سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)0%

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں) مؤلف:
زمرہ جات: امامت

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

مؤلف: تارى، جليل
زمرہ جات:

مشاہدے: 11582
ڈاؤنلوڈ: 3745

تبصرے:

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 20 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11582 / ڈاؤنلوڈ: 3745
سائز سائز سائز
سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

مؤلف:
اردو

چوتھا حصہ: ابو مخنف کی روایت پر کئے گئے اعتراضات اور ان کے جوابات

تمھید

واقعہ سقیفہ کے بارے میں ابو مخنف کی روایت کے مطالعہ کے بعد ممکن ہے کہ کسی کے ذھن میں اپنی سوچ یا تاریخی معلومات کی بنا پر کچھ اعتراضات ابھریں کہ جنھیں وہ واقعاً اعتراض سمجھتا ہو یا ان کے بارے میں صحیح اور مستند جواب چاھتا ہے، کتاب کا یہ حصہ اعتراضات کے بیان اور ان کے جوابات کے لئے مخصوص کیا گیا ہے، اس حصہ میں ذکر ہونے والے اعتراضات محص فرضی نہیں ہیں بلکہ یہ وہ اعتراضات ہیں جو اہل سنت(۱۷۳) کے ایک مورخ نے ابو مخنف کی روایت(۱۷۴) کے بارے میں کئے ہیں لھٰذا ہم اس بحث کو صحیح صورت میں آپ کے سامنے پیش کرنے کے لئے ان اعتراضات کو ذکر کرنے کے بعد منصفانہ طور پر ان کا جواب دیں گے۔

پھلا اعتراض؛ روایت کی سند سے متعلق

اس سلسلے میں سب سے پھلا اعتراض یہ ہے کہ روایت صرف ابو مخنف نے نقل کی ہے اور ابو مخنف کے ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ ھشام بن کلبی بھی ضعیف ہونے کے اعتبار سے ابو مخنف سے کم نہیں ہے، اس کے علاوہ یہ کہ "عبداللہ بن عبد الرحمان بن أبی عمرہ" اس واقعہ کا عینی شاھد نہ تھا اس لئے کہ وہ اس زمانہ میں موجود نہ تھا(۱۷۵) ۔

جواب:

اس اعتراض میں چند مختلف مطالب کی طرف اشارہ ہے لھٰذا ہم ایک ایک کر کے ان کا جواب دے رہے ہیں۔

الف۔ یہ دعويٰ کہ اس روایت کو تنھا ابو مخنف نے نقل کیا ہے۔

یہ بات صحیح نہیں ہے بلکہ یہ معترض کی کم علمی اور ضروری تحقیق نہ کرنے کی دلیل ہے اس لئے کہ ابو مخنف کی روایت کا مضمون یا وھی مضمون کچھ اضافہ کے ساتھ دوسرے مورخین نے بھی نقل کیا ہے جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔

۱۔ دینوری نے اپنی کتاب "الامامة والسیاسة" میں یہ روایت جس سند کے ساتھ نقل کی وہ یہ ہے ۔حدثنا ابن عُفیر، عن أبی عون، عن عبدالله بن عبدالرحمان الانصاری رضی الله عنه (۱۷۶)

۲۔ دوسری سند جسے جوھری نے یوں نقل کیا۔أخبرنی احمد بن اسحاق قال: حدثنا احمد بن سیار، قال: حدثنا سعید بن کثیر بن عفیر الانصاری: ان النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (۱۷۷)

۳۔ ابن اثیر سلسلہ سند کی طرف اشارہ کئے بغیر اعتماد کے ساتھ کھتا ہے، و قال ابو عمر الانصاری: لمّا قبض النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (۱۷۸)

خلاصہ یہ کہ یہ تین یا چار سندیں ایک ہی روایت کو بیان کرتی ہیں یہاں تک کہ ان میں بہت سے الفاظ اور جملے بھی ایک جیسے ہیں، ان چار سندوں میں سے صرف ایک سلسلۂ سند میں ابو مخنف ہیں۔

ب۔ دوسری بات جو اعتراض کے عنوان سے پیش کی گئی وہ یہ ہے کہ ابو مخنف اور ھشام بن کلبی دونوں ضعیف ہیں۔

ابو مخنف اور ان کی روایت پر اعتماد کے بارے میں حصہ اول میں تفصیل کے ساتھ بحث کی جاچکی ہے جس میں بیان کیا گیا کہ شیعہ علماء رجال نے ان پر مکمل اعتماد کیا ہے اور اہل سنت کے مورخین نے بھی معمولاً ان پر اعتماد کیا ہے اور بعض نے تو فقط ان کی روایت ہی کو نقل کرنے پر اکتفا کی ہے کیا یہ چیز ان کے قابل اعتماد ہونے کی نشاندھی نہیں کرتی ہے؟

اور ھشام بن کلبی بھی شیعہ علماء رجال کے نزدیک ایک معروف اور قابل اعتماد شخصیت ہیں جیسا کہ نجاشی ان کے بارے میں کھتے ہیں کہ وہ فضل و علم کے حوالے سے مشھور اور امام صادق علیہ السلام کے نزدیک ترین اصحاب میں سے تھے(۱۷۹) ۔

اہل سنت کے علماء نے فقط انھیں شیعہ ہونے کی وجہ سے "متروک" جانا ہے اور ظاھراً شیعہ ہونے کے علاوہ کوئی دوسری وجہ ضعیف ہونے کی ذکر نہیں کی، جیسا کہ ابن حبان نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ "وکان غالیاً فی التشیع"(۱۸۰) اور ذھبی کا کھنا ہے کہ "وترکوه کأبیه و کانا رافضین "(۱۸۱) ۔

لیکن یاقوت حموی کا کھنا ہے "الاخباری، النسّابه، العلامه، کان عالماً بالنسب واخبار العرب و ایامها و وقائعها و مثالبها "(۱۸۲) اخباری، نسابہ، علامہ اور عربوں کے شجرۂ نسب اور ان کے مختلف ادوار کے حالات و واقعات اور عیوب کے عالم تھے، یہ پوری عبارت ان کی علمی عظمت پر دلالت کرتی ہے لھٰذا ہمارے پاس کوئی ایسی خاص دلیل نہیں ہے کہ جس کی بنا پر انھیں چھوڑ دیا جائے اسی لئے ہم انھیں قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔

ج۔ البتہ یہ دعويٰ کہ عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ نے اس زمانہ کو درک نہیں کیا لھٰذا وہ اس واقعہ کا عینی شاھد نہیں ہوسکتا بالکل صحیح ہے اور اس طرح یہ روایت منقطع ہوکر رہ جائے گی لیکن یہ چیز کسی خاص مشکل کا سبب نہیں بنے گی اور اس اعتراض کے دو جواب ہیں، نقضی اور حلّی۔

نقضی جواب:

اول یہ کہ علماء کرام تاریخی واقعات کے متعلق روایات کی سند کے بارے میں کوئی خاص توجہ نہیں دیتے ہیں البتہ اس کا مطلب ھرگز یہ بھی نہیں کہ جس خبر کو جہاں سے سنا اسے قبول کرکے نقل کردیا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح فقھی روایات کی سند پر غور کیا جاتا ہے اس طرح کی توجہ یہاں نہیں کی جاتی بلکہ اگر کوئی خبر کسی ایسے عالم سے سنی جائے جو مشھور و معروف اور قابل اعتماد ہو اور عقلاء اس پر اطمینان کا اظھار کریں تو اسے کافی سمجھتے ہیں اور سند کے بجائے اس کے مضمون پر غور کرتے ہیں۔

دوسرے یہ کہ اگر پوری تاریخ کو سندی اعتبار سے دیکھا جائے تو شاید ہی تاریخ میں کوئی چیز باقی رہے۔ اس لئے کہ ایسی صورت میں اکثر روایات کو ختم کردیا جائے اور فقط ان صحیح روایات پر اکتفا کی جائے جو احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں تو ایسے میں گزشتہ واقعات کی صحیح تصویر پیش نہیں کی جاسکتی۔

تیسرے قابل توجہ بات یہ ہے کہ یھی احادیث کی کتابیں جب تاریخی واقعات کو بیان کرتی ہیں تو مرسل، منقطع و ۔ ۔ روایات سے پُر دکھائی دیتی ہیں، ہم یہاں بعنوان مثال فقط ان چند روایات کا تذکرہ کرتے ہیں جو واقعۂ سقیفہ کے بارے میں ہیں اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ معترض نے ابو مخنف کی روایت کے لئے جن روایات کا سھارا لیا ہے خود ان کا تعلق بھی "مرسلہ روایات" سے ہے۔

جو روایت مسند احمد بن حنبل(۱۸۳) میں حمید بن عبد الرحمٰن سے نقل ہوئی ہے یہ روایت ابوبکر اور عمر کے سقیفہ میں جانے نیز ابوبکر کی سقیفہ میں تقریر کہ جس میں انھوں نے انصار کی فضیلت اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کو نقل کیا ہے جس میں آپ نے فرمایا: "حکومت قریش میں ہونی چاھیے" اس کے بعد سعد بن عبادہ کی تصدیق اور بیعت کرنے کو بیان کرتی ہے۔

معترض نے بارہا ابو مخنف کے مطالب کو رد کرنے کے لئے اس روایت سے استفادہ کیا ہے جب کہ یہ بھی ایک "مرسلہ روایت" ہے، جیسا کہ ابن تیمیہ، جو اُن کے نزدیک شیخ الاسلام ہے "منھاج السنہ" میں اس روایت کے بارے میں کھتا ہے"هذا مرسل حسن "(۱۸۴) یہ روایت مرسل اور حسن ہے۔

اور عجیب بات تو یہ ہے کہ معترض نے حاشیہ پر خود ابن تیمیہ کا یہ جملہ نقل کیا ہے(۱۸۵) لیکن اپنے آپ سے یہ سوال نہیں کیا کہ آخر میں خود اس روایت کے مرسل ہونے کے باوجود کیوں اتنے وثوق سے اس پر عمل کر رہا ہوں۔

۱۔ وہ روایت جو ابن ابی شیبہ(۱۸۶) نے ابو اسامہ کے توسط سے بنی زریق کے ایک آدمی سے واقعہ سقیفہ کے بارے میں نقل کی ہے اور یہ روایت چونکہ بنی زریق کے نامعلوم شخص سے نقل ہوئی ہے لھٰذا یہ سندی ابھام سے دوچار ہے اس کے باوجود معترض نے اس روایت پر بھی اعتبار کیا ہے(۱۸۷) ۔

۲۔ وہ روایت جو "الطبقات الکبريٰ"(۱۸۸) میں قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق تمیمی سے نقل ہوئی ہے یہ روایت بھی مرسل ہونے کے باوجود معترض کے لئے قابل استناد ہے(۱۸۹)

یہ مرسلہ روایات کی چند مثالیں تھیں تاریخ کے دسیوں سیکڑوں ابواب میں سے ایک خاص باب کے بارے میں اور یھی روایات ان لوگوں کی نظر میں قابل اعتماد و استناد ہیں جو تاریخ کی اسناد کے بارے میں مختلف شکوک و شبھات پیدا کرتے ہیں۔

چوتھے یہ کہ خود معترض نے اپنی کتاب کے مقدمہ(۱۹۰) میں یہ بات کھی ہے کہ ایک مورخ کو فقط خبر پر نظر نہیں کرنی چاھیے بلکہ اس کے مختلف پھلوؤں پر بھی غور کرنا چاھیے، لھٰذا کسی خبر کے بارے میں اس کی صحت اور ضعف کا فیصلہ کرنا اس کے مختلف پھلوؤں کے مطالعہ کے بعد ہی صحیح ہے اس لئے کہ کبھی اس کا نتیجہ مسلّم حقائق کے انکار کا موجب بنتا ہے اور اپنے قول کی تائید کے سلسلے میں امام مالک کے اس قول کو بعنوان شاھد پیش کرتا ہے کہ "صحابہ کی بد گوئی نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بدگوئی کے مترادف ہے"۔

اس بنا پر اگر کوئی خبر کتنی ہی صحیح السند کیوں نہ ہو لیکن اگر وہ ایسے مطالب کو بیان کرے جو قابل قبول نہ ہوں مثال کے طور پر کسی صحابی کے عیوب و نقائص کو بیان کرتی ہو تو یہ روایت ان کے نزدیک ضعیف ہے، لھٰذا سند کی تحقیق کرنے سے پھلے اس کے مطالب پر نظر کی جائے کہ کھیں کسی کےمسلم نظریات سے تعارض نہ رکھتی ہو تو اگر اس خبر کے مطالب قابل قبول ہیں تو سند کو بھی صحیح کرلیا جائے گا!!

ایسی صورت میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے کلام کو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ جھاں اس نے کہا ہے کہ یہ حدیث مرسل و حسن ہے، یعنی مرسل بھی ہے اور حسن بھی، اور اس طرح ابن عدی کے کلام کو ابو مخنف کے بارے میں بھی بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ ابن عدی کا کھنا ہے کہ ابو مخنف نے ایسی روایات کو نقل کیا ہے کہ دل نہیں چاھتا کہ انھیں نقل کیا جائے(۱۹۱) در حقیقت ابو مخنف کے ضعیف ہونے کا سبب ان کی روایات کا متن اور مضمون ہے جو ان کے مفروضہ نظریات کے خلاف ہے۔

لھٰذا تاریخ کی سند میں غور و فکر اور شک و شبہ کے دعويٰ کی نہ کوئی حقیقت ہے اور نہ کوئی گنجائش ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دعویدار اس قسم کی باتوں سے اپنے مخالفین کے وجود سے میدان کو صاف کرنا چاھتے ہیں، لیکن جب بات اپنی اور اپنے عقائد کے اثبات کی آجاتی ہے تو پھر روایت کا متن اور اس کے مطالب ہی سب کچھ ہوتے ہیں (اور پھر سند کی صحت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا)۔

حلّی جواب:

ممکن ہے کہ سلسلۂ اسناد میں سے کلمۂ "عن" حذف ہوگیا ہو یعنی در حقیقت اس طرح ہو۔ عبداللہ بن عبدالرحمن [ عن ابیہ] عن ابی عمرة الانصاری یہ محض ایک ضعیف احتمال نہیں ہے بلکہ اس کی بھت سی مثالیں موجود ہیں، اس کے علاوہ ہم اس مطلب کی تائید کے لئے شواھد اور قرائن بھی رکھتے ہیں اور وہ یہ کہ ابن اثیر کھتا ہے "قال ابو عمرة الانصاری"(۱۹۲) یہ بات اس چیز کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جو نسخہ اس کے پاس موجود تھا اس میں اس روایت کو ابو عمرة انصاری سے نقل کیا گیا ہے نہ عبداللہ بن عبد الرحمٰن سے اور اگر بالفرض اس احتمال کو قبول نہ کریں تو یہ بات واضح ہے کہ جب عبداللہ بن عبدالرحمٰن خود اس واقعہ کا شاھد عینی نہیں ہے تو یقیناً اس نے یہ خبر اپنے والد اور اس کے والد نے ابی عمرة انصاری (اس کے دادا) سے نقل کی ہے، اور عزیز و اقارب میں سلسلۂ سند کا حذف کر دینا اس دور میں ایک معمول تھا۔

اس کے علاوہ ان تینوں (ابو مخنف، جوھری اور دینوری) کی نقل شدہ روایات کے سلسلۂ اسناد میں جو معروف افراد اور علماء موجود ہیں یہ خود روایات کے متن اور اس کے صحیح ہونے پر دلیل ہیں۔ خاص طور پر وہ روایت کہ جسے جوھری نے نقل کیا ہے اس میں ایسے اشخاص موجود ہیں کہ جن کے بارے میں اہل سنت مکمل اعتماد و اطمینان کا اظھار کرتے ہیں، جیسے احمد بن سیارکو ابن ابی حاتم اور دار قطنی نے قابل اعتماد کہا ہے(۱۹۳) ، نیز سعد بن کثیر کو ابن ابی حاتم نے صدوق (بھت زیادہ سچ بولنے والا) کہا ہے اور وہ کھتا ہے کہ وہ دوسروں کی کتابوں سے نقل کرتا تھا(۱۹۴) ، اور انھیں کے بارے میں ذھبی کا کھنا ہے کہ "کان ثقة، اماماً، من بحور العلم"(۱۹۵) وہ ثقہ، امام اور علم کے سمندروں میں سے تھے۔ یقینی طور پر اس قسم کے برجستہ اور قابل اعتماد افراد ہر خبر کو آسانی سے نقل نہیں کرتے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی بھی قسم کا کوئی اعتراض ابو مخنف کی روایت کی سند پر وارد نہیں ہوتا ہے۔

دوسرا اعتراض؛ سعد بن عبادہ کی تقریر کے تنھا راوی ابو مخنف ہیں

یعنی ابو مخنف کی روایت ہی میں فقط سعد بن عبادہ کی تقریر کا ذکر آیا ہے جس میں انھوں نے انصار کو حکومت کے لئے سب سے زیادہ مستحق کہا ہے(۱۹۶) ۔

جواب:

پھلی بات تو یہ کہ سعد بن عبادہ کی وھی تقریر مزید تین سلسلوں سے نقل ہوئی ہے اور وہ تین سلسلے جوھری، دینوری اور ابن اثیر ہیں جنھوں نے اسے ذکر کیا ہے اور اگر فرض کر بھی لیا جائے کہ سعد بن عبادہ کی تقریر کو فقط ابو مخنف نے نقل کیا اور کسی دوسرے راوی نے اسے نقل نہیں کیا تو جب بھی یہ چیز اس کی نفی پر دلیل نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ عموماً وہ تمام روایات جو اہل سنت سے سقیفہ کے بارے میں نقل ہوئی ہیں نھایت ہی مختصر اور نقل بہ معنی ہیں سوائے اُس روایت کے کہ جو سقیفہ کے بارے میں عمر کے خطبہ پر مشتمل ہے کہ وہ ایک طویل خطبہ میں سقیفہ کے ماجرے کو بیان کرتے ہیں، عمر کا خطبہ اس لحاظ سے کہ وہ واقعۂ سقیفہ کے عینی شاھد اور خلافت کے امید واروں میں سے ایک تھے خاصی اہمیت کا حامل ہے یہ خطبہ تاریخ اور احادیث کی معتبر کتابوں میں نقل ہونے کی(۱۹۷) وجہ سے ایک اہم سند شمار ہوتا ہے، وہ مطالب جو عمر کے خطبہ میں بیان ہوئے ہیں اگر چہ ابو مخنف کی روایت سے تھوڑے سے مختلف ہیں لیکن مجموعی طور پر ابو مخنف کی روایت کے اصلی اور بنیادی مطالب کی تائید کرتے ہیں، یہ بات آئندہ کی بحث میں روشن ہوجائے گی۔

اگر چہ عمر اپنے خطبہ میں سعد بن عبادہ کی تقریر کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے

لیکن یہ بات یقین سے کھی جاسکتی ہے کہ اس سے پھلے کہ ابوبکر اور عمر انصار کے اجتماع سے باخبر ہوتے اور سقیفہ پھنچتے سعد بن عبادہ کی مختصر سی تقریر ختم ہوچکی تھی۔ لھٰذا جب انھوں نے سعد بن عبادہ کی تقریر کو سنا ہی نہیں تو وہ اس کی طرف کیا اشارہ کرتے۔لیکن یہ بات کہ انصار سقیفہ میں اپنے آپ کو امر حکومت کے لئے زیادہ سزاوار سمجھ رہے تھے ابو مخنف کی روایت میں سعد بن عبادہ کے قول کی روشنی میں نقل ہوئی ہے اور اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں اس لئے کہ سقیفہ میں انصار کے خطباء کی تقاریر سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے جیسا کہ عمر نے اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم تھوڑی دیر بیٹھے تو انصار کے خطیب نے خدا کی حمد و ثناء کی اس کے بعد کہا (اما بعد نحن انصار الله و کتبیة الاسلام وانتم معشر المهاجرین رهط )(۱۹۸) یعنی ہم خدا کے انصار اور اسلام کے لشکر ہیں جب کہ تم لوگ گروہ مھاجرین سے ہو اور راندۂ درگاہ ہو، اگر چہ عمر نے اس خطیب کا نام نہیں لیا لیکن وہ خطیب حباب بن منذر انصاری تھا(۱۹۹) ، بھر حال انصار کے خطیب کی یہ تقریر ان کے امر خلافت میں اپنے آپ کو سب سے زیادہ مستحق سمجھنے کی دلیل ہے اور اگر معترض کا کھنا یہ ہے کہ خود سعد بن عبادہ اس قسم کی کوئی فکر نہ رکھتا تھا تو یہ بات قطعی طور پر غلط ہے اس سلسلے میں ہم آئندہ مزید بحث کریں گے۔

تیسرا اعتراض؛ انصار نے سقیفہ میں موجودہ مھاجرین کی مخالفت نہیں کی

ابو مخنف نے انصار کے بارے میں جو یہ کہا ہے کہ "جب انھوں نے آپس میں یہ فیصلہ کر لیا کہ امر ولایت سعد بن عبادہ کے سپرد کردیا جائے تو پھر کھنے لگے کہ اگر قریش کے مھاجرین نے اسے قبول نہ کیا اور وہ کھنے لگے کہ ہم مھاجر اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سب سے پھلے صحابی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ تو سعد نے ان کی مخالفت میں یہ کہا کہ یہ تمھاری پھلی غلطی ہوگی" یہ جملے اس بات پر دلیل ہیں کہ انصار پھلے ہی سے مھاجرین کی مخالفت کرنے کے سلسلے میں اتفاق رکھتے تھے جب کہ یہ چیز بالکل غلط ہے اس لئے کہ صحیح روایات اس چیز کو بیان کرتی ہیں کہ انصار رضی اللہ عنہم، ابتدا میں اپنے اجتھاد کے مطابق اور حکم سے ناواقفیت کی وجہ سے سعد کی بیعت کرنا چاھتے تھے یھی وجہ تھی کہ جب ابوبکر نے امر ولایت کے سلسلے میں صحیح حکم ان تک پھونچا دیا تو ان سب نے اسے قبول کرلیا اور کسی نے بھی اس کی مخالفت نہ کی(۲۰۰) ۔

جواب

۔ یہ اعتراض دو دعوؤں پر مشتمل ہے۔

پھلے تو یہ کہ صحیح روایات اس چیز کو بیان کرتی ہیں کہ انصار ابتداء میں اپنے اجتھاد اور صحیح حکم کے نہ جاننے کی وجہ سے سعد کی بیعت کرنا چاھتے تھے۔

دوسرے یہ کہ جب ابوبکر نے صحیح حکم ان کے سامنے بیان کیا تو سب نے اسے قبول کرلیا اور کسی نے بھی اس کی مخالفت نہ کی۔

معترض کے یہ دونوں دعوے باطل ہیں۔

پھلا دعويٰ یہ کہ اس نے گذشتہ بیان کی نسبت صحیح روایات کی طرف دی ہے یہ ایک بے بنیاد بات ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے اس لئے کہ ہم نے بے انتھا تحقیق اور اصل مضامین میں نھایت تلاش و جستجو کے بعد بھی ایسی کوئی روایت نہیں پائی جو یہ بیان کرتی ہو کہ انصار حکم نہ جاننے اور اپنے اجتھاد کی روشنی میں سعد کی بیعت کرنا چاھتے تھے اور خود معترض نے جتنی بھی روایات اپنی کتاب میں ذکر کی ہیں ان میں سے ایک بھی اس قسم کے مطلب کو بیان نہیں کرتی لھٰذا معترض کے لئے ضروری تھا کہ وہ ایسی صورت میں صحیح روایات کے معنی کو مزید واضح طور پر بیان کرتا۔

صرف بعض روایات میں یہ ملتا ہے کہ انصار ابوبکر کی وہ تقریر سننے کے بعد جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ہم امیر ہیں اور تم وزیر، ابوبکر کی بیعت کرنے پر راضی ہوگئے(۲۰۱)

اور اسی طرح ایک دوسری روایت میں یہ ملتا ہے کہ سعد بن عبادہ نے ابوبکر کی اس بات کی تصدیق کی کہ ولایت و حکومت قریش میں ہونی چاھیے، اس روایت کے قرینوں سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ سعد بن عبادہ نے بغیر کسی اعتراض کے ابوبکر کی بیعت کرلی تھی(۲۰۲) لیکن اس قسم کی روایات اہل سنت کی ان روایات سے تعارض رکھتی ہیں جو صحیح السند ہیں ہم اس مطلب کی وضاحت دوسرے دعوے کے جواب میں کریں گے۔

لیکن جو چیز قابل توجہ ہے وہ یہ کہ عام طور سے انصار صاحبِ نظر تھے اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بعض جنگوں میں ان کی رائے کے مطابق عمل کیا کرتے تھے(۲۰۳) ، ابوبکر نے بھی سقیفہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس روایت کی طرف اشارہ کیا تھا جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اگر تمام لوگ ایک طرف جائیں اور انصار دوسری طرف تو میں اسی طرف جاؤں گا جس طرف انصار گئے ہیں(۲۰۴) ۔

ان تمام اوصاف کے ہوتے ہوئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انصار نادان اور ہر چیز سے بے خبر تھے اور فقط صحیح حکم کے جاننے کی وجہ سے سعد بن عبادہ کی بیعت کرنا چاھتے تھے اور جب ابوبکر نے انھیں صحیح حکم سے آگاہ کیا تو سب نے اسے قبول کرلیا کیا یہ بات حقیقت سے دور نہیں ہے؟ کیا یہ انصار اور اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تحقیر نہیں ہے؟ کیا حقیقتاً انصار اس قدر جاہل اور ابوبکر کی تقریر کے دو جملوں کے محتاج تھے؟

اس کے علاوہ اگر ابوبکر کی تقریر پر غور کریں تو اس میں کوئی بات ایسی نہیں تھی کہ جس کا حکم انصار پھلے ہی سے نہ جانتے ہوں لھٰذا ضروری ہے کہ اعتراض کرنے والوں سے یہ پوچھا جائے کہ آخر ابوبکر نے انصار کو ایسا کون سا حکم سنایا تھا جو ان سے پوشیدہ تھا؟ ابوبکر نے انصار کی فضیلت اور ان کے جھاد کا ذکر کیا تھا جس کے بارے میں وہ خود ان سے بھتر جانتے تھے، ابوبکر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سببی رشتے دار تھے یہ بھی سب جانتے تھے اور اس روایت کے مطابق کہ جو نقل کی گئی کہ خلافت اور خلیفہ کا تعلق قریش سے ہوگا(۲۰۵) ، یہ بھی انصار بخوبی جانتے تھے جس کی دلیل یہ ہے کہ وہ روایت یہ بھی کھتی ہے کہ سعد بن عبادہ نے یہ روایت پھلے سے سن رکھی ہے اور اس سلسلے میں ابوبکر کی تصدیق بھی کی تھی(۲۰۶) ، خلاصہ یہ کہ آخر وہ کیا حکم تھا جو انصار سے پوشیدہ تھا اور ابوبکر نے اسے ان کے سامنے بیان کیا تھا؟!

اور دوسرا دعويٰ کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ابوبکر کی تقریر کے بعد سب نے اسے قبول کرلیا اور کسی نے بھی اس کی مخالفت نہ کی یہ بھی مکمل بے بنیاد ہے اگرچہ اہل سنت کی بعض روایتیں اس دعوے کی تصدیق کرتی ہیں کہ تمام انصار ابوبکر کے سامنے مکمل طور سے تسلیم ہوگئے اور کھنے لگے خدا کی پناہ جو ہم ابوبکر پر سبقت کریں(۲۰۷) جیسا کہ وہ روایت ہے کہ جس میں سعد بن عبادہ نے ابوبکر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حاکم قریش سے ہونا چاھیے(۲۰۸) اور مزید چند روایتیں کہ جن میں کہا گیا ہے کہ انصار نے ابوبکر کی بیعت کی۔

لیکن ہم اس کے جواب میں یھی کھیں گے کہ ان دو حدیثوں میں سے ایک حدیث مرسل ہے جسے ابن تیمیہ نے مرسل حسن کہا ہے اور دوسری حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے(۲۰۹) ، لھٰذا یہ حدیث ھرگز ایسے افراد کی طرف سے سند کے طور پر پیش نہیں کی جاسکتی جو صرف یہ چاھتے ہیں کہ تاریخ میں فقط صحیح احادیث کا سھارا لیا جائے، اس کے علاوہ یہ روایتیں ان دو روایتوں سے تعارض رکھتی ہیں جو اہل سنت کے نزدیک مقبول و معروف ہیں نیز یہ اہل سنت کے عظیم مورخین کے اقوال سے بھی تعارض رکھتی ہیں جس کی چند مثالیں آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

۱۔ عمر نے اپنے مشھور و معروف خطبہ میں واقعۂ سقیفہ کو اس طرح بیان کیا ہے کہ جب ابوبکر کی تقریر ختم ہوگئی اور انھوں نے کہا کہ ان دو افراد (عمر یا ابو عبیدہ) میں سے کسی کی بیعت کر لو تو انصار کا ایک آدمی کھڑا ہوا اور کھنے لگا "منّا امیر ومنکم امیر یا معشر قریش" اب اگر انصار سب کے سب ابوبکر کے سامنے تسلیم تھے (جیسا کہ اعتراض کرنے والے نے کہا ہے) تو پھر کیا وجہ تھی کہ قریش حکومت کو قبول نہیں کر رہے تھے اور چاھتے تھے کہ ان میں سے بھی ایک امیر ہو؟

۲۔ اگر ایسا ہی تھا کہ جیسا اعتراض کرنے والا شخص کہہ رہا ہے کہ جب ابوبکر نے انصار کے لئے صحیح حکم کو بیان کیا تو سب نے قبول کرلیا اور کسی نے بھی اس کی مخالفت نہ کی تو پھر یہ عمر اپنے خطبہ میں کیا کہہ رہے ہیں کہ جب ابوبکر کی تقریر ختم ہوگئی اور انصار کے خطیب نے اپنا الگ امیر بنانے کا اعلان کیا تو "فکثر اللغط وارتفعت الاصوات حتی فرقت من الاختلاف " ایک ھنگامہ اور شور و غل کا سماں تھا کہ مجھے وھاں اختلاف پیدا ہونے کا خدشہ ہوگیا، سوال یہ ہے کہ اگر سب نے قبول کرلیا تھا تو پھر یہ ھنگامہ آرائی اور شور و غل کیسا تھا کہ عمر نے کہا کہ مجھے ڈر تھا کہ کھیں اختلاف نہ پھوٹ پڑے؟

کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انصار اس حکومت کو قبول کرنا نہیں چاھتے تھے؟ یا یہ کہ خود ان کے درمیان آپس میں اختلاف تھا، بھر حال ان تمام باتوں کی روشنی میں یہ دعويٰ بالکل بے بنیاد اور کھوکھلا ہے کہ یہ کہا جائے کہ ابوبکر کی تقریر سننے کے بعد تمام انصار نے اسے قبول کرلیا تھا اور کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی تھی!

۳۔ عمر اپنے اسی خطبے کے آخر میں کھتے ہیں کہ "خشینا ان فارقنا القوم ولم تکن بیعة ان یبایعوا رجلاً منهم بعدنا " یعنی ہمیں اس بات کا ڈر تھا کہ کھیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس قوم سے بیعت لئے بغیر جدا ہوجائیں اور یہ اپنے ہی میں سے کسی آدمی کی بیعت کرلیں، یہ عبارت واضح طور پر انصار کی نظر اور ان کی رائے کو منعکس کر رہی ہے کہ وہ ابوبکر اور عمر پر کسی بھی قسم کا اعتماد نہ رکھتے تھے اس کے علاوہ ابوبکر اور عمر کی تقریر کے بعد بھی وہ یھی چاھتے تھے کہ اپنے ہی افراد میں سے کسی کی بیعت کرلیں۔

۴۔ ابن ابی شیبہ نے ابو سامہ سے جو روایت نقل کی ہے(۲۱۰) اس میں کہا گیا ہے کہ جب ابوبکر قریش کے فضائل بیان کر چکے تو اس کے بعد کہا کہ آؤ اور عمر کی بیعت کرو تو انھوں نے منع کردیا عمر نے کہا کیوں؟ تو انصار نے کہا کہ انانیت و خود خواھی سے ڈر لگتا ہے(۲۱۱) ، لھٰذا سوال پیدا ہوتا ہے اگر انصار ابوبکر پر مکمل اعتماد کرتے تھے تو پھر عمر کے بارے میں کیوں ابوبکر کی پیش کش کو رد کردیا؟

۵۔ وہ روایت جو "الطبقات الکبريٰ"(۲۱۲) میں ذکر ہوئی ہے "قال: لما ابطأ الناس عن ابی بکر، قال: من احقّ بهذا الأمر منّی؟ ألستُ اول من صلی؟ ألست؟ قال: فذکر خصالاً فعلها مع النبی " اور جب لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کرنے میں سستی اور بے رغبتی کا مظاھرہ کیا تو انھوں نے کہا کہ کون اس منصب کے لئے مجھ سے زیادہ سزاوار ہے کیا وہ میں نہیں ہوں کہ جس نے سب سے پھلے نماز پڑھی اور کیا میں وہ نہیں کیا میں وہ نہیں وغیرہ وغیرہ (راوی کا بیان ہے کہ) پھر وہ تمام کام جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ انجام دئے تھے بیان کئے، یہ روایت بھی بخوبی انصار کی ابوبکر سے بے رغبتی پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اس بات پر مجبور ہوگئے کہ اپنی تعریفیں خود ہی کرنے لگے تاکہ انصار سے اپنی بات منوائی جاسکے، اگر چہ ہم ان فضیلتوں پر بھی یقین نہیں رکھتے ہیں اس لئے کہ یقینی طور پر ابوبکر وہ پھلے آدمی نہیں ہیں جنھوں نے نماز پڑھی ہے۔

۶۔ ابن اثیر سقیفہ کے واقعات کے بارے میں لکھتا ہے کہ ابوبکر نے کہا کہ میں اس بات پر راضی ہوں کہ تم عمر یا ابوعبیدہ میں سے کسی ایک کی بیعت کرلو تو ایسے میں تمام یا بعض انصار نے کہا کہ ہم حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور کی بیعت نہیں کریں گے(۲۱۳) ، یہ مطلب اس چیز کو ثابت کرتا ہے کہ انصار حضرت علی علیہ السلام سے زیادہ کسی کو اس امر کا سزاوار نہیں سمجھتے تھے اور شیخین کی طرف کسی قسم کی کوئی خاص رغبت نہیں رکھتے تھے اور اگر شیخین بیعت کے معاملے میں جلدی نہ کرتے تو حالات کی نوعیت کچھ اور ہوتی جس کی طرف عمر نے اپنے خطبہ میں اشارہ بھی کیا ہے۔

۷۔ بہت سے شواھد موجود ہیں کہ سعد بن عبادہ نے کسی بھی صورت ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی، ہم اس سلسلے میں بھت جلد بحث کریں گے، لھٰذا یہ دعويٰ کہ ابوبکر کی بیعت سے کسی ایک شخص نے بھی انکار نہ کیا کم از کم سعد بن عبادہ کے بارے میں صحیح نہیں ہے، اور اس بات سے صرف نظر کرتے ہیں کہ بھت سے افراد نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی اور یہ کہ سعد بن عبادہ ان میں سے ایک تھا، لھٰذا وہ روایت جو اعتراض کرنے والے نے پیش کی ہے کہ سعد بن عبادہ نے ابوبکر کی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ "حکومت قریش میں ہونی چاھیے" ان کی بیعت کرلی تھی، مرسلہ ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت سے بالکل دور اور محض جھوٹ ہے۔

۸۔ مسعودی مختصر مگر واضح طور پر سقیفہ کے واقعہ کو اس طرح بیان کرتا ہے "فکانت بینہ و بین من حضر من المھاجرین فی السقیفۃ منازعة طویلة و خطوب عظیمة"(۲۱۴) یعنی اس کے اور سقیفہ میں حاضر بعض مھاجرین کے درمیان کافی دیر تک لڑائی جھگڑا اور تلخ کلامی ہوتی رہی۔ ان تمام دلیلوں اور شواھد کی روشنی میں اب اس بے بنیاد دعوے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ جس میں کہا گیا ہے کہ تمام انصار ابوبکر کے سامنے تسلیم ہوگئے تھے اور بڑے تعجب کی بات ہے کہ کیا اعتراض کرنے والے نے ان تمام شواھد اور دلیلوں کو نہیں دیکھا؟ یا یہ کہ تعصب کی بنا پر ان حقائق سے انھوں نے اپنی آنکھیں بالکل بند کرلیں اسی لئے انھیں بالکل نظر انداز کردیا ہے!

چوتھا اعتراض؛ واقعہ سقیفہ کے وقت حضرت علیعليه‌السلام پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غسل میں مشغول نہ تھے

"ابو مخنف کی روایت کچھ مطالب کے بیان کرنے میں دوسرے اکثر مصادر و مآخذ سے تعارض رکھتی ہے (مثال کے طور پر) ابو مخنف کی روایت میں ہے کہ جب عمر کو (انصار کے سقیفہ میں جمع ہونے کی) خبر ملی تو وہ سیدھے وھاں سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر گئے جھاں ابوبکر موجود تھے اور حضرت علی علیہ السلام مکمل توجہ کے ساتھ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تکفین میں مصروف تھے یہ خبر اس خبر صحیح سے تعارض رکھتی ہے جو یہ بیان کرتی ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجہیز و تکفین منگل کے دن شروع ہوئی جب کہ واقعہ سقیفہ پیر کے دن رونما ہوا۔ اور اسی طرح مالک اور دوسرے افراد سے جو روایت نقل ہوئی ہے کہ اس میں یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے جناب فاطمہعليه‌السلام کے گھر گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی نیز ابن اسحاق کا کھنا ہے کہ جب ابوبکر کی بیعت ہوگئی تو لوگ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تکفین کے لئے آئے اور اسی بات کو طبری نے ذکر کیا ہے اور ابن کثیر نے پانچ مقام پر یہ کہا ہے اور ابن اثیر نے بھی اسی کو نقل کیا ہے ۔"(۲۱۵)

جواب۔

یہ اعتراض، جو ایک خاص اور اصلی نکتہ کی طرف اشارہ کرتا ہے وہ یہ کہ حضرت علی علیہ السلام پیر کے دن جس دن واقعۂ سقیفہ پیش آیا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غسل و کفن میں مصروف نہ تھے، اس لئے کہ پھلی بات تو یہ کہ صحیح روایات کا کھنا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجھیز و تکفین منگل کے دن شروع ہوئی اور دوسری روایات یہ بتاتی ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام جناب فاطمہعليه‌السلام کے گھر میں گوشہ نشین تھے۔

در حقیقت یہ اعتراض بالکل بے بنیاد اور حقیقت سے بھت دور ہے اور اس کی دونوں دلیلیں باطل ہیں اس سے پھلے کہ ہم اس اعتراض کی دونوں دلیلوں کے بارے میں بحث کریں اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تکفین سے مراد ان کا غسل و کفن ہے تو یقینی طور پر اس کام کو حضرت علیعليه‌السلام ہی نے انجام دیا تھا جس میں جناب عباس بن عبدالمطلب، فضل بن عباس اور چند خاص افراد نے آپ کی مدد کی تھی، اگر چہ یہ بات اتنی واضح ہے کہ جس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں لیکن نمونہ کے طور پر چند مقام کو بیان کرتے ہیں۔

۱۔ ابن ھشام نے "السیرة النبویہ"(۲۱۶) میں واضح طور پر کہا ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حضرت علیعليه‌السلام نے غسل دیا۔

۲۔ بلاذری نے "انساب الاشراف"(۲۱۷) میں بھت سی روایات ذکر کی ہیں اور تمام روایتیں اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے ہی پیغمبر کو غسل دیا تھا اور اسی طرح ایک روایت (جو ابو مخنف کی روایت کی تائید کرتی ہے) وہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جب علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور عباس، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تکفین میں مشغول تھے تو دو آدمی آئے اور ابوبکر کو سقیفہ کی کاروائی کی اطلاع دی(۲۱۸) ۔

۳۔ ابن جوزی نے "المنتظم"(۲۱۹) میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غسل کی جزئیات کو مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جسے حضرت علی علیہ السلام نے انجام دیا تھا۔

۴۔ یعقوبی(۲۲۰) نے بھی عتبہ بن ابی لھب کا حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں یہ شعر نقل کیا ہے "ومن لہ جبرئیل عون لہ فی الغسل والکفن" یعنی حضرت علی علیہ السلام وہ ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غسل و کفن میں جبرئیل ان کے مددگار تھے۔

۵۔ ابن اثیر نے بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غسل دینے والوں میں حضرت علی علیہ السلام، عباس، فضل، قثم، اسامہ بن زید اور شقر ان کا نام لیا ہے(۲۲۱) ۔

لھٰذا اس بات میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے ہی خاص افراد کے ساتھ مل کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو غسل دیا تھا۔

لھٰذا یہ بات یقین سے کھی جاسکتی ہے کہ خود معترض اور ہر وہ محقق جو تاریخ کے بارے میں ذرا بھی معلومات رکھتا ہو وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا، اب اس نکتہ کی طرف توجہ کے بعد اعتراض کرنے والے کی دونوں دلیلوں کے بارے میں بحث و تبصرہ کرتے ہوئے ان کا حال معلوم کرتے ہیں۔

پھلی دلیل: اعتراض کرنے والے کا کھنا ہے کہ صحیح روایات کے مطابق پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تکفین منگل کے دن شروع ہوئی، لھٰذا ابو مخنف کی روایت میں جو یہ بات موجود ہے کہ سقیفہ کے دن جو پیر کا دن تھا حضرت علی علیہ السلام پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجھیز و تکفین میں مشغول تھے یہ بھت سی روایات سے تعارض رکھنے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہے۔

لیکن جب ہم نے معترض کے کلام کے ثبوت میں حاشیے پردئے گئے ان کے حوالوں کے مطابق سیرۂ ابن ھشام کی طرف رجوع کیا تو وھاں اس قسم کی کوئی روایت موجود نہ تھی کہ جو یہ بیان کر رہی ہو کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تکفین منگل کے دن شروع ہوئی بلکہ ابن ھشام نے ایک جگہ یہ کہا ہے(۲۲۲) کہ "لوگ ابوبکر کی بیعت کے بعد منگل کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تدفین کے لئے گئے" یہ وھی مضمون ہے کہ جسے معترض نے ابن اسحاق سے بھی نقل کیا ہے جس کی عربی عبارت یہ ہے۔ "لمّا بویع ابوبکر اقبل الناس علی جھاز رسول اللہ یو الثلاثا، طبری اور دوسرے افراد نے بھی اسی قسم کا مضمون نقل کیا ہے۔

یہ جملہ معترض کے دعوے کے برعکس یہ بیان کرتا ہے کہ لوگ ابوبکر کی بیعت کے بعد منگل کے دن تجھیز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے لئے پھنچے اور اس میں اس بات کا ذکر نہیں ہے

کہ پھنچنے کے بعد انھوں نے کیا کیا، جو شخص کچھ بھی سمجھدار ہوگا وہ بآسانی جان لے گا کہ معترض کے جملے "پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تکفین منگل کے دن شروع ہوئی" اور ابن اسحاق، ابن ھشام اور دوسرے افراد کے اس جملے میں "لوگ ابوبکر کی بیعت کے بعد منگل کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تکفین کے لئے پھنچے" میں کس قدر فرق ہے اور یہ نھایت افسوس کی بات ہے! (کہ مطلب کو موڑ توڑ کے پیش کیا گیا) اب روایت کے مضمون کی روشنی میں یہ بیان کرتے ہیں کہ روایت جو چیز بیان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ لوگ ابوبکر کی بیعت کے بعد منگل کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تکفین کے لئے پھنچے، لیکن اس چیز کو بیان نہیں کرتی کہ لوگ کس حد تک تجھیز و تکفین میں حصہ لے سکے، اب جب کہ یہ بات روشن ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حضرت علی علیہ السلام نے غسل دیا تھا تو اس سے کھاں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تکفین میں کوتاھی سے کام لیا اور اسے بعد کے لئے ٹال دیا؟ اور یہ کہ لوگوں کا منگل کے دن پیغمرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تکفین کی طرف متوجہ ہونا کس طرح اس بات پر دلیل بن سکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام پیر کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تکفین سے فارغ نہیں ہوئے تھے۔

اس کے علاوہ اگر دوسرے افراد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تکفین سے زیادہ اہم کام میں مصروف تھے یعنی وہ سقیفہ میں حکومت کے لئے ایک دوسرے سے زور آزمائی کر رہے تھے تو حضرت علی علیہ السلام کسی بھی کام کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تکفین پر ترجیح نہیں دے رہے تھے، پھر آخر کس وجہ سے وہ اس کام میں تاخیر کرتے؟ اور یہ ایسی چیز ہے کہ جسے بعض روایات سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ جب بعض انصار نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا کہ اگر آپ ابوبکر سے پھلے بیعت کا مطالبہ کرتے تو کوئی بھی شخص آپ کے بارے میں اختلاف نہ کرتا تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا تم لوگ یہ کھنا چاھتے ہو کہ میں حکومت حاصل کرنے کے لئے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جنازے کو اسی حالت میں چھوڑ دیتا؟!(۲۲۳) اور جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ جب عمر اور ان کے دوست و احباب حضرت علی علیہ السلام سے بیعت طلب کرنے کے لئے جناب فاطمہعليه‌السلام کے دروازے پر آئے تو انھوں نے دروازے کے پیچھے سے عمر کو خطاب کرتے ہوئے کھا:

"ترکتم رسول الله جنازة بین ایدینا وقطعتم امرکم بینکم "(۲۲۴) یعنی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جنازے کو ہمارے سامنے چھوڑ کر تم نے اپنا کام کر دکھایا، یہاں ہم اس بات سے صرف نظر کرتے ہیں کہ اس وقت خاندان رسالت پر کیا گذر رہی تھی۔

بعض مورخین کی عبارتیں بھی اسی امر کی تائید کرتی ہیں جیسا کہ مسعودی اس بارے میں کھتا ہے کہ "جب بعض افراد سقیفہ میں نزاع میں مشغول تھے تو حضرت علی علیہ السلام، عباس اور بعض دوسرے مھاجرین پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجھیز و تکفین کر رہے تھے"(۲۲۵) ، نیز ابن ھشام کا کھنا ہے "جب ابوبکر کو سقیفہ کی کاروائی کی اطلاع دی تو اس وقت تک پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز مکمل نہ ہوئی تھی"، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ تجھیز شروع تو ہوچکی تھی مگر مکمل نہ ہوئی تھی(۲۲۶) ، یہ بیان ابن ھشام کی ایک نقل کی بنا پر تھا جب کہ وہ دوسری جگہ کھتا ہے "فلما فرغ من جهاز رسول الله یوم الثلاثاء "(۲۲۷) یعنی جب منگل کے دن پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجھیز و تکفین مکمل ہوئی ۔ ۔ ۔، یہ عبارت بھی اعتراض کرنے والے کے دعوے کے مضمون سے مطابقت نہیں رکھتی اس لئے کہ اس عبارت میں کہا گیا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تکفین منگل کے دن مکمل ہوئی جب کہ معترض کا کھنا تھا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تکفین منگل کے دن شروع ہوئی، ان دو عبارتوں کا فرق واضح ہے اور نہ فقط یہ کہ ایک معنی میں نہیں بلکہ ممکن ہےکہ یہ آپس میں ایک دوسرے کے معارض بھی ہوں اور عجیب بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے نے ایسا مکمل واضح اور روشن بیان ہونے کے باوجود ابن ھشام کی اسی عبارت کا حوالہ دیا ہے جب کہ اگر پھلی عبارت کا حوالہ دیتا تو شاید کچھ بات بھی بنتی۔

ان تمام باتوں کے علاوہ ابن اسحاق اور ابن ھشام کی عبارتیں بنیادی طور پر آپس میں ایک دوسرے سے معارض ہیں اور وہ روایات یہ ہیں جو یہ بیان کرتی ہیں کہ "پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسی دن عصر کے وقت یا منگل کی شب کو دفن ہوئے" اگر ان روایات کو قبول کرلیا جائے تو پھر ابن ھشام کی یہ روایت جس میں کہا گیا ہے کہ "پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجھیز و تکفین منگل کے دن مکمل ہوئی" شاید اور سند کے طور پر پیش نہیں کی جاسکتی اس لئے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سے پھلے دفن ہوچکے تھے۔

البتہ یہ کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کس دن دفن ہوئے اس بارے میں روایات اور اقوال بھت ہی زیادہ مختلف ہیں جس کی وجہ سے یقینی طور پر کسی نتیجہ تک پھنچنا بھت مشکل ہے البتہ بعض قرائن اور شواھد کی بناء پر بعض اقوال کو بعض پر ترجیح دی جاسکتی ہے، شیخ مفید نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفن ہونے کا وقت وھی پیر کا دن بیان کیا ہے(۲۲۸) بعض روایات میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تدفین کا دن منگل کہا گیا ہے جیسے عائشہ کی روایت، وہ کھتی ہیں کہ "ہم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دفن سے اس وقت آگاہ ہوئے جب منگل کی رات، وقت سحر بیلچوں کی آوازیں سنیں"(۲۲۹) ، بعض دیگر افراد نے بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تدفین کا دن منگل ہی بتاتی ہے، جیسے کہ ابن اثیر(۲۳۰) نے اور بعض نے بدھ کے دن کو بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تدفین کا دن کہا ہے(۲۳۱)

ہماری نگاہ میں یہ قول کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسی پیر کے روز یا منگل کی شب کو دفن ہوئے دوسرے اقوال پر زیادہ ترجیح رکھتا ہے اس لئے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پیر کے روز میں وفات پائی(۲۳۲) اور حضرت علیعليه‌السلام نے بغیر کسی تاخیر کے اپنے احباب کے ساتھ مل کر آپ کو غسل و کفن دیا، اس کے بعد آپ نے انفرادی طور پر آنحضرت کی نماز جنازہ ادا کی(۲۳۳) حضرت علی علیہ السلام کے بعد آپ کے تمام دوست احباب اور اصحاب سب ہی نے ایک ایک کر کے نماز جنازہ پڑھی(۲۳۴) پھر حضرت علی علیہ السلام نے ان ہی افراد کی مدد سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اقدس کو سپرد خاک کردیا(۲۳۵) اور تدفین کے بعد جناب فاطمہعليه‌السلام کے گھر تشریف لائے اور خلافت کے غصب ہوجانے پر احتجاجاً گوشہ نشین ہوگئے اور پھر گھر سے باھر نہ آئے(۲۳۶) اس کے بعد انصار اور مھاجرین میں سے بھی بعض صحابہ سقیفہ کی کاروائی پر اعتراض کے سلسلے میں جناب فاطمہعليه‌السلام کے گھر میں گوشہ نشین ہوگئے(۲۳۷) ، منگل کے دن ابوبکر کی عام بیعت کے(۲۳۸) بعد ابوبکر کے فرمان کے مطابق عمر چند سپاھیوں کے ہمراہ جناب فاطمہعليه‌السلام کے دروازے پر آئے(۲۳۹) تاکہ جس طرح بھی ممکن ہوسکے ان افراد سے ابوبکر کی بیعت لی جاسکے جو جناب فاطمہعليه‌السلام کے گھر میں گوشہ نشین ہیں(۲۴۰) ۔

جو بات مسلم ہے وہ یہ کہ حضرت علی علیہ السلام اور بنی ھاشم نیز پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض صحابہ نے حضرت علی علیہ السلام کی اتباع کرتے ہوئے ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار کردیا(۲۴۱) لیکن عمر نے دہمکی دی کہ اگر بیعت نہ کی تو گھر کو آگ لگادی جائے گی(۲۴۲) ایسے میں بعض نے عمر سے کہا کہ اس گھر میں تو جناب فاطمہعليه‌السلام ہیں، عمر نے کہا کہ چاھے جناب فاطمہ ہی کیوں نہ ہوں(۲۴۳) ، بعض تاریخی کتابوں میں یہ بات ملتی ہے کہ عمر کی دہمکی کے بعد جناب فاطمہعليه‌السلام نے گھر میں موجود افراد کو عمر کی دہمکی سے آگاہ کرتے ہوئے انھیں اس بات پر راضی کیا کہ وہ گھر سے باھر چلے جائیں، لھٰذا انھوں نے ایسا ہی کیا اور جاکر ابوبکر کی بیعت کرلی(۲۴۴) لیکن اس بات کے پیش نظر کہ گوشہ نشین افراد کی اکثریت بنی ھاشم پر مشتمل تھی اور بنی ھاشم نے اس وقت تک بیعت نہ کی(۲۴۵) جب تک کہ حضرت علی علیہ السلام نے بیعت نہ کی اور اکثر مورخین کا کھنا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے جب تک حضرت فاطمہعليه‌السلام زندہ رہیں بیعت نہ کی(۲۴۶) لھٰذا یہ بات یقین سے کھی جاسکتی ہے کہ عمر نے اپنی دہمکی کو عملی کر دکھایا(۲۴۷) اور حضرت علی علیہ السلام کو زبردستی مسجد تک کھینچتے ہوئے لائے اور دہمکی دی کہ اگر بیعت نہ کی تو انھیں قتل کردیا جائے گا(۲۴۸) ، لیکن جناب فاطمہعليه‌السلام کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کی زبر دست حمایت کی وجہ سے ابوبکر، حضرت علی علیہ السلام کو مجبور نہ کرسکے(۲۴۹) ، حضرت علیعليه‌السلام جب وھاں سے باھر آئے تو سیدھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر پر گئے(۲۵۰) ۔

اس واقعہ کو ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ تاریخ کی کتابوں نے دقیق طور پر اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ یہ واقعہ کس دن پیش آیا اور معمولاً اسے سقیفہ کے بعد ذکر کیا ہے، اب اگر یہ تمام واقعات منگل کے دن ہوئے ہیں اور حضرت علی علیہ السلام مسجد سے باھر آنے کے بعد سیدھے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر پر گئے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقینی طور پر منگل سے پھلے دفن ہوچکے تھے، تو اب شیخ مفید کے بقول یا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسی روز یعنی پیر کے دن دفن ہوئے یا پھر جناب عائشہ کی روایت کے بقول آپ منگل کے دن دفن ہوئے البتہ یعقوبی(۲۵۱) کے کھنے کے مطابق آپ کی وفات (نومبر یا دسمبر) میں ہوئی اور اس زمانے میں دن چھوٹے ہوتے ہیں اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات وسط روز میں ہوئی ہے تو منگل کی شب دفن ہونے والا قول زیادہ قوی محسوس ہوتا ہے بھر حال دونوں اقوال میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔

پھلے اعتراض کے جواب میں اس وضاحت کے بعد اس اعتراض کا جواب بھی روشن ہوجاتا ہے کہ "جناب علی علیہ السلام جناب فاطمہعليه‌السلام کے گھر میں گوشہ نشین تھے" اس لئے کہ ہم نے یہ ثابت کردیا کہ حضرت علی علیہ السلام تجھیز و تکفین کے بعد جناب فاطمہعليه‌السلام کے گھر گوشہ نشین ہوئے تھے اور آپ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غسل و کفن میں کسی بھی قسم کی تاخیر اور کوتاھی نہیں کی تھی اور اس سلسلے میں ہم نے بھت سے شواھد آپ کے سامنے پیش کردئے۔

اب ہم اعتراض کرنے والوں سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ حضرت علی علیہ السلام پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غسل و کفن اور دفن سے پھلے ہی جناب فاطمہعليه‌السلام کے گھر میں گوشہ نشین ہوگئے تھے، اب چاھے وہ کسی بھی وجہ سے ہو، چاھے ابوبکر کی بیعت پر اعتراض کے سلسلے میں یا بعض روایات(۲۵۲) کے مطابق قرآن کی جمع آوری کے سلسلے میں تو پھر ایسے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کس نے غسل دیا؟!

جو چیز مسلم و ثابت ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حضرت علی علیہ السلام نے غسل و کفن دیا اور دفن کیا اب اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غسل سے پھلے ہی آپ ابوبکر کی بیعت پر اعتراض کی وجہ سے جناب فاطمہعليه‌السلام کے گھر گوشہ نشین تھے تو مشھور یہ ہے کہ جناب فاطمہعليه‌السلام کی وفات تک آپ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تو ذرا سوچئے کہ اس وقت تک پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جنازہ پر کیا گذری ہوگی؟ کیا اس وقت تک غسل و کفن اور دفن انجام نہ پایا تھا اور اگر یہ سب کام ہوچکا تھا تو پھر اسے کس نے انجام دیا تھا؟

____________________

۱۷۳. کتاب مرویات ابی مخنف فی تاریخ الطبری، یہ کتاب "یحيٰ بن ابراھیم بن علی یحیيٰ" نے ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری کے زیر نظر لکھی اور ۱۴۱۰ ہجری قمری میں دار العاصمہ ریاض میں چھپی ہے۔

۱۷۴. ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابی مخنف کی روایت پر کئے گئے اعتراضات در حقیقت ایک خاص راوی کے بارے میں ایک خاص شخص کے اعتراض نہیں ہیں بلکہ یہ اہل سنت کے ایک خاص گروہ کا کام ہے جو ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ شیعوں کے ہر نظریہ کو کمزور قرار دیا جائے اور کیونکہ اہل تشیع کی اکثر تاریخی روایات کا تعلق ابو مخنف سے ہے لھٰذا ابو مخنف کی روایات کو ضعیف ثابت کر کے وہ اپنے مقصد تک پھنچنا چاھتے ہیں۔

۱۷۶. الامامة والسیاسة: ج۱ ص۲۱

۱۷۷. السقیفہ و فدک جوھری: ص۵۴، شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۶ ص۵

۱۷۸. الکامل فی التاریخ: ج۲ ص۱۲۔

۱۸۰. کتاب المجروحین: ج۲ ص۹۱ (وہ ایک غالی شیعہ ہیں)

۱۸۲. معجم الادباء: ج۶ ص۲۷۷۹۔

۱۸۳. مسند احمد بن حنبل: ج۱ص ۱۹۸ (حدیث ۱۸)

۱۸۴. منھاج السنہ: ج۱ ص۵۳۶

۱۸۵. مرویات أبی مخنف فی تاریخ الطبری: ص۱۶۶

۱۸۶. الکتاب المصنف: ج۷ ص۴۳۳ (حدیث ۴۰، ۳۸۰)

۱۸۸. الطبقات الکبريٰ: ج۳ ص۱۸۲۔

۱۹۰. مرویات ابی مخنف فی تاریخ الطبری: ص۹۔

۱۹۱. الکامل فی ضعفاء الرجال: ص۲۴۱ " و انما لہ من الاخبار المکروہ الذی لا استحب ذکرہ"

۱۹۲. الکامل فی التاریخ: ج۲ ص۱۲۔

۱۹۳. تھذیب الکمال: ج۱ ص۳۔ ۴۹۲

۱۹۴. الجرح والتعدیل: ج۴ ص۵۶۔

۱۹۵. سیرہ اعلام النبلاء: ج۱ ص۴۔ ۵۸۳

۱۹۷. تاریخ طبری: ج۲ ص۲۰۳۔ ۴۰۳، السیرة النبوة: ابن ھشام ج۴ ص۳۰۹، الکامل فی التاریخ: ج۲ ص۱۱، انساب الاشراف ج۲ ص۷۶۷، المنتظم: ج۴ ص۶۴، صحیح البخاری ج۴ ص۳۴۵ (حدیث ۶۸۳۰)، مسند احمد بن حنبل: ج۱ ص۴۴۹ (حدیث۳۹۱)

۱۹۸. سقیفہ سے متعلق عمر کا خطبہ۔

۱۹۹. انساب الاشراف: ج۲ ص۷۶۶۔

۲۰۲. مسند احمد بن حنبل: ج۱ص۱۹۸

۲۰۳. الطبقات الکبريٰ: ج۳ ص۵۶۷۔ (حباب بن منذر کی سوانح حیات میں)

۲۰۵. مرویات ابی مخنف فی تاریخ الطبری: ۱۱۶۔

۲۰۶. ممکن ہے کہ کوئی یہ کھے کہ اس حدیث کو ابوبکر اور سعد بن عبادہ نے سنا ہوگا اور دوسرے افراد اس سے بے خبر تھے تو ہم جواب میں کھیں گے کہ ھرگز ایسا نہ تھا، اس لئے کہ پھلی بات تو یہ کہ اگر اس حدیث پر عمل کرنا سب پر لازم تھا تو پیغمبر (ص.نے اس حکم کو سب کے لئے کیوں بیان نہ کیا، دوسری بات یہ کہ اگر سعد بن عبادہ اس بات کو جانتے تھے تو پھر سقیفہ میں کیوں حکومت حاصل کرنا چاھتے تھے؟ تیسری بات یہ کہ آخر سعد بن عبادہ نے ابوبکر سے پھلے ہی اس حدیث کو لوگوں کے سامنے کیوں نہ بیان کیا؟ مختصر یہ کہ اس قسم کا دعويٰ در حقیقت پیغمبر اسلام (ص.پر اپنی رسالت کے سلسلے میں کوتاھی کرنے کی تہمت اور بعض صحابہ کی توھین ہے کہ وہ ریاست طلب تھے اور وہ بھی ان لوگوں کی طرف سے جو توھین صحابہ کو توھین پیغمبر (ص.سمجھتے ہوں۔

۲۰۷. مسند احمد بن حنبل: ج۱ ص۲۸۲ (حدیث ۱۳۳)

۲۰۸. مسند احمد بن حنبل: ج۱ ص۱۹۸۔

۲۰۹. مرویات أبی مخنف فی تاریخ الطبری: ص۱۱۵، )ھیثمی نے مجمع الزوائد میں اسے نقل کرتے ہوئے اس کی سند کے ایک راوی کو ضعیف کہا ہے)

۲۱۰. الکتاب المصنف: ج۷ ص۴۳۳ (حدیث ۴۰، ۳۷)

۲۱۱. "فقالوا: نخاف الاشرہ"

۲۱۲. الطبقات الکبريٰ: ج۳ ص۱۸۲۔

۲۱۳. الکامل فی التاریخ: ج۲ ص۱۰۔ تاریخ الطبری: ج۳ ص۲۰۲

۲۱۴. التنبیہ والاشراف: ص۲۴۷

۲۱۶. السیرة النبویہ: ج۴ ص۳۱۲

۲۱۷. انساب الاشراف: ج۲ ص۷۴۷، ۷۴۸، ۷۵۲، ۷۶۴

۲۱۹. ج۴ ص۴۴، ۴۵، ۲۹

۲۲۰. تاریخ یعقوبی: ج۲ ص۱۲۴

۲۲۲. السیرة النبویہ: ج۴ ص۳۱۲۔

۲۲۳. السقیفہ وفدک:ص ۶۱۵، شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۶ ص۱۳، الامامة والسیاسة: ص۳۰۔

۲۲۴. الامامة والسیاسة: ص۳۰۔

۲۲۵. التنبیہ والاشراف: ص۲۴۷۔

۲۲۶. السیرة النبویہ: ج۴ ص۳۰۷۔

۲۲۷. السیرة النبویہ: ج۴ ص۳۱۴۔

۲۲۸. الارشاد؛ ج۱ ص۱۹۸ "وکان ذلک فی یوم الاثنین" اور اس کے ذیل میں فرماتے ہیں "جب ابوبکر کی بیعت ہوچکی تو ایک شخص امیر المومنین علیہ السلام کے پاس آیا اس وقت آپ پیغمبر اسلام (ص)کی قبر بنانے میں مصروف تھے، اس نے امیر المومنین (ع.سے کہا کہ لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کی ہے"

۲۲۹. المنتظم: ج۴ ص۴۹؛ الطبقات الکبريٰ: ج۲ ص۳۰۵ (البتہ جناب عائشہ سے ایک اور روایت بھی نقل ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آپ کی تدفین شب بدھ کو ہوئی)

۲۳۰. الکامل فی التاریخ: ج۲ ص۱۵۔

۲۳۲. جیسا کہ ابو مخنف کی روایت میں تھا اور ہم نے اسے حصہ سوم میں ثابت بھی کیا تھا۔

۲۳۳. الارشاد: ج۱ ص۱۸۷۔ انساب الاشراف: ج۲ ص۷۵۵۔ الطبقات الکبريٰ: ج۲ص۹، ۲۸۸۔

۲۳۴. الارشاد: ج۱ ص۱۸۷۔

۲۳۵. المنتظم: ج۴ ص۴۹، انساب الاشراف: ج۲ ص۷۵۷، تاریخ الطبری: ج۳ ص۲۱۳ (ابن اسحاق کی نقل کے مطابق)

۲۳۶. انساب الاشراف: ج۲ ص۷۶۹ (أبی نضرہ سے)

۲۳۷. تاریخ یعقوبی: ج۲ ص۱۲۴۔

۲۳۸. تاریخ خلیفہ بن خیاط: ص۶۲۔ مروج الذھب: ج۲ ص۳۰۱۔ المنتظم: ج۴ ص۶۴ نقل از ابن اسحاق۔

۲۳۹. السقیفہ و فدک: ص۵۰، ۶۰۔

۲۴۱. تاریخ یعقوبی: ج۲ ص۱۲۴۔ مروج الذھب: ج۲ ص۳۰۱۔ الکامل فی التاریخ: ج۲ ص۱۴ نقل از زھری۔

۲۴۲. انساب الاشراف: ج۲ ص۷۷۰۔ الامامة والسیاسة: ص۳۰۔ تاریخ الطبری: ج۳ ص۲۰۲۔

۲۴۳. الامامة والسیاسة: ص۳۰۔

۲۴۴. السقیفہ و فدک: ص۳۸۔

۲۴۵. مروج الذھب: ج۲ ص۳۰۱۔ الکامل فی التاریخ: ج۲ ص۱۴ نقل از زھری

۲۴۶. انساب الاشراف: ج۲ ص۷۷۰۔ مدائنی نے جناب عائشہ سے نقل کیا ہے۔ مروج الذھب: ج۲ ص۳۰۱، ۳۰۲۔ الکامل فی التاریخ: ج۲ ص۱۰ اور ۱۴۔

۲۴۷. اس احتمال کی تائید میں بھت سی روایات بھی موجود ہیں جس کے لئے کتاب "مآساة الزھرا" علامہ جعفر مرتضيٰ عاملی کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

۲۴۸. الامامة والسیاسة: ص۳۰

۲۴۹. الاماة والسیاسة: ص۳۱

۲۵۱. تاریخ یعقوبی: ج۲ ص۱۱۳

۲۵۲. انساب الاشراف: ج۲ ص۷۷۰۔ السقیفہ و فدک: ص۶۴۔