حریم قرآن کا دفاع

حریم قرآن کا دفاع0%

حریم قرآن کا دفاع مؤلف:
: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 76

حریم قرآن کا دفاع

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ محمد فاضل لنکرانی
: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات: صفحے: 76
مشاہدے: 36934
ڈاؤنلوڈ: 5180

تبصرے:

حریم قرآن کا دفاع
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 76 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36934 / ڈاؤنلوڈ: 5180
سائز سائز سائز
حریم قرآن کا دفاع

حریم قرآن کا دفاع

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

2۔ حدیث ثقلین سے بھی اس احتمال کاغلط اور باطل ہونا واضح ہے کیونکہ اس حدیث کامضمون یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے لوگوں  کواپنے زمانے میں  ہی کتاب الہیٰ سے تمسک کرنے کا حکم دیا ہے اگر فرض کریں  کہ چند آیات ان سے ضائع ہوگئی ہوں  تو اس کتاب مدوّن اور آیات کے مجموعہ سے تمسک ممکن نہیں    رہتا۔

دوسرا احتمال بھی غلط اورباطل ہے کیونکہ جہاں  تحریف عمدی ہوتو وہ بغیر سبب اورانگیزہ کے نہیں    ہوسکتی ، اگرتحریف ان آیات میں  جان بوجھ کرکی گئی ہو جن سے جناب ابوبکر اور عمر کی حکومت اور خلافت کے لئے کوئی ضرر نہیں    پہنچتا تھا تو ایسی آیات میں  تحریف کرنے کا سبب کیاہے ؟ لہذا یہ احتمال بھی صحیح نہیں    ہے ۔ نیز تیسرا احتمال بھی صحیح نہیں    ہے کیونکہ اگر اس طرح تحریف ہوتی تو دوسرے لوگ جو ابوبکر اور عمر کی حکومت اور خلافت کے مخالف ہیں    جن میں  سرفہرست حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور حضرت صدیقہ ئ زہرا سلام اللہ علیہا اور دیگر بارہ افراد جو انصار ومہاجرین کے تھے اس مسئلہ کو ابوبکر اورعمر کی خامیوں  اوران پر ہونے والے اعتراضات میں  ذکر کرتے ، ان کے خلاف کے گئے احتجاجات میں  اس کاتذکرہ ہوتا جبکہ ان کے کلمات اور احتجاجات میں  ایسانظر نہیں    آتا، لہذا اس بحث کانتیجہ یہ ہے کہ ابوبکر اور عمر کے دور خلافت میں  تحریف ہونے کا قائل ہونا مردود اور باطل ہے ۔

۴۱

دوسری صورت

عثمان کے دور خلافت میں  تحریف ہوئی ہے ، یہ نظریہ گذشتہ نظریے کی نسبت بہت زیادہ ضعیف اور کمزورہے کیونکہ :

1۔ عثمان کے دور میں  اسلام کی نشر واشاعت اس قدر ہوئی تھی کہ کسی کو قرآن کی کسی آیت کو مٹانا یاکسی آیت کااضافہ کرنا ممکن نہیں    تھا ۔

2۔ اگرعثمان کے دور میں  تحریف ان آیات میں  ہوئی ہو جو اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کی ولایت اور خلافت سے مربوط نہیں    ہیں    تو ان میں  تحریف کرنے کاسبب اورہدف قابل تصور نہیں    ہے ، نیز ولایت ائمہ علیہم السلام سے متعلق آیات میں بھی ان کے زمانے میں  تحریف نہ ہونے کایقین ہے ، کیونکہ اگر قرآن کی کوئی آیت صریحاً حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی خلافت اور ولایت ثابت کرنے کے لئے ہوتی تو وہ آیت لوگوں  میں  شائع ہوتی اور عثمان تک خلافت نہ پہنچتی ۔

3۔ اگر عثمان قرآن میں  تحریف کرتا تو عثمان کے مخالفین کے لئے یہ مسئلہ ان کے خلاف قیام کرنے کا بہترین بہانہ اور عذر تھا جبکہ ان کی طرف سے کوئی ایسی چیز احتجاج کی شکل میں  نظر نہیں    آتی ۔

4۔اگر تحریف عثمان کے دور خلافت اور عثمان کے ہاتھوں  ہوئی ہوتی تو حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام عثمان کے بعد مسلمانوں  کاخلیفہ اور حاکم ہونے کی حیثیت سے قرآن کو اسی طرح ترتیب دینا چاہئےے تھاجس طرح پیغمبر اکرم (ص)پرنازل ہوا تھا جبکہ ایسی کوئی بات تاریخ میں  نہیں    ملتی ، پس یہ صورت بھی باطل اور غلط ہے ۔

۴۲

تیسری صورت

قرآن میں  تحریف عثمان کے دور خلافت کے بعد نبی امیہ کے خلفاء یاان کے ایجنٹوں  کے ہاتھوں  ہوئی ہے ۔ یہ ایسی صورت ہے جس کاسابقہ صورتوں  کی طرح کسی محقق یامورخ نے دعویٰ نہیں    کیا ہے ۔ اور چوتھی صورت بھی عقلاً ممکن نہیں    ہے ۔ لہذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن میں  تحریف ہونے کانظریہ سرے سے ہی غلط اور باطل ہے ،چونکہ عقلی اعتبار سے کوئی چوتھی صورت موجود نہیں    لہذا ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں    کہ عقلی اور تاریخی اعتبار سے تحریف قرآن کامسئلہ باطل اور مردود ہے ۔ یہاں  یہ بھی یادرہے کہ یہ دلیل صرف عقلی حکم سے ثابت نہیں    بلکہ تاریخی تجزیہ بھی ساتھ ہے

دلیل عقلی کا دوسرا بیان

اس بیان کی وضاحت کے لئے دو مقدموں  کی ضرورت ہے :

پہلامقدمہ : شریعت اسلام ادیان الہیٰ میں  سے کامل ترین دین ہے اور لوگوں  کے لئے قیامت تک رہنے والا آئین ہے ۔

دوسرا مقدمہ : ایسے دین اورآئین کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسی دائمی سند اور دستور العمل بھی اس کے ساتھ ہو ، تاکہ لوگ اس کے مطابق عمل کرسکیں ۔

جب ان دو مقدموں  کو ایک دوسرے سے ملائیں  تو نتیجہ نکلتا ہے کہ شارع کو چاہئےے کہ اپنی کتاب کو ہر قسم کی تحریف اور کمی بیشی سے محفوظ رکھے ۔لہذا عقل کی رو سے شارع (اللہ ) پر لازم ہے کہ قرآن کو تحریف جیسی ظلمت سے محفوظ رکھے۔

۴۳

یہ دلیل عقلی بھی شک سے خالی نہیں    ہے کیونکہ عقل قضیہ شرطیہ کے طور پر حکم دیتی ہے کہ قرآن تمام عالم انسانیت کے لئے قیامت تک ان کی زندگی کے تمام مراحل میں  رہنمائی اور ہدایت کے لئے ہے تو تحریف سے محفوظ ہونا چاہئےے لیکن یہ مقدار محل بحث کے لئے مفید نہیں  ہے کیونکہ ہمارا محل بحث تحریف کا واقع ہونایا نہ ہونا ہے اور عقل اس مسئلے میں مستقل طور پر دخالت نہیں  کرسکتی ۔

سیرت اوربناء عقلاء :

بعض علماء نے قرآن کریم میں  تحریف نہ ہونے پر بنا عقلاء اور ان کی سیر ت سے استدلال کیا ہے ا ور اس کی ضاحت یوں  کرتے ہیں    :

'' ہر کتاب میں  لکھی ہوئی بات اور کلام میں  تبدیلی اور تحریف عادت اور فطرت کے خلاف ہے ، پس ایسی تبدیلی اجباری اورغیر عادی ہے ۔ لہذا عقلاء کی سیر ت یہ ہے کہ ایسی تحریف اور تغییر کا اعتنا نہیں    کرتے ۔ اس نظرئےے کی بنا پر قرآن کا تحریف سے محفوظ رہنا ایک امر طبیعی ہے جبکہ تحریف کا احتمال خلاف طبیعت ہے ۔ لہذا یہی اصل اور قانون اوّلیہ کاتقاضا ہے جو بدیہی ہے اورسب کے پاس مسلم ہے ۔ ( 1 )

لیکن یہ دلیل ان کتابوں  کے بارے میں  مفید ہے جن میں  تحریف ہونے کے مختلف انگیزے اور اغراض نہ پائے جاتے ہوں  لیکن قرآن جیسی کتاب میں  کفار او رملحدین کی طرف سے تحریف کے مختلف انگیزے پائے جاتے ہیں    اس میں  تحریف نہ ہونا اس دلیل میں شامل نہیں  ہیں    ۔

...........................

1۔ گفتار آسان در نفی تحریف قرآن ص12

۴۴

بارہواں  مطلب

تحریف کے نہ ہونے پر واضح ترین آیت شریفہ

محققین کے ایک گروہ نے دعویٰ کیا ہے کہ قرآن میں تحریف نہ ہونے پر دلالت کرنے والی آیات میں  سے واضح ترین آیت یہ ہے :

''و انّه لکتاب عزیز لا یاتیه الباطل من بین یدیه و لا من خلفه تنزیل من حکیم حمید'' ( 1 )

''اور یہ قرآن تویقینی ایک عالی مرتبہ کتاب ہے جس میں سامنے یا پیچھے کسی بھی طرف سے باطل نہیں  آسکتا ہے کہ یہ خوبیوں والے حکیم کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے''۔

بعض مفسرین نے دعوا کیا ہے کہ اس آیت شریفہ کے عدم تحریف پر واضح ترین دلیل ہونے پر سارے مفسرین کا اجماع ہے۔ ( 2 )

لہٰذا اس آیت شریفہ سے نفی تحریف پر کئی طریقوں  سے استدلال کیا گیا ہے :

پہلا طریقہ:یہ بات واضح ہے کہ اللہ نے اپنی کتاب کی صفت کو لفظ عزت سے متصف کیا ہے ۔ عزت کا تصور لغت کے حوالے سے وہاں صحیح ہے جہاں  ہر قسم

..........................

1۔فصلت /41،42

2۔صیانۃ القرآن عن التحریف ص33

۴۵

کی تبدیلی اور کمی بیشی سے تحفظ حاصل ہو۔ ( 1 )

دوسرا طریقہ:اس آیت شریفہ میں ایک طرف سے طبیعت اور باطل کی نفی ہو رہی ہے اور قاعدے کے مطابق ایسے موارد میں  عموم کا فائدہ دیتی ہے دوسرے الفاظ میں یوں  کہا جاسکتا ہے کہ آیت شریفہ قرآن سے ہر قسم کے باطل کی نفی کرتی ہے اور ہر وہ چیز جو خراب یا فاسد ہو یا کچھ حصہ اس سے ضائع ہوا ہو اس کو عربی زبان میں  باطل کہا جاتاہے ۔پس مسلّم اور بدیہی ہے کہ کلمہئ تحریف ،باطل کے مصادیق میں سے واضح ترین مصداق ہے۔

تیسرا طریقہ:اس آیت میں  اللہ نے ''لایاتیہ الباطل ''یعنی ہر قسم کے باطل کی گنجائش قرآن میں نہیں  ہے ۔اس کی علت کو ا س طرح ذکر کیا ہے کہ کیونکہ یہ کتاب ایسی ہستی کی طرف سے نازل ہوئی ہے جو حکیم اور حمید ہے یہ جملہ واضح کرتا ہے کہ ایسی کتاب جو کسی حکیم و حمید کی طرف سے آئی ہے اس میں  کسی قسم کی تحریف اور تبدیلی کا

آنا حکمت کی صفت کے ساتھ مناسب ہے ۔مرحوم حاجی نوری ( 2 ) نے فرمایا:

''اگرچہ قرآن میں کسی قسم کی تبدیلی یا تغیر کا قائل ہونا باطل کے مصداق میں سے ایک مصداق ہے لیکن یہاں  آیت شریفہ میں  ہر باطل مراد نہیں  ہے بلکہ ایک خاص

..............................

1۔البیان ص211

2۔فصل الخطاب ص 361

۴۶

باطل مراد ہے جو قرآن میں ظاہری طور پر کچھ احکام اور اخبار میں  تناقض کی وجہ سے حاصل ہوجائے اللہ اس کی نفی کرنا چاہتاہے''۔

بعض محققین نے جناب محدث نوری کو یوں جواب دیا ہے :

''آیت شریفہ میں صرف احکام اور اخبارمیں تناقض کی نفی مراد لینا لفظ عزت کے ساتھ مناسب نہیں    ہے۔ ( 1 ) دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اس صفت کے ذکر کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کتاب ہر قسم کے باطل سے دور اور محفوظ ہے۔

اس جواب کی وضاحت اور تکمےل کی ضرورت ہے ۔ وہ ےہ ہے کہ اس آیت شرےفہ کا ظاہری معنیٰ جو ہر خاص و عام کے ذہن میں  آجاتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے اس کتاب کو کسی قید اور محدودیت کے بغیر بطور مطلق ''کتاب عزیز'' فرمایا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آیت شریفہ میں  کلمہ باطل سے صرف تناقض احکام اور اخبار کا ارادہ کرنا صحیح نہیں    ہے کیونکہ اگر کتاب الٰہی صرف تناقض احکام کے حوالہ سے عزیز اور باطل سے مصون ہو تولفظ''عزیز'' کو کسی محدودیت کے بغیر کتاب کی صفت قرار دینا خلاف ظاہر ہے ۔

......................

1۔ البیان ص211

۴۷

اشکالات

لیکن آیت شریفہ پر کئے گئے اعتراضات میں سے اہم ترین اعتراض یہ ہے کہ آیت کے ذکر شدہ معنیٰ اس تفسیر کے مخالف ہیں    جو شیعہ اور سنی کے مفسرین میں سے عظیم ترین مفسرین نے کی ہیں  ۔یعنی اس آیت کی کسی بھی مفسر نے اس طرح تفسیر نہیں    کی ہے کہ جس سے نفی تحریف کا احتمال دیے سکیں  ۔مثال کے طور پر مرحوم شیخ طوسی(رح) نے تفسیر تبیان میں آیت شریفہ کی تفسیر میں پانچ احتمال دیے ہیں  :

الف:لایاتیہ الباطل سے مراد قرآن میں کسی قسم کے شبہہ اور تناقض کی گنجائش نہیں 

ہے بلکہ قرآن خالص حق ہے ۔

ب:قتادہ اور سدّی نے فرمایا ہے :اس آیت شریفہ میں  اللہ تبارک و تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ شیطان قرآن سے حق بات کو مٹانے اور کسی باطل کے اضافہ کرنے پر قادرنہیں    ہے ۔

ج:قرآن سے پہلے اور اس کے بعد اسے باطل کرنے والی کسی چیز کا نہ ہونا مراد ہے۔

د:حسن نے فرمایا :اس آیت سے قرآن کی ابتداء اور آخر میں کسی باطل کی گنجائش نہ ہونا مراد ہے ۔

ہ:قرآن نے گذشتہ اور آیندہ کے حوالے سے جو خبریں دی ہیں    اس میں باطل کی کوئی گنجائش نہیں  ہے ۔

جناب سید مرتضیٰ فرماتے ہیں    :اس آیت کے بارے میں بہترین تفسیر جو کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی کلام یا کوئی کتاب قرآن کی مانند اور مشابہ نہیں  ہو سکتی ہے ،قرآن وہ واحد کتاب ہے جو اپنے بعد کی کتب سے مشابہت نہیں  رکھتی اسی طرح اپنے سے پہلے والی کتب سے متصل بھی نہیں  یعنی قرآن کریم ہر حوالے سے بے مثال اور مستقل کلام ہے ،کسی بھی کلام کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بہتر اور برتر ہے ۔

۴۸

اس شبہے کا جواب یوں  دیا جا سکتا ہے ۔

پہلا جواب:مذکورہ تفاسیر اور معانی میں سے کچھ جیسے جناب قتادہ اور سدّی سے نقل کیا گیا ہے ،آیت کے ذریعہ قرآن سے تحریف کی نفی کرنے میں مناسب ہے۔

دوسرا جواب:اگر کسی بھی مفسر نے آیت میں کوئی ایسے معنیٰ کی طرف اشارہ نہ بھی کیا ہو جو نفی تحریف کے اثبات کے لئے مناسب ہو ،پھر بھی آیت کے ذریعہ نفی تحریف پر استدلال کرنا صحیح ہے کیونکہ کسی آیت اور کلام کی تفسیر کرنے کے اصول و ضوابط میں  سے ایک یہ ہے کہ کلام اور آیت کے ظاہری معنیٰ کو مدنظر رکھیں اور آیت کا ظاہر ی معنیٰ کسی شک کے بغیر ہمارے مطلب پر دلالت کرتا ہے اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ مفسرین نے مذکورہ معانی پر کوئی معتبر دلیل ذکر نہیں  کی تھی لہٰذا ان کا ہر نظریہ اور تفسیر قابل قبول نہیں    ہے لیکن اس وقت جب ان کی تفسیر پر معصوم سے منقول کوئی روایت ہو ۔

تیسرا جواب:وہ روایات جو لفظ باطل کی وضاحت اور تفسیر میں  آئی ہیں    وہ آیت شریفہ کو اسی میں  منحصر کرنے کے درپے نہیں  بلکہ آیت کریمہ کے مصادیق کو بیان کرتی ہیں    ۔

۴۹

تیرہواں مطلب

کیا تحریف کے قائل ہونے سے ظواہر کتاب کا حجیت سے ساقط ہونا لازم آتا ہے ؟

کیا تحریف کے قائل ہونے کے بعد ہم کتاب کے ظواہر سے استدلال نہیں  کر سکتے ہیں    ؟یہ سوال اس وقت صحیح ہے اگر تحریف کا دعویٰ کرنے والا علم اجمالی کی رو سے تحریف کا قائل ہو۔

بعضوں  نے کہا ہے کہ'' ایسے مفروضے کی صورت میں جس کسی آیت کی تحریف کا احتمال ہو اسے اہم عقلائی اصل سے وابستگی اختیار کرنی چاہیے جو ''عدم قرینہ '' ہے اور ظاہراً آیت سے استدلال کیا جائے دوسرے الفاظ میں تحریف شدہ کتاب کی حجیت کے لئے ہمیں  معصومین علیہم السلام کی تایید کی ضرورت نہیں  بلکہ ہم  اس عقلائی اصل کی روشنی میں ان کے ظواہر سے استدلال کرسکتے ہیں  ''۔ یہ بیان اور جواب اس صورت میں  صحیح ہے اگر عقلاء کسی کلام میں  قرینہ متصلہ یعنی متکلم کے کلام کےساتھ کوئی قرینہ ہونے کا احتمال دیں  پھر اصل عدم قرینہ سے تمسک اور استدلال کرنے کو صحیح سمجھے جبکہ عقلائی تحقیق کے مطابق جہاں  کہیں  کسی کلام میں  مخاطب اور سامع کوئی قرینہ منفصلہ '' یعنی متکلم کے کلام سے الگ کوئی قرینہ '' ہونے کا احتمال دے وہاں  قرینہ کی نفی کے لئے عقلاء عدم قرینہ سے تمسک کرنا صحیح سمجھتے ہیں    لیکن اگر کسی کلا م میں  قرینہ متصلہ ہونے کا احتمال ہو وہاں  اصل عدم قرینہ سے استدلال کر کے اس احتمال کی نفی کرنا صحیح نہیں    ہے اور مسئلہ تحریف پر علم اجمالی کے بعد احتمال کیا ہے کہ شاید کوئی قرینہ ہے جو تحریف کے نتیجہ میں  حذف کیاگیا ہے

۵۰

لہٰذا تحریف کے بارے میں  علم اجمالی کے مفروضے کی صورت میں  ظواہر کتاب سے تمسک کے لئے حضرات معصومین علیہم السلام کی تایید کے علاوہ اور کوئی چارہ نظر نہیں  آتا اور یہ مطلب حدیث ثقلین کے ظاہر کے خلاف ہے۔

چودہواں  مطلب

تحریف نہ ہونے پر حدیث ثقلین کی دلالت

تحریف کی نفی پر دلالت کرنے والی روایات میں سے اہم ترین روایت حدیث ثقلین ہے جو متواتر ہے ،یعنی اصحاب رسول ؐ میں سے 33 ہزار افراد نے جو عظیم شخصیت کے مالک تھے ،پیغمبر اسلام ؐ سے نقل کیا ہے ۔جیسے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، ابوذر ، عبداللہ بن عباس ،جناب عبداللہ بن عمر ، جناب حذیفہ ،جناب ابو ایوب انصاری ( 1 ) اور اہل سنت کے علماء میں  سے دو سو عظیم علماء نے اپنی کتابوں  میں تحریر کیاہے ۔اس حدیث کا متن اس کی اسناد میں سے ایک متن کے مطابق یوں  ہے: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ''انّی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی و فیه الهدی والنور فتمسکوا بکتاب الله و خذوا به و اهل بیتی ،اذکرکم الله فی اهل بیتی (ثلاث مرّات)''(٢) ''تحقیق میں تمہارے درمیان دوگراں  بہا چیزیں  چھوڑے جا رہا ہوں  ،ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت (اہلبیت)ہے ،اسی میں  ہدایت اور نور ہے ۔پس تم اللہ کی کتاب اور میرے اہلبیت سے تمسک رکھو ،میرے اہلبیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں  ''۔(یہ جملہ تین دفعہ فرمایا) اس حدیث سے قرآن کریم میں تحریف نہ ہونے پر دو طریقوں  سے استدلال کیا جا سکتا ہے ۔

........................

1۔آلاء الرحمن ص44

2۔سنن دارمی ج2ص431

۵۱

پہلا طریقہ

پہلا طریقہ چھ نکات پر مشتمل ہے :

الف:یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ ہم قیامت تک کتاب سے تمسک رکھ سکتے ہیں 

ب:اس کتاب میں  تحریف ہونے کا لازمہ یہ نہیں    ہے کہ ہم اس سے تمسک نہیں رکھ سکتے۔

ج:قرآن سے تمسک رکھنے کا مطلب اس کے تمام پہلوؤں  سے تمسک رکھنا ہے جن کا ذکر قرآن نے کیاہے اور تمسک کے خصوصی معنی جیسے کہ ''آیات احکام''نہیں    ہےں ۔دوسرے الفاظ میں قرآن صرف واجبات و محرمات بیان کرنے کے لئے نہیں    آیاہے بلکہ قرآن اس لئے آیا ہے کہ انسان کو ظلمت کی تاریکی سے نکال کر ہدایت اور نور کی طرف لے جائے ۔

د:تحریف کا مقصد یعنی حقائق کو چھپانا اور کتاب کے بعض انوار پر پردہ ڈالنا ہو تو ایسی تحریف پر مشتمل کتاب انسان کے تمام پہلوؤں سے نور اور ہادی نہیں  بن سکتی ۔جبکہ قرآن کریم کا ہدف یہ ہے کہ لوگوں  کو ہر ظلمت اور تاریکی سے نکال کر ہدایت اور نور کی طرف لے جائے تا کہ انسان مادی و معنوی امور میں  انسان کامل کے مرحلہ پر فائز ہو جائے ۔یہ مقصد اور ہدف ایسی ہی کتاب کے ساتھ تمسک سے حاصل ہوتا ہے ۔

ہ:قرآن کریم سے استدلال اور تمسک رکھنا بر خلاف تمسک عترت اسی صورت میں  ممکن ہے کہ ہم قرآن تک پہنچیں  وہ بھی وہی قرآن جو لوگو ں کے پاس موجود ہے نہ وہ قرآن جو اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے پاس محفوظ ہے ،دوسرے

انسانوں کی رسائی سے دور ہے ۔

۵۲

حدیث شریف سے استفادہ ہوتا ہے کہ کتاب سے تمسک رکھنا صرف یہ نہیں    کہ تمسک ممکن ہے بلکہ واجب ہے اور انشاء کے مقام پر جملہ خبریہ حکم تکلیفی کا حامل ہے علم اصول کے مباحث میں یہ واضح ہے کہ تکلیف شرعی میں  لازم ہے کہ مکلفین کی قدرت میں  ہو ۔اس لئے اگر قرآن تحریف کا شکار ہو چکا ہے تو اس سے تمسک نہیں    رکھ سکتے ۔

دوسرا طریقہ

اس حدیث سے استفادہ ہوتا ہے کہ ان دوگراں بہا چیزوں  میں سے ہر ایک دوسری دلیل کے ساتھ مستقل دلیل اور حجت ہے یعنی کتاب الٰہی عترت اور اہلبیت سے قطع نظر مستقل طور پر واجب العمل اور حجت ہے ،نیز عترت بھی کتاب سے قطع نظرمستقل دلیل اور حجت ہے ۔البتہ اس کا مطلب یہ نہیں    ہے کہ ہر ایک اکیلا مطلوب کے حصول اور گمراہی و ظلمت سے نجات پانے کے لئے کافی ہو ،یعنی قرآن اہلبیت کے بغیر یا اہل بیت قرآن کے بغیر ہماری نجات کا ذریعہ بنے، بلکہ گمراہی اور ظلمت سے نکال کر ہدایت اور نور کی طرف لے جانے میں دونوں  کی ضرورت ہے ۔لہٰذا گر قرآن کی تحریف ہوئی ہوتو اس کے ظواہر واجب العمل اور حجت ہونے سے ساقط ہو جاتے ،اور جو لوگ تحریف کے معتقد ہیں    ان کے لئے کتاب کی طرف رجوع کرنے میں تصدیق معصومین اور تائید کی ضرورت ہے ۔جو حدیـث ثقلین کے ظاہر ی معنیٰ کے مخالف ہے ۔کیونکہ حدیث ثقلین کے ظاہری معنیٰ یہ ہیں    کہ کتاب و عترت میں سے ہر ایک مستقل یعنی ایک دوسرے سے ضمیمہ کئے بغیر واجب العمل اور حجت ہیں  ۔لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو چیز ثقل اکبر ہو اس کی حجیت اس چیز پر موقوف ہو جو ثقل اصغر ہے ۔پس ان دو طریقوں  سے درج ذیل نتائج روشن ہو جاتے ہیں    :

1۔قرآن سے تمسک اور استدلال کرنا نہ صرف ممکن ہے بلکہ اس سے تمسک کرنا ضروری ہے ۔

2۔قرآن کو ایک مستقل دلیل اور حجت کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے لہٰذا بدیہی ہے اگر کوئی تحریف کا قائل ہو تو اس کا یہ نظریہ مذکورہ مطلب سے میل نہیں    کھاتا ۔

۵۳

پندرہواں  مطلب

تلاوت کا مٹ جانا اور باطل قرار پانا

سنی علماء کی عبارات میں نسخ تلاوت او رانساء کی دو اصطلاحیں نظر آتی ہیں    اور جواز نسخ تلاوت کو بطور اجمال ذکر کر کے اس پر انہوں  ( 1 ) نے عقلی اور نقلی دلیل ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔اس کی طرف اشارہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم غور کریں کہ کیا یہ دو اصطلاح اور لفظ تحریف دو الگ الگ چیزیں  ہیں  یا ان دو اصطلاحوں کے قائل ہونے کا لازمہ تحریف ہے ؟احادیث اور روایات کی کتابوں میں کچھ ایسی احادیث پائی جاتی ہیں  جس کی توجیہ کے نتیجہ میں اہل تسنن کے بزرگ علماء نے ان میں  نسخ تلاوت کو قرار دیا ہے ،انہیں    روایات میں سے ایک وہ ہے جو مسئلہ رجم سے مربوط ہے ۔چنانچہ ابن عباس نے عمر سے روایت کی ہے کہ عمر نے کہا :پیغمبر اکرم (ص) پر نازل شدہ آیات میں سے ایک آیت رجم ہے ،''الشیخ و الشیخۃ اذا زنیا فارجموھما...'' اگر کوئی عمر رسیدہ مرد اور عورت آپس میں زنا کریں تو ان کو سنگسار کریں اور پیغمبر اکرم (ص)نے اپنے دور میں  اس پر عمل کیا ہے،ان کے بعد ہم بھی

اس پر عمل کرتے رہیں    ہیں  ۔ ( 2 )

.........................

1۔الاحکام فی اصول الاحکام جزء سوم ص154

2۔مسند احمد ابن حنبل 1/47

۵۴

زید بن ثابت فرماتے ہیں  :میں نے پیغمبر اکرم (ص) سے سنا کہ ''اگر کوئی شادی شدہ مرد یا عورت زنا کرے تو ان کو سنگسار کرنا چاہیئے ۔اس بحث میں  غور کی بات یہ ہے کہ زید بن ثابت نے نہیں    کہا پیغمبر کا یہ کلام وحی اور آیات قرآنی میں  سے ایک ہے لیکن عمر نے خیال کیا کہ یہ وحی منزل اور آیات قرآنی میں سے ایک ہے جبکہ عمرنے پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھا کیا اس کو کتاب میں لکھوں ،تو پیغمبر اکرم (ص) نے کوئی جواب نہیں    دیا ( 1 )

اہل تسنن بھی ان کی اتباع کرتے ہوئے خیال کرنے لگے کہ پیغمبر اکرم (ص) کا یہ کلام اور حکم قرآن کی ایک آیت تھی لیکن اس کی تلاوت اور قرائت نسخ اور ختم ہو چکی ہے ،اگرچہ اس کا حکم اب بھی باقی ہے ۔

اس نظریے پر کئی اہم اعتراضات ہوئے ہیں  جو یوں  ہیں  :

1۔پہلا اعتراض یہ ہے کہ نسخ جس طرح کا ہو وہ ناسخ کے بغیر نہیں  ہو سکتا ،لیکن یہاں  کوئی ناسخ نظر نہیں  آتا ۔

2۔دوسرا اعتراض یہ ہے کہ بحث نسخ میں یہ ثابت ہے کہ نسخ صرف احکام شرعی کے حدود میں  واقع ہوا ہے لیکن تلاوت کا عنوان شرعی احکام سے مربوط نہیں    اگرچہ اس اعتراض کا جواب اہل سنت کے علماء میں سے بعض نے اس طرح دیا ہے ( 2 )

...............................

1۔محلی ابن حزم ج1ص235

2۔الاحکام آمدی 3/155

۵۵

کہ تلاوت قرآن سے اس کا وجود خارجی مراد نہیں    ہے بلکہ تلاوت قرآن کا جواز

مراد ہے جو احکام شرعیہ میں سے ایک ہے ۔

3۔تیسرا عتراض یہ ہے کہ اس جیسے نسخ کا کیا فائدہ ؟یعنی یوں کہا جائے کہ آیت کی تلاوت نسخ ہو چکی ہے لیکن اس کا اصل حکم باقی رہے جو اس آیت کا مدلول ہے باقی رہے ۔

4۔چوتھا اعتراض :اہم ترین اعتراض ہے جسے مرحوم محقق خوئی نے کہا ہے انہوں  نے فرمایا کہ اگر نسخ تلاوت کی یہ صورت حضور اکرم (ص) کے زمانے میں آپ کے حکم سے واقع ہوئی ہے چاہے اس کا لازمہ تحریف نہ بھی ہو ،لیکن ایسی روایتیں  جو مطلب پر دلالت کرتی ہیں  یا اس نظریے پر محمول ہو خبر واحد کی حیثیت سے ہیں  اس لئے اعتماد کے لئے کافی نہیں  اس پر اضافہ یہ کہنا کہ اس قسم کا نسخ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے کے بعد واقع ہواہے اور اگر اس قسم کا نسخ حضور اکرم (ص) کے زمانے کے بعد علماء اور حکمرانوں  کے ذریعے واقع ہوا ہے تو یہ قول عین تحریف کو قبول کرنا ہے ۔ ( 1 ) لیکن جو کچھ مسئلہ رجم کے متعلق بیان ہوا ہے اس کا بطلان بہت واضح ہے کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے قرآن کریم کے آیات کو تحریر کرنے میں بڑی باریکی کے ساتھ نگرانی فرمائی

ہے اور بڑے اہتمام کے ساتھ کاتبوں کو اس امر پر مامور فرمایا تھا اس صورت

.............................

1۔البیان ص 206

۵۶

میں  کہ آیت رجم اگر آیات قرآن میں سے ہوئی تو آپ نے اسے قرآن میں لکھنے کا حکم کیوں نہیں  دیا اور عمر کے سوال کا جواب کیوں  نہیں    دیا ۔

لہٰذا نسخ تلاوت ایک ایسا مطلب ہے جس کا باطل ہونا بدیہی طور پر واضح ہے یہاں تک کہ بعض اہلسنت ( 1 ) کے معاصرین نے کہا ہے کہ عقلاً تو ایسا ہونا جائز ہے مگر اللہ کی کتاب میں ایسا کوئی نسخ واقع نہیں  ہوا ہے ۔ابن حزم اندلسی نے پہلے نسخ تلاوت کو قبول کرنے کے بعد اپنے کلام کے آخر میں ایسی توجیہ کی جیسے نسخ

تلاوت وحی الٰہی سے مربوط ہی نہیں  ہے۔

.........................

1۔فتح المنان فی نسخ القرآن ص224

۵۷

سولہواں  مطلب

شیعہ امامیہ تحریف قرآن کے قائل نہیں  ہوسکتے

شیعہ امامیہ نہ صرف تحریف قرآن کے معتقد نہیں  ہیں  بلکہ اصولاً ایسے عقیدے اور نظریے کے قائل نہیں  ہو سکتے ۔کیونکہ شیعہ امامیہ کے اصول اور اعتقادی مسائل کو تشکیل دینے والی اہم ترین دلیلوں  میں سے ایک آیت تطہیر ہے:

''انما یرید الله لیذهب عنکم الرّجس اهل البیت و یطهّر کم تطهیراً'' ( 1 )

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت ! کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے ،اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''۔

اعتقادی مسائل سے مربوط کتابوں میں ثابت کیا گیا ہے کہ یہ آیت شریفہ اہلبیت علیہم السلام کی عصمت پر واضح ترین دلیل ہے اور وہ بھی ایسی عصمت جو مسلمانوں کے پیشوا اور خلیفہ ئوقت کے منصب پر فائز ہونے کے لئے ضروری ہے ،یعنی اس عصمت کو بیان کرنے والی آیات میں سے واضح اور روشن

آیت ،آیت تطہیر ہے ۔لہٰذا جو لوگ قرآن میں تحریف کے قائل ہیں  وہ اس آیت سے عصمت پر استدلال نہیں  کر سکتے ،یعنی جب ہم قرآن کو ایک منظم کتاب سمجھیں

...........................

1۔احزاب/33

۵۸

کہ جس کا آغاز سورہ مبارکہ حمد اور اختتام سورہ والنّاس ہے ،جس کی تدوین اور جمع آوری خود پیغمبر اکرم (ص) کے زما نہ میں مکمل ہوئی تھی آنحضرت ؐ کے بعد کسی قسم کی کمی بیشی نہیں  ہوئی اور اس کی ہر آیت کو اپنی مخصوص مناسبت کے ساتھ اس طرح رکھا گیا ہے اگر کوئی ایک آیت کو اس کی مخصوص جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرے تو اس کا الٰہی مقصد حاصل نہیں  ہوتا ۔کیونکہ اس آیت کو اس مخصوص جگہ میں ترتیب دینے کا ہدف مقصد یہ ہے کہ اللہ پیغمبر اکرم (ص) کی ازواج کی ذمے داریوں  کو بیان کرتے وقت اہلِ بیت (ع) عصمت کی چند خاص ذمے داریوں کو بیان کرے اگر اس جیسی آیات میں

تحریف کا احتمال دیا جائے تو شیعہ امامیہ کے اعتقادات کے لئے کوئی پناہ باقی نہیں رہے گی ۔ ( 1 )

......................

1۔مزید توضیح کے لیے رجوع کریں کتاب'' اہل البیت یا چہرہ ہای درخشان''

۵۹

سترہواں مطلب

تحریف کی روایات کا اجمالی جائزہ

تحریف کے قائلین کے پاس اہم ترین دلیل وہ روایات ہیں    جو سنی اور شیعہ کتابوں  میں  ذکر ہوئی ہیں  ،ان روایات کی تعداد بعض محققین نے ایک ہزار ایک سو بائیس ( 1122 ) بتائی ہے ،بعض بزرگ علماء نے ان روایات کے تواتر اجمالی کو قبول کر لیا ہے اگرچہ مذکورہ روایات میں سے اکثر کی سند ضعیف ہے لیکن اس کثرت سے وارد ہوئی ہیں    کہ جن میں سے بعض کا معصوم علیہ السلام سے صادر ہونے پر ہمیں  یقین حاصل ہو جاتا ہے ۔لہٰذا ان تمام کے جھوٹ ہونے کا احتمال نہیں  ہے اس لئے جو لو گ تحریف کے قائل ہیں  وہ ان روایات سے تحریف قرآن پر استدلال کرتے ہیں    ۔

لیکن ہمارے علماء میں  سے بعض نے ان روایات پر دو اعتراضات کر کے جواب دیا ہے ۔

پہلا طریقہ :جن کتابوں میں ان روایات کو جمع کیا ہے وہ معتبر نہیں  ہیں  ۔

دوسرا طریقہ :ان روایات کے مضمون قابل اعتراض ہیں  ان دونوں  جہتوں کی

وضاحت اور تفصیل کی ضرورت ہے ۔

۶۰