اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 0%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف: ڈاكٹر على اكبر ولايتي
زمرہ جات:

صفحے: 375
مشاہدے: 139376
ڈاؤنلوڈ: 4721

تبصرے:

اسلامى تہذيب و ثقافت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139376 / ڈاؤنلوڈ: 4721
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

آج بھى مشرق شناسى ايسا مقام ركھتى ہے كہ اگر محقق مشرق كے بارے ميں فكر كرنا اور تاليف كرنا چاہے تو وہ اس راہ ميں مشكلات كى ديواروں كو عبور نہيں كرسكتا كہ جو مشرق كو سمجھنے ميں ركاوٹ كى صورت ميں ركھ دى گئي ہيں ، بالفاظ ديگر مشرق آج بھى مشرق شناسى كى وجہ سے حقائق كے تشنہ اور غير جانبدار محققين كيلئے ايك آزاد موضوع نہيں بن سكتا ،اسكا مطلب يہ نہيں ہے كہ فقط مشرق شناسى كى شكل ميں يا مشرق شناس وغيرہ مشرق كے بارے ميں تحقيقات ميں مشغول ہيں بلكہ اسكا مطلب يہ ہے كہ مشرق شناسى ايك عمومى اور مجموعى مفادات پر مشتمل ايك گينگ كى صورت ميں سامنے آچكا ہے كہ جب بھى يہ غير معمولى اور عجيب و غريب شے يعنى مشرق كے بارے ميں تجزيہ كيا جائے گا يہ گينگ وہاں حاضر وموجود ہوگا اورا پنے اثرات ڈالے گا_(۱)

صہيونيزم:

لفظ ''صہيونيزم '' باہم مخالف فريقين ميں مختلف اور متضاد معانى او رمفاہيم كے ساتھ استعمال ہوتا ہے_حالانكہ خود صيہونى لوگ اسے ايك مثبت صفت سمجھتے ہيں جو كہ انكے تشخص اور مقاصد كو بيان كرنے كے لئے استعمال كيا جاتا ہے _ جبكہ انكے مخالفين اسے مكمل طور پر ايك منفى صفت سمجھتے ہيں كہ جو انكے منفى تشخص اور مقاصد كو بيان كرنے كے ساتھ ساتھ عالم اسلام پر انكے ظلم وستم سے بھرى ہوئي تاريخ بالخصوص مظلوم ملت فلسطين پر انكے وحشتانك مظالم كى ياد دلاتاہے_(۲)

مقالہ ''يہوديت وصہيونزم''(۳) كا مصنف جوكہ خود بھى متعصب صہيونى ہے لفظ ''صہيونيزم'' كے بارے ميں لكھتا ہے كہ ''ہرٹزل''(۴) نے ۱۸۸۷ ء ميں اپنى كتاب ''حكومت يہود ''كى اشاعت اور ہفت

____________________

۱) ايڈورڈسعيد ،سابقہ حوالہ ص ۳۹_

۲) محمد كريمى ، پشت نقاب صلح ، تہران ص ۷_

۳) Haiko Haumann ، Judasimand Zionism ، The first Zionist Congress in ، ۱۸۹۷ Basel ، ۱۹۹۷ PP ۱۱-۱۲

۴)تھيوڈر ہرٹزل ہنگرى ميں پيدا ہوا بعد ميں وين كى طرف نقل مكانى كى ، كچھ عرصہ بھاگ دوڑ كركے اپنا نام صہيونيزم تحريك كے ايك حقيقى بانى كى حيثيت سے تاريخ كے اوراق پر ثبت كروايا _ اس نے سال ۱۸۹۶ ء ميں كتاب حكومت يہود لكھى كہ جسميں اسكے مخاطب مختلف ممالك كے سربراہ تھے ،اس كتاب ميں اس نے صہيونيزم تحريك كى مكمل تھيورى پيش كى _

۲۸۱

روزہ ''دنيا '' كو نشر كرنے كے بعد ) اپنى تمام تر كوشش اور گروہى صلاحيتوں كو بروئے كار لاتے ہوئے اس ہدف كو سامنے ركھا كہ صہيونى گروہوں كى ايك مٹينگ بلائي جائے_ ناثان بربناؤوم(۱) نے اس تحريك كا نام ''صہيونيزم'' ركھا اور ۱۸۹۰ ء ميں اس نے پہلى بار اپنے اخبار ميں ''خود رہائي''(اپنے آپ كو آزاد كرنا) كے عنوان سے اس كلمہ كو استعمال كيا _ليكن ۱۸۹۷ ء ميں سوئيزرلينڈ كے شہر بال ميں صہيونيزم كا پہلا سمينار منعقد ہوا جس ميں صہيونيزم كى يہ تعريف كى گئي كہ اس سے مراد''وہ دعوت ہے كہ جو صہيونيزم فاؤنڈيشن كى طرف سے دى جارہى ہے اور وہ كوششيں مراد ہيں كہ جو اس حوالے سے فاؤنڈيشن كى طرف سے ہورہى ہيں _ اس تعريف كے مطابق صہيونى وہ ہے كہ جو ''بال'' كے سمينار پر عقيدہ ركھے اور اسے قبول كرے_

عبدالوہاب المسيرى نے صہيونيزم كے بارے ميں كتاب ميں صہيونيزم كى وضاحت ميں لكھتے ہيں كہ سولہويں صدى كے اواخر سے ليكر اٹھاريوں صدى كے آغاز تك صہيونيزم عيسائيت پر استوار ايك غير يہودى دينى مكتب اور اٹھاريوں صدى كے اوائل سے ليكر انيسويں صدى كے اوائل تك صہيونيزم ايك غير يہودى تہذيب تھى جو غير دينى ،خيالى اور صاحب اجزا اساس پر مبنى تھي_(۲)

صہيونيزم كى تشريح كے حوالے سے مجموعى طور پر تين نظريات ہيں :

۱_ عالم اسلام كے جغرافيايى اور سياسى قلب ومركز يعنى فلسطين ميں صہيونزم اور اسلام دشمنى كا شگاف ڈالنا حالانكہ فلسطين اسلامى تاريخ كى ابتداء سے اب تك تين براعظموں كے ايشياء ، افريقا اور يورپ كے باہمى ملاپ كے مقام پر ہميشہ اسلامى سرزمينوں سے جغرافيائي اور سياسى طور پر وابستہ رہا ہے _

۲_ دنيا سے عيسائيت و يہوديت كے ما بين تاريخى بحران (كہ جو بہت سے يہوديوں كى قتل وغارت اور نسلى تعصبات ، وغيرہ كے ہمراہ تھا ) كو عالم اسلام ميں منتقل كرنا اور اسے فلسطين ميں اسلام و يہودى بحران ميں

____________________

۱) Nathan Birnbaum ( ۱۹۳۷-۱۹۶۴ ) ۲ ) عبدالوہاب محمد المسيرى ، صہيونزم ، ترجمہ لواء رودبارى ، تہران ،ص ۱۷_۱_

۲۸۲

تبديل كرنا ، يہ نقشہ انتہائي زيركى سے دائرہ عمل ميں لايا گيا اور يہ اس اعتبار سے قابل اہميت ہے كہ ايك جملہ ميں اسكى تعبير كريں تو يہ ايك تاريخى سودا ہے كہ جس ميں طے شدہ ايك امر يہ تھا كہ يہوديوں كا حضرت عيسى (ع) كے قتل كے جرم سے برى الذمہ ہونا تھا_

۳_ نسلى تعصبات اور انتہا پسندى ميں پڑے ہوئے يہوديوں كى ديرينہ آروز يعنى فلسطين ميں ايك يہودى حكومت كا قيام دائرہ عمل ميں لانا _(۱)

مغربى استعمار گر طاقتوں نے ايك طرف اپنى جديد ترقى يافتہ ٹيكنالوجى كے بناء پر سارے عالم اسلام پر اپنا تسلط جمايا اور دوسرى طرف سے ثقافتى سطح پر حملوں كے ذريعے مسلمانوں كى روحانى شخصيت كو تبديل ، نظرياتى سطح پر كمزور اور انكے وجود ميں دينى عقائد كى جڑوں كوكمزور كيا اور آخر كار صہيونزم كو وجود ميں لاكر مسلمانوں پر تباہ كن جنگ مسلط كردى كہ جو ممكن ہے سالہا سال كى طولانى مدت تك جارى رہے_ اس جنگ نے آدھى صدى سے زيادہ عرصہ تك جارى رہنے كى وجہ سے مسلمانوں كے عظيم سرمايوں كو نگل ليا ہے_

مجموعى طور پر پاپائے اعظم كے قديم وجديد مخالفين اگر مقام عمل ميں اسكے اورويٹيكن كے پيروكاروں كے ساتھ كسى بات پر اتفاق نظر ركھتے ہيں تووہ صہيونيوں كے ذريعے فلسطين پر قبضہ ہے_ البتہ مشرق، مشرق وسطى اور عرب ممالك كے عيسائي اس كليہ وقاعدہ سے جدا نہيں ہيں _ اسى بناء پر كہا جاسكتا ہے كہ خود دين عيسائيت كہ تجويز يہ نہ تھى بلكہ اس صليبى نظريہ كا بنيادى سبب مغربى صليبى روش ہے كہ جورومى تہذيب سے متاثر ہے _ اور يہى لوگ تھے كہ جنہوں نے قيصر روم كى نيابت ميں گيارہويں سے تيرہويں صدى عيسوى تك دہشتناك جنگيں كيں _ اور يہ نسطورى عيسائي ، فلسطينى اور شامى عيسائي نہيں تھے _

آج اہل مغرب جو كچھ بھى عيسائيت كے عنوان سے پيش كر رہے ہيں وہ قديم روم كى آمرانہ تہذيب ہے جس پرعيسائيت كى قلعى چڑھى ہوئي ہے وہ رومى لوگ جو ايك زمانہ ميں حضرت عيسى (ع) كو صليب پر قتل(۲) اور

____________________

۱) على اكبر ولايتى ، ايران ومسئلہ فلسطين برا ساس اسناد وزارت امور خارجہ(۱۹۳۷_۱۸۹۷ ء _۱۳۱۷_ ۱۳۱۵ قمرى )تہران ، دفتر نشر فرہنگ اسلامى ، ۱۳۷۶، ص ۴_

۲) جيسا كہ قرآن كريم كى تعبير ہے وما قتلوہ وماصلبوہ ولكن شبة لہم (نساء ۱۵۷)

۲۸۳

انہيں صليب پر آويزاں كرنے كيلئے صليب كندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے _انہوں نے صليبى جنگوں ميں اسى عظيم المرتبت شخصيت كے قصاص خون كى خاطر اسى صليب كے نشان كے ہمراہ مسلمانوں كے خلاف تلواريں چلائيں _ اور يہ دونوں اقدام ايك ہى سمت ميں تھے وہى مجموعى تاريخ اور مغرب كے مشرق كے مقابل آنے كى سمت ميں ، وہى مشرق جس پروحى كا سورج طلوع ہوتا رہا ہے اور مغرب پر چمكتا رہا ہے _(۱)

مشرق وسطى ميں صہيونيوں كى حكومت درست اس زمانہ ميں تشكيل پائي كہ جب مسلمان حكومتيں ضعف وناتوانى كا شكار تھيں بالخصوص عثمانى بادشاہت كہ جو اٹھارہ ويں صدى سے زوال كى طرف بڑھ رہى تھى ، فلسطين پر قبضہ دراصل عالم اسلام كے پہلو پر خنجر مارنا تھا_ ان علاقوں كے باشندوں كو نكالنے كيلئے تين جنگيں ان پر مسلط كى گئيں كہ جنكى بناء كئي ميلين فلسطينى تباہ و برباد ہوئے اور ان علاقوں پرصہيونيوں كا منحوس سايہ مستحكم ہوگيا_ اردن ، شام اور لبنان كے بعض آباد علاقے بن گوريوں كے وارثوں كے قبضہ ميں آگئے اور فلسطين كے ہمسايوں كے بہت سے علاقے بيت المقدس پر قابض حكومت كے تسلط ميں آگئے _

ا گر مسلمان ان اسلامى سرزمينوں كو آزاد كروانے كى كوشش كريں تو اہل مغرب كے سياست دان اور پروپيگنڈا كرنے والے ادارے ان پر دہشت گردى كى حمايت كا الزام لگاتے ہيں ليكن دير ياسين ، كفر قاسم ، حرم حضرت ابراہيم (ع) ، گھانا وغيرہ ميں قتل عام كرنے والوں كى كبھى مذمت نہيں ہوئي بلكہ وہ جمہوريت اور انسانى حقوق كے حامى كے عنوان سے ہميشہ تعريف كے لائق قرار پائے اور فلسطينيوں كى دلخراش فرياد كو اقوام متحدہ ميں بھى صہيونزم كى حامى طاقتوں كے ويٹو كا سامنا رہا _(۲)

مجموعى طور پر صہيونزم كے اصول ميں فقط ايك مذہب كى ايجاد نہيں ہے بلكہ وہ يہوديوں ميں سے ايك قوم اور ايك مملكت بھى بنانا چاہتے ہيں اور كوشش كر رہے ہيں كہ دنيا كے تمام يہوديوں كو توسيع پسندانہ جنگوں كے

____________________

۱) على اكبر ولايتى ، سابقہ حوالہ ،ص ۷_۵_

۲) امريكى حكومت نے اقوام متحدہ كى تشكيل سے ليكر اب تك سلامتى كونسل كى اسرائيل كے خلاف سے بہت سى قرار داوں كو ويٹو كيا ہے _ رجوع كيجئے على اكبر ولايتى ، سابقہ حوالہ، ص ۷_

۲۸۴

بہانے سے سرزمين موعود يعنى عظيم اسرائيل ميں جمع كيا جائے : تھاريڈل ہرٹزل كا ايك دوست اور ڈيوڈٹرچ(۱) ۲۹ اكتوبر ۱۸۹۹ ميں اسے ايك خط ميں لكھتا ہے كہ '' اس سے پہلے كہ بہت زيادہ دير ہوجاے ميں آپ كو نصيحت كرتا ہوں كبھى كبھى '' عظيم فلسطين'' ( عظيم اسرائيل ) كا تذكرہ كرتے رہيں ، شہربال كى كانفرنس كے پروگرام ميں لفظ'' عظيم فلسطين'' ( عظيم اسرائيل) يا لفظ ''فلسطين اور اسكے اردگرد كى سرزمين'' ضرور شامل ہوں و گرنہ يہ سب كچھ بے معنى ہوگا كيونكہ آپ پچيس ہزار كلوميٹر مربع سرزمين پر دس ميلين يہوديوں كو خوش آمديد نہيں كہہ سكتے _(۲)

موشے دايان نے ۱۹۶۷ ميں كہا تھا: اگر تورات ہمارى كتاب ہے اور اگر ہم اپنے آپ كو قوم تورات سمجھتے ہيں تو ضرورى ہے كہ تورات كى سرزمين ،منصفين اور سفيد ريش لوگوں كى سرزمينيں ہمارے پاس ہوں يقينا اس قسم كے اصولوں كے پس پردہ سرحديں مزيد بڑھنے كے قابل ہوجائيں گي_

بن گورين نے ايك اور مقام پر واضح انداز سے كہا:

ہمارا مسئلہ يہ نہيں ہے كہ موجود صورت حال كو برقرار ركھا جائے بلكہ ہمارا فرض ہے كہ

زيادہ سے زيادہ توسيع پسندى كو مد نظر ركھتے ہوئے ايك فعال حكومت تشكيل ديں(۳)

اسى بناء پر صہيونيزم كے قائدين كى نظر ميں يہ ہدف دو عناصر كے فراہم ہونے كى صورت ميں دائرہ وجود ميں آسكتا تھا: ۱)_ امپريالسٹ ممالك بالخصوص آمريكا سے سياسي، اقتصادى اور فوجى امداد كے حصول كا تسلسل ۲)_ تمام عرب اور اسلامى ممالك كے مد مقابل اسرائيل كااپنے مفادات كے ليے قابل ذكر ٹيكنالوجيكل برترى كا حامل ہونا (عربوں كى عددى برترى كے مقابل ميں اسرائيل كى فنى برتري) اور وہ ايك ايسى فوجى اور اقتصادى طاقت كا حامل ہو جو عربوں كو جھكنے پر مجبور كرسكے _ اور انہيں يہ باور كرادے كہ اسرائيل

____________________

۱) David Triestsch

۲) نقل از : اسكار_ ك، آ_ داينيوويچ ، طرح يہوديان قبرس ، نيويارك ، ہرٹزل پبلشر ۱۹۶۲، ص ۱۷ص_

۳) روہ گارودي، پروندہ اسرائيل و صہيونيزم، سياسى ترجمہ نسرين حكمى ، تہران وزارت فرہنگ و ارشاد ايران ، ۱۳۶۹، ص ۱۳۳_

۲۸۵

كے ساتھ ہر قسم كى جنگ عربوں كى شكست پر ختم ہوگى(۱)

۱۹۹۵ ميں صہيونى حكومت كا دفاعى بجٹ ۳/۸ ارب ڈالرز تھا اس وقت امريكہ كى فوجى امداد ۸۱ ارب ڈالرز اور اقتصادى امداد۲۱ ارب ڈالرز تھى اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ايك حدود اربعہ كے اعتبار سے چھوٹا سا ملك كہ جو ۲۵ ميليں آبادى ( ۸۲ فيصد يہودي) پر مشتمل ہے كسقدر اعلى فوجى استعداد كا حامل ہے _ اس حكومت كى ايٹمى پاور كے حوالے سے بھى اختلاف نظر ہے كہ بعض رپورٹس كے مطابق اسرائيل كے پاس بيس سے دو سو تك كے درميان ايٹم بم موجود ہيں يہ حكومت ۱۹۶۷ سے اين پى ٹى پر دستخط كرنے سے ٹال مٹول كر رہى ہے اور اس نے اپنے ايٹمى رى ايكٹرزكو آج تك بين الاقوامى تحقيقاتى ٹيموں كيلئے نہيں كھولا _(۲)

عربوں ميں فرقہ پرستى اورتعصبات كو ہوا دے كر انہيں تقسيم كرنے كى سازش سے صہيونيزم كو اپنے توسيع پسندى پر مبنى مقاصد پورے كرنے كا موقع ملتا ہے، صہيونزم عالمى استعمار كے آلہ كار كى حيثيت سے كوشش كررہا ہے كہ عالم اسلامى ميں '' تفرقہ ڈالو اور حكومت كرو'' كى سياست كو مد نظر ركھتے ہوئے اسلامى اور عربى تحريكوں كو تباہ كردے_ يہى چيز صہيونى اہل نظر اور مولفين كى تاليفات ميں واضح نظر آتى ہے مثلااورنسٹاين(۳) كہتا ہے كہ :ميرا نظريہ يہ ہے كہ عربوں كے عرب اتحاد نعروں كے برعكس ان ميں تفرقہ اور پھر اس كے كچھ عرصہ بعد ہم قومى اور جغرافيائي گروہوں كے ظہور كا مشاہدہ كريں گے مثلا عيسائي لبنان، عراق كے شمال ميں كردوں كا علاقہ ،دروزيوں كا پہاڑى علاقہ اور مملكت اسرائيل يہ سب آخر كار ہلال خصيب (پر بركت چاند )كے مجموعہ ميں اسرائيل كى قيادت ميں اكھٹے ہوجائيں گے_(۴)

____________________

۱) موسسہ الارض ( صرف فلسطين كے حوالے سے مطالعہ كيلئے)، استراتزى صہيونيزم در منطقہ ،انتشارات بين الملل اسلامى ، ص۲۷۷_ ۲۷۵_

۲) محمد زہير دياب '' سازمان نظامى '' سياست و حكومت ريم صہيونستى ، مركز مطالعات و تحقيقات انديشہ سازان نور ، تہران ، انتشارات مركز اسناد انقلاب اسلامى ، ۱۳۷۷، ص ۲۴۱، ۲۴۴_

۳) Areh ornichtain

۴) موسسة الارض (فلسطين كے بارے ميں مطالعہ كيلئے مخصوص ) سابقہ حوالہ، ص ۱۸۲_ ۱۸۱_

۲۸۶

ڈيويڈ كاما جو كہ صہيونى مصنف ہے اپنى كتاب ''كشمكش كيوں ؟ اور كب تك؟ ''ميں لكھتا ہے كہ : مشرق وسطى كى پيچيدگى كے بارے ميں راہ حل كى اساس اس پر ہے كہ اسرائيل كے شرق ميں موجود عربى مملكت كو دو حصول ميں تقسيم كيا جائے: شمال ميں شام اور لبنان اور جنوب ميں عراق ، اردن، سعودى عرب ، فلسطين ( اگر تشكيل پاجائے ) اور ديگر عربى ممالك ان دو حصوں كے درميان ايك وسيع زمينى پٹى بنائي جائے كہ جسميں غير عرب طاقتيں ہوں اور يہ غير عرب ممالك كى مغرب سے مشرق تك كى ترتيب اسرائيل ، دروزى اور كرد وں پرمشتمل ہو اور اسرائيل شام كے جنوب ميں جبل الدروز كو اپنى حدود ميں ليتے ہوئے موجود ہو جبكہ كرد مملكت ايك جدا آشورى رياست كى حيثيت اسكے ساتھ ضم ہوجائے گي_

يہ كرد رياست شام كے مشرق اور عراق كے شمال ميں تشكيل پائے گى كہ يہيں سے لبنان كو بھى امداد فراہم كى جاسكتى ہے كہ جو شام كے عيسائيوں كو ملاتے ہوئے عيسائي اكثريت كى بناء پر عيسائي مملكت ہوگى ،پھر اسرائيل ان ممالك سے قرار داد باندھے گا تا كہ عربوں كے استعمار سے نجات پاليں يوں يہ ممالك عرب ممالك كى حكومتوں كيلئے خطرہ كى تلوار بن جائيں گے _(۱)

فلسطين كى تقسيم كے اس غير منصفانہ پروگرام كے بعد ۱۹۴۸ ميں رسمى طور پر مملكت اسرائيل تشكيل پائي كہ عربوں اور اسرائيل كے درميان دشمنى بڑھنے كى وجہ سے ۱۹۷۳، ۱۹۶۷، ۱۹۵۶، ۱۹۴۸ ميں ان ميں چار جنگيں ہوئيں كہ ۱۹۶۷ كى جنگ كا اہم نتيجہ فلسطين اور اسرائيل كے مسئلہ كا اسلامى مسئلہ بن جانے كى صورت ميں نكلا_ كيونكہ اس جنگ ميں اسرائيل نے اپنے ہمسايہ ممالك (اردن، شام اور مصر) كے بعض سر حدى علاقوں پر قبضہ كرليا_ اس دوركے بعد سے تمام اسلامى ممالك اس مسئلہ ميں اكھٹے ہوئے اس مشتركہ مفاد كے حصول كى خاطر۱۹۷۳ ميں جنگ ہوئي اور ۱۹۷۳ ميں توانا ئي كى بحران كے بناء پر دنيا كے سب سے زيادہ

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۱۹۰، ۱۸۸ نيز ، روكاج ، لبوبا، تروريسم مقدس اسرائيل ، ترجمہ مرتضى اسعدى ، تہران ، كيہان، ۱۳۶۵، ص ۷۶، ۶۸_

۲۸۷

توجہ عرب و اسرائيل كے مسئلہ كو حل كرنے كيلئے مبذول ہوگئي اوربہت سى قرار داديں اور مصالحتى كانفرسيں تشكيل پائيں ليكن يہ سب اقدامات اسرائيل كى ہٹ دھرمى اور سركشى كى بناء پر ملت فلسطين كيلئے سودمند ثابت نہ ہوئے ،مثلا ۱۹۶۷ ميں ايگل آلن كا راہ حل ، ۱۹۷۲ ميں شيمون پيرز كا حل، ۱۹۷۸ ميں كمپ ڈيوڈ كى قرارداد، ۱۹۸۱ ميں فہد كى مصالحتى قرار داد _ ۱۹۸۲ ميں ريگن كى مصالحتى قرار داد ، ۱۹۸۹ ميں اسحاق شامير كاراہ حل، ۱۹۹۱ ميں ميڈرڈكى مصالحتى كانفرنس اور اسى طرح ديگر چند قرار داديں سب نا كام ہوئيں _(۱)

اسرائيلى مملكت اپنى خاص ماہيت ( سياسى صہيونيزم) اور تشخص( جنگوں اور غاصبانہ تسلط كاتسلسل) كى بناء ہميشہ توسيع پسندى ميں پڑى ہوئي ہے ہر تجاوز اور لوٹ مار كے بعد ايك اور زندگى كے قابل قدرتى ذرايع سے مالا مال سرزمين پر طمع كى آنكھ گاڑ ليتا ہے لہذا يہ پھيلنے اور بڑھنے والى سرحديں اور قرار داديں كبھى بھى باضابطہ طور پر قابل اعتماد نہيں ہيں _

در حقيقت طاقت كى تكون كہ جو آج اسرائيلى صہيونى سياست كو چلاتى ہے وہ جنگى مجرموں كى تكون ہے _ ان ميں سب سے پہلے بيگن ہے كہ جسے بن گورين نے حقيقى ہٹلر كا لقب ديا ہے ،دوسرا جنرل آريل شيرون جيسے اپنے جلادانہ صفات كى وجہ سے قصاب لبنان كا لقب ملا ہے اور تيسرا اسحاق شامير ہے جسكا ماضى نسل پرستى سے بھر پور ہے _(۲)

مشرق وسطى كے حساس علاقے ميں صہيونى حكومت كى ہوس و طمع باعث بنى كہ اسلامى ممالك اپنا بے پناہ بجٹ اسلحہ اور فوجى مقاصد كيلئے قرار ديں ،عسكرى امور ميں ہر روز بڑھتى ہوتى رقم سے علاقہ ميں باہمى جنگ كا خطرہ بھى بڑھتا ہوا محسوس ہو رہاہے _ صہيونى حكومت كے تباہ كن اسلحہ كے كارخانوں نے اس علاقہ كو بحرانى كيفيت ميں ڈال ديا ہے اسى وجہ سے مشرق وسطى كى بعض حكومتيں دنيا ميں اسلحہ كى سب سے بڑى خريدار شمار

____________________

۱) سيامك كاكالى ، تا ثير طرح نظم نويں جہانى بر صلح اعراب و اسرائيل ، سلسلہ مقالات خاورميانہ شناسى ،مركز پوہشہاى علمى و مطالعات استراتيك خاورميانہ ، فروردين ۱۳۷۵، ص ۲۰_ ۱۴_

۲) روہ گارودى ، سابقہ حوالہ، ص ۱۷۰_ ۱۵۷_

۲۸۸

ہوتى ہيں ،مثلا ۱۹۹۵ ميں سعودى عرب نے ۱/۸ ارب ڈالر، مصر نے ۹/۱ ارب ڈالر اور كويت نے ايك ارب ڈالر اسلحہ كے حصول كيلئے خرچ كرتے ہوئے اسلحہ كے خريداروں كى فہرست ميں سب سے پہلے آگئے ،گيارہ ستمبر كے حادثے اور مشرق وسطى ميں اغيار كى فوج كى موجودگى كہ جو دہشت گردى سے مقابلے كے بہانہ كى بناء پر آئي ہے اورماضى قريب ميں صہيونى حكومت كى حركات كى وجہ سے مشرق وسطى كا علاقہ دوبارہ بحران زدہ اور فوجى نقل و حركت كا مركز بن گياہے_(۱)

صہيونى حكومت ذرائع ابلاغ پر تسلط كى اپنى وسيع كوشش ميں يہانتك كامياب ہوگئي ہے كہ اس نے دنيا كى معروف خبرايجنسيوں اور مشہور بين الاقوامى ٹيلى وين چينلوں كو اپنے كنٹرول ميں لے ليا ہے اور يہ چيز اس دور ميں بہت اہم محسوس ہوتى ہے كہ جسے ( communication )(روابط كے دور )سے تعبير كيا گيا ہے اور دنيا ايك چھوٹے سے قصبے كى شكل ميں آگئي ہے ،ذرائع ابلاغ پر تسلط كى بنيادى وجہ لوگوں كے اذہان اور انكے ماحول كو اپنے مقاصد كيلئے ہموار كرنا ہے اور مجموعى طور پر يہ سب كچھ اسلام اور مسلمانوں پر ثقافتى حملے كيلئے انجام پايا ہے(۲) _

ان سب كے باوجود اسلامى بيدارى اسلامى ممالك كى سياسى طاقت كى صورت ميں تشكيل پارہى ہے_

مسلمان اپنے اسلامى تشخص اور كلچر كے سہارے سے اپنے ابدى و تابندہ مشن كو زندہ كرنا چاہتے ہيں ، بہت سى اسلامى تحريكوں كا وجود مثلا حزب اللہ كى انقلابى تحريك ، حماس، اسلامى جہاد اور انتفاضا (صہيونى دشمن كے مقابلے ميں مزاحمت كى تحريك )اور عالم اسلام كى ديگر تحريكيں اسى حقيقت كو روشن كر رہى ہيں ،عالمى كلچر كي

____________________

۱) جہانگير معينى علمداري،'' ملاحظاتى دربارہ طرح نظم امنيتى جديد در خاورميانہ '' فصلنامہ مطالعات خاورميانہ ش ، ش۴، زمستان۱۳۸۰، ص ۶۳، ۶۸، ۶۷ ،نيز رجوع كريں ، بين اسدى ، حادثہ ۱۱سيپتامبر و آثار آن بر موقعيت سياسى خليج فارس ، فصلنامہ مطالعات خاورميانہ ، س ۹، ش ۳ ، پائيز ۱۳۸۱ ص ۵۲ _ ۴۶_

۲) محمد على ابطحى ، '' بررسى ابعاد تہاجم فرہنگى صہيونستى بہ جہان اسلام وعرب'' ، راہبرد ، ش ۵، زمستان ۱۳۷۲ ، ص ۶۰، فواد بن سيد عبدالرحمان رخاعي، نفوذ صہيونيسم بر رسانہ ہاى خبرى و سازمانہاى بين المللى '' ترجمہ حسين سر و قامت ،تہران ،ص ۷۶_ ۷۵_

۲۸۹

تشكيل ميں مسلمانوں كى تہذيب اور ماضى واضح ہے اس تمدن كى يورپ، ايشيا اور شمالى افريقا ميں تاريخ اس حد تك مكمل اور وسيع ہے كہ كوئي بھى تہذيب يا ثقافت تاريخ ميں اس حدتك استوار نہيں رہا _ اس ثقافت اور تہذيب پر تكيہ كرنابلا شبہ ايك عظيم سرمايہ ہے كہ جو عالم اسلام ميں دينى اور قومى سطح پر اعتماد كى فضا كو مستحكم كرتا ہے اور اسے صہيونزم كے پست كلچر كے مقالے ميں محفوظ ركھتاہے(۱)

دوسرى طرف سے اسرائيلى حكومت ايك سرگردان اور آوارہ معاشرہ كى حيثت اختيار كرچكى ہے اس معاشرہ ميں عدم استحكام كامركز انكے قومى تشخيص ميں كسى ايك نمونہ پر متفق نہ ہونا ہے ،يہ معاشرہ بے پناہ تضادات كے ساتھ محض اقتصادى سسٹم اور بيرونى سياسى حمايت كے كى بناء پر اپنے وجود كو بحال ركھے ہوئے ہے حالانكہ اندرونى طور پر معاشرہ تزلزل كى كيفيت سے دو چار ہے_ يہودى معاشرے ميں نسل پرستى كى پيچيدہ مشكل اپنى جگہ باقى ہے كہ جسكى بناء يہ قوم واضح طور پر تفريق اور امتيازى سلوك كے مختلف رويوں سے دوچار ہے يہى چيز اسكى بنيادوں كو كمزور كر رہى ہے(۲)

اسلامى ممالك پر اہل مغرب كے استعمار كى بنيادى وجہ وہاں كے لوگوں كے دينى اور نظر ياتى اصول فراہم كرتے ہيں انكے مد مقابل عالم اسلام كو بھى چاہيے كہ وہ اسلام ، اسلامى تہذيب اور اسلامى تشخص كى طرف لوٹ جائے اور صہيونزم كے ساتھ جنگ كو عربى جنگ كى بجائے اسلامى جنگ كے عنوان سے لے اور پھر صہيونزم اور عالمى استعمار كا مقابلہ كرے_(۳)

____________________

۱) محمد على ابطحي، سابقہ حوالہ، ص ۷۲_ ۶۹_

۲) اصغر افتخارى ، ابعاد اجتماعى برنامہ امنيتى اسرائيل، دستور كارى براى قرن بيست و يكم ،فصلنامہ مطالعات س ۴_ ش ۴، پائيز ۱۳۸۲، ص ۸_ ۶ نيز جامعہ شناسى سياسى اسرائيل ، تہران، مركز پوہشہاى علمى و مطالعات استراتيك خاورميانہ، ۱۲۸۰، ص ۱۳۸_ ۱۱۷ _

۳) '' بيانات رہبر معظم انقلاب اسلامى ديدار شركت كنندگان در ھمايش جہان اسلام '' گفت گو ، س ۱۷، ض ۱۷۷، بہمن ۱۳۸۲، ص ۱۸_ ۱۴_

۲۹۰

دسواں باب:

اسلامى بيداري

۲۹۱

۱) عرب دنيا ميں اسلامى بيدارى :

ايرانيوں كى مانند عرب بھى جب سے يورپى حكومتوں سے آشنا ہوئے تھے كى اسى زمانہ سے اپنى پس ماندگى اور يورپ كى ترقى سے آگاہ ہوگئے تھے _اب تك اس پسماندگى كے خلاء كو پر كرنے كيلئے بہت سے راہ حل سامنے آئے ہيں ان ميں سے ايك اسلام (بحيثيت ايك دين اور تمدن كے ) كى طرف لوٹنا ہے _(۱) اس پسماندگى كى وجوہات كے بارے ميں جو جوابات دے گئے ہيں انہيں ہم چار اقسام ميں تقسيم كريں گے_ البتہ يہاں يہ نكتہ قابل غور ہونا چاہيے كہ يہ تقسيم ان جوابات كے بارے ميں ہے كہ جو اسلامى بيدارى كى بحث ميں عرب دانشوروں كى طرف سے سامنے آئے ہيں _ لہذا ان كا نيشنلزم، سوشلزم اور آئيڈلزم سے كوئي ربط نہيں ہے يہ رحجانات مندرجہ ذيل ہيں : ۱_ عرب تمدن پسند ۲_ مسلمان تمدن پسند ۳_ اسلامى روايت پسندى ۴_ اسلامى اصول پسندي_

مندرجہ بالا تقسيم كى بناء پر پہلے رحجان كے بڑے مفكرين ميں سے طہطاوى اور خيرالدين تيونسي(۲) ہيں دوسرے رحجان كے سب سے بڑے مفكر سيد جمال الدين اسد آبادى اور كچھ حد تك محمد عبدہ ہيں جبكہ تيرى رحجان كے اصلى سخن گو رشيد رضا ہيں اور چوتھے رحجان كے فعال مفكرين ميں سے حسن البنا سيد قطب اور اخوان المسلمين ہيں _

تاريخى لحاظ سے ہم جوں جوں موجودہ زمانہ كے نزديك ہوتے جاتے ہيں اسلامى اصول گرائي كا رحجان

____________________

۱) محمد عمارة '' الاسلام و القوميہ العربيہ و العلمانية '' قضايا عربية السنة ۷ ،۱۹۸۰ العدد ۵ ،ص ۶۹_

۲) بنقل فرہنگ رجايي، انديشہ سياسى معاصر در جہان عرب ،تہران ۱۳۸۱، ص ۱۶۸_

۲۹۲

ديگر فكرى رحجانات پر غلبہ پاجاتا ہے اور ديگر فكرى رحجانات كو پس منظر ميں لے جاتاہے_اس رحجان ميں اہل مغرب سے مخالفت كا عنصر بڑھ جاتا ہے اور جنگجويانہ صفات واضح ہونے لگتى ہيں اور يہ رجحان اسلامى ممالك كى حكومتوں سے دورى اختيار كرنے لگتاہے ،اسميں سلفى نظريات مستحكم ہونا شروع ہوجاتے ہيں يہ ايك فكرى تحريك سے بڑھ كر ايك عوامى اور سياسى تحريك ميں تبديل ہوجاتا ہے _ اس قسم كے انقلابات ميں ايك اہم مسئلہ گذشتہ نظريات كى شكست ہے كہ جسكى بناء پر اصول پسند رحجان كى تشكيل ہوتى ہے_

الف) عرب تمدن پسند رحجان: نئے سرے سے اسلامى بيدارى كى لہر مصر ميں طہطاوى اور تيونس ميں خيرالدين پاشا تيونسى كے ذريعے شروع ہوئي _ طہطاوى كے افكار كا محور يہ تھا كہ مسلمان يورپى علوم كو حاصل كيے بغير ترقى نہيں كرسكتے _(۱)

طہطاوى يورپ كا بہت تعريف سے ذكر كرتے ہيں اور انكے سياسى شعبوں كو تحسين كى نگاہ سے ديكھتے ہيں يہ مفكر اصل ميں مغرب كى استعمارى حيثيت كہ جو اسلامى معاشروں كى تنزلى كا باعث قرار پائي اس سے غافل ہيں ،اس سوال كا جواب كہ انكے رحجان كو'' عرب تمدن پسند ''_رحجان كا نام كيوں ديا گيا ؟يہ ہے كہ طہطاوى فقط عربوں كى فكرى ترقى پر مصر ہے_

خيرالدين تيونسي، طہطاوى سے بھى زيادہ آگے بڑھ جاتے ہيں اگر چہ انكے افكار كى اساس وہى يعنى طہطاوى كى مانند تھى _ انكى فكر دو بنيادوں پر استوار تھى پہلى يہ كہ اسلامى فقہ اقتصادى اور ثقافتى سطح پر زندگى كى ترقى اور بہبود كيلئے جارى ہونے والى اصلاحات كو منع نہيں كرتي،دوسرا يہ كہ يورپى تہذيب كى اساس چونكہ زيادہ تر ان چيزوں پرقائم ہے كہ جو ماضى ميں اسلام نے انہيں عطا كيں اس ليے اب يہ مسلمانوں كى ذمہ دارى ہے كہ انہيں لوٹا ئيں _(۲)

____________________

۱) حميد عنايت، سيرى در انديشہ سياسى در اسلام، ترجمہ بہاء الدين خرمشاہي، تہران، خوارزمى ص ۳۴_

۲) حشام شرابي، سابقہ حوالہ ،ص ۵۵_

۲۹۳

مجموعى طور پر كہا جاسكتا ہے كہ عرب تمدن پسند رحجان كى مندرجہ ذيل خصوصيات ہيں :(۱)

۱: مغربى تہذيب و تمدن كے اصل ہونے اور اسكى بڑائي كوقبول كيا گيا ہے اور مسلمان يہ توانائي اور استعداد ركھتے ہيں كہ وہ مغربى فنون اور تمدن كو حاصل كرنے ميں كامياب ہوں كيونكہ مغربى علوم وہى اسلامى علوم ہى ہيں _

۲: اس رحجان كے يہ دونوں برجستہ مفكر حكومتى عہدہ دار تھے مغربى تہذيب اور تكنيك كے حصول اور مسلمانوں كى ترقى كو حكومت كى ذمہ دارى شمار كرتے تھے ،اسى ليے انكى تحريك كو لوگوں كى سياسى تحريك شمار نہيں كيا جاسكتا اور نہ ہى عوام انكے سب سے پہلے مخاطب تھے _

۳: انكى روش اور انداز مصلحانہ ہے وہ يورپى اداروں اور شعبہ جات كے تجربوں كى بنياد پر اپنے معاشرے كے سياسى اور معاشرتى اداروں اور شعبہ جات كى اصلاح كرنا چاہتے تھے_

۴: يہ گروہ اسلام اور يورپى تمدن ميں بنيادى طور پر تضاد كے امكان كے بارے ميں غور نہيں كر رہا تھا، كيونكہ وہ اس بات پر يقين ركھتے تھے كہ بنيادى طور پر مغربى تہذيب كا سرچشمہ اسلام ہے اور يہ يورپى علوم وہى گذشتہ ادوار ميں اسلامى علوم كا ترجمہ ہيں ،لہذا انكا مقصد يہ تھا كہ يورپى تہذيب كو اپنے ہاں لانے كيلئے كوئي معيار بنايا جائے انكى نظر كے مطابق فقط غير دينى شعبہ ہائے زندگى كى بہترى كى ہى ضرورت ہے_

۵: يہ لوگ اسلامى امت كى وحدت كے افكار كے حامل نہ تھے انكى نگاہ مكمل طور پر اپنے وطن كى حد تك محدود ہے _ يہاں تك كہ جب بھى عربى وطن كے بارے ميں گفتگو كرتے ہيں تو انكى مراد تمام عرب زبان ممالك نہيں ہيں بلكہ اصل ميں انكامقصود ايك ملك ہے مثلا طہطاوى كى عربى وطن سے مراد مصرہے _

ب) مسلمان تمدن پسند رحجان: اس رحجان اور پہلے رحجان ميں كچھ مشتركہ امور ہيں حقيقت ميں اسلامى بيدارى كى آواز اٹھانے والوں كى دوسرى نسل كو مسلمان تمدن پسند كا نام ديا جاسكتا ہے كہ اس گروہ كى مشہور و

____________________

۱) حسن حنفى ، الاصولية الاسلامية ، قاہرہ، مكتبہ مدبولي، ص ۲۰_

۲۹۴

ممتاز شخصيات سيد جمال الدين افغانى اسد آبادى اور شيخ محمد عبدہ ہيں البتہ اس فرق كے ساتھ كہ سيد جمال پہلى نسل كے زيادہ قريب ہيں جبكہ شيخ عبدہ اپنے بعد والى نسل اسلامى روايت پسندوں كے زيادہ قريب ہيں ، سيد جمال كى اصلاحى تحريك كے مختلف پہلو ہيں ليكن انكى اس اصلاحى تحريك كى اصلى روح عالم اسلام ميں ''جديديت '' پيدا كرنا ہے _ سيد جمال كا ہدف يہ ہے كہ عالم اسلام اور مسلمان عصر جديد _ اسكى خصوصيات اور اسكى تشكيل كے بنيادى اسباب سے آشنا ہوں اور ايسے اسباب فراہم كيے جائيں تاكہ مسلمان بھى اس جديد دنيا اور نئي تہذيب ميں كوئي كردار ادا كريں _اور وہ علم و عقل جيسے بنيادى عناصر اور ديگر عناصر مثلا جمہورى سياسى شعبہ جات كى مدد سے اپنى طاقت كو بڑھائيں _

شايد اسى ليے كہا جاسكتا ہے كہ سيد جمال كى توجہ كا بنيادى محور تشخص كا حصول نہ تھا بلكہ يہ تھا كہ كيسے عالم اسلام كو طاقت و توانائي دى جاسكتى ہے ،سيد جمال كے نظريہ كے مطابق مغرب كى جديد اور ماڈرن تہذيب اسلامى اصولوں كى اساس پر سامنے آئي ہے، يہاں سيد جمال عرب تمدن پسند رحجان ركھنے والوں كے برعكس دو بنيادى چيزوں پر تاكيد كرتے ہيں پہلى يہ كہ اقوام كى زندگى ميں دين كا كردار ناگزير ہے ،دوسرا يہ كہ جديد زندگى كے تقاضوں كے مطابق جديد شعبہ ہائے زندگى اور نئي فنى مہارتوں كى ضرورت ہے _(۱)

سيد جمال كے دو اصلى مقاصد يعنى اتحاد بين المسلمين اور مغربى تسلط كے خلاف جنگ انكى فكر كو عرب تمدن پسند رحجان والوں سے مختلف شمار كرتے تھے_ سيد جمال كى نظر ميں عالم اسلام ايك متحد مجموعہ كى شكل ميں ہے_ كہ جسكے اتحاد اور منظم ہونے كى صورت ميں مسلمان يورپى تسلط كے مقابلے ميں دفاع كرسكتے ہيں _ لہذا سيد جمال كى يورپ اور انكے كردار و رفتار پر نگاہ پہلے گروہ كى نسبت بہت زيادہ گہرائي پر مبنى تھي_

____________________

۱) سيد جمال نے عروة الوثقى كے اكثر مقالات اور بعض فارسى مقالات ميں اس مسئلہ پر تاكيد كى ہے بعنوان مثال رجوع كريں _ سيد جمال الدين اسد آبادى ، مجموعہ رسائل و مقالات، با سعى سيد ہادى خسروشاہى ،انتشارات كلبہ شروق ص ۱۳۴_ ۱۳۲_

۲۹۵

اگر چہ سيد جمال علم و صنعت ميں يورپ كى ترقى كو قبول كرتے تھے مگر يورپ كے عالم اسلام پر تسلط پر بہت زيادہ حساسيت ركھتے تھے لہذا انہوں نے اپنى صلاحيتوں كا بيشتر حصہ اس تسلط كے خلاف جہاد ميں صرف كيا ،اس جہاد ميں كبھى وہ اسلامى حكومتوں سے مخاطب ہوتے تھے اور كبھى اسلامى اقوام كو خطاب كرتے تھے _ يہى چيزباعث بنى كہ انكى سياسى تحريك لوگوں كى طرف سے ايك عوامى تحريك كى شكل ميں سامنے آئي انكى فعاليت پہلے گروہ كے مصلحانہ افكار سے كہيں زيادہ بڑھ گئي _

يہانتك كہ يہ تحريك ايران ميں انقلابى رنگ اختيار كرگئي_ اور اس نے ناصر الدين شاہ كے آمرانہ نظام كے مقابلے ميں علماء اور عوام كو انقلاب كيلئے ابھارا اورسلطنت عثمانيہ ميں يہ سياسى تحريك عثمانى سلطان كى مخالفت كى شكل ميں سامنے آئي اور شايد ''باب عالي'' كے ہاتھوں اسكى موت كا باعث بھى قرار پائي _

سيد جمال كے جدت پسندانہ افكار كا ايك اور بنيادى نكتہ يہ تھا كہ جس وقت دہ واضح طور يہ مسلمانوں كو اسلامى سرزمينوں پر يورپ كے تسلط كے خلاف ابھار رہے تھے تو ساتھ ساتھ مغرب كى علمى اور صنعتى ثمرات سے سيكھنے اور استعمال ميں لانے پر تاكيد كرتے ہوئے مغرب كى تقليد كو مسترد بھى كر رہے تھے ،اسى ليے وہ اسلامى معاشروں كى موجودہ صورت پر بھى تنقيد كرتے رہے تھے_(۱)

مجموعى طور پر مسلمان تمدن پسند گروہ كے بنيادى محور يہ تھے :۱_ مسلمانوں كى تہذيب كى تشكيل اور انكے اقتدار كى وسعت كيلئے عقل ، علم اور اسلامى توانائي و استعداد كى بنيادى اہميت پر تاكيد ۲_ اسلامى امم ميں اتحاد اور يكجہتى اور يورپى تسلط كے خلاف جہاد ; يہ محور مختلف ادوار ميں تشكيل پائے اور پھر تغير و تبديلى كا شكار بھى ہوئے_

ج ) اسلامى روايت پسند رجحان: اگر مسلمان تمدن پسند رجحان والے اسلامى معاشروں ميں علمى احياء اورجديد افكار كو جذب كرنے اور يورپ كى جديد فنى ايجادات كے استعمال كو اسلامى احياء سے تعبير كرتے تھے تو اسلام روايت پسند رجحان والے بالخصوص انكے برجستہ مفكر رشيد رضا كہ جو سلفى روش كے عالم تھے،

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۱۲۱_

۲۹۶

اسلامى احياء كو '' اسلامى بزرگان'' كى سيرت و روش كى طرف لوٹ جانے سے تعبير كرتے تھے_ كہاجاسكتا ہے كہ اسلامى حكومتوں كى عصر جديد كى علمى و سياسى ترقى كو جذب كرتے ہوئے گذشتہ گروہوں كے افكار كو لباس حقيقت پہنانے ميں ناكامى اور اسكے بجائے نام نہاد '' تہذيب و ترقى '' كے جال ميں پھنسنے نے اسلامى روايت پسند رحجان والے لوگوں كو مغربى ثقافت اور اسلامى تشخص كے پامال ہونے كے خطرات پر بہت زيادہ پريشان كرديا تھا اور يہ اسلامى روايت پسند رجحان ان پريشانيوں كا جواب تھا_

ہراير دكمجيان سيد جمال، عبدہ اور رشيد رضا كو سلفى رحجان كے حوالے سے مورد مطالعہ قرار ديتا ہے(۱) حالانكہ يہ تركيب واضح خطاء ہے كيونكہ اسلامى روايت پسند رحجان يقينا جدت پسند رحجان سے دور ہوكر حتى قدامت پسندى كى طرف مائل ہوجاتاہے_

جدت پسند لوگ عصر جديد كے تقاضوں كو مد نظر ركھتے ہوئے اسلامى مفاہيم كى اصلاح اور ان تقاضوں سے ہم آہنگى كے درپے تھے جبكہ روايتى اسلام پسند سختى سے اسلامى روايات كے پابند تھے اور مغربى تہذيب كى ثقافتى اور سياسى پيشقدمى كے خلاف حساسيت ركھتے تھے_ مجيد خدوّرى بالكل صحيح انداز سے رشيد رضا كو روايت پسند رحجان كى حدود ميں جن كو جديديت كى چمك دمك دى گئي ہے ،محور تجزيہ قرار ديتے ہيں اگر چہ رشيد رضا بظاہر جدت پسند ہيں ليكن اندورنى طور پر انكا روايت پسند رجحان سے تعلق واضح تھا_

رشيد رضا كى سلفى روش نے انہيں احاديث پر توجہ ميں افراط كى حد تك بڑھاديا جس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ روايت پسند رجحان ركھتے تھے جس نے انہيں وسيع النظر نہ ہونے ديا ،اسى ليے وہ سيد جمال كے اتحاد و وحدت پر مبنى نظريا ت سے بھى دور ہوگئے اور انكى شيعہ مسلك كے بارے ميں معاندانہ روش شيعوں كے بارے ميں سلفى دشمنى كى ياد دلاتى ہے_

____________________

۱)ہراير دكمجيان ، جنبش ہاى اسلامى معاصر، ترجمہ حميد احمدي، كيہان ۱۳۷۰ ص ۳۳_

۲۹۷

بہرحال رشيد رضا كے روايت پسند سياسى نظريات ميں قانون كى حكومت ،آزادى اوران شرائط پر تاكيد نہ تھى كہ جن پر طہطاوى اور سيد جمال نے اپنے جدت پسندرحجان كى بناپربہت زيادہ زور ديا تھا بلكہ وہ اس اسلامى نظام كو دائرہ عمل ميں لانے كے درپے تھے كہ جو صدر اسلام كے تخيل پسند عناصر پر استوار تھا جو ہر قسم كے دنياوى رحجانات، قومى اور مسلكى تعصب سے پاك تھے ( ۱)

رشيد رضا كے نظريہ كے مطابق مغرب والوں نے ترقى كے مراحل كو طے كرنے كيلئے اسلامى اصولوں پر عمل كيا جبكہ خود مسلمانوں نے ان اصولوں كو چھوڑديا ہے_ اگر چہ رشيد رضا نے اپنے روايت پسند رحجان كى طرف بڑھنے ميں مغرب والوں كو موردبحث قرار نہيں ديا بلكہ انكے افكار كى روش سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اہل مغرب كى نسبت معاندانہ انداز ركھتے تھے اور ان ميں مسلمان تمدن پسند اور عرب تمدن پسند رحجان والوں كى طرح كى روشن بينى كا فقدان تھا(۲) _

حسن حنفى رشيد رضا كى فعاليت كا خلاصہ يوں بيان كرتے ہيں كہ رشيد رضا نے اصلاح پسند ، جدت پسند اور ترقى طلب افكار ميں ايك عمر گذارنے كے بعد طہطاوي، سيد جمال اور عبدہ جيسے رہنماؤں كى تاثير سے رہائي پاتے ہوئے محمد بن عبدالوہاب كے دامن ميں پناہ لي_ جس نے انہيں ابن قيم جو زيہ اور ابن تيميہ اور پھر احمد بن حنبل تك پہنچايا_ جسكى بناء پر رشيدرضا نے بجائے اسكے كہ جديد دور كے ماڈرن اصولوں كى طرف رحجان اور عصر حاضر كى تبديليوں كے ساتھ مطابقت كى بجائے كے مغرب سے جنگ و يلغار كو ترجيح دى _(۳)

د) اسلامى اصول پسند رحجان:جاك برك جو اسلامى اصول پسند رحجان كے بارے ميں جو تجزيہ و تحليل كرتے ہيں اس ميں وہ بيسويں صدى ميں اسلامى ممالك كى طرف سے سائنسى ترقى كے حامل موجودہ

____________________

۱) مجيد خدورى ، سابقہ حوالہ ،ص ۳۰، ۹_ ۷۸،محمد رشيد رضا، السنة و الشيعة ، قاہرة ، ص ۵۹_۵۴ و ۷۹، حميد عنايت، سابقہ حوالہ ،ص ۹۷_

۲) Albert Hourani ، Arabic Thoagh in the Liberal Ages Oxford University Press ، in ۱۹۶۲ ، p ۲۳۹

۳) حسن الحنفي، سابقہ حوالہ ،ص ۴۲_

۲۹۸

زمانے اورتمدن كے تقاضوں كے مطابق مناسب ماڈلز پيش كرنے ميں ناكامى كو انكے شدت پسند ہونے كى وجہ بتاتے ہيں ،وہ اسلامى معاشروں كے اندر اس رجحان كى اہم ترين علت دروازہ اجتہاد كا بند ہونا اور بدعت سے جنگ كے بہانے اصلاحات كى تحريكوں كو كچلنا سمجھتے ہيں(۱)

حقيقت ميں ان شكستوں كے ساتھ ساتھ اصلاحات كو عملى جامہ پہنانے ميں ناكامى نے ايك اندوہناك ٹريجڈى كى شكل ميں عربوں كى روح كو آرزدہ كرديا اور انہيں ايك ہٹ دھرم اور معاندانہ رويے كے حامل طبقے اورشدت پسند سياسى گروہوں كے درميان سرگردان كرديا_

اخوان ا لمسلمين كے بانى حسن البناء اسلامى اصلاح پسند مفكرين كے بارے ميں يوں اظہار خيال كرتے ہيں كہ: جمال الدين افغانى اسد آبادى مسلمانوں كى موجودہ مشكلات كيلئے ايك پكار اور تنبيہ تھے ،شيخ محمد عبدہ فقط ايك معلم اور فلسفى تھے اور رشيد رضا ايك مورخ اور وقايع نگار تھے جبكہ اخوان المسلمين جہاد، تلاش اور كام كا نام ہے نہ كہ محض ايك پيغامبر ہے_(۱)

اخوان المسلمين ايك سياسى اور مذہبى تحريك ہے كہ جو اسلامى معاشروں ميں اساسى تبديلى كى خواہاں ہے_ اخوان المسلمين كا ايك اساسى عقيدہ يہ ہے كہ مسلمانوں كے معاشرتى اور سياسى مسائل كے حل ميں اسلام سے بڑھ كر كوئي اور طاقت موجود نہيں ہے(۳) يہ عقيدہ حقيقت ميں اسلامى اصول پسند رحجان كا محور اور روح ہے_

اگر حسن النباء اخوان المسلمين كے سياسى رہبر تھے تو سيد قطب اور محمد غزالى جيسے افراد اخوان المسلمين كے فكرى پہلوكے برجستہ نمايندے تھے_

____________________

۱) سارا شريعتي، بنياد گرائي و روايتى معقول از چپ اسلامي، روزنامہ ايران شنبہ ۲۶/۵/۸۱، ص ۸_

۲) بہمن آقاى و خسرو صفوي، اخوان المسلمين، تہران، نشر رسام، ۱۳۶۵ ،ص ۲۱_

۳) حميد عنايت ، سابقہ حوالہ ، ص ۱۰۷_

۲۹۹

كہنا يہ چاہيے اسلامى بيدارى كى تحريك ميں اوّل سے اب تك تغير و تبدل كے اس دورانيے ميں طہطاوى ، خيرالدين پاشا تيونسي، سيد جمال، محمد عبدہ، رشيد رضا اور سيد قطب بنيادى اور واضح فرق ركھتے ہيں اور ہم جوں جوں آگے بڑھيں تومبارزہ اور جہاد كى خصلت شدت اختيار كرتى ہوئي محسوس ہوتى ہے اور غربى ثقافت سے اقتباس كے رحجان سے جدا ہوجاتى ہے ،سيد قطب كے نظريات اسى اصول پسند اور جہادى رحجان كو بيان كرتے ہيں :

سيد قطب عصر حاضر ميں موجود تمام معاشروں كو جاہليت سے تعبير كرتے ہيں اور يورپى معاشروں كو ماڈرن جاہليت كے عروج سے تعبير كرتے ہيں يہيں سے ا نكے افكار كا گذشتہ اسلام پسند مفكريں كے نظريات سے اساسى فرق سامنے آتا ہے كہ جو يورپ كى برتر ى اور ترقى يافتہ تہذيب كو قبول كرتے تھے_ سيد قطب نے كلمات'' ترقي'' اور ''پسماندگى '' كى از سر نوتعريف كى اور ترقى كيلئے جديد معيار اور ضابطوں سے آگاہ كيا_

سيد قطب اس بات پر تاكيد كرتے تھے كہ ترقى يافتہ معاشرہ و ہ معاشرہ نہيں ہے كہ جو مادى ايجادات ميں سب سے بلند ہو بلكہ وہ معاشرہ ترقى يافتہ ہے كہ جو اخلاقى برترى كو آشكار كرے ،وہ معاشرہ جو علم و فن ميں عروج پر ہے ليكن اخلاقيات ميں پست ہے وہ ايك پسماندہ معاشرہ ہے جبكہ وہ معاشرہ جو كہ اخلاقيات ميں سب سے بلند ہے اگر چہ علم اور مادى ايجادات ميں پيچھے ہے وہ ترقى يافتہ معاشرہ ہے_(۱)

امام خمينى (رہ) كى تحريك اسلامى اصول پسند رحجان كا عروج شمار ہوتى ہے كہ اسلامى جمہوريہ ايران كى تشكيل كى صورت ميں امام كى كاميابى سے متاثر ہو كرپورى دنيا ميں اسلامى تحريكوں نے قوت پكڑلي_ امام خمينى كا تفكراورنظريہ در حقيقت جداگانہ تشخص اور جديديت كا امتزاج تھا جبكہ اسلامى بيدارى كى تحريك كے گذشتہ قائدين مثلا سيد جمال ترقى اور جدت كے در پے تھے اور بعض جداگانہ اسلامى تشخص پر زور ديتے تھے ،امام

____________________

۱) سيد قطب، معالم فى الطريق، دارالمشرق، بيروت ، قاہرہ ، ۱۹۸، ص ۱۱۶، ۱۱۷، ۶۱_ ۶۰ دو رہيافت متفاوت، درجريان بازگشت بہ اسلام در جہان عرب _ ترجمہ دكتر سيد احمد موثقى ، فصلنامہ علوم سياسى ش ۱۲، ص ۲۷۴_

۳۰۰