سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)0%

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں) مؤلف:
زمرہ جات: امامت

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

مؤلف: تارى، جليل
زمرہ جات:

مشاہدے: 11579
ڈاؤنلوڈ: 3745

تبصرے:

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 20 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11579 / ڈاؤنلوڈ: 3745
سائز سائز سائز
سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب کا نام : سقیفہ کے حقائق ( روایت ابومخنف کی روشنی میں)

مؤلف : تاری، جلیل

مترجم / مصحح : سید نسیم حیدر زیدی

ناشر : مجمع جهانی اہل بیتعليه‌السلام

نشر کی جگہ : قم (ایران)

نشر کا سال : ۲۰۰۶

جلدوں کی تعداد : ۱

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیض یاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے ہیں غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کر لیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں،چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و مؤسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفٰی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگھی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل، فطرت انسانی سے ہم آھنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا،اس لئے تیئیس برس کے مختصر سے عرصے میں ہی اسلام کی عالم تاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تھذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تھذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذھبِ عقل و آگھی سے رو برو ہونے کی توانائی کھو دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاھب اور تھذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ گراں بھا میراث کہ جس کی اہلبیت علیہم السلام اور ان کے پیروؤں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرندان اسلام کی بے توجھی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بھت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناھی کی ہے ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبھات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاھیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذھبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بیتاب ہیں،یہ زمانہ علمی و فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بھتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جھانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیتعليه‌السلام عصمت وطھارت کے پیروؤں کے درمیان ہم فکری و یکجھتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بھتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے،تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے، زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے،ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماھرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طھارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علم بردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوںخواروں کی نام نھاد تھذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جھالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنٰی خدمت گار تصور کرتے ہیں،

زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل آقای علّام جلیل تاری کی گراں قدار کتاب حقائق سقیفہ کو فاضل جلیل مولانا سید نسیم حیدر زیدی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار اور مزید توفیقات کے آرزو مند ہیں،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنٰی جھاد رضائے مولٰی کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الکرام

مدیر امور ثقافت: مجمع جھانی اہل بیت علیہم السلام

بیاں اپنا

تمام تعریفیں اس خدائے وحدہ لا شریک سے مخصوص ہیں جو عالمین کا پالنے والا ہے اور بے شمار درود و سلام ہو اس کی بھترین مخلوق حضرت محمد اور ان کی پاکیزہ آل پر جنھوں نے بشریت کی تعلیم تربیت اور راھنمائی کے لئے فرش زمین پر قدم رکھ کر پیغام الٰھی کو پھونچایا اور انسانوں کو ہر طرح کی پستی سے نکال کر معراج عبودیت تک پھونچایا۔

واقعۂ سقیفہ: تاریخ اسلام کا وہ عظیم سانحہ ہے جس نے دین اسلام کو تہتر فرقوں میں تقسیم کر کے امت محمدیہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داغدار بنا دیا، سقیفہ کے موضوع پر کل بھی کتابیں لکھی گئی تھیں اور آج بھی لکھی جارہی ہیں اور آئندہ بھی محققین اپنے قلم کا کرشمہ دکھاتے رہیں گے مگر اس کتاب میں جس انداز اور جن پہلوؤں سے بحث کی گئی ہے وہ قابل قدر ہیں اور اس کے مصنف لائق تحسین اور قابل مبارک باد ہیں۔

حقیر نے اس کتاب کو مجمع جہانی اہل البیتعليه‌السلام کی فرمائش پر اردو زبان حضرات کے لئے نہایت دقت کے ساتھ اردو کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے، پھر بھی اگر ترجمے میں کوئی نقص نظر آئے تو برائے مہربانی حقیر کو مطلع فرمائیں تاکہ اس کی اصلاح ہوسکے۔

خالق لوح و قلم کی بارگاہ میں اہل بیتعليه‌السلام طاھرین کے وسیلے سے دعاگو ہوں کہ پروردگارا! اس ناچیز کوشش کو بطفیل قائم آل محمد (عج) شرف قبولیت عطا فرما، کتاب کے مصنف اور ناشر کو مزید خدمت دین کی توفیق عطافرما۔ آمین

آخر میں اپنے تمام دوستوں کا شکر گذار ہوں جنہوں نے اس کام میں میری مدد فرمائی ہے خصوصاً برادر عزیز حجة الاسلام مولانا سید حسین اختر رضوی اعظمی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس ترجمہ میں میری راھنمائی فرمائی ہے۔ انہ ولی التوفیق

سید نسیم حیدر زیدی۔ قم المقدسہ ۳ صفر ۱۴۲۶ ہجری

پیش لفظ

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے فوراً بعد پیش آنے والا ایک عظیم سانحہ "واقعۂ سقیفہ" ہے جو آپ کی وفات کے بعد رونما ہونے والے بہت سے حوادث و نظریات کا پیش خیمہ ہے جس طرح اس واقعہ کے ابتدائی مرحلہ ہی میں اس کے طرفدار اور مخالفین موجود تھے، اُسی طرح آج بھی مسلمانوں کے درمیان فرقہ بندی کا اہم سبب واقعہ سقیفہ ہی ہے۔

لھٰذا ممکن ہے کہ اس سلسلے میں علمی اور استدلالی بحث، طالب حق انسان کے لئے رہنما ثابت ہو۔

"سقیفہ" لغت میں چھت دار چبوترہ کو کہتے ہیں یہ مدینہ کے ایک گوشہ میں ایک امکان تھا جس کی بڑی چھت تھی اور یہ مکان بنو ساعدہ بن کعب خزرجی کا تھا اسی وجہ سے سقیفہ بنی ساعدہ کے نام سے مشھور تھا۔ انصار اس مکان میں جو ایک مجلس مشاورت کی حیثیت رکھتا تھا اپنے فیصلوں کے لئے جمع ہوئے تھے(۱)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد انصار کا ایک گروہ جس میں اوس و خزرج(۲) دونوں ہی شامل تھے یہاں جمع ہوئے تاکہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلافت کے سلسلے میں کوئی چارہ جوئی کریں(۳) ۔

انصار کیوں اور کس مقصد کے تحت وھاں جمع ہوئے؟ کیا تقریریں ہوئیں اور ان کا نتیجہ کیا نکلا؟ یہ تمام موضوعات ایسے ہیں جن کے بارے میں اس کتاب میں تفصیلی بحث کی گئی ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ یہ واقعہ ایک اچھی خاصی اہمیت کا حامل تھا اور ہے اور بہت سے مورخین کی توجہ کا مرکز بنا رہا اس کے باوجود محدثین نے اس اہم واقعہ کے فقط چند پہلوؤں کے بیان پر ہی اکتفا کی ہے لیکن ابو مخنف ان راویوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس واقعہ کی باریکیوں کو تفصیل سے بیان کیا بلکہ سقیفہ کے موضوع پر ایک پوری کتاب بھی لکھی ۳ لیکن ہمارے پاس اس کتاب کا فقط وہ حصہ موجود ہے جو تاریخ طبری میں نقل ہوا ہے۔

اس کتاب میں ہماری کوشش ہے کہ ابو مخنف (جو تاریخ اسلام کے ایک عظیم اور باریک بین محدث ہیں) کے تعارف کے ساتھ ساتھ واقعۂ سقیفہ کے بارے میں ان کی اہم روایت پر محققانہ اور منصفانہ نظر کی جائے نیز معتبر تاریخی کتابوں سے متن روایت کو پیش کریں اور حاشیہ پر مآخذ و منابع کا ذکر کرتے ہوئے دوران بحث ہر قسم کی جانبداری اور بے بنیاد باتوں سے پرہیز کریں۔

مصنف نے اپنی کم علمی کے باوجود بے حد کوشش کی ہے کہ واقعہ سقیفہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معتبر کتابوں کا سہارا لیا جائے، اور ہر مسئلہ میں طرفین کے نظریہ اور تنقید کو بیان کرتے ہوئے ایک خاص نظر پیش کی جاتی۔

امید ہے کہ اس کتاب کے اسلوب تحریر سے تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا، جسے "اجتہادی تاریخ" کے نام سے یاد کیا جاسکتا ہے۔

آخر میں خدا کے شکر کے بعد تمام ان افراد کی قدر دانی کو ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے میری تعلیم و تربیت میں مؤثر کردار ادا کیا بالخصوص اپنے محترم والدین، بھائی، اساتذہ نیز جناب ڈاکٹر صادق آئینہ وند اور حجة الاسلام والمسلمین رسول جعفریان کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس کتاب کی تخلیق میں میری رہنمائی فرمائی۔

جلیل تاری۔ ۱۴۲۳ ہجری

____________________

۱. صاحب حسن اللغات کے مطابق سقیفہ ایک ایسا خفیہ مکان تھا جہاں عرب باطل مشوروں اور بے ہودہ باتوں کے لئے جمع ہوتے تھے (مترجم)

۲. مدینہ کے دو بڑے قبیلوں کے نام ہیں۔ (مترجم)

۳. رجال نجاشی: ص۳۰۲

پہلا حصہ: تمہیدات

ابو مخنف کا تعارف

کیونکہ ہم سقیفہ سے متعلق ابو مخنف کی روایت کے بارے میں گفتگو کریں گے لھٰذا ضروری ہے کہ سب سے پہلے ان سوالات کا مختصر جواب دے دیا جائے جن کا قارئین کے ذہن میں ابھرنے کا امکان ہے، مثال کے طور پر ابو مخنف کون تھے؟ کس دور میں تھے؟ شیعہ اور سنی علماء ان کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں ان کا مذہب کیا تھا؟ کتاب کا یہ حصہ انہیں سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے۔

ابو مخنف کون تھے؟

ابو مخنف کا نام، لوط بن یحيٰ بن سعید بن مخنف(۵) بن سُلیم ازدی(۶) ہے ان کا اصلی وطن کوفہ ہے اور ان کا شمار دوسری صدی ہجری کے عظیم محدثین اور مورخین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد سے اموی حکومت کے آخری دور تک کے اہم حالات و واقعات پر کتابیں لکھیں، جیسے کتاب المغازی، کتاب السقیفہ، کتاب الردہ، کتاب فتوح الاسلام، کتاب فتوح العراق، کتاب فتوح خراسان، کتاب الشوريٰ، کتاب قتل عثمان، کتاب الجمل، کتاب صفین، کتاب مقتل أمیر المؤمنین کتاب مقتل الحسن (علیہ السلام) کتاب مقتل الحسین (علیہ السلام) و ۔ ۔ ۔

جو مجموعی طور پر اٹھائیس کتابیں ہیں اور ان کی تفصیل علم رجال کی کتابوں میں موجود ہے(۷) ۔ لیکن ان میں سے اکثر کتابیں ہماری دسترس میں نہیں ہیں البتہ ان کتابوں کے کچھ مطالب ان کے بعد لکھی جانے والی کتابوں میں روایت ابی مخنف کے عنوان سے موجود ہیں مثلاً تاریخ طبری(۸) میں ابو مخنف سے مجموعی طور پر پانچ سو سے زیادہ روایتیں موضوعات پر نقل ہوئی ہیں اور ان نقل شدہ روایات میں سے اکثر کا تعلق کہ جو تقریباً ایک سو چھبیس روایتیں ہیں حضرت علی علیہ السلام کے دوران حکومت کے حالات و واقعات سے ہے۔ ایک سو اٹھارہ روایتیں واقعۂ کربلا اور ایک سو چوبیس روایتیں حضرت مختار کے قیام کے بارے میں ہیں۔

صدر اسلام میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں ابو مخنف کی روایات اس قدر دقیق، مفصّل اور مکمل جزئیات کے ساتھ ہیں جو ہر قسم کے تعصب سے دور ہونے کے علاوہ ہر واقعہ کے پہلوؤں کی طرف قارئین کی رہنمائی کرتی ہیں یہاں تک کہ اس کے بعد لکھی جانے والی شیعہ اور سنی تاریخی کتابوں نے ان کی روایات سے کافی استفادہ کیا ہے اور روایت کے ذکر کے ساتھ ساتھ اس پر مکمل اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے۔

ابو مخنف کا دور

اگر چہ ان کی تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے لیکن ان کی تاریخ وفات عام طور سے سن ۱۵۷ ہجری قمری نقل کی گئی ہے ان کی تاریخ ولادت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے بعض علماء رجال غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں۔ بعض نے انہیں امام علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام، اور امام حسین علیہ السلام کا صحابی کہا ہے، جب کہ بعض علماء نے انہیں امام جعفر صادق علیہ السلام کا صحابی جانا ہے، جیسا کہ شیخ طوسی علیہ الرحمہ(۹) نے "کشّی" سے نقل کیا ہے کہ ابو مخنف امام علی علیہ السلام امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہیں۔ لیکن ان کا خود یہ نظریہ نہیں ہے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ ابو مخنف کے والد "یحیيٰ" امام علی علیہ السلام کے صحابی تھے جب کہ خود ابو مخنف (لوط) نے آپ کا زمانہ نہیں دیکھا ہے۔

شیخ نجاشی کا کہنا ہے کہ ابو مخنف امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہیں(۱۰) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے بھی روایت نقل کی ہے۔ مگر یہ قول صحیح نہیں ہے شیخ نجاشی کے قول کے مطابق ابو مخنف صرف امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے تھے اور آپ کے اصحاب میں سے تھے اور انہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے کوئی روایت نقل نہیں کی چہ جائیکہ وہ امام علی علیہ السلام سے روایت نقل کرتے۔ تمام شواھد و قرائن شیخ نجاشی کے قول کی تصدیق کرتے ہیں اس لئے کہ

۱۔ تاریخ طبری میں ابو مخنف کی جو روایت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے وہ بغیر کسی واسطہ کے ہے جب کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے ان کی روایت ایک واسطہ کے ساتھ نقل ہوئی ہے(۱۱) ۔

۲۔ حضرت امام علی علیہ السلام کے خطبات اور حضرت فاطمہ زھرا (س) کے خطبہ سے متعلق ابو مخنف کی روایت دو واسطوں کے ذریعہ نقل ہوئی ہے(۱۲) ۔

۳۔ اگر ابو مخنف کی تاریخ وفات کو ملحوظ نظر رکھا جائے جو ۱۵۷ہجری ہے اور یہ کہا جائے کہ انہوں نے امام علی علیہ السلام کا زمانہ بھی دیکھا ہے (یعنی کم از کم وہ اس دور میں شعور رکھتے تھے) تو ایسی صورت میں وفات کے وقت ان کی عمر تقریباً ایک سو تیس سال ہوجائے گی(۱۳) جب کہ کسی راوی نے بھی اس قسم کی بات کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔

یہ تمام قرائن شیخ نجاشی کے قول کے صحیح ہونے کی دلیل ہیں کہ وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے اور آپ ہی سے روایت کرتے تھے۔

لیکن کتاب "الکافی"(۱۴) میں ابو مخنف کی ایک روایت بغیر کسی واسطہ کے حضرت امام علی علیہ السلام کے دور حکومت سے متعلق نقل ہوئی ہے۔ اس حدیث میں ان کا بیان ہے کہ شیعوں کا ایک گروہ امیر المومنین علیہ السلام کے پاس آیا۔ ۔ ۔ لیکن یہ حدیث ھرگز یہ ثابت نہیں کرتی کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے دور میں تھے۔ اس لئے کہ ممکن ہے یہ حدیث "مرسلہ"(۱۵) ہو جو بات یقینی ہے وہ یہ کہ ابو مخنف کے پر دادا "مخنف بن سلیم" رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے(۱۶) اور آپ کی طرف سے شہر اصفہان کے گورنر مقرر ہوئے(۱۷) اور جنگ جمل کے دوران حضرت علی علیہ السلام کی فوج میں قبیلہ ازد کے دستہ کی سالاری کے فرائض انجام دیتے ہوئے اس جنگ میں شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے۔

سوانح حیات سے متعلق اکثر کتابوں کے مطابق ان کی شہادت جنگ جمل میں ہوئی مثلاً "الکنی والالقاب" شیخ عباس قمی "الذریعہ" آقا بزرگ تہرانی، "اعلام" زرکلی اور اسی طرح "تاریخ طبری"(۱۸) میں ابو مخنف کی روایت اسی چیز پر دلالت کرتی ہے، لیکن اسی تاریخ طبری(۱۹) میں مخنف بن سلیم کی ایک روایت واقعہ صفین سے متعلق نقل ہوئی ہے جو اس بات سے تناسب نہیں رکھتی کہ وہ جنگ جمل میں شہید ہوئے تھے۔

اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب "رجال" اور "فہرست"(۲۰) میں ابو مخنف کے والد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ آپ حضرت علی علیہ السلام کے صحابی تھے جب کہ جو چیز مسلم ہے وہ یہ کہ ابو مخنف کے والد یحیيٰ حضرت علی علیہ السلام کے صحابی نہ تھے بلکہ آپ کے پردادا حضرت کے اصحاب میں سے تھے لھٰذا یہ بات قابل توجہ ہے کہ مخنف بن سلیم، ابو مخنف کے نہ والد ہیں اور نہ دادا جیسا کہ بعض افراد ان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں اور انہیں ابو مخنف کا دادا کہا ہے(۲۱) جب کہ وہ ابو مخنف کے پردادا ہیں۔

ابو مخنف شیعہ اور سنی علماء کی نظر میں

اہل تشیع کی علم رجال سے متعلق کتابوں سے یہ بات روشن ہے کہ ابو مخنف ایک قابل اعتماد شخص تھے، شیخ نجاشی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ابو مخنف کوفہ کے بزرگ راویوں کے شیوخ (اساتذہ) میں سے ہیں ان کی روایت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے(۲۲) شیخ طوسی(۲۳) نے اپنی علم رجال کی کتاب میں انہیں امام جعفر صادق علیہ السلام کا صحابی کہا ہے شیخ عباس قمی نجاشی جیسی عبارت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ابو مخنف عظیم شیعہ مورخین میں سے ایک ہیں نیز آپ فرماتے ہیں کہ ابو مخنف کے شیعہ مشھور ہونے کے باوجود طبری، اور ابن اثیر(۲۴) ، جیسے علماء اہل سنت نے ان پر اعتماد کیا ہے، آقا بزرگ تہرانی نجاشی کی چند عبارتیں نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں "ان کے شیعہ مشہور ہونے کے باوجود علمائے اہل سنت جیسے طبری اور ابن اثیر نے ان پر اعتماد کیا ہے بلکہ ابن جریر کی کتاب تاریخ الکبیر(۲۵) تو ابو مخنف کی روایات سے پُر ہے۔ آیة اللہ خوئی نے بھی انہیں ثقہ کہا ہے اور شیخ طوسی (رح) سے ابو مخنف تک جو سند ہے اسے آپ نے صحیح جانا ہے(۲۶) ۔

لیکن بعض علماء اہل سنت نے ان کے شیعہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے ان کی روایت کو متروک قرار دیا ہے اور بعض افراد نے ان کے شیعہ ہونے کا ذکر کئے بغیر ان کی روایت کو ضعیف کہا ہے جیسا کہ یحیيٰ بن معین کا کہنا ہے "ابو مخنف لیس بشئ(۲۷) یعنی ابو مخنف قابل اعتماد نہیں ہیں) اور ابن ابی حاتم نے یحیی بن معین کا قول نقل کیا ہے کہ وہ ثقہ نہیں ہیں(۲۸) اور دوسروں سے بھی اس بات کو نقل کیا ہے کہ وہ "متروک الحدیث" ہیں(۲۹) ۔

ابن عدی یحیيٰ بن معین کا قول نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ گذشتہ علماء بھی اسی بات کے قائل ہیں، (یوافقہ علیہ الائمہ) اس کے بعد وہ کہتا ہے کہ ابو مخنف ایک افراطی قسم کے شیعہ ہیں، ان کی احادیث کی سند نہیں ہے ان کی احادیث کی سند نہیں ہے ان سے ایسی ناپسندیدہ اور مکروہ روایات نقل ہوئی ہیں جو نقل کرنے کے لائق نہیں(۳۰) ۔

ذھبی کا کہنا ہے کہ وہ متروک ہیں(۳۱) اور دوسری جگہ پر کہا ہے کہ ابو مخنف نے مجھول افراد سے روایت نقل کی ہے(۳۲) دار قُطنی کا قول ہے کہ ابو مخنف ایک ضعیف اخباری ہیں(۳۳) ابن حجر عسقلانی کا کہنا ہے کہ ان پر اطمینان نہیں کیا جاسکتا ہے پھر بعض علماء کا قول نقل کرتا ہے کہ ابو مخنف قابل اعتماد اور مورد اطمینان نہیں ہیں(۳۴) ۔

لیکن ابن ندیم کا ان کے بارے میں کہنا ہے کہ میں نے احمد بن حارث خزار کے ھاتھ سے لکھی ہوئی تحریر میں دیکھا ہے کہ علماء کا کہنا ہے، کہ ابو مخنف کی عراق اور اس کی فتوحات سے متعلق روایات سب سے زیادہ اور سب سے بہتر ہیں، جس طرح سے خراسان، ھندوستان اور فارس کے بارے میں مدائنی، حجاز و سیرت کے بارے میں واقدی، اور شام کی فتوحات کے بارے میں ان تینوں کی معلومات یکساں ہیں(۳۵) یہ عبارت یاقوت حموی نے بھی اپنی کتاب "معجم الادباء" میں ذکر کی ہے،(۳۶) مجموعی طور پر اکثر علماء اہل سنت نے یحیيٰ بن معین کے قول کا سہارا لے کر ابو مخنف کو غیر ثقہ قرار دیا ہے۔

البتہ ابو مخنف کے بارے میں ابن ندیم اور حموی نے جس حقیقت کا اظھار کیا ہے اس کی وجہ سے ان کے قول کے متروک ہونے کے باوجود اہل سنت کے برجستہ علماء نے ان سے روایات نقل کی ہیں اور شاید عراق کے وہ حالات و واقعات جو تاریخ اسلام کے عظیم تحولات کا سبب ہیں ان تک ابو مخنف کی روایات کے بغیر دسترسی ناممکن ہے، لھٰذا علماء اہل سنت کے نظریات کے سلسلے میں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ شاید ان کے نزدیک ابو مخنف کے متروک ہونے کی وجہ وھی ہو جو ابن عدی نے اپنے کلام کے آخر میں کہی ہے اور وہ یہ کہ ابو مخنف کی روایات میں ایسے واقعات کا ذکر ہے کہ جو بعض افراد پر گراں گزرتے ہیں کیونکہ وہ واقعات ان کے مفروضہ عقائد اور نظریات سے مطابقت نہیں رکھتے۔

ابو مِخنف کا مذھب

ابو مخنف کے مذھب کے بارے میں اقوال ہیں:

شیخ طوسی کا اپنی کتاب "فہرست" میں اور نجاشی کا اپنی کتاب "رجال" میں ان کے مذھب کے بارے میں کوئی رائے پیش نہ کرنا ان کے شیعہ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ شیخ عباس قمی اور آقا بزرگ تہرانی نے واضح طور پر ان کے شیعہ ہونے کو بیان کیا ہے بلکہ یہاں تک کہا ہے کہ ان کا شیعہ ہونا مشھور ہے لیکن آقا خوئی نے اپنی کتاب "معجم رجال الحدیث" میں ان کے شیعہ یا غیر شیعہ ہونے کو بیان کئے بغیر انہیں ثقہ کہا ہے۔

اکثر علماء اہل سنت نے ان کے شیعہ ہونے کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا یہاں تک کہ ابن قتیبہ اور ابن ندیم نے شیعہ افراد کے لئے ایک الگ باب تحریر کیا ہے لیکن ابو مخنف کے نام کا وھاں ذکر نہ ہونا ان کے غیر شیعہ ہونے کو ظاھر کرتا ہے(۳۷) علماء اہل سنت میں سے ابن ابی الحدید وہ ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ ابو مخنف کا شمار محدثین میں ہوتا ہے اور وہ امامت پر اعتقاد رکھتے تھے۔ لیکن ان کا شمار شیعہ راویوں میں نہیں ہوتا(۳۸) صاحب قاموس الرجال اقوال پر تنقید کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ابو مخنف کی روایت ان کے متعصب نہ ہونے کی وجہ سے قابل اعتماد ہے لیکن ان کے شیعہ ہونے کے بارے میں کوئی رائے پیش نہیں کی جاسکتی(۳۹) ۔

لھٰذا ان کے مذھب کے بارے میں بحث کرنے کا کوئی خاص عملی فائدہ نہیں ہے لیکن اگر ابو مخنف کی روایات پر غور و فکر کیا جائے جو اکثر سقیفہ، شوريٰ، جنگ جمل، جنگ صفین، مقتل امام حسین علیہ السلام سے متعلق ہیں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ وہ شیعی افکار کے مالک تھے، البتہ ممکن ہے کہ ان کی روایات میں بعض مطالب ایسے پائے جاتے ہوں جو کامل طور پر شیعہ عقیدہ کے ساتھ مطابقت نہ رکھتے ہوں لیکن ہمیں چاھیے کہ ہم ابو مخنف کے دور زندگی کو بھی پیش نظر رکھیں کیونکہ بعض اوقات ائمہ معصومین علیہم السلام بھی تقیہ کی وجہ سے ایسے مطالب بیان کرتے تھے جو اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق ہوا کرتے تھے اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وہ ایک معتدل شخص تھے جس کی وجہ سے اہل سنت کی اکثر کتابوں میں ان کی روایات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

بہر حال تاریخ ابو مخنف کی عظمت غیر قابل انکار ہے اور شیعہ و سنی تمام مورخین نے ان سے کافی استفادہ کیا ہے اور چونکہ تمام شیعہ علماء نے انہیں ثقہ جانا ہے اور ان کی روایت پر اعتماد کا اظھار کیا ہے لھٰذا ان کی روایات کے مضامین پر غور و فکر کرنے سے صدر اسلام کے بہت سے اہم حالات و واقعات کی صحیح نشاندھی کی جاسکتی ہے۔

____________________

۵. مخنف، منبر کے وزن پر ہے۔

۶. الفہرست۔ ابن ندیم، ص ۱۰۵

۸. بعض افراد نے تاریخ طبری میں ابو مخنف کی روایات کی تعداد پانچ سو پچاسی کہی ہے جب کہ تحقیق کے بعد مصنف کا کہنا یہ ہے کہ ان کی تعداد پانچ سو باسٹھ ہے ممکن ہے کہ بعض روایات کے چند حصے الگ الگ جگہ نقل ہوگئے ہوں۔

۹. رجال طوسی۔ ص۸۱، الفہرست شیخ طوسی۔ ص۱۲۹

۱۰. رجال نجاشی۔ ص۳۲۰

۱۳. اس بات کے پیش نظر کہ حضرت علی (ع.کی تاریخ شہادت سن چالیس ہجری قمری ہے۔

۱۴. الکافی۔ ج۲ ص۳۱۔

۱۵. مرسلہ ایسی روایت کو کہتے ہیں جس میں راوی ایک یا چند واسطوں کو حذف کرنے کے بعد معصوم سے روایت نقل کرتا ہے (مترجم)

۱۶. الطبقات الکبريٰ: ج۶ ص۳۵، الفہرست ابن ندیم: ج۱۰۵، ۱۰۶

۱۷. ذکر اخبار اصفہان: ترجمہ دکتر کسائی، ص۱۸۹

۱۸. تاریخ طبری۔ ج۴ ص۵۲۱

۱۹. تاریخ طبری۔ ج۴ ص۵۷۰

۲۰. رجال طوسی۔ ص۸۱، فہرست، ص۱۲۹

۲۱. الکنی والالقاب۔ ج۱ ص۵۵، الذریعہ۔ ج۱ ص۳۱۲۔

۲۲. رجال نجاشی : ص۳۲۰۔ (ابو مخنف شیخ اصحاب الاخبار بالکوفہ وجھہم وکان یسکن الی ما یرویہ)

۲۳. رجال طوسی۔ ص۲۷۵

۲۴. الکنی والالقاب۔ ص۱۵۵

۲۵. الذریعہ۔ ج۱ ص۳۱۲

۲۷. تاریخ یحیيٰ بن معین ج۱ ص۲۱۰

۲۸. قابل اعتماد۔ (مترجم)

۳۱. دیوان الضعفاء والمتروکین: ج۲ ص۲۶۵

۳۲. سیر اعلام النبلاء۔ ج۷ص۳۰۱

۳۳. الضعفاء والمتروکین: ص۳۳۳

۳۵. الفہرست: ابن ندیم۔ ص۱۰۵، ۱۰۶

۳۶. معجم الادباء: ج۵ ص۲۲۵۲۔

۳۷. نقل از قاموس الرجال تستری۔ ج۸ ص۶۲۰

۳۸. شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۱ ص۱۴۷ (ابو مخنف من المحدثین وممن یری صحة الامامة بالاختیار ولیس من الشیعه ولا معدوداً من رجالها )