سوال اول:۔ پانچ سال کی عمرمیں آپ کیسے امام ہو سکتے ہیں؟
جواب:۔ بیشک امام مہدی مسلمانوں کی امامت میں اپنے والد بزرگوار کے جانشین تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نہایت کم سنی میں روحانی اورفکری طور پر ایک کامل امام تھے اوربچپن کی امامت آپ سے پہلے بھی کئی اماموں کوحاصل ہو چکی تھی امام محمد تقی آٹھ سال کی عمر میں امام بنے تھے امام علی نقی نو سال اورامام مہدی کے والد امام حسن عسکری بائیس سال کی عمر میں امام تھے۔
توآپ نے ملاحظہ فرمایا کہ بچپن میں امامت والاواضح اورصریخ منصب امام مہدی اورامام محمد تقی کو حاصل ہوا۔
ہم نے اس کو واضح منصب اس لیے کہا ہے کیونکہ یہ امام مہدی کے بعض آباؤ اجداد میں دیکھا گیا ہے مسلمانوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے اوراس کے مختلف علمی تجربات دیکھتے ہیں اورایک ظاہر اورواضح چیز کو ثابت کرنے کے لیے امت کے عملی تجربے سے زیادہ محکم اورواضح دلیل دوسری کوئی اورچیز نہیں ہوسکتی اس کی وضاحت مندرجہ ذیل نکات سے ہوجائے گی
۱۔ اماموں کی امامت کوئی ایسا حکومتی منصب نہیں ہے جو وراثت میں باپ سے بیٹے کی طرف منتقل ہوتا ہے اورحکومتی سسٹم اسے سہارا دیتا ہے جیسا کہ امویین ، فاطمیین،عباسیین،میں تھا بلکہ اسلام ومسلمین کی زعامت کا معیار امام کافکری وروحانی بنیادوں پر قیادت کے لائق ہونا ہے اور امام امت کے مختلف گروہوں کو فکری اورروحانی لحاظ سے قانع کرکے اپنی امامت کا لوہا منواتے تھے۔
۲۔ ان گروہوں کی صدر اسلام میں بنیاد رکھی گئی اورحضرت امام محمد باقر وحضرت امام صادق کے زمانے میں پھولے پھلے اوران دواماموں کے زیرنظر چلنے والے مدرسے نے عالم اسلام میں ایک وسیع اورولولہ انگیز فکرپیدا کی جس نے اس وقت کے مختلف اورمعروف انسانی اوراسلامی علمی میدانوں میں سینکڑوں فقہا ، متکلمین ، علمااورمفسرین پیدا کئے۔
حسن بن علی وشاکا کہنا ہے میں نے مسجد کوفہ میں نوسو شیوخ پائے ان میں سے ہر ایک کہتا تھا مجھ سے یہ حدیث امام جعفر بن محمد نے بیان کی ہے(رجال نجاشی ۴۰۔۸۰ حسن بن علی بن زیاد وشاکاکے حالات میں)
۳۔ جن شرائط کا یہ مدرسہ میں پرچار کرتا تھا اورجنہیں یہ امامت قراردیتا تھا وہ بہت سخت تھیں کیونکہ وہ یہ نظریہ پیش کررہا تھا کہ امام علیہ السلام فقط معصوم اوراپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم ہوسکتا ہے۔
۴۔ اس مکتب اوراس کے ہم فکر لوگ امامت میں اپنے عقیدے پر پختہ رہنے کے لیے بڑی بڑی قربانیاں دیتے رہے کیونکہ اس وقت کی کوئی حکومت یہ سمجھتی تھی کہ یہ ہمارے خلاف کوئی خط تشکیل دے رہے ہیں کم از کم فکری لحاظ سے۔
لہذا اس وقت کی حکومتیں مسلسل حملے کرتی رہیں کئی قتل ہوگئے کئی قید میں بند کردیئے گے اورسینکڑوں لوگ قیدخانوں کی تاریکیوں میں جام شہادت نوش کرگئے۔
یعنی ائمۃ علیھم السلام کی امامت کے عقیدے کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی تھی اورانہیں اس عقیدے پر اکسانے والی چیز سوائے اللہ کے قرب کے اورکوئی نہیں تھی
۵۔ ائمۃ علیھم السلام ان گروہوں سے الگ تھلک نہیں رہتے تھے اورنہ بادشاہوں کی طرح عالی شان محلوں میں زندگی گزارتے تھے اورنہ ہی مخفی رہتے تھے مگر یہ کہ خودحکومت انہیں قید یاجلاوطن کردے۔
چنانچہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے آباواجداد میں سے ہر ایک کے سینکڑوں راوی اورمحدث ان کے اپنے ہم عصرلوگوں کے ساتھ خطوکتابت ان کے طویل سفر پھر عالم اسلام کی مختلف جوانب میں اپنے وکلاء کو بھیجنا اورحج کوموقع پر شیعہ کا زیارت کاعادی ہونا
یہ سب امام اور عالم اسلام کے مختلف نقاط میں آپ کے ہم فکر اورپیروی کرنے والے مختلف لوگوں کے درمیان ایک واضح اورمسلسل رابطے کی دلیل ہیں ۔
۶۔ اس دور کی حکومتیں آئمہ علیھم السلام کی اس روحانی قیادت کواپنے اقتدار کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کرتی تھیں اسی وجہ سے اس قیادت کو ختم کرنے کی پوری کوشش تھی اوراسی لیے بڑے بڑے غلط کام سرانجام دیتیں اوراگر ضرورت محسوس کرتیں توسنگدلی اورسرکشی کے نمونے بن جاتیں اورآئمہ علیھم السلام کے خلاف قیدوبند اوردیگر محرمانہ حملے جاری رکھتیں جس کی وجہ سے مسلمان بالخصوص چاہنے والوں کو بہت دکھ ہوتا اورحکومت کے خلاف نفرت پیدا ہوتی تھی۔
ان چھ نکات کو جو تاریخی حقائق پر مشتمل ہیں اگرمدنظر رکھیں تومندرجہ ذیل نتیجے تک پہنچنا ممکن ہوجائے گا۔
بچپن میں امامت والی بات ایک کھلی حقیقت تھی کوئی وہم نہیں تھا کیونکہ بچپن میں جو بھی امام سامنے آیا اورانہوں نے مسلمانوں کے لیے اپنے آپ کو روحی اورفکری امام متعارف کرایا۔
اوروسیع وعریض دنیا میں پھیلے ہوئے آپ کے چاہنے والوں اورپیروکاروں کا آپ امام اوررہبر مان لینا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ:۔آپ علم ومعرفت کے اعلی درجے پر فائز تھے فقہ تفسیر وعقائد وغیرہ پر پورا تسلط رکھتے تھے۔اگرایسا نہ ہوتا توممکن نہیں تھا کہ اتنے بڑے بڑے گروہ آپ کی امامت کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے۔با لخصوص اس تناظر میں کہ آپ اپنے پیروکاروں کو اپنے ساتھ رابطہ رکھنے اوراپنی شخصیت کو پرکھنے کا پورا موقع فراہم کرتے تھے کیا ممکن ہے کہ ایک بچہ اپنی امامت کا اعلان کرے اوروہ بھی علی الاعلان اوراتنے بڑے بڑے مختلف گروہوں کے سامنے۔
اوریہ سب اس کی حقیقت سے مطلع ہوئے بغیر اوراس بچے کی حیثیت کا اندازہ لگائے بغیر اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیں اوراس راہ میں اپنا امن اورزندگی جیسی قیمتی ترین چیز قربان کردیں ؟
اورکیا یہ ممکن ہے کہ واقعاوہ فکری اورعلمی لحاظ سے بچہ ہو لیکن اسقدر طویل رابطے کے باوجود ظاہر نہ ہو؟
فرض کریں کہ اہل بیت کی امامت کو ماننے والے حقیقت حال کو کشف کرنے پر قادر نہیں تھے توپھر حکومت کیوں خاموش رہی اوراس نے حقیقت حال کو ظاہر کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی حالانکہ یہ اس کے مفاد میں تھا
اوراگرامامت کا وہ دعویدار بچہ فکروعلم میں بھی بچہ تھا توحکومت کے لیے یہ کام کس قدر آسان تھاجیسا کہ دیگر بچوں میں ہے؟
اورکس قدر اس کے لیے مفید تھا یہ اسلوب کہ بچے کو شیعوں اورغیرشیعوں کے سامنے اس طرح پیش کردیتی جیسے وہ تھا اوراس کے روحانی اورفکری بنیادوں پرا مامت کے لائق نہ ہونے کو ثابت کردیتی۔
اگرچالیس یا پچاس سالہ شخص کے امامت کے لائق نہ ہونے کو ثابت کرنا مشکل ہو توبھی بچے کے لیے یہ کام مشکل نہیں ہے چاہے وہ کتنا ہی ذہین وفطین ہو اوریہ ان سب طریقوں سے آسان تھا جوان حکومتوں نے اپنا رکھے تھے۔
پس وقت کی حکومت کی اس سلسلے میں خاموشی کی صرف ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے اوروہ یہ کہ اس نے درک کرلیا تھا کہ بچپن کی یہ امامت ایک کھلی اورروشن حقیقت ہے کہ کوئی جعلی اوربناوٹی شی۔
حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے مختلف مواقع میں اس کی کوشش کرنے اوراس میں ناکام ہونے کی وجہ سے بہت نزدیک سے یہ چیز درک کرلی تھی۔
کیونکہ تاریخ ہمیں اس قسم کے کئی واقعات بتاتی ہے جن میں حکومت کی ناکامی واضح ہوتی ہے اس کے برعکس ایسا ایک بھی واقعہ نہیں ملتا جس میں بچپن کی یہ امامت لڑکھڑائی ہویا اس چبے نے اپنے سے بالاتر کا سامنا کیا ہواورلوگوں کا اس پراعتماد متزلزل ہو گیا ہو۔
اورہم نے جو کہا تھا کہ بچپن میں امامت ایک کھلی اورروشن حقیقت تھی اس سے ہماری مرادیہی تھی اوراس کی مثال خداکے رسولوں میں بھی ملتی ہے جیسے کہ یحییٰ نبی کے بارے میں خدا فرماتا ہے:۔
(
یا یحییٰ خذ الکتاب بقوة واتینا الحکم صبیا)
اے یحییٰ کتاب کو قوت کے ساتھ پکڑلو اور ہم نے اسے بچپن ہی میں نبوت عطا کی(سورہ مریم ۱۹۔۱۲اورفصل دوم کے نمبر۵، اور۸ میں ابن حجر ہیثمی شافعی اوراحمد بن یوسف قرمانی حنفی کااعتراف گزرچکا ہے کہ مہدی کو بچپن میں حکمت عطاہوئی)
اورجب یہ ثابت ہوگیا کہ بچپن کی امامت ایل بیت کہ ہاں اوریہ ایک کھلی حقیقت ہے موجود تھی توخاص طور سے امام مہدی کے بچپن میں امام بننے پر اعتراض کونا کوئی معقول بات نہیں ہے۔
دوسراسوال :۔ طول عمر
شاید سب سے اہم اعتراض کہ جس کا ہمیشہ سے پھر پور پروپیگنڈا کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ جب مہدی ایک ایسے انسان ہیں جو مسلسل گیارہوں صدی سے زندہ ہیں توانہیں اتنی طویل عمر کہاں سے ملی اوران طبیعی قوانیں سے کیسے محفوظ رہے جس میں بڑھاپے کا مرحلہ ضروری ہے(یہ شبہہ کتب عقائد میں بہت قدیم زمانے سے زیر بحث لایا جاتا ہے اورشیعوں کے بڑے بڑے علماء نے اس کا مختلف طریقوں سے جواب دیا ہے ہم ان میں سے فقط بعض کو ذکر کریں گے)
اس شبہے کو سوال کی صورت میں بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے ایک انسان کئی صدیوں تک زندہ رہے ؟اس سوال کے جواب کے لیے مسئلہ امکان کی بطور رتمہید وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔
امکان کی تین قسمیں ہیں ۔
اول :۔امکان عملی
یعنی وہ امکان جو فعلا اورواقعا ممکن ہے اورواضح طور پر وجود رکھتا ہے ۔
دوم :۔امکان علمی!
یعنی وہ امکان جو صرف علمی پہلو سے محال نہیں ہے اورعلم اس کے وجود کو محال قرارنہیں دیتا
سوم :۔امکان منطقی!
یعنی وہ امکان جو عقلاء کی نظر میں محال نہیں ہے اورعقل اس کے وجود کو نا ممکن قرارنہیں دیتی ۔اب ہم اس مسئلہ کوامکان منطقی سے شروع کرتے ہوئے مندرجہ ذیل صورت میں پیش کرتے ہیں ۔
کیا انسان کا صدیوں تک زندہ رہنا عقلی لحاظ سے ممکن ہے ؟اس کا جواب مثبت ہے پس عمر کا طبیعی حدسے کئی گناہ زیادہ ہونا محال نہیں ہے اوریہ بات تھوڑے سے غوروفکر سے واضح ہوجاتی ہے البتہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا لیکن ایسے حالات کو اہل تاریخ نے درج کیا ہے اورعلمی نشریات نے نقل کیاہے جن سے انسان کوتعجب نہیں ہوناچاہئے خاص طورپر مسلمانوں کوکہ جن کے کانوں میں وحی الہی کی یہ آوازٹکراتی ہے۔
(
ولقد ارسلنا نوحا الی قومه فلبث فیهم الف سنة الا خمسین عاما)
اورہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا پس آپ ان میں پچاس کم ہزار سال رہے(العنکبوت:۲۹۔۱۴)
امکان کے اس معنی کومزید واضح کرنے کے لیے ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں اگرایک شخص ایک مجمع میں دعوی کرے کہ وہ دریا کو چل کرعبورکرسکتا ہے یا آگ پرسے گزرسکتا ہے بغیراس کے کوئی نقصان پہنچے توحتمی طور پرلوگ اس پرتعجب کریں گے اوراس کا انکارکریں گے۔
لیکن اگروہ اپنے دعوی کے ثابت کرتے ہوئے دریا کوعبور کرلے یا آ گ پرسے گزرکردکھادے تولوگوں کا انکاراورتعجب ختم ہوجائے گا پھر اگرایک دوسراشخص یہی دعوی کرے تواس کا تعجب درجہ کمترہوجائیگا اوراگرتیسراچوتھا پانچواں دعوی کرے تویہ تعجب مزید کم ہوتا جائیگا۔
کیونکہ پہلی مرتبہ لوگوں کو تعجب ہوا تھا وہ پانچویں مرتبہ میں اسی قوت اورحالت پر باقی نہیں رہے گا بلکہ یقینی طور پر کم ہوتا ہوتا ختم ہوجائے گا۔
ہمارا مسئلہ بھی اسی طرح کا ہے۔ قرآن نے خبردی کہ نوح نبوت سے پہلے کی عمر کے علاوہ اپنی قوم میں ساڑھے نوسو سال تک رہے اوریہ کہ حضرت عیسیٰ فوت نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالی نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا ہی۔
(
وقولهم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول الله وما قتلوه وماصلبو ه ولکن شبه لهم وان الذین اختلوفیه لفی شک منه مالهم به من علم الا اتباع الظن وما قتلو یقینا ، بل رفعه الله الیه وکان الله عزیزاحکیما)
اوران کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے اللہ کے رسول عیسیٰ ابن مریم کو قتل کردیا حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل ہی کیا اورنہ سولی ہی دی مگر ان کے لیے ایک دوسرا شخص عیسٰی کے مشابہ کردیا گیا جو لوگ اس بارے میں اختلاف کرتے ہیں یقینا وہ لوگ اس کے حالات کی طرف دھوکے میں پڑے ہیں ان کو اس واقعہ کی خبر بھی نہیں فقط اٹکلی کے پیچھے ہیں اورعیسی ٰ کو انہوں نے یقینا قتل کیا بلکہ خدا نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا ہے اورخدا بڑازبردست تدبیر والا ہے(النساء :۴۔۱۵۸۔۱۵۷۔۴)
اسی طرح بخاری ومسلم کی روایات میں ہے کہ عیسی ٰنازل ہوں گے نیز ان میں موجود ہے کہ دجال زندہ ہے(بخاری اورمسلم میں خروج دجال اورنزول عیسیٰ کی احادیث کو ہم مفصل بیان کر چکے ہیں نیز ذکر کرچکے ہیں کہ اہل سنت کے کن علماء نے اسے اپنا مسلم عقیدہ شمار کیا ہے اورواضح طور پر کہتے ہیں کہ دجال آخری زمانے تک زندہ رہے گا اورحضرت عیسیٰ حضرت امام مہدی کی مددکے لیے آخری زمانے میں نازل ہوں گے ملاحظہ ہو فصل سوم صحیحین کا احادیث مہدی سے خالی ہونے کا بہانہ)
اب جب صحیح روایات پکارپکار کرکہتی ہیں اورگواہی دیتی ہیں اورپے درپے اعترافات منظر عام پر آتے ہیں کہ پیغمبر کی عترت طاہرہ اوراولاد فاطمہ سے امام حسن عسکری کے فرزند حضرت امام مہدی۲۵۵ ء ہجری میں پیدا ہوئے اورابھی تک زندہ اورموجود ہیں توتعجب اورانکارکی کوئی وجہ نہیں اوراس سے انکار سوائے دشمنی اورہٹ دھرمی کے کچھ نہیں ہے۔
تفسیر رازی میں ہے "بعض اطباکہتے ہیں انسانی عمر۱۲۰سال سے زیادہ نہیں ہوسکتی لیکن آیت جھٹلاتی ہے اورعقل آیت کی موافقت کرتی ہے۔
کیونکہ انسان میں جوترکیب ہے اس کا باقی رہنا ذاتا ممکن ہے ورنہ باقی نہ رہتی اوراس میں موثر کی دائمی تاثیر بھی ممکن ہے کیونکہ موثر اگرخدا تعالی ہے تووہ واضح طورپردائمی ہے۔ اوراگرغیر ہے تواس کا بھی کوئی موثر ہوگاآخرکاراتناواجب الوجوب پرہوگی جوکہ دائم ہے پس اس کی تاثیر بھی دائمی ہوسکتی ہے پس بقا ذاتا ممکن ہے۔اوراگر ایسا نہ ہوتا توکسی ایسے عارضی سبب کی وجہ سے ہوگا جس کامعدوم ہوناممکن ہے ورنہ وہ اسقدر باقی نہ رہتا کیونکہ جو مانع عارض ہے وہ واجب الوجود ہے
پس ظاہر ہوگیا کہ ان کی یہ بات عقل ونقل کے خلاف ہے"(تفسیرکبیر رازی ۲۵:۲۴)
یوں رازی نے غیرمعمولی طور پر انسان کے طول عمر کے ممکن ہونے پراستدلال کیا ہے جب کہ جناب حضرت عیسیٰ کی طول عمر ثابت ہے لہذا یہی برہان حضرت مہدی کی طول عمر میں بھی جاری ہوسکتی ہے۔
اوراس استدلال کومزید تقویت صحاح وغیرصحاح کے حضرت عیسیٰ کے آخری زمانے میں دجال کے قتل اورامام مہدی کی مدد کرنے پر اتفاق سے مل سکتی ہے اس کی تفصیل مہدی کون ہے والے کے جواب میں گزر چکی ہے اب ہم امکان عملی کی بحث کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کیا عملی طور پریہ امکان ہے کہ انسان اسقدر طویل عمر پائے اورکیا تجربہ اس کا شاہد ہے؟
جواب:
موجودہ تجربات ، موجودہ امکانات اورحالات کی روشنی میں اس حد تک کامیاب نہیں ہوسکے کہ انسان کی طبیعی عمر کو ایک سال یادوگنا بڑھا دیں اوریہ چیز بظاہر دلیل کی محتاج نہیں ہے لیکن یہ انسانی عمر طویل نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ امکان عملی میں ایک انسان دوسرے انسان کی طبیعی عمر کو طویل کرنے کا فقط حیلہ کرسکتا ہے لیکن عمریں خدا کے ہاتھ میں ہیں۔
لہذا تقدیر کے خلاف عمر کو زیادہ کرنا انسان میں نہیں ہے ہاں اللہ تعالی معمر لوگوں کی زندگی کوطویل کرنے کے اسباب فراہم کرسکتا ہے اورسائنس زیادہ سے زیادہ ان اسباب کی کشف کرسکتی ہے لیکن ان اسباب کو خود فراہم نہیں کرسکتی کیونکہ بالاتفاق یہ اسباب خدا کے ہاتھ میں ہیں۔
دوسرا سوال کیاامکان علمی کی روشنی میں انسان کی عمر طبیعی حدسے زیادہ طویل ہو سکتی ہے؟
جواب اول:
جی ہاں !متعدد شواہداوراعدادوشمار امکان علمی کو ثابت کرتے ہیں ۔
۱۔ سائنسی تجربات انسانی عمر کومعمول سے زیادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اوریہ تجربات بڑھاپے والے قانون کو توڑرہے ہیں۔
چنانچہ مصر سے نکلنے والے رسالے "المقطف"کے شمارہ اگست ۱۹۲۱ ئمطابق۲۶ذیقعدہ ۱۳۳۹ ئہجری کی جز دوم جلد ۵۹صفحہ ۲۰۶پر اس عنوان ’انسان کا زمین پر ہمیشہ رہنا "کے تحت آتا ہے امریکاکی جونس ہبکنس یونیورسٹی کے پروفیسر ریمنڈبول کہتے ہیں ۔
بعض سائنسی تجربات سے ظاہرہوتا ہے کہ انسانی جسم کے اجزاکو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھا جاسکتا ہے لہذا انسانی زندگی کے سوسال کے ہونے کا احتمال ہے اوراسکے ہزارسال تک طویل ہونے میں بھی کوئی مانع نہیں ہے"
اسی رسالے کے ۵۹کے عدد سوم صفحہ ۲۳۹پر ہے "یہ ممکن ہے کہ انسان ہزاروں سال تک زندہ رہے اگراس کی زندگی کو ختم کرنے والی چیزیں اسے عارض نہ ہوں اوران کی یہ بات فقط ایک گمان ہی نہیں ہے بلکہ سائنسی تجربات کا نتیجہ ہے ہم اس امکان علمی کی تائید کے لیے انہیں شواہد پر اکتفاکرتے ہیں ج ماہرین نے اسے امکان علمی میں تبدیل کرنے کے لیے انجام دیئے ہیں۔
۲۔ حال ہی میں بیروت "الایمان پبلیشرز اوردارالرشید "دمشق سے شائع ہونے والی کتاب "حقائق اغرب من الخیال"جزء اول صفحہ ۲۴پر ہے۔
بیریر۱۹۵۵۱ ء میں اپنے آبائی وطن مونٹریا میں ۱۶۶ سال کی عمرمیں دنیا سے رخصت ہو اورا س کی عمرکی اس دوستوں کے گواہی دی اورمیونسپل کمیٹی کے رجسٹروں میں اس کا ریکارڈ محفوظ ہے اورخود بیر یرانے ۱۸۱۵ ء میں واقع ہونے والی جنگ کا راجنیا کے واقعات بڑی وضاحت سے بیان کئے تھے
زندگی کے آخری دنوں میں اسے نیویارک لایاگیا جہاں پر طبیعی ماہرین کی ایک ٹیم نے اس کا چیک اپ کیا توانہوں نے دیکھا کہ اس کا بلڈپریشر، نبض اوردل کی دھڑکن بالکل صحیح ہے اوردماغ ابھی تک جوان ہے۔
لیکن اس کے باوجود انہوں رپورٹ دی کہ اس کی عمر ۱۵۰سال سے زیادہ ہے اوراس کے صفحہ تیس پر ہے کہ توماس بار ۱۵۲سال تک زندہ رہا"۔
اورصاحب سنن سجستانی نے "المعمرون نامی ایک کتاب لکھی ہے اس میں اس نے بہت سارے سن رسیدہ افراد کا تذکرہ کیا ہے ان میں سے بعض کی عمر توپانچ سوسال تک زندہ رہا "۔
۳۔ فقط طبی ماہرین کا بڑھاپے کے مرض اورموت کے اسباب کو پہنچاننے کیلئے تجربات کرنا اورانسانی عمرکو طولانی کرنے کے لئے مسلسل کوشش کرنا اگرچہ محدود حدتک ہی کیوں نہ ہو یہ خود امکان کی ایک دلیل ہے ورنہ ان کا یہ کام فضول اورخلاف عقل ہوگا۔
اس کی روشنی میں حضرت امام مہدی کے مسئلے میں تعجب یا انکار کی کوئی منطقی وجہ نہیں ہے مگریہ کہاجائے کہ حضرت امام مہدی سائنس سے بھی سبقت کے گئے ہیں پس آپ کی شخصیت میں امکان علمی امکان عملی میں تبدیل ہواقبل اس کے کہ سائنس ترقی کرتے ہوئے
لیکن یہ بھی انکار یاتعجب کی کوئی عقلی وجہ نہیں بن سکتی کیونکہ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص سائنس سے پہلے کینسر کی دوا دریافت کرلے اوراسلامی نظریہ میں ایسی سبقت کے کئی واقعات ملتے ہیں۔
چنانچہ قرآن مجید میں وجود ، طبیعت اورانسان کے متعلق کئی حقائق کی طرف اشارے کئے ہیں اورسائنس نے بعدان سے پردہ اٹھایا ہے۔
ہمیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ہمارے سامنے یہ قرآن کریم ہے جو حضرت نوح کا واقعہ بیان کرکے امکان عملی کا واضح ثبوت فراہم کررہا ہے اسی طرح احادیث نبویہ نے متعدد اشخاص کے صدیوں سے زندہ ہونے کی وضاحت کی ہے جیسے حضرت خضر حضرت عیسیٰ اوردجال،
جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں جساسہ سے نقل کیا ہے ان پرہم کیوں ایمان رکھتے ہیں حالانکہ اسلام کے مستقبل کے لئے ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے سوائے حضرت عیسی کے جونازل ہو کرحضرت امام مہدی کے وزیر ، مددگار اورآپ کے لشکر کے قائد ہوں گے جیسا کہ کثیر روایات میں ہے(ملاحظہ ہو شہید محمد باقر کی "الجوث حول المھدی)
اورکیوں بعض لوگ حضرت امام مہدی کا انکار کرتے ہیں جب کہ مستقبل میں وہ اس قدراہم کام کرنے والے ہیں کہ زمین کوعدل وانصاف سے پرکریں گے اورحضرت عیسٰی آپ کے پیچھے نماز پڑھیں گے(اس چیز کا صحیح بخاری کے پانچ شارحین نے اعتراف کیا ہے جیسا کہ اس کی تفصیل فصل سوم کے اول میں گزر چکی ہے)
جواب دوم:۔
فرض کریں بڑھاپے والا قانون حتمی ہے اورانسانی عمر کو طبیعی حدسے زیادہ طویل کرنا ان طبیعی قوانین کے خلاف ہے جن کا ہم آج تک مشاہدی کررہے ہیں توامام مہدی کی نسبت یہ چیز معجزہ ہوگی اوریہ کوئی تاریخ میں انوکھا واقعہ نہیں ہے۔
پھر مسلمان جو اپنا عقیدہ قرآن کریم اورسنت شریفہ سے حاصل کرتا ہے کو اس پرتعجب یا انکار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس کے سامنے اس سے بھی زیادہ مضبوط طبیعی قانون ٹوٹ گیا ہے جیسا کہ جناب ابراہیم کو جب بھڑکتے ہوئے شعلوں میں ڈالا گیا تو اللہ تعالیٰ نے معجزہ کے ذریعے ان کو نجات دی اور آگ گلزار بن گئی۔قرآن اس کی یوں تصریح کرتا ہے
(
قلنا یا نار کونی برداوسطاما علی ابراهیم)
ہم نے کہا اے آگ ! ابراہیم پر بالکل ٹھنڈی اور سلامتی کا باعث بن جا(سورة انبیاء۲۱۔۲۹)
اب یہ اوراس قسم کے دوسرے معجزات وکرامات جو خدا نے خاص طور پر اپنے اولیاء کو عطا کئے ہیں سائنسدانوں کی مادی وسائل سے تیارکردہ نئی نئی ایجادات اوربڑی بڑی اختراعات کی وجہ سے فہم کے زیادہ قریب ہوگئے ہیں۔
یہی ایجادات اگر سابقہ دور میں ذکر کی جاتیں توسختی سے ان کا انکار کیا جاتا لیکن ہم ان کا مشاہدہ کررہے ہیں مثلا یہی ٹیلیویژن جسے پہلے ہم روایات میں پڑھتے تھے کہ :۔آخری زمانے میں مشرق میں رہنے والے لوگ مغرب میں رہنے والوں کو سنیں گے اوردیکھیں گے"
اوربعض لوگ انہیں بالکل غیر معقول قراردیتے تھے لیکن آج کل ایسا ہورہا ہے لہذا کسی شئی کے وجود پر تعجب کرنا یا اس کے وجود کا انکار کرنا صرف اس بنا پر کہ اس کی نظیر نہیں ہے یا وہ عام نہیں ہے کوئی منطقی اورعلمی بات نہیں ہے جب کہ یہ چیزیں امکان علمی اورمنطقی کے دائرے میں ہے اوراس پر متعدد شواہد بھی موجود ہیں
ایسی ہی بڑی بڑی علمی دریافتوں کی خبر دینے والی احادیث مثل وروایات ہیں جو امام مہدی کے معجزانہ طور پر ظہور کی خبر دیتی ہیں کہ جو جدید ایجادات کے بالکل مطابق ہے۔حضرت امام صادق سے مروی ہے کہ :۔جب ہمارا قائم ظہور کرئے گاتواللہ تعالی ٰ ہمارے شیعوں کے لیے ان کے کانوں اورآنکھوں میں اسقدر کشش پیدا کردے گا کہ ان کے اورہمارے درمیان کوئی بڑافاصلہ نہیں رہے گاوہ ان سے بات کرے گا تووہ سن رہے ہوں گے اوراسے اس کی اپنی جگہ پر دیکھ رہے ہوں گے(روضة کافی ۸:۲۰۱۔۳۲۹)
اس قدر طولانی غیبت کا رازکیا ہے؟
تیسرا سوال:۔اس قدر طولانی غیبت کا رازکیا ہے؟
کہتے ہیں حضرت مہدی کی عمر کے اس حد تک طولانی ہونے پر اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے قوانین توڑنا پڑیں یا معجزہ کی ضرورت ہو ؟کیوں اس بات کو قبول نہیں کرلیتے کہ آخری زمانے میں امت بشریہ کی قیادت کے لیے اسی زمانے میں ایک شخص پیدا ہوگا اورطبیعی حالات میں زندہ رہ کر انقلاب کے لیے قیام کریگا؟
جواب:۔ہمارے سابقہ معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کا جواب بہت واضح ہے اللہ نے ایسی حکمتوں اوراسرار کی وجہ سے کہ جن تک ہماری رسائی نہیں ہے یا ان میں سے بعض کو ہم جانتے ہیں۔
اس جہان میں یا کسی اورجہان میں بعض اشخاص کو امام مہدی کی عمر سے بھی بہت زیادہ طویل عرصے سے زندہ رکھا ہوا ہے ہم ان پریقینی صورت میں ایمان رکھتے ہیں پس امام مہدی کے بارے میں بھی ایسا ہی کرنا چاہے کیونکہ جیسے کہ پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں ہم مسلمان ہونے کے ناطے ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی کوئی فضول کام انجام نہیں دیتا۔
نیز غیب کی بہت سی چیزوں پرایمان رکھتے ہیں کہ جن پر عقلی ومقلی محکم دلائل موجود ہیں پس کوئی حرج نہیں ہے کہ ہمیں اپنے کسی عقیدے کی حکمت اورفلسفہ معلوم نہ وہوجیسا کہ احکام شرعیہ قوانین الہیہ اوربندگی وعبادت کے ایسے کئی اعمال ہیں جن کے راز اورحکمتیں ہمیں معلوم نہیں ہیں لیکن ان کی پابندی کرتے ہیں اسی طرح دو سرے الہی وغیرہ الہی ادیان میں بھی ایسا ہے بلکہ انسانی اورملکی قوانین میں بھی ایسا ہوتا ہے
اب ہم کہتے ہیں کہ سابقہ فصول میں ہماری قائم کردہ دلیلیں جو یہ بتارہی ہیں کہ مہدی پرایمان لاناضروری ہے اس کی خصوصیات سمیت اور یہ کہ وہ حسن عسکری کا فرزند حجة ہے اوریہ کہ پانچویں سال میں امام تھا اوریہ کہ اب تک زندہ ہے اگرکافی ہے توحتمی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اس طولانی غیبت کا عقیدہ رکھیں چاہے اس کے کسی فلسفے کا ہمیں علم ہو یا نہ۔
اگرچہ ممکن ہے کہ ہم اپنی محدودعقل اورقاصر فہم کے ساتھ بعض اسرار کا پتہ لگالیں ۔لیکن جو مسلمان حضرت امام مہدی کی طولانی عمر کے معجزے اورغائب ہوتے ہوئے ان کے وجود کے فوائد کا قائل نہیں ہو سکتا اس کے لیے ضروری ہے کہ نئے سرے سے اپنے عقیدے کو عقلی ونقلی دلیلوں کی کسوٹی میں پرکھے۔
اس بنا پر اس دوسرے فرض کو قبول کرنا بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ دلیلیں ہماری اس طرف راہنمائی کرتی ہیں کہ زمین ایک لحظہ کے لیے بھی حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی اس پر ایمان لانے کے بعد چاہے اس کے اسرار کا ہمیں علم ہو یا نہ ہو اس عقیدے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ حضرت مہدی ولادت سے لے کر اب تک زندہ ہیں
سوال چہارم :۔ امام غائب کا فائدہ کیا ہے؟
بعض اذہان میں یہ سوال بھی گردش کرتا ہے کہ امام مہدی جب اس طرح غائب اورنظروں سے اوجھل ہیں توامت مسلمہ کو ان سے فائدہ کیا ہے؟
جواب:۔
جوشخص اس مسئلے میں دقت اورتحقیق کرتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ ان صحیح روایات کومدنظر رکھے جو کہتی ہیں امام مہدی بہت سریع یا اچانک ظہورفرمائیں گے یعنی کسی مخصوص زمانے یا وقت کی تعین کے بغیراس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہر نسل ان ظہور مبارک کی منتظر رہے لہذااس مسئلہ میں تامل کرنے سے مندرجہ ذیل فوائد کا کشف کرنا مشکل نہیں ہے۔
۱۔ یہ چیز ہرمومن کو شریعت پر کاربند رہنے اوراس کے اوامر ونواہی کی پابندی کرنے کی طرف دعوت دیتی ہے اوراسے دوسروں پر ظلم کرنے اوران کے حقوق کو غصب کرنے سے باز رکھتی ہے۔
کیونکہ امام مہدی کے اچانک ظہور کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی اس حکومت کی بنیادرکھیں گے جس میں ظالم سے انتقام لیا جائے گا،عدل کو رائج کیا جائے گا اورظلم کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائیگا۔اگرکہاجائے شریعت اسلام جس کا دستور قرآن کریم ہے نے ظلم وزیادتی سے منع کردیا ہے پس وہی کافی ہے توہم کہیں گے حکومت سلطنت اورطاقت کے وجود کا عقیدہ رکھنا بہت قوی مانع شمار کیا جاتا ہے۔
صحیح میں آیا ہے کہ اللہ تعالی ٰ بادشاہ کے ذریعے وہ کچھ روکتا ہے جوقرآن کے ذریعے نہیں روکتا۔
۲۔ یہ چیز ہر مومن کودعوت دیتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو امام مہدی کے لشکر میں شامل کرنے ان کی پوری طرح حفاظت کرنے اپنی قربانی دینے اورشریعت الہیہ کو قائم کرنے کے لیے ان کی حکومت کو پوری زمین پر پھیلانے کیلئے ہر وقت اپنے آپ کو تیار اورآمادہ رکھے۔
کیونکہ اس سے مومن نے اندر باہمی تعاون اوراپنی صفوں کو منظم ومضبوط رکھنے کا شعور پیدا ہوتا ہے اس لیے کہ مستقبل میں وہ حضرت امام مہدی کے لشکر میں شامل ہونے والے ہیں
۳۔ یہ غیبت مومن کو اپنے فرائض خاص طور پرامر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضے کو جلد از جلد انجام دینے پرآمادہ کرتی ہے کیونکہ حضرت امام مہدی کے مددگاروں کے لیے فقط انتظار میں بیٹھے رہنا کافی نہیں ہے بلکہ عظیم اسلامی حکومت قائم کرنے اورظہور سے پہلے اس کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے امربالمعروف اورنہی عن المنکرکا فرفریضہ انجام دینا ضروری ہے۔
۴۔ امت مسلمہ جو زندہ اورموجود حضرت امام مہدی کا عقیدہ رکھتی ہے ہر وقت عزت اورکرامت کے احساس کے ساتھ زندی گزارے گی
اللہ تعالی کے دشمنوں کے سامنے اپنا سر تسلیم خم نہ کرے گی ان کی ظلم وزیادتی اورسرکشی کے سامنے نہیں جھکے گی کیونکہ اسے ہر لمحے امام مہدی کے کامیاب ظہور کا انتظار ہے لہذا وہ ذلت وپستی سے محفوظ رہے گی استکباری قوتوں اوران کے تمام آلہ کاروں کو حقیر اورمعمولی سمجھے گی
اوریہی احساس مقابلہ کرنے قربانی دینے اورپایدار رہنے کاایک بہت بڑا عامل ہے اوریہی اللہ اوراسلام کے دشمنوں کوخوفزدہ کئے ہوئے ہے اوریہی ان کے مسلسل خوف اورڈرکا راز ہے۔ اس لئے انہوں نے ہمیشہ نظریہ مہدویت کو کمزورکرنے کی کوشش کی ہے اوراس میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کے لیے قلموں کو خریداہے کہ انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے انہیں گمراہ کرنے اوراپنے صحیح نظریات سے منحرف کرنے اپنے فاسد عقائد کی ترویج کرنے کے لیے ان کے اندر ربابیت بہائیت ، قادیانیت، اوروہابیت جیسے نئے نئے فرقے پیدا کیے ہیں ۔
ان کے علاوہ ظہور امام مہدی کا عقیدہ رکھنے والا شخص آخرت میں بھی اس کے بہت سارے فوائد اورثمرات حاصل کرسکتا ہے ان میں سرفہرست اللہ تعالی کے عدل اوراس امت پرمہربان ہونے کا عقیدہ رکھنا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے بغیرکسی سہارے کے نہیں چھوڑدیا کہ دین سے اانحراف کودیکھ کے وہ مایوسی کا شکار ہوجائے بلکہ ان کے لیے امام مہدی کی قیادت میں دین کے تمام روئے زمین پر غالب ہونے کی امید برقراررکھی ہے۔
دوسرا فائدہ انتظار پراجروثواب ہے امام صادق سے ایک صحیح حدیث سے مروی ہے "ہمارے مہدی کا انتظار کرنے والا اپنے آپ کو راہ خدامیں خون میں لت پت کرنے والے کی مثل ہے"
اسی طرح کاایک فائدہ اللہ تعالی کے اس فرمان کا پابندرہنا ہے جس میں وہ ابراہیم کی اپنے بیٹوں کو وصیت نقل کررہا ہے۔
(
یا بنی ان الله اصطفی لکم الدین فلا تمومن الا وانتم مسلمون)
میرے بیٹو! اللہ نے تمہارے لئے دین کو منتخب کیا ہے پس نہ مرنا مگر اس حالت میں کہ مسلمان ہو(البقرہ :۲۔۱۳۲)
اورہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ جو بندہ اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کئے بغیر مرجائے وہ جاہلیت والی موت مرتا ہے اورہمارے زمانے کے امام یہی امام مہدی ہیں ان سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بھی ظاہر ہوجاتی ہے کہ "زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی"
آخرمیں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ دشمنان اسلام کی مسلسل اورسر توڑ کوشش رہی ہے کہ خود مسلمانوں کی صفوں کے اندر ایجنٹ پیدا کریں شاید انہیں بعض ایسے لوگ مل جائیں جنہیں وہ اچک لیں اوراپنی چادردیواری میں محفوظ کرلیں اورانہیں جھوٹے القاب دے کر کہ جن کہ وہ عرصہ دراز سے بھوکے ہیں اپنے اہداف تک پہنچنے کے لیے ان سے سواری کا کام لیں اوراسلام اوراس کے اعلی اصولوں کو بدنام کرنے والے رسالوں اورتنظیموں کے لیے انہیں آلہ کار کے طور استعمال کریں ۔
لیکن انہیں وہی لوگ ملیں گے جو اپنے روشن راستے سے منحرف ہو کر اپنے آپ کو بچے کی طرح وہ شعور سے بے بہرہ ان دایوں کی گودوں میں ڈال دیئے ہیں جو ہر گندے کھیل کے لیے بچے کو تیار کرتی ہیں
جیسے آجکل سلیمان رشدی جیسے لوگ کمزورمسلمانوں کو اپنے زہریلی پروپیکنڈے سے ڈسنے میں مصروف ہیں
لہذا مسلمانوں کو گھٹیا ہتکنڈوں کے خطرات سے آگاہ کرنا ان کے ناپاک عزائم سے بچانا اورقرآن وسنت اورمکتب اہلبیت علیھم السلام کے حقیقی ایمان کے قلعے میں محفوظ کرنا ناشرعا واجب ہے
چنانچہ ندا سلام پر لبیک کہتے ہوئے ہم نے اس کتاب میں اسلام کے ایک بنیادی نظریے کے بارے میں بحث کی ہے اوروضاحت سے بیان ہوچکا ہے کہ ظہور حضرت امام مہدی کا نظریہ اسلام کے دائمی پیغام کا لازمہ ہے اوراسے جھٹلانا اسلام کے پیغام کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔
اوراس کتاب کا سلاست اسلوب اورقوت دلیل کے علاوہ امتیاز یہ ہے کہ اس میں نظریہ مہدویت کی حقیت کے متلاشی ہر شخص کے لیے جواب موجود ہے
والحمدللہ علی ھدایتہ ، الصلوة والسلام علی افضل انبیائہ ورسلہ محمد، علی آلہ الطاہرین ، وصحبہ المخلصین ومن سارعلی نھجھم الی یوم الدین(المحرم الحرام ۱۴۱۷ھجری)