اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 0%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف: ڈاكٹر على اكبر ولايتي
زمرہ جات:

صفحے: 375
مشاہدے: 139342
ڈاؤنلوڈ: 4721

تبصرے:

اسلامى تہذيب و ثقافت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139342 / ڈاؤنلوڈ: 4721
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

بالخصوص ذيمقراطيس كے نظريات پر توجہ كرنے كے باعث اور بعض خاص عقايد كى بناء پر علماء اسلام كا ايك بہت بڑا گروہ انكا شديد مخالف ہوا بعض نے انہيں صرف ايك طبى شخص جانا اور انہيں فلسفى ابحاث ميں داخل ہونے كا حق نہ ديا بہت سے اسلامى محققين اور دانشوروں نے انہيں ملحد ، نادان ، غافل اور جاہل جيسے خطاب ديے اور بہت سے ديگر اسلامى مفكرين مثلا ابونصر فارابى ، ابن حزم اندلسى ، ابن رضوان ، ناصر خسرو اور فخرالدين رازى نے انكى كتابوں پر تنقيد لكھي(۱)

رازى كے بعد افلاطون اور ارسطو كے فلسفہ كى تائيد اور ان دونوں كى آراء كو آپس ميں قريب لانے ، جديد افلاطونى حضرات كى پيروى كرنے اور حكمت كے قواعد كو اسلام ميں مطابقت دينے ميں عظيم مقام ركھنے والے جناب ابونصر فارابى ہيں كہ جنہيں ''معلم ثانى '' كا لقب صحيح طور پر ملا(۲)

فارابى كا فلسفہ پچھلى تحقيقات سے مختلف تھا اس ليے كہ انہوں نے گذشتہ فلاسفہ كى آراء كے مطالعہ كرتے ہوئے انہيں انكے اس خاص كلچر پرمبنى ماحول ( جسميں وہ زندگى گزار رہے تھے ) كے تناظر ميں ديكھا ہے ،انكا يہ ايمان تھا كہ فلسفہ بنيادى طور پر ايك مفہوم واحد ہے كہ جسكا مقصد حقيقت كى جستجو ہے اسى ليے انكى نظر ميں فلسفى حقيقت اور دينى حقيقت آپس ميں ہماہنگى اور مطابقت ركھتى ہيں لہذا ان دونوں كى تركيب سے ايك نئے فلسفہ كو وجود ميں لايا جائے_

اس دور كے ديگرعظيم فلسفى جناب ابن مسكويہ ہيں كہ حداقل ان سے اس موضوع ميں چودہ رسالے باقى رہ گئے ہيں ، ابن مسكويہ نے اپنے ايك اہم ترين رسالہ بنام '' الفوز الاصغر'' ميں انسان كى خلقت كے حوالے سے اپنا ايك جديد نظريہ پيش كيا اس نظريہ ميں انہوں نے يہ ثابت كرنے كى كوشش كى كہ يہ خلقت عدم سے حقيقت ميں آئي ہے اور صورتيں بتدريج تبديل ہوجاتى ہيں ليكن مادہ اصلى شكل ميں باقى رہتا ہے پہلى صورت

____________________

۱) محمد بن زكريا رازى ، سيرت فلسفى ترجمہ عباس اقبال_

۲)ابن خلكان ، وفيات الاعيان ، قاہرہ ، ۱۲۷۵ ،ج ۲، ص۱۱۴_۱۱۲_

۶۱

مكمل طور پر ختم ہوجاتى ہے جبكہ بعد والى صورتيں عدم سے وجود ميں تبديل ہوتى رہتى ہيں لہذا تمام مخلوقات عدم سے تخليق ہوئي ہيں انسان كے حوالے سے انكا عقيدہ ہے كہ انسان كى خلقت اور كمال تك پہچنے كا سفر چار مراحل '' جمادى ، نباتى ، حيوانى اور انسانى '' پر مشتمل ہے اور انسان ميں روح كے نام كى ايك چيز ہے كہ جو حاضر ، غائب ، محسوس اور معقول امور كودرك كرتى ہے نيز پيچيدہ مادى امور كو بھى درك كر سكتى ہے_(۱)

اسى دور ميں بو على سينا بھى ايك عظيم ترين فلسفى كے عنوان سے موجود ہيں كہ جو ايك اہم شخصيت ہونے كے ساتھ ساتھ محكم اور درخشندہ فلسفى نظام كے بھى حامل ہيں انكى اہم اور برجستہ خصوصيت كہ جس كى بناء پر نہ صرف عالم اسلام بلكہ اہل مغرب كے قرون وسطى ميں يگانہ شخصيت بن كر ابھرے يہ تھى كہ فلسفہ كے بعض بنيادى مفاہيم كى دليل كے ساتھ خاص ايسى تعريف پيش كى جو صرف انكى ذات كے ساتھ خاص تھي، بو على سينا نے شناخت ، نبوت ، خدا ، جہان ، انسان اور حيات ، نفس كا بدن سے رابط اور انكى مانند ہر ايك نظريات كے حوالے سے تفصيلى اور جداگانہ معلومات فراہم كيں _

انكے يہ نظريات قرون وسطى كے ادوار ميں شدت كے ساتھ مشرق اور مغرب ميں چھاگئے اور يورپ كے اہم سكولوں اور يونيورسيٹوں ميں پڑھائے جانے لگے انہوں نے ايك لحاظ سے دو دنياؤں يعنى عقلى اور دينى پر كہ جو يونان كے فلسفہ اور مذہب اسلام كو تشكيل ديتے تھے پر تكيہ كيا، عقلى لحاظ سے انہوں نے وحى كى ضرورت اور لازمى ہونے كو دليل سے ثابت كيا كہ عقلى اور روحى بصيرت ايك بلندترين عنايت ہے كہ جو پيغمبر (ص) كو عطا ہوئي ہے اور پيغمبر (ص) كى روح اسقدر قوى اور قدرت كى مالك ہوتى ہے كہ عقلى مفاہيم كو زندہ اور متحرك صورتوں ميں لے آتى ہے جسے ايمان كے طور پرلوگوں كے سامنے پيش كيا جاتا ہے_

چوتھى صدى ہجرى كے دوران ايك مخفى گروپ نے فلسفى ، دينى اور اجتماعى اہداف كے پيش نظر '' اخوان الصفا'' تنظيم تشكيل دى ، اس گروہ كے بڑے اور معروف لوگوں ميں '' زيد بن رفاعہ، ابوالعلاء معري، ابن

____________________

۱) دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۶ ، ذيل ابو على مسكويہ_

۶۲

راوندى اور ابو حيّان توحيدى كا نام ليا جاسكتا ہے '' اخوان الصفا'' ايسے اہل فكر حضرات كا گروہ تھا كہ جو افلاطون ،فيثاغورث اسكے پيروكار وں تصوف كے معتقدين ، مشائي فلسفيوں كے عرفانى افكار اور شيعہ اصولوں پر عقيدہ ركھتے تھے ، يہ گروہ چار دستوں مبتدي، صالح دانا بھائي ، فاضل كريم بھائي اور حكماء ميں تقسيم تھے كوئي بھى ممبران مراحل كو طے كر سكتا تھا انكى محفليں اور ليكچرز مكمل طور پر مخفى تھے اورانكے رسالے مصنف كے نام كے بغير بلكہ ''اخوان الصفا'' كے كلى نام كے ساتھ شائع ہوتے تھے _

اخوان الصفا نے مجموعى طور پر ۵۱ رسالے لكھے، انكى نگاہ ميں الہى علوم پانچ مندرجہ ذيل اقسام ميں تقسيم ہوتے ہيں (۱) اللہ تعالى كى معرفت اور اسكى صفات (۲)علم روحانيت (۳) علم نفسانيات (۴)علم معاد يا قيامت شناسي(۵)علم سياسيات اور يہ (سياسيات كا علم )بذات خود پانچ دستوں سياست نبوى ، سياست ملوكى ، سياست عامہ ، سياست خاصہ اور سياست ذات ميں تقسيم ہوتا ہے(۱)

اس دور كے بعد ہم اسى طرح متعدد فلاسفہ كے عالم اسلام ميں ظہور اور ارتقاء كا مشاہدہ كرتے ہيں كہ جن ميں سے ہر ايك نے اپنا خاص نظريہ دنيا ميں پيش كيا يہاں ہم بعض شہرہ آفاق افراد كا اختصار سے تعارف كرواتے ہيں :

ابوحامد محمد غزالى طوسى كہ جنكى اہم ترين كتاب '' احياء علوم الدين '' كو جو عربى زبان ميں لكھى گئي ہے اور اسميں فلاسفہ كى ديگر آراء كے مقابل دينى عقائد كا دفاع كيا گيا ہے يہ كتاب چار اقسام عبادات ، عادات ،مھلكات( ہلاك كرنے والى اشياء )اور منجيات (نجات دينے والى اشيائ) ميں تقسيم ہوئي ہے_

عمر خيام ان لوگوں ميں سے تھے كہ جو يونانى علوم كى تحصيل ميں بہت سر گرم تھے خيام كے افكار '' اخوان الصفائ'' كے نظريات كے قريب اور انكا طرز بيان بھى انہى كى مانند ہے خيام ايسے خدا كے وجود پر عقيدہ ركھتے تھے كہ جو مطلق خير ہے اور اس سے عقاب اور عذاب صادر نہيں ہوتا_

____________________

۱) دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج ۷ ، ذيل '' اخوان الصفا'' _

۶۳

اسى طرح ابن باجہ ، ابن ميمون قرطبى ، ابن طفيل اور ابن رشد مكتب ہسپانيہ ( اندلس )سے تعلق ركھنے والے بڑے فلاسفہ ميں سے ہيں(۱)

جس دور ميں ہسپانيہ ميں يہ فلاسفہ پيدا ہوئے اور ترقى كر رہے تھے اسى دور ميں ايران ميں بھى بہت سے افراد كے عروج كا مشاہدہ كرتے ہيں كہ ان ميں سے ايك شہاب الدين سہروردى ہيں كہ جو شيخ اشراق كے نام سے مشہور ہوئے انہوں نے فارسى اور عربى ميں مختلف كتابيں تصنيف كيں سہروردى كى اہم ترين تاليفات ميں سے حكمة الاشراق ، التلويحات اور ہياكل النور عربى زبان ميں جبكہ پر تو نامہ اور عقل سرخ فارسى زبان ميں ہيں _

انكے علاوہ فخر الدين رازى كہ جو تقريبا سہروردى كے معاصر تھے انكا نام بھى ليناچاہيے،فخرالدين رازى ان فلاسفہ كے گروہ ميں سے ہيں كہ جو آسان نويسى ميں بہت ماہر تھے انہيں حكمت اور كلام ميں بہت مہارت حاصل تھى اسے انہوں نے اپنے شاعرانہ ذوق سے ملا ديا انكا دليل دينے كا انداز بھى مضبوط اور روان تھا_

اس باب ميں وہ جو بطور فلسفى ، دانشور ، سياست دان اور مفكر كے بہت زيادہ توجہ كے مستحق ہيں وہ جناب خواجہ نصير الدين طوسى ہيں كہ جو ايران كى انتہائي سخت سياسى اور اجتماعى صورت حال ميں يعنى جب منگولوں نے حملہ كيا ظہور پذير ہوئے ، جناب طوسى مكمل طور پر فلسفہ ميں بو على سينا كے پيروكار تھے ليكن اپنى خاص نظر و آراء بھى ركھتے تھے_(۲)

طوسى كے بعد اہم ترين فلسفى ميرداماد استر آبادى ہيں كہ جو تقريباً صفوى دور ميں تھے انكى مشہور تصنيفات ميں سے ايك '' القبسات '' ہے كہ جس ميں انہوں جہان كے حدوث اور قديمى ہونے كے حوالے سے بحث كى اور اسكے ضمن ميں انہوں نے معقولات مجرد كے جہان كو حادث دہرى ( زمانى ) گردا نا ہے_

____________________

۱) دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج ۳ ذيل ابن رشد_

۲) محمد تقى مدرس رضوى ، احوال و آثار خواجہ نصير الدين طوسى ، ۷۱_۴۰

۶۴

اس دور ميں دوسرے مشہور فلسفى ميرفندرسكى ہيں انكى ظاہرى بود و باش سادہ اور درويشوں كے ہم محفل تھے ميرفندرسكى كے افكار و نظريات بو على سينا اور فلسفہ مشاء كے كلمات اور آراء كى حدود كے اندر ہيں ميرفندرسكى نے ان تمام موارد ميں كہ جہاں فلسفہ مشاء اور سہروردى كے حاميوں ميں اختلاف نظر تھا وہاں فلسفہ مشاء كا دفاع كيا ، ميرفندرسكى گذشتہ ادوار كے تمام اسلامى فلاسفہ ميں تنہا وہ شخصيت ہيں كہ جو زبان سنسكريت كو جانتے تھے اسى ليے انہوں نے ہند كے فلاسفہ كى ايك اہم ترين فلسفى او ر نظرياتى كتاب يعنى '' مہا بہارات'' كى شرح لكھي_

گيارھويں صدى ہجرى ميں ميرفندرسكى كے فورا بعد ملا صدراى شيرازى كہ جو صدر المتا لہين كے نام سے معروف ہوئے پيدا ہوئے وہ اس صدى كے بالخصوص اشراق كے حوالے سے سب سے بڑے فلسفى ہيں ملا صدرا نے اپنى تعليم كے آغاز سے نظريات كے پختہ ہونے كے زمانہ تك تين :مراحل شاگردى كادور، عبادت اور گوشہ نشينى كا زمانہ اور تاليف اور افكار و آراء بيان كرنے كا دورانيہ گزارے ، ملا صدرا كى اہم ترين فلسفى تاليفات ميں سے الاسفار الاربعہ اور المبداء و المعاد ہيں _

عالم اسلام ميں فلسفہ كے تجزيہ و تحليل كے حوالے سے ايك اہم ترين پہلو اس علم كا مختلف زمانوں ميں تحرك، زندگى او ر بقا ہے، جيسا كہ ملاحظہ ہوا كہ صدرا اسلام بالخصوص كندى كے زمانہ زندگى سے ملاصدرا كے دور تك اسلامى فكرى تحرّك عروج كے مدارج طے كرتا رہا اور كبھى بھى كوئي دور ايك بڑے فلسفى سے خالى نہ تھا يہ ارتقاء ملاصدرا كے بعد بھى جارى رہا ملاصدرا نے اپنى آراء ايك عظيم اور مكمل فلسفى تحريك '' مكتب فلسفى تہران '' كى صورت ميں يادگار كے طور پر چھوڑيں انكے بعد يہ مكتب زنديہ خاندان كے دور اور قاجار حكومت كے دور ميں جارى رہا اور اس مكتب نے بڑى تعداد ميں عظيم فلاسفہ يادگار كے طور پر چھوڑے مكتب فلسفى تہران اب بھى جارى ہے_(۱)

____________________

۱) اكبر دانا سرشت ، سہروردى و ملا صدرا_

۶۵

۷) منطق

مسلمان اوائل سے ہى اپنى خاص منطق ركھتے تھے يہ منطقى روش واضح طور پر علم كلام او ر اصولى فقہ ميں ديكھى جا سكتى ہے اس قسم كى منطق ميں اگرچہ مسلمان ارسطو كى منطق سے الہام ليتے تھے ليكن بہت ہى كم اس سے متاثر ہوتے تھے، بطور خاص علم اصول الفقہ فقہاء كى منطق شمار ہوتا آيا ہے كہ جو مكمل طور پر مسلمانوں سے ہى تشكيل پايا، اور اہل كلام حضرات بھى پانچويں صدى تك ارسطو كى منطق سے كم ہى مدد ليتے تھے بلكہ اپنى خاص منطقى روش ركھتے تھے _

عالم اسلام ميں پہلى بار ايرانى دانشور ابن مقفع نے مقولات ، عبارات اور قياس كے عربى ترجمہ ميں سبقت كى اور ديگر مترجمين نے بھى منطقى رسائل كا ترجمہ كيا اس حوالے سے كندى ، فارابى ، ابن سينا ، بھمنياربن مرزبان اور حكيم لوكرى نے كوشش كيں ، ليكن بو على سينا نے كتاب شفا ميں اگرچہ منطق ارسطو كے نصاب كو اصلى حالت ميں رہنے ديا اور مكمل طور پر اسكى شرح لكھى ليكن اپنى ديگر كتابوں ميں اس منطقى روش ( ارسطو كى روش) ميں بہت زيادہ كمى بيشى كى ، انہوں نے كتاب منطق المشرقين كے ديباچہ ميں يہ تاكيد كے ساتھ بتايا كہ وہ اسى طرح مشائين كى روش پر وفادار رہے ہيں _

خواہ نصير الدين طوسى نے بھى منطق ميں بہت تحقيق كى اور متعدد كتابيں كہ جن ميں سے اساس الاقتباس،شرح منطق اشارات ، تعديل المعيار اور التجريد فى المنطق تحرير كيں ، وہ منطق كو علم كے ساتھ ساتھ وسيلہ بھى سمجھتے تھے ان كے خيال ميں منظق ايك ايسا علم ہے جو معنى اور انكى كيفيت كى شناخت كے ساتھ ديگر علوم كى فہم و ادراك كى كليد بھى ہے_

ابن تيميہ ( متوفى ۶۶۱) بھى اسلام كے بڑے منطقيوں ميں سے ہيں انكى اس حوالے سے اہم ترين كتابوں ميں سے كتاب الرد على المنطقيين اور نقض المنطق ہيں _

ابن تيميہ كے بعد ارسطو كى منطق كے بڑے ناقد ابن خلدون ہيں انہوں نے اپنى اہم كتاب '' العبرو ديوان المبتداء والخبر'' كے مختلف ابواب ميں منطق كے حوالے سے گفتگو كى انہوں نے تاريخى نگاہ سے منطق

۶۶

كا تجزيہ كيا اور واضح كيا كہ كيسے اس علم نے جنم ليا اور عالم اسلام ميں كس طرح داخل ہوا ، انہوں نے مختصر سے انداز ميں ماہيت منطق كى تعريف كى اسكے بعد اسكے مبادى اور اساس پر بحث كى _

گيارھويں صدى ہجرى ميں صدرالدين شيرازى ( ملا صدرا) كے ظہور كے ساتھ اسلامى تمدن ميں فكرى اور عقلى فعاليت اپنے عروج كو پہنچ گئي تھى ملا صدرا نے اپنى كتاب الاسفار كى مقدماتى فصول ميں مشائيوں كى پيروى ميں علوم كى تقسيم بندى اور منطق كے حوالے سے بھى گفتگو كى انكى روش منطق بہت زيادہ ابن سينا كى روش منطق سے مشابہت ركھتى ہے(۱)

تاريخ اور تاريخ نگاري

زمانہ جاہليت ميں عرب كى ثقافت حفظ پر قائم تھى اور اسى طريقے سے ايك نسل سے دوسرى نسل ميں منتقل ہو رہى تھى ظہور اسلام سے پہلے اور قران كى گذشتہ اقوام كى داستانوں سے عبرت لينے كى تعليمات تك _ زمانہ جاہليت كے عرب لوگ وقت كے تسلسل كو ايك تہذيبى مفہوم كے طور پر نہيں سمجھتے تھے _ ليكن سب سے اہم چيز جس نے مسلمانوں كو تا ريخ نگارى اور تاريخ سے عبرت لينے كى طرف ترغيب دلائي وہ قران و حديث كى تعليمات تھيں لہذا عربوں ميں تاريخ اور تاريخ نگارى كا علم ظہور اسلام كے اوائل ميں ہى وجود ميں آيا_ مسلمان اپنے تاريخى مطالعات ميں قران و حديث سے متاثر ہوتے ہوئے سب سے پہلے پيغمبر اكرم (ص) كى سيرت اور جنگوں كى طرف متوجہ ہوئے اسكے بعد تاريخ نگارى كے ديگر موضوعات كى طرف بڑھے_ سب سے پہلے مسلمان مورخين ميں '' ابو مخنف'' ( متوفى ۱۷۵ م ) كا نام ليا جاسكتا ہے وہ كسى ايك موضوع پر مبنى متعدد تواريخ كے مصنف تھے جنكے كچھ حصوں كاذكر تاريخ طبرى ميں موجود ہے_ ابن اسحاق ( متوفى ۱۵۰ ق) بھى وہ پہلى شخصيت ہيں كہ جنہوں نے سيرہ نبوى پر كتاب لكھي_(۲)

____________________

۱) محمد خوانسارى ، قوانين مطنق صورى ( مختلف جگہ سے) ابو نصر فارابى ، احصاء العلوم ، ص ۵۳ _دانش پوہ ، محمد تقى ، '' از منطق ارسطو روش شناسى نوين '' مجلہ جلوہ ،س ۱، ش۱، ص ۲۴_

۲) عبدالجليل ، تاريخ ادبيات عرب ، ترجمہ آذر تاش آذر نوش ، ص ۱۵۳_

۶۷

اس كتاب كے كچھ حصے تاريخ طبرى ميں نقل ہوئے ہيں اگرچہ يہ كتاب بذات خود ہمارے ہاتھ تك نہيں پہنچى ليكن يہ مكمل طور پر سيرہ ابن ہشام ميں آچكى ہے، واقدى ( متوفى ۲۰۹ قمري) نے پيغمبر اكرم(ص) كى جنگوں كے حوالے سے مشہور كتاب '' المغازى '' لكھي_ واقدى كے شاگر د ابن سعد نے بھى پيغمبراكرم (ص) ، صحابہ اور تابعين كى زندگى كے حالات پر كتاب '' الطبقات'' لكھى ، تيسرى صدى ہجرى ميں بلاذرى ( متوفى ۲۷۹ قمري) نے دو قيمتى تاريخى كتابيں '' فتوح البلدان '' اور '' انساب الاشراف'' اپنے بعد يادگار چھوڑيں _ اس صدى كے دوسرے نصف حصہ ميں اس دور كے اسلام كے بہت بڑے مورخ طبرى نے عظيم كتاب '' تاريخ الامم و الرسل و الملوك'' تصنيف كى _

پانچويں صدى ہجرى ميں چند بڑے مورخ گزرے ہيں _ كتاب تجارب الامم كے مصنف ابن مسكويہ ، سلاطين غزنوى كے ليے لكھى جانے والى كتاب تاريخ يمينى كے مصنف عتبى ، تاريخ بغداد كے مصنف خطيب بغدادى _ چھٹى صدى ہجرى ميں حالات زندگى پر لكھى جانے والى كتاب '' الاعتبار '' كے مصنف اسامہ بن منقذ (متوفي۵۸۴ قمرى )اور سلجوقيوں كى تاريخ پر لكھى جانے والى كتاب '' نصرة الفترہ'' كے مصنف عماد الدين اصفہانى (متوفى ۵۸۹ قمرى ) اس دور كے بڑے مورخ شمار ہوتے تھے_

ساتويں صدى ہجرى ميں ہم بہت بڑے مورخين كا سامنا كرر ہے ہيں ابن اثير جو كہ عرب زبان مورخين ميں سب سے مشہور ہيں اور انہوں نے كتاب '' الكامل فى التاريخ'' اور ''اسد الغابة'' تحرير كيں _ اس صدى كے دوسرے برے مورخين ابن خلكان ہيں كہ جنہوں نے اہم رسالہ ''وفيات الاعيان ''تحرير كيا كہ جو شخصيات كے تذكرہ اور تاريخ ادب پر فہرست كى روش پرہے_

آٹھويں صدى ہجرى ميں ابن ابى زرع ( متوفى ۷۲۷قمرى )نے مغرب كى تاريخ كے حوالے سے اپنى اہم كتاب '' روض القرطاس'' اور ابوالفداء نے كتاب'' المختصر فى اخبار البشر'' تحرير كى نويں صدى ہجرى ميں تقى الدين فاسى نے تاريخ مكہ تحرير كى اسى صدى ميں مقريزى نے مصر كى تاريخ اور جغرافيہ پر اپنى اہم ترين

۶۸

كتاب'' الخطط والآثار'' تحرير كى _ گيارہويں صدى ہجرى ميں مقرّى نے ہسپانيہ كى تاريخ پر كتاب'' نفح الطيب'' لكھى _(۱)

عربى زبان ميں تاريخ نگارى كے ادوار كى مانند فارسى زبان ميں بھى تاريخ نگارى نے اسى طرح سفر كيا اور مراحل ارتقاء طے كيے _ عربى زبان كے مورخين كى مانند ايرانى مؤلفين نے بھى بہت سے ادوار ميں تاريخى كتب تحرير كيں يا عربى سے فارسى ميں ترجمہ كيں _ فارسى زبان ميں قديمى ترين عمومى تاريخى كتابوں ميں سے جو باقى رہ گئي ہيں ان ميں سے تاريخ بلعمى كہ جو ابوعلى بلعمى نے ۳۵۲قمرى ميں تحرير كى _

اسكے بعد كتاب'' زين الاخبار گرديزي'' ( پانچويں صدى كے پہلے نصف حصہ كى تأليف) كا نام بھى ليا جاسكتا ہے ليكن ايران ميں فارسى زبان كى تاريخ نگارى كا سب سے اہم ترين دور منگولوں كا دور يعنى ساتويں صدى كے بعد كا ہے_ اس دور ميں ہم فارسى تاريخى كتاب نويسى ميں انقلابى اٹھان كا مشاہدہ كرتے ہيں اس دور كى اہم ترين تاريخى كتابيں '' تاريخ جہانگشاى جوينى '' ہے كہ جو عطاملك جوينى كى تحرير ہے ، عثمان بن محمد جو زجانى كى تصنيف طبقات ناصرى جو ۶۵۸ ق ميں تاليف ہوئي، عبداللہ بن عمر بيضاوى كى نظام التواريخ ، رشيد الدين فضل اللہ ہمدانى كى جامع التواريخ ، فخر الدين داؤد بناكتى كى تاريخ بناكتى ، حمداللہ مستوفى كى تاريخ گزيدہ، شرف الدين عبداللہ وصاف شيرازى كى تجزية الادصار يا تاريخ وصاف اور محمد بن على شبانكارہ كى مجمع الانساب ہيں _ فارسى زبان ميں تاريخ نگارى كى عظمت و بلندى تيمورى اور تركمانى ادوار ميں بھى جارى رہى ، ان ادوار كى يادگار كتب ميں سے حافظ ابرو كى مجمع التواريخ السلطانيہ'' ، شرف الدين على يزدى كى ظفرنامہ ، مير خواند كى روضة الصفا اور خواند مير كى تاريخ حبيب السير كا نام ليا جاسكتا ہے_(۲)

تركمانى دور كے بعد صفوى حكومت قائم ہونے كے ساتھ ہى فارسى زبان ميں تاريخ نگارى ميں اہم انقلاب

____________________

۱) دانشنامہ جہان اسلام ، ج ۶ ذيل تاريخ و تاريخ نگار ى _

۲)دانشامہ جہان اسلام ، ج ۶ ذيل تاريخ و تاريخ نگارى _

۶۹

پيدا ہوا يہ انقلاب شيعى نظريات كى اساس پر تاريخ نگارى كى جديد شكل تھا_ اس طرز كى اہم ترين تاريخى كتابوں ميں سے ابن بزاز كى تحرير صفوة الصفا ، اسكند بيك منشى تركمان كى '' تاريخ عالم آراى عباسي'' يحيى بن عبداللطيف قزوينى كى ''لب التواريخ ''اور قاضى احمد غفارى كى ''تاريخ جہان آرا ''قابل ذكر ہيں _

اس دور كے مورخين كى ايك بڑى تعدا دصفوى بادشاہوں كى حكومت كى تاريخ كو تاريخ نگارى كا بنيادى موضوع قرار ديے ہوئے تھى _ اس حوالے سے بہت سى كتابيں تاليف ہوئيں ان ميں سے بوداق منشى قزوينى كى ''جواہر الاخبار ''قابل تذكرہ ہے _

افشاريہ اور زنديہ سلسلہ حكومت كے ادوار ميں صفوى تاريخ نگارى شيعى رحجان كے ساتھ جارى رہى اس دوران كے اہم ترين مورخين ميں سے نادر شاہ كے مخصوص منشى ميرزا مہدى خان استر آبادى تھے كہ جنہوں نے بہت سے تاريخى آثار چھوڑے ان ميں سے ''درّہ نادرہ'' اور'' جہانگشاى نادري'' قابل ذكر ہيں _ زنديہ سلسلہ حكومت كے دور ميں بھى ہم ''محمل التواريخ ''كے مصنف ابوالحسن گلستانہ ''روزنامہ ميرزا محمد كلانتر ''كے مصنف ميرزا محمد كلانتر اور ''تاريخ گيتى گشا ''كے مصنف ميرزا صادق موسوى اصفہانى جسے مورخين سے آشنا ہوتے ہيں _

قاجاريہ سلسلہ حكومت كے دور ميں فارسى زبان ميں ايرانى تاريخ نويسى ايك اہم تبديلى سے دوچار ہوئي جسكى بناپر اس دور كى تاريخ نگارى كودو اقسام ميں تقسيم كرنا چاہيے : ايرانيوں كى جديد علوم سے آشنائي سے پہلے او ر اسكے بعد ، قارجايہ حكومت كے پہلے دور ميں تاريخ نگارى صفويہ اور زنديہ ادوار كى مانند اسى سبك و سياق اور ادبى نثر پر جارى رہى جبكہ دوسرے دور ميں ايرانيوں كى يورپ كى جديد تاريخ نگارى روش سے آشنائي كے بعد تاريخ نگارى كا آغاز ہوا ، ايران كى روس سے شكست اور اس شكست كے اسباب اور ايرانيوں كا يورپى زبانوں سے ترجمہ كے كام كى طرف توجہ قاجار يہ دور ميں تاريخ نگارى كے دوسرے مرحلہ كا آغاز ہے _

قاجاريہ دور كے پہلے مرحلہ ميں تاريخ نگارى كے اہم آثار ميں سے ميرزا فضل اللہ خاورى شيرازى كى

۷۰

تاريخ محمدى اور تاريخ ذوالقرنين، عبدالرزاق مفتون دنبلى كى ''مآثر سلطاني''، عضدالدولہ سلطان احمد ميرزا كى ''تاريخ عضدى ''، اور محمد تقى سپہر كى ''ناسخ التواريخ ''كا نام ليا جاسكتا ہے ،قاجاريہ كے دوسرے دور ميں يورپ كى زبانوں سے ترجمہ كى بناء پر يورپ كى تاريخ كے متعلق چند كتابوں ميں سے ايڈورڈگيبن كى كتاب'' تاريخ انحطاط و زوال امپراتورى روم'' كہ جو فارسى ميں ترجمہ ہوئي اسى طرح سرجان ملكم كى كتاب'' تاريخ ايران'' كہ جوانگريزى ميں تصنيف ہوئي اور بعد ميں فارسى ميں ترجمہ ہوئي_(۱)

يہ تاريخ نگارى كے متعلق كچھ نكات تھے كہ جنكى طرف ہم نے اشارہ كيا ، اسلامى ادوار ميں تاريخ نگارى كے حوالے سے ايك اور قابل توجہ بحث يہ ہے كہ مورخين نے تاريخ نگارى كى مقبوليت كى بناء پر كتب كى تصنيف و تاليف ميں مختلف اقسام كے سبك و سياق كى پيروى كى اسى ليے ہم انكے تاريخى آثار كو چند اقسام ميں تقسيم كر سكتے ہيں جوكہ مندرجہ ذيل ہيں :

الف) روائي تاريخ نويسي: يہ مختلف موضوعات مثلا حديث ، قصہ ، مقتل ، سيرت اور جنگوں كے احوال ميں تقسيم ہوتى ہے _

ب) وقايع نويسى : واقعات اور رودادوں كوتاريخى نظم كے ساتھ تسلسل كى شكل ميں ايك جگہ پيش كرنا _

ج) ذيل نويسى اور مختصر نويسي: گذشتہ لوگوں كى تاريخى كتب پر ذيل و حاشيہ اور تكميلى نوٹ لكھنا_

د)عمومى تاريخ نويسي: تقويم اور سالوں كى ترتيب كے ساتھ اسلامى ممالك كے واقعات كو قومى و جغرافيائي عناصر كى مداخلت كے بغير لكھنا _

ہ) انساب كى روسے تاريخ نويسي: انساب كے سلسلہ اور شجرہ نسب كى آشنائي كے ساتھ تاريخى حوادث كا ذكر اور انكا ايسے قبائل اور طوائف سے ربط بيان كرنا جن كا پس منظر زمانہ جاہليت سے جا ملتا ہے _

و) طبقات كے اعتبار سے تاريخ نويسي: يہ تاريخ نگارى ميں اسلامى مورخين كى قديم ترين روش ہے

____________________

۱) دانشنامہ جہان اسلام ج ۶ ذيل تاريخ و تاريخ نگارى _

۷۱

طبقات كے نام كى تاريخى كتب ميں ہر زمانہ ياہر نسل كى ديني، علمى اور سياسى شخصيات كے حالات زندگى زمانى ترتيب كے ساتھ ہر ايك طبقہ كو ديگر طبقات اور ادوار سے جدا كرتے ہوئے لكھے جاتے ہيں _

ز) سرگذشت نامے: يہ روش بہت سى تاريخى كتب ميں پائي جاتى ہے يعنى خلفاء ، حاكموں اور علماء كے حالات زندگى كے بارے ميں كتب تحرير كرنا ، تاريخ نويسى كى يہ روش پيغمبر اكرم (ص) كے حوالے سے تحرير شدہ سيرتوں كے زير اثر وجود ميں آئي _

ح) صدى نامہ : تاريخ نويسى كى يہ روش ساتويں صدى سے رائج ہوئي اس روش ميں ايك معين صدى كى شخصيات كى سرگذشت الف ب كى ترتيب سے لائي جاتى ہے _

ط) مقامى تاريخ نويسى :سال بہ سال تاريخ نويسى كى روش كے مطابق ايك منطقہ ، سرزمين يا شہر كے تاريخى حالات و واقعات كا ذكر _

ى ) خاندانى تاريخ نويسي: خلفا اور سلاطين كے دور فرمانروائي كى بنياد پر لكھى جانے والى كتب اور رسالات اس قسم كى تاريخ نويسى ميں جو كہ قبل از اسلام كے ايرانى لكھاريوں كے اسلوب كا اقتباس ہے بادشاہوں كى تاريخ كو مرتب كيا جاتا ہے_

درج بالا ہر ايك قسم كے تحت مختلف كتب اور رسالے فارسى اور عربى ميں تدوين كئے گئے ہيں كہ جنہيں مفصل تاريخى ما خذاور كتابيات ميں تلاش كيا جاسكتا ہے_(۱)

۹ ) جغرافيا

مسلمانوں نے علم جغرافيہ ميں بھى ديگر قديم علوم مثلا رياضي، طب اور نجوم كى مانند گذشتہ تہذيبوں خصوصاً يونان، ايران اور ہند كا سہارا ليا انہوں نے ان تہذيبوں كے آثار كا مطالعہ اور ترجمہ كرتے ہوئے ان علوم كو وسعت بخشي_ ايران ، مصر اور سندھ كى فتح سے مسلمانوں كو موقع ملا كہ ان تين تہذيبوں كے لوگوں كى علمى و

____________________

۱) رسول جعفريان ، منابع تاريخ اسلام ، قم ص ۵۱ ، فرانتس روزنتال ، تاريخ و تاريخ نگارى در اسلام ، ترجمہ اسداللہ آزاد ص ۸۴، ۸۱ ، عبدالعزيز دورى ، بحث فى نشان علم التاريخ عندالعرب ص ۸۶ _ ۸۱_

۷۲

ثقافتى ترقى سے ابتدائي معلومات حاصل كريں _ ہندى جغرافيہ كے حوالے سے مسلمانوں كے پاس اہم ترين منبع كتاب '' سوريا سدھانتہ'' تھى كہ جو منصور عباسى كے دور خلافت ميں سنسكرت سے عربى ميں ترجمہ ہوئي _ يونان سے جغرافيہ اور نجوم كى معلومات بھى بطليموس اور ديگر يونانى دانشوروں كے آثار كے ترجمہ سے مسلمانوں ميں منتقل ہوئيں بطليموس كى جغرافيہ كے بارے ميں كتاب عباسى دور ميں چند بار ترجمہ ہوئي ليكن آج جو كچھ ہمارے پاس اس كتاب كے حوالے سے ہے وہ محمد بن موسى خوارزمى كا اس كتاب سے اقتباس ہے كہ جو مسلمانوں كى اپنى معلومات سے مخلوط ہوگيا ہے(۱)

اسلامى تہذيب ميں علم جغرافيہ كا آغاز منصور عباسى كى خلافت كے زمانہ ميں ہو ا اور بالخصوص مامون كى خلافت كے زمانہ ميں اس علم كى طرف سركارى توجہ بڑھى مامون كى خلافت كے زمانہ ميں جغرافيہ نے بہت ترقى كى _ كرہ زمين كى قوس سے ايك درجہ كى پيمائشے ، نجومى جدول اور مختلف جغرافيائي نقشہ جات كا تيار ہونا و غيرہ اس ترقى كے ثمرات تھے_

تيسرى صدى ہجرى سے قبل جغرافيہ كے حوالے سے جداگانہ تصنيفات موجود نہ تھيں بلكہ كہيں كہيں ہميں اس زمانے كى كچھ جغرافيائي معلومات منتشر صورت ميں ملتى ہيں ليكن تيسرى صدى ہجرى اسلامى تہذيب ميں علم جغرافيہ ميں اختراعات اور ترقى كا زمانہ ہے كيونكہ اس صدى ميں ايك طرف بطليموس كے آثار سے آشنائي حاصل ہوئي اور اسكے بعد ايسے تراجم ظاہر ہوئے كہ جنكى بناء پر سائينٹيفك جغرافيہ كا آغاز ہوا دوسرى طرف توصيفى جغرافيہ كى تشريح كيلئے گوناگون نمونہ جات بنائے گئے اور اسى صدى كے آخر ميں كئي جغرافيائي كتب تحرير ہوئيں اور مختلف قسم كے سفرنامے دائرہ تحرير ميں آئے_

چوتھى صدى ہجرى ميں اسلامى جغرافيہ ميں مختلف مكتب پيدا ہونے سے جو'' مسالك و ممالك '' كوخاص اہميت ديتے تھے اور اسلامى اطلس يعنى جغرافيائي اشكال كے بہترين نمونوں سے بہت نزديكى تعلق ركھتے تھے

____________________

۱)فرانتس تشنر و مقبول احمد ، تاريخچہ جغرافيا در تمدن اسلامي، ترجمہ محمد حسن گنجى و عبدالحسين آذرنگ ص ۱۰ و ۹_

۷۳

جغرافيہ كى تاليفات اپنے عروج كو چھونے لگيں(۱) _

اسلامى تمدن ميں علم جغرافيہ كے تاريخى اتار چڑھاؤ كو مختلف ادوار ميں تقسيم كيا جاسكتاہے:

پہلا دور (تيسرى اور چوتھى صدي)

اس دور ميں علم جغرافيہ عروج كى طرف قدم بڑھا رہا تھا اس دور كى جغرافيائي تاليفات كو دومكتبوں ميں تقسيم كيا جاتاہے كہ ان دونوں كے ذيل ميں بھى اقسام ہيں : ايسے متون كہ جومجموعاً كائنات كے بارے ميں تحرير ہوئے ہيں ليكن اسلامى خلافت كى بعنوان مركز عالم اسلام زيادہ تفصيلات بتائي گئيں ہيں _

وہ تحريريں جو واضح طور پر ابو زيد بلخى كے نظريات سے متاثر ہيں اور فقط اسلامى سرزمينوں كى روداد بيان كررہى ہيں اور اسلامى مملكت كے ہر گوشے يا رياست كو جدا سلطنت سمجھا گيا ہے اور سوائے سرحدى علاقوں كے بہت كم غير مسلم سرزمينوں كے بارے ميں بحث كى گئي ہے_(۲)

دوسرا دور (پانچويں صدي)

يہ اسلامى جغرافيہ كے عروج كى صدى ہے اس دور ميں مسلمانوں كا علم جغرافيہ خواہ انہوں نے يونانيوں اور ديگر تہذيبوں سے اقتباس كيا ہو خواہ انہوں نے يہ معلومات تحقيق، مشاہدہ اور سياحت كے ذريعے حاصل كى ہوں ترقى كى بلندترين سطح كو چھورہا تھا_

تيسرا دور(چھٹى صدى سے دسويں صدى تك )

يہ اسلامى جغرافيائي معلومات كى پيوستگى اور ترتيب دينے كا زمانہ ہے _ اس دور ميں ادريسى جيسے حضرات كے سوا متقدمين كى كتب كے مقابلہ ميں كوئي خاص ترقى نہيں ہوئي اور جغرافيہ كے موضوع پر علمى اور ناقدانہ

____________________

۱)سيد حسين نصر، علم و تمدن در اسلام، ترجمہ احمد آرام، ص۸۸، تشنر و احمد ، تاريخچہ جغرافيا در تمدن اسلامى ص ۱۲_

۲)ايگناتى يوليا نويچ كراچكو منكى ، تاريخ نوشتہ ہاى جغرافيائي در جہان اسلامى ترجمہ ابوالقاسم پايندہ ص ۷،۶_

۷۴

مزاج اور معلومات كے درست اور مستند ہونے كے بارے ميں حساسيت _ جو كہ متقدمين كى اہم خصوصيات تھيں _ ان خصوصيات نے اپنى جگہ تلخيص اور گذشتہ لوگوں كے روائي اور نظرى اقوال كو نقل كرنے كو دے دي(۱) _

چوتھا دور (گيارہويں سے تيرہويں صدى تك)

اس دور ميں ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ اسلامى جغرافيہ ميں جديد تحقيقات شاذو نادر ہيں كلى طور پر اس دور كا نام ''زمانہ جمود '' ركھا جاسكتاہے ليكن اس دور كے آخر ميں اسلامى جغرافيہ ميں اہم واقعہ رونما ہوا وہ يہ كہ مسلمان يورپى جغرافيہ سے آشناہوئے انكى يہ آشنائي مغربى جغرافيايى آثار كے ترجمہ كے ذريعے عمل ميں آئي(۲)

پہلے دور كے مصنفين يعنى تيسرى اور چوتھى صدى كے جغرافيہ دانوں ميں سے ''ابن خردادبہ'' كى طرف اشارہ كيا جاسكتاہے كہ جنہوں نے جغرافيہ اورديگر علوم ميں دس عناوين سے زيادہ كتب تاليف كيں المسالك و الممالك انكى جغرافيہ كى تاليفات ميں سے ايك ہے اس گروہ كے ديگر نمايندے '' البلدان'' كے مولف يعقوبى اور اخبار البلدان كے مصنف ابن فقيہ ہمدانى ہيں اس گروہ كے مشہورركن جو كہ چوتھى صدى كے مشہورترين جغرافيہ دان شمار ہوئے ہيں وہ ابوالحسن على بن حسين بن على مسعودى ہيں ، جناب مسعودى جغرافيہ كو علم تاريخ كا جزو سمجھتے تھے_ اسى ليے انہوں نے اپنى جغرافيہ كے حوالے سے معلومات كو اپنى تاريخ ميں اہم كتاب ''مروج الذہب و معادن الجوہر ''ميں تحرير كيا_

اسى طرح اس دور كے ديگر قابل ذكر جغرافيہ دانوں ميں سے كتاب'' المسالك و الممالك كے مصنف اصطخري'' ، كتاب '' صورة الارض يا المسالك والممالك'' كے مصنف ابن حوقل اور '' كتاب احسن التقاسيم فى معرفة الاقاليم'' كے مصنف مقدسى ہيں _

____________________

۱) تشنر و احمد ، پيشين ص ۴۸ ، ۳۸_

۲) آندرہ ميكل اور انكے معاون حائرى لوران، اسلام و تمدن اسلامي، ترجمہ حسن فروغى ص ۴۸۲، ۴۸۱_

۷۵

دوسرے دور يعنى پانچويں صدى ميں بڑے اور عظيم جغرافيہ دانوں كے ظہور كا ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ ان ميں سے اہم ترين ابوريحان بيرونى ہيں جناب بيرونى علم جغرافيہ كى ايك انتہائي فنى اور پيچيدہ ترين شاخ يعنى رياضياتى جغرافيہ كے مؤسس ہيں اس حوالے سے انكى كتاب كا نام '' تحديد نہايات الاماكن'' ہے علاوہ ازيں علم جغرافيا ميں البيرونى كے ہم عصر اور ہم رتبہ دانشور ابوعبداللہ بن عبدالعزيز بكرى قرطبى ہيں جو ہسپانيہ كے دانشور تھے انكى جغرافيہ كے حوالے سے كتاب كا نام '' معجم ما استعجم من اسماء البلاد والمواضع'' ہے_

تيسرے دور يعنى چھٹى سے دسويں صدى تك جس كا نام ہم نے اسلامى جغرافيہ ميں ''زمانہ تلفيق ''ركھا ہے كى كتب كو بطور كلى آٹھ اقسام ميں تقسيم كيا جاسكتاہے : ۱_ كائنات كى توصيف ۲_( cosmology ) علم كائنات كے متون ۳_ جغرافيائي تہذيبيں ۴_ زيارت ناموں كى كتب ۵_ سفرنامے ۶_ جہاز رانى سے متعلق متون ۷_ فلكياتى آثار ۸_ مقامى جغرافيا ئي متون(۱)

ان بہت سے آثار ميں سے كچھ جو مندرجہ بالا اقسام كے حوالے سے تاليف ہوئي مندرجہ ذيل ہيں : محمد بن احمد فرقى كى كائنات كى توصيف كے حوالے سے كتاب'' منتھى الادراك فى تقسيم الافلاك''، ياقوت حموى كى تہذيبوں كے حوالے سے ''معجم البلدان '' سفرناموں كے حوالے سے ''رحلہ ابن جير ''اور اس دور ميں اہم ترين جغرافيہ دان ابن بطوطہ ہيں كہ جو مشہور سفرنامہ كے مصنف ہيں يہ كتاب انكے مختلف اسلامى سرزمينوں ميں ۲۵ سالہ سفر كا ثمرہ ہے_

اس دور كے آخر تك مقامى جغرافيہ پر عربى اور فارسى ميں بہت سى كتابيں لكھى گئيں كہ ان ميں فارسى كتب ميں سے ابن بلخى كى فارس نامہ ، حمد اللہ مستوفى كى ''نزھة القلوب''، محمد بن نجيب بكران كى ''جہان نامہ''، عبدالرزاق سمرقندى كى ''مطلع السعد'' اور امين احمد رازى كي'' ہفت اقليم ''قابل ذكر ہيں _

____________________

۱)تشنر و احمد، سابقہ ماخذ_

۷۶

ادب:

الف) عربى ادب

اسلام كى پيش رفت كے آغاز سے ہى عربى ادب خصوصاً شاعرى خاص توجہ كا مركز بن گئي اسلامى فتوحات عربى اشعار ميں اپنا جلوہ دكھانے لگيں اور عبداللہ بن رواحہ، كعب بن مالك، حسان بن ثابت و غيرہ جيسے برجستہ شعرا كے آنے سے آہستہ آہستہ قرآنى كلمات اور مضامين بھى عربى شاعرى ميں سمونے لگے حسان بن ثابت نے پيغمبر اكرم(ص) اور ان كے صحابہ كى دس سال تك مدح و ستائشے ميں قصايد كہے اورانہوں نے رسول اكرم(ص) كى وفات پر مرثيہ سرائي بھى كي_

قرآن مجيد كے بعد اولين اسلامى منثور آثار احاديث نبوى (ص) ہيں جن كى نثر روان اور سادہ ہے،خطبات ميں ''حجة الوداع'' سے امير المؤمنين (ع) كے گہر بار اقوال تك مسجع و مقفع اور خوبصورت لفاظى سے بھر پور نثر ملتى ہے_ خطوط اور عہدنامے و غيرہ جن ميں سياسى اور اجتماعى موضوعات پائے جاتے ہيں كو دينى متون كى حيثيت حاصل ہے _پہلى صدى ہجرى ميں عربى نثر مذكورہ موضوعات تك ہى محدود رہى ہے_

كميت ( ۱۲۶_ ۶۰ قمري) كے عموماً شيعى اور خاص طور پر اشعار ہاشميات ايك پايدار مكتب كى شكل ميں آگئے اور روز بروز روحانى رنگ ان پر بڑھنے لگا _ اسكے اہم ترين دينى اشعار چار قصيدے ہيں كہ جو ہاشميات كے نام سے شہرت پاگئے _(۱)

زمانہ كے گذرنے كے ساتھ ساتھ عربى ادبيات نے زيادہ سے زيادہ اسلامى تہذيب كو اپنے اندر جذب كيا اسطرح كہ بہت كم ہى كوئي خطبہ يا تحرير مل سكے گى كہ جسكا آغاز قرانى مناجات اور پيامبر اكرم (ص) كى مدح سے نہ ہو اسى طرح اخلاقى اقدار كے متعلق زمانہ جاہليت كے بہت سے كلمات نے بتدريج اپنے مفاہيم بدل لئے اور كلمات مثلا شجاعت، وفا، صداقت، صبر اور سخاوت و غيرہ قيمتى اور معنوى كلمات ميں تبديل ہوگئے_(۲)

____________________

۱) زكى مبارك، الملائح النبوية فى الادب العربى ص ۲۳_۶_

۲) توشى ہيكو ايزدتسو ، ساختمان معناى مفاہمى اخلاقي، دينى در قرآن ، ترجمہ فريدون بدرہ اى ص ۵۰ كے بعد _

۷۷

بنى اميہ كے زمانہ ميں سياسى وجوبات كى بناء پر شعر اور شاعرى توجہ كا مركز قرار پائي انہوں نے كوشش كى كہ اشعاركے ذريعے لوگوں كو اپنى طرف جذب كريں يابزعم خويش انعام اور صلہ دے كر لوگوں كى زبان تنقيد بند كريں _ لہذا اس دور ميں شاعرى حاكموں كى توجہ كا مركز بنى اس سے انكا ہدف اپنے مخالف اور رقيبوں (اہل بيت پيغمبر(ص) ) سے مقابلہ كرناتھا بنى اميہ اچھى طرح جانتے تھے كہ لوگ خلافت كو اہل بيت كا حق سمجھتے ہيں اور انہيں غاصب شمار كرتے ہيں اسى ليے كہ اموى حكمرانوں كى شعرا حضرات كے سامنے بہت زيادہ مال و دولت لٹا نے كے باوجود يہ لوگ اكثر و بيشتر حق ہى بيان كرتے تھے _(۱)

اموى دور كے برجستہ شاعروں ميں سے فرزدق ، اخطلى اور جرير قابل ذكر ہيں ، عباسيوں كے خلافت پر قابض ہونے سے شاعروں كوكچھ معمولى سى آزادى حاصل ہوئي تو شيعہ شعراء اپنے عقائد و نظريات اہل بيت كى مدح كے ساتھ بيان كرنے لگے ان افراد ميں سے سعيد حميرى اور دعبل كا نام قابل ذكر ہے اسى طرح عباسى مشہور شاعر ابوالعتاہيہ تھے _

دينى اشعار كا موضوع كہ جسے شريف رضى نے عروج پر پہنچايا مھيار ديلمى كے ذريعے جارى رہا _ مہيار ديلمى ايك زرتشتى شخص تھے انہوں نے اسلام قبول كيا اور كوشش كى كہ ايرانى قوميت كى طرف اپنے واضح رحجانات كو اہل بيت كى دوستى كے ساتھ مخلوط كرے كلى طورپر ہم كہيں گے كہ عربى اشعار اگرچہ اسلامى ادوار ميں مختلف نشيب و فراز ميں گزرتے رہے اور برجستہ شعراء كى تربيت ہوئي ليكن يہ گمان نہيں كرنا چاہے كہ ان تمام اشعار كے مضامين فقط دينى تھے بلكہ عربى شعراء نے مختلف ميدانوں ميں طبع آزمائي كى جيسے ابونواس نے طربيہ شاعرى ميں ، ابوالعتاہيہ نے زہدد و حكمت، بشار بن بردنے ہجو اور بحترى نے مدح سرائي ميں اشعار كہے_

اسى طرح نثر بھى شعر كى مانند مختلف ادوار سے گزرى بعض ادوار ميں گوناگون وجوہات كى بناء پر عظيم مصنفين نے پرورش پائي جبكہ بعض ديگرادوار ميں ايسى ترقى ديكھنے ميں نہ آئي_

عرب كے مصنفين ميں ابن مقفح ( متوفى ۱۴۲ قمري) ادبيات عرب كا درخشان ترين چہرہ ہيں يہانتك كہ انہيں نثر تازى (عربي)كا خالق كہا جانے لگا اگر چہ انكے آثار ياكم از كم موجود آثار فقط وہى كتابيں ہيں كہ جو پہلوى زبان سے ترجمہ ہوئيں _(۲)

____________________

۱) جرحى زيدان ، تاريخ تمدن اسلام ، ترجمہ على جواہر كلام ، ص ۵۱۵_۵۱۴_

۲) دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج۴ ذيل ابن مقفع_

۷۸

عربى ادب ميں ديگر اہم اور معروف شخصيات ميں سے ابن قتيبہ دينورى ( متوفى ۳۲۲ قمرى ) ابوعثمان عمروبن بحر جاحظ( متوفى ۲۵۵ قمري) ابوالعباس محمد بن يزيد مبرد( متوفي۲۸۵قمري) قدامة بن جعفر (متوفى ۳۳۷ قمري) ، ابوالفرج اصفہانى ( متوفى ۳۶۲ قمرى ) اور ابومنصور ثعالبى ( متوفى ۴۲۹ قمري) قابل ذكر ہيں _ ادب عربى كادرخشان اور پر رونق زمانہ ضياء الدين ابوالفتح ابن اثير جو كہ كتاب'' المثل السائر فى ادب الكاتب و الشاعر'' كے مصنف ہيں كے نام پر ختم ہوا كيونكہ انكے بعد طويل زمانہ تك عربى ادب كى تاريخ ميں درخشان چہرہ شخصيت ظاہر نہ ہوئي اس جمود كے دور ميں بيشتر ادبى آثار گذشتہ لوگوں كے آثار كى شرح، حاشيہ، تلخيص يا تكرار كى حد تك تھے عربى ادب اوركلچر ميں يہ جمود كا دور منگولوں كے قبضہ كے بعد شروع ہوا اورعثمانيوں كے دور حكومت ميں يہ جمود اپنى آخرى حدوں كو چھونے لگا كيونكہ تركوں كى سلطنت اور خلافت كے زمانہ ميں عربى زبان اور ادب كى ترويج اور قدر كرنے والا كوئي نہ رہا _

ب) فارسى ادب :

۱) فارسى شعر

چوتھى صدى ہجرى كى ابتداء سے پانچويں صدى ہجرى كے نصف دور تك كا زمانہ فارسى ادب كے ظہور اور عروج كا زمانہ ہے _ اس دور ميں اشعار كے رواج اور روزبروز بڑھتى مقبوليت كى بنيادى وجہ سلاطين كى جانب سے شعراء اور مصنفين كى بہت زيادہ حوصلہ افزائي كرنا تھا _

سامانى سلاطين بالخصوص پارسى ميں نثر اور نظم كا بہت اہتمام كيا كرتے تھے اور فارسى شعر كو عزت و تكريم كى نگاہ سے ديكھتے تھے_ انكے ذريعے پارسى نظم ونثر كى ترويج كى ايك وجہ يہ تھى كہ ايرانى لوگ اپنے جداگانہ ادب كے بارے ميں سوچيں اور اپنے دارالحكومت بخارا كى بغداد يعنى مركز خلافت كے مد مقابل عظمت كى طرف متوجہ ہوں _ بخارا جو كہ چوتھى صدى ہجرى ميں ايرانى ادب كا مركز تھا كے علاوہ اور بھى مراكز پانچويں صدى

۷۹

ہجرى كے پہلے نصف دوران تك فارسى ادب كى ترقى كيلئے موجود تھے مثلاً زرنج سيستان، غزنين، نيشابور ، رى اور سمرقند(۱)

چوتھى صدى كے آخر تك درى فارسى كے اشعار فقط خراسان اور فرارود(ماوراء النہر ) كے شاعروں تك محدود تھى كيونكہ فارسى انكى مادرى زبان شمار ہوتى تھي_ چھٹى صدى كے آخر ميں اصفہان بھى فارسى ادب كا ايك بڑامركز بنا_ اور شعرا اور ادبى خطباء كے مراكز فرارود(ماوراء النہر) اور سندھ سے ليكر ايران كے مغربى اور جنوبى علاقوں تك پھيلے ہوئے تھے چھٹى صدى كے وسط اور خصوصاً اسكے اواخر تك فارسى شعر كے اسلوب ميں ايك بڑا انقلاب پيدا ہوا جسكى بنيادى وجہ فارسى شعر كا ايران كے مشرق سے عراق عجم(موجودہ اراك)، آذربايجان اور فارس كے شعراء كى طرف منتقل ہونا تھا_اس تبديلى كى اساسى وجہ فكرى و نظرياتى اسلوب اور عقائد كى بنياد پر بعض تغييرات تھے_

ساتويں اور آٹھويں صدى كے اشعار ميں بتدريج قصيدہ ختم ہوگيا اور اسكى جگہ عاشقانہ اور عارفانہ لطيف غزلوں نے لے لى اس دور ميں اشعار كا سبك چھٹى صدى كے دوسرے حصہ كے دور كا اسلوب تھا كہ جسے آجكل سبك عراقى كا نام ديا گيا ہے كيونكہ ان دو صديوں ميں اشعار كا مركز ايران كے مركزى اور جنوبى مناطق تھے _

نويں صدى ہجرى ميں سياسى اور اجتماعى صورت حال كے متزلزل ہونے اور علم و ادب كے بازاروں كے ماند پڑنے اور شاعر پسند امراء اورحاكموں كے كم ہونے كى بنا پر فارسى شعر كى مقبوليت ختم ہوگئي اور بعض تيمورى سلاطين اور شاہزادوں مثلا بايسنقر ميرزا جيسے اہل سخن كى حوصلہ افزائي بھى كفايت نہ كرسكى _

صفويوں كے دور اور انكے بعد كى صديوں ميں ہندوستان ميں فارسى زبان كى ترقى نسبتاً زيادہ زور وشور سے تھي_ ہندوستان ميں مغليہ ادوار ميں مسلمان بادشاہ فارسى زبان كى طرف كافى توجہ اوردلچسپى كا ثبوت ديتے تھے اسى ليے بہت سے ايرانى لوگ بھى اس سرزمين كى طرف ہجرت كر گئے تھے بہت سے شاعر اس سرزمين پر ظاہر ہوئے اور زبان فارسى كو وہاں عظيم مقام حاصل ہوا اسى ليئے وہاں ايك جديد اسلوب تخليق ہوا كہ جسے سبك ہندى يا بہتر الفاظ ميں سبك اصفہانى كہاگيا _

____________________

۱) اس دور كے فارسى اشعار كى مزيد خصوصيات جاننے كيلئے رجوع كريں : ذبيح اللہ صفا، تاريخ ادبيات در ايران ، ج ۲ ص ۲۰۰_۱۹۰_

۸۰