنی تاریخ میں ۶:۴۷۹، اسحاق نخعی کے حالات میں ، خوارزمی حنفی نے مناقب میں :۱۳رازی نے مفاتیں الخیب میں ۲:۱۹۲، ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح میں جیسا کہ آیا ہے ابن عبدالبر نے المختصر میں :۱۲تفازانی نے شرح مقاصد میں ۵:۲۴۱ابن حجر نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ۶:۳۸۵اورکلینی نے اسے کئی طرق کے ساتھ طرق کے ساتھ حضرت علی سے اصول کافی میں ذکر کیا ے ۱:۱۳۲۔۷،۱:۲۷۰،۳،۱۔۲۷۴،۳،صدوق نے کمال الدین میں بہت سارے طرق سے ۱:۲۸۷۔۴باب ۵۲

اور۲۸۹۱ ۔۲۹۴۔۲باب ۲۶ اور۱:۱۰۳۰۲ باب ۲۶)

اوراسے حضرت علی کے جلیل القدر صحابی کمیل بن زیاد نخفی نے آپ سے روایت کیا ہے جیسا کہ نہج البلاغہ میں ہے چنانچہ آپ ایک طویل کلام کے بعد فرماتے ہیں

"اللهم بلیٰ! لاتخلوالارض من قائم الله بحجة "

"اے خدایقینا ! زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی"

اورزمین کا حجت خدا سے خالی ہونا اس وقت ہو سکتا ہے جب حضرت امام مہدی پیدا ہو چکے ہوں اورابن ابی حدید نے اسے درک کر لیا تھا چنانچہ مذکورہ جملے کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں

"تاکہ زمانہ ایسے شخص سے خالی نہ ہوجائے جواللہ تعالی کی طرف سے لوگوں پرنگران اورمحافظ ہوتا ہے اورعین ممکن ہے کہ یہ (جملہ)مذہب شیعہ کے عقائد کو بیان کررہاہولیکن ہمارے علماء ابدال مراد لیتے ہیں"(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۱۸:۳۵۱)

اورابن حجرعسقلانی نے بھی بھانپ لیا تھا کہ یہ حضرت امام مہدی کی طرف اشارہ ہے چنانچہ کہتے ہیں" آخری زمانہ میں اورقیامت کے نزدیک حضرت عیسی ٰ کا اس امت کے ایک فردکے پیچھے نماز پڑھنا اس بات کے صحیح ہونے پردلالت کرتاہے کہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی(فتح الباری شرح صحیح بخاری ۶:۳۸۵)

نہج البلاغہ کی اس سے پہلی والی عبارت کودیکھ کریہ مطلب مزیدواضح ہوجاتا ہے فرماتے ہیں:۔

"یا کمیل بن زیاد،ان هذه القلوب اوعیة فخیرهااوعاها ،فاحفظ عنی مااقول لک ثلاثة : فعالم ربانی ،ومتعلم علی سبیل النجاة وهمج دعاع اتباع کل ناعق یمیلون مع کل ریح لم یستضیوا بنور العلم ولم یلجاوالی رکن وثیق "

"اے کمیل بن زیاد! بیشک دل برتنوں کی مانندہیں پس بہترین دل وہ ہے جوزیادہ حفاظت کرنے والا ہے پس جوکچھ بھی کہہ رہا ہوں اسے خوبی یاد کرلو!

لوگ تین قسم کے ہیں عالم ربانی ،اوروہ متعلم جو نجات کے راستے پرگامزن ہے اورتیسرے وہ لوگ جوہرآوازدینے والے کے پیچھے چل پڑتے ہیں اورہوا کے جھونکوں کے ساتھ مڑجاتے ہیں انہوں نے نورعلم سے روشنی حاصل نہیں کی اورکسی مضبوط پہاڑکی پناہ نہیں لی"

مزیدفرماتے ہیں:۔

اللهم بلیٰ لا تخلو الارض من قائم بحجة اما ظهر امشهورا، واما خائفا مغمورا، لئلا تبطل حجج الله و بیناته "

"خدایا ہاں ! زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہوتی یا وہ ظاہراورمشہور ہے یاخوف زدہ اورگمنام ہے تاکہ اللہ تعالی کی واضح نشانیاں اوراحکام اورحجتیں معطل نہ ہوجائیں (نہج البلاغہ شرح شیخ محمد عبدہ ۴:۲۹۱۔۸۵،شرح ابن ابی الحدید ۱۸:۳۵۱)

اسی لیے حسین بن ابی علاء خفاف کی حدیث صحیح میں ہے کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق سے کہاکیایہ ممکن ہے کہ زمین پرکوئی امام نہ ہوتوانہوں نے ارشاد فرمایا :۔ نہیں(اصول کافی ۱:۱۳۶۔ ۱ باب ان الارض لاتخلو عن حجة اوراس کی سند یوں ہے ہمارے کئی علماء نے احمد بن محمد عیسیٰ سے انہوں نے محمد بن ابی عمیر سے انہوں نے حسین بن ابوالعلاء سے اورانہوں نے حضرت امام جعفر صادق سے روایت کی ہے)

اوراگرحدیث ثقلین اورحدیث "من مات "اورحدیث الخلفاء اثناعشر"جس کا ذکرکے بعدمیں آئے گاکو مذکورہ بیان سے ملائیں تو معلوم ہوجائے گاکہ حضرت امام مہدی اگرواقعا پیدا نہیں ہوئے توحتما آپ سے پہلے والے امام زندہ ہوں گے لیکن کسی مسلمان کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ اہل بیت علیھم السلام کے ان بارہ اماموں میں سے حضرت امام مہدی کے علاوہ کوئی اورامام زندہ ہے

بخاری نے اپنی سند کے ساتھ جابر بن سمرہ سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے میں نے پیغمبر کو یہ فرماتے ہوئے سنا

یکون اثناعشر امیرا

بارہ امیر ہوں گے

پھر کوئی بات کہی جوسنائی نہ دی لیکن میرے والد نے مجھے بتایا کہ آپ نے فرمایاتھا:۔

"کلهم من قریش "

"وہ سب کے سب قریش میں سے ہوں گے"(صحیح بخاری ۴:۱۶۴، کتاب الا حکام باب الاستخلاف اورصدوق نے اسے جابر بن سمرہ سے کمال الدین ۱:۲۷۲۔۱۹میں اورخصال ۲:۴۶۹۔۴۷۵ میں ذکر کیا ہے)

اورصحیح مسلم میں ہے کہ :۔

"ولایزال الدین قائما حتی تقوم الساعة او یکون علیکم اثنا عشر خلیفه کلهم من قریش "

"قیامت تک دین قائم رہے گایابارہ خلفا ء آجائیں جو سب کے سب قریش سے ہوں گے"(صحیح مسلم ۲:۱۱۹ کتاب الامارہ باب الناس تبع لقریش میں اسے نو طرق سے ذکر کیا ہے)

اوراحمد نے اپنی مسند میں مسروق سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے "ہم عبداللہ بن مسعود کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اوروہ قرآن پڑھ رہے تھے کہ انہیں ایک شخص نے کہا اے عبداللہ کیا تم لوگوں نے کبھی پیغمبر اسلام سے پوچھا تھا کہ اس امت کے کتنے خلیفے ہوں گے؟

انہوں نے کہا جب سے میں عراق میں آیا ہوں تجھ سے پہلے مجھ سے کسی نے یہ سوال نہیں کای پھر کہا ہا ہم نے پیغمبر سے سوال کیا تھا اورآپ نے فرمایا تھا

اثنی عشره کعدة نقبای بنی اسرائیل

"بنی اسرائیل کے سرداروں کی تعداد کے مطابق بارہ خلیفہ ہوں گے (مسند احمد ۵:۹۰،۹۳۔۹۷،۱۰۰ ،۱۰۶،۱۰۷اورصدوق نے اسے کمال الدین ۱:۲۷۰۔۱۶ میں ابن مسعود سے نقل کیا ہے)

ان احادیث سے مندرج ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں

۱۔ خلفاء کی تعداد بارہ سے زیادہ نہیں ہو گی اوروہ سب کے سب قریش سے ہوں گے اوریہ شیعہ عقیدے کے مطابق ہیں

بعض لوگ کہتے ہیں کہ آئمہ کو خلفاء نہیں کہا جاسکتا لیکن اس کا جواب بہت واضح ہے کیونکہ پیغمبر کی مراد امارت اورخلافت کے مستحق ہیں ۔

خدانخواستہ کبھی بھی آپ کی مراد معاویہ ،یزید اورمروان جیسے لوگ نہیں ہوسکتے کہ جو اپنی خواہشات کیمطابق امت مسلمہ کی تقدیر سے کھیلتے رہے۔

بلکہ خلیفہ سے مراد وہ ہے جسے یہ منصب خدا کی طرف سے ملے یہ اوربات ہے کہ دوسرے لوگوں حکومت پر قبضہ کرلیں

اسی لیے "عون المعبود فی شرح سنن ابی داود میں ہے"توربشتی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اوراس جیسی دیگر احادیث کا حل یہ ہے کہ ان سے مراد عدل قائم کرنے والے خلفاء ہوں کیونکہ درحقیقت وہی خلیفہ کے نام کے مستحق ہیں۔

اورضروری نہیں ہے کہ حکومت بھی ان کے ہاتھ میں ہو اور بطور فرض اس سے مراد حکومت کے زمامدار لوگ ہیں توانہیں خلیفہ کہنا مجاز ہوگا۔

جیسا کہ مرقات میں بھی اسی بات کہی گئی ہے (عون المعبود ۱۱:۶۲۶، حدیث ۴۲۵۹کی شرح)

۲۔ نبی اسرائیل کے سرداروں کے ساتھ تشبیہ دینے کا مطلب بھی یہ ہے کہ مراد یہی بارہ ہوں جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے

( ولقد اخذ الله میثاق نبی اسرائیل وبعثنا منهم اثنا عشر نقینا)

اوراللہ تعالی نے بنی اسرائیل سے عہد وپیمان لیا اوران میں بارہ سردار معین کئے(مائدہ ۵:۱۲)

۳۔ یہ ممکن نہیں کہ بارہ میں سے کوئی بھی خلیفہ روئے زمین پر نہ ہوبلکہ قیامت تک ان میں سے ایک کا وجود ضروری ہے چنانچہ مسلم نے اپنی صحیح کے اسی باب میں ایک حدیث ذکر کی ہے جو اس بات کی تائید کرتی ہے

"لا یزال هذا الامرفی قریش مابقی من الناس اثنان "

"قریش میں یہ سلسلہ چلتا رہے گا اگرچہ دنیا میں دوشخص ہی باقی ہوں

اوریہ چیز بالکل شیعوں کے عقیدے کے مطابق ہے کہ بارہویں امام حضرت امام مہدی منتظر دوسرے زندہ لوگوں کی طرح زندہ ہیں اوروہ آخری زمانے میں ظاہر ہو کردنیا کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کردیں گے جس طرح وہ ظلم وجور سے پر ہوچکی ہوگی۔

جیساکہ ااپ کی جد امجد حضرت محمد نے اس کے متعلق خوشخبری دی ہے اوریہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے کہ اہل سنت کبھی بھی بارہ خلفاء کے ناموں پر متفق نہیں ہوسکے حتی کہ بعض کو مجبور ہو کر یزید بن معاویہ ،مروان ،عبدالمالک اوردوسروں کو خلفاء کی صفت میں داخل کردیا اوراس سلسلہ عبدالعزیز تک پہنچادیا تاکہ بارہ کا عد د پورا ہوسکے(ان کے اقوال معلوم کرنے کے لئے ملاحظہ ہو مقریزی کی کتاب "السلوک لمعرفةدول الملوک ۱:۱۳۔۱۵،حصہ اول، تفسیر ابن کثیر ۲:۳۴سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۱۲ ، کی تفسیر میں شرح العقیدہ الطعاویة ۲:۷۳۶، سنن ابی داؤد پر حافظ ابن قیم کی شرح ۱۱:۲۶۳،شرح حدیث۴۲۵۹ ، الحاوی الفتاوی ۲:۸۵)

لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ اس کا لازمہ یہ ہے کہ عمرابن عبدا لعزیز کے بعد سب زمانے خلیفہ سے خالی ہوں جبکہ حدیث یہ کہتی ہے کہ قیامت تک ان کے وجود کے صدقے میں قائم رہے گا۔

بیشک ان احادیث کا اگر یہ معنی نہیں ہے توپھر ان کا کوئی صحیح معنی ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ واضح ہے کہ ظاہری حکومت جن لوگوں کے ہاتھوں میں رہی ان کی تعداد ان سے کئی گنازیادہ ہے جو احادیث میں آئی ہے

نیزوہ سب کے سب ختم ہوچکے ہیں اورمسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ان میں سے کسی پر نص بھی نہیں آئی وہ اموی ہوں یا عباسی۔چنانچہ قندوزی حنفی لکھتے ہیں کہ پیغمبراورحدیث ثقلین بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ پیغمبر اکرم کی مراد بارہ امام ہیں (ینا بیع المودة ۳:۱۰۵باب ۷۷"بعدی اثنا عشر خلیفہ"میرے بعد بارہ خلفا ہوں گے والی حدیث کی تحقیق)

یہ بات واضح ہے "یہ حدیث کے خلفاء بارہ ہوں گے بارہ اماموں کے تاریخی تسلسل سے پہلے کی ہے اورآئمہ کے دورکے مکمل ہونے سے پہلے یہ صحاح وغیرہ میں لکھی جاچکی تھی ۔پس یہ ایک محض خبر نہیں ہے بلکہ ایک ربانی حقیقت ہے جواس شخص کی زبان سے جاری ہوئی جو وحی الہی کے بغیربولتا نہیں تھا اس نے فرمایامیرے بعد بارہ خلیفے ہوں گے تاکہ یہ اس واقعی حقیقت کی گواہ ہو اوراس کی تصدیق کرے کہ جس کی ابتداامیرالمومنین حضرت علی سے ہوئی اورجس کی انتا حضرت امام مہدی پر ہو گی اوراس حدیث کی یہی معقول تفسیر ہو سکتی ہے(بحث حول المہدی شہید محمد باقر الصدر :۵۴۔۵۵)

اوراس حدیث کو غیب کی سچی خبر ہونے کی بنا پر نبوت کی دلیل بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔

رہا حدیث کو ان عباسی اوراموی خلفاء پر منطبق کرنا کہ جن کی منافقت جرائم اورقتل وغارفت کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہے بلکہ پیغمبر اسلام کی شان کے بھی خلاف ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے عمر ابن عبدالعزیز کے زمانے تک دین کے باقی رہنے کی خبر دی ہے نہ قیامت تک۔