اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 0%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف: ڈاكٹر على اكبر ولايتي
زمرہ جات:

صفحے: 375
مشاہدے: 139333
ڈاؤنلوڈ: 4721

تبصرے:

اسلامى تہذيب و ثقافت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139333 / ڈاؤنلوڈ: 4721
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

لہذا جب آمريت پر مشتمل مختلف اسباب كے تحت بالفاظ ديگرجب تمام چيزيں ايك آمر حاكم كے ارادہ كے تحت وجود ميں آئيں تو ايسے معاشروں كے سماجى معاملات مثلاً اقتصادى ، معاشرتي، سياسى اور بطور كلى اس معاشرہ كى تہذيبى ترقى كى ہم كيسے توقع كرسكتے ہيں _

ايك سماج كلچر و ثقافت كے حوالے سے اسى وقت ترقى كرسكتا ہے كہ جب ترقى كيلئے ضرورى شرائط اور ماحول ميسر ہو _ پس آمريت زدہ معاشروں كے حوالے سے يہ توقع نہيں كى جاسكتى كہ اس معاشرہ كى تہذيب و ثقافت ترقى كرے اور وسعت اختيار كرے يا اگر كسى مسئلہ ميں كوئي ترقى بھى ہوتى ہو تو اس كے ثمرات كى حفاظت ہوسكے _

اسلامى معاشروں ميں آمريت

دين اسلام كے ظہور سے فكر بشريت ميں ايك عظيم انقلاب پيدا ہوا اس الہى دين كا مقصد انسانوں كو ان تمام قسم كى قيد و بند سے نجات دينا تھا جو طول تاريخ ميں اسكو جكڑے ہوئے تھيں _ اسلام حكومتى معاملات ميں فرد واحد كى رائے كو محور بنانے كا مخالف ہے بلكہ مشورہ كو حكومت كى بنياد قرار ديتا ہے _ رسول اكرم (ص) اكثر مسائل ميں اپنے اصحاب سے مشورہ كيا كرتے تھے اور آنحضرت (ص) كے بعد خلفاء راشدين بھى ايسا رويہ اپناتے تھے كہ لوگ اندرونى رغبت و رضا سے انكى اطاعت كيا كرتے تھے اگر كسى كيلئے كوئي سزا مقرر ہوتى تو وہ اطاعت كرتے اور تعميل كرتے تھے_

ليكن جب بنى اميہ مقام اقتدار پر پہنچے تو بہت سے مسائل تبديل ہوگئے روادارى اور تحمل پر مبنى حكومت كا دور ختم ہوچكا تھا معاويہ كے والى اور حكام كو يہ خوف تھا كہ اگر لوگوں كو آزادى دى گئي تو وہ بغاوت برپا كريں گے لہذا تشدد كى پاليسى شروع ہوئي_ سب سے پہلے معاويہ كا ہى دور تھا كہ جب رسمى طور پر تشدد كا كام شروع ہوا وہ لوگ جو معاويہ كے مخالف سمجھے جاتے تھے اور انہيں گرفتار كركے سزائيں دى جاتى تھيں(۱) _

۲۰۱

عباسى خلفاء كے ادوار بھى اسى طرح تھے بلكہ بعض تو اموى دور سے بھى بدتر تھے _ ان ادوار ميں خلفاء اپنے مخالفين كو قتل كرنے سے بھى نہ چوكتے تھے اس قسم كى سياست سے وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ لوگ متنفر ہونے لگے_

آمريت و استبداد كوئي ايسا مظہر نہيں ہے كہ جسے ہم تاريخ كے كسى خاص دور ميں محدود كرديں بلكہ آج بھى بہت سى اقوام آمريت كا شكار ہيں ليكن بعض ادوار تاريخى ميں آمريت ايسى خاص شكل وصورت ميں سامنے آئي كہ مورخين اور دانشوروں كى توجہ كا مركز قرار پائي مثلاً عثمانى بادشاہت كا تجزيہ كريں تو معلوم ہوتا ہے كہ اس بہت بڑى بادشاہت كے سقوط كا ايك اہم سبب عثمانى بادشاہوں كى آمريت اور عوام كى ناراضگى تھا_ اسى طرح ايران كى تاريخ كا تجزيہ و تحليل كريں بالخصوص مشروطيت كے دور كا مطالعہ كريں تو معلوم ہوتاہے كہ لوگوں كا قيام اور انقلاب مشروطيت مكمل طور پر ظلم اور آمريت كو ختم كرنے اور قانون پر مبنى عادل حكومت كى تشكيل كيلئے تھا_

عصر حاضر ميں بھى مشرق وسطى كے تيل كى دولت سے مالا مال بہت سے ممالك آمرانہ نظام و حكومت كے حامل ہيں _ دانشوروں كے نظريہ كے مطابق ان ممالك كى حكومت كا ہم ستون تيل كى دولت سے تشكيل پانے والا اقتصاد اور دوسرا يہ كہ عمومى درآمدات سے بے نيازى ہے گويا كہ تيل نے انہيں عوام سے بے نياز كرديا ہے بہرحال آمريت كى كوئي بھى وجہ ہو اور كسى زمانہ ميں بھى ظاہر ہو يہى كہيں گے كہ يہ تہذيب و تمدن كے زوال كا اہم سبب ہے اوراسلامى تہذيب و تمدن بھى اسى قانون و قاعدہ سے مستثنى نہيں ہے اسلامى تہذيب كى تاريخ بتاتى ہے كہ جس قدر بادشاہوں كى آمريت و استبداد كم ہوا اسى قدر اسلامى تہذيب كى ترقى اور وسعت كيلئے اسباب و امكانات حاصل ہوئے _

۲_ دنيا پرستى ،قدامت پسندى اور حقيقى اسلام سے دوري:

آنحضرت (ص) اسلام كے پيغمبر ہونے كى حيثيت اپنى سيرت طيبہ اور روش زندگى كو ايسے سامنے لائے جو ہر

____________________

۱)_ جرجى زيدان ، تاريخ تمدن اسلام، ترجمہ على جواہر كلام، ص ۷۲۴ _ ۷۲۳_

۲۰۲

قسم كے اسراف و نمود و نمايش سے دور تھي_ آپ كى غذا ، رہائشے اور لباس معاشرہ كے معمولى ترين افراد كى مانند سادہ اور چمك دمك سے دور تھا_ آپكى وفات عظمى كے بعد خلفاء راشدين كى سيرت بھى آپ (ص) سے مشابہت ركھتى تھى وہ بھى سعى كرتے تھے كہ اسلام حقيقى اور رسول اكرم (ص) كى سيرت طيبہ كى پيروى ميں مادى نمود و نمايش سے دور رہيں اور تمام مسلمانوں كيلئے نمونہ عمل كى حيثيت سے رہيں جبكہ اموى خلافت كے آغاز سے ہى دنيا پرستى اور تجملات مسلمانوں كے حقيقى اسلام سے دورى كا باعث بنے اسى طرح فكرو نظر اور روشن خيالى كى راہ ميں قدامت پسندى كى ركاوٹ بھى اسلامى تہذيب وتمدن كے زوال كا سبب قرار پائي_

الف: دنيا پرستي

ابن خلدون كا نظريہ تھا كہ حكومتيں انسانى زندگى كى مانند ايك عمر اور اسكے مختلف مراحل جيسے پيدائشے ، رشد و جوانى اور ضعف و بڑھاپا ركھتى ہيں _ انكے خيال كے مطابق حكومتيں پيدائشے سے زوال تك پانچ مراحل سے گزرتى ہيں :

پہلا مرحلہ كہ جسكا نام كاميابى كا مرحلہ ہے فرد حاكم قوم كے اندرونى روابط سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار حاصل كرتا ہے يہ قومى روابط ايك طرح سے مختلف امور اور فيصلوں كو اسكى ذات ميں منحصر ہونے سے مانع ہوتے ہيں _دوسرے مرحلہ ميں وہ كوشش كرتا ہے اپنى حاكميت كو مستحكم كرتے ہوئے اقتدار كو اپنى ذات ميں منحصر كرلے_

تيسرے مرحلہ ميں اپنے اقتدار پر بھروسہ ركھتے ہوئے آسودگى اور آسايش كى نعمات سے بہرہ مند ہوتا ہے _ دوسرے الفاظ ميں وہ طاقت واقتدار كے پھل چنتا ہے اس مرحلہ ميں نمود و نمائشے اور آسودگى كا اظہار ہوتا ہے وہ ديگر مشہور حكومتوں كى مانند بے پناہ رقم شہروں كو خوبصورت بنانے اورعوامى عمارات كى تعمير پر لگاتا ہے_ اسى طريقہ كار پر چلتے ہوئے اس كے ماتحت، حوارى اور حكومتى كارندے دونوں ہاتھوں سے مال و ثروت جمع كرتے ہيں اور پر تعيش زندگى اختيار كرتے ہيں پھر اقتصادى ترقى كا زمانہ آتا ہے حاكم طبقہ كى توجہ اور حوصلہ

۲۰۳

افزائي كى وجہ سے مصنوعات ، خوبصورت فنون اور علوم ترقى كرتے ہيں اسى دوران آرام وسہولت كا زمانہ آپہنچتا ہے اس زمانہ ميں انسان دنياوى لذتوں اور آسائشے سے بہرہ مند ہوتے ہيں يہاں حكومت كے ارتقا كا پہلا مرحلہ مكمل ہوجاتا ہے_

چوتھے مرحلہ ميں حاكم طبقہ اور رعايا كى مسرتوں كا عروج كا دور ہے يہ لوگ پچھلى نسلوں كى مانند زندگى كى لذتوں سے فائدہ اٹھاتے ہيں ليكن اس امر سے غافل ہيں كہ پچھلى نسل نے ان لذتوں تك پہنچنے كيلئے كتنى جدو جہد كى تھيں وہ اسى خيال ميں رہتے ہيں كہ تعيش اور زرق وبرق سے بھرپور زندگى اور معاشرتى تہذيب كى ديگر سہوليات ہميشہ سے موجود تھيں اور موجود رہيں گى _

تجملات، آسائشے اور خواہشات نفسانى كو پور اكرنا گويا انكے لئے ايك عام سى بات ہوجاتى ہے وہ اس دور ميں گذشتہ لوگوں كى محصولات اور ايجادات پر مكمل طور پر اكتفاء كيئے ہوئے ہوتے ہيں ايسے مصائب اور اسباب جو ممكن ہے كہ انكى كاميابيوں ميں خلل ڈال ديں ، ان كے مقابلے ميں كمزور پڑجا تے ہيں پانچوےں مرحلہ ميں حكومت زوال كى كى راہوں پر قدم ركھتى ہے اس دور ميں فضول خرچى اور اسراف كا آخرى مرحلہ شروع ہوتا ہے_ تن آساني، تجملات، جسمانى ضعف اور اخلاقى تباہى كا حملہ يا اندرونى اضمحلال يا دونوں اسباب كى بناء پر يہ حكومت تباہ ہوجاتى ہے _(۱)

سلسلہ بنى اميہ كا آغاز اورعيش و عشرت كى ابتدائ

اكثر اسلامى فتوحات بنى اميہ كے دور ميں مكمل ہوئيں يہ چيز ايك طرح سے حقيقى اسلام كى صورت بگاڑنے ميں اہم كردار ركھتى ہے كيونكہ اسلام ايسے خاندان اور ان كے وابستہ لوگوں كے ذريعہ ترويج ہورہا تھا كہ جو خود اسلام كے زيادہ معتقد نہ تھے_ بنى اميہ نے دين ميں مختلف بدعتيں ايجاد كيں اور ان بدعات كو دين كے نام سے پھيلايا _ انہوں نے اسلام كے زريں قانون مساوات كو پائوں تلے روندڈالا اور عرب كى عجم پر برترى كے نظريہ كا پروپيگنڈا كيا _

____________________

۱) عبدالرحمان ابن خلدون ، مقدمہ ابن خلدون، ترجمہ محمد پروين گنابادى تہران_

۲۰۴

اموى حكمرانوں نے اسلامى حكومت كى بہت سى درآمدات كو اپنى عيش وعشرت اور خوبصورت محلات بنانے پر صرف كيا اسى بناء پر عوامى طبقات ميں ناراضگى كى لہر دوڑى اور يہ چيز اموى حكمرانوں كے سلسلہ كو ختم كرنے كا باعث بني_ انكے بعد بنى عباس نے بھى اسى طرز عمل كو جارى ركھا اور انہيں بھى بنى اميہ كى مانند انجام كا سامنا كرنا پڑا_

خلفاء اورا مراء كى بے پناہ ثروت اور اسكے نتائج

خليفہ اسلامى ممالك كى حكومت ميں مكمل اختيارات كا مالك تھا_ تمام درآمدات سب سے پہلے اس كے ہاتھوں ميں پہنچتى تھيں _ لہذا قدرتى طور پر وہ تمام لوگوں سے زيادہ مال و دولت كا مالك تھا_ خلفاء كے بعد علاقوں كے والى اور امراء بھى بے پناہ دولت كے مالك تھے_ كيونكہ وہ ماليات اور ٹيكس جمع كرتے تھے جتنا چاہتے تھے لوگوں سے چھين ليتے تھے _

يہ ايك طبعى بات ہے كہ انسان جسقدر زيادہ ثروت و دولت كا مالك ہو تو اس كى زندگى كا معيار اتنا ہى وسيع اور بلند ہوتا ہے وہ خوراك، لباس اور نمود و نمايش ميں بہت زيادہ افراط كرتا ہے_ تعيش كى طرف رجحان نے عرب بدووں كو صحرا نشينى والى خصلتوں سے دور كركے يوں شہرى زندگى كى آسائشےوں كا عادى كرديا كہ وہ تعيش اور تفنن ميں روم اور ايران كے بادشاہوں سے بھى سبقت لے گئے _ سب سے پہلے حضرت عمر نے معاويہ كے فاخرہ لباس پر اعتراض كيا اور كہا اے معاويہ تم نے ايران كے بادشاہ كسرى كى مانند لباس پہنا ہے؟(۱) _

بنى اميہ كے خلفاء پھولوں كے نقش ونگار والا ريشمى لباس پسند كرتے تھے جيسا كہ ہشام بن عبدالملك كے نقش و نگار سے بھرے ہوئے بارہ ہزار ريشمى لباس مشہور ہيں _ اسطرح كے نمود و نمايش اور آسائشے پسندى نے مسلمانوں كو رام كرليا تھا اور يہ چيز مسلمانوں پر پڑنے والى مہلك ترين ضرب تھي(سقوط اندلس كا مطالعہ كريں )(۲)

____________________

۱)سابقہ حوالہ_

۲) زين العابدين قرباني، علل پيشرفت اسلام و انحطاط مسلمين _ تہران _ ص ۸۹ _ ۳۸۲ _

۲۰۵

ب: قدامت پرستي

اسلامى تہذيب و تمدن كے زوال ميں ايك سبب قدامت پرستى ہے كہ اس سے پہلے كے ہم اسلامى تہذيب پر اس كے اثرات كا مطالعہ كريں سب سے پہلے اسكى دقيق تعريف و تشريح كريں گے _ قدامت پرستى كے مختلف معانى ہيں مثلاً توقف، تبديلى قبول نہ كرنا، جمود اور تہذيب اور حقيقى و بلند اقدار كا ترقى نہ كرنا ہے_

قدامت پسندى فكر و نظر كے ميدانوں ميں وجود پاتى ہے اور اگر كردار و رجحانات سے ظاہرہو تو جمود كہلاتا ہے _ قرآنى مفاہيم ميں بھى (قدامت پسندي) كو معرفت و شناخت كيلئے مانع و ركاوٹ كے عنوان سے ذكر كيا گيا ہے ؟ (ثم قست قلوبكم من بعد ذلك فہى كالحجارة اور اشدّ قسوة ...)(بقرہ ۷۴)

قرآنى نگاہ ميں يہ وہ لوگ ہيں كہ جنہوں نے فكر و تدبر سے دورى اختيار كرلى ہے اور ناقابل ہدايت ہوچكے ہيں پس قدامت پسندى حق كو قبول كرنے اور حقيقى كمال و سعادت تك پہنچنے ميں ركاوٹ ہے اسكے ساتھ ساتھ يہ دينى افكار كى ترقى ميں بھى مانع ہے _

قدامت پسندى كے ہوتے ہوئے حقيقت، معرفت، حكمت، حكومت ، انتظام ، سياست اور معيشت كے ساتھ فكرى اور عملى طور پر پروان نہيں چڑھا جاسكتا _

قدامت پرست لوگ اسلام سے فقط خشك و جمود يافتہ تعليمات ليتے ہيں كہ زمان و مكان كے تقاضوں كے مد مقابل كسى قسم كى لچك، تحقيق اور نمو سے خالى ہيں _ اور كبھى بھى اپنے اسلامى افكار و نظريات اور عمل ميں غلطى اور نظرثانى كے قائل نہيں بلكہ ہميشہ ٹھراؤ اور خواہ مخواہ كے توقف كے شكار ہيں _(۱)

ايك قدامت پرست انسان اپنى فكر و نظر كا ايك مضبوط جال اپنے ارد گرد تن ليتا ہے اور كبھى بھى اپنے افكار اور عقائد كو تبديل كرنے پر تيار نہيں ہوتا_ استاد مطہرى اس مسئلہ كے حوالے سے فرماتے ہيں كہ ''اسلامى دنيا ميں كچھ فكرى تحريكيں سامنے آتى ہيں كہ انكا نام افراط يا جہالت ركھنا چاہئے ان تحريكيوں كے ذريعہ دينى امور اور بے جا دخل ميں افراط سے كام ليا گيا جبكہ ان كے مد مقابل كچھ ايسے فكرى رويے سامنے آئے كہ جو تفريط

____________________

۱) محمد جواد رودگر، تحجر و تجدد از منظر استاد مطہرى كتاب نقد سال ہفتم شمارہ ۲_۳ ص ۵۰_ ۴۹_

۲۰۶

اور جمود كے حامل تھے_ ليكن يہ سب گذشتہ دور ميں تھا مسلمانوں كو چاہيے كہ قرانى تعليمات پرعقيدہ ركھيں اور معتدل انداز سے فكرى حركت كرےں _(۱)

استاد مطہري منحرف فكرى تحريكوں كا تجزيہ و تحليل كرتے ہوئے تين ايسے كلى مكاتبكے بارے ميں بتاتے ہيں كہ جو شديد انداز سے جمود فكرى كا شكار تھے اور قدامت پرستى كى تبليغ و ترويج ميں اہم كردار ادا كرتے تھے :

۱)_وہ عناصركہ جنہوں نے سياسى مقاصد كى خاطر ''حسبنا كتاب اللہ'' كا نظريہ پيش كيا _ اور فكرى انحراف پيدا كرنے كے ساتھ ساتھ اہلبيت رسول سے لوگوں كو دور كرنے ميں مؤثر كردار اداكيا_

۲)_ايك اورگروہ نے پہلى تحريك كے مدمقابل ''حسبنا احاديثنا واخبارنا'' كا نعرہ بلند كيا اور قرآن كريم كو مہجور قرار دينے ميں اہم كردار ادا كيا اور لوگوں كو بنيادى اور زندگى بخش معارف و تعليمات سے دور كيا_

۳)_وہ عناصر كہ جنہوں نے تقدس كے رنگ ميں قرانى تعليمات كے ناقابل فہم و درك ہونے كا نظريہ پيش كيا اور ''اين التراب ورب الارباب'' كا نعرہ بلند كيا جسكا نتيجہ فكرى تعطيل كى صورت ميں سامنے آيا اور يہ گروہ ''معطلہ'' كہلايا _(۲)

اگر ہم اسلام كے مختلف سماجى ادوار ميں اسلامى نظريہ اور فكرى وثقافتى تحريكوں كى تاريخ ميں تحقيق كريں تو يہ مشاہدہ كريں گے كہ ان مندرجہ بالا تين كلى تحريكوں كى بناء پر ''اخباريت اور ظاہر پرستى '' اور انكے مد مقابل ''باطنيت اور تاؤيل'' كى شكل ميں حنبليوں اور اسماعيليوں كے دو غلط فكرى نظام سامنے آتے ہيں كہ ان دو فكرى نظاموں اور اخباريت كى تحريك نے اسلامى تہذيب و تمدن كے پيكر پر شديد اور خطرناك ضربيں لگائيں كہ استاد مطہري كے بقول ''اسلام نے اخباريوں اور حديث مسلك لوگوں كے ہاتھوں جو ضرب كھائي وہ كسى اور تحريك سے نہيں كھائي تھي''_(۳)

____________________

۱) مجموعہ آثار ج ۲۱ ص ۱۲۹ _ ۱۲۸_

۲) سابقہ حوالہ ج ۶ ص ۹۰۰ _ ۸۷۸ _

۳) رودگر، سابقہ حوالہ ص ۵۳_ ۲۱۹

۲۰۷

ج ) اسلامى دنيا ميں عقل اور عقل دشمن تحريكيں

بہرحال تمام تہذيبوں بالخصوص اسلامى تہذيب و تمدن كا عروج و زوال مختلف فكرى تحريكوں كا مديون منت ہے_ بعض اہل فكر وتحقيق اسلامى افكار و ثقافت كے زوال كا سبب متوكل عباسى (۲۴۷_ ۲۳۲ قمري) كا دور خلافت سمجھتے ہيں اس خليفہ سے پہلے كے خلفاء مكتب معتزلى يعنى عقل گرائي كى طرف رجحان ركھتے تھے اور اہل نظر ، حكماء ، فلاسفہ اور دانشوروں كے حامى سمجھے جاتے تھے ليكن يہ خليفہ مكتب اہل حديث سے وابستہ ہوا ، عقائد معتزلہ كى مخالفت كى اور عقائد وافكار ميں جدل و مناظرہ كو ممنوع كيا_ يہاں تك كہ كوئي بھى علمى مباحث اور مناظرہ كا اہتمام كرتا اسے سزا ديتا تھا_

ان اقدامات كا يہ نتيجہ نكلا كہ احمد بن حنبل كے پرچم تلے اہل حديث كے گروہ نے ترقى كى جو فقط سنت و حديث كى تقليد كرتے تھے اور جو كچھ نقل ہوا صرف اسى كے سامنے سر تسليم خم كرتے تھے اور اپنے مخالفين يعنى اہل عقل و نظر بالخصوص معتزلہ پر كفر كا الزام لگاتے تھے _ يہ تحريك امام محمد غزالى كے ظہور اور انكى مشہور كتاب ''احياء علوم الدين'' كے سامنے آنے سے شديد تر ہوگئي_ صرف تعقل كو ممنوع كرنے اور معتزلہ كو كافر قرار دينے پر اكتفاء نہ كيا گيا بلكہ شيعہ اثنى عشرى جيسے مكاتب پر بھى كفر، رافضيت اور باطنيت كى تہمت لگائي گئي_

اسلامى تفكر ميں جمود پيدا كرنے والے ان اسباب كے ساتھ ساتھ قرن ششم وہفتم ميں تصوف كى وسيع پيمانے پر ترويج كو بھى شامل كياجاسكتا ہے _ بعض محققين كى نظر كے مطابق يہ تصوف علوم عقلى مثلاً فلسفہ اور استدلال كے مدمقابل بہت بڑى مصيبت شمار ہوتا ہے كيونكہ اہل تصوف شريعت اور عقل كے پيروكاروں كے مد مقابل كشف و شہود كو حقائق كے درك كا وسيلہ پيش كرتے تھے، حقيقت تك پہنچنے كيلئے عقل و استدلال كو ناكافى سمجھتے تھے اور كبھى تو عقل كو اللہ تعالى كى معرفت و شناخت كيلئے حجاب كا عنوان ديتے تھے_

مجموعى طور پر مندرجہ بالا اسباب كو اسلامى تفكر و نظريہ كى ترقى ميں اہم موانع سمجھا جاسكتا ہے جب بھى فكر و استدلال كے راستے بند كيے جائيں تو خودبخود قدامت پرستى اور جمود پروان چڑھيں گے اخر ميں ہم اسلامى نظريہ كى تاريخ كا تجزيہ كرتے ہوئے جمود اور قدامت پرستى كوفكر و استدلال ميں توقف سے تعبير كرسكتے ہيں _

۲۰۸

آٹھواں باب:

بيدارى عالم اسلام كى نشا ة ثانيہ

۲۰۹

۱_ صفوي:

الف) صفويوں كا ظہور:

آيا صفوى خاندان عرب تھے يا تركى يا كردى يا ايرانى _ اس حوالے سے محققين ميں اختلاف نظر ہے _(۱) اس خاندان كے سب سے پہلے فرد شيخ صفى الدين اردبيلى (۷۳۵_ ۶۵۰ قمري) جو كہ ايران كے بزرگ مشائخ اور عرفاء ميں سے تھے _ اپنے مرشد كى جستجو ميں شيخ زاہد گيلانى كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور انكے مقرب قرار پائے پھر انكى وفات كے بعد طريقت زاہد يہ كے رئيس بنے _(۲) شيخ صفى الدين كا مقام معنويت بڑى اہميت كا حامل تھا انہوں نے طريقت كے اس لباس ميں مذہب تشيع كى وسيع پيمانے پر نشر واشاعت كى يوں ان كى ذہانت اور زيركى وجہ سے يہ مسلك ايران ، شام اور برصغير تك وسعت سے پھيلا_(۳)

شيخ صفى كے بعد انكے فرزند صدر الدين انكے جانشين بنے آرامگاہ بننے سے انكے پيروكاروں كى فعاليت بڑھي(۴) ايلخانان كے بعد بتدريج اردبيل كى خانقاہ كے شيوخ سياسى كھيل ميں داخل ہوئے _ اس كے بعد خواجہ على اور ابراہيم مقام خلافت پر پہنچے اسى دوران صفويوں كى تبليغى سرگرمياں جارى رہيں يہاں تك كہ سنہ ۸۵۱ جنيد صفوى طريقت كے رئيس بنے _

____________________

۱) ابن بزاز اردبيلى (درويش توكلى بن اسمعيل بزاز) صفوة الصفا مقدمہ و تصحيح غلامرضا طباطبائي _ تہران ص ۷۰ حسين ابدال زاہدى ، سلسلہ النسب صفويہ ، تہران ، ايرانمہر ۱۱_ ۱۰ _

۲)ابن بزاز_ سابقہ حوالہ فصول ششم ، ہفتم_

۳)راجو سيورى ، ايران عصر صفوى ، ترجمہ كا ميز عزيزى ، تہران ، نشر مركز ص ۸_

۴) ابن بزاز، سابقہ حوالہ ص ۹۸۳، ۸۹۸_

۲۱۰

انہوں نے دنياوى اقتدار و طاقت كو ہاتھ ميں لينے كى طرف اپنا ميلان آشكار كيا اور سلطان كا لقب اپنے لئے پسند كيا كہ يہ چيز ان كے دنياوى جذبوں كے صفوى طريقت كے ديگر معنوى پہلوؤں پر غلبہ كى عكاسى كرتى ہے انہوں نے كئي بار اپنے مريدوں كو كفار كے خلاف جہاد پر اكسايا_(۱) حيدر ۸۶۰ قمرى ميں جنيد كے جانشين بنے پھر حيدر كے بعد على اسكا جانشين بنا اس نے اپنے آپ كو بادشاہ كہا(۲) صفويوں كى سياسى سرگرمياں باعث بنيں كہ آق قو نيلو جوكہ صفويوں كے دوست اور ہم پيالہ تھے انكے حوالے سے تشويش كا شكار ہوئے بالآخر على آق قو نيلوؤں كے ہاتھوں قتل ہوا اور اسماعيل جوكہ سات سالہ تھا اہل اختصاص (صفويوں كے خصوصى وفادار و محب لوگ) كے ذريعے گيلان فرار كروا ديا گيا _(۳)

ب) صفوى حكومت كى تشكيل :

سنہ ۹۰۵ قمرى ميں اسماعيل دوبارہ اردبيل ميں پلٹا اور اپنے مريدوں كو منظم كيا _ اس نے سنہ ۹۰۷ قمرى ميں آق نيلووں كى كمزورى سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تبريز شہر پر قبضہ كرليا اور تاجيوشى كى تقريب منعقد كى يہ سب اقدامات اہل اختصاص نے انجام ديے چونكہ اس وقت اسماعيل كى عمر چودہ سال سے زيادہ نہ تھى _(۴) اس نے رسمى طور پر حكومت كا مذہب شيعہ قرار ديا اور اماميہ اثنا عشريہ كى ترويج اور استحكام كے لئے كوششيں كيں(۵) _

كچھ عرصہ بعد اسماعيل نے ايران كے شمالى مشرقى علاقوں كى صورت حال درست كرنے كيلئے ازبكان سے جنگ كى ليكن اہل شمشير (ترك لوگ) اور اہل قلم (دفاتر كے ايرانى لوگ)(۶) ميں اختلافات كے باعث

____________________

۱) نيورى ، ص ۱۶ _ ۱۵_

۲) خوانوير _ جيب السير ، زير نظر محمد دبير ساقى ، تہران ، ص ۴۳۸ _

۳ ) سابقہ حوالہ ص ۴۴۲ _ ۴۴۰_

۴) سابقہ حوالہ ص ۵۱_ ۴۴۶_ حسن بيگ روملو، احسن التواريخ باتصحيح عبدالحسنين نواہي_

۵) جہان گشائي خاقان،ص ۸۰ (تاريخ شاہ اسماعيل) مقدمہ اسلام آباد، مركز تحقيقات فارس ايران در پاكستان ص ۶_۱۴۵_

۶) سيورى ، سابقہ حوالہ ص ۳۱_۳۰_

۲۱۱

كے باعث وہ معركہ غجددان ميں كچھ پيش رفت نہ كرسكے اور يہ معركہ ايرانيوں كے ضرر ميں اختتام پذير ہوا_ مغربى محاذ ميں بھى اسماعيل عثمانيہ كى سنى حكومت سے اساسى اختلافات ركھتا تھا _ عثمانى حكومت كسى صورت ميں بھى صفويوں كى شيعہ حكومت كو قبول كرنے كيلئے تيار نہ تھى نيز صفوى كے حاميوں كے آناتولى ميں اقدامات اور خود صفويوں كى عثمانيہ كے امور ميں مداخلت مشہور جنگ چالدران (سنہ ۹۲۰ ميں ) كا باعث بنى كہ جسميں صفويوں كى شكست كے باعث تبريز پر دشمن كا قبضہ ہوا اور شاہ اسماعيل اپنى عمر كے آخرى آيام تك اس شكست سے متاثر اور شرمندہ رہا _

ج) استحكام كا مرحلہ:

سنہ ۹۳۰ قمرى ميں شاہ اسماعيل كى وفات كے بعد تہماسب تخت حكومت پر جلوہ افروز ہوا(۴) اس نے اپنى حكومت كے دوران صفوى اقتدار كى اہليت اور صلاحيت كو ثابت كيا سب سے پہلے امراء اور قزلباشوں كى سركشى اور نافرمانى كو دبايا كہ جو ايرانيوں كے مقابلے ميں زيادہ اختيارات اور طاقت كے طالب تھے اور قزلباشوں اور حكومتى امراء كے درميان ايك خاص نظم قائم كيا كہ جسكى بناء پر اس كا ۵۴ سالہ اقتدار اپنے آخرى ايام تك مستحكم اور باقى رہا _

شاہ تہماسب نے سنہ ۹۳۵ قمرى ميں مرو كے مشہور جنگى معركہ ميں ازبكان كو شكست دى _(۵)

اس نے جنگى چالوں اور توپخانہ كے استعمال سے صفوى حكومت كو آدھى صدى تك متحد اور مستحكم ركھا _ اس كے بعد شاہ اسماعيل دوم كے مختصر دور سلطنت (۹۸۵_ ۹۸۴ قمرى ) اور سلطان محمد خدابندہ كے دور حكومت (۹۹۶_ ۹۸۵ ) ميں قزلباشوں كى مداخلت كى وجہ سے صفوى حكومت كے اندرونى اور بيرونى حالات خراب ہوگئے تھے(۱)

____________________

۱) خورشاہ بن قباد الحسيني، تاريخ ايلچى نظام شاہ ص ۵_ ۸۴_

۲) روملو، احسن التواريخ ص ۲۸۱_ ۲۷۷_

۳) اسكندر بيك منشى ، تاريخ عالم آرامى عباسى ، ص ۳۴۱_

۲۱۲

د) زمانہ عروج :

سنہ ۹۹۶ قمرى ميں عباس ميرزا تخت شاہى پر متمكن ہوا اس نے بھى اپنى اصلاحات كا ايسا جلوہ دكھا يا كہ يورپ كے بادشاہوں اور پاپا ے روم نے بھى اپنے سفيروں كو اس كے دربار ميں بھيجا(۱) شاہ عباس نے اپنى حكومت كے ابتدائي ايام ميں قزلباشوں كى مختلف جماعتوں كى گروہ بندى كا مشاہدہ كياوہ سمجھتا تھا كہ اس سے پہلے كہ اسكا اقتدار انكى سازشوں كى نذر ہو انكى سركشى كو ختم كريا جائے _ لہذا اس نے قزلباشوں كى جگہ فوج ميں جارجين، چركس اور آرمينين اقوام كے دستوں كو داخل كيا جسكى بناء پر ايك منظم فوج تشكيل پائي كہ جسے اس نے يورپى فوجى تكنيك بالخصوص چارلى برادران كى فوجى تربيت اور بارودى اسلحہ اور توپخانہ سے آراستہ كيا_ فوج كے ذريعے قزلباشوں كو پر قابوپايا_ امن بحال كيا اور حكومت كى اقتصادى صورت حال كو درست كيا_

شاہ عباس تجارت بالخصوص بيرونى تجارت كو بہت زيادہ اہميت ديتا تھا(۲) اس نے يورپى حكومتوں كے ساتھ تعلقات بڑھائے ، يورپى ممالك ميں اسكے سفيروں كى بڑى تعداد اسكے وسيع اقدامات كى عكاسى كرتى ہے_ ان اقدامات كے ثمرات كى بناء پرجان چارڈن ( فرانسيسى سياح) نے ايران كى سياحت كے بعد كہاتھا كہ اس عظيم بادشاہ كى وفات سے ايران كى رونق اورفلاح و بہبود بھى ختم ہوگئي(۳)

سال ۱۰۳۸ قمرى ميں شاہ كى شاہزادوں كے قتل اور انہيں حرم ميں محبوس كرنے كى سياست كے باعث صفوى دربار ايسے تجربہ كار لوگوں سے محروم ہوگيا جو شاہ عباس كى پاليسوں كوجارى ركھ سكتے تھے_ شاہ عباس كے بعد شاہ صفى نے قدرت كى باگ ڈور سنبھالي، اس كے زمانہ اقتدار ميں ولايات ممالك كو ولايات خاصہ ميں تبديل كرنے كى سياست ( صوبوں كے اختيارات كى تقليل) وسعت اختيار كر گئي اس سياست كو عباس

____________________

۱) نصراللہ فلسفى ، زندگانى شاہ عباس تہران ، انتشارات علمى ج ۴ ص ۵ ص ۱۲۷۱ _ ۱۳۲۵_

۲) سيورى ، سابقہ حوالہ ص ۹۹_

۳) سيوري، درباب صفويان ،تہران ص ۱۶۸_

۴) محمد يوسف والہ قزوينى اصفہاني، ايران در زمان شاہ صفى و شاہ عباس دوم ، تہران انجمن آثار و مفاخر فرہنگي_ ص ۱۵_ ۳۱۳_ ۵۱_ ۳۵_

۲۱۳

اول نے درآمدات بڑھانے اور ملك كے دفاعى سسٹم كو مضبوط كرنے كيلئے شروع كيا تھا ،ليكن شاہ صفى كے دور ميں اس سے ملك كے دفاعى شعبہ كو نقصان ہوا اور خاندان امامقلى خان كہ جس نے اس حوالے سے بہت سے خدمات انجام ديں تھيں مكمل طور پر ختم ہوگيا(۱) شاہ عباس دوم جو كہ شاہ صفى كا جانشين تھا وہ بھى ملك كے خراب حالات كو زيادہ بہتر نہ كرسكا اگر چہ اس نے اپنى بادشاہت كى سرحدوں كو ہر قسم كے حملے سے بچائے ركھا اور سال ۱۰۵۸ ميں قندھار كو تيموريوں سے واپس لے ليا_

شاہ سليمان كے اقتدار تك پہنچنے سے صفوى سلسلہ كے زوال كا دور شروع ہوا اس دور ميں علماء كا ملك كے سياسى اور مذہبى امور ميں نفوذ تيزى سے بڑھا ليكن صفوى اقتدار شاہ سلطان حسين كے دور ميں مكمل طور پر ضعف كا شكار ہوا جو كہ ايك كمزور شخصيت كا حامل تھا اور ملك كے امور سے لا پرواہ تھا_ اس زمانہ ميں قندھار كے افغان لوگ جو كہ صفويوں كے تسلط كو پسند نہيں كرتے تھے ايران پر حملہ آور ہوئے اور سنہ ۱۱۳۵ قمرى ميں اصفہان پر قبضہ كركے صفوى سلسلہ كے اقتدار كو ختم كرديا(۲)

خارجہ روابط

صفوى دور حكومت ميں انكے مغرب ميں ہمسائے عثمانى تھے، شمال و مشرق ميں ازبكان اور ان كے مشرق ميں مغل تھے ،صفويوں كے انكے ساتھ روابط بہت سے نشيب وفرازسے گذرے_

الف) ہمسايوں كے ساتھ روابط

صفويوں كے اپنے ہمسايوں كے ساتھ روابط ميں فقط انكا مذہب ( شعيت ) ہى اہم تاثير كا حامل نہ تھا بلكہ بہت سے اسباب اور دلائل ديگر بھى موجود تھے_ ايران كے شمال مشرق ميں ازبكان لوگ اپنے صحرائي مزاج

____________________

۱) ولى قلى بن داود بن قلى شاملي_قصص الخاقاني_ ص ۴۱۲ _۴۰۶_

۲) تاريخ ايران دورہ صفويان _ پوہشى از دانشگاہ كمبريج ترجمہ يعقوب آنہ ص ۱۲۶_۱۲۲_

۲۱۴

اور قبائلى نظام كے باعث اكثر ايرانيوں كے ساتھ حالت جنگ ميں ہوتے تھے ليكن يہاں اہم نكتہ يہ ہے كہ صفويوں نے اكثر ان كے ساتھ طاقت كى زبان استعمال كى اور فتح پائي(۱) دونوں حكومتوں ميں مذہبى اختلافات كے علاوہ جنگ وجدال كا اہم سبب دونوں ممالك كے مابين جغرافيائي اور سياسى سرحدوں كا نہ ہونا تھا اس كشمكش كے ساتھ ساتھ دونوں ميں دوستانہ روابط بھى موجود رہے ،بہت سے ايرانى اور ازبكى سفيروں كى رفت وآمد نيز ازبكوں كا حج كے اعمال بجالانے كيلئے ايران سے عبور كرنا صفويوں كے ساتھ دوستانہ روابط كا متقاضى تھا(۲)

صفويوں كے عثمانيوں كے ساتھ روابط بھى صلح وجنگ كا آميزہ تھے ،بہت سى جنگيں اور مختلف صلح نامے سے اس فراز و نشيب كى عكاسى كرتے ہيں _ ايران اور عثمانيوں ميں اہم ترين معركہ جنگ چالدران تھى كہ عثمانيوں كے باغى شاہزادے سلطان مرادكى(۳) شاہ اسماعيل كى طرف سے حمايت اور دونوں حكومتوں كے مذہبى اختلافات كے باعث يہ جنگ پيش آئي_ شاہ تہماسب كے دور ميں سال ۹۶۲ قمرى ميں(۴) صلح آماسيہ كے عہدنامہ سے يہ روابط ايك نئے مرحلہ ميں داخل ہوگئے_ اس صلح نامہ كے تحت كردستان ، بين النہرين اور جارجيا كا كچھ علاقہ عثمانيہ كو حاصل ہوا اس كے مد مقابل آرمينيا، كاخت اور آج كے مشرقى آذربائيجان كا كچھ حصہ ايران كا جزو شمار ہوا _(۵) سرحد متعين ہوگئي اور يہ معاہدہ سلطان محمد خدابندہ كے دور تك باقى رہا_(۶) شاہ عباس كے ابتدائي دور ميں اس نے مجبور ہوكر ايران كے كچھ علاقے عثمانيوں كے حوالے كئے ليكن بعد ميں اس نے عثمانيوں سے واپس لے ليے(۷) شاہ صفى كے زمانہ اقتدار ميں عثمانيوں نے بغداد پر قبضہ

____________________

۱) عباسقلى غفارى ، روابط صفويہ و ازبكان ج ۱_

۲) اسكندر بيگ منشي، سابقہ حوالہ ص ۷۳_ ۷۲_

۳) ھامر پور گشتال ، تاريخ امپراتورى عثمانى ص ۱۹_ ۸۱۶_

۴) خورشاہ _سابقہ حوالہ ص ۸۶_ ۱۸۴ اسكندر پلك منشى ، سابقہ حوالہ ج ۱ ص ۹_۱۲۸_

۵) عبدالرضا ہوشنگ مہدوي، تاريخ روابط خارجى ايران از ابتداى دوران صفويہ تاپايان جنگ دوم جہاني، ص ۳۳_

۶) راجرسيوري، سابقہ حوالہ ص ۷۳_۷۰_

۷) سابقہ حوالہ ص ۶_۸۳ _

۲۱۵

كرليا اور بادشاہ نے سال ۱۰۴۹ قمرى ميں عثمانيوں كے ساتھ معاہدہ قصر شيرين طے كيا جس كى روسے بصرہ اور مغربى كردستان كا كچھ حصہ عثمانيوں كو ديا گيا جبكہ مشرقى آذربائيجان، رواندوز، آرمينيا اور جارجيا ايران كو ديے گئے، يہ معاہدہ بہت اہميت كا حامل تھا كہ كيونكہ اس معاہدہ كى روسے متنازعہ علاقوں كا مسئلہ حل ہوا اور ايك صدى تك دونوں حكومتوں ميں صلح برقرار رہى _(۱)

آخرى نكتہ يہ ہے كہ عثمانيوں كے ساتھ ايران كے روابط ميں مختلف عوامل كردار ادا كرتے تھے _ مثلاً مذہب، سياسى عوامل سرحدى علاقوں كے قبائل كى حركات، سرحدوں كا متعين نہ ہونا اور عثمانيوں كى توسيع پسندي_

مغلوں كے ساتھ تعلقات ميں ديگر ہمسايوں كى نسبت بہت كم معاملہ جنگ وجدال تك پہنچا يہاں صرف اہم مسئلہ قندھار كا تھا_مغلول كے ساتھ دوستانہ روابط اكثر صفوى بادشاہوں كے زمانہ ميں رہے ہيں دونوں حكومتوں نے باہمى روابط ميں امن اورصلح قائم ركھنے كو ترجيح دى _(۲)

(ب) يورپى حكومتوں كے ساتھ روابط : سال ۹۱۲ قمرى كے بعد سے خليج فارس ميں پرتگاليوں كے نفوذ كى بناء پر شاہ اسماعيل نے كوئي چارہ نہ ديكھتے ہوئے انكے اقتدار كو قبول كيا اصل ميں وہ عثمانيوں كے خلاف ان سے مدد لينا چاہتا تھا _ پرتگاليوں سے قرار داد ميں يہ درج تھا كہ وہ ايرانى لوگوں كو بارودى اسلحہ كے استعمال كا طريقہ سكھائيں _ شاہ تہماسب كى عثمانيوں كے ساتھ بيس سالہ جنگى دور ميں پرتگاليوں نے كچھ مقدار ميں بندوقيں اور جديد اسلحہ ايرانيوں كو ديا _(۳) اس دور كے بعد عيسائي مبلغين نے دوستانہ روابط برقرار كرنے كى كوششيں شروع كيں _

سال سنہ ۱۰۰۶ قمرى ميں دو انگريز آنتھونى شرلى اور رابرٹ شرلى شاہ عباس كے دربار ميں حاضر ہوئے _

____________________

۱) ہوشنگ مہدوى ، سابقہ حوالہ ص ۵_ ۱۰۴_

۲)رياض السلام ،تاريخ روابط ايران و ہند، ترجمہ محمد باقر آرام و عباسقلى خان ، تہران _

۳) ہوشنگ مہدوي، سابقہ حوالہ ص ۳، ۲۳_

۲۱۶

ايك سال كے بعد شاہ عباس نے انتھونى شررلى كو بادشاہ كى طرف سے دوستى كے خطوط كے ساتھ پايائے اعظم اور يورپ كے بادشاہوں مثلاً روم كے بادشاہ رودلف دوم فرانس كے بادشاہ آنري، ملكہ انگلستان اور وينس كے حاكم دوك توسكانى كى طرف بھيجا _ انتھونى كا مشن يہ تھا كہ وہ ان بادشاہوں كى مشتركہ دشمن عثمانيوں كے ساتھ جنگ ميں حمايت حاصل كرے_

پرتگاليوں كے ساتھ انگريزوں كى رقابت كے سلسلہ ميں انتھونى جيكسن ماسكو كى كمپنى كے نمائندے كى حيثيت سے ايران آيا_ وہ ملكہ اليزبتھ كى طرف سے شاہ تھماسب كےلئے بہت سے خطوط لايا كہ جنكا مقصد تجارتى روابط برقرار كرنا تھا_ انگريزايسٹ انڈين كمپنى كے ذريعے سال ۱۰۲۴ قمرى ميں آہستہ آہستہ ايرانى بازاروں ميں داخل ہوئے وہ ايران ميں كپڑا لائے انہوں نے شيراز اور اصفہان ميں تجارت خانے قائم كيے اور شاہ عباس سے بہت سى سہوليات حاصل كيں _ شاہ عباس انگريزوں كى دريائي طاقت كو پرتگاليوں كے خلاف استعمال كرنا چاہتا تھا بالآخر امامقلى كى كوششوں سے انگريزوں ے مدد لى اور ہرمز كو پرتگاليوں كے چنگل سے آزاد كرواليا _(۱)

سال ۱۰۷۴ قمرى ميں ايران كے بعد يورپى حكومتوں كے ساتھ روابط ميں فرانسيسى لوگ ظاہر ہوئے ،كيپشن گروپ ايران ميں فعال ہوئے انہوں نے اصفہان ميں مراكز قائم كيے اور انگريزوں اوراہل ہالينڈ كى مانند انہوں نے بھى دربار سے سہوليات حاصل كيں(۲) ايسٹ انڈيا انگريز كمپنى نے صفوى دور كے اختتام تك ايران ميں اپنے من پسند حقوق بحال ركھے صفويوں كے غير ملكى روابط كے حوالے سے كہا جاسكتا ہے كہ شاہ اسماعيل ، شاہ تھماسب اور شاہ عباس كبير جيسے حاكموں نے اپنے ملك كے استقلال اور دشمنوں كے مد مقابل اس كى حفاظت كيلئے بھر پور كوشش كى اور دو صديوں تك ايك مستحكم اور طاقتور حكومت كے ذريعے اپنے ملك كى سياسى اور قومى سرحدوں كا بھرپور دفاع كيا_

____________________

۱) راجر سيوري، سابقہ حوالہ ص ۱۳_ ۱۰۶_

۲)عبدالحسين نوايي، روابط سياسى و اقتصادى ايران در دورہ صفويہ ،تہران فصل ہشتم_

۲۱۷

صفوى دور كى تہذيب و تمدن

مذہب شيعہ كوسركارى قرار دينا اور اسكے نتائج:

جيسا كہ بتايا گياہے كہ شاہ اسماعيل نے سال ۹۰۷ قمرى ميں تبريز ميں ايران كے سركارى مذہب كو شيعہ قرار ديا اور حكم ديا كہ آذربائيجان تك رياستوں كے خطباء ''ائمہ اثنى عشر سلام اللہ عليہم الى يوم الحشر'' كے نام خطبہ پڑھيں(۱) مذہب شيعہ كو سركارى قرار دينے سے صفويوں كيلئے سب سے پہلا مرحلہ شيعى فقہى احكام كا اجراء اور حكومت كے امور كا شيعہ فقہ كے مطابق چلنا تھا_

ايران ميں شيعہ فقہ سے آگاہ افراد كى كمى كے باعث شاہ اسماعيل كو جبل عامل اور بحرين كے شيعہ علماء كا سہارا لينا پڑا اور انہيں ايران كى طرف دعوت دي(۲) شاہ تھماسب كے دور ميں اس پر زيادہ توجہ دى گئي اور بہت سے شيعہ علماء نے ايران كى طرف ہجرت كى _ بعض علمائے دين نے صفوى حكومت كا ساتھ ديا اور انہيں استحكام بخشا جسكے نتيجہ ميں بادشاہوں نے بھى علماء دين اور انكے مقام كو عزت و توقير سے نوازا اور اہم حكومتى مناصب مثلاً صدر ، شيخ الاسلام ، مجتہد ، قاضى اور مفتى وغيرہ كے عہدے علماء كے حوالے كيے_

شاہ عباس كے زمانے ميں اسكا اقتدار اوررعب و دبدبہ مذہبى قوتوں پر حاوى رہا ليكن اس كے بعد علماء كا غلبہ بڑھتا گيا اور صفوى حكومت كے آخرى ايام ميں بالخصوص سليمان اور حسين صفوى بادشاہ كے دور ميں علامہ باقر مجلسى عہد صفوى كے علماء ميں ايك بارسوخ ترين شخصيت بن كر ابھرے اور آپ اصفہان كے شيخ الاسلام تھے _ انہوں نے خود امام زمانہ (ع) كے نائب كى حيثيت سے شاہ سلطان حسين كو اپنا نائب قرار ديا ہوا تھا_

علمائے جبل عامل كا شاگردوں كى تربيت اور صفوى حكومت كو شيعہ عادل بادشاہت كے طور پر تسليم كرنے كا كردار انتہائي اہميت كا حامل تھا_ اس دور ميں علماء نے تعليم ا ور كتب كى تاليف كے ذريعہ مذہب تشيع كى وسيع پيمانوں پر ترويج ميں مدد كى اور شيعہ علوم ومعارف كى ترقى اور وسعت كے اسباب فراہم كيے_(۳)

____________________

۱) خواندمير ، سابقہ حوالہ ج ۴ ص ۴۶۷_

۲) مہدى خوايانى منفرد، مہاجرت علماء شيعہ از جبل عامل بہ ايران _ ص ۱۰۰_

۳) سابقہ حوالہ ص ۱۳_۱۱۰_

۲۱۸

ادبيات

تاريخ ادبيات كے محققين صفوى دور ميں شعر وشاعرى كے زوال يا پر رونق ہونے ميں اختلاف نظر ركھتے ہيں _ مآخذ تاريخ كے تجزيہ سے معلوم ہوتا ہے كہ شاہ اسماعيل تركى زبان ميں شعر كہتے تھے اور خطايى تخلص ركھتے تھے(۱) _ شاہ تھماسب كے زمانہ ميں مخصوص سياسى اور مذہبى صورت حال كے پيش نظر شعر زيادہ تر مرثيہ سرائي ، نوحہ خوانى او رآئمہ معصومين (ع) كى مدح ميں تبديل ہوگيا تھا كہ جسكا ايك نمونہ محتشم كاشانى كا مشہور قصيدہ ہے كہ جسے شاہ تھماسب كے تقاضہ پر اس نے كہا تھا _(۲)

شاہ عباس ہميشہ شعراء كى صحبت ميں رہتا تھا _ دورہ صفوى ميں شعر وشاعرى پر ہندى سبك چھايا ہوا تھا اس دور ميں تاريخ نويسى بعض مخالف اقوال كے باوجود ترقى پر گامزن تھى كہ جسكا ايك نمونہ اسكندر بيك منشى ہيں كہ جو عہد صفوى كے عظیم ترين تاريخ نويس شمار ہوتے ہيں _(۳)

مدارس اور علوم

علماء شيعہ كى ايران كى طرف ہجرت اور انكا مختلف شہروں مثلاً شيراز، تبريز ، قزوين ، مشہد ، قم اور اصفہان ميں سكونت پذير ہونا باعث بنا كہ وہ ان شہروں كے مدارس ميں تدريس ميں بھى مشغول ہوگئے _ چارڈن نے اصفہان كے مدارس كى تعداد ۵۷ ذكر كى _(۴)

علمائے دين كى دينى مدارس ميں فعاليت اور صفوى بادشاہوں كے تعاون كے زير سايہ شيعہ مذہب كے علوم نے بہت وسعت اختيار كى مثلاًاسلامى فلسفہ ملا صدارا ، ميرداماد اور انكے شاگردوں جيسے علماء كى وجہ سے بہت

____________________

۱) رسول اسماعيل زادہ، شاہ اسماعيل صفوى ، خطايى ، انتشارات بين الملل الہدي_

۲) اسكندر بيك منشي، سابقہ حوالہ ج ۱ ص ۲۷۷_

۳) راجر سيورى ، سابقہ حوالہ ص ۲۱۳_

۴) حسين سلطان زادہ ، تاريخ مدارس ايران در عہد باستان تا تا سيس دارالفنون ، تہران ص ۵۷ _ ۲۵۶_

۲۱۹

زيادہ ترقى كر گيا _ اسى طرح علم طب نے بہت زيادہ اہميت پيدا كي_ حكيم باشي( ايك عہدے كا نام ) كا صفوى دربار ميں عہدہ ايك اہم عہدہ شمار ہوتا تھا اس دور ميں نشے كى چيزوں سے بے ہوش كرتے ہوئے مختلف اقسام كے آپريشن كيے گئے_(۱)

علم طب كے علاوہ علم نجوم بھى مورد توجہ تھا _ بادشاہ لوگ اپنے منصوبوں اور فيصلوں ميں علم نجوم سے فائدہ اٹھاتے تھے_

معماري

صفوى دور كى معمارى نے كيفيت اور كميت كے اعتبار سے ترقى كى _ اصفہان صفوى دور كى معمارى كا شاہكار ہے يہ جملہ ''اصفہان نصف جہان ہے'' اس ترقى كو بيان كر رہا ہے كہ جو شاہ عباس كے دور ميں پيكر حقيقت ميں تبديل ہوئي _ شاہ تھماسب نے دارالحكومت تبريز سے قزوين منتقل كيا اور قزوين ميں جديد عمارتيں بنائيں _ شاہ عباس نے اصفہان ميں اپنے بلند و بالا منصوبوں كو عملى جامہ پہنايا _

اصفہان اور اسكے ارد گرد كے علاقوں كا طبيعى حدود اربعہ شہر كو وسعت دينے كيلئے انتہائي مناسب تھا_ ايسا شہر جس ميں بہت سى سڑكيں محلات ، مساجد و مدارس، بازار، قلعے اور برج و مينارہوں ان سب كے بنانے اور وجود ميں لانے ميں بہاء الدين محمد عاملى (شيخ بہائي) كى مہارت وكوشش بہت اہميت كى حامل ہے _ چہار باغ ، ميدان عظیم نقش جہان، مسجد شيخ لطف اللہ، مسجد شاہ اور عالى قاپو ، اس دور كى معمارى كے اعلى نمونے ہيں _

دوسرا شاہكار چہل ستون ہے كہ جو شاہ عباس اول كے زمانہ ميں بننا شروع ہوا اور شاہ عباس دوم كے دور ميں تكميل ہوا اور سفيروں كے استقبال كى جگہ تھا_ آج بہت سے زينے، حمام، كاروانسرا، مدارس، مساجد اور ديگر متبرك مقامات صفوى دور كى عظيم الشان معمارى كى حكايت كررہے ہيں(۲)

____________________

۱) سيويل الگود _ طب در دورہ صفويہ ، ترجمہ محسن جاويد_ دانشگاہ تہران_

۲) زكى محمد حسن ، ہنر ايران، ترجمہ محمد ابراہيم اقليدى ، صداى معاصرص ۳۷ احمد تاجبخش ، تاريخ صفويہ ، انتشارات نويد شيراز_

۲۲۰