پہلا حصہ: تمہیدات
ابو مخنف کا تعارف
کیونکہ ہم سقیفہ سے متعلق ابو مخنف کی روایت کے بارے میں گفتگو کریں گے لھٰذا ضروری ہے کہ سب سے پہلے ان سوالات کا مختصر جواب دے دیا جائے جن کا قارئین کے ذہن میں ابھرنے کا امکان ہے، مثال کے طور پر ابو مخنف کون تھے؟ کس دور میں تھے؟ شیعہ اور سنی علماء ان کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں ان کا مذہب کیا تھا؟ کتاب کا یہ حصہ انہیں سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے۔
ابو مخنف کون تھے؟
ابو مخنف کا نام، لوط بن یحيٰ بن سعید بن مخنف
بن سُلیم ازدی
ہے ان کا اصلی وطن کوفہ ہے اور ان کا شمار دوسری صدی ہجری کے عظیم محدثین اور مورخین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد سے اموی حکومت کے آخری دور تک کے اہم حالات و واقعات پر کتابیں لکھیں، جیسے کتاب المغازی، کتاب السقیفہ، کتاب الردہ، کتاب فتوح الاسلام، کتاب فتوح العراق، کتاب فتوح خراسان، کتاب الشوريٰ، کتاب قتل عثمان، کتاب الجمل، کتاب صفین، کتاب مقتل أمیر المؤمنین کتاب مقتل الحسن (علیہ السلام) کتاب مقتل الحسین (علیہ السلام) و ۔ ۔ ۔
جو مجموعی طور پر اٹھائیس کتابیں ہیں اور ان کی تفصیل علم رجال کی کتابوں میں موجود ہے
۔ لیکن ان میں سے اکثر کتابیں ہماری دسترس میں نہیں ہیں البتہ ان کتابوں کے کچھ مطالب ان کے بعد لکھی جانے والی کتابوں میں روایت ابی مخنف کے عنوان سے موجود ہیں مثلاً تاریخ طبری
میں ابو مخنف سے مجموعی طور پر پانچ سو سے زیادہ روایتیں موضوعات پر نقل ہوئی ہیں اور ان نقل شدہ روایات میں سے اکثر کا تعلق کہ جو تقریباً ایک سو چھبیس روایتیں ہیں حضرت علی علیہ السلام کے دوران حکومت کے حالات و واقعات سے ہے۔ ایک سو اٹھارہ روایتیں واقعۂ کربلا اور ایک سو چوبیس روایتیں حضرت مختار کے قیام کے بارے میں ہیں۔
صدر اسلام میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں ابو مخنف کی روایات اس قدر دقیق، مفصّل اور مکمل جزئیات کے ساتھ ہیں جو ہر قسم کے تعصب سے دور ہونے کے علاوہ ہر واقعہ کے پہلوؤں کی طرف قارئین کی رہنمائی کرتی ہیں یہاں تک کہ اس کے بعد لکھی جانے والی شیعہ اور سنی تاریخی کتابوں نے ان کی روایات سے کافی استفادہ کیا ہے اور روایت کے ذکر کے ساتھ ساتھ اس پر مکمل اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے۔
ابو مخنف کا دور
اگر چہ ان کی تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے لیکن ان کی تاریخ وفات عام طور سے سن ۱۵۷ ہجری قمری نقل کی گئی ہے ان کی تاریخ ولادت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے بعض علماء رجال غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں۔ بعض نے انہیں امام علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام، اور امام حسین علیہ السلام کا صحابی کہا ہے، جب کہ بعض علماء نے انہیں امام جعفر صادق علیہ السلام کا صحابی جانا ہے، جیسا کہ شیخ طوسی علیہ الرحمہ
نے "کشّی" سے نقل کیا ہے کہ ابو مخنف امام علی علیہ السلام امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہیں۔ لیکن ان کا خود یہ نظریہ نہیں ہے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ ابو مخنف کے والد "یحیيٰ" امام علی علیہ السلام کے صحابی تھے جب کہ خود ابو مخنف (لوط) نے آپ کا زمانہ نہیں دیکھا ہے۔
شیخ نجاشی کا کہنا ہے کہ ابو مخنف امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہیں
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے بھی روایت نقل کی ہے۔ مگر یہ قول صحیح نہیں ہے شیخ نجاشی کے قول کے مطابق ابو مخنف صرف امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے تھے اور آپ کے اصحاب میں سے تھے اور انہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے کوئی روایت نقل نہیں کی چہ جائیکہ وہ امام علی علیہ السلام سے روایت نقل کرتے۔ تمام شواھد و قرائن شیخ نجاشی کے قول کی تصدیق کرتے ہیں اس لئے کہ
۱۔ تاریخ طبری میں ابو مخنف کی جو روایت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے وہ بغیر کسی واسطہ کے ہے جب کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے ان کی روایت ایک واسطہ کے ساتھ نقل ہوئی ہے
۔
۲۔ حضرت امام علی علیہ السلام کے خطبات اور حضرت فاطمہ زھرا (س) کے خطبہ سے متعلق ابو مخنف کی روایت دو واسطوں کے ذریعہ نقل ہوئی ہے
۔
۳۔ اگر ابو مخنف کی تاریخ وفات کو ملحوظ نظر رکھا جائے جو ۱۵۷ہجری ہے اور یہ کہا جائے کہ انہوں نے امام علی علیہ السلام کا زمانہ بھی دیکھا ہے (یعنی کم از کم وہ اس دور میں شعور رکھتے تھے) تو ایسی صورت میں وفات کے وقت ان کی عمر تقریباً ایک سو تیس سال ہوجائے گی
جب کہ کسی راوی نے بھی اس قسم کی بات کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔
یہ تمام قرائن شیخ نجاشی کے قول کے صحیح ہونے کی دلیل ہیں کہ وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے اور آپ ہی سے روایت کرتے تھے۔
لیکن کتاب "الکافی"
میں ابو مخنف کی ایک روایت بغیر کسی واسطہ کے حضرت امام علی علیہ السلام کے دور حکومت سے متعلق نقل ہوئی ہے۔ اس حدیث میں ان کا بیان ہے کہ شیعوں کا ایک گروہ امیر المومنین علیہ السلام کے پاس آیا۔ ۔ ۔ لیکن یہ حدیث ھرگز یہ ثابت نہیں کرتی کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے دور میں تھے۔ اس لئے کہ ممکن ہے یہ حدیث "مرسلہ"
ہو جو بات یقینی ہے وہ یہ کہ ابو مخنف کے پر دادا "مخنف بن سلیم" رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے
اور آپ کی طرف سے شہر اصفہان کے گورنر مقرر ہوئے
اور جنگ جمل کے دوران حضرت علی علیہ السلام کی فوج میں قبیلہ ازد کے دستہ کی سالاری کے فرائض انجام دیتے ہوئے اس جنگ میں شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے۔
سوانح حیات سے متعلق اکثر کتابوں کے مطابق ان کی شہادت جنگ جمل میں ہوئی مثلاً "الکنی والالقاب" شیخ عباس قمی "الذریعہ" آقا بزرگ تہرانی، "اعلام" زرکلی اور اسی طرح "تاریخ طبری"
میں ابو مخنف کی روایت اسی چیز پر دلالت کرتی ہے، لیکن اسی تاریخ طبری
میں مخنف بن سلیم کی ایک روایت واقعہ صفین سے متعلق نقل ہوئی ہے جو اس بات سے تناسب نہیں رکھتی کہ وہ جنگ جمل میں شہید ہوئے تھے۔
اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب "رجال" اور "فہرست"
میں ابو مخنف کے والد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ آپ حضرت علی علیہ السلام کے صحابی تھے جب کہ جو چیز مسلم ہے وہ یہ کہ ابو مخنف کے والد یحیيٰ حضرت علی علیہ السلام کے صحابی نہ تھے بلکہ آپ کے پردادا حضرت کے اصحاب میں سے تھے لھٰذا یہ بات قابل توجہ ہے کہ مخنف بن سلیم، ابو مخنف کے نہ والد ہیں اور نہ دادا جیسا کہ بعض افراد ان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں اور انہیں ابو مخنف کا دادا کہا ہے
جب کہ وہ ابو مخنف کے پردادا ہیں۔
ابو مخنف شیعہ اور سنی علماء کی نظر میں
اہل تشیع کی علم رجال سے متعلق کتابوں سے یہ بات روشن ہے کہ ابو مخنف ایک قابل اعتماد شخص تھے، شیخ نجاشی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ابو مخنف کوفہ کے بزرگ راویوں کے شیوخ (اساتذہ) میں سے ہیں ان کی روایت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے
شیخ طوسی
نے اپنی علم رجال کی کتاب میں انہیں امام جعفر صادق علیہ السلام کا صحابی کہا ہے شیخ عباس قمی نجاشی جیسی عبارت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ابو مخنف عظیم شیعہ مورخین میں سے ایک ہیں نیز آپ فرماتے ہیں کہ ابو مخنف کے شیعہ مشھور ہونے کے باوجود طبری، اور ابن اثیر
، جیسے علماء اہل سنت نے ان پر اعتماد کیا ہے، آقا بزرگ تہرانی نجاشی کی چند عبارتیں نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں "ان کے شیعہ مشہور ہونے کے باوجود علمائے اہل سنت جیسے طبری اور ابن اثیر نے ان پر اعتماد کیا ہے بلکہ ابن جریر کی کتاب تاریخ الکبیر
تو ابو مخنف کی روایات سے پُر ہے۔ آیة اللہ خوئی نے بھی انہیں ثقہ کہا ہے اور شیخ طوسی (رح) سے ابو مخنف تک جو سند ہے اسے آپ نے صحیح جانا ہے
۔
لیکن بعض علماء اہل سنت نے ان کے شیعہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے ان کی روایت کو متروک قرار دیا ہے اور بعض افراد نے ان کے شیعہ ہونے کا ذکر کئے بغیر ان کی روایت کو ضعیف کہا ہے جیسا کہ یحیيٰ بن معین کا کہنا ہے "ابو مخنف لیس بشئ
یعنی ابو مخنف قابل اعتماد نہیں ہیں) اور ابن ابی حاتم نے یحیی بن معین کا قول نقل کیا ہے کہ وہ ثقہ نہیں ہیں
اور دوسروں سے بھی اس بات کو نقل کیا ہے کہ وہ "متروک الحدیث" ہیں
۔
ابن عدی یحیيٰ بن معین کا قول نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ گذشتہ علماء بھی اسی بات کے قائل ہیں، (یوافقہ علیہ الائمہ) اس کے بعد وہ کہتا ہے کہ ابو مخنف ایک افراطی قسم کے شیعہ ہیں، ان کی احادیث کی سند نہیں ہے ان کی احادیث کی سند نہیں ہے ان سے ایسی ناپسندیدہ اور مکروہ روایات نقل ہوئی ہیں جو نقل کرنے کے لائق نہیں
۔
ذھبی کا کہنا ہے کہ وہ متروک ہیں
اور دوسری جگہ پر کہا ہے کہ ابو مخنف نے مجھول افراد سے روایت نقل کی ہے
دار قُطنی کا قول ہے کہ ابو مخنف ایک ضعیف اخباری ہیں
ابن حجر عسقلانی کا کہنا ہے کہ ان پر اطمینان نہیں کیا جاسکتا ہے پھر بعض علماء کا قول نقل کرتا ہے کہ ابو مخنف قابل اعتماد اور مورد اطمینان نہیں ہیں
۔
لیکن ابن ندیم کا ان کے بارے میں کہنا ہے کہ میں نے احمد بن حارث خزار کے ھاتھ سے لکھی ہوئی تحریر میں دیکھا ہے کہ علماء کا کہنا ہے، کہ ابو مخنف کی عراق اور اس کی فتوحات سے متعلق روایات سب سے زیادہ اور سب سے بہتر ہیں، جس طرح سے خراسان، ھندوستان اور فارس کے بارے میں مدائنی، حجاز و سیرت کے بارے میں واقدی، اور شام کی فتوحات کے بارے میں ان تینوں کی معلومات یکساں ہیں
یہ عبارت یاقوت حموی نے بھی اپنی کتاب "معجم الادباء" میں ذکر کی ہے،
مجموعی طور پر اکثر علماء اہل سنت نے یحیيٰ بن معین کے قول کا سہارا لے کر ابو مخنف کو غیر ثقہ قرار دیا ہے۔
البتہ ابو مخنف کے بارے میں ابن ندیم اور حموی نے جس حقیقت کا اظھار کیا ہے اس کی وجہ سے ان کے قول کے متروک ہونے کے باوجود اہل سنت کے برجستہ علماء نے ان سے روایات نقل کی ہیں اور شاید عراق کے وہ حالات و واقعات جو تاریخ اسلام کے عظیم تحولات کا سبب ہیں ان تک ابو مخنف کی روایات کے بغیر دسترسی ناممکن ہے، لھٰذا علماء اہل سنت کے نظریات کے سلسلے میں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ شاید ان کے نزدیک ابو مخنف کے متروک ہونے کی وجہ وھی ہو جو ابن عدی نے اپنے کلام کے آخر میں کہی ہے اور وہ یہ کہ ابو مخنف کی روایات میں ایسے واقعات کا ذکر ہے کہ جو بعض افراد پر گراں گزرتے ہیں کیونکہ وہ واقعات ان کے مفروضہ عقائد اور نظریات سے مطابقت نہیں رکھتے۔
ابو مِخنف کا مذھب
ابو مخنف کے مذھب کے بارے میں اقوال ہیں:
شیخ طوسی کا اپنی کتاب "فہرست" میں اور نجاشی کا اپنی کتاب "رجال" میں ان کے مذھب کے بارے میں کوئی رائے پیش نہ کرنا ان کے شیعہ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ شیخ عباس قمی اور آقا بزرگ تہرانی نے واضح طور پر ان کے شیعہ ہونے کو بیان کیا ہے بلکہ یہاں تک کہا ہے کہ ان کا شیعہ ہونا مشھور ہے لیکن آقا خوئی نے اپنی کتاب "معجم رجال الحدیث" میں ان کے شیعہ یا غیر شیعہ ہونے کو بیان کئے بغیر انہیں ثقہ کہا ہے۔
اکثر علماء اہل سنت نے ان کے شیعہ ہونے کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا یہاں تک کہ ابن قتیبہ اور ابن ندیم نے شیعہ افراد کے لئے ایک الگ باب تحریر کیا ہے لیکن ابو مخنف کے نام کا وھاں ذکر نہ ہونا ان کے غیر شیعہ ہونے کو ظاھر کرتا ہے
علماء اہل سنت میں سے ابن ابی الحدید وہ ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ ابو مخنف کا شمار محدثین میں ہوتا ہے اور وہ امامت پر اعتقاد رکھتے تھے۔ لیکن ان کا شمار شیعہ راویوں میں نہیں ہوتا
صاحب قاموس الرجال اقوال پر تنقید کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ابو مخنف کی روایت ان کے متعصب نہ ہونے کی وجہ سے قابل اعتماد ہے لیکن ان کے شیعہ ہونے کے بارے میں کوئی رائے پیش نہیں کی جاسکتی
۔
لھٰذا ان کے مذھب کے بارے میں بحث کرنے کا کوئی خاص عملی فائدہ نہیں ہے لیکن اگر ابو مخنف کی روایات پر غور و فکر کیا جائے جو اکثر سقیفہ، شوريٰ، جنگ جمل، جنگ صفین، مقتل امام حسین علیہ السلام سے متعلق ہیں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ وہ شیعی افکار کے مالک تھے، البتہ ممکن ہے کہ ان کی روایات میں بعض مطالب ایسے پائے جاتے ہوں جو کامل طور پر شیعہ عقیدہ کے ساتھ مطابقت نہ رکھتے ہوں لیکن ہمیں چاھیے کہ ہم ابو مخنف کے دور زندگی کو بھی پیش نظر رکھیں کیونکہ بعض اوقات ائمہ معصومین علیہم السلام بھی تقیہ کی وجہ سے ایسے مطالب بیان کرتے تھے جو اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق ہوا کرتے تھے اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وہ ایک معتدل شخص تھے جس کی وجہ سے اہل سنت کی اکثر کتابوں میں ان کی روایات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
بہر حال تاریخ ابو مخنف کی عظمت غیر قابل انکار ہے اور شیعہ و سنی تمام مورخین نے ان سے کافی استفادہ کیا ہے اور چونکہ تمام شیعہ علماء نے انہیں ثقہ جانا ہے اور ان کی روایت پر اعتماد کا اظھار کیا ہے لھٰذا ان کی روایات کے مضامین پر غور و فکر کرنے سے صدر اسلام کے بہت سے اہم حالات و واقعات کی صحیح نشاندھی کی جاسکتی ہے۔
____________________