امام مہدی کے متعلق شبہات
گذشتہ فصلوں میں امام مہدی سے متعلق عقیدے سے بحث کی گئی تھی لیکن اس فصل میں ان شکوک وشبہات کا جواب دیں گے جو بعض طفلانہ فکر رکھنے والے لوگ پیدا کرتے رہتے ہیں اوراگر ان کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ لوگ علوم حدیث اوران کی اصطلاحات سے بالکل بے بہری ہیں توکوئی تعجب کی بات نہیں ہے
اسی وجہ سے وہ ایسی رکیک دلیلیوں کو وسیلہ بناتے ہیں جو تارعنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہیں جیسا کہ اسی فصل میں آپ پر واضح ہو جائیگا۔
صحیحین میں احادیث کے نہ ہونے کا بہانہ
ان کی بے اساس دلیلوں میں سے ایک یہ ہے کہ بخاری اورمسلم نے امام مہدی کے بارے میں ایک بھی حدیث نقل نہیں ہے(الامام الصادق ابو زہرہ :۲۳۹۔۲۳۸، امہدی والمہدیة احمد امین :۴۱)
اس دلیل کا جواب دینے سے پہلے چندامورکی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا ضروری ہے
اول :۔بخاری سے صحیح طورپرمنقول ہے کہ انہوں نے آپ کی صحیح کے متعلق کہا ہے میں اس کتاب کوایک لاکھ صحیح حدیث یا دوسری جگہ ہے دولاکھ صحیح حدیث میں سے مرتب کیا ہے اورجن صحیح احادیث کو میں نے ترک کیا ہے وہ اس میں موجود ہ احادیث سے کئی گنا ہ زیادہ ہیں ۔
پس خودامام بخاری بھی نہیں کہتے کہ جوبھی حدیث انہوں نے نقل کی وہ ضعیف ہے بلکہ جن کوانہوں نے صحیح قرارد یا ہے وہ ان کی ذکر کردہ احادیث سے دسیوں گنازیادہ ہیں ۔
دوم کسی عالم اہل سنت نے یہ نہیں کہ اکہ بخاری ومسلم نے جو حدیث ذکر نہیں کی وہ ضعیف ہے بلکہ ان کی روش اس کے برعکس ہے اسی وجہ سے انہوں نے صحیحین پ رمستدرک کے عنوان سے کتابیں لکھی ہیں کہ جن میں دیگر کثیر صحیح روایات کو جمع کیا ہے۔
سوم:۔علماء جو صحیح حدیث یا خبر متواتر کی تعریف کرتے ہیں تواس میں کہیں پر یہ شرط نہیں ہے کہ صحیحین یا ان میں سے ایک اسے ذکرکیا ہوپس کسی حدیث کی صحت یا تواتر کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ اس کے روای یہ دونوں یا ان دونوں سے کوئی ایک ہو بلکہ اگربخاری اورمسلم دونوں نے ایک متواتر خبر کی روایت نہ کی ہو تو یہ چیز بھی اس کے تواتر کوکوئی نقصان نہیں پہنچاتی ۔
علماء اہل سنت کے نزدیک اس کی بہترین مثال عشرہ مبشرہ والی حدیث ہے کہ جسے اہل سنت متواتر سمجھتے ہیں لیکن نہ اسے بخاری نے روایت کی ہے اورنہ مسلم نے
چہارم :۔جو شخص ظہور حضرت امام مہدی علیہ السلام کے انکار کے صحیحین کے ان کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث بناتاہے اس نے صحیحین کی حقیقت کو نہیں پہچانا جیسا کہ ہم اس دلیل کے جواب میں اس کی وضاحت کریں گاملاحظہ فرمائیں۔
کسی پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ امام مہدی کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث مختلف امور کو بیان کرتی ہیں جیسے آپ کا نام بعض خصوصیات ، ظہور کی علامات ،رعیت کے درمیان فیصلے کرنے کی روش اس کے علاوہ اوربہت سارے امور اوربلاشک ان میں سے ہر حدیث میں ضروری نہیں ہے کہ لفظ مہدی بھی ذکر ہو کیونکہ اس کے بغیر بھی مراد واضح ہے مثلا ایک حدیث جو امام مہدی کانام لیکر ان کی ایک صفت بیان کرتی ہے۔
پھر یہ موصوف اوراس کی یہ صفت بخاری میں مذکور ہو لیکن حضرت امام مہدی کے نام کے ساتھ نہیں بلکہ ایک مرد کے عنوان کے ساتھ توکسی عقل مند کو شک نہیں ہو سکتا جی اس مرد سے مراد حضرت امام مہدی ہیں ورنہ بعض احادیث کے اجمال کو کیسے دورکیا جائیگا؟ کیا شرق وغرب میں علماء مسلمین کے بیان مجمل کو مفصل کی طرف لوٹانے کا کوئی اورطریقہ ہے چاہے یہ مجمل ومفصل ایک کتاب میں ہوں یا دومیں۔
اورجب ہم صحیحین پر نگا ہ کرتے ہیں تودیکھنے ہیں کہ بخاری اورمسلم نے امام مہدی کے بارے میں دسیوں مجمل احادیث روایت کی ہیں جنہیں علماء اہل سنت نے امام مہدی کی طرف لوٹایا ہے کیونکہ صحاح ، مسایند اورمستدرکات میں ایسی صحیح احادیث موجود ہیں جو اس اجمال کو رفع کرتی ہیں ۔
بلکہ ایسی احادیث بھی بخاری ومسلم میں موجود ہیں جو واضح طور پر حضرت امام مہدی کے بارے میں ہیں ۔
اس حقیقت کو بیان کرنے سے پہلے ایک نقطہ کی طرف اشارہ کرنا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ اہل سنت کے چار موثق علماء نے اس حدیث :۔المھدی حق ، وھو من ولد فاطمة
"مہدی حق ہیں اوروہ اولاد فاطمہ سے ہیں "کو واضح طور پر صحیح مسلم سے نقل کیا ہے اوراب اگر صحیح مسلم کے موجو دایڈیشنز میں جستجو کریں تویہ نہیں ملے گی۔
مندرجہ ذیل علما نے کہا ہے کہ حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے
۱۔ابن حجر ہیثمی(متوفی ۹۷۴ہجری )صواعق محرقہ میں باب نمبر ۱۱، فصل اول صفحہ ۱۶۳
۲۔متقی ہندی حنفی(متوفی ۹۷۵ہجری)نے کنزالعمال میں جلد نمبر ۱۴، صفحہ ۲۶۴، حدیث نمبر۳۸۶۶۲۔
۳۔ شیخ محمد علی صبان (متوفی ۱۲۰۶ہجری)نے اسعاف الراغبین صفحہ ۱۴۵
۴۔ شیخ حسن عدوی حمزاوی مالکی (متوفی ۱۳۰۳ہجری)میں مشارق الانوار میں صفحہ ۱۱۲۔
بہر حال صحیحین کی بعض احادیث سے مراد فقط حضرت امام مہدی ہی ہیں اورصحیحین کی احادیث کے سمجھنے میں یہ کوئی ہمارا اجتہاد نہیں ہے بلکہ اس پرصحیح بخاری کے پانچ شارح متفق ہیں جیسا کہ ہم اس کی وضاحت کریں گے
صحیحین کی وہ احادیث جن کی تفسیر حضرت امام مہدی سے کی گئی ہے
بخاری نے اپنی صحیح میں فقط دجال کے خروج اوراس کے فتنے کی روایت پر اکتفاکیا ہے(صحیح بخاری۴:۲۰۵، کتاب الانبیاء ، باب ماذکر عن بنی اسرائیل اور۹:۷۵، کتاب الفتن باب ذکر الدجال)
لیکن صحیح مسلم میں دجال کے خروج ، اس کی سیرت ،اوصاف ، فتنہ وفساد ،لشکر اورخاتمے کے بارے میں دسیوں احادیث موجود ہیں (صحیح مسلم شرح نووی کے ہمراہ ۲۳:۱۸،اور۸۸۔۵۸، کتاب الفتن واشراط الساعة)
اورشرح صحیح مسلم میں نووی نے واضح طور پر کہا ہے یہ احادیث جو قصہ دجال کی بارے میں وارد ہوئی ہیں اس کے وجود کے عقیدے کے حق ہونے کی دلیل ہیں اوریہ کہ وہ ایک معین شخص ہے اللہ تعالی اس کے ذریعے اپنے بندوں کی آزمائش کرے گا۔اس کے بعد لکھتے ہیں اہل سنت اور سارے محدثین وفقہا اوراہل نظر افراد کا یہی نظریہ ہے(صحیح مسلم شرح نووی کے ساتھ ۱۸:۵۸)
رہا ان احادیث کا ظہور حضرت امام مہدی کے ساتھ تعلق تویہ علماء اہل سنت کے ان اعترافات سے واضح ہو جاتا ہے کہ مہدی ان کے آخری زمانے میں ظاہر ہونے اورعیسیٰ کا ان کے ہمراہ خروج کر کے دجال کو قتل کرنے میں ان کی مدد کرنے والی احادیث متواتر ہیں جیسا کہ ان احادیث کے تواتر کو ثابت کرنے کے لیے ان کے اقوال نقل کئے جا چکے ہیں ۔
۔صحیحین میں نزول عیسیٰ کی احادیث
بخاری اورمسلم میں سے ہر ایک نے اپنی سند کے ساتھ ابوہریرہ سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے پیغمبرنے فرمایا:۔کیف انتم ازا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم "
"تم اس وقت کیسے ہو گے جب تم میں ابن مریم نازل ہو گااورتمہارامام جو تم میں سے ہو گا (صحیح بخاری ۴:۲۰۵، باب ماذکر بنی اسرائیل ۔ صحیح مسلم۱:۱۳۶۔۲۴۴باب نزول عیسیٰ بن مریم اوران دونوں بابوں میں ایسی بہت ساری احادیث موجود ہیں )
اورصحیح مسلم نے اپنی سند کے ساتھ جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر سے سنا کہ :
"لا تزال طائف من امتی یقاتلون علی الحق ظاهرین الی یوم القیامة قال:فینزل عیسیٰ بن مریم علیه السلام فیقول امرهم تعال صل لنا فیقول لا ان بعضکم علی بعض امراء تکرمة لهذه الامة
"
"میری امت کا ایک گروہ قیامت کے دن تک حق پر لڑتا رہے گا پھر فرمایا پس عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے توان کا امیر کہے گا آہمیں نماز پڑھا وہ امت کے احترام میں کہے گا نہیں تم میں سے بعض بعض پر امیر ہیں "(صحیح مسلم ۱:۲۴۷۔۱۳۷ باب نزول عیسیٰ)
یہاں تک واضح ہو گیا کہ مسلمانوں کا امام جو عیسیٰ بن مریم کے نزول تک موجود ہوگا جیسا کہ صحیحین میں ہے وہ اس گروہ کا امیرہوگاجوقیامت تک حق پرجنگ کرے گاجیسا کہ صحیح مسلم میں ہے یوں کہ عیسیٰ اس گروہ کی تعظیم اوراحترام میں امامت کرانے سے انکار کریں گے۔
مسلم کی حدیث کا واضح طورپریہی معنی ہے اس میں کوئی تاویل ممکن نہیں ہے اورجب ہم دیگر صحاح ، مسایند وغیرہ کیطرف رجوح کرتے ہیں توان میں ایسی کثیر روایات پاتے ہیں جو اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ قیامت تک حق لڑنے والے گروہ کا امیر امام مہدی ہے نہ کوئی اور۔
انہیں میں سے ایک اورروایت ہے جسے ابن ابی شیبة نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے:۔المهدی من هذه الائمة وهو الذی یوم عیسیٰ بن مریم
"
"مہدی ان اماموں میں سے ہے اوریہی عیسیٰ بن مریم کو جماعت کرائیں گے(المصنف ابن ابی شیبة ۱۵:۱۹۸، حدیث نمر۱۹۴۹۵)
انہیں میں سے ایک وہ روایت ہے جسے ابو نعیم نے اپنی سند کے ساتھ اورعمر ودانی سے اس نے حذیفہ سے اپنی سنن میں نقل کیا ہے وپ کہتے ہیں پیغمبر اسلام نے فرمایا:۔
"یلقفت المهدی وقدنزل عیسیٰ ابن مریم کانما یقطرمن شعره الماء ،فیقول المهدی :تقدم صل بالناس ،فیقول عیسیٰ :انما اقیمت الصلاة لک فیصلی خلف رجل من ولدی
"
"جب مہدی متوجہ ہوں گے کہ عیسی ٰ بن مریم نازل ہوچکے ہیں اوران کے بالوں سے پانی کے قطرے گررہے ہیں تومہدی کہیں گے آگے بڑھو اورلوگوں کو نماز پڑھاو اس وقت عیسیٰ کہیں گے آپ ہی کے لیے نماز کا اہتمام کیا گیا ہے پس عیسیٰ میری اولاد میں سے ایک مرد کے پیچھے نماز پڑھیں گے(الحاوی للفتاویٰ سیوطی ۲:۸۱)اس کے بعددیگرروایات کو ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے جواس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ صحیحن کی حدیث میں امام سے مراد مہدی ہیں(ملاحظہ ہو سنن ترمذی ۵:۱۵۲۔۲۸۲۹۔ مسند احمد ۳:۱۳۰، الحاوی للتفاوی ۲:۷۸، مناوی کی فیض الغدیر۶:۱۷)
ان احادیث میں سے اکثر کو سیوطی نے اپنے رسالے "العرف الوردی فی اخبارالمہدی"میں جمع کیا ہے یہ رسالہ ان کی کتاب "الحاوی للتفاوی"کے ساتھ چھپ چکا ہے۔ان احادیث کو انہوں نے حافظ ابو نعیم کی کتاب الاربعین سے نقل کیا ہے اورجواحادیث جنہیں نعیم بن حماد نے ذکر کیا ہے کہ جس کے متعلق سیوطی کا کہنا ہے یہ آئمہ حفاظ اوربخاری کے شیوخ میں سے ایک ہے(الحاوی للفتاوی۲:۸۰)
میں کہتاہوں:۔اگرآپ بخاری کی شروح میں غور فرمائیں توآپ ان کی سب کو اس بات پر متفق پائیں گے کہ بخاری کی حدیث میں جو لفظ امام آیا ہے اس سے مراد امام مہدی ہیں ۔
صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں بخاری کی گذشتہ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں احادیث مہدی متواتر ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں "عیسیٰ کا اس امت کے ایک مرد کے پیچھے نمازپڑھنا جبکہ ایسا آخری زمانے میں قیامت کے قریب ہوگا "اس صحیح قول کی دلیل ہے کہ زمین حجة خدا سے خالی نہیں رہ سکتی(فتح الباری شرح بخاری ۶:۳۸۵۔۳۸۳)جیسا کہ ارشاد الساری میں بھی یہی لکھا ہے کہ اس امام سے مراد حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں اورجناب عیسیٰ نماز میں حضرت امام مہدی کی اقتداکریں گے(ارشادالساری ۵:۴۱۹)۔
بعینہ یہی بات صحیح بخاری کی شرح عمدة القاری میں بھی ہے(عمدة القاری شرح بخاری ۱۶:۴۰۔۳۹)
اورفیض الباری میں توابن ماجہ سے ایک حدیث ذکر کی ہے جوبخاری کی اس حدیث کی تفسیر کرتی ہے پھر لکھتے ہیں "پس یہ واضح ہے کہ احادیث میں امام کا مصداق اوراس سے مراد حضرت امام مہدی ہیں "اس کے بعد لکھتے ہیں "اس حدیث کے بعد کس حدیث پرلوگ ایمان لائیں گے(فیض الباری علی صحیح البخاری ۴:۴۷۔۴۴)
اور"البدرالساری الی فیض الباری "کے حاشیے پر مذکورہ حدیث کی طویل شرح کرنے کے بعد حدیث بخاری کی وضاحت کرنے والی ان احادیث کوجمع کیاہے جوتصریح کرتی ہیں کہ امام سے مراد حضرت امام مہدی ہیں
اس کے بعد لکھتے ہیں "ابن ماجہ کی حدیث اس معنی کوزیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہے اوراس کی سند بھی قوی ہے"(حاشیہ البدرالساری الی فیض الباری۴:۴۷۔۴۴)
مسلم نے اپنی صحیح میں اپنی سندکے ساتھ جابربن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ پیغمبرنے فرمایا:۔
"یکون فی آخرامتی خلیفه یحثی المال حثیا لایعده عدا
"
"میری امت کے آخرمیں ایک خلیفہ آئے گا جواس قدرمال عطا کرے گا جسے کوئی شمارنہیں کرسکے گا"۔اوراس حدیث کو دیگرطرق سے بھی جابراورابوسعیدخدری سے نقل کیا ہے(صحیح مسلم۱۸:۳۹)
اور"احثاء مال"ایسی صفت ہے جس سے مراد کثرت میں مبالغہ ہے اوراہل سنت کی کتب اورروایات میں اس کا موصوف امام مہدی کے سواکوئی نہیں ۔اسی قسم کی ایک حدیث ترمذی نے ابوسعیدخدری سے اپنی سندکے ساتھ روایت کی ہے اوراسے حسن قراردیا ہے کہ پیغمبرنے فرمایا:۔
"ان فی امتی المهدی
"
"بیشک میری امت میں مہدی ہے"
اس کے بعد فرمایا:۔
"فیجی ء الرجل فیقول:یامهدی اعطنی اعطنی فیحثحی المال له فی ثوابه مااستطاع ان یحمله
"پس ان کے پاس ایک مرد آکر کہے گا مجھے دیجئے مجھے دیجئے پس مہدی کپڑے میں اسقدر مال باندھ کر اسے دیں گے جتنا وہ اٹھا سکتا ہوگا(سنن ترمذی ۴:۵۰۶۔۲۲۳۲)یہی روایت ابوھریرہ اورابوسعیدخدری سے دیگردسیوں طرق سے مروی ہے(ابن ابی شیبة کی المصنف ۱۵:۱۹۶۔۱۹۴۸۵و۱۹۴۸۶، مسند احمد ۳:۸۰، عبدالرزاق کی المصنف۱۱:۳۷۱۔۲۰۷۷۰، مستدرک حاکم ۴:۴۵۴دلائل النبوة للبیہقی ۶:۵۱۴، تاریخ بغداد۱۰:۴۸مقدسی شافعی کی عقدالدرر :۶۱باب ۴، کنجی شافعی کی البیان ۵۰۶باب ۱۱، البدایۃ ولنہایۃ۶:۲۴۷، مجمع الزوائد ۷:۳۱۴، الدرالمنشور۶:۵۸الحاوی للفتاوی ۶:۵۹و۲۶و۶۳و۶۴۔)
۔ صحیح مسلم میں بیابان میں دھنسنے والی احادیث:۔
صحیح نے اپنی صحیح میں اپنی سند کے ساتھ عبیداللہ بن قطبیہ سے نقل کیا ہے وہ کہتا ہے حارث بن ابی ربیعہ ، عبداللہ بن صفوان اورمیں ام المومنین ام سلمہ کے پاس گئے انہوں نے ان سے اس لشکر کے متعلق سوال کیا جو زمین میں دھنس جائے گا (اوریہ ابن زبیر کے زمانے کی بات ہے)توانہوں نے کہا کہ پیغمبرنے فرمایا تھا:۔ "یعوذ عائز فی البیت ، فیبعث الیه بعث ، فاذاکانو اببیداء من الارض خسف بهم
"
"پناہ لینے والے گھر میں پناہ لے گا اوراس کی طرف فوج بھیجی جائے گی پس جب وہ صحرامیں ہونگے تووہ دھنس جائیں گے"(صحیح مسلم شرح نووی کے ساتھ ۱۸:۴و۵و۶و۷۔)
بعض جہلا کا خیال ہے کہ یہ حدیث زبیر کے حامیوں کی گھڑی ہوئی ہے عبداللہ بن زبیرنے مویین کے ساتھ سختی کی تھی جو اسکے قتل ہونے کی موجب ہوئی تھی۔لیکن حقیقت ایسی نہیں ہے کیونکہ یہ حدیث مختلف طرق سے مروی ہے جیسے ابن عباس ، ابن مسعود، ابوہریرہ ،جدعمروبن شیعب ، ام سلمہ ،صفیہ، عائشہ،حفصہ ،قعقاع کی بیوی نفیرہ اوردیگربڑے بڑے صحابہ اورحاکم نے بعض طرق کو بخاری اورمسلم کے مطابق صحیح قراردیا ہے(مسند احمد ۳:۳۷، سنن ترمذی ۴:۵۰۶۔۲۲۳۲، مستدرک حاکم ۴:۵۲۰، ذھبی کی تلخیص المسندرک ۴:۵۲۰۔اورابو داود نے اسے اپنی سنن میں صحیح سند کے ساتھ ذکرکیا ہے جیسے کہ "عون المعبودشرح سنن ابی داود "میں اس کی وضاحت موجود ہے ۱۱:۳۸۰شرح حدیث ۴۱۶۸۷، اورسیوطی نے حدیث کے کثیر طرق اورجن صحابہ نے اسے روایت کی ہے کو اپنی تفسیر درمنشور میں سورہ سباکی آیت نمبر۵۱کی تفسیر میں جمع کیا ہے۶:۷۱۴۔۷۱۲)
بہر حال صحرا کا دھنسنا اس لشکر کے ساتھ پیش آئے گا جوحضرت امام مہدی کے ساتھ جنگ کرے گا جیسا کہ اس سلسلے میں وارد ہونے والی تمام احادیث بتاتی ہیں اوریہ وضاحت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ مسلم کی حدیث سے مراد کیا ہے۔
غایت المامول میں لکھتے ہیں ہم نے نہیں سنا کہ اس وقت تک کوئی لشکر دھنسا ہو اگرایسا ہوا ہوتا تویہ واقعہ اصحاب الفیل کی طرح مشہور ہوتا(غایة المامول شرح التاج الجامع للاصول ۵:۳۴۱) پس ضروری ہے کہ یہ دھنسا مہدی کے دشمنوں کے ساتھ ہو دیر سے ہو یا جلدی اوروہاں پر باطل پرست گھاٹے میں ہوں گے
احادیث حضرت مہدی کو ضعیف قراردینے میں ابن خلدون کا استدلال
ظہور حضرت امام مہدی کے منکروں نے ابن خلدون کے بعض احادیث کو ضعیف قراردینے کے ساتھ تمسک کیا ہے۔
لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان لوگوں نے علماء اہل سنت کیطرف سے ابن خلدون کو دیئے گئے جوابات کی طرف توجہ نہیں کی۔
نیز اس بات کو بھی بھول گئے کہ ابن خلدون نے بعض احادیث کو ضعیف قرار دینے کے باوجود بعض کوصحیح قراردیا ہے۔
استاد احمدامین کا شاگرد اورازہر یونیورسٹی کے پروفیسرسعدحسن احادیث مہدی کے متعلق لکھتے ہیں ان احادیث کو اورناقدین حدیث نے در کیا ہے اوران پر تنقید کی ہے اور علامہ ابن خلدون نے بڑی سختی سے ان کا انکار کیا ہے (المہدیةفی الاسلام :۶۹)اورایسا ہی خیال ان کے استاد احمد امین کا بھی ہے(المہدیولمہدویة ۱۰۸)یہی بات ابوزہرہ (الامام الصادق ۲۳۹)محمدفریدوجدی(دائرمعارف القرن العشرین ۱۰:۴۸۰)اورجبہان(جبہان کی تبدید الظلان ۴۸۰۔۴۷۹)جیسے دیگرافرادنے بھی کہی ہے اور سائح لیبی کہتا ہے"ابن خلدون نے ان سب احادیث پر تنقید کی ہے اورایک ایک کوضعیف قراردیا ہے"(تراثنا وموازین النقد۔علی حسین السائح الیبی :۱۸۵، مقالہ جو کلیة الدعوة الاسلامیہ "میگزین جو لیبیا سے نکلتا ہے ، میں نشرہواعدد۱۰۔۱۹۹۳ئطبع بیروت)
ابن خلدون نے احادیث کے ضعیف قراردینے کی حقیقت
بیشک ابن خلدون نے احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے اوربعض کو صحیح اوریہ کوئی ہماری اپنی بات نہیں ہے بلکہ خود ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں اس کی وضاحت کی ہے جیسا کہ ہم اس کی عبارت نقل کریں گے۔
اورلگتا ہے کہ استاداحمد امین نے اس کی صحت کی تصریح کونہیں دیکھا اورصرف اس کی تصنعیفات کی طرف اشارہ کردیا ہے۔
پھر یہ لوگ زبن خلدون کی تاریخ کا مطالعہ کیے بغیراس بات کوبڑھا چڑھا کرنقل کرتے ہیں فرض کریں اگرابن خلدون نے احادیث مہدی میں سے ایک کوبھی صحیح قرار نہ دیا ہوتوکیا دیگرعلماء حدیث ودرایة کا ان کوصحیح اورمتواتر دینا کافی نہیں ہے حالانکہ ابن خلدون کا موضوع تاریخ اوراجتماعیات ہے۔
پھر ابن خلدون نے کتنی احادیث کو ضعیف قرارد یا ہے تاکہ اس کے اس عمل کو اس قدر بڑھاچڑھا کرپیش کیا جائے۔
ابن خلدون نے صرف تیئس احادیث کا مطالعہ کیا اوران میں سے انیس کو ضعیف قراردیا ہے اوراحادیث مہدی کو ذکر کرنے والوں میں سے اس نے فقط سات افرادکا ذکر کیا ہے۔ترمذی ،ابوداؤد،بزار،ابن ماجہ، حاکم ، طبرانی ،اورابویصلی موصلی(تاریخ ابن خلدون ۱:۵۵۵، فصل ۵۲)
اس طرح انہوں نے ان اڑتالیس علماء کو چھوڑدیا ہے جنہوں نے احادیث کو مہدی کو ذکر کیا ہے کہ جن میں پہلے ابن سعد (متوفی ۲۳۰ہجری)صاحب طبقات اورآخری نورالدین ہیثمی (متوفی ۸۰۷ہجری)ہیں اوراحادیث مہدی کوروایت کرنے والے صحابہ میں سے انہوں نے فقط چودہ کا ذکر کیا ہے(تاریخ ابن خلدون۵۵۶)جب کہ انتالیس صحابہ کو چھوڑ دیا ہے اوراس کی تفصیل فصل اول میں گزر چکی ہے۔
نیز انہوں نے ان چودہ صحابہ کی بھی بہت کم احادیث کا ذکر کیا ہے چنانچہ ہم نے خود ابوسعید خدری کی احادیث کو شمار ہے فقط ان کی احادیث ان تمام احادیث سے زیادہ ہیں جو ابن خلدون نے ذکر کی ہیں اورابوسعید ان کے ذکر کردہ چودہ صحابہ میں سے ایک ہیں۔
اس سے بڑھ کو ابو سعید خدری کی جب احادیث کو انہوں نے ذکر کیا ہے ان کے بھی سارے طرق کو ذکرنہیں کیا ہے فقط چند کو ذکر کیا ہے کیونکہ دیگر طرق کا انہیں علم ہی نہیں ہے۔اوراگرآپ ہمارے ذکرکردہ طرق ملاحظہ فرمائیں اورپھر ان کا موازنہ ان سے کریں جنہیں ابن خلدون نے اپنی تاریخ کی جلد اول کی فصل نمبر ۵۲میں بیان کیا ہے توآپ کو ہماری اس بات کا یقین ہوجائے گا۔
اس لیے ابن خلدون پرسخت تنقید ہوئی اوران کومختصراورمفصل جواب دیا گیا اس سلسلہ میں ابوالفیض اپنی کتاب "ابرازالوہم"میں ابن خلدون کی تصعیفات کیساتھ تمسک کرنے والوں کے بارے میں لکھتے ہیں :۔
"جن پرآج تواترمخفی ہے اوراس سے جاہل ہیں اوران کا جہل انہیں علم کے راستے سے دور اور رو کے ہوئے ہے یہ وہ لوگ ہیں جوظہورمہدی کاانکار کرتے ہیں اوران کے بار ے میں وارد ہونے والی احادیث کے ضعیف ہونے کا یقین رکھتے ہیں جب کہ یہ لوگ ضعیف ہونے کے اسباب حدیث ضعیف کے معنی اورعلم حدیث کے قواعد واصول سی بھی واقف نہیں ہیں اوران کاظرف ان احادیث مہدی سے خالی ہے جن کا تواترکسی بیان کا محتاج نہیں ہے"
اس انکارکی دلیل فقط وہ کمزور اورجھوٹی علتیں ہیں جو ابن خلدون نے بعض احادیث کو ضعیف قراردینے کیلئے ذکرکی ہیں اوران کے ذریعے انہوں نے ان احادیث کے ثقہ راویوں پر الٹے سیدھے اورغلط الزامات لگائے ہیں جب کہ اس وسیع میدان میں ابن خلدون کی کوئی جگہ نہیں ہے اوراس سلسلے میں اس کاکوئی حصہ اورکردار نہیں ہے
لہذاان پر کیسے اعتماد کیا جاسکتاہے اوران مسائل کی تحقیق میں کیسے ان کیطرف رجوع کیا جاسکتا ہے ضرورت یہ ہے کہ گھر میں دروازے سے داخل ہوا جائے اورحق یہ ہے کہ ہرفن میں اس کے ماہرین کی طرف رجوع کیا جائے لہذافقط حفاظ اورنافذین ہی کا حدیث کو صحیح یا ضعیف قراردینا قابل قبول ہوسکتاہے
(البزار:۴۴۳)اس کے بعد حدیث کے متعددحفاظ اورناقدین کے اقواک کو نقل کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ
احادیث حضرت امام مہدی صحیح اورمتواترہیں
شیخ احمد شاکرکا کہنا ہے "ابن خلدون نے اس چیز کو چھیڑاہے جس کا سے علم نہیں ہے اوراس نے اس وادی میں قدم رکھا ہے جس کاوہ اہل نہیں۔
اس نے اپنے مقدمے کی اسی فصل میں عجب تضادات اورواضح غلطیوں کا ارتکاب کیاہے دراصل ابن خلدون محدثین بات کو سمجھ ہی نہیں پائے کیونکہ اگروہ انہیں سمجھ لیتے تووہ ساری باتیں نہ کہتے جو انہوں نے کہی ہیں(شیخ عبدالمحسن ابن حمدالعباد کا مضمون "مہدی کے بارے میں وادرہونے والی احادیث جھٹلانے کاجواب")یہ مضمون مدینہ منورہ میں "الجامعہ الاسلامیہ "نامی رسالہ میں ۱۴۰۰ ء ہجری میں چھپا ہے عدا، بارھویں جلد نمبر ۴۶،۱۴۰۰ ء ہجری )
شیخ عباد کا کہنا ہے ابن خلدون ایک مورخ ہیں نہ علم رجال کے ماہر تاکہ ان کی تصحیح اوررضعیف پر اعتمادکیا جائے بلکہ اس سلسلے میں بیہقی ، عقیلی ، طابی، ذہبی ، ابن یتمیہ ، ابن قیم جیسے علم حدیث ودرایة کے ماہر پر اعتماد کیا جائیگا جنہوں نے احادیث مہدی کو صحیح قراردیا ہے(سابقہ حوالہ)
بہر حال ابن خلدون کی تضیفات کے ساتھ تمسک کرنے والوں کی دلیل باطل ہے کیونکہ خودابن خلدون نے ان میں سے چار احادیث کی صحة کا اعتراف کیا ہے اوروہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
۱۔ وہ حدیث جسے حاکم نے عون اعرابی عن ابو الصدیق ناجی عن ابو سعید خدری کے طریق سے روایت کیا ہے اس کے بارے میں ابن خلدون نے سکوت اختیار کیا ہے اوراس پر کوئی تنقید نہیں کی کیونکہ اس کے تمام روای اہل سنت کے ساتھ علماء کے نزدیک موثق ہیں اگرچہ انہوں نے اسے صحیح نہیں کہا لیکن ان کا سکوت اس کے صحت کے اعتراف کی دلیل ہے(تاریخ ابن خلدون ۱:۵۶۴، فصل نمبر۵۲)
۲۔ وہ حدیث جسے حاکم نے سلیمان بن عبیدعن ابوالصدیق ناجی عن ابو سعید خدرہ کے طریق سے روایت کیا ہے اس کے بارے میں ابن خلدون کا کہنا ہے "اس کی سند صحیح ہے"(تاریخ ابن خلدون ۱:۵۶۴)
۳۔ وہ حدیث جسے حاکم نے ظہور حضرت امام مہدی کے بارے میں علی سے روایت کیا ہے اوراسے بخاری ومسلم کے معیار کے مطابق صحیح قرار دیا ہے ابن خلدون کا کہنا ہے "یہ سند صحیح ہے جیسا کہ ذکرہوچکا ہے"(تاریخ ابن خلدون ۱:۵۶۵)
۴۔وہ حدیث جسے ابوداود سجستانی نے اپنی سنن میں صالح بن خلیل سے انہوں نے ام سلمہ سے نقل کیا ہے اوراس کی سند کے بارے میں ابن خلدون کا کہنا ہے اس کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں ان پر کسی تنفید وتنقیص کی کوئی گنجائش نہیں ہے(تاریخ ابن خلدون ۱:۵۶۸)
تضعیفات ابن خلدون کی کہانی ہندسوں کی زبانی
ہندسوں کی زبان کسی نقص وتنقید بحث اورتمحیص کو قبول نہیں کرتی ۔
اب ہم ابن خلدون کی تضعیفات میں بحث کے نتائج کواس زبان کے سپرد کرتے ہیں تاکہ سب ممکنہ صورتوں میں ان کے اس کام کی علمی حیثیت واضح ہوسکے اوریہ تب ہوگا جب آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ "معجم احادیث المہدی "پانچ جلدوں پر مشتمل ہے اوران میں احادیث کو ہزار جلدوں سے اکٹھا کیا گیا ہے اورانہیں مختلف قسموں پر تقسیم کیا گیا ہے ملاحظہ فرمایئے:۔
۱۔ پہلی اوردوسری جلد ان پانچ سو ساٹھ (۵۶۰)احادیث پر مشتمل ہیں جو ساری کی ساری سنی اورشیعہ طرق سے پیغمبر اکرم سے مروی ہیں ۔
۲۔تیسری اورچوتھی جلدان (۸۷۶)احادیث پرمشتمل ہیں جوآئمہ اہل بیت سے مروی ہیں اوران میں سے بہت ساری احادیث شیعوں کے ساتھ اہل سنت نے بھی نقل کیا ہے۔
۳۔پانچویں جلدان (۵۰۵)احادیث پر مشتمل ہے جو آیات قرآنیہ کی تفسیر کرتی ہیں اورشیعہ وسنی مفسرین نے جتنی بھی تفسیر پرمبنی احادیث حضرت امام مہدی کے بارے میں ذکر کی ہیں وہ سب تقریبااس میں موجود ہیں ۔
اس لحاظ سے احادیث کی تفسیرکرنے والی احادیث کو چھوڑ کربقیہ کی تعدادبنے گی (۱۴۳۶)اورتفسیر کرنے والی احادیث کو ملائیں توکل بن جائیں گی (۱۹۴۱)اوراگران کے سارے طرق شمار کیے جائیں توتقریبا چار ہزار بنتے ہیں ۔
اب غورفرمائیں:۔
۱۔ابن خلدون نے فقط (۲۳)احادیث کے متعلق بحث کی ہے ۔۲۔ان کے طرق کی تعداد(۲۸)ہے۔
۳۔ ابن خلدون نے ان میں سے چار کو صحیح قرار دیا ہے ۔۴۔ ان میں ضعیف ۱۹ ہیں
پس ابن خلدون (۱۹۱۸)احادیث کو زیربحث نہیں لائے ان میں سے (۵۳۷)حدیث پیغمبرسے مروی ہے (۸۷۶)اہلبیت سے اور(۵۰۵)احادیث آیات قرآنیہ کی تفسیرکرتی ہیں اوراس طرح ۲۳کا عدد مندرجہ ذیل نسبتیں تشکیل دیتا ہے:۔
۱۔ پیغمبر سے مروی احادیث کے ساتھ اس نسبت بنتی ہے۱۰۷،۴/
۲۔ پیغمبر اسلام اوراہم بیت سے مروی ساری احادیث کے ساتھ ہے ۶۰۱،۱/
۳۔ اورساری احادیث کے ساتھ ہے ۱۸۴،۱/اوراگر ابن خلدون ساری احادیث کو زیر بحث لائے ہوتے صحیح احادیث کی تعداد جو ان کے نزدیک ۲۳ میں سے ۴ہے کا تناسب یہ ہوتا:۔
۱۔ اگرپیغمبر اسلام سے مروی ساری روایات پر تنقید ی نظر کرتے تو۹۸احادیث صحیح ہوتیں ۔
۲۔ پیغمبر اسلام اوراہل بیت سے مروی احادیث سے۲۵۰احادیث صحیح ہوتیں۔
۳۔ اگرساری احادیث پر تنقید کرتے توصحیح احادیث کی تعداد ۳۳۸ہوتی۔
اورواضح ہے کہ پہلا عدد ہی احادیث مہدی کے تواتر کے لیے کافی ہے اورجن احادیث کو ابن خلدون نے درکیا ہے انہیں اگر ان احادیث سے نسبت دی جائے جنہیں ابن خلدون بحث زیر بحث نہیں لائے تومندرجہ ذیل تناسب بنتاہے:۔
۱۔ پیغمبر سے مروی احادیث کے ساتھ تناسب یہ ہے ۳۹۲۔ ۳/
۲۔ پیغمبر اسلام اوراھل بیت سے مروی احادیث کے ساتھ ۳۲۰،۱/
۳۔ تمام احادیث کے مجموعے کے ساتھ ۹۷۸،۰/
لہذا کیسے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ ابن خلدون نے ساری احادیث مہدی کو ضعیف قرار دیا ہے جب کہ وہ بہت ہی کم تعدادکوزیربحث لائے ہیں اوران میں سے بھی بعض کو انہوں نے صحیح قرار دیا ہے
عیسیٰ بن مریم ہی مہدی ہیں
بعض مشترقین اورغیرمشترقین نے امام مہدی کے انکار کے سلسلے میں محمد بن خالدجندی کی اس حدیث کو بہانہ بنایا ہے کہ اللہ کا نبی عیسیٰ ہی مہدی ہے لیکن میں نے علماء اسلام میں کوئی ایسا عالم نہیں دیکھا جس نے حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اس پرتنقید نہ کی ہو اوراس کا مذاق نہ اڑایا ہو۔
لہذا بالاتفاق قابل قبول نہیں ہے لیکن اس غرض سے کہ اس کا بطلان کسی پر پوشیدہ نہ رہے اس کی حقیقت کو بیان کرنا ضروری ہے۔
اس حدیث کو ابن ماجہ نے یونس بن عبدالاعلی سے انہوں نے شافعی سے انہوں نے محمدبن خالدجندی سے انہوں نے ابان بن صالح سے انہوں نے حسن بصری سے انہوں نے انس بن مالک سے انہوں نے پیغمبر اسلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :۔
"معاملہ سخت ہوجائے گا دنیا پیچھے کی طرف چلتی رہے گی ،لوگ کنجوس ہوتے جائیں گے اورقیامت قائم نہیں ہوگی مگربرے لوگوں کے نقصان میں اورکوئی مہدی نہیں ہے عیسیٰ بن مریم کے سوا(سنن ابی ماجہ ۲:۱۳۴۰۔۴۰۳۰، اورخود ابن ماجہ نے یہ حدیث بھی نقل کی ہے۔"المهدی حق وهومن ولدفاطمة
""مہدی حق ہے اوراولاد فاطمة سے ہے۲:۱۳۶۸۔۴۰۸۶، جو گزر چکی ہے نیز ہم ذکر کرچکے ہیں کہ اہل سنت میں کسی نے اسے صحیح قرار یا ہے اورکسی نے متواتر۔۔۔۔۔۔)
اس کی رد اوربطلان کے لیے کسی علمی کاوش کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ حدیث گزشتہ ساری صحیح اورمتواتر احادیث کے مخالف ہے
اوراگرمروی حدیث کے ذریعے نقص کے باوجود استدلال صحیح ہو تو علم رجال اورفن درایت ایک بازیچہ اطفال جائے گا اوراس کا مطلب جعلی احادیث کو صحیح قرار دینا ، جھوٹے راویوں کو جلیل القدر اورثقہ شمار کرنا ،مجہول احادیث کو مشہور بنانا اورناصبیوں کو سادات سمجھنا ہوگا۔
اورثقہ وقابل اعتماد کو مجروح اورمطعون کے ساتھ ملانے اچھے اوربرے کو یکجا کرنے اورناقص وکامل کے درمیان فرق نہ کرنے کی صورت میں اسلام میں کوئی بھی متواترحدیث نہیں رہی گی۔
کیاکوئی عقلمند مسلمان ایسا ہے جودجال صفت راوی محمد بن خالد جندی کی تصدیق کرسکتا ہو؟
کیونکہ یہی وہ شخص ہے جس نے حدیث جند(جندجو صنعا سے دودن کے فاصلے پر ایک مقام ہے) کونقل کیاہے کہ جس کاجعلی ہونامشہورہے اوروہ حدیث یہ ہے"چارمساجد کی طرف پالان کسے جائیں گے مسجد حرام ، میری مسجد،مسجداقصیٰ اورمسجد جند"(تہذیب التہذیب۹:۱۲۵۔۲۰۲)
دیکھئے کس طرح اس نے لوگوں کے دلوں کوجند کی چھاونی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس سے پہلے تین مقدس مساجد کا ذکرکیا ہے اور تعحب ابن ماجہ پر ہے کہ انہوں نے محمد بن خالد جندی کی اس عبارت ولا مھدی الا عیسیٰ بن مریم (مہدی وہی عیسیٰ بن مریم ہے)والی حدیث کو ذکر کیا ہے۔
حالانکہ یہی حدیث دیگر صحیح طرق سے بھی مروی ہے کہ جن میں یہ اضافہ نہیں ہے
ان میں سے ایک وہ ہے جسے طبرانی اورحاکم نے اپنی اپنی سند کے ساتھ ابوامامہ سے بالکل انہیں الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے لیکن اس میں یہ الفاظ ولامھدی الا عیسیٰ بن مریم (مہدی وہی عیسیٰ مریم ہے )نہیں ہیں۔
اورحاکم نے اسے صحیح قراردیا ہے اورکہا ہے "یہ حدیث صحیح ہے لیکن بخاری اورمسلم نے اسے ذکر نہیں کیا"(مستدرک حاکم ۴:۴۴۰، کتاب الفتن اولماحم اورطبرانی کیالکبیر۸:۲۱۴۔۷۷۵۷)
ہاں حاکم نے بھی ابن ماجہ کی اس حدیث کو اس اضافے کے ساتھ نقل کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کی ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو اپنی مستدرک میں تعجب کے لیے نقل کیا ہے نہ کہ بخاری اورمسلم پرحجة کے لیے(مستدرک حاکم ۴:۴۴۲۔۴۴۱، کتاب الفتن والملاحم)
ابن قیم نے "المنارالنیف "میں اس حدیث (ولامھدی الا عیسی ٰ بن مریم)(مہدی وہی عیسٰی بن مریم ہیں)کا ذکرکیا ہے اوراس کے متعلق علماء اہل سنت کے اقوال نقل کئے ہیں اورکہا ہے اس حدیث کو صرف محمد بن خالد جندی نے روایت کیاہے۔
اورآبری (متوفی ۳۶۳ہجری)سے نقل کیا ہے کہ محمد بن خالد علماء حدیث ودرایت کے درمیان معروف نہیں ہے اوربیقہی سے نقل کیا ہے اسے فقط محمد بن خالد نے نقل کیا ہے اورحاکم ابوعبداللہ نے کہا ہے یہ مجہول ہے اور اس کی سند میں بھی اختلاف ہے پس اس سے روایت کیا گیا ہے کہ اس نے ابان بن ابو عیا ش سے اورانہوں نے مرسل حدیث پیغمبر اکرم سے نقل کی ہے
پس اس کی بازگشت بھی محمد بن خالد کی طرف ہوئی جو مجہول ہے حدیث منقطع ہے اورظہور مہدی کی احادیث زیادہ صحیح ہیں(المنارالنیف۱۲۹۔۳۲۴و۱۳۰۔۳۲۵)
اورابن حجر نے ابوعمرو اورابو الفتح ازدی کی محمد بن خالد پر تنقید پو ذکر کیاہے(تہذیب التہذیب ۹:۱۲۵۔۲۰۲)
میں کہتا ہوں حدیث:۔(ولامہدی الاعیسی بن مریم)
(مہدی وہی عیسی بن مریم) ایک ناقابل قبول روایت ہے جسے ابن ماجہ نے ذکر کیا ہے(میزان الاعتدال ۳:۵۳۵۔۷۴۷۹)
قرطبی نے کہا ہے یہ جملہ( ولامہدی الاعیسیٰ بن مریم)
اس سلسلے میں وارد دیگر احادیث کے معارض ہے پھر محمد بن خالد پر طعن کرنے والوں اوراس کی حدیث کو رد کرنے والوں کے اقوال نقل کرنے بعد کہا ہے
"حضرت امام مہدی کے ظہور اوران کی عترت اوراولاد فاطمة سلام اللہ علیھا سے ہونے کے سلسلے میں پیغمبر اکرم سے صحیح احادیث موجود ہیں پس فیصلہ انہیں کے مطابق کیا جائے گا کہ اس حدیث کے مطابق"(التذکرہ ۲:۷۰۱)
ابن حجر کا کہنا ہے نسائی نے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ حدیث قابل قبول نہیں ہے اوردیگر حفاظ نے قطعی طور پر کہا ہے کہ اس سے پہلے والی احادیث جو واضح طور پر کہتی ہیں کہ مہدی اولاد فاطمہ سے ہے زیادہ صحیح ہیں(الصواعق المحرقہ:۲۶۴)
ابونعیم نے حلیة الاولیاء میں اس حدیث کو غریب شمار کیا ہے اورکہا ہے "ہم نے اس کو نہیں لکھا مگرشافعی حدیث سے "(حلیۃ الاولیاء۹:۶۱)
ابن تیمیہ کا کہنا ہے وہ حدیث جس میں یہ جملہ (ولا مہدی الاعیسیٰ بن مریم)مہدی وہی عیسیٰ بن مریم ہیں )ہے اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اوریہ ایک ضعیف حدیث ہے جسے اس نے یونس سے اس نے شافعی سے اوراس نے یمن کے ایک مجہول شخص سے روایت کیا ہے۔
ایسی سند کے ساتھ توروایت حجة نہیں ہوا کرتی اوریونس اس سے روایت کی گیا ہے کہ مجھ سے بیان کیاگیا شافعی سے اور خلعیات وغیرہ میں ہے ہمیں یونس نے بتایا شافعی سے نہ ہمیں شافعی نے ان دونوں کا مطلب یہ ہے کہ خود شافعی نے نہیں بتایا پس شافعی کی طرف بھی اس کی نسبت ثابت نہیں ہے۔
پھر محمد بن خالد جندی کی حدیث کے متعلق کہتا ہے اس میں تدلیس ہے جو ا س کے ضعیف ہونے پردلالت کرتی ہے اوربعض لوگ توکہتے ہیں شافعی نے اسے روایت ہی نہیں کیا(مہناج السنة ابن تیمیہ ۴:۱۰۲۔۱۰۱)
چنانچہ محمد بن خالد جندی کے بہت زیادہ مطعون ہونے کی وجہ سے امام شافعی کے بعض حامیوں نے ان سے اس حدیث کو دور کرنے کی کوشش کی ہے اورکہا ہے کہ شافعی کے شاگرد نے ان پر جھوٹ بولا ہے اوردعویٰ کیا ہے کہ شافعی نے خواب میں دیکھا تھا وہ کہہ رہے تھے "مجھ پریونس بن عبداالاعلی نے جھوٹ بولا ہے یہ میری حدیث نہیں ہے(ابن کثیر کی الفتن والملاحم ۳۲)
ابو الفیض غماری نے اس حدیث :۔(ولامہدی الا عیسیٰ مریم)مہدی وہی عیسیٰ بن مریم ہے کو آٹھ محکم ومضبوط دلیلوں سے رد کیاہے۔(ابراز الوہم المکنون :۵۳۸)
مہدویت کے سابقہ دعووں سے استدلال
لامہدویت کا ڈرامہ کرنے والوں نے آخری زمانے میں ظہورمہدی کا انکار کرنے کے لیے مہدویت کے سلسلے میں گذشتہ دعووں کودلیل بنایا ہے جیسے حسنیوں کا دعوی کہ محمد بن عبداللہ بن حسن مہدی ہے
عباسیوں کادعوی کہ مہدی عباسی مہدی ہے اور اسی طرح دوسرے دعاوی جیسے ابن تومرت یامہدی سوڈانی یا محمدبن حنفیہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کی مہدویت کادعوی۔اس استدلال کی بنیاد مہدویت کے باطل دعووں پر ہے اوریوں حق باطل کے درمیان ایک دھوکہ دینے والا موازنہ قائم کرکے انہیں گڈمڈ کردیا گیا ہے جسکی وضاحت مندرجہ ذیل باتوں سے ہو جاتی ہے
اول:۔ان دعویداروں میں ظہور مہدی کی ایک علامت موجود نہیں تھی اورصحیحین کی روایات کی روشنی میں یہ بعض علامات گزر چکی ہیں۔
دوم:۔ان سب کی موت ثابت ہوچکی ہے اورکوئی مسلمان ان کے زندہ ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتا۔
سوم:۔ یہ سب آخری زمانے میں نہیں تھے کہ جو ظہور مہدی کی شرط ہے اورپھر ان میں سے کسی نے زمین کو عدل وانصاف سے پر نہیں کیا
چہارم :۔سب سے اہم یہ کہ اگریہ استدلال صحیح ہو تو عدالت ختم ہو جائے گی کیونکہ فرعون مصر سے لیکن آج تک سارے طاغوتوں نے ایسے دعوے کئے ہیں۔
لہذا جاہلوں کے دعوی علم کی وجہ سے ہمیں علماء کو جاہل قرار دینا ہوگا ، بہادرکوبزدل ، سخی کو بخیل اوربردبار کو بیوقوف کیونکہ ہر اچھی صفت میں بعض لوگوں نے جھوٹے دعوی کئے ہیں ۔
ظہور مہدی کامسئلہ ان مسائل میں سے ایک ہے جن سے سیاسی اہداف رکھنے والوں نے فائدہ اٹھایا ہے اسی وجہ سے بعض لوگوں نے خود اس کا دعویٰ کیا تھا اوربعض نے اپنے مفادکی خاطراس کی ترویج کی تھی ۔
اورجیسے ایک عقل مندانسان کسی غیر مستحق کے دعوی کی وجہ سے وجود حق کا انکارنہیں کرسکتا اسی طرح مہدویت کے ان باطل دعووں کی وجہ سے اس مہدی کے ظہور کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا جس کی بشارت ہمارے نبی اعظم نے دی تھی
اسی کے ساتھ ساتھ علماء اسلام نے امام مہدی کے بارے میں وارد ہونے والی بہت ساری روایات اوران کی اکثر اسناد کو صحیح قرار دیا ہے کہ جو ساری مل کر متواترہوجاتی ہیں اوربعض سے توتواترکا مسلم شمار کیاہے جیسے کہ اس کا ذکرپہلے ہوچکاہے
ان شبہات کی قلعی کھلنے اوران کے نقش بر آب ثابت ہونے کے بعد ایک شبہ باقی رہ جاتا ہے اوروہ یہ کہ امام مہدی کی اسقدر طویل عمر عقل وعلم کے معیار پرپوری نہیں اترتی۔
یہ شبہ ان لوگوں کی سب بڑی دلیل ہے اورآخری فصل میں ہم حسب ضرورت اس پر بحث کریں گے تاکہ واضح ہوجائے کہ یہ عقل وعلم کے خلاف ہے اورثابت کریں گے کہ عقل کی اپنی حدودہیں اوریہ کسی شخص کی ذاتی خواہشات ، تمناوں اورمیلان سے آزاد ہے اوراس کے اپنے احکام ہیں جنہیں تمام عقلاء قبول کرتے ہیں اوران کا قبول کرنا کسی فرد کی عقل پرموقوف نہیں ہے
نیز اس بات کو روشن کریں گے کہ محال ذاتی اورممکن ذاتی میں بہت بڑافرق ہے محال ذاتی میں وقوع کسی حال میں بھی ممکن نہیں ہے حتی کہ انبیاء اوراوصیاء کے ذریعہ بھی واقع نہیں ہوسکتا جیسے نقضین کا جمع ہونااورممکن ذاتی جوعام طور پر وقوع پذیر نہیں ہوتا لیکن اس کے واقع ہونے کا امکان ہے اوریہ کہ وقوع پذیر ہونے اورنہ ہونے کے لحاظ سے محال عقلی اورمحال عادی ایک جیسے نہیں ہیں۔
لیکن ان لوگوں نے انہیں اسطرح ملاجلا کرپیش کیا ہے کہ اب عام خیال یہ بن گیا ہے کہ جوشئی بھی عام طورپروقوع پذیرنہیں ہوتی وہ محال عقلی ہے کیونکہ ان دونوں میں انہوں نے فرق نہیں کیا اورہم دلیل سے ثابت کریں گے کی ان کا یہ بہانہ عقل وعلم کی روشنی میں کسی دلیل اوربرہان کی حیثیت نہیں رکھتا۔
امام مہدی عقل اورعلم کی روشنی میں
جو لوگ حضرت امام مہدی کا انکار کرتے ہیں اورانہیں امام حسن عسکری کا بیٹا محمد نہیں مانتے وہ ایسی دلیلوں سے تمسک کرتے ہیں جن کا عقائد کے سلسلے میں اسلام کی معین کردہ روش سے دور ک بھی واسطہ نہیں ہے
اسلام کی روش جس طرح عقل ومنطق پر قائم ہے اسی طرح فطرت اورغیب پر بھی استوار ہے غیب پر ایمان مسلمان کے عقیدے کا جز ہے کیونکہ قرآن وسنت نے بار بار اس کی طرف دعوت دی ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:۔
(
الم ذلک الکتاب لاریب فیه هدی للمتقین الذین یومنون بالغیب
)
۔۔
الم یہ ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے ان متقین کے لیے ہدایت ہے جوغیب پر ایمان رکھتے ہیں(سورة بقری آیت ۱۔۳)
نیز فرماتا ہے:۔
(
تلک من انباء الغیب نوهیها الیک
)
۔۔۔۔۔
یہ غیب کی خبریں ہیں جن کی ہم تیری طرف وحی بھیجتے ہیں (سورة ہود۴۹)
اورحدیث کی کتابوں میں ایسی سینکڑوں روایات موجود ہیں جو ایمان بالغیب اورانبیاء ورسل کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق کرنے پر زور دیتی ہیں اورایمان بالغیب کے انکار کے باوجود مسلمان کاعقیدہ صحیح نہیں ہوسکتا چاہے اس کو سمجھ لے اوراس کے اسرار اوررتفصیلات تک پہنچ جائییانہ جیسا کہ فرشتے ، جن عذاب قبر ، سوال منکرونکیراوردیگر وہ غیب کی خبریں جب پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔
قرآن مجید نے انہیں ذکر کیا ہے حضرت پیغمبر نے ان کی خبردی ہے اورثقہ عادل اورامین لوگوں کے ذریعہ ہم تک نقل ہوئی ہیں انہیں میں سے اہم مسئلہ ظہور حضرت امام مہدی ہے کہ جو زمین کوعدل وانصاف سے پرکردیں گے جیسا کہ وہ ظلم وجورسے پرہوچکی ہوگی۔
پس حضرت مہدی کا انکارمسلمانوں کے لیے ممکن نہیں ہے کہ جن کا ذکر صحاح اورمسایند وسنن میں موجود ہے ان کے طرق کی کثرت راویوں کی وثاقت، تاریخی دلائل اورمشاہدات کو پوری تحقیق سے ہم پیش کرچکے ہیں
منکرین چاہے مغرب کے پروپیگنڈے اورمستشرقین کے لٹریچر سے متاثر ہوئے ہوں یا اپنے بزرگوں سے وراثت میں ملے تعصب میں اندھے ہوئے ہوں جب متواتر احادیث ، محکم دلیلیں اورپے درپے اعترافات کے مقابلے میں اپنے آپکو خالی ہاتھ اوربے بس دیکھتے ہیں توامت مسلمہ کو اس سے منحرف کرنے اورمرحلہ انتظار میں انہیں اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہ نہ کرنے پرآمادہ نہ کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے بعض پست اورباطل قسم کی قیاس آرائیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اورکہتے ہیں امام مہدی کی عمر کا اسقدر طویل ہونا اوراس کے لوازمات علم وعقل اورحقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے لیکن اللہ کی مدد اوراس کی توفیق سے عنقریب واضح ہوجائے گا کہ ان کی یہ منطق کس قدرعلمی اصول وضوابط اورصحیح معیاروں سے دور ہے ۔
شایدان کے اہم ترین شبہات یہ ہیں طول عمر کم سنی غیبت سے خود حضرت امام کو کیا فائدہ ہے اورمسلمان غائب امام سے کیسے استفادہ کرسکتے ہیں ۔
چنانچہ ہم علمی طریقے سے اورعقلی دلائل کی روشنی میں بحث کررہے ہیں ملاحظہ فرمائیے