حریم قرآن کا دفاع

حریم قرآن کا دفاع0%

حریم قرآن کا دفاع مؤلف:
: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 76

حریم قرآن کا دفاع

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ محمد فاضل لنکرانی
: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات: صفحے: 76
مشاہدے: 36938
ڈاؤنلوڈ: 5180

تبصرے:

حریم قرآن کا دفاع
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 76 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36938 / ڈاؤنلوڈ: 5180
سائز سائز سائز
حریم قرآن کا دفاع

حریم قرآن کا دفاع

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پاس موجود ہے ،ہو بہو وہی قرآن ہے جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوا تھا ،جس میں  کوئی اضافہ یاکمی نہیں    ہوئی ہے ۔ لہذا جو لوگ قرآن میں  کمی واقع ہونے والے نظرئےے کو ہم سے منسوب کرتے ہیں    جھوٹے ہیں    ۔

جناب مرحوم شیخ صدوق علیہ الرحمہ جو علم حدیث اور علم تاریخ اوردیگر متعدد علوم میں  ماہر اور عظیم علمائے امامیہ میں  سے ایک ہیں    ۔ وہ تحریف کے نظرئےے کو امامیہ مذہب سے منسوب کرنے کو جھوٹ اور بہتان سے تعبیر کرتے ہیں    ۔

3۔ جناب مرحوم علی ابن حسین موسوی نے جو سید مرتضی علم الہدیٰ کے لقب سے معروف ومشہور ہیں    ، اورشیعہ امامیہ کے عظیم مجتہدین اور اصولی علماء میں  سے ایک ہیں    طرابلسیات کے سوالات کے جواب میں  فرماتے ہیں  :

'' جس طرح دنیا میں  شہروں  کے وجود اورعظیم واقعات وحادثات کے رونما ہونے پر یقین وعلم حاصل ہے اسی طرح قرآن کے ہم تک بغیر کسی کمی یابیشی کے پہنچنے پر بھی یقین وعلم حاصل ہے ۔ کیونکہ مسلمانوں  نے مختلف عوامل اورانگیزوں  کے ساتھ قرآن کریم کی حفاظت کی تھی یعنی قرآن کریم میں  کسی قسم کی کمی یابیشی واقع ہونے نہ دینے کے لئے بڑا اہتمام کیاتھا اوران کی کوشش یہی رہی ہے کہ جو قرآن پیغمبر اسلام ؐ کے دور میں  مخصوص نظم وضبط کے ساتھ ایک کتاب کی شکل میں  جمع کیا گیا تھا وہی ہم تک پہنچا ہے جس پر واضح دلیل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام ؐ نے ایک جماعت کو قرآن کی حفاظت کے لئے مقرر فرمایا تھا ، اورایک جماعت جیسے عبداللہ ابن مسعود اور ابیّ ابن کعب وغیرہ نے کئی دفعہ خود پیغمبر اسلام ؐ کے حضور میں  پورے قرآن کریم کی تلاوت کی تھی ، جو حقیقت میں  قرآن کی صحیح حفاظت ہونے یانہ ہونے کی تصدیق کروانا چاہتے تھے۔

۲۱

  لہذا مرحوم سید مرتضٰی نے اپنی گفتگو اوربحث کے آخر میں  فرمایا کہ جو لوگ امامیہ مذہب سے منسلک ہیں    ان میں  سے چند نفر اور مذہب اہل سنت میں  سے حشویہ اس نظریہ کے مخالف ہیں    ۔ لیکن ان کے نظرئےے کاکوئی اعتبار نہیں    کیونکہ انہوں  نے اپنے نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے کچھ ضعیف روایات بیان کی ہیں    اور انہوں  نے گمان کیا ہے کہ یہ روایات صحیح ہیں    ۔ ( 1 )

4۔ مرحوم شیخ طوسی جو شیخ الطائفہ کے لقب سے مشہور ہیں    اورابو جعفر محمدبن حسن کے نام سے موسوم ہیں    اس بارے میں  فرماتے ہیں    :

'' قرآن کریم میں  کمی وبیشی واقع ہونے کا تصور کرنا مناسب نہیں    ہے کیونکہ قرآن کریم میں  کسی چیز کے اضافہ نہ ہونے پر اجماع ہے جبکہ قرآن سے کسی چیز کے حذف یاکم ہونے کو سارے مسلمان غلط اورباطل سمجھتے ہیں    اور امامیہ مذہب سے منسلک علماء کاصحیح نظریہ بھی یہی ہے ۔ یہ وہ نظریہ ہے جس پربہت ساری صحیح السند روایات کی دلالت موجود ہے ، لہذا جو روایات اہل تشیع اوراہل سنت کے طریق سے نقل کی گئی ہوں  ، اور وہ آیات میں سے بعض کے حذف یاکم ہونے پر

.................................

1۔مجمع البیان ،ج1،ص15

۲۲

دلالت کرتی ہوں  وہ خبرواحد ہیں    جن سے علم ویقین حاصل نہیں    ہوتاہے لہذا ان کو نظر انداز کرنا چاہئےے ۔( 1 )

5۔فضل ابن حسن طبرسی جن کی کنیت ابوعلی ہے اورعظیم مفسر قرآن ، صاحب مجمع البیان ہیں    ، انہوں  نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں  یوں  لکھا ہے :

'' قرآن میں  کسی آیت کے اضافہ ہونے کا عقیدہ رکھنا غلط اورباطل ہونے پر امامیہ مذہب کا اجماع ہے اگرچہ کم اورحذف ہونے کے قائل علمائے امامیہ میں  سے بعض اخباری علماء اورسنی مذہب میں  حشویہ کی طرف نسبت دی گئی ہے لیکن اکثر علمائے امامیہ کے نزدیک یہ نظریہ صحیح نہیں    ہے ۔'' ( 2 )

6۔ مرحوم سید ابن طاؤوس نے فرمایاہے :

'' مذہب امامیہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں  ۔ ( 3)ایک اور جگہ فرمایاکہ مجھے ان لوگوں  پر تعجب ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ جو قرآن آج ہمارے پاس موجود ہے وہی قرآن ہے جو پیغمبراکرم (ص) پرنازل ہواہے اور پیغمبر اکرم (ص) نے ہی اس کو جمع کرنے کا حکم دیا ، اس کے باوجود آیات میں  اہل مدینہ اور مکہ

.............................

1۔مقدمہ تفسیر تبیان

2۔ مجمع البیان 1/15۔

3۔سعد السعود ،ص144

۲۳

یااہل کوفہ وبصرہ کے مابین اختلاف ہونے کو نقل کرکے آخر میں  یہ عقیدہ رکھتے ہیں    کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن اور سورہ کاجزء نہیں    ہے ۔ یہ بہت ہی تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف سے قرآن میں  کسی قسم کی کمی وبیشی نہ ہونے کے قائل ہیں    کہ جس کی تائید دلیل عقلی اورنقلی بھی کرتی ہیں    اس کے باوجود بسم اللہ کو قرآن کی آیات میں  سے ایک آیت اور سورہ کاجز نہ ہونے کو کیسے قبول کرسکتے ہیں    ؟ ( 1 )

7۔ جناب ملامحسن جو فیض کاشانی کے لقب سے مشہور ہیں    فرماتے ہیں    :

'' جوروایات قرآن میں  تحریف ہونے پر دلالت کرتی ہیں    وہ کتاب الہٰی کے مخالف ہیں    لہذا ان کو ردکرنا چاہئےے یااس کی توجیہ اور تفسیر اس طرح کریں  کتاب الہٰی کے مخالف نہ ہو۔(2 )

8۔ جناب مرحوم محمد بہاء الدین عاملی جو شیخ بہائی کے لقب سے معروف ہیں    یوں  فرماتے ہیں    :

'' صحیح اور درست نظریہ یہ ہے کہ قرآن کریم ہر قسم کی کمی اوربیشی سے محفوظ ہے یعنی قرآن میں  کسی قسم کی تحریف نہیں    ہوئی ہے اورجو چیز لوگوں  کے مابین مشہورہے وہ علمائے امامیہ کی نظر میں  صحیح نہیں    ہے یعنی لوگوں  کے درمیان

...............................

1۔ سعدا لسعود ص 193

2۔تفسیر صافی ، ج1ص51

۲۴

مشہور ہے کہ کچھ آیات میں  حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کانام آیا تھا اس کو حذف کردیا گیا ہے ، مثال کے طور پر آیت '' یاایها الرسول بلغ...'' کے بارے میں  کہا گیا ہے کہ آیت یوں  تھی '' یاایها الرسول بلغ ماانزل الیک فی علی ... میں  سے حضرت علی علیہ السلام کانام تھا اسے حذف کیا گیا ہے ۔ ایسا عقیدہ علمائے امامیہ کے نزدیک غلط ہے کیونکہ قرآن تحریف سے محفوظ ہے ۔'' ( 1 )

9۔ شیخ محمد ابن حسن حرعاملی جو ہماری کتب احادیث میں  سے اہم کتاب وسائل الشیعہ کے مصنف ہیں    ایک کتابچہ میں  قرآن کریم میں  تحریف نہ ہونے کو ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں    :

'' جو لوگ تاریخ اورائمہ معصومین علیہم السلام سے منقول روایات کی تحقیق کریں  توانہیں    یقین اور علم حاصل ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم ہم تک انتہائی تواتر کے ساتھ اور ہزاروں  اصحاب سے نقل ہوتے ہوئے پہنچا ہے ۔ اوراسی سے معلوم ہوتاہے کہ قرآن کریم کی پیغمبرؐ کے دور میں  ہی ایک کتاب کی شکل میں  تدوین کی گئی تھی ۔'' ( 2 )

...........................

1۔الاء الرحمن ، ص26

2۔اظہار الحق ،ج2ص129

۲۵

10۔جناب شیخ جعفر کاشف الغطا جو امامیہ مذہب کے ایسے مجتہدین میں  سے جن کی مثال بہت کم ملتی ہے ، اپنی گرانبہا کتاب '' کشف الغطاء '' میں  فرماتے ہیں    :

'' قرآن کریم میں  کسی چیز کے اضافہ نہ ہونے پر سارے مسلمانوں  کااجماع ہے اوریہ نظریہ ایسا ہے جو ہرمذہب اور دین کی ضرورت کاتقاضا ہونے کے ساتھ خود قرآن کی صراحت اور علماء کااجماع بھی ہے ۔ یعنی قرآن ہر زمانے میں  کمی وبیشی سے محفوظ اور مصون ہے لیکن ایک چھوٹے گروہ نے اس نظرئےے کے مخالف ہے جن کے قول کا کوئی اعتبار نہیں  ۔( 1)

ہم نے نمونہ کے طور پر جو کہ شیعہ علمائے کرام چاہے اصولی علماء ہوں  یااخباری کے نظریات ذکر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان تمام سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن میں  تحریف ہونے کا نظریہ غلط اوربے بنیاد ہے جس کا باطل ہونا بھی واضح ہے ۔ اوربہت ہی کم تعداد پر مشتمل ایک گروہ نے کچھ روایات کو جوضعیف السند ہونے کے علاوہ خبر واحدبھی ہیں  کواپنی کتابوں  میں  ذکر کرکے تحریف قرآن کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اوریہ نظریہ علمائے امامیہ کی نظر میں  قابل اعتماد نہیں    ہے ، لہذا قرآن میں  تحریف کا نظریہ علمائے امامیہ کی طرف کیسے منسوب کیا جاسکتا ہے ؟ کیا ایسی نسبت واضح بہتان اورجھوٹ نہیں    ہے ؟ کہ جس کی حرمت سارے

...............................

1۔کشف الغطاء ، ص299۔

۲۶

مسلمانوں  کے یہاں  مسلم ہے ، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس فرقے کے تمام مسائل اعتقادی اور تمام افکار وتصورات کا سرچشمہ قرآن کریم ہو لوگ ان کو قرآن کریم میں  تحریف کے قائل قرار دیں  ؟

چھٹا مطلب

قرآن کریم اور دوسری آسمانی کتب میں  فرق

آج کل کے اہم ترین سوالات میں  سے یہ ہے کہ قرآن اوردیگر آسمانی کتابوں  میں  کیا فرق ہے ؟۔ کیونکہ شیعہ امامیہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں    جبکہ دوسری تمام آسمانی کتابوں  میں  تحریف ہونے پر اجماع ہے ۔ لہذا جو لوگ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں    انہیں    میں  سے بعض نے تحریف پر اس طرح استدلال کیا ہے کہ گذشتہ ساری کتب آسمانی میں  تحریف ہوئی ہے ، قرآن بھی آسمانی کتابوں  میں  سے ایک ہے اس میں  بھی تحریف واقع ہوئی ہے کیونکہ بہت ساری روایات جو سنی اور شیعہ دونوں  کے یہاں  متواترہسمجھی جاتی ہیں    وارد ہوئی ہیں    جو حادثہ اور واقعہ سابقہ امتوں  میں  رونما ہواہے ایسا حادثہ اس امت میں  بھی رونما ہوگا، چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

'' کل ماکان فی الامم السالفة فانّه یکون فی هذه الامة مثله حذوا النعل بالنعل والقَذّة بالقَذّة''. ( 1 ) ، یعنی جوبھی حادثہ سابقہ امتوں  میں  رونما ہوا ہے ہوبہو اس امت میں  بھی رونما ہوگا۔اس روایت کی رو سے ضروری ہے کہ قرآن میں  بھی تحریف واقع ہوجائے ۔

............................

1۔ بحار الانوار باب افتراق الامۃ بعد النبی (ص) ، ج8 ، ص 4۔

۲۷

لیکن ہم اس قسم کی روایات اور جو لوگ تحریف قرآن کی اشتباہ میں  مبتلاء ہیں  کاجواب بعد میں  دینگے ( 1) مگرجو مطلب یہاں  پیش کرنا ضروری ہے اورجس کی تلاش میں  ہم ہیں    وہ قرآن اور دیگر کتب آسمانی کے مابین فرق کی وضاحت کرنا ہے اس کے بارے میں  بعض محققین نے یوں  کہاہے:

'' سابقہ آسمانی کتب میں  جوتحریف واقع ہوئی ہے اس سے مراد تحریف معنوی یاتفسیر بالرائے ہے کہ جس کے وقوع اورثبوت پر قرآن کریم صریحاً دلالت کرتا ہے ۔ لیکن وہ تحریف جس سے کمی بیشی مراد لی جاتی ہے اس کاکتب سابقہ میں  ہونے پر قرآن مجید میں  کوئی اشارہ نہیں    ملتا ، اورعلماء کی عبارات اور روایات میں  بھی کوئی قرینہ اور شاہد نہیں    پایا جاتا۔ ( 2)بلکہ ایسی تحریف سے تورات یاانجیل اور دیگر کتب آسمانی ان کے علماء کے یہاں  محفوظ ہونے کو قرآن صراحتاً بیان کرتا ہے ، چنانچہ ارشاد ہوتاہے :

'' ولو انّهم اقامو التورٰة والانجیل وماانزل الیهم من ربهم لاکلوا من فوقهم ومن تحت ارجلهم ...''

اوراگر وہ لوگ تورات اورانجیل اورجو صحیفے ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف

................................

1۔ البیان ، ص221۔

2۔صیانۃ القرآن علی التحریف ، ص94

۲۸

سے نازل کئے گئے تھے ان کے احکام پر قائم رہتے تو ضروران کے پروردگار کی طرف سے ان پر اوپر سے رزق برس پڑتا اورپاؤں  کے نیچے سے بھی ابل آتا۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ کی طرف سے ابدی معجزہ بن کر آیا ہے اس لئے ضروری ہے ہرقسم کی تحریف اورکمی وبیشی اورتبدیلی وغیرہ سے محفوظ رہے ، جبکہ دوسری آسمانی کتب اللہ کی طرف سے ابدی معجزہ کے طور پر نہیں    آئی ہےں ۔

ساتواں  مطلب

قرآن کے مراحل اور درجات

اہم نکات میں  سے ایک یہ ہے کہ کس قرآن یا دوسرے لفظوں میں موجودہ قرآن کے کس مرحلے نزاع و اختلاف ہے؟ جیسا کہ واضح ہے اور خود قرآن کریم سے بھی استفادہ ہوتا ہے کہ اس مقدس کتاب کے کئی ایک مراحل اور درجات ہیں  ۔

پہلا مرحلہ : لوح محفوظ ہے ، کہ اس مرحلہ میں  واضح اور روشن ہے کہ قرآن قابل تحریف نہیں    ہے اس مرحلہ میں  کسی بشر اورانسان کی رسائی ممکن نہیں  بلکہ قرآن کریم اللہ کے ہاں ہرقسم کی آفت اور آسیب سے محفوظ ہے ۔

دوسرا مرحلہ : جبرئیل کے ذریعہ پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہونا ، اس مرحلہ میں  بھی قرآن میں  تحریف کا تصور نہیں    کیا جاسکتا، کیونکہ جبرئیل اللہ کے فرشتوں  میں  سے ایک مقرب فرشتہ ہے جو عصمت کامالک ہے اورہر قسم کی خطااور اشتباہ وغیرہ سے پاک وپاکیزہ ہے ۔

۲۹

تیسرا مرحلہ : قرآن کریم کاپیغمبر اکرم (ص) کے ذریعہ سے لوگوں  تک پہنچنا یعنی جس قرآن کریم کو جبرئیل نے قلب مطہر رسول اسلام (ص) پر نازل کیا تھا پیغمبر اسلام (ص) نے بغیر کسی کمی وبیشی کے لوگوں  تک پہنچایا۔ واضح ہے کہ اس مرحلہ میں بھی کوئی تحریف نہیں    ہوئی ہے کیونکہ قرآن خود پیغمبر اسلام کے زمانے میں  ایک کتاب کی شکل میں  جمع کیا جا چکا تھا اوربہت سارے اصحاب کرام حافظ قرآن تھے اور انہوں نے ہی آنے والے لوگوں  کے لئے سینہ بہ سینہ اسی قرآن کوتواتر کی شکل میں  منتقل کیا ہے ۔

چوتھا مرحلہ : جس قرآن کا تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچنے کا دعوا کرتے ہیں    یادوسرے لفظوں  میں  جو قرآن آج ایک کتاب کی شکل میں  مخطوط یا مطبوعہ موجود ہے وہ قرآن کے نام سے اللہ کی طرف سے نازل شدہ ایک حقیقت ہے اوربدیہی ہے کہاس میں  تحریف یعنی قرات کی اختلاف وغیرہ کے بارے میں  اختلاف رائے ہے ، ایسی تحریف قرآن مجید کے مراحل میں  سے چوتھے مرحلہ میں  قابل تصور اورممکن ہے ، نیز تحریف یعنی کمی وبیشی کاامکان اور تصور بھی اس مرحلہ میں  ناممکن نہیں  ہے۔ اور جس قرآن کے تحریف ہونے یانہ ہونے کے بارے میں  اختلاف اور جھگڑا ہے وہ ایک حقیقت ہے جو وحی منزل اورکلام حق کی صورت میں  ہم تک تواتر کے ساتھ پہنچا ہے جس کی حفاظت کے بارے میں  خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایاہے :

'' وانّا له لحافظون '' اورہم ہی اس کے محافظ ہیں  ۔ یہاں  کلمہ '' لہ'' کی ضمیر''نازل شدہ ''کی طرف لوٹتی ہے جوقرآن اور ایک حقیقت ہونے کوبیان کرتی ہے ۔ جبکہ قرآنوں  کا تصور تحریف کو بیان کرتا ہے اور اس میں شک نہیں  کہ متعدد ہونے کی صورت میں ان میں تحریف کا امکان ہے۔

۳۰

اس بیان کی روشنی میں بعض محدثین ( 1)نے کہا ہے کہ قرآن کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنی کتاب کا محافظ ہے اس سے مراد نزول کا مرحلہ ہے جس طرح لوح محفوظ کے مرحلہ میں  قرآن ہر آفت اورآسیب وتحریف سے محفوظ ہے اسی طرح اس مرحلہ ( مرحلہ نزول) میں  بھی اللہ اس کامحافظ ہے ، نہ یہ کہ اللہ تدوین شدہ قرآن اور صحف کامحافظ ہے ۔

یہ ایک باطل توجیہ ہے کیونکہ اس توجیہ پر کوئی دلیل اور شاہد موجود نہیں    ہے بلکہ قرآن معجزہ ہونے کے حوالے سے اس کی نفی کرتا ہے ، چونکہ جس مرحلہ میں  تحریف اورکمی وبیشی عقل کی رو سے ممکن نہیں    ہے اس میں  اللہ کی طرف سے قرآن کی حفاظت کرنا اعجاز نہیں    کہلاتا ہے ۔

...........................

1۔فصل الخطاب ،ص360

۳۱

آٹھواں  مطلب

عقل کی رو سے تحریف کا امکان اورعملی طور پر واقع نہ ہونا

آیہ شریفہ '' حفظ'' سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم میں  تحریف عقلی اعتبار سے محال نہیں    ہے لیکن اللہ نے ہی قرآن کو اس کے امکان اور تصور سے بچانے کا وعدہ فرمایا ہے کیونکہ اگر عقل کی روشنی میں  تحریف بالکل محال اور ناممکن ہوتی تو اللہ کے محافظ ہونے کا تصور ہی غلط ہوجاتا ۔ لہذا قرآن میں  تحریف کا ہونا عقلاً ممکن ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس امکان محض سے بچانے کا قطعی وعدہ کیا ہے اس لئے عملی طور پر قرآن کریم ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہے اور خداوند عالم نے قرآن میں تحریف کے وقوعی اور عملی امکان کو بھی رد کیا ہے۔

نواں  مطلب

کیا قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر قرآن سے دلیل لانے سے دور لازم آتا ہے ؟

بہت سارے بزرگ علماء نے قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر آیات قرآن سے استدلال کیا ہے ؛ لیکن ہم یہاں  جس چیز پر تحقیق کریں  گے یہ ہے کہ کیا نظریہ تحریف کو غلط اورباطل قرار دینے کے لئے آیات قرآن سے استدلال کرنے سے دور لازم نہیں    آتا (جوعقلاًمحال ہے) بعض کا نظریہ ہے کہ تحریف کے نہ ہونے پر آیات سے استدلال کرنا'' دور '' ہے جس کے لئے انہوں  نے دو قسم کے استدلال بیان کیا ہے۔

۳۲

1۔ پہلی دلیل: کتاب میں تحریف کا نہ ہونا ان آیات کے حجت ہونے پر موقوف ہے جبکہ ان آیات کی حجیت تحریف نہ ہونے پر موقوف اس بنا پر تحریف کا نہ ہونا خود تحریف نہ ہونے پر موقوف ہے جو دور ہے۔

2۔ دوسری دلیل: یہ ہے کہ نفی تحریف پرجن آیات سے استدلال کیا ہے ان کی حجیت قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر مبنی اورموقوف ہے جب کہ دوسری طرف سے نفی تحریف خود ان آیات کی حجیت پر موقوف ہے نتیجتاً آیات کریمہ کی حجیت خود آیات کی حجیت پر موقوف ہے یہ ایسا ناممکن کام ہے کہ جس کو علیت میں  دور سے تعبیر کیا جاتا ہے جو محال ہے ۔اس شبہہ اور اعتراض کے کئی جوابات دئے گئے ہیں    ۔ہم ان کا جائزہ لیتے ہیں  ۔

پہلا جواب :

مرحوم محقق خوئی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی گرانبہا کتاب البیان میں  اس کا جواب یوں  دیا ہے :

''جولوگ ائمہ معصومین علیہم السلام کی خلافت اور ولایت کو قبول نہیں    کرتے وہ اس شبہہ اور اعتراض کاجواب دینے سے عاجز ہیں    لیکن جو لوگ ان بزرگواروں  کی خلافت اورولایت کے معتقدہیں    اوران حضرات کو قرآن کریم کے واقعی اور حقیقی مفسر اور قرآن کے قرین سمجھتے ہیں    وہ ایسے شبہہ کا جواب بہت ہی آسان طریقہ سے دے سکتے ہیں    ، کیونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام نے موجودہ قرآن کی آیات سے استدلال کیا ہے اور اصحاب کرام نے جن آیات سے استدلال کیا تھا ان کی تائید اور تصدیق فرمائی ہے ۔ پس اگرچہ قرآن کی تحریف ہوئی ہو پھر بھی اس کی حجیت باقی ہے کیونکہ جہاں  کہیں    ائمہ معصومین علیہم السلام نے آیات سے استدلال کیا ہے ان کی حجیت ثابت اور واجب العمل ہے ، اور ان سے ہم بھی تمسک کرسکتے ہیں    ۔

۳۳

لیکن یہ جواب اشکال سے خالی نہیں    کیونکہ اول آپ کایہ جواب ان کے لئے ہے جو اہل بیت عصمت علیہم السلام کے معتقد اور شیعہ امامیہ ہوں  لیکن ایسے اعتراض کے لئے اس طرح کا جواب دینا صحیح نہیں    ہے بلکہ ایسا جواب در کار ہے جوسب کے لئے قابل قبول اور مفید ہو۔

دوسرایہ کہ: یہ جواب دینا در حقیقت شبہہ اور اشکال کو قبول کرنا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس بنا پر تحریف کی نفی پر دلالت کرنے والی آیات سے ہم عدم تحریف کو ثابت نہیں    کرسکتے بلکہ نفی تحریف پر ہم نے آیات قرآنی اور معصومین علیہم السلام کی تائیدکوایک دوسرے کے ساتھ ضمیمہ کرکے استدلال کیاہے اس طرح استدلال کرنا اور جواب دینا مدعاکے خلاف ہونے کے ساتھ حدیث ثقلین کے ظاہرکے بھی خلاف ہے جس سے بخوبی واضح ہوتاہے کہ قرآن کریم '' ثقل اکبر''کی حیثیت سے کسی چیز کے ضمیمہ کئے بغیر خود ایک مستقل دلیل اور حجت ہے ۔

دوسرا جواب

جولوگ قرآن میں  تحریف کے دعویدار ہیں    وہ تحریف کے دائرہ کو محدود سمجھتے ہیں    یعنی تحریف صرف ان آیات میں  واقع ہوئی ہے جن کی طرف کچھ روایات میں  اشارہ کیا گیا ہے لیکن جن آیات سے تحریف نہ ہونے پر استدلال کیا جارہا ہے وہ ان تحریف شدہ آیات میں  سے نہیں    ہیں  دوسرے الفاظ میں تحریف کے دعویدار ان آیات میں  تحریف نہ ہونے پر اعتقاد رکھتے ہیں    ، لہذا ان سے استدلال کرنے سے دور لازم نہیں    آتا ۔

۳۴

یہ جواب بھی اشکال اور اعتراض سے خالی نہیں    ہے کیونکہ تحریف کے بارے میں  دو نظرئےے پائے جاتے ہیں    :

پہلا نظریہ :یہ ہے کچھ لوگوں  کا عقیدہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق چند معین موارد میں  آیات کریمہ میں  تحریف واقع ہوئی ہے اس نظرئےے کے مطابق جواب درست ہے ۔

دوسرانظریہ : یہ ہے کہ کچھ لوگ قرآن میں  تحریف ہونے پر علم اجمالی کے دعویدار ہیں    قطع نظر اس کے کہ روایات کی روشنی میں  تحریف کے قائل ہون اور علم اجمالی جس کا دائرہ وسیع ہے جن آیات سے عدم تحریف پر استدلال کیا گیا ہے وہ بھی اس میں  شامل ہوسکتی ہیں    ، لہذا اس نظریہ کی بنا پر یہ دوسرا جواب صحیح نہیں    ہے۔

تیسرا جواب :

بعض محققین اس اعتراض کاجواب یوں  دیتے ہیں    :

'' جن آیات سے قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر استدلال ہوا ہے ان میں  تحریف نہ ہونے پر اجماع قائم ہے ''۔ ( 1 )

مگریہ جواب بھی بحث طلب ہے کیونکہ جو لوگ قرآن میں  تحریف ہونے پر علم اجمالی کے دعویدار ہیں    اس میں  وہ آیات بھی شامل ہیں    کہ جن سے نفی تحریف اور عدم تحریف پر استدلال کرچکے ہیں    یادوسرے لفظوں  میں  یوں  کہا جائے کہ وہ آیات

اجماع کے اندر داخل نہیں    ہوسکتیں  ورنہ ان کے نظریے کی موجودگی میں  اس کالازمہ

...............................

1۔اکذوبۃ تحریف القرآن ،ص4۔

اس کا عدم ہے جومحال ہے ۔

۳۵

چوتھا جواب:

ہمارے والد گرامی محقق فقیہ معظم (آیۃ اللہ العظمی فاضل لنکرانی) نے اس مشکل کو یوں  حل فرمایاہے (1 )کہ جن آیات سے قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر استدلال کیا گیا ہے ان کے بارے میں  یہ دیکھنا چاہئےے کہ ہم آیات سے کن کے مقابلے میں  استدلال کررہے ہیں    ، اگرہم آیات سے ان لوگوں  کے مقابل میں  استدلال کررہے ہیں    جو قرآن میں  تحریف کے قائل ہیں    جس پر روایات دلالت کرنے کے دعویدار ہیں    اس صورت میں  آیات سے عدم تحریف استدلال کرنے کا لازمہ دور نہیں    ہے کیونکہ ایسی آیات یقینا تحریف کے موضوع سے خارج ہیں    ۔

لیکن اگر ہم آیات سے ان لوگوں  کے مقابلے میں  استدلال کررہے ہیں    جو قرآن میں  تحریف کے قائل ہیں    اور اس کی دلیل علم اجمالی سمجھتے ہیں    تو اس کے دو مفروضے ہیں    :

پہلا مفروضہ: یہ ہے کہ تحریف کا قائل ظواہر کتاب کوحجت مانتاہے چاہے تحریف شدہ ہو ایسی صورت میں  دو ر کا اشکال نہیں    ہوسکتا کیونکہ آیات اپنی ظاہری حجیت پر باقی ہیں    اور تحریف کی مذکورہ قسم ظاہری حجت کے لئے کوئی مانع نہیں    اس کانتیجہ یہ ہے

.............................

1۔مدخل التفسیر ، ص202

۳۶

کہ آیات سے استدلال کرنے میں  کوئی اعتراض نہیں    ۔

دوسرا مفروضہ: یہ ہے کہ تحریف کا قائل تحریف کو کتاب کی ظاہر حجیت کے لئے مانع جانتا ہے اس صورت میں  یاعلم اجمالی کے ذریعے کتاب میں  تحریف کو واقع سمجھتا ہے یا اجمالی یقین کا مسئلہ نہ ہو بلکہ تحریف کا احتمال پیدا ہوجائے تو پہلی صورت میں آیات سے استدلال نہیں  کیا جاسکتا چاہے تحریف کے مفروضے میں  حجیت پر باقی کیوں  نہ ہو ۔ کیونکہ علم اصول میں  یہ ثابت ہے کہ ایسے ظواہر جو شرعی نشانیوں  کی وجہ سے ظنی ہیں    وہ اس صورت میں  معتبر ہیں    کہ اس کے خلاف یقین نہ ہو ۔ اس بنا پر ایسے مفروضے کی صورت میں  آیات شریفہ قابل استدلال نہیں    رہتی دوسری صورت یعنی یقین کے بغیر صرف احتمال تحریف آیات کی حجیت کے لئے مانع نہیں    ہوسکتی اور آیات کے ذریعے استدلال کرنا اشکال سے خالی ہے ۔

اس جواب میں  بھی تحریف کے علم اجمالی کی صورت میں  آیات سے استدلال کرنا کمزوری ہے۔

پانچواں  جواب

جو کچھ ہمیں  نظر آتا ہے یہ ہے کہ جس طرح دیگر حوادث کچھ علل واسباب کا نتیجہ ہوتے ہیں    اسی طرح تحریف بھی بغیر علت اور سبب کے نہیں    ہوسکتی ہے ۔ چونکہ تحریف قرآن کے اسباب وعوامل بہت زیادہ ہیں    لہذا اگران آیات میں  تحریف ہوتی کہ جن سے عدم تحریف پر استدلال کرتے ہیں    تو اس طرح تحریف واقع ہونی چاہئیے کہ ان میں  کمی اور نقص واقع ہوجائے کہ پھر ان سے عدم تحریف پر استدلال کرنا ساقط ہوجائے مثال کے طور پر آیت'' حفظ '' وانا لہ لحافظون '' کے جملے یاکم از کم کلمہ '' لہ'' جو کہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر واضح دلیل ہے ، کو حذف کردینا چاہئیے تھا

۳۷

جبکہ ایسے جملے اور الفاظ آیات میں  موجود ہیں    جس سے ہمیں  قرآن میں  تحریف نہ ہونے کایقین یاکم از کم اطمینان حاصل ہوتا ہے اور ایسے موارد میں  جہاں  قرآن کی کسی اور آیت یاجملہ میں  تحریف ہونے کا علم اجمالی ہو جیسے کہ ان آیات میں  ہم عمومی یقین اس کے برخلاف رکھتے ہیں    جس کے نتیجے میں  ایسے موارد علم اجمالی کے دائرے سے خارج ہوتے ہیں    ۔

      دسواں  مطلب

تحریف کے بارے میں  دو دعوے

گذشتہ مطالب سے بخوبی روشن ہوا کہ تحریف کے بارے میں  دو دعوے پائے جاتے ہیں    :

پہلا : کچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں    کہ تحریف کا دائرہ محدود ہے یعنی تحریف صرف ان آیات میں  ہوئی ہے کہ جن کے بارے میں  روایات وارد ہوئی ہیں    لہذا جن آیات کے بارے میں  روایات وارد نہیں    ہوئی ہیں    وہ ہر قسم کی تحریف ، تبدیلی اورکمی وبیشی سے محفوظ ہیں  ۔ جس کو ثابت کرنے کے لئے انہوں  نے ظواہر کتاب سے استدلال کیا ہے عام طور پر یہ دعویٰ وہ لوگ کرتے ہیں    جوتحریف قرآن میں ان روایات کو سند کے طور پر پیش کرتے ہیں  جو بعض حدیث کی کتب میں موجود ہیں  ۔

دوسرا : کچھ لوگ قرآن میں  اجمالی طور پر تحریف واقع ہونے کے معتقد ہیں    دوسرے الفاظ میں یہ لوگ قرآن میں  تحریف ہونے پر علم اجمالی کے دعویدار ہیں    ۔ جولوگ اس نظرئےے کے قائل ہیں    انہوں  نے تحریف کے سلسلے میں  دلیل اور سند کے طور پر دلیل اعتبار اور اس کی مثالیں پیش کی ہیں  ۔ ( 1 )

............................

1۔اس دلیل کی وضاحت کے لئے مراجعہ کریں  ، مدخل التفسیر ،ص292

۳۸

گیارہواں  مطلب

تحریف نہ ہونے پر عقلی اور عقلائی دلیل کا تجزیہ

بعض صاحب نظر افراد کی عبارات سے استفادہ ہوتا ہے کہ تحریف کے بطلان پر انہوں  نے عقلی دلیل اور سیرت عقلاء سے تمسک کیا ہے ، مرحوم سیدابن طاؤوس نے کتاب سعد السعود میں  صراحت کی ہے کہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے پردلیل عقلی ہے جبکہ دوسرے بعض محققین اس مسئلہ پر سیرت عقلاء ( 1 ) سے استدلال کرتے ہیں  ۔

دلیل عقلی کی وضاحت

عقلی دلیل کو بیان کرنے کے دوصورتیں ہیں    : پہلا بیان : جناب مرحوم خوئی (رح) ( 2 ) کی عبارات میں  عقلی دلیل کو ایک غیر مستقل دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے۔ اس کا خلاصہ ہم یہاں  نقل کرتے ہیں    ۔ تحریف کا احتمال تین صورتوں  سے خالی نہیں    ، کسی پہلی صورت چوتھی صورت کا تصور عقل کی رو سے محال اور نا ممکن ہے قرآن کی تحریف عثمان کے دور خلافت سے پہلے جناب ابوبکر اورعمر کے دور میں  ان کے ہاتھوں  ہوئی ہو ، یہ صورت یقینا باطل ہے

..........................

1۔ گفتار آسان درنفی تحریف

2۔ البیان صفحہ 215

۳۹

کیونکہ یہ صورت تین احتمالات میں  سے کسی ایک سے خالی نہیں    :

پہلا احتمال : تحریف جوہوئی ہے وہ لاشعوری تھی یعنی حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد جناب ابو بکر اورجناب عمر نے قرآن کی جمع آوری کاکام شروع کیا ، لیکن پورے قرآن پر احاطہ نہ ہونے کی وجہ سے یاپورے قرآن کریم کے دستیاب نہ ہونے کی بنا پر کچھ آیات یاجملے رہ گئے ہیں    جس کا نتیجہ تحریف قرآن کی صورت میں  نکلا۔

دوسرا احتمال : قرآن میں  تحریف اور تبدیلی ان کی طرف سے جان بوجھ کر واقع ہوئی ہے اوروہ بھی ایسی آیات میں  جوان کی حکومت اورخلافت کے لئے کوئی ٹکراؤ یاضرر پہنچانے کا باعث نہیں  تھیں ۔

تیسرا احتمال : تحریف عمداً اور جان بوجھ کرواقع کی گئی ہے اوروہ بھی ان آیات میں  جوان کی حکومت اورخلافت کے ساتھ ٹکراتی تھیں  ۔ چنانچہ تحریف کے قائلین میں  سے بعض اسی احتمال پر بھروسہ کرتے ہیں    ۔

لیکن یہ تینوں  احتمالات غلط اورباطل ہیں    کیونکہ ان تینوں میں  سے پہلا احتمال دو صورتوں  سے باطل ہے ۔

1۔ یہ بات مسلمانوں  کے یہاں  مسلم اوربدیہی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے رحلت سے پہلے قرآن کی حفاظت اس کی قرائت اور ترتیل قرآن کے ساتھ تلاوت کرنے کا مخصوص اہتمام فرمایاتھا اورصحابہ کرام نے بھی اس مسئلہ کو بہت زیادہ اہتمام کے ساتھ انجام دیا لہذا یقینی ہے کہ قرآن کریم ان دونوں  کے دور میں  ہرقسم کے نقص اور زیادتی سے محفوظ تھا۔ اگرچہ قرآن کی جمع آوری دونوں  کے دور میں  ہوئی تھی یاجمع آوری کے بغیر متفرق شکل میں  مکمل طور پر موجود تھا یالوگوں  کے سینوں  یاکاغذوں  پر کسی قسم کی کمی وبیشی کے بغیر موجود تھا ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس زمانہ میں  عرب جاہلیت کے اشعار کو یاد اورحفظ کرنے کو اتنی اہمیت دیں  لیکن پیغمبر اکرم (ص) اور قرآن کے معتقد ہونے کے باوجود اس کی حفاظت نہ کریں !۔

۴۰