اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 0%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف: ڈاكٹر على اكبر ولايتي
زمرہ جات:

صفحے: 375
مشاہدے: 139494
ڈاؤنلوڈ: 4738

تبصرے:

اسلامى تہذيب و ثقافت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139494 / ڈاؤنلوڈ: 4738
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

منگولوں كا حملہ اور اسكے نتائج

اسلامى دنيا كو تاريخ ميں اگر چہ اغيار كے حملوں كے تجربات ہوئے ليكن كم كہہ سكتے ہيں كہ ان ميں سے كوئي تجربہ بھى منگولوں كے حملہ كى مانند شديد اور تلخ تھا ہم اس مختصر سے تبصرے ميں كوشش كريں گے كہ اسلامى تہذيب و تمدن كے جمود ميں وحشى منگولوں كے ہولناك طوفانى حملوں كے كرداد كا جائزہ ليں _

اسلامى دنيا پر منگولوں كا حملہ

منگولوں كے قبائل كے مقتدر سر براہ چنگيز خان نے اپنے ماتحت قبايل كى ضروريات پورى كرنے كيلئے ہمسايہ ممالك يعنى چين اور ايران كو غارت كرنے كا پروگرام بنايا _ چين اس زمانہ ميں اختلاف اور تفرقہ كا مركز بناہوا تھا_ اس نے سب سے پہلے اس ملك پر حملہ كى تيار كى _ دوسال تك اسكے چين پر حملات جارى رہے ان دو سالوں ميں اس نے اس نعمات سے مالامال ملك كو تباہ و برباد كرديا _ ان حملات كے بعد ابھى اسكا دنيائے اسلام پر تجاوز كرنے كا ارادہ نہ تھا_ كيونكہ اسے ايران كے بادشاہ سلطان محمد خوارزم شاہ كى قوت و طاقت كے حوالے سے بہت سى خبريں مل رہى تھيں _ اس نے كوشش كى كہ سب سے پہلے اس ملك كے حوالے سے دقيق معلومات حاصل كرے اور ساتھ ساتھ كسى بھى عنوان سے اسے حملہ شروع كرنے كا بہانہ بھى مل جائے _(۱) اسى زمانہ ميں خلافت عباسيہ روز بروز اپنى طاقت كھورہى تھى سلطان محمد خوارزم شاہ خراسان ميں اپنى پے درپے كاميابيوں كے بعد اور ہندوستان سے بغداد تك اور آرال كے دريا سے خليج فارس تك ايك متحدہ حكومت تشكيل ديتے ہوئے اس كا ارادہ تھا كہ عباسى خليفہ كوہٹا كر اپنا من پسند خليفہ لائے اور يہ اقدام سلطان محمد خوارزم شاہ كى بہت بڑى غلطى تھى اسكى بناء عباسى خليفہ مجبور ہوا كہ محمد خوارزم شاہ كى حكومت تباہ كرنے كيلئے چنگيز خان سے مدد مانگے_

____________________

۱) شيرين بيانى ، مغولان و حكومت ايلخانى در ايران ، تہران _ ص ۱۷ _۱۰_

۱۸۱

اگر چہ يہ موضوع چنگيزخان كيلئے مناسب بہانہ بن سكتا تھا ليكن ايران پر ۶۱۵ /۱۲۱۸ عيسوى ميں حملہ كى اصلى وجہ منگولوں كا وہ تجارتى قافلہ بنا جو كہ خوارزم شاہ كى مملكت كے مشرقى سرحدى علاقہ ميں شہر اترا ر كے حاكم كے ہاتھوں تباہ و برباد ہوا اور اس قافلہ ميں سوائے ايك شخص كے تمام افراد قتل ہوگئے يہ وہى وقت تھا كہ چنگيز خان نے ايران پر حملے كا حكم صادر كيا _(۱)

منگولوں كى پيش قدمي

منگولوں كا ايك لشكر چنگيز كے بيٹے تولى كى كمانڈ ميں جنوب كى طرف بڑھا جبكہ دوسرے منگول لشكر چنگيزكے بيٹوں اكتاى اور جغتاى كى كمانڈ ميں اترار كى طرف روانہ ہوئے اور خود چنگيز بھى ۶۱۶ قمري/ ۱۲۲۰ عيسوى ميں كاشمر اور بلا ساقوں شہروں سے ہوتا ہوا كہ جو پہلے سے منگولوں كے قبضہ ميں آچكے تھے بخارا كى طرف بڑھا_

سلطان محمد خوارزم شاہ كہ جسے ابھى تك منگولوں كا سامنا نہيں ہوا تھا سمرقند سے بخارا اوربخارا سے سيحون كى طرف لشكر كے ساتھ بڑھا اس دوران اس نے تمام صوبوں سے فوج كو جمع كرنے كا حكم ديا _ منگولوں كے ساتھ جنگ ميں سلطان محمد خوارزم شاہ كى فوج پر ايسى سخت ضرب لگى كہ اگر اسكے شجاع بيٹے جلال الدين كى جانفشانى نہ ہوتى تو ہ خود بھى اس لڑائي ميں مارا جاتا بہر حال شكست نے سلطان محمد كے دل ميں ايسا خوف ڈالا كر وہ مازندران كى طرف فرار ہوا اور وہاں سے كسى جزيرہ ميں پناہ لى اور وہيں غم سے جان دي_(۲)

منگولوں كا پہلا نشانہ شہر اترار تھا كہ وہاں انكا تجارتى قافلہ لوٹا گيا تھا لہذا سب سے پہلے انہوں نے اسى شہر كا محاصرہ كيا پانچ مہينے كى مزاحمت كے بعد شہر والوں نے ہتھيار ڈال ديے حملہ آور منگولوں نے كسى پر رحم نہ كيا سب كو خاك و خون ميں غلطاں كرديا منگولوں نے يہاں سے مملكت ايران كو ويران كرنا شروع كيا اور پھر جو

____________________

۱) عباس اقبال آشتيانى ، تاريخ مغول و اوايل تيمور در ايران ، تہران_

۲) شيرين بيانى ، دين و دولت در ايران عہد مغول ، تہران ص ۱۹_۱۴_

۱۸۲

بھى شہر انكے راستے ميں آيا سب شہر والوں كا قتل عام كيا اور پھر اس شہر ميں سوائے خاكستر كے كوئي چيز باقى نہ رہنے ديتے _

انہوں نے سمرقند ، بخارا ، خوارزم ، بلخ ، مرو ، ہرات اور ديگر تمام شہروں اور قصبات كو تباہ و برباد كيا اور بعض ديہاتوں ميں تو پالتو جانوروں پر بھى رحم نہ كيا بالخصوص وہ شہر كہ جہاں كچھ مزاحمت ہوئي وہاں كسى چيز كو نہ چھوڑا گيا _ مثلا جب چنگيز كو دس ماہ تك طالقان كے لوگوں كى مزاحمت كا سامنا كرنا پڑا تو اس نے اپنے بيٹوں (جغتاى ، اوكتاى ، تولي) كو مدد كيلئے بلايا تو ان لوگوں كى مزاحمت اور جغتاى كے قتل ہونے كى سزا كا انتقام ايسے ليا كہ اس شہر ميں كسى كتے اور بلى كو بھى زندہ نہ چھوڑا _(۱)

چنگيز كے جانشين اور عالم اسلام پر حملوں كا تسلسل

۱۰ رمضان ۶۲۴ قمر ى اور ۱۲۲۷ عيسوى ميں چنگيز خان مرگيا اس نے اپنى موت سے قبل مشرقى ممالك كى سلطنت تولى كے حوالے كى اور مغربى ممالك كى پادشاہى اكتاى كو بخشى ۵ ۶۶ قمرى ۱۲۵۳ عيسوى ميں چنگيز كے پوتے ہلاكو خان كو ايشيا كے معاملات كى ذمہ دارى ملى تا كہ ايران كى تمام مقامى حكومتوں كوختم كرتے ہوئے ايك واحد منگولى حكومت كو تشكيل دے _ اس نے فرقہ اسماعيليہ كى ۱۷۰ سالہ حكومت كو بھى ختم كيا اور ايران كے تمام قبايل اور گروہوں كو اپنے مقابل سر تسليم ختم كرنے پر مجبور كيا _

ليكن ہلاكوخان كى سب سے بڑى كاميابى بغداد يعنى اسلامى خلافت كے مركز كو فتح كرنا تھى اس نے بغداد پر چارو ں طرف سے حملہ كرنے كا حكم ديا چھ دن مزاحمت كے بعد ۴ صفر ۶۵۵ يا ۱۲۵۷ عيسوى ميں اہل بغداد نے ہتھيار ڈال ديے كچھ افراد كے علاوہ باقى تمام شہر والوں كو قتل كرديا گيا اسكے بعد ايك ايك كركے عراق كے تمام شہروں پر منگولوں كا قبضہ ہوتا چلا گيا ہلاكوخان بغداد كو فتح كرنے كے بعد آذربايجان كى طرف روانہ ہوا

____________________

۱) ج ، ج ساندوز ، تاريخ فتوحات مغول ، ترجمہ ابوالقاسم حالت ، تہران ، امير كبير ، ج ۲ ص ۱۱۴_

۱۸۳

اس نے پہلے مراغہ اور بعدميں تبريز ميں سكونت اختيار كى اسكے بعد عراق مكمل طور پر اور خاص طور پر افسانوى شہر بغداد يعنى اسلامى خلافت كے مركز كى سياسى اہميت ختم ہوگئي اور منگول اپنى حاكميت كے اختتام تك يعنى ۷۳۴ قمرى ۱۳۳۵ عيسوى تك اس سرزمين پر قابض رہے(۱) _

منگولوں كى پيش قدمى كا اختتام او ر ايلخانى حكومت كى تشكيل

ہلاكوخان كى مسلسل يہى كوشش تھى كہ ماوراء النہر ميں دريائے جيحوں سے بحيرہ روم كے مشرق اور مغرب ميں مصر تك اسكى بادشاہت كى حدود پر اسكا تسلط برقرار رہے _ اسى ليے اس نے شام و سوريہ پر حملہ كيا انہى سالوں ميں مصر اور قاہرہ خاندان مماليك (غلاماں )كے ہاتھوں ميں تھا اور وہ دنيائے اسلام كے دفاع كى ذمہ دارى اپنے كندھوں پر محسوس كرتے تھے انہوں نے منگولوں سے كوئي سمجھوتہ نہ كيا اور فلسطين ميں عين جالوت كے مقام پر منگولوں كو سخت شكست فاش سے دوچار كيا اسطرح منگولوں كا ناقابل شكست والا طلسم ہميشہ كيلئے ٹوٹ گيا اسكے بعد شام ميں منگولوں كے ما تحت علاقے انكے ہاتھوں سے نكل گئے اور دوبارہ مصر كے مماليك ان علاقوں پر حكومت كرنے لگے اسكے بعد ديگر جنگى معركوں ميں منگولوں كو شكست ديتے ہوئے انہوں نے دريائے فرات كو اپنے اور منگولوں كے درميان سرحدى پٹى قرار ديا _

جنگى معركوں ميں كئي دفعہ ہارنے كے باوجود ہلاكو خان نے اپنى بادشاہى اور فوجى قوت كو مستحكم كرتے ہوئے '' ايلخان'' كے نام سے اپنى حكومت كا اعلان كيا اسكى حكومت كى حدود شرق ميں دريائے جيحون اور مغرب ميں مصر تك اور شمال ميں قفقاز اور جنوب ميں خليج فارس تك پھيلى ہوئي تھيں _

ہلاكو خان ۶۶۳ قمرى اور ۱۲۶۵ عيسوى ميں ۴۸ سال كى عمر ميں دنيا سے رخصت ہو ا اسكے بعد ۶۵۴ سے ۷۳۶ تك آٹھ ايل خانوں نے حكومت كى _ آخرى ايلخان منگول بادشان جو كہ لا ولد تھا بہت زيادہ عيش و عشرت كى بناء پر ۷۳۶ قمرى اور ۱۳۳۶ عيسوى ميں فوت ہوا اسكے بعد حكومت كے دعويدار اختلافات كا شكار

____________________

۱) رشيد دو ، لى _ شن ، سقوط بغداد، ترجمہ اسداللہ آزداد ، مشہد ، انتشارات آستان قدس رضوى ، ص ۲_ ۱۴۱_

۱۸۴

ہوئے جسكى بناء پر ايل خان مختلف ٹكڑوں ميں بٹ گئے _(۱)

منگولوں كے دور ميں اسلامى دنيا كى تہذيبى صورت حال كا جائزہ

دوسو سال پر محيط منگولوں كى حكومت كا دور اسلامى ممالك كى تاريخ ميں ايك انتہائي تكليف وہ دور شمار ہوتا ہے _ كہ اس دور ميں منگولوں كى وحشيانہ حركات كى بناء پر اسلامى تہذيب و تمدن كو ناقابل تلافى نقصانات پہنچے _ منگولوں كى وحشيانہ تباہى سے پہنچنے والا ايك ناقابل تلافى نقصان بغداد پر قبضہ كے وقت كتابخانوں كو تباہ كرنا اور چند ہزار جلد كتاب كو آگ كى نذر كرنا تھا _

ابن خلدون كے بقول منگولوں نے اسقدر زيادہ اور بے شمار كتابوں كو دريائے دجلہ ميں پھينكا كہ ان كتابوں سے دريا ميں گويا ايك پل بن گيا كہ ديہاتوں كے لوگ اور گھوڑ سوار اس پل كے ذريعہ ايك كنارے سے دوسرے كنارے تك جاتے تھے_ بغداد كى تباہى كے ساتھ اسلامى خلافت كا مركز اور دنيائے اسلامى كا سياسى اقتدار بھى ختم ہو گيا اور اسلامى مقدس مقامات مثلا مساجد ، مدارس اور علمى حوزات ويران ہو گئے يا يہ كہ علمى تحقيقات اور ترقى سے محروم ہو گئے_(۲)

ليكن اسى راكھ سے اسلامى تہذيب و تمدن نے دوبارہ جنم ليا اوراس طرح نشو و نماپائي كہ كافر منگول بھى متاثر ہوئے بلكہ اسلامى تہذيب كے عاشق ہو گئے_ اور اسى دور ميں اسلام كے بہت سے عظيم اديب اور دانشور ظاہر ہوئے جن ميں سے ہر ايك نے اپنے مقام پر اسلامى تہذيب و تمدن كے احياء كيلئے بہترين كردار ادا كيا ان عظيم لوگوں ميں مثلا مولوى ، سعدى ، حافظ ، عطا ملك جوينى اور خواجہ نصير الدين طوسى قابل ذكرہيں _ مثلا خواجہ نصير الدين طوسى كے حوالے سے كہا جاتا ہے كہ ہلاكو خان ان سے اس قدر متاثر تھا كہ جو وقت خواجہ معين فرماتے وہ اس وقت سفر پر روانہ ہوتا يا كوئي كام كرتا شايد يہى مسلمان دانشوروں كا دانشمندانہ اور شايستہ طرز عمل تھا كہ اسلامى تہذيب دوبارہ ثمر آور ہوئي اور وہ قوم منگول كہ جس نے اسلام كو تباہ كرنے كيلئے كمر

____________________

۱) شيرين بيانى ، مغولان و حكومت ايلخانى در ايران _ ص ۷۶_

۲) اشپولر ، سابقہ حوالہ ، ص ۴ _۱۷۰_

۱۸۵

باندھ ركھى تھى وہ اب اسلام كہ حامى اور مروّج بن چكى تھى اسى زمانہ ميں اسلامى اور ايرانى تہذيب و تمدن چين كى طرف منتقل ہوا اوراد ہر سے چينى علوم بھى سرزميں ايران ميں پھيل گئے بالخصوص چينى ماہرين فلكيات كا ايران ميں گر مجوشى سے استقبال ہوا اور انكے تجربات سے خوب فائدہ اٹھايا گيا _

الغرض ہم كہہ سكتے ہيں كہ منگولوں كے حملہ نے مسلمانوں كى مادى اور معنوى زندگى كو بہت زيادہ حد تك ويران كرديايہاں تك كہ اس دور كا علمى زوال اور معاشرتى سطح پر فقر و نادانى تاريخ كے كسى دور سے قابل موازنہ نہيں ہے _ حقيقى بات يہى ہے كہ اگر وحشى منگول ايران اور تمام اسلامى ممالك پر حملہ آور نہ ہوتے اور يہ سب ضرر و نقصان نہ پہنچتا تو آج اسلامى ممالك بالخصوص ايران كے حالات كچھ اور طرح ہوتے_

۳: سقوط اندلس

بلاشبہ اسلامى تہذيب و تمدن كے تاريخى سفر ميں سقوط اندلس اور دنيا كے اس خطہ ميں مسلمانوں كى حكومت كا زوال ايك تلخ ترين واقعہ ہے_ اندلس كا وہ اسلامى معاشرہ كہ جو آٹھويں صدى سے پندرھويں صدى تك مسلسل علمى ، معمارى ، ثقافتى اور فنى شاہكار كو وجود ميں لاتا رہا آخر كيوں ضعف اور پس ماندگى كا شكار ہو كر تاريخ كا حصہ بن گيا اور دنيا كے سياسى نقشہ سے اس اسلامى تمدن كا وجود مٹ گيا ؟

اندلس مسلمانوں كى فتح سے پہلے

جزيرہ ايبرے كے وہ حصے بحيرہ روم جو انہ كے ساتھ ساتھ اسپين كے جنوب اور پرتگال كے جنوب مشرق ميں موجود ہيں انہيں يا پورے جزيرہ ايبرے كو مسلمانوں نے اندلس كا نام ديا _ '' كلمہ اندلس'' جرمنوں كے ايك قبيلہ واندال كے نام سے ليا گيا تھا كہ جو پانچويں صدى كے آغاز ميں مغربى روم كى بادشاہت كے مختلف حصوں ميں بٹ جانے كے بعد اسپين كے جنوب ميں آباد ہوئے _

ظہور اسلام سے قبل اندلس پرواندالوں اورويزگوٹوں نے حملہ كيا يہ قبائل پير نيز كى پہاڑيوں كو عبور كرنے

۱۸۶

كے بعد اندلس ميں داخل ہوئے كئي سالوں كى جنگ اور خونريزى كے بعد واندال قبيلہ مغرب پر جبكہ ويزيگوٹ قبيلہ اندلس پر قابض ہو گيا ويزيگوٹ لوگ آغاز ميں كيتھو لك نہ تھے جبكہ اندلس كے مقامى لوگوں كى اكثريت كيتھولك عيسائيوں پر مشمل تھى _ بہر حال ۵۸۹ عيسوى ميں وہاں بڑى تبديلياں ہوئيں بادشاہ اور ويزيگوٹوں كے روساء مذہب كيتھولك ميں داخل ہوئے _

آٹھويں صدى كے آغاز ميں ويزيگوٹوں كے طبقہ اشراف اوررومى لوگوں كے ثروت مند لوگ آپس ميں گھل مل گئے يوں ايك اميراور ثروت مند لوگوں كا طبقہ تشكيل پايا كہ جنہوں نے تمام تجارتى اور اجتماعى امتيازات خودحاصل كرليے اور باقى لوگوں كو اقتصادى حوالے سے اپنا محتاج بنا ديا جسكى بناء پر عام لوگ ان سے ناراض ہوئے _ ويزگوٹوں كى حكومت كى كمزورى كے اسباب كو چار اقسام ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے ۱_ امراء كے طبقات ميں جانشينى كے معاملہ پر اختلافات ۲_ معاشرے كے ديگر لوگوں كا امراء طبقہ كے امتيازات پر ناراضگى اختيار كرنا اور سپاہيوں كا غير قابل اعتماد ہونا ۳_ عقائد كى جانچ پڑتال اور يہوديوں كا تعاقب اور انہيں گرفتار كركے اذيتيں دينا ۴_ اقتصادى حوالے سے برے حالات(۱)

مسلمانوں كے ہاتھوں اندلس كى فتح

اس زمانہ ميں افريقا اور مغرب كا حاكم موسى بن نصير تھا جب وہ ويزيگوٹوں كى حكومت كے زوال سے مطلع ہوا اسے اندلس كى تسخير كا اشتياق ہوا تو اس نے اپنے غلام طارق بن زياد كو حكم ديا كہ سال ۹۲ قمرى /۷۱۱ عيسوى ميں تنگ دروں كو عبور كرتے ہوئے كہ جنہيں بعد ميں جبل الطارق كا نام ديا گيا ايك ہزار سپاہيوں كے ساتھ اسپين كى سرزمين پر اترے اور اس جگہ كو فتح كرے _ طارق بن زياد نے اسپين ميں داخل ہوتے ہيں ويزيگوٹوں كے بادشاہ كو شكست دى اور اسپين كے مركز تك پيش قدمى كى اور اس نے ايك سال ميں ہى اندلس كو جنوب سے شمال تك فتح كر ليا دوسرى طرف سے موسى بن نصير نے ۹۳ رمضان ميں ايك عظيم سپاہ كے

____________________

۱) دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج ۱۰ ، ص ۳۲۳ ، ذيل ، انڈلس_

۱۸۷

ساتھ جبل الطارق سے گزتے ہوئے اندلس كے اہم شہروں كو فتح كيا اور طارق سے جاملا _

البتہ بعض مورخين كا خيال ہے كہ ابتداء ميں عرب لوگ انڈلس كى مكمل فتح اور وہاں رہنے كے موڈميں نہ تھے وہ محض كچھ مال غنيمت ليكر واپس افريقا جانے كے خيال ميں تھے ليكن طارق كى غير متوقع وسيع پيمانے پر كاميابى نے انكى سوچ بدل دي_(۱)

اسلامى حكومت كے دور ميں اندلس كى سياسى تاريخ

مسلمانوں كى حكومت كے دوراں اندلس كى سياسى تاريخ مجموعى طور پرتيں ادوار ميں تقسيم ہوتى ہے_

الف) اندلس دمشق كى مركزى اموى حكومت كا ايك حصہ (۱۳۲_۹۸ قمرى / ۷۵۵_۷۱۶ )عيسوي

اس زمانہ ميں دمشق كى خلافت كى سرحدوں ميں اندلس افريقہ كى حكومت (آج كا تيونس)كا ايك حصہ شمار ہوتا تھا انڈلس كے حاكموں كا تقرر افريقہ كے والى كرتے تھے جو قيروان ميں سكونت پذير تھے_ ان سالوں ميں تقريبا بيس افراد اندلس كے حاكم ہوئے كہ ان ميں صرف دو شخص پانچ يا پانچ سے زيادہ سالوں تك حكومت كر سكے اسى زمانہ ميں اندلس كے حكمران مزيد اسلامى فتوحات كے پروگرام ميں رہا كرتے تھے_

ب) اندلس پر اموى حاكموں كا جداگانہ سلسلہ (۴۲۲_ ۱۳۸ قمري) / (۱۰۳۱ _ ۷۵۵عيسوي)

اموى حكام نے تين صديوں تك اندلس پر حكومت كى اس سلسلہ ميں سولہ بادشاہ گذرے سب سے پہلے بادشاہ كا نام عبدالرحمن بن معاويہ بن ہشام تھا( ۱۷۲_۱۳۸ قمرى /۷۸۸_ ۷۵۵عيسوي)اور اس سلسلہ كے آخرى بادشاہ كا نام حسان بن محمد تھا (۴۲۲_ ۴۱۸قمري/۱۰۳۱_۱۵۲۷ عيسوي) اموى حكومت كے دوران

____________________

۱) حسين مونس ، سپيدہ دم انڈلس ، ترجمہ حميد رضا شيخى ، مشہد ، آستان قدس رضوى ، ص ۳۶_۲۵_

۱۸۸

اندلس كى شمالى سر حديں كئي بار تبديل ہوئيں جزيرہ ايبرے كے شمال ميں اسلامى حكومت كى حدود بالخصوص شمالى سر حديں كئي بار تبديلى ہوتى رہيں اندلس پر عظمت اور نعمات كى فراوانى كا دور تھا ليكن آہستہ آہستہ اموى حكومتى خاندان ميں اندرونى اختلافات اور ان اختلافات كاعواى سطح تك پھيل جانے سے اندلس كى تاريخ ميں ايك غمگين دور شروع ہوا ور اس خطہ كا عروج ، ثروت اور ترقى اندرونى جنگوں كى نذر ہوگئي_

ج) اندلس ميں جاگير دارانہ دور ۸۹۸_ ۴۲۲ قمري/ ۱۴۹۲_۱۰۳۱عيسوي

امويوں كے زوال كے بعد سرزمين اندلس كا شيرازہ بكھر گيا _ بنى حمود وادى الكبير كے اكثر شہروں اور تقريبا دريائے شنيل تك كے علاقے پر حكومت كرنے لگے اسى زمانہ ميں عرب كے متعدد خاندان اور جاگير داروں كے متعدد سلسلوں نے مختلف شہروں كو اپنے قبضہ ميں لے ليا ۴۷۸ قمري/۱۰۸۵ ميں طليطلہ كے سقوط كے بعد مرابطوں نے تقريبا آدھى صدى تك اندلس پرحكومت كى اس حكومت كى حدود ميں نہ صرف يہ كہ مكمل مراكش اور موريطانيہ تھا بلكہ جنوب ميں دريائے اور رسٹگال تك اور شمال ميں مراكش كے مغربى حصہ تك انكى حكومت تھى اندلس ميں مرابطوں كى حكومت زيادہ عرصہ تك نہ چل سكى بلكہ بربروں كے موحدون نامى ايك اور گروہ نے ۵۴۱ قمرى /۱۱۴۵ عيسوى ميں مرابطوں كے بربرى سلسلہ كو ختم كرديا_ مرابطوں كے زوال كے حوالے سے مختلف اسباب ميں سے ايك يہ تھا كہ اس سلسلہ كے رؤساء ، افسر لوگ اور ديگر بلند پايہ حكام زرق و برق تہذيب اور اخلاقى بدعمليوں ميں غرق ہو چكے تھے_(۱)

موحدوں كے زمانہ ميں اندلس عيسائيوں كے پے درپے حملوں كى زدميں تھا اندلس كے مشرق و مغرب كے علاقے ايك ايك كركے عيسائيوں كے ہاتھوں ميں آگئے يہانتك كہ ساتويں صدى كے وسط ميں اندلس كے شمال ، مغرب اور مشرق كے تمام اسلامى شہروں پر عيسائيوں كا قبضہ ہو گيا اور اندلس كى اس عظيم مملكت ميں صرف جنوبى شہر عزناطہ اور چند چھوٹے شہر مسلمانوں كے پاس رہ گئے موحدوں كى حكومت كے آخرى ايام ميں

____________________

۱)محمد ابراہيم آيتى ، انڈلس يا تاريخ حكومت مسلمين در اروپا ، انتشارات دانشگاہ تہران_

۱۸۹

انكے مخالف محمد بن يوسف نصرى كہ جو ابن احمد كے نام سے معروف تھا اس نے سال ۶۳۵ قمري/ ۱۲۳۸ عيسوى ميں غرناطہ كے عليحدہ ہونے كا اعلان كيا عيسائي اندلس كے بڑے شہروں پر قبضہ كے بعد كئي بار ابن احمد كى مملكت پر حملہ آور ہوئے ليكن غرناطہ كے سپاہيوں نے سختى كے ساتھ انكے حملے كو پسپا كرديا بنى احمد با بنى نصر نے ڈھائي صديوں سے زيادہ مدت تك اندلس كے جنوب پر حكومت كى بالاخر ۸۹۸قمري/ ۱۴۹۲ عيسوى ميں اسلامى شہر غرناطہ فرنانڈو پنجم كے ہاتھوں سقوط كر گيا اور بنى نصر كے اخرى امير ابو عبداللہ كے فرار كے ساتھ اندلس مكمل طور پر مسلمانوں كے ہاتھوں سے نكل گيا_(۱)

اندلس كے علمى اور ثقافتى حالات كا جائزہ

انڈلس اپنى جغرافيائي حيثيت كى بنا پر ہميشہ سے عالم اسلام اور مغرب كا مركز توجہ رہاتھا با لفاظ ديگر دنيا كے اس خطہ نے مسلمان حكومت كى بركت سے چند صديوں تك مشرق و مغرب كے درميان رابطہ كے پل كا كردار ادا كيا _ علمى اور ثقافتى پہلوں سے كئي ميدانوں ميں واضح ترقى كى مثلاً اندلس ميں ديگر اسلامى ممالك كے اثرات كى بناء پر علوم قرآنى كے دائرہ ميں علوم حديث اور فقہ ( فقہ مالكي) نے وسعت اختيار كى _

جہاں تك تجرباتى علوم كا تعلق ہے اندرونى اختلافات كى بناء پرحكم دوم كى حكومت(۳۶۶،۳۵۰قمري) كے زمانہ تك واضح ترقى نہ كر سكا البتہ اسكے زمانہ حكومت ميں علم كى مختلف اقسام ميں كافى ترقى ہوئي يہانتك كہ قرطبہ كى لائبريرى ميں تقريباً چار لاكھ تك كتابوں كى تعداد موجود تھى _

علم طب ميں اندلس نے بہت زيادہ ترقى كى اس سرزمين پر بہت سے حاذق اطبا ظاہر ہوئے _ فلسفہ ، كلام شعر اور ادبيات كے حوالے سے بھى اسلامى اور يورپى سرزمينوں كى سرحد پر واقع ہونے كى وجہ سے ثقافتى تبادلہ كے دروازہ كا كام ديتا رہا اور معروف و مشہور شخصيات كى پرورش كى _ ہنر و فنون كے اعتبار سے بھى اندلس

____________________

۱) دايرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۱ ذيل اندلس (عنايت اللہ خاكى ناد)_

۱۹۰

نے بہت ترقى كى اس دور كے بعض آثار ہنر و فن ہميشہ اسلامى تہذيب و تمدن كا فخر شمار ہوتے رہے مثلا معمارى كے حوالے سے مسجد قرطبہ ، شہر الزہرا اور مدينة الحمراء كى طرف اشارہ كيا جا سكتا ہے كہ ہر مقام اپنى جگہ پراس دور كے يورپ ميں اسلامى فن معمارى كا عجوبہ شمار ہوتا تھا_

اس طرح ديگر فنون مثلاًخطاطى اور مٹى كے ظروف بنانے كے حوالے سے انتہائي اہميت كے حامل آثار وجود ميں لائے گئے جو آج بھى اندلس ميں اسلامى تمدن كے درخشان دور كى تصوير ہيں _(۱)

عيسائيوں كے ہاتھوں اندلس كے سقوط كے اسباب

اندلس ميں مسلمانوں كے زوال پر مختلف نظريات پيش ہوئے ہيں كہ ان نظريات كو تين اقسام اندرونى اسباب ، بيرونى اسباب اور جيوپوليٹيكل اسباب ميں تقسيم كياجا سكتا ہے:

الف: اندلس ميں مسلمانوں كے زوال ميں موثر اندرونى اسباب

جب بنى اميہ كے زمانہ ميں مسلمانوں نے اندلس كو فتح كيا اس زمانہ ميں اسلامى نظام ميں بہت سى بدعات اورانحرافات پيدا ہو چكے تھے كہ ان ميں چند مندرجہ ذيل ہيں :

۱_ وہ اسلامى حكومت كہ جو اہل سنت كے عقيدہ كے مطابق پيغمبر اكرم (ص) كے بعد لوگوں كى خليفہ سے بيعت پر تشكيل پاتى ہے اب ايك خاندان كى وراثتى اور آمريت پر مبنى حكومت ميں تبديل ہوچكى تھى حاكم بجائے اسكے كہ الہى احكام كا اجراء كرتاصرف اپنى ذاتى خواہشات كى پيروى كرتا تھا _

۲_ مساوات جو كہ اسلامى نظام كا ايك اہم ركن شمار ہوتى تھى ختم ہو چكى تھى حالانكہ قرآن اور سنت پيغمبر (ص) نے فضول برترى كے امتيازات كو باطل قرار ديا تھا اور فضيلت كے معيار كو صرف تقوى اور پرہيزكارى قرار ديا تھا ليكن اموى عربى نسل كو سب سے برتر نسل شمار كرتے تھے اور قريش كو عرب ميں ديگر قبائل پر برتر سمجھتے تھے_

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۳۲۶_

۱۹۱

۳_ حكومت كى درآمدت جوكہ لوگوں كے عمومى امور پر صرف ہونى چاہے تھيں حكومت كى آسايش اور عيش و عشرت پر خرج ہورہى تھيں جسكى وجہ سے عام لوگوں ميں حكومت سے ناپسنديدگى كے جذبات بڑھ رہے تھے_

۴_ لوگوں كو گرفتار كرنا، قيد كرنا،تشدد كرنااور قتل عام كرنا بنى اميہ كے حكام كے روزمرّہ كے معمول تھے وہ حكومتى سپاہيوں سے اپنے مخالفين كو تباہ و برباد كرنے كا كام ليتے تھے_

۵_ زندگى كے معمول ميں ، خوراك ، لباس گھر بار ميں دنياوى عيش و عشرت سے وابستگى بنى اميہ كى حكومت ميں رواج پاگئي تھي_

۶_ شراب پينا ،عورتوں سے شعف ، گانے والى كنيزوں كى خريد و فروخت ، اور زمانہ جاہليت والے اشعار پڑھنا بنى اميہ كے زمانہ كے رواج تھے ،يہ غير اسلامى حركات اسلامى فاتحين كے ساتھ مفتوحہ علاقوں ميں بھى سرايت كر گئيں _

ان تمام اسباب كا مجموعہ بتاتا ہے كہ كسطرح بنى اميہ كى حكومت كے ذريعے مسلمانوں كا انحراف اندلس ميں بھى داخل ہو گيا _ اسلامى اقتدار كے ساتھ ساتھ خاندان بنى اميہ كے انحرافات اور بدعات اور بہت سى بلند پايہ اسلامى تعليمات كا مسنح ہونا ،ايك بڑا سبب تھا كہ جو اندلس كے مسلمانوں كو بتدريج كمزور كرنے كى بنيادى وجہ قرار پايا كہ جسكى بناء پر بيرونى اسباب اور دشمنان اسلام كو پيش قدمى كرنے كا كافى موقع ملا _(۱)

ب: سقوط اندلس كے بيرونى اسباب

بہت سى جنگوں ميں مسلمانوں كى مسلسل كاميابى ، يورپ كے وسيع علاقہ كا فتح ہونا اور عيسائيوں كى صليبى جنگوں ميں ناكامى سے يورپ والوں كو سخت خفت كا سامنا كرنا پڑا ،انہوں نے مسلمانوں كو خاص طور پر اندلس سے پيچھے دھكيلنے كيلئے ايك طويل الميعاد منصوبہ بنايا اس پروگرام كے دو مرحلے تھے ۱_ فوجى حملہ اور اسپين كى سرزمين واپس لينا ۲_ ثقافتى يلغار

____________________

۱_ سيد محمد طہطاوى ، غروب آفتاب در انڈلس ، علل انحطاط حكومت مسلمانان در اسپانيا ،تہران ، دار الصادقين ، ص ۱۷_۱۶_

۱۹۲

۱_ فوجى حملات اور بتدريج اسپين كى سرزمين واپس لينا: اسپين كى سرزمين كو واپس لينا يا دوبارہ فتح كرنا پاپ اعظم كى طرف سے عيسائيوں كيلئے شرعى ذمہ دارى كے عنوان سے القاء ہوا انہوں نے ابتداء ميں كوشش كى كہ چھوٹے چھوٹے علاقوں كو محفوظ كرليں پھر انہيں وسيع كرنے كى كوششوں ميں مصروف ہوئے جن چيزوں نے عيسائيوں كى پيش قدمى ميں مدد كى ان ميں سے ايك عربوں كى بربروں سے جنگ تھى _

اس زمانہ ميں ايك شخص ''آلفونسوپڈرو ''المعروف آلفونسوى اول ،گاليسيا كے علاقہ ميں حاكم تھا جو ايك تجركار ، فہميدہ اور فعال شخص تھا اس نے اس موقعہ سے بہت فائدہ اٹھايااور اسطرح اپنى مملكت كو وسعت دى كہ اسكے بعد مسلمان اسكى حكومت ختم نہ كرسكے اسى وجہ اسپينى لوگ آلفونسوى اوّل (۷۵۷_ ۷۳۹ عيسوي) كى حكومت كو عيسائي اسپين كى حقيقى ولادت قرار ديتے ہيں _ آلفونسوى نے شمالى اندلس كے عيسائيوں كومسلمانوں كے خلاف بغاوت پرابھارا اور كچھ عرصہ بعد يہ علاقے مسلمانوں كے ہاتھوں سے نكل گئے _ اندلس كى حفاظت كيلئے مسلمانوں كى آخرى اميد غرناطہ ميں بنى احمد يا بنى نصر كى حكومت كا ظہور تھا _سلسلہ بنى نصر كى طويل عرصے تك حكومت بحال رہنے كى دو وجوہات تھيں :ايك يہ كہ غرناطہ كى كوہستانى حيثيت اور دوسرا اسكا افريقا كے نزديك ہونا _ يعنى وہ خطرہ كى صورت ميں شمالى افريقا كے مسلمانوں سے مدد كى درخواست كر سكتے تھے_

بہر حال اندرونى مشكلات اور باشكوہ عمارتوں كے بنانے ميں فضول نمود و نمايش اور اسراف سے كام لينے كى وجہ سے يہ حكومت مالى حوالے سے كمزور ہوگئي اسى طرح تخت و تاج پر قبضہ پانے كيلئے اندرونى اختلافات اور مختلف مفادات باعث بنے كہ فرنانڈودوم كے لشكر نے چند مراحل كے بعد مكمل طور پر غرناط كا محاصر ہ كر ليا _

آخر كار مسلمان سمجھ گئے كہ اب اس شہر كا دفاع ممكن نہيں رہا اور انہوں نے ہتھيار ڈال ديے، بنى نصر كا آخرى سلطان اور اسپين كے آخرى مسلمان بادشاہ ابوعبداللہ كے وہاں سے الوداع كے بعد اس علاقے سے اسلامى پرچم ہميشہ كيلئے اتر گيا_(۱)

____________________

۱)سابقہ حوالہ ص ۱۸_۱۷_

۱۹۳

۲_ يورپى عيسائي اور سقوط اندلس كے لئے ثقافتى يلغار كے ذريعے ثقافتى سطح پر اسباب فراہم كرنا:اندلس كے مسلمانوں كے زوال ميں ايك اہم تريں سبب پروپيگنڈا يا دوسرے لفظوں ميں يورپى لوگوں كى اسلام كے خلاف ثقافتى يلغار تھى _ انہوں نے ايك طولانى مدت كے پروگرام كے تحت اسلامى معاشرہ ميں سستى ، لادينيت اور بے پروائي كے بيج بوديے اور مسلمانوں سے سخت انتقام ليا اندلس ميں مسلمانوں كى ابتدائي فتوحات كى ضربات اس قدر سخت تھيں كہ خود پاپ ميدان عمل ميں آگيا اور اس نے اندلس كے مسلمانوں كو تباہ كرنے كيلئے اپنا دينى اثر و رسوخ استعمال كيا اور اس حوالے سے مسلمان سرداروں اور حكام ميں اختلافات سے بھر پور فائدہ اٹھايا _

ايك مسلمان عرب سردار كہ جس نے عيسائيوں كى بہت مدد كى براق بن عمار تھا اس نے عيسائي سرداروں اور كليسا كے عہديداروں كے ساتھ مختلف مباحث اور گفتگو ميں انہيں نصيحت كى كہ مسلمانوں سے براہ راست جنگ كرنے سے پرہيز كريں اور پيمان صلح باندھنے وقت كوشش كريں تا كہ مسلمان معاشرہ اندر سے كھوكھلا ہوجائے اس نے ان سے كہا كہ مسلمانوں كے ساتھ تين چيزوں ميں پيمان صلح باندھيں :دينى تبليغ ميں آزادي، مسلمانوں كو تعليم دينے ميں آزادى اور مسلمانوں كے ساتھ تجارت ميں آزادى _

اسكى نظر كے مطابق پہلى دو چيزوں سے مسلمان لوگ بالخصوص نوجوان ،مسلمان استاد كے حوالے سے اپنى طبيعى احترام كى بنا پر ، يورپى اور عيسائي لوگوں كيلئے ايك طرح كى برترى اور احترام كے قائل ہوجائيں گے اور انہيں مقام كے حوالے سے اپنے سے قوى اور بلند سمھيں گے جسكے نتيجہ ميں مسلمان اپنے عقائد ميں سست اور لاپروا ہوجائيں گے جبكہ تيسرى چيز مسلمانوں ميں خوراك ، پوشاك اور حرام كھانے پينے والى چيزوں كے حوالے سے موثر ہوگى اور انہيں آہستہ آہستہ غير ذمہ دار اور لاپرواہ بنادے گي_

اندلس كے مسلمان حاكموں نے اسى پيمان سے دھوكہ كھايا اور صلح پر راضى ہو گئے _ عيسائيوں كے ساتھ صلح كرنے كے بعد اندلس كے مسلمان اخلاق اور كردار كے حوالے سے فاسد اور تباہ ہوگئے _ عيسائي مبلغين اور

۱۹۴

راہبوں نے خوبصورت اور شاندار تفريح گاہيں بنائيں جن ميں وہ عيسائيت كى تبليغ كيا كرتے تھے مسلمانوں كى شخصيات اتوار والے دن ان تفريح گاہوں ميں جاتى تھيں تا كہ سير و تفريح كے علاوہ عيسائي جوان لڑكيوں كے حسن و جمال كا بھى نظارہ كريں _ اسى زمانہ ميں براق بن عمار كى نصيحت كے مطابق يورپ كى شراب اندلس ميں بہت زيادہ مقدار ميں آنے لگى تا كہ مسلمان جوان ديواليہ ہوں جس كا نتيجہ يہ نكلا كہ شراب خورى مسلمان جوانوں ميں رواج پاگئي _ جو بھى شراب سے انكار كرتا اسے قدامت پسند يا متعصب كا خطاب ملتا _

اب مسلمان نوجوان اپنى دينى اور معاشرتى اقدار كى اہميت كے قائل نہ رہے مساجد صرف بوڑھے لوگوں كے ليے مخصوص ہوگئي جبكہ عشرت كدے اور عيش و شراب كے مراكز نوجوانوں سے بھر گئے جو عيسائي لڑكيوں سے لذت لينے كيلئے وہاں جمع ہوتے تھے_ عيش و عشرت اور تجملات پسندى اسقدر بڑھ گئي كہ ان خواہشات كى تكميل حلال كمائي سے ممكن نہ تھى لہذا اداروں ميں فساد ، رشوت اور لوٹ مار عام ہوگئي _ اشياء كى توليد كرنے والے طبقات مثلا كسان ، كاريگر اور صنعت كار لوگ عدم توجہ كا شكار ہوگئے اور ہر روز غريب ہونے كے ساتھ ساتھ موجودحالات سے ناراض بھى تھے _(۱)

اسكے بعد عيسائيوں نے بعض مسلمان سرداروں كى خيانت كے ذريعے شہر والانس پر قبضہ كر ليا اور اس شہر ميں فجيع جرائم كے مرتكب ہوئے، انہوں نے نہ صرف يہ كہ ہزاروں مسلمانوں كو قتل كيا بلكہ مسلمان خواتين كے ناموس كو ان كے شوہروں كى آنكھوں كے سامنے لوٹا_ انہوں نے اس شہر پر اتنى تيزى سے قبضہ كيا كہ ديگر شہروں كے حكام اپنى فوج كو تيار ہى نہ كرسكے_

بہرحال اس طرح عيسائيوں نے اپنے مكارانہ ہتھكنڈوں سے اسلامى معاشرہ كو آلودہ كرتے ہوئے بتدريج اسپين كے ديگر شہروں پر بھى ايك ايك كركے قبضہ كرليا_

____________________

۱)سابقہ حوالہ ص۲۲_۸_

۱۹۵

ج: اسلامى اندلس كے سقوط كے سياسى جغرافيائي geopolitical اسباب:

اندلس ميں مسلمانوں كى فتوحات كے حوالے سے جغرافيائي سياسى gepolitical اہم نكتہ يہ ہے كہ جزيرہ ايبري(اندلس) مكمل طور پر فتح نہيں ہوا تھا اور مسلمانوں كے مكمل قبضہ ميں نہيں آيا تھا_ بالخصوص اندلس كا شمالمغربى بڑا علاقہ مسلمانوں كى دستبرد سے محفوظ رہا تھا_ اسى طرح اندلس كے ديگر حصوں ميں ايسے علاقے بھى رہے ہيں جہاں مسلمانوں كا مؤثر قبضہ نہ تھا_ اگرچہ اسپين مكمل طور پر عيسائيوں كے ہاتھوں سے نكل چكا تھا _ مگر عيسائيوں نے اسپين كے شمالى سواحل اور خليج بيسكے( Biscay ) كے قريب پٹى اپنے لئے محفوظ ركھى ہوئي تھى تاكہ كسى دور ميں مسلمانوں كے اندرونى اختلافات اور لا ابالى سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسى جگہ سے جنوبى علاقوں پربتدريج قدم بڑھائيں اور آہستہ آہستہ اسپين كو دوبارہ عيسائيت كے دامن ميں لوٹا ديں _(۱)

نتيجہ بحث

عالم اسلام كى اندرونى تبديليوں كا تجزيہ كريں تو معلوم ہوگا مادى اور غير مادى قدرت و طاقت كے حوالے سے مسلمانوں كا زوال صديوں پہلے شروع ہوچكا تھا _ نظام خلافت ميں ضعف ، منگولوں كے حملے اور ان كے كبھى نہ بھرنے والے گھائو مسلمانوں كے زوال كى سرعت كا باعث بنے، اسى زمانے ميں اہل يورپ عالم اسلام سے تجارت اور صليبى جنگوں كے ذريعے پيدا ہونے والے نزديكى تعلقات كى بدولت اپنى ثقافتى اور علمى تحريك و بيدارى كا آغاز كرچكے تھے _

قابل توجہ بات يہ ہے كہ يورپ كى فكرى اور ثقافتى سطح پر نشاط كا آغاز سال ۱۴۵۳ عيسوى يعنى قسطنطنيہ ميں مشرقى روم كى شكست سے ہوا(۲) حالانكہ مسلمانوں كے زوال كا اہم ترين موڑكچھ عرصہ بعد يعنى ۱۴۹۲ عيسوى ميں اندلس كى آخرى اسلامى حكومت كى شكست پر رونما ہوا البتہ دو صديوں كے گزرنے كے بعد يہ تبديلى مكمل طور پر اور موثر انداز ميں اہل يورپ كے حق ميں انجام پذير ہوئي_

____________________

۱)سابقہ حوالہ ص۲۲_۸_

۲) مونتگمرى وات، اسپانياى اسلامى ، ترجمہ محمد على طالقانى ، تہران ، بنگاہ ترجمہ ونشر كتاب ص ۳۲ _ ۱۰ _

۱۹۶

ب:اندرونى اسباب

۱_ استبداد( آمريت)

بشرى تہذيب و تمدن كى تاريخ كے ہر عصر ميں ہم ايسے ادوار كا مشاہدہ كرتے ہيں كہ جنہيں ''آمريت'' كے دور كے عنوان سے ذكر كيا جاتا ہے بعض محققين كى نظرميں آمريت فقط مشرقى سماج كے ساتھ مختص ہے جبكہ ديگر بعض كے رائے كے مطابق تمام بشرى معاشروں اور سماج ميں ايسے مظاہر رہے ہيں _ انپى نظر ميں ہر ملك اپنى تاريخ كے بعض ادوار ميں آمر بادشاہوں كے شكنجہ ميں رہا ہے _

اس گفتگو ميں ہمارے پيش نظر يہ ہے كہ اسلامى تہذيب و تمدن پر آمريت كے اثرات كا تجزيہ كريں اور يہ ديكھيں كہ كيسے اسلامى تہذيب وتمدن كے زوال كے اسباب ميں ايك سبب آمريت بتايا گيا ہے اور يہ كہ خود آمريت يعنى كيا ؟ كيسے پيدا ہوتى ہے ؟ وہ اسلامى معاشرے جو آمريت ميں گرفتار رہے ان كى كيا صفات ہيں ؟

آمريت يا استبداد ( Dictatorship )كى تعريف:

لغت ميں آمريت سے مراد''يكہ و تنہا'' اور ''خود اپنے طور پر ہى كام كرنا '' اور ''اپنى رائے كو مقدم كرنا'' ہے عرب دانشور عبدالرحمان كواكبى كے بقول : ''لغت ميں آمريت سے مراد يہ ہے كہ ايك شخص ايسا كام جو مشورہ سے انجام دينا چاہيے فقط اپنى رائے سے انجام دے ''، كواكبى كى رائے ميں سياسى لحاظ سے آمريت يعنى كسى ملت كے حقوق پر ايك فرد ياگروہ كا بغير كسى مواخذہ كے ڈر كے تسلط پيدا كرناہے _(۱)

اس بناء پر آمريت اپنى رائے اور اپنى پسند كو فوقيت دينے پر مشتمل ايسا نظام ہے كہ جسميں ايك حكومت يا دقت سے ديكھيں تو ايك شخص جو حكومت ميں بعنوان حاكم ہے ،عوام و ملت كے سامنے كوئي عہد اور ذمہ داري

____________________

۱) عبدالرحمان كواكبى ، طبايع الاستبداد، ترجمہ عبدالحسنين قاجار، ترتيب و تدوين صادق سجادى تہران ، ص ۱۶ _

۱۹۷

محسوس نہيں كرتا _ يعنى ايسا نظام كہ جسميں حكومت لا قانونيت پر قائم ہے يعنى موجودہ قوانين اس وقت تك نافذ رہيں گے جب تك آمر انہيں اپنے مفاد ميں پائے گا ،اسى لئے آمرانہ نظام ميں قوانين ميں بہترى كيلئے ترميمات بے معنى اور خالى ہوتى ہيں _(۱)

اسلامى ممالك ميں آمريت كا سرچشمہ

يہ كہ آمريت كا سبب و سرچشمہ كيا ہے مختلف نظريات پيش كئے گئے ہيں _ مشرقى اسلامى معاشروں كے اقتصادى پہلو كے تجزيہ و تحليل سے معلوم ہوتا ہے كہ آمريت كا تسلط ان ممالك ميں ميں اتفاقى نہ تھا ان لوگوں كے طريقہ پيداوار ، سماجى معاملات اور ان معاشروں سے بننے والے مختلف شعبہ جات اس كيلئے راہ ہموار كرتے تھے مثلاً ايرانى معاشرہ كے جائزے سے معلوم ہوتا ہے كہ اس معاشرہ ميں لا محدود آمرانہ قوانين تين اسباب كى بناء پر وجود ميں آتے رہے :

۱_ اقتصاد اور آبپاشى كا طريقہ كار:

ايرانى كسانوں كى گذشتہ ادوار سے اب تك اہم مشكلات ميں سے ايك پانى اورآبپاشى كا مسئلہ تھا_ ايران كے بيشتر زرعى علاقے دنيا كے خشك علاقوں ميں سے شمار ہوتے ہيں اور يہى وجہ بہت عرصہ سے ہمارے ملك كے اقتصادى زوال كا سبب بنى ہوئي ہے(۲) _ اسى موضوع كى بناء پر وقت كى طاقتور حكومتوں نے ايك طرف تو بند باندھے اور نہريں جارى كرتے ہوئے زرعى كاموں كو وسعت دى اورديہاتى لوگوں كى مدد كى تاكہ زراعت كى بھارى ذمہ دارى سے بہتر طريقے سے عہدہ براء ہو سكيں دوسرى طرف اس سہولت سے مكمل فايدہ اٹھايا اور اپنى حكومت اور تسلط كو مستحكم اور پائيدار كيا _

____________________

۱) محمد على كا توزيان، استبداد در دموكراسى ونہضت ملي، تہران ص ۱۲_

۲) مرتضى راوندى _ تاريخ اجتماعى ايران _ تہران _ ج ۲ ص ۲۸۸ _

۱۹۸

۲ _ عمومى مالكيت

جيسا كہ ذكر ہوچكا ہے كہ پانى كے مسئلہ كى بناء پر مركزى حكومت نے كسانوں كو اپنے تابع كرليا تھا زرعى زمين كى وسعت اور پھر اسكى سيرابى كے ليے پانى كے بہت بڑے منصوبے اور ان رزعى زمينوں كے استعمال كے ليے ان منصوبوں كو چلانا ناقابل اجتناب كام تھا_ اسى طرح آبپاشى كے مصنوعى طريقوں كى انتہائي ضرورت بڑے بڑے اداروں كى تشكيل اور ايك فرد كى مطلق حكومت كو بھى اپنے ہمراہ لے آتي_

آمر حكمران سماج كى نمائندگى ميں ان تمام سرزمينوں كا فرضى مالك اور انكے چلانے كا عہدہ دار ہوتا تھا_ اسكے علاوہ حكومت آبپاشى كے وسيع قومى كے اداروں اور پانى كے تمام منابع كى بھى مالك شمار ہوتى تھى _ اسطرح سے ملك كا وسيع حصہ زمين اور پانى كى صورت ميں يعنى پيداوار كے حقيقى وسائل كى صورت ميں حكومت كى ملكيت تھے_(۱)

۳_بيوركريسى (ديوان سالاري)

عمومى مالكيت نے خصوصى حق ملكيت كو تباہ كرديا_ آفيسرز اور كاركنوں كى صور ت ميں حكام كا ايسا طبقہ ظاہر ہوا كہ جو حاكم مطلق كے ماتحت ان تمام زمينوں اور پانى كے ہر منصوبے كى نگرانى كرتا تھا اور انہيں اپنے زير اختيار ركھتا تھا_اسى شعبہ كے تحت ايك بہت بڑا ادارہ وجود ميں آيا كہ جو پورے ملك ميں پھيلا ہوا تھا _ اسطرح ايران كى تاريخ كے ايك مخصوص مرحلہ ميں زمين، آبيارى اور رفاہ عامہ كے امور كے حوالے سے بيوركريسى آگے بڑھتى چلى گئي اور اقتصادى و اجتماعى بنيادوں پر چھا گئي،اس طرح آمر حاكم تمام حكومتى شعبوں اور فوج ، مختصر يہ كہ بيوركريسى كا حاكم شمار ہوتا تھا اور اسكى طاقت مطلق اورلامحدود تھي_(۲)

____________________

۱)مصطفى وطن خواہ_ موانع تاريخى توسعہ نيافتگى درايران _ ص ۹ _ ۱۳۸

۲) سابقہ حوالہ ص ۱۵۶_

۱۹۹

البتہ يہاں واضح كرنا چاہئے كہ يہ آمر بادشاہ اپنے لامحدود اختيارات كى صحيح توجيہ كےلئے آئيڈيالوجى كى مدد ليتے تھے وہ اس تاريخى دور ميں اپنى طاقت كے الہى ہونے كا نظريہ پيش كرتے رہے كہ يہ ايك آسمانى مقدس حكم ہے كہ حكومت انكى نسل ميں منتقل ہوتى رہے اور يہ پرچار كرتے رہے كہ بادشاہ كى خدمت خدا كى خدمت ہے نيز بادشاہ كا حكم بھى خدا كا حكم ہے(۱) _ يقينا اس كام سے انكا مقصود يہ تھا كہ عوام كے دلوں ميں بادشاہ كا مافوق الفطرت رعب و وحشت طارى رہے اور وہ كبھى بھى بادشاہ كے خلاف بغاوت كا خيال بھى ذہن ميں نہ لائيں بلكہ ہميشہ بادشاہ كے تابع اور فرمانبردار رہيں _

آمريت كے نتائج

جيسا كہ پہلے بھى كہا جا چكا ہے كہ ايك آمرانہ سماج ميں تمام مسائل ايك خاص فرد كى پسند اور سليقہ كى بناء پر تشكيل پاتے ہيں شايد كہا جاسكے كہ آمريت كا سب سے معمولى نقصان انفرادى حقوق كا ضائع ہونا ہے _ آمرانہ سماج ميں آمريت كى شكل مخروطى ہوتى ہے يعنى ايك درجہ كے كسى ايك عنصر يا عناصر كے لامحدود و حقوق نچلے درجے كے عناصر كے حقوق سے مطلق بے بہرہ ہونے كے ساتھ جڑے ہوتے ہيں ايك طرف سے حقوق سے كلى محرومى اور دوسرى طرف طاقت و قدرت كى يہ تركيب لوگوں كے اذہان كو تباہى كى طرف ليجاتى ہے اس غلط صورت حال كو برداشت كرنا بالخصوص آزاد ذہنوں كے لئے بہت مشكل ہے _

كيونكہ كسى فرد كى فرديت اس وقت تشكيل پائے گى جب وہ ہميشہ حقوق سے بہرہ مند ہو جبكہ آمرانہ سماج ميں اكثر لوگوں كيلئے حقوق موجود ہى نہيں ہوتے جب تك آمرانہ سماج بنياد سے ہى ختم نہ ہو حقوق ركھنے والا فرض كبھى بھى حقيقت نہيں پاسكتا اور اس صورت حال كا بالآخر نتيجہ حقوق سے مطلق محروميت ہے نہ كہ اكثريت كى طاقت كى قدر اور حفاظت اسى لئے ايسے معاشروں ميں فرديت وجود ميں نہيں آسكتى(۲) _

____________________

۱)فرہنگ رجائي ، تحول انديشہ سياسى در شرق باستان، ص ۸۸_

۲) احمد سيف ، پيش درآمدى بر استبداد سالارى در ايران _ ص ۲۷_

۲۰۰