سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)0%

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں) مؤلف:
زمرہ جات: امامت

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

مؤلف: تارى، جليل
زمرہ جات:

مشاہدے: 11580
ڈاؤنلوڈ: 3745

تبصرے:

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 20 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11580 / ڈاؤنلوڈ: 3745
سائز سائز سائز
سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

مؤلف:
اردو

اول: عام شواھد

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واقعہ غدیر کے بعد اکثر حضرت علیعليه‌السلام کی جانشینی اور آپ کے فضائل کا تذکرہ کرتے رہتے تھے اور ہمیشہ اہل بیتعليه‌السلام کے سلسلے میں وصیت فرماتے تھے اور مسلسل لوگوں کو اپنے چلے جانے کے بعد خطرات سے آگاہ کر کے اتمام حجت کررہے تھے اور اس کی روشن مثال وہ حدیث ہے جو اکثر شیعہ اور سنی احادیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ارشاد فرمایا: (أقبلت الفتن کقطع اللیل المظلم )(۱۰۴) یعنی فتنے پے درپے اور مسلسل تاریک راتوں کی طرح آئیں گے اکثر روایات کے الفاظ یھی ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس جملے کی تکرار اس رات زیادہ کر رہے تھے کہ جب آپ اہل بقیع کے لئے استغفار کرنے گئے ہوئے تھے آخر اسلامی معاشرے میں ایسا کونسا حادثہ رونما ہوا تھا اور کس قسم کے حالات پیش آنے والے تھے جو اس قدر دلسوز کلمات پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے جاری ہوئے تھے اور وہ بھی زندگی کے آخری دنوں میں اور ان تمام تر زحمتوں اور مشقتوں کے بعد جو خداوند متعال کے قوانین کے مطابق اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے برداشت کیں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے یہ جملے سننے کے بعد ایک با ایمان مسلمان کا دل غم و اندوہ سے پر ہوجاتا ہے اور وہ آہ سرد کھینچتا ہے آخر ایسا کیوں نہ ہوا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انتھک محنت کے بعد کم از کم اطمینان اور آرام و سکون کے ساتھ اس امت سے رخصت ہوکر اپنے پروردگار عالم کی طرف رحلت کر جاتے۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس قسم کے بیانات در حقیقت ان سازشوں کی طرف اشارہ تھے کہ جو بعض لوگ مخفی طور پر اسلام کو اس کے اصل محور سے ھٹانے کے سلسلے میں کوشاں تھے گویا آپ آئندہ اٹھنے والے فتنوں کی پیشین گوئی کر رہے تھے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ فتنہ گر کون تھے اور ان کے مقاصد کیا تھے؟ یہاں ہماری یھی کوشش ہوگی کہ تاریخی حوالوں کے ذریعہ ان فتنہ گروں کی نشاندھی کردیں۔

دوم: بنی امیہ اور ان کے ہم خیال افراد کی سازشیں

بنی امیہ ہمیشہ اپنے آپ کو حکومت کا زیادہ حقدار سمجھتے تھے اور ہمیشہ اس سلسلے میں بنی ھاشم سے نزاع کرتے رہتے تھے اسی وجہ سے اعلان بعثت کے بعد شدت سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت کر رہے تھے یہاں تک پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف سازشیں کر کے لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف جنگ کے لئے آمادہ کیا لیکن اس کا نتیجہ ذلت و خواری کے ساتھ شکست اور مجبور ہوکر اسلام قبول کرنے کے علاوہ اور کچھ نہ ہوا مگر حکومت کا نشہ ان کے اندر پھر بھی اپنی جگہ باقی رہا۔

یہ لوگ اچھی طرح جانتے تھے کہ جب تک پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندہ ہیں ان کی تمنائیں اور آرزوئیں پوری نہیں ہوسکتیں لھٰذا وہ لوگ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انتقال کے منتظر تھے لیکن کیوں کہ یہ لوگ مسلمانوں کے درمیان کوئی حیثیت نہ رکھتے تھے لھٰذا یہ جانتے تھے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد حکومت کو ھاتھ میں نہیں لیا جاسکتا ایسے میں ضرورت تھی کی وہ حکومت کو حاصل کرنے کے لئے ایک طویل پلان ترتیب دیں اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ کام انھوں نے کیا یہ بات صرف ایک دعويٰ نہیں بلکہ بھت سے شواھد اس بات پر دلالت کرتے ہیں جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔

دینوری(۱۰۵) اور جوھری(۱۰۶) کا کھنا ہے کہ جب بعض افراد نے سقیفہ میں ابوبکر کی بیعت کی تو بنی امیہ عثمان بن عفّان کے گرد جمع ہوکر ان کی خلافت پر اتفاق نظر رکھتے تھے(۱۰۷) ، یہ چیز خود اس بات کی شاھد ہے کہ بنی امیہ حکومت حاصل کرنا چاھتے تھے اور اس منصب کے لئے عثمان کو پیش کیا جو بنی امیہ کے درمیان تقریباً ایک معتدل شخص تھے اور دوسرے افراد کی طرح سابقہ بد کرداری سے بر خوردار نہ تھے۔ اس لئے کہ انھیں کو اس وقت اس امر کے لئے بھترین فرد سمجھتے تھے، اگر چہ ہماری نظر میں یہ اجتماع اس وقت کسی خاص حقیقت پر مبنی نہ تھا بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ فقط ایک سیاسی کھیل تھا تاکہ آئندہ کے لئے میدان کو ہموار کیا جائے جس کا شاھد یہ ہے کہ جب عمر نے دیکھا کہ بنی امیہ عثمان کے گرد جمع ہوگئے ہیں تو کہا کہ آخر تم لوگوں نے ایسا کیوں کیا؟ آؤ اور ابوبکر کی بیعت کرو تو اس مجمع میں سب سے پھلے عثمان اور پھر تمام بنی امیہ نے ابوبکر کی بیعت کی(۱۰۸) ۔

جوھری سے روایت ہے کہ جب عثمان کی بیعت ہوئی تو ابوسفیان نے کہا کہ پھلے حکومت قبیلہ تیم کے پاس چلی گئی جب کہ ان کا حکومت سے کیا تعلق؟ اور پھر قبیلہ عدی میں جاکر اپنے مرکز و محور سے دور ہوگئی اور اب یہ اپنی صحیح جگہ واپس آئی ہے لھٰذا اسے مضبوطی سے تھامے رکھو،(۱۰۹) یہ روایت اس قدر گویا ہے کہ جس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے، البتہ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا تھا تو آخر ابوسفیان نے شروع ہی میں ابوبکر کی بیعت کیوں نہ کی؟ اور حضرت علی علیہ السلام کے پاس جا کر کہا کہ اگر آپ چاھیں تو ابوبکر کے خلاف مدینہ کو لشکروں سے بھر دوں(۱۱۰) ۔

اس سوال کا جواب بعض افراد نے اسے قبیلہ پرستی کے تعصب کہہ کردیا ہے اور کہا ہے کہ ابوسفیان نے قبیلہ پرستی کے تعصب کی بنا پر یہ کام کیا تھا،(۱۱۱) جیسا کہ پھلی نظر میں اس قسم کا ہی پیدا ہوتا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس امر کی علت کوئی دوسری چیز تھی اور وہ یہ کہ ابوسفیان بنی امیہ کے نھایت چالاک اور ہوشیار لوگوں میں سے ایک تھا لھٰذا یہ بات یقین سے کھی جاسکتی ہے کہ وہ اس کے پیچھے کوئی خاص اور بلند مقاصد رکھتا تھا۔

ممکن ہے کہ اس کام سے اس کا مقصد ایک ساتھ کئی چیزیں حاصل کرنا ہو، ایک یہ کہ ابوبکر کی بیعت کی مخالفت کرکے ان کی طرف سے کچھ امتیازات چاھتا تھا اور اگر وہ حضرت علیعليه‌السلام کو ابوبکر کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا تو اس جنگ کے فاتح بنو امیہ اور ابوسفیان ہوتے اس لئے کہ اس کا مقصد ان دونوں گروھوں کو لڑا کر کمزور کرنا اور بنی امیہ کی پوزیشن کو مستحکم کرنا تھا یا کم از کم وہ ابوبکر کو مجبور کر رہا تھا کہ وہ ان کی بیعت اس صورت میں کرے گا جب کہ وہ اس کے لئے کسی امتیاز کے قائل ہوں اور در حقیقت وہ اس امر میں کامیاب بھی ہوا اور اس طرح اس نے کافی مالی فائدہ بھی اٹھایا جیسا روایت کے بقول ابوسفیان جب زکات وصول کر واپس پلٹا تو ابوبکر نے عمر کے کھنے سے جتنی جمع شدہ زکوٰة تھی سب کی سب ابوسفیان کی فتنہ گری کو روکنے کے لئے اسے بخش دی اور اس طرح وہ بھی اس پر راضی ہوگیا(۱۱۲) اس کے علاوہ اس چیز میں بھی اسے کامیابی حاصل ہوئی کہ حکومت میں کوئی عھدہ اپنے بیٹے معاویہ کے لئے مخصوص کرسکے(۱۱۳) ،اس وضاحت کے بعد اس چیز کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے ابوسفیان کی پیش کش کو ٹھکرا کر اسے اپنے سے کیوں دور کیا اور فرمایا: خدا کی قسم تو اس بات سے فقط فتنہ پروری چاھتا ہے تو ہمیشہ اسلام کا دشمن رہا ہے مجھے تیری ہمدردی اور خیر خواھی کی ضرورت نہیں ہے!(۱۱۴) حضرت علیعليه‌السلام کے خطبات سے اس بات کو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ ابوسفیان کا اصل مقصد شر اور فساد پھیلانا تھا اور قبیلہ پرستی تعصب جیسا کوئی مسئلہ نہ تھا۔

اس واقعہ سے متعلق اکثر روایات سے یہ چیز سمجھ میں آتی ہے کہ بنی امیہ میں فقط ابوسفیان، ابوبکر کی بیعت کا مخالف تھا جیسا کہ جب وہ مسجد میں بنی امیہ کے اجتماع کے درمیان گیا اور انھیں ابوبکر کے خلاف قیام کی دعوت دی تو کسی نے بھی اس کا مثبت جواب نہ دیا،(۱۱۵) اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ یہ مخالفت اور قیام کی دعوت محض ایک دکھاوا تھا اس لئے کہ بنی امیہ کے درمیان ابوسفیان کی حیثیت اور لیڈری غیر قابل انکار چیز ہے اور یہ ھرگز ممکن نہ تھا کہ بنی امیہ ابوسفیان کے قول پر کان نہ دھریں اور اسے منفی جواب دیدیں۔ اس چیز کو حضرت علی علیہ السلام کے ابوسفیان کی لشکر جمع کرنے والی گفتگو سے سمجھا جاسکتا ہے اس لئے کہ اس نے اس گفتگو میں بڑے اعتماد کے ساتھ مدینہ کو لشکروں سے بھر دینے کو کہا تھا(۱۱۶) اور حضرت علی علیہ السلام کے اس جواب سے بھی یہ چیز سمجھی جاسکتی ہے کہ ابوسفیان اس پیش کش میں کس حد تک سنجیدہ تھا۔

بنی امیہ اس چیز کو جانتے تھے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انتقال کے فوراً بعد ان کے لئے میدان اس قدر ہموار نہیں ہوگا کہ وہ حکومت اپنے ھاتھ میں لے لیں، لھٰذا اس فتنہ پروری سے ان کا مقصد اپنے لئے میدان ہموار کرنا اور حکومت کے حصول کے سلسلے میں پھلا قدم اٹھانا تھا وہ در حقیقت ابوبکر کی خلافت کو قریش سے بنی امیہ کی طرف خلافت کے منتقل ہونے کے لئے ایک اہم پل سمجھتے تھے اسی لئے اس سے موافق تھے اور اس کی مدد تک کرتے تھے اگر چہ تاریخی تحریفات کی وجہ سے ان کے تعاون کی فھرست بیان کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن بعض قرائن اس چیز کی نشاندھی کرتے ہیں اور جیسے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انتقال کے دن عمر، یقین کے ساتھ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال کا انکار کر رہے تھے اور جیسے ہی ابوبکر پھونچے تو عمر نے ابوبکر کی زبان سے قرآن کی آیت سن کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انتقال کا یقین کرلیا(۱۱۷) یہ بات واضح تھی کہ اس کام سے عمر کا مقصد فقط ابوبکر کے پھنچنے تک حالات کو قابو میں رکھنا تھا اور قابل غور بات تو یہ ہے کہ فقط عمر ہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انتقال کے منکر نہ تھے بلکہ عثمان بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا انتقال نہ ہونے کے دعویدار تھے اور کہہ رہے تھے کہ وہ مرے نہیں ہیں بلکہ عیسيٰ کی طرح آسمان پر چلے گئے ہیں(۱۱۸) یہ تمام چیزیں ان کی آپسی ساز باز اور اتفاق رائے کی نشاندھی کرتی ہیں۔

خلاصۂ کلام یہ کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد حکومت کو اپنے ھاتھوں میں لینے کی کوششیں اس زمانے کے آگاہ افراد سے ھرگز پوشیدہ نہ تھیں جیسا کہ انصار اس بات کو بخوبی جانتے تھے اسی لئے حباب بن منزر نے سقیفہ میں ابوبکر سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اظھار کیا تھا کہ ہمیں آپ لوگوں سے کوئی ڈر نہیں ہے لیکن ڈر اس بات کا ہے کہ کھیں ایسا نہ ہو کہ آپ لوگوں کے بعد وہ لوگ برسر اقتدار آجائیں کہ جن کے باپ دادا اور بھائیوں کو ہم نے اپنے ھاتھوں سے قتل کیا ہے(۱۱۹) اور یقیناً وہ لائق تحسین ہے کہ اس نے اچھی طرح حالات کا رخ دیکھ کر صحیح پیشن گوئی کی تھی، البتہ بنی امیہ کے علاوہ بنی زھرہ بھی حکومت حاصل کرنا چاھتے تھے اور وہ لوگ سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف پر اتفاق کئے ہوئے تھے(۱۲۰) ۔ اسی طرح کہ ایک روایت کے مطابق مغیرہ بن شعبہ وہ شخص تھا جس نے ابوبکر اور عمر کو سقیفہ میں جانے کے لئے ابھارا تھا(۱۲۱) ۔

سوم: حکومت حاصل کرنے کے لئے بعض مھاجرین کی کوششیں۔

ابوبکر، عمر اور ابوعبیدہ وہ نمایاں افراد تھے جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد حکومت کے حصول اور حضرت علیعليه‌السلام کو مسند خلافت سے ھٹا کر حالات پر قابو پانے میں سب سے زیادہ کوشاں دکھائی دیتے تھے جس کے بھت سے شواھد موجود ہیں مگر ہم یہاں فقط چند مثالوں پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔

۱۔ سقیفہ کے خطبہ میں عمر کا کھنا تھا کہ "واجتمع المهاجرون الی ابی بکر " یعنی مھاجرین ابوبکر کی خلافت پر متفق تھے، اس کے بعد ان کا کھنا تھا کہ میں نے ابوبکر سے کہا کہ آؤ انصار کے پاس چلتے ہیں جو سقیفہ میں جمع ہیں ان عبارات پر غور کرنے سے حکومت حاصل کرنے کی ان لوگوں کی کوششوں کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے اس لئے کہ اگر مھاجرین کا ابوبکر پر اتفاق اور ان کے لئے ان کی رضایت کو محض ایک دعويٰ نہ سمجھا جائے تو سب کی موافقت اور رضایت حاصل کرنے کے لئے کافی مذاکرات اور مسلسل رابطوں کی ضرورت ہے لھٰذا ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال کے فوراً بعد سب کے سب ابوبکر پر اتفاق رائے کرلیں اس لئے کہ سقیفہ سے پھلے ظاھراً کوئی جلسہ تشکیل نہیں پایا تھا کہ جس سے تمام مھاجرین کے نظریات کا پتہ چل جاتا کہ وہ کیا چاھتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ لوگ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے پھلے ہی ایک ایک مھاجر سے ملتے اور اسے اپنی طرف کر لیتے تھے۔

۲۔ تاریخ اور احادیث کی اکثر کتابوں میں یہ بات موجود ہے کہ مھاجرین میں سے یہ لوگ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے اس بات پر مامور تھے کہ اسامہ بن زید کی سرداری میں مدینہ سے باھر چلے جائیں ان روایات میں سے بعض نے تو ابوبکر، عمر اور ابوعبیدہ تک کے نام بھی لئے ہیں، جیسے وہ روایت کہ جو "صاحب الطبقات الکبرىٰ" نے ذکر کی ہے جس میں کہا گیا ہے۔ "فلم یبق احد من وجوه المهاجرین الاوّلین والانصار الّا انتدب فی تلک الغزوة و فیهم ابوبکر الصدیق و عمر بن الخطاب و ابوعبیدة الجراح وسعد بن ابی وقاص و "(۱۲۲) ۔ یعنی مھاجرین اور انصار کے بزرگوں میں سے ایک بھی باقی نہ بچا کہ جسے اس غزوہ میں جانے کو نہ کہا گیا ہو اور ان بزرگوں میں ابوبکر صدیق، عمر بن خطاب، ابوعبیدہ اور سعد بن ابی وقاص وغیرہ بھی شامل تھے۔

لیکن یہ لوگ بھانوں کے ذریعے اس لشکر کے ساتھ جانے میں ٹال مٹول کرتے رہے اور اس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نافرمانی کر رہے تھے(۱۲۳) ، اگر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اسامہ کے لشکر کے ساتھ جانے پر مسلسل تاکید اور ان لوگوں کی نافرمانی پر غور کیا جائے تو اس سے ان افراد کی نیتوں اور ان کی سازشوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

۳۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بیماری کی شدت کی وجہ سے بار بار بے ہوش ہورہے تھے ایسے میں نماز کا وقت آپھونچا،بلال نے اذان کھی لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیونکہ مسجد تک جانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے لھٰذا لوگوں سے کہا کہ نماز پڑھ لیں(۱۲۴) اور کسی بھی شخص کو امامت کے لئے معین نہ کیا اسلئے کہ شاید اب یہ لوگوں کی ذمہ داری تھی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتنی تاکیدات اور فرامین کے بعد دیکھیں کہ ہمیں کس کے پیچھے نماز پڑھنی ہے، جیسا کہ بلال سے نقل شدہ روایت بھی اسی چیز کی طرف اشارہ کرتی ہے، بلال کھتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مریض تھے اور جب آپ کو نماز کے لئے بلایا گیا تو آپ نے فرمایا:یا بلال لقد ابلغتُ فمن شاء فلیصلّ بالناس ومن شاء فلیدع "(۱۲۵) اے بلال میں نے اپنے پیغام کو لوگوں تک پھونچا دیا اب جو چاھے لوگوں کو نماز پڑھائے اور جو چاھے نماز نہ پڑھائے۔

یہ بات بھت ہی واضح تھی کہ ایسے میں امامت کے فرائض کون انجام دیے؟ لازمی سی بات ہے کہ حضرتعليه‌السلام ! اس لئے کہ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین اور خلیفہ تھے اس کے علاوہ یہ کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امر کے مطابق تو دوسرے تمام بزرگ انصار اور مھاجرین اس بات پر مامور تھے کہ وہ اسامہ بن زید کی سرداری میں مدینہ سے باھر چلے جائیں، لیکن تعجب کی بات ہے کہ اہل سنت کی اکثر کتابوں میں یہ بات ملتی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود ابوبکر کو حکم دیا تھا کہ وہ آپ کی جگہ نماز پڑھائیں(۱۲۶) ، یہ روایات خود ایک دوسرے سے تناقض رکھتی ہیں اس لئے کہ ان روایات میں ابوبکر نے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگہ نمازیں پڑھائی ان کی تعداد اور ان کی کیفیت میں اختلاف پایا جاتا ہے جیسا کہ بعض نے یہ کہا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابوبکر کی اقتداء میں نماز پڑھی(۱۲۷) جب کہ بعض کا کھنا ہے کہ ابوبکر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کو دیکھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور باقی تمام افراد ابوبکر کی اقتداء کر رہے تھے(۱۲۸) ، اس کے علاوہ بھی مختلف قسم کی روایات کتاب الطبقات الکبرىٰ کے اندر موجود ہیں(۱۲۹) کہ جن کا ایک دوسرے کے مخالف ہونا خود اس بات کے غلط ہونے کو ثابت کرتا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابوبکر کو نماز پڑھانے کے لئے کہا تھا۔

البتہ یہ بھی یہ ممکن ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعض ازواج نے خود اپنی طرف سے اس کام کو انجام دیا ہو اور اس کی نسبت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف دیدی ہو اس بات کی تائید اس سے ہوسکتی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک دن اپنی بیماری کے ایام میں فرمایا کہ حضرت علی علیہ السلام کو بلایا جائے لیکن جناب عائشہ نے ابوبکر کو بلا لیا اور حفصہ نے عمر کو اور جب وہ دونوں پیغمبر کے پاس آئے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے منہ پھیر لیا(۱۳۰) ۔ یہ روایت اگر چہ نماز کے بارے میں نہیں ہے لیکن اس کے ذریعہ بعض ازواج کی نافرمانی کو سمجھا جاسکتا ہے تو جب ایسے موقع پر کہ جھاں پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قول بالکل صریح ہو اور وہ اس کی نافرمانی کرسکتی ہیں تو یہاں پر بھی اپنی مرضی سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کسی قول کی نسبت دے سکتی ہیں؟؟؟ اس کے علاوہ بھت سی دلیلیں ہیں جو اس بات کی نشاندھی کرتی ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابوبکر اور عمر کو اس قسم کا کوئی حکم نہیں دیا تھا اس لئے کہ:

پھلے یہ کہ ابوبکر اس بات پر مامور تھے کہ وہ لشکر اسامہ کے ساتھ مدینہ سے باھر چلےجائیں اور اگر وہ اس امر کی اطاعت کرتے تو ایسی صورت میں انھیں اس وقت مدینہ سے باھر ہونا چاھیے تھا اور کوئی ایک روایت بھی نہیں ملتی کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابوبکر کو لشکر میں جانے سے مستثنيٰ کیا ہو بلکہ روایات کے بالکل واضح الفاظ ہیں کہ ابوبکر اور عمر کو لشکر اسامہ کے ساتھ جانے کو کہا تھا(۱۳۱) پھر کس طرح ممکن ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو اسامہ کے لشکر کے ساتھ بھیجنے پر مصر بھی ہوں اور یہ حکم بھی دیں کہ تم نماز پڑھاؤ؟!

دوسرے یہ کہ اہل سنت کی بعض روایات اس چیز کو بیان کرتی ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کا اصرار کر رہے تھے کہ ابوبکر نماز پڑھائیں لیکن جناب عائشہ کہہ رہی تھیں کہ ابوبکر کمزور دل کے مالک ہیں لیکن پیغمبر کے اصرار کی وجہ سے وہ چلے گئے اور نماز پڑھائی اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسی بیماری کی حالت میں کہ جس میں آپ چل کر مسجد تک نہیں آسکتے تھے دو آدمیوں کا سھارا لیکر مسجد تشریف لائے (غالباً وہ دو آدمی حضرت علی علیہ السلام اور فضل بن عباس تھے) ابوبکر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھ کر ایک طرف ہوگئے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابوبکر کے پاس بیٹھیں گئے اور اس طرح ابوبکر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نماز کو دیکھ کر نماز ادا کرتے تھے اور باقی افراد ابوبکر کی نماز کو دیکھ کر نماز ادا کر رہے تھے(۱۳۲)

اب ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود ابوبکر کو نماز کی امامت کے لئے کہا تھا اور ابوبکر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے نماز پڑھا رہے تھے تو کیا وجہ تھی کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس شدید بیماری کی حالت میں کہ جناب عائشہ کے بقول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دونوں پاؤں زمین پر خط دے رہے تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کھڑے ہونے تک کی طاقت نہ رکھتے تھے اور پھر مسجد میں تشریف لائیں اور نماز کو بیٹھ کر خود پڑھائیں؟ کیا ایسا نہ تھا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شروع ہی سے ابوبکر کی امامت پر راضی نہ تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہوسکے انھیں نماز پڑھانے سے روکا جائے یہاں تک کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ ابوبکر نماز تمام کرلیتے، اگر ابوبکر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستور اور اصرار کے مطابق نماز پڑھا رہے تھے تو یہ ناممکن تھا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس شدید بیماری کی حالت میں مسجد آئیں اور بیٹھ کر ہی سھی مگر نماز خود پڑھائیں۔

خلاصۂ کلام یہ کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جگہ نماز پڑھانے میں پیش قدمی کرنا ایک ایسا مسئلہ تھا کہ جس سے وہ اپنی جانشینی اور خلافت کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ لوگ یہ خیال کریں کہ کیونکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں اس امر کا حکم دیا ہے لھٰذا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد یھی خلیفہ ہونگے بالفرض اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قسم کا کوئی امر کرتے بھی تو یہ امر ان کی جانشینی پر یقیناً دلیل نہیں بنتا اس لئے کہ دوسرے افراد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صحت و سلامتی کے موقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جگہ نماز پڑھا چکے تھے(۱۳۳) تو اگر یہ امر ان صاحب کی جانشینی اور خلافت کی دلیل بن سکتا ہے تو اس جانشینی اور وصایت کے وہ لوگ زیادہ حقدار ہیں جنھوں نے آپ کی صحت و سلامتی کے موقع پر نماز پڑھائی۔

۴۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر کے حالات کو زیر نظر رکھنے کی غرض سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر کی اندرونی خبریں حاصل کرنا بھی حکومت حاصل کرنے کے سلسلے میں اس گروہ کی سازشوں کا ایک حصہ ہے اور یہ کام جناب عائشہ بنت ابوبکر اور جناب حفصہ بنت عمر کے ذریعہ انجام پاتا تھا، اہل سنت کی بعض روایات کے مطابق پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنی بعض ازواج سے فرمایا تھا کہ "تمھاری مثال ان خواتین کی سی ہے جو یوسف کی مصیبت و ابتلاء کا باعث بنیں" ۔(۱۳۴)

طبری نے ایک مقام پر نقل کیا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ حضرت علیعليه‌السلام کے پاس کسی کو بھیج کر انھیں بلاؤ ایسے میں جناب عائشہ نے کہا: ابوبکر کو بلا لاؤ اور حفصہ نے کہا کہ عمر کو، جب ابوبکر اور عمر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ یہاں سے چلے جاؤ اس لئے کہ اگر تمھاری ضرورت ہوتی تو تمھیں بلایا ہوتا یہ سن کر وہ دونوں چلے گئے(۱۳۵)

یہ روایت ہماری اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ حضرات محض یہ دکھانے کے لئے کہ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ترین افراد میں سے ہیں جلد بازی کرتے ہوئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پھونچے کہ شاید جو بات وہ حضرت علیعليه‌السلام سے کھنا چاھتے ہیں وہ ہمیں بتادیں اگر چہ بعض روایات میں حضرت علی علیہ السلام کا نام ذکر نہیں بلکہ اس قسم کی عبارت موجود ہے، میرے حبیب یا میرے دوست کو بلاؤ(۱۳۶) لیکن تمام روایات اس بات پر متفق ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان افراد کو واپس کردیا حتيٰ کہ آپ نے ان سے منہ تک پھیر لیا اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کا نام لیا تھا اور کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا بھی تھا تب بھی یہ بات تو واضح ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو نہیں بلایا تھا، بھر حال ہر کام میں خود بخود پھل کرنا حتيٰ کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر پھونچنے میں بھی پھل کرنا اس چیز کی نشاندھی کرتا ہے کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر میں بھی حضرت علی علیہ السلام کو راستے سے ھٹا کر حکومت اور ولایت کے حصول کے لئے کوشاں تھے۔

۵۔ عمر اور ان کے ہم فکر افراد کا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نوشتہ لکھنے سے روکنا بھی خود حضرت علی علیہ السلام کو راستے سے ھٹا کر حکومت حاصل کرنے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے اور اس بات میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ عمر نے اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے سلسلے میں کچھ لکھنا چاھتے ہیں لھٰذا انھوں نے بھرپور کوشش کی کہ یہ نوشتہ نہ لکھا جائے چاھے اس سلسلے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ھذیان ہی کی تہمت لگانی پڑے۔ !!

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نوشتہ لکھنے کے سلسلے میں تاریخ اور احادیث کی کتابوں میں بے انتھا روایات موجود ہیں جو سب کی سب اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف ھذیان کی تہمت لگائی گئی اب ان روایات میں سے بعض نے صریحی طور پر عمر کا نام لیا ہے(۱۳۷) اور بعض نے کسی خاص شخص کا نام ذکر نہیں کیا ہے ۔(۱۳۸)

مجموعی طور پر ان تمام روایات میں عمر کے علاوہ کسی دوسرے شخص کا نام نہیں آیا ہے جو اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ھذیان کی تہمت لگانے والے شخص عمر ہی تھے لیکن کیوں کہ اہل سنت کے بعض راوی عمر کا نام لینا نہیں چاھتے تھے اس لئے کوئی نام ذکر نہیں کیا۔

بعض علماء اہل سنت نے عمر کی طرف سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ھذیان کی تہمت لگائے جانے کی قباحت کو کم کرنے کے لئے اس کی مختلف تاویلیں بھی کی ہیں، مثال کے طور پر یہ کہ عمر کا مطلب یہ تھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بیماری کا غلبہ ہوگیا ہے(۱۳۹) لیکن لغت کے اعتبار سے یہ تاویل کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں ہے جیسا کہ صاحب السان العرب نے ابن اثیر کا قول نقل کیا ہے کہ عمر کا یہ جملہ سوالیہ صورت میں ہونا چاھیے أھَجَرَ تاکہ اس کو اس معنی میں لیا جائے "تغیر کلامه واختلط لأجل مابه المرض " ان کے کلام میں تبدیلی آگئی ہے اور وہ بیماری کی شدت کی وجہ سے کچھ کا کچھ کہہ رہے ہیں لیکن اگر یہ جملہ سوالیہ نہ ہو بلکہ خبریہ ہو (جیسا کہ اکثر روایات میں ہے) تو یا تو یہ گالی ہے یا پھر ھذیان کے معنی میں ہے پھر وہ کھتے ہیں کہ کیوں کہ یہ بات کھنے والے شخص عمر ہیں لھٰذا ان سے اس قسم کی امید نہیں ہے۔اگر بالفرض اس تاویل کو قبول کر بھی لیا جائے کہ ھذیان کے معنی یہ تھے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بیماری کی شدت کی وجہ سے نہ جانے کیا کیا کہہ رہے رہیں گویا اس حالت میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلام کا کوئی اعتبار نہیں ہے تو کیا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف اس قسم کے کلام کی نسبت دینا پھلے کلام کے مقابلے میں کچھ کم قباحت رکھتا ہے؟ جس کے بارے میں قرآن فرما رہا ہو،( وما ینطق عن الهويٰ ان هو الّا وحی یوحی ) (۱۴۰) کہ وہ وحی کے بغیر بات نہیں کرتے، بھر حال عمر کے کلام کا مطلب کچھ بھی ہو سب سے اہم بات یہ ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عمر کے اس جملے کو سننے کے بعد سخت ناراض ہوئے جیسا کہ اہل سنت کی بعض روایات میں یہ ملتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ جملہ سننے کے بعد غم و اندوہ میں ڈوب گئے تھے(۱۴۱) اور بعض نے یہاں تک کہا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ جملے سننے کے بعد اس قدر غصہ ہوئے کہ انھیں اپنے پاس سے اٹھا دیا(۱۴۲) ، اس کے بعد جو دوسرے افراد آپ کے پاس موجود تھے کہنے لگے کہ کیا قلم و دوات لائیں؟ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اب سب کچھ کہنے کے بعد، نہیں اب اس کی ضرورت نہیں لیکن ھاں تم لوگوں کو اپنے اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ خیر و خوبی کے ساتھ پیش آنے کی وصیت کرتا ہوں(۱۴۳) یہاں واضح ہے کہ آخر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمر کے کھنے کے بعد کیوں نہ چاھا کہ کچھ لکھین اس لئے کہ اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لکھ بھی دیتے تو جو شخص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی موجودگی میں گستاخی اور مخالفت کرسکتا ہے تو یقیناً وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چلے جانے کے بعد اس میں اضافہ کرتا اور مزید الٹی سیدھی نسبتیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیتا اور عملی طور پر یہ تحریر معتبر نہ سمجھی جاتی۔

بعض متعصب علمائے اہل سنت نے یہ مضحکہ خیز دعويٰ کیا ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابوبکر کی خلافت کے بارے میں کچھ لکھنا چاھتے تھے!(۱۴۴) جب کہ نوشتہ سے متعلق جتنی بھی روایات نقل ہوئی ہیں ان میں سے کسی ایک نے بھی ھلکا سا اشارہ بھی اس بات کی طرف نہیں کیا بلکہ روایات کے متن اور دوسرے تمام شواھد اس کے برعکس ہیں کہ جن کا بیان کرنا یہاں اس بحث میں ممکن نہیں ہے البتہ ہم یہاں ایک چیز کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وہ یہ کہ عمر جو ابوبکر پر ہمیشہ جان دینے کو تیار دکھائی دیتے تھے اور در حقیقت یہ عمر ہی کی کوششیں تھیں جن کی وجہ سے ابوبکر منصب خلافت پر فائز ہوگئے اور یہ بات ہر خاص و عام جانتا ہے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ابوبکر کی خلافت کے لئے لکھے جانے والے نوشتہ کو روکیں اور پھر چند ہی گھنٹوں بعد ان کی خلافت کے لئے تلوار نکال لیں اور جناب فاطمہعليه‌السلام کے گھر تک کو آگ لگانے پر تیار ہوجائیں کیا کوئی عاقل انسان اس قسم کےمضحکہ خیز دعوے کو قبول کرسکتا ہے!؟

۶۔ ایک اور چیز جو اس گروہ کی سازشوں کی روشن دلیل ہے وہ عمر کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات سے انکار کرنا ہے یہ واقعہ بھی بھت سی تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں موجود ہے(۱۴۵) ، عمر کے اس کام کی علت یہ تھی کہ ابوبکر کے پھونچنے تک ماحول کو پرسکون اور قابو میں رکھا جائے اور ابوبکر کے پھونچتے ہی عمر نے یہ اعلان کردیا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات ہوگئی ہے، یہ واقعہ ان کے آپس میں پھلے سے طے شدہ پروگرام کا پتہ دیتا ہے۔

۷۔ سقیفہ میں انصار کے اجتماع کی خبر بھت ہی پوشیدہ طور پر صرف عمر اور ابوبکر کو دی گئی(۱۴۶) اور جب ابوبکر اور عمر جلدی جلدی سقیفہ کی طرف جارہے تھے تو وہ افراد جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر میں موجود تھے اس ماجرے سے بے خبر تھے اور ابوبکر اور عمر نے اس بات کو تمام مسلمانوں یا کم از کم قوم کے بزرگ افراد کے سامنے پیش نہ کیا کہ اگر کوئی شرارت کرنا چاھتا ہے تو سب کی رائے سے اس کے بارے میں چارہ جوئی کی جائے، کیا یہ چیز ان کے حکومت کو حاصل کرنے کے سلسلے میں پھلے سے تیار شدہ سازشوں کی نشاندھی نہیں کرتی؟

سازشوں کے خلاف پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اقدامات

ہیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی الھی کے مطابق غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنی جانشینی پر منصوب کرنے کے باوجود مناسب موقوں پر اس کی یاد آوری کراتے رہے، لیکن بعض لوگوں کی طرف سے حکومت حاصل کرنے کی مسلسل کوششوں کو دیکھتے ہوئے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بات پر مجبور ہوگئے کہ حضرت علیعليه‌السلام کی جانشینی اور خلافت کو مضبوط کرنے کے لئے کچھ اور اقدامات بھی کریں ان میں سے ایک روم کے لشکر سے نبرد آزما ہونے کے لئے لشکر کی تیاری بھی تھی، اس لشکر کی تیاری پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات میں ہوئی اور اسامہ بن زید کو اس لشکر کا سردار بنایا گیا اور تمام انصار و مھاجرین کے بزرگ حضرات خصوصاً ابوبکر، عمر، ابوعبیدہ سے تاکیداً کہا گیا کہ وہ اسامہ کی سرداری میں مدینہ سے باھر چلے جائیں اور جس مقام پر اسامہ کے والد شھید ہوئے تھے وھاں کے لئے روانہ ہوجائیں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کام کو چند مقاصد کی خاطر انجام دینا چاھتے تھے، ان میں سے ایک مقصد بقول شیخ مفید یہ تھا کہ مدینہ میں کوئی فرد بھی ایسا باقی نہ رہے جو حضرت علی علیہ السلام کی خلافت و حکومت پر ان سے نزاع کرے(۱۴۷) اور اس سے بھی اہم بات یہ تھی کہ اسامہ جو ابھی سترہ سالہ جوان(۱۴۸) تھے لشکر کا سردار بنایا گیا جب کہ وہ تمام بزرگ حضرات اور تجربہ کار لوگ موجود تھے جو اس سے پھلے جنگ احد، جنگ بدر اور خندق میں حصہ لے چکے تھے لیکن اسامہ کو لشکر کا سردار بنا کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب پر یہ واضح کردیا کہ کھیں ایسا نہ ہو کہ تم کل کے دن حضرت علی علیہ السلام کے جوان ہونے کا بھانہ بنا کر ان کی اطاعت سے سرپیچی کر بیٹھو۔

جب بعض افراد نے اسامہ کے انتخاب پر اعتراض کیا تو جیسے ہی اس اعتراض کی اطلاع پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی گئی تو آپ غصہ ہوئے اور فوراً منبر پر تشریف لائے اور اسامہ کے با صلاحیت اور اس امر کے لئے ان کی لیاقت کے بارے میں تقریر کی(۱۴۹) ، لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد عمر نے ابوبکر سے کہا کہ اسامہ کو لشکر کی سرداری سے ھٹا دیا جائے مگر ابوبکر نے عمر کی داڑھی پکڑ کر کہا کہ آپ کی ماں آپ کے غم میں بیٹھے، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اس امر کے لئے منصوب کیا تھا اب تم چاھتے ہو کہ میں اسے ھٹادوں(۱۵۰) ۔

جو لوگ ھرگز یہ نہیں چاھتے تھے کہ حکومت ان کے ھاتھوں سے چلی جائے وہ اسامہ کے لشکر کے ساتھ جانے سے منع کر رہے تھے اور مختلف بھانوں سے اس میں تاخیر کرا رہے تھے جب اسامہ نے ان افراد کے ان بھانوں کو دیکھا تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ جب تک آپ کی طبیعت بالکل صحیح نہیں ہوجاتی لشکر مدینہ سے باھر نہ جائے اور جب آپ صحت یاب ہوجائیں تو پھر لشکر کوچ کر جائے گا لیکن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسامہ سے کہا کہ حرکت کرو اور مدینہ سے باھر چلے جاؤ۔ اسامہ بار بار پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کی بیماری کا حوالہ دے رہے تھے مگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر بار انھیں جانے کے لئے کہہ رہے تھے، یہاں تک کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسامہ سے کہا کہ جو کچھ تمھیں حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کرو اور کوچ کر جاؤ اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بے ہوش ہوگئے، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہوش میں آنے کے بعد پھلا سوال اسامہ کے لشکر کے بارے میں کیا اور اس بات کی تاکید کی کہ اسامہ کے لشکر کو بھیجو اور جو شخص بھی ان کے ساتھ جانے سے منع کرے خدا اس پر لعنت کرے اور اس جملے کو کئی بار دھرایا(۱۵۱) ۔

آخرکار اسامہ کے لشکر نے کوچ کیا اور "جرف" نامی جگہ پر جاکر ٹہر گیا(۱۵۲) ، یہ لوگ مسلسل مدینے آتے جاتے رہے یہاں تک کہ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدید بیماری کی وجہ سے مسجد نہ جاسکے تو ابوبکر فوراً پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جگہ پر گئے اور نماز شروع کردی۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سازش کو ناکام بنانے کے لئے اسی حالت میں حضرت علی علیہ السلام اور فضل بن عباس کا سھارا لیکر مسجد آئے اور ابوبکر کو ھٹنے کے لئے کہا اور ان کی نماز کی کوئی پروا نہ کی اور خود پھر سے نماز پڑھائی(۱۵۳) پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھانے کے بعد گھر تشریف لے گئے اور ابوبکر، عمر اور چند دوسرے افراد کہ جو مسجد میں حاضر تھے انھیں بلایا اور کہا کہ کیا میں نے تم لوگوں کو حکم نہیں دیا تھا کہ اسامہ کے لشکر کے ساتھ مدینہ سے باھر چلے جاؤ، کھنے لگے جی ھاں یا رسول اللہ تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم لوگوں نے اس پر عمل کیوں نہ کیا؟ ہر ایک نے ایک بھانہ پیش کردیا، پھر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تین مرتبہ اس جملہ کی تکرار کی: کہ اسامہ کے لشکر کے ساتھ جاؤ(۱۵۴) ، اس سلسلے میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوششوں میں سے ایک کوشش ابوسفیان کو زكٰوة کی جمع آوری کے سلسلے میں مدینہ سے باھر بھیجنا ہے جس کو مختلف روایات بیان کرتی ہیں(۱۵۵) اور شاید ابوسفیان کو یہ ذمہ داری دینے کی وجہ بھی یھی تھی۔

مخالفین کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک کوشش نوشتہ لکھنا بھی تھا لیکن جیسا کہ پھلے عرض کیا جاچکا ہے کہ بعض افراد نے اسے عملی نہ ہونے دیا ممکنھے کہ یہ سوال پیدا ہو کہ آخر نوشتہ لکھنے کا کام پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی صحت و تندرستی کے زمانہ میں کیوں نہ انجام دیا تاکہ یہ شبہ ہی پیدا نہ ہوتا۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ پھلی بات تو یہ کہ اس چھوٹے سے واقعہ نے بھت سے لوگوں کے چھروں کو بے نقاب کردیا کہ وہ کس حد تک پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یقین اور اعتماد رکھتے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لشکر اسامہ کی ترتیب سے مسئلہ کو حل شدہ دیکھ رہے تھے لیکن بعض افراد کی مخالفت کی وجہ سے مسئلہ برعکس ہوگیا کیونکہ ابھی تک پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کی ایسی کھلی ہوئی مخالفت نہ ہوئی تھی جیسا کہ شیخ مفید نے ذکر کیا ہے کہ جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابوبکر، عمر اور بعض دوسرے افراد کی لشکر اسامہ میں جانے کی مخالفت کو دیکھا تو نوشتہ لکھنے کا ارادہ کیا(۱۵۶) نتیجہ یہ کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت اور جانشینی کو مضبوط کرنے کے لئے ہر ممکنہ قدم اٹھایا مگر اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاھیے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھرگز اس بات کو نہیں چاھتے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں پر مسلط کردیا جائے یا کوئی ایسا کام کریں جس سے یہ معلوم ہو کہ زبردستی لوگوں پر حضرت علیعليه‌السلام کو مسلط کیا جارہا ہے بلکہ آپ چاھتے تھے ابلاغ وحی کے سلسلے میں اپنے وظیفہ پر اچھی طرح عمل کریں اور لوگوں کو یہ بات سمجھا دیں کہ آپ ان کی فلاح و بھبود اصلاح اور ھدایت کے علاوہ کچھ نہیں چاھتے اور یقیناً آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسا ہی کیا اب جو چاھے ھدایت کا راستہ اختیار کرے اور جو چاھے گمراھی کا۔ حضرت علی علیہ السلام خود بھی یہ نہیں چاھتے تھے کہ جس طرح بھی ممکن ہوسکے سیاسی گٹھ جوڑ کر کے اپنی حکومت کو مضبوط کیا جائے اس لئے کہ حضرت علی علیہ السلام حکومت کو انسانوں کی ھدایت کے لئے چاھتے تھے اور انسانوں کی ھدایت زور زبردستی اور سیاسی حربوں کے بعد ممکن نہیں خاص طور سے جب کہ سیاسی گٹھ جوڑ خود نقص غرض کا حصہ ہو۔

حضرت علی علیہ السلام ان تمام چیزوں سے بلند و بالا ہیں کہ وہ حکومت حاصل کرنے کے لئے اس کے پیچھے دوڑ لگائیں اور اسے لوگوں پر تحمیل کریں اس لئے کہ اگر لوگ ان کی حکومت کے طلبگار ہوتے تو خود ہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وصیت پر عمل کرتے ورنہ ان کی بھاگ دوڑ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیتوں سے زیادہ مؤثر نہیں ہوسکتی تھی اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد عباس نے جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا تھے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ اپنا ھاتھ آگے بڑھائیے تاکہ آپ کی بیعت کروں اور تمام بنی ھاشم آپ کی بیعت کریں، آپ نے فرمایا کہ کیا کوئی ایسا بھی ہے جو ہمارے حق کا انکار کرے؟ عباس نے فرمایا کہ آپ بھت جلد دیکھ لیں گے کہ لوگ ایسا ہی کریں گے(۱۵۷) ۔

ہمای نظر میں جو کچھ عباس دیکھ رہے تھے حضرت علی علیہ السلام اسے بخوبی جانتے تھے لیکن در اصل بات یہ تھی کہ اگر لوگ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وصیت پر عمل کرنا چاھتے تو پھر پوشیدہ طور پر کسی بیعت کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی یا آج کی اصطلاح حکومت کا تختہ پلٹنے کی ضرورت نہیں تھی، اگر لوگ حضرت علی علیہ السلام کی قدر و منزلت کو نہیں جانتے اور آپ کی حکومت نہیں چاھتے تو پھر اس کوشش اور محنت کی کوئی معنوی قدر و قیمت نہ ہوتی اور اس کا کوئی خاص فائدہ بھی نہ تھا، اس لئے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو کچھ وصیت کرنا تھی وہ کرچکے تھے اب یہ ذمہ داری مسلمانوں کی تھی کہ وہ خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اعتماد و یقین کر کے ان کی اطاعت کرتے اور یہ بات حضرت علی علیہ السلام کے ان جملوں سے بخوبی سمجھی جاسکتی ہے جو آپ نے عثمان کے قتل کے بعد جب لوگ آپ کے پاس بیعت کرنے کے لئے آئے تو آپ نے تقریر کے دوران ادا کئے۔ دور خلفاء میں حضرت علی علیہ السلام کا سکوت ھرگز اس بات پر دلیل نہیں کہ آپ ان کے پابند، ان کے ہم خیال اور انھیں اس کا حقدار سمجھتے تھے بلکہ بارہا اپنی مخالفت کو واضح طور پر بیان کرتے رہے اور اس امر میں ھرگز کوتاھی سے کام نہیں لیا اور اگر آپ کے موافقین کی تعداد زیادہ ہوتی تو یقینی بات ہے کہ آپ حکومت سے دستبردار نہ ہوتے مگر جو لوگ آپ کے ساتھ تھے ان کی تعداد اتنی کم تھی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ آپ مسلحانہ انداز میں قیام کریں اور یھی وہ سیرت اور طریقہ کار ہے جس کا مشاہدہ اور دوسرے معصومینعليه‌السلام کی زندگی میں بھی کیا جاسکتا ہے البتہ یہ ایک طویل بحث ہے کہ جس کا یہاں موقع نہیں ہے۔

انصار کی چارہ جوئی

گذشتہ بیان کی روشنی میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ انصار سقیفۂ بنی ساعدہ میں اس لئے جمع ہوئے تھے کہ رونما ہونے والے یہ تمام حوادث کسی سے پوشیدہ نہ تھے کہ کوئی ان سے بے خبر ہوتا، انصار اور مھاجرین کا ہر فرد یہ جانتا تھا کہ مدینہ میں جلد ہی تبدیلیاں آنے والی ہیں اور حادثات رونما ہونے والے ہیں لیکن کوئی مکمل طور سے اس بات کو نہیں جانتا تھا کہ آخر کیا ہونے والا ہے؟ اسی لئے مختلف گروہ حکومت کے حصول کے لئے مکمل کوشاں تھے۔

لھٰذا یہ مسئلہ واضح طور پر سمجھا جاسکتا ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد مدینہ کے حالات اس قابل نہ تھے کہ جس میں حضرت علی علیہ السلام کی خلافت اور حکومت کا قیام عمل میں آتا یہاں تک کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب بھی اس سلسلے میں یہ سوال کر رہے تھے کہ کیا لوگ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کو قبول کر لیں گے یا نھیں؟ یہ بات قابل غور ہے کہ عباس کا سوال اس بات کے بارے میں نہیں تھا کہ حکومت کا لائق اور سزاوار کون ہے؟ اس لئے کہ عباس، حضرت علی علیہ السلام سے زیادہ کسی کو اس امر کے لائق نہیں سمجھتے تھے اور ہمیشہ حضرت علی علیہ السلام کو بیعت کی پیشکش کرتے تھے(۱۵۸) ، جتنے بھی مآخذ و منابع عباس بن عبدالمطلب کے اس سوال کا ذکر کرتے ہیں ان میں یہ چیز بیان نہیں ہوئی کہ عباس نے پوچھا ہو کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ان کی جانشینی کا کون مستحق ہے؟ بلکہ عباس کا سوال یہ ہے کہ آخر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کیا ہوگا؟ کیا حکومت بنی ھاشم میں باقی رہے گی یا نھیں۔ شیخ مفید نے اسے بھترین انداز میں بیان کیا ہے کہ عباس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھاوان یکن هذا الأمر فینا مستقرّاً بعدک فبشّرنا (۱۵۹) یعنی اگر ولایت و حکومت آپ کے چلے جانے کے بعد ہمارے درمیان باقی رہے گی تو ہمیں اس کی بشارت دیجئے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ آپ لوگ میرے بعد مستضعفین میں سے ہوں گے، یہاں سوال یہ نہیں کہ یہ حق کس کا ہے بلکہ بحث اس پر ہے کہ یہ حق جو حضرت علی علیہ السلام کا ہے کیا انھیں مل بھی جائے گا یا نھیں؟ عباس واقعہ غدیر سے بے خبر نہ تھے مگر اس کے بعد کے حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے اس قسم کے سوالات کر رہے تھے۔

انصار کہ جنھوں نے قریش کے خلاف بڑھ چڑھ کر جنگوں میں حصہ لیا تھا اس بات سے خوفزدہ تھے کہ اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد حضرت علی علیہ السلام مسند خلافت پر نہ بیٹھے کہ جس پر بھت سے شواھد و قرائن دلالت کر رہے ہیں، تو کیا ہوگا؟ انصار کو زیادہ تر خوف اس بات کا تھا کہ کھیں ایسا نہ ہو کہ بنی امیہ کہ جو حکومت کے حصول کے لئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں برسر اقتدار آجائیں تو ایسی صورت میں انصار کی حالت بدتر ہوجائے گی اور وہ ہمیشہ بنی امیہ کے انتقام کا نشانہ بنے رہیں گے۔

ایسی صورت میں انصار کے لئے ضروری تھا کہ آئندہ کے لئے کوئی چارہ جوئی کریں کیوں کہ مدینہ ان کا اپنا وطن تھا اور مھاجرین دوسری جگہ سے ہجرت کر کے ان کے وطن میں آئے تھے لھذا اس اعتبار سے وہ اپنے آپ کو حکومت کا زیادہ حقدار سمجھ رہے تھے اسی لئے وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے فوراً بعد سقیفہ میں جمع ہوگئے کہ آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا اگر کوئی حادثہ پیش آگیا تو انھیں کیا کرنا ہے۔

اس وقت کے تمام قرائن اور شواھد کی روشنی میں جب انھوں نے یہ دیکھا کہ حضرت علی علیہ السلام کو خلافت و حکومت ملنا ممکن نہیں ہے تو بھتر یھی سمجھا کہ اپنے درمیان سے ہی کسی ایک کو اس امر کے لئے منتخب کرلیں، لھٰذا سعد بن عبادہ کو بلایا کہ وہ اس اجتماع میں شریک ہوں تاکہ ان کی بیعت کی جائے کیونکہ جب نوبت یہاں تک پھنچ گئی کہ حضرت علی علیہ السلام کو خلافت ملنے والی نہیں ہے تو پھر ان سے زیادہ اس امر کا سزاوار کون ہوسکتا ہے ہماری اس بات کی تائید کے لئے بھت سے شواھد موجود ہیں جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔

۱۔ انصار کو حضرت علی علیہ السلام کی خلافت پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہ تھا بلکہ وہ مکمل طور سے اس پر راضی تھے۔ جیسا کہ طبری(۱۶۰) اور ابن اثیر(۱۶۱) نے نقل کیا ہے کہ سب کے سب یا بعض انصار نے سقیفہ میں ابوبکر اور عمر کے سامنے یہ بات کھی تھی کہ ہم حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور کی بیعت نہ کریں گے اور اسی طرح یعقوبی نے بھی اس بارے میں کہا ہے کہ "وکان المهاجرون والانصار لا یشکون فی علی "(۱۶۲) "انصار و مھاجرین کو حضرت علی علیہ السلام کی خلافت پر کوئی اعتراض نہ تھا" اور دوسری جگہ نقل کیا ہے کہ عبد الرحمٰن بن عوف نے انصار سے کہا کہ کیا تمھارے درمیان ابوبکر، عمر اور حضرت علی علیہ السلام جیسے افراد موجود نہیں ہیں تو انصار میں سے ایک نے کہا کہ ہم ان افراد کی فضیلت کے منکر نہیں ہیں اس لئے کہ ان کے درمیان ایک ایسا شخص موجود ہے کہ اگر وہ اس امر خلافت کو طلب کرے تو ہم میں سے کوئی بھی اس کی مخالفت نہیں کریگا یعنی علی بن ابی طالب علیہ السلام(۱۶۳) اس کا مطلب یہ ہے کہ انصار غدیر خم کے واقعہ سے بے خبر نہ تھے اور ھرگز حضرت علیعليه‌السلام کی خلافت کے منکر نہ تھے اور سقیفہ میں ان کا جمع ہونا ھرگز حضرت علی علیہ السلام کو خلافت سے دور کرنے کے لئے نہ تھا لیکن وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ کچھ لوگ حکومت حاصل کرنے کے لئے بے انتھا کوشش کر رہے ہیں جب کہ حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے حکومت کے لئے کسی بھی قسم کی سیاسی اور سماجی کوششیں دیکھنے میں نہیں آرہی تھیں لھٰذا انھیں یقین ہوگیا تھا کہ ایسی صورت حال کے پیش نظر حضرت علی علیہ السلام کسی بھی طرح خلافت پر نہیں آسکتے۔ بلکہ بھتر ہوگا کہ یوں کہا جائے کہ بعض افراد کسی بھی صورت میں حضرت علیعليه‌السلام کو خلافت تک نہیں پھنچنے دیں گے۔ لھٰذا انصار کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے لئے کوئی چارہ جوئی کریں گویا وہ مستقل طور پر اپنے لئے آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنا چاھتے تھے۔

۲۔ انصار کا سقیفہ میں مھاجرین کو یہ پیشکش کرنا کہ ایک امیر ہمارا اور ایک امیر تمھارا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انصار فقط یہ چاھتے تھے کہ وہ بھی حکومت میں شریک رہیں اور اس طرح وہ قریش کے احتمالی خطرات سے محفوظ رہنا چاھتے تھے، (گویا ہر صورت میں حکومت میں حصہ دار بن کر اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاھتے تھے)۔

۳۔ سقیفہ میں انصار کی گفتگو ان کے اھداف کو واضح کرتی ہے اس کے علاوہ قاسم بن محمد بن ابوبکر کی روایت بھی انصار کے سقیفہ میں اجتماع کے مقصد کی طرف اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ (ولکنا نخاف اَنۡ یلیه اقوام قَتَلنا آبائهم واِخوتهم )(۱۶۴) لیکن ہمیں ڈر اس بات کا ہے کہ کھیں ایسا نہ ہو ان کے بعد وہ لوگ بر سر اقتدار آجائیں کہ جن کے باپ اور بھائیوں کو ہم نے قتل کیا تھا، جیسا کہ دینوری اور جوھری نے نقل کیا ہے کہ انصار نے کہا ہے کہ ہمیں ڈر اس بات کا ہے کہ کل کھیں وہ لوگ بر سر اقتدار نہ آجائیں کیونکہ نہ وہ ہم میں سے ہیں اور نہ تم میں سے(۱۶۵) ۔

اس بیان سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ انصار مکمل طور سے اس بات کو جانتے تھے کہ بعض ایسے افراد حکومت کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کر رہے ہیں کہ جو سالھا سال مسلمانوں سے جنگ کرتے رہے ہیں اور یہ وھی لوگ ہیں جن کے باپ اور بھائیوں کو جنگ میں انصار نے قتل کیا تھا اگر وہ حکومت اپنے ھاتھ میں لے لیں گے تو انصار ان کے انتقام سے کسی صورت نہیں بچ سکتے اور وہ بنی امیہ اور ان کے طرفداروں کے علاوہ کوئی اور نہ تھا، اگرچہ خود ابوبکر سے انھیں اس قسم کا خوف نہ تھا(۱۶۶) لیکن با تجربہ اور زیرک انصار جیسے حباب بن منذر اس بات کو بخوبی سمجھ رہے تھے کہ اگر آج ابوبکر جیسے لوگ مسند خلافت پر بیٹھ جائیں گے تو کل یقینی طور پر حکومت ان لوگوں کے ھاتھ میں ہوگی کہ جن کی انصار سے نہ بنے گی اور وہ ان سے انتقام اور بدلہ لینے کی فکر میں رہیں گے، حباب بن منذر کی یہ پیشین گوئی بیحد لائق تعریف ہے اس لئے کہ انھوں نے جیسی پیشین گوئی کی تھی ویسا ہی ہوا اور ابھی کچھ وقت بھی نہ گزرا تھا کہ فرزندان طلقاء(۱۶۷) اقتدار میں آگئے اور اسلام و مسلمین نیز پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیتعليه‌السلام پر وہ ظلم ڈھائے کہ جس کی ایک مثال واقعۂ کربلا ہے۔

۴۔ در حقیقت سقیفہ میں انصار کا جمع ہونا ایک مخفیانہ عمل تھا اور کسی کو اس کی اطلاع نہ تھی اب اگر ان کا مقصد تمام مسلمانوں کے لئے خلیفہ کا انتخاب تھا تو اس صورت میں اس قسم کا خصوصی جلسہ ان کی شایان شان نہ تھا، اگر چہ وہ جلسہ کے اختتام پر اس نتیجہ پر پھنچے کہ خلیفہ کا تعین کیا جائے، مگر وہ اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ یہ کام تمام مسلمانوں کے نزدیک قابل قبول نہ ہوگا جیسا کہ ابو مخنف کی روایت اس چیز کو بیان کرتی ہے(۱۶۸) کہ اگر مھاجرین نے قبول نہ کیا تو کیا کھیں گے؟ یہ تمام باتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ درحقیقت وہ اپنے لئے سقیفہ کے اجتماع کے ذریعہ آئندہ کا لائحہ عمل تیار کر رہے تھے اور بعد میں اس نتیجہ پر پھنچے کہ خلیفہ کا انتخاب بھی کر ہی لیا جائے۔

۵۔ انصار ابوبکر کی تقریر کے بعد کہ جس میں انھوں نے انصار کو وزارت اور مشاورت کا عھدہ دینے کا وعدہ کیا(۱۶۹) اختلاف کا شکار ہوگئے، بعض انصار جیسے حباب بن منذر اور سعد بن عبادہ ابوبکر پر اعتماد نہ رکھتے تھے لھٰذا یہ کہا کہ اس کی بات پر توجہ نہ کرو، لیکن بعض دوسرے افراد جیسے، بشیر بن سعد کہ جو سعد بن عبادہ کا چچا زاد بھائی تھا اور اس سے حسد اور کینہ رکھتا تھا ابوبکر کی طرف مائل ہوگیا اور سب سے پھلے ابوبکر کی بیعت کی(۱۷۰) اور انصار میں دوسرا اختلاف اوس و خزرج کی آپسی رقابت کی وجہ سے پیش آیا کہ جس کے سبب قبیلہ اوس نے ابوبکر کی بیعت کرلی(۱۷۱) اور پھر جو ہونا تھا وہ ہوا، اس سلسلے میں ہم شیخ مفید کا قول نقل کرتے ہیں جو نھایت متین ہے وہ یہ کہ جو کچھ ابوبکر کے حق میں ہوا اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ انصار آپس میں اختلاف رکھتے تھے نیز طلقاء اور مولفة القلوب بھی یہ نہیں چاھتے تھے کہ اس کام میں تاخیر ہو کہ کھیں ایسا نہ ہو کہ تاخیر کے سبب بنی ھاشم کو فرصت مل جائے اور یہ حکومت اپنی جگہ پر پھونچ جائے اور چونکہ ابوبکر وھاں موجود تھے اس لئے ان کی بیعت کرلی(۱۷۲) ۔

گذشتہ مباحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انصار کی پیشین گوئی اور ان کا خدشہ مکمل طور سے بجا تھا لیکن ان کا یہ اجتماع پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تکفین سے پھلے کسی بھی صورت میں صحیح نہ تھا بلکہ یہ ان کی جلد بازی اور بے نظمی کی دلیل ہے جس کے نتیجے میں دوسرے افراد کو یہ موقع ملا کہ انھوں نے اپنی رائے ان پر مسلط کردی، البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ انصار پر بھی پھلے ہی سے کام کیا گیا ہو اور انھیں بنی امیہ سے بیحد ڈرایا گیا ہو، اگر انصار صبر سے کام لیتے یا اسی سقیفہ میں حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں ثابت قدمی کا مظاھرہ کرتے تو یقینی طور پر دوسرے لوگ بآسانی حضرت علی علیہ السلام کے ھاتھ سے حکومت لینے میں کامیاب نہ ہوتے اس لئے کہ اس وقت انصار ایک ممتاز مقام رکھتے تھے جس کی دلیل خود ابوبکر اور عمر کا انصار کے اجتماع میں آنا ہے، اس لئے کہ اگر انصار اس امر میں کوئی اہمیت نہ رکھتے تو ابوبکر اور عمر کسی صورت میں جلدی جلدی اپنے کو اس اجتماع میں پھونچا کر وھاں اپنی حکومت کی بنیاد نہ رکھتے۔

____________________

۱۰۴.الطبقات الکبريٰ۔ ج۱ ص۲۰۴۔ انساب الاشراف۔ ج۳ ص۷۱۶۔ تاریخ طبری۔ ج۳ ص۱۹۸، ارشاد۔ ج۱ ص۱۸۱۔ الکامل فی التاریخ۔ ج۲ ص۶۔

۱۰۵. الامامة والسیاسة۔ ص۲۸

۱۰۶. السقیفہ و فدک۔ ص۶۰

۱۰۷. "اجتمعت بنو امیہ اليٰ عثمان بن عفان"

۱۰۹. السقیفہ و فدک ص۳۷

۱۱۱. کتاب "عبداللہ ابن سبا" علامہ عسکری، ج۱ ص۱۰۱

۱۱۲. السقیفہ و فدک ص۳۷

۱۱۳. تاریخ طبری۔ ج۳ ص۲۰۹

۱۱۴. تاریخ طبری ج۳ ص۲۰۹، ارشاد۔ ج۱ ص۱۸۹

۱۱۵. الارشاد: ج۱ ص۱۹۰۔ (فحرّضہم علی امر فلم ینھضوا لہ)

۱۱۶. السقیفہ و فدک: ص۳۷، تاریخ طبری: ج۳ ص۲۰۹۔

۱۱۷. السیرة النبویة ابن ھشام: ج۴ ص۳۰۵، ۳۱۱، تاریخ الطبری: ج۳ ص۲۱۰، البدایہ والنھایہ: ج۵ ص۲۶۲، انساب الاشراف: ج۲ ص۷۴۲۔

۱۱۸. انساب الاشراف۔ ج۲ ص۷۴۴۔

۱۱۹. انساب الاشراف: ج۲ ص۷۶۲، الطبقات الکبرىٰ: ج۳ ص۱۸۲۔

۱۲۳. الارشاد۔ ج۱ ص۱۸۴۔

۱۲۴. انساب الاشراف۔ ج۲ ص۷۲۹ والارشاد ج۱ ص۱۸۲ (یصلّی بالناس بعضہم)

۱۲۵. السقیفہ و فدک۔ ص: ۶۸۔

۱۲۶. انساب والاشراف: ج۲ ص۷۲۷،۷۲۹، ۷۳۱، ۷۳۲، ۷۳۵، تاریخ طبری: ج۳ ص۱۹۷۔

۱۲۷. الطبقات الکبرىٰ: ج۲ ص۲۲۲، ۲۲۳، دلائل النبوة۔ ج۷ ص۱۹۱، ۱۹۲

۱۲۸. دلائل النبوة: ج۷ ص۱۹۱، ۱۹۲، الطبقات الکبرىٰ: ج۲ ص۲۱۸ تاریخ الطبری: ج۳ ص۱۹۷

۱۲۹. الطبقات الکبرىٰ: ج۲ ص۲۱۵ تا ۲۲۴ و ج۱۳ ص۱۷۸ تا ۱۸۱۔

۱۳۱. الطبقات الکبرىٰ: ج۱ ص۱۹۰، ۲۴۹، السقیفہ و فدک: ص۷۴، ۷۵، تاریخ یعقوبی: ج۲ ص۱۱۳، الکامل فی التاریخ: ج۲ ص۵

۱۳۳. الطبقات الکبرىٰ: ج۴ ص۲۰۵

۱۳۶. الامامة والسیاسة: ص۲۰۔

۱۳۷. السقیفہ و فدک: ص۷۳: الطبقات الکبرىٰ: ج۱ ص۲۴۳، ۲۴۴۔ الارشاد: ج۱ ص۱۸۴

۱۳۹. تاریخ الطبری: ج۳ ص۱۹۳ (حاشیہ.والسقیفہ و فدک: ص۷۳ (ایک روایت کے ضمن میں)

۱۴۰. سورہ نجم آیت ۳۔

۱۴۱. انساب الاشراف: ج۲ ص۷۳۸

۱۴۲. الطبقات الکبرىٰ: ج۱ ص۲۴۳، والسقیفہ و فدک: ص۱۷۳ (فرفضہ النبی: پس اس معنی میں نبی (ص.پہلے رافضی ہیں)

۱۴۳. ارشاد۔ ج۱ ص۱۸۴

۱۴۴. البدایة والنھایة ج۵ ص۲۷۱۔

۱۴۵. السیرة النبویہ: ابن ھشام ج۴ ص۳۰۵، ۳۱۱، انساب الاشراف:ج۲ ص۷۴۲، تاریخ طبری: ج۳ ص۲۱۰۔ البدایة والنھایة:ج۵ ص۲۶۲، ۲۶۳۔

۱۴۶. انساب الاشراف" ج۲ ص۷۶۴۔ السقیفہ و فدک: ص۵۵۔ تاریخ طبری: ج۳ ص۲۰۳۔

۱۴۷. الارشاد: ج۱ ص۱۸۰، ۱۸۱۔

۱۴۸. تاریخ یعقوبی: ج۲ ص۱۱۳۔

۱۴۹. السیرة النبویہ: ابن ھشام ج۴ ص۲۹۹، ۳۰۰۔ الطبقات الکبرىٰ: ج۱ ص۱۹۰، ۲۴۹۔

۱۵۲. السیرة النبویہ: ابن ھشام ج۴ ص۳۰۰ (فخرج اسامہ و خرج جیشہ معہ حتی نزلوا الجرف من المدینہ علی فرسخ)

۱۵۳. الارشاد: ج:۱ ص۱۸۳۔

۱۵۴. الارشاد۔ ج:۱ ص۱۸۴

۱۵۵. السقیفہ و فدک۔ ص۳۷، البتہ انساب الاشراف ج۲، ص۷۷۳ نے اس بات کو واقدی سے نقل کیا ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ ابوسفیان پیغمبر (ص.کی وفات کے وقت مدینہ میں تھا لھٰذا ایسی صورت میں یہ دلیل قابل قبول نہیں ہے۔

۱۵۶. الارشاد: ج۱ ص۱۸۴۔

۱۵۸. انساب الاشراف: ج۲ ص ۷۶۷، الامامة والسیاسة:ص۲۱۔

۱۵۹. ارشاد: ج۱ ص۱۸۴

۱۶۰. تاریخ طبری: ج۳ ص۲۰۲۔

۱۶۱. الکامل فی التاریخ: ج۲ ص۱۰۔

۱۶۲. تاریخ یعقوبی: ج۲ ص۱۲۴۔

۱۶۳. تاریخ یعقوبی: ج۲ ص۱۲۴

۱۶۴. الطبقات الکبری: ج۳ ص۱۸۲، انساب الاشراف: ج۲ ص۷۶۲۔ السقیفہ و فدک: ص۴۹۔

۱۶۶. الطبقات الکبرىٰ: ج۳ ص۱۸۲

۱۶۷. آزاد شدہ

۱۶۸. تاریخ طبری: ج۳ ص۲۱۸، ۲۱۹۔

۱۶۹. تاریخ طبری: ج۳ ص۲۲۰، الطبقات الکبرىٰ ج۳ ص۱۸۲۔

۱۷۰. تاریخ طبری: ج۳ ص۲۲۰۔

۱۷۱. تاریخ طبری: ج۳ ص۲۲۱۔