اسلام اور سیاست جلد ۱

اسلام اور سیاست 0%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور سیاست

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 36929
ڈاؤنلوڈ: 3840


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36929 / ڈاؤنلوڈ: 3840
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد 1

مؤلف:
اردو

دسواں جلسہ

قانون کے سلسلہ میں نظریات میں فرق

۱- گذشتہ مطالب پر ایک نظر

حکومت وسیاست سے متعلق اسلامی نظریہ پیش کرنے کے سلسلہ میں ہم نے گذشتہ جلسوں میں یہ عرض کیا تھا کہ اسلام کی رو سے قانون ساز اور قانون کا نافذ کرنے والا خدا کی جانب سے منسوب ہونا چاہئے؛ یعنی قانون کو یا خدا بلاواسطہ بیان کرے جیسا کہ سماجی قوانین سے متعلق آیات اس بات کو بیان کرتی ہیں ، یا ن قوانین کو پیغمبر اسلام یا ائمہ معصومین علیہم السلام کے ارشادات اور آیات قرآن کی تفسیر میں بیان ہوئے ہیں جو کہ سنت کے ذیل میں آتے ہیں ، ان قواین میں سے بعض دائمی ،مستحکم اور ناقابل تبدیل ہیں اور بعض میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، جو زمانہ اور جگہ سے لحاظ سے ہوتے ہیں ، غیبت امام (ء) کے زمانے میں ان کو معین کرنے کا اختیار ان افراد کو دیا گیا ہے کہ جو دینی معلومات، پرہیزگاری اور عدالت اور معاشرہ کی مصلحتوں سے آگاہی کے اعتبار سے امام معصوم علیہ السلام سے بہت قریب ہوتے ہیں - اور نفاذ قانون کے سلسلے میں بھی ہم نے یہ عرض کیا کہ خود خداوندعالم اس کے نفاذ کا ذمہ دارنھیں ہے بلکہ یہ کام اس شخص کے ذریعہ انجام پانا چاہئے جو نفاذ قانون کا ذمہ دار ہو، اور وہ پہلے مرتبہ میں خود پیغمبر اسلام پھر ائمہ معصومین علیہم السلام اورپھر وہ افراد ہیں جو پیغمبر یا امام علیہ السلام کی جانب سے خاص یا عام طور پر معین کئے گئے ہوں -

جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے جلسہ میں عرض کیا کہ مذکورہ نظریہ کی بنیاد ایک طرح کے بنائے ہوئے اصول پر ہے کہ جس میں سے پہلی اصل یہ ہے کہ معاشرہ کو قانون کی ضرورت ہے، اور دوسری اصل یہ ہے کہ قانون کو خدا کی جانب سے ہونا چاہئے، ان دو مرحلوں کے بعد نفاذ قانون کے مرحلوں کو بیان کیا جاتا ہے، جو حضرات ان اصولوں کے قائل ہیں مثلاً مسلمان ہیں یا اسلام کے اصولوں کے معتقد ہیں ان سب کے لئے بحث میں داخلی نظم کا لحاظ کرتے ہوئے اس نظریہ کا ثابت کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، لیکن جو افراد اسلام کے اصولوں کے معتقد نہیں ہیں یا جو ان مسائل کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ دشمنوں کے اعتراضات کا جواب دے سکیں ان کے لئے ہر ایک اصول کو بہت تفصیل سے بیان ہونا ضروری ہے-

۲-دور حاضر میں قانون سے بحث کرنے کی ضرورت

اس دور میں سیاسی مسائل کے بارے میں مختلف طرح کے نظریات ہمارے سامنے ہیں ،لھٰذا حکومت وسیاست کی فکری بحثوں کے بارے میں اسلام کی روسے زیادہ توجہ ہونا چاہئے تاکہ ہم مخالف نظریوں کے مقابلہ میں اسلامی نظریہ کو مستحکم ویقینی شکل میں پیش کرسکیں ، خاص طور سے اس بات کا لحاظ کریں کہ عالمی استعمار اسلامی حکومت کے نظریہ کو پامال کرنے کی مسلسل کوشش کررہا ہے، اس وقت ہم انقلابی دو رمیں اور ایسے زمانے میں زندگی بسر کررہے ہیں کہ نظام ِ حکومت کو ثابت کیا جاچکا ہے، اور اسلام کے نظریات کو پیش کرنے کے لئے علمی اور منطقی وسائل سے فائدہ اٹھانا چاہئے-

اور اس بات کے پیش نظرکہ ملک کے راہنماؤں کی طرف سے قانون مندی اور نفاذِ قانون کا نعرہ لگایا جاتا ہے ، لھٰذا عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ قانون کے مسئلہ کے اصول، حدوداور اہمیت پر توجہ رکھنی چاہئےے،او ر اس بات سے آگاہ ہوں کہ ہم کیوں ؟ اور کس حد تک قانون کی پیروی کریں ؟ یہ وہ اسباب ہیں جو اس زمانہ میں ،اسلام کے سیاسی اور حکومتی مسائل کے بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت کو دوگناہ کردیتے ہیں ، لھٰذ ہمیں ایک حد تک ان تمام بحثوں کو علمی اور تحقیقی شکل میں پیش کرنا چاہئے-

۳-قوانین کے حدود کو معین کرنے میں دو مختلف نظریے

آج کا انسانی معاشرہ مختلف طرح کے بے شمار وقوانین سے دوچار ہے، اور اگر ہم ان کتابوں پر نظر ڈالیں جو پچاس ساس قبل ہمارے لئے لکھی گئی ہیں تو ہم یہ سمجہ جائیں گے کہ ان کتابوں کی زخامت میں اضافہ تقریباً قاعدہ عددی کی ارتقائی شکل میں ہے اور جو قوانین اس زمانے میں پائے جاتے تھے ان کی تعداد آج کے قوانین کی تعداد کی نسبت بہت کم ہیں ، پھر خاص طور سے آج کل کے شعبہ جات، آئین ناموں ، دفتری اور قوانین منتظمہ کی تعدا میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، اور معاشرے کو نئے قوانین کی ضرورت کا زیادہ سے زیادہ احساس ہورہا ہے، اور ذمہ دار حضرات بھی ان قوانین کے بنانے اورنافذکرنے میں اپنی پوری کوشش ومحنت لگادے رہے ہیں -

یھاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قانون کی تعداد میں اضافہ کرنا معاشرہ کے لئے ضروری ہے؟ یہ سوال پہلی نظر میں سادہ اور عمومی معلوم ہوتا اہے اور کوئی خاص سوال معلوم نہیں پڑتا اس لئے کہ یہ بات واضح ہے کہ معاشرہ کو ہر روز جدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور یہ معاشرہ جدید قوانین کا بہت زیادہ نیاز مند ہے جو کہ بنائے اورنافذ کئے جانے چاہئےے،، لیکن دنیا کے علمی حلقہ میں یہ سوال اہمیت کے ساتھ ذکرہوتا ہے کہ کیا سماجی قوانین کے بنانے میں صرف ضروری اور کم سے کم پر اکتفاء کی جائے یا معاشرے کے قوانین جامع اور ہمہ گیر ہوں اور عوام کی زندگی کے تمام امور کو شامل ہوں ؟ یہ مسئلہ فلسفہ سیاست اورفلسفہ حقوق کے عملی حلقوں میں اعلیٰ پیمانہ پرمورد بحث واقع ہوتا ہے، اور اس سلسلہ میں دو مختلف اور متضاد نظریہ پائے جاتے ہیں -

ایک گروہ کا اعتقاد یہ ہے کہ عوام الناس کو اپنے امور اور سرگرمیوں میں آزاد ہونا چاہئے اور محکمہ قانون سازی کو چاہئے کہ کم سے کم قانون بنائے اور ضرورت سے زیادہ عوام الناس کی فعالیت اور امور کو محدود نہ کرے، یہ وہی خودمختاری اور آزاد خیالی نظریہ ہے اور اس کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ معاشرہ کا ہر فرد جس طرح بھی چاہے اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے میں آزاد ہو، اور صرف پیش آنے والی ضرورتوں کے وقت کے لئے قانون بنائے، تاکہ لوگوں کی کارکردگی ضرورت کے تحت محدود ہو ، نہ کہ اس سے زیادھ، اور قانون سازی محکمہ اور حکومت کو مسلسل عوام الناس کے امور اور طرزِ زندگی میں دخالت نہیں کرنا چاہئے اور قدم قدم کے لئے قانون نہیں بنانا چاہئے، مذکورہ نظریہ کے مقابلہ میں قانون کے سلسلہ میں تمامیت گرائی (ھر چیز قانونی) کا نظریہ پایا جاتا ہے کہ تمام چیزیں قانونی ہونا چاہئے اور انسان کے تمام امورخواہ وہ سماجی ہوں یا سیاسی اور اقتصادی یا دوسرے امور ،یہ سب کے سب دقیق اور معین قوانین کے تحت ہونے چاہئے، اور حکومت کو بھی ان قوانین کو ہر ممکن طریقہ سے نافذ کرنا چاہئے-

تو معلوم یہ ہوا کہ مذکورہ سوال سادہ اور عوامی نہیں ہے بلکہ ایسا سوال ہے جو قانون کے حدود کے بارے میں دقیق اور مستحکم ہے اور وہ یہ کہ قانون گذاری کا محکمہ کس طرح کے قوانین اور کتنے قوانین او رعوام الناس کی زندگی کے کن حدود تک اثر انداز بنے؟

۴-جمہوری حکومت میں قانون کی ضرورت

بنیادی طور پر یہ سوال قوانین کے حدود سے کے بارے میں ہوتا ہے جو کہ قانون سازی کے فلسفہ کے سلسلہ میں مختلف طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں کہ جن میں قانون گذاری او ران کے معیار کے بارے میں نظریات بیان کئے جاتے ہیں -

اس سلسلہ میں پائے جانے والے نظریات کے درمیان کہ کس کو قانون گذاری کا حق ہے اور اس کے معیار کیا ہےں ، ایک مشہور نظریہ ہے کہ جس کو آج کل کی دنیا میں قبول کیا گیاہے وہ یہ ہے کہ (صرف) وہ لوگ قانون بنانے کا حق رکھتے ہیں جو عوام الناس کی طرف سے منتخب ہوئے ہوں ، لھٰذا در حقیقت قانون بنانے کا حق خود عوام الناس کو ہے اور وہ خود عوام الناس ہے جو اپنے لئے قوانین بناتی ہے جو نظام سیاسی اس نظریہ کی بناپر وجود میں آتا ہے اس کو ”ڈیموکراسی“یا ”جمہوریت“ کھتے ہیں -

جمہوریت کو قبول کرنے کے بعد اور اس بات کو قبول کرنے کے بعد کہ قانون سازی کا حق عوام الناس کے منتخب ممبران کی ذمہ داری ہے، یھاں پر یہ سوال ہوتا ہے کہ جو بھی اکثریت (یعنی ۵۱ فی صد ) نمائندوں کے موافق ہو وہ قانون معتبر سمجہا جاتا ہے یا قانون سازی کے لئے دوسرے قوانین بھی ہونے چاہئے، اور پہلے سے ایسے قوانین بنائے جائیں جوقانون سازی کے میدان میں ممبران کے دائرہ عمل کو معین کریں ، تو جواب یہ ہے کہ قانون ساز حضرات کے حدود اور حق کو قانون اساسی معین کرتا ہے یعنی قانون اساسی عام قوانین اور وضع شدہ قوانین پر حاکم اور نگراں ہوتا ہے اور قانون سازی کے حدود کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے-

یھاں ایک دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مختلف ممالک میں قانون اساسی مختلف ہوتے ہیں اور کم وبیش اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور کبھی کبھی حکومت کے بدلنے سے قانون اساسی بدل جاتا ہے اور کبھی مجلس ادارات تشکیل پاتی ہے جو قانون اساسی کو مکمل اور اس کے نقائص کو دور کرتی ہے، بہرحال جو تبدیلیاں قانون اساسی میں انجام پاتی ہیں ان کے اعتبار سے کوئی ایسا محکمہ پایا جاتا ہے جو قانون اساسی سے بالاتر ہو اور جو قانون اساسی کے حدود کو معین کرے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قانون اساسی سے بالاتر محکمہ حقوق بشر ہے جس کو کبھی قوانینِ فطری اور حقوق طبیعی سے یاد کیا جاتا ہے کہ جو قانون اساسی پر حاکم ہوتا ہے اور اس کے حدود کو معین کرتا ہے اس لئے کہ مجلس ادارات ہر چیز کو اپنی مرضی کے مطابق قانون میں داخل نہیں کرسکتی-

۵- حقوق بشر کے اعتبار کا معیار

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ قوانین جو قانون اساسی پر بھی حاکم ہوتا ہے اور قانو ن اساسی کے دائرہ کو محدود ومعین کرتا ہے اور اسکی بناپر قانون اساسی میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اس کو کس نے بنایا ہے؟ اور انسانوں کے حقوق جو کہ حقوق بشر کے اشتھارات میں یا فلسفہ حقوق کی کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں کس شخص کے ذریعہ معین ہوئے ہیں اور ان کے اعتبار کی وجہ کیا ہے؟ تو جواب ملتا ہے کہ بین الاقوامی عرف میں اس کا اعتبار ان لوگوں کی تائید سے ہوتا ہے جنھوں نے اس اشتھار پر دستخط کئے ہیں اور چونکہ اس اشتھار کو دنیا کی تمام حکومتوں کے دستخط (تائید) حاصل ہوتی ہے لھٰذا یہ معتبر ہوجاتے ہیں -

دوسراسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس نے اس اشتھار پر دستخط نہیں کئے ہیں ان کے لئے یہ قوانین قابل اعتبار ہیں یا نھیں ؟ اور اگر اعتبار نہیں رکھتے تو کوئی یہ حق نہیں رکھتا ہے کہ ان کی مذمت کرے کہ جن لوگوں نے اس اشتھار پر دستخط نہیں کئے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے ہیں ان کے بارے میں یہ کھا جائے کہ یہ حقوق بشر کا لحاظ نہیں کرتے ہیں -

دوسرا جواب یہ ہے کہ حقوق بشر کے اشتھارات میں پیش کئے گئے قوانین اور حقوق وضعی قوانین نہیں ہیں کہ جو بنائے جانے کے بعد دوسروں کے دستخط کے ذریعہ قابلِ اعتبار بن جاتے ہیں بلکہ وہ ایسی حقیقی قوانین ہیں جن کو انسان کی عقل معلوم کرتی ہے اورچاہے عوام الناس قبول کرے یا نہ کرے ،وہ قوانین معتبر ہوتے ہیں ، البتہ اس زمانے میں کچھ افراد اس طرح کا نظر رکھتے ہیں اور حقوق بشر کو حقیقی امور اور غیر عادی جانتے ہیں ، قطعی طور پر زیادہ تر حقوق وسیاست کے فلاسفہ اس طرح کا نظریہ نہیں رکھتے بلکہ اس بات کے قائل ہیں ،کہ یہ قوانین کنوانسیون ( Convention ) ،اشتھارات اور اعلانات کا اعتبار حکومتوں کے ممبران کے دستخط سے ہوتا ہے اور چونکہ حکومتوں کے ممبروں نے اس پر دستخط کئے ہیں لھٰذا پوری دنیا میں اعتبار رکھتے ہیں -

آخرکار ایک سوال اور اعتراض جو بڑی آب وتاب کے ساتھ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ضروری ہے کہ تمام حکومتیں ان قوانین کو قبول ہی کریں ؟ اور جن لوگوں نے ان قوانین پر دستخط نہیں کئے ہیں ان پر کس طرح یہ قوانین نافذ ہوسکتے ہیں ؟ بہرحال اس طرح کے سوال واعتراض کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا، اور اس اعتبار سے فلسفہ حقوق میں یہ بحث ہوتی ہے کہ قوانین کے اعتبار کا ریشہ اور جڑ کھاں پر ختم ہوتی ہے؟ لیکن ہمارے پاس آسان اور سادہ ساجواب ہے اس لئے کہ ہم دین، اسلام، خدا اور قرآن پر اعتقاد رکھتے ہیں کیونکہ جب ہم یہ کھتے ہیں کہ قوانین حکم خدا کے مطابق ہونے چاہئے ،تو پھر یہ بات ختم ہوجاتی ہے اور کسی سوال کی گنجائش باقی نہیں رہتی-

لیکن جو لوگ اس راہ کو نہیں طے کرتے اور چاہتے ہیں کہ تمام چیزوں کو قرارداد کے ذریعہ بیان کریں ،آخر میں وہ ایک جگہ پہنس جاتے ہیں چونکہ ہر قانون کے اعتبار کی اصل حقوقِ بشر کو سمجھتے ہیں کہ اس کے اعتبار کی دلیل کو بھی تلاش کرنا چاہئے اس کے علاوہ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے حقوق بشرکا اشتھار تقریباً ۳ ۰ بند پر کیوں تدوین ہوا ہے اور اس کے بند کیوں کم زیاد نہیں ہیں ؟

یہ وہ اہم سوال ہے جو دنیا کے حقوق کے ماہرین فلاسفہ قبول کرتے ہیں اور ابھی تک ان کی طرف سے کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ملا ہے، جو چیز ذکر ہوئی ہے وہ دنیا کے ماہر اور برجستہ دانشوروں کی سطح پر مھارتی اور فنی بحثوں کے دائرہ میں بیان ہوتی ہے اور اگر ہمارا معاشرہ چاہے کہ اپنے عمومی تھذیب وثقافت کو ترقی دے تو اسے چاہئے کہ کم وبیش ان مطالب اور مفاہیم سے آشنا ہو، جس وقت ہم یہ کھتے ہیں کہ ہم قانون پر عمل کرتے ہیں اور قانون کے پیرو ہیں ، تو ہم کو یہ جاننا چاہئے کہ قانونکا اعتبار کھاں سے ہے اورہمیں کیوں اور کس حد تک قانون کا پابند ہونا چاہئے؟

آج کل بہت ساری بحثیں اس سلسلے میں تقریروں ، مجلّوں ا ور اخباروں میں شایع ہوتی رہتی ہے ، اور ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ خصوصاً دنیاوی علوم رکھنے والا طبقہ اور جو لوگ انسانی علوم کے تعلیم یافتہ ہیں اور خاص طور سے جو لوگ فلسفہ حقوق اور فلسفہ سیاست میں صاحب نظر ہیں ان سوالات سے سامنا کرتے ہیں ، لھٰذا ہم اپنے سماج کی تھذیب وثقافت کو بلند کرنے کے لئے مجبور ہیں کہ اپنے ا مکان بھر ان تحقیقات کے نتیجہ کو آسان اور سلیس انداز میں بیان کریں ، اس لئے کہ اگر ہم ان بحثوں کو دقیق انداز سے اور تفصیل کے ساتھ بیان کریں تو کم سے کم علوم انسانی کے چار قسموں میں یا فلسفہ کی چار قسموں کا سھارا لیں جو اس طرح ہیں : فلسفہ جامعہ شناسی، فلسفہ حقوق ، فلسفہ اخلاق اور فلسفہ سیاست،اور اگر ہم چاہیں کہ اس موضوع پر بحث کریں تو ہمیں دوسرے فلسفوں پر بھی بحث کرنا ہوگی ،یھاں تک کہ معرفت شناسی کہ جو ان تمام فلسفوں کی بنیاد اور اصل ہے اس کے بارے میں بھی بحث کریں ، اور یہ بات واضح ہے کہ ان علوم کے نتائج اور ان بحثوں کے درمیان جو رابطہ پائے جاتے ہیں ان کی طرف اشارہ کرنا،تعلیم یافتہ طبقہ اور سمجہ دار عوام کے لئے جو کہ انقلاب اور اس کی تھذیب وثقافت کے دامن میں پلے ہیں ،بہت مفید ہے-

۶-حقیقی اور تکوینی قوانین اور انسان کے اختیارات کی اہمیت

یھاں یہ بات ذکر کرنا ضروری ہے کہ لفظ قانون کی دو مختلف اصطلاح ہیں ،پہلی اصطلاح علوم تجربیات میں علوم دقیق اور حساب مشہور ہے اور قانون سے مراد اس علوم میں اشیاء کے درمیان واقعی رابطہ ہے مثال کے طور پر اشیاء کے درمیان حقیقی قوانین پائے جاتے ہیں کہ پانی کس وقت بخار میں تبدیل ہوتا ہے، اور کتنے درجہ حرارت پر پانی اُبلتا ہے او رکتنی سردی میں برف بن جاتا ہے، اور لوہا کب پگھلتا ہے؟

لھٰذا اس طرح کی باتیں کہ جب پانی کی حرارت صفر درجہ پر پہونچ جاتی ہے تو پانی برف بن جاتا ہے اور جب سو درجہ پہونچ جاتی ہے تو پانی اُبلنے لگتا ہے ،یہ ایسی حقیقت ہے جو طبیعی اشیاء میں پائی جاتی ہے اور انسان کو کوشش کرنا چاہئے کہ ان حقیقتوں اور قوانین کو جو فیزیکس اور دوسرے سائنسی علوم میں موجود ہیں پہنچانے، ظاہر ہے کہ یہ قوانین پائیدار ہیں اور لامتناہی اور بے شمار ہیں ،اورانسان کی علمی ترقی کے ساتھ بہت سارے قوانین معلوم ہونگے، اور ہر علم میں نئے معلومات کے ساتھ سیکڑوں سوال پیدا ہوں گے-

لھٰذا اتنی تعداد میں نئے قانون بھی معلوم ہوں تاکہ ان سوالوں کے جوابات قرار پائیں ، اس بنا پر ہر روز سوالوں میں اضافہ ہوتا ہے، اور بشر ان سوالوں کے حل کرنے کےلئے زیادہ سے زیادہ قانون معلوم کرنے میں لگا ہوا ہے، دوسرے لفظوں میں ، ہم دنیا کے بے شمار قوانین کے مجموعہ کے حدود میں رہتے ہیں ، عناصر سے مربوط زندہ موجودات اور شیمیائی سے مربوط قوانین اور دوسری چیزیں ہیں جو ابھی تک ہماری عقل سمجھنے سے قاصر ہے-

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم اس دنیا میں بے شمار قوانین کے محدود وتنگ دائرہ میں رہتے ہیں تو پھر ہمارے انتخاب اور اختیار کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے؟ یہ سوال بہت زور وشور کے ساتھ اٹھتا ہے اور اس وجہ سے انسان شناسی کے فلسفہ میں یہ بات ذکر ہے کہ انسان کی حقیقت کیا ہے؟ کیا وہ سوفی صد مجبور ہے یا مکمل طور پرمختار ہے یا محدود اور مشروط اختیارات رکھتا ہے، اور اگر اس کے اختیارات محدود اور مشروط ہیں تو ان کی حدود کیا ہیں ،اسی طرح دور حاضر میں دنیا کے فلسفی مجلسوں میں قضا وقدر ، جبر وتفویض اور اس طرح کے مسائل بڑی اہمیت کے ساتھ ذکر ہوتے ہیں ، اور ان کے بارے میں حسب سابق بحث جاری ہے، ان کے درمیان میں ایک گروہ فلسفہ وجودی کا نظریہ رکھتا ہے جو اس بات کا معتقد ہے کہ انسان لامحدود آزادی رکھتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق ہر کام کرسکتا ہے-

جیسا کہ" جان پل سارٹر“ کھتا ہے کہ اگر میں ارادہ کرلوں تو جنگ ویٹنام کی جنگ تمام ہوجائے ! یعنی بشر ایسی طاقت کا مالک ہے کہ اگر ایک شخص ارادہ کرلے تو بھڑکتی ہوئی جنگ جس نے لاکھوں انسانوں کو نابود کردیا ہو روک دے، البتہ یہ بات تعجب خیز ہے، لیکن ایسا نظریہ اُس انسان کے لئے جو ارادہ ونامحدود قدرت کا قائل ہے پایا جاتا ہے-

مذکورہ نظریہ کے مقابلہ میں ایک گروہ انسان کی آزادی کو خیال خام جانتا ہے اور معتقد ہے کہ انسان جبری قوانین کے دائرہ میں زندگی بسر کررہا ہے اور خیال کرتا ہے کہ آزاد ہے آخر کارمذہبی تفکر بھی موجود ہے جو ان دونوں نظریات کے درمیان واسطہ ہے اور انسان کے لئے آزادی کا قائل ہے جو مختلف طرح کے قوانین سے محدود ہے، جوکہ دنیا میں پائے جاتے ہیں یعنی اگر ہم ان قوانین کو جو اس کائنات میں موجود ہیں ان کے لئے دائرہ اور حدود تصور کریں ، تو انسانوں کی آزادی، اس کے حدود کے اندر قابلِ اجرا ہے نہ کا اس سے بڑہ کر-

پس اب جب کہ یہ بات واضح وروشن ہوچکی ہے کہ ہم لوگ تکوینی لحاظ سے قوانین کے مجموعہ کے تحت واقع ہیں ، تو یھاں پر یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا ہم ان قوانین کو توڑنے اور ان کی نافرمانی کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ، اور کیا ہم طبیعت کو تسخیر کرسکتے ہیں اور اس کے حدود ودائرے کو توڑسکتے ہیں ، اور اس طرح زندگی کریں کہ ہمارے اوپر طبیعی قوانین کی حکومت نہ ہو؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ گذشتہ تصور ایک خیال خام ہے اور سوچا سمجہا نہیں ہے،کیونکہ طبیعت کا تسخیر کرنے کا ملازمہ یہ ہے کہ طبیعت کا کوکئی دوسرا قانون کشف ہو، مثلاً اگر ماہرین ڈاکٹر کسی بیماری پر کنٹرول کرلیتے ہیں یا اس بیماری کو بالکل ختم کردیتے ہیں ، طبیعت کے دوسرے قانون کے کشف کرنے کی وجہ سے اور ان سب سے استفادہ کرتے ہوئے اس طرح کی کامیابی ملی ہے، درحقیقت ہم نے طبیعت کو تسخیر نہیں کیا ہے بلکہ اس سے ایک دوسرا قانون کشف کرکے اس سے کامیابی حاصل کی ہے- پس نتیجہ یہ نکلا کہ تکوینی قوانین کے دائرے سے نکلنا محال ہے، لیکن ہم نے جو نئے تکوینی قوانین کو کشف کرکے اس سے استفادہ کیا ہے یہ وہی قوانین الہی ہیں جن کو خداوندعالم نے طبیعت میں قرار دیا ہے، اور ان سے خارج ہونا گویا انسان کا خدا کی تکوینی عبادت سے خارج ہونا ہے- بلکہ جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ انسان اپنی محدود دائرے میں رہکر تکوینی قوانین کے مجموعہ میں آمد ورفت کرسکتا ہے، اور مختلف علوم کے قوانین اور تکوینی قوانین جو انسان کے دائرہ اختیار میں ہیں ان سے استفادہ کرے اور ایک قانون کے مقابلہ میں دوسرے قانون سے استفادہ کرے، یعنی یہ محدود دائرہ انسانی اختیار کی حدود کو معین کرتا ہے-

۷- الٰھی اور تشریعنی قوانین، انسان کے کمال اور سعادت کی ضامن ہے

انسان جس قدر بھی انتخاب کی قدرت رکھتا ہے تو کیا جس طرح سے چاہے اس طرح انجام دے سکتا ہے، یا اس کے لئے کوئی ایک حد معین ہے؟ اور کیا اس حد میں بھی کچھ خاص قوانین ہیں کہ جن کو انجام دینا ضروری ہو؟ جواب یہ ہے کہ اس حد میں بھی قوانین معین ہیں البتہ یہ قوانین تکوینی قسم سے نہیں ہیں بلکہ یہ قوانین تشریعی اور اعتباری یا قوانین ارزشی ہیں کہ جن کو قدیم علماء کرام عقل عملی کے دائرہ میں بتا تے ہیں ، (ان قوانین کے مقابلے میں کہ جن کا دائرہ عقل نظری ہے) یعنی ہر وہ چیز کہ جو انسان کے اختیار میں ہے اور عقل عملی اس میں فیصلہ دیتی ہے- بے شک تشریعی قوانین پر عمل کرنے سے انسان اپنے آخری مقصد اور کمال نھائی تک پہونچ جاتا ہے ، اور ان کی مخالفت کرنا انسان کو انسانیت کے گرادیتا ہے بلکہ جانور سے بھی بدتر بنادیتا ہے، قرآن مجید اس چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے:

( لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِیْ ا حْسَنِ تَقْوِیْمٍ -ثُمَّ رَدَدْنَاه ا سْفَلَ سَافِلیِْنَ- إلاّٰ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهمْ ا جْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنَ ) (۱)

”ہم نے انسان کو بہت اچھے کینڈے کا پیدا کیا ہے پھر ہم نے اسے پست سے پست حالت کی طرف پھیر دیا مگر جو لوگ ایمان لائے اور اچھے (اچھے) کام کرتے رہے ان کے لئے تو بے انتھا اجر وثواب ہے“

جی ھاں انسان میں اتنی صلاحیت ہے اور وہ خدا داد صلاحیتوں کے ذریعہ خدا سے بہت قریب ہوسکتا ہے ، اور خدا کی نافرمانی کرکے انسانیت سے بھی پست تر بلکہ جانور اور حیوان سے بدتر بن سکتا ہے- لھٰذا قوانین تشریعی اور قوانین اعتباری یعنی خدا کی اطاعت یا خدا کی نافرمانی انسان کے اختیار میں ہے، اگر ان قوانین کو قبول کیاتو گویا انسان نے خدا کی اطاعت کی، اورانسان بلند درجات پر پہونچ جائے گا،اور اس کو چین وسکون اور روحی ومعنوی سلامتی مل جائے گی اور اگر اس نے خدا کے نافرمانی کی تو انسانیت سے گرجائے گا، آج کل کے بھداشت اور صفائی کے قوانین کے طرح، کہ اگر ہم نے ان کی رعایت کی تو ہم صحت وسلامتی کی نعمت سے مالا مال رہیں گے اور اگر ہم نے ان قوانین کی رعایت نہ کی تو بیماریوں میں مبتلا ہوجائیں گے-

انسان کے مختار ہونے کے پیش نظر اگر انسان ڈاکٹری قوانین کی رعایت کرتا ہے یا نہیں کرتا ، اگر اپنی صحت وسلامتی کی فکر ہے اور چاہتا ہے کہ صحیح وسالم رہے تو اس کو ڈاکٹری دستورات کی پابندی کرنی ہوگی، او راگر اس کو صحت وسلامتی نہیں چاہئے تو پھر ان قوانین پر عمل کرنا کوئی ضروری نہیں ہے، لھٰذا حقیقت یہ ہے کہ انسان کی صحت وسلامتی کے لئے ڈاکٹری قوانین کی رعایت کرنا ہوگی اور بغیر اس کے صحت وسلامتی ممکن نہیں ہے، البتہ یہ باتیں کوئی زبردستی والی نہیں ہےں ؛ کیونکہ ان قوانین کی رعایت کرنا یا نہ کرنا سب کچھ انسان کے اختیار میں ہے، اور اپنے اختیار سے ان قوانین کی رعایت کرکے صحیح وسالم رہتا ہے اور ان کی رعایت نہ کرکے بیمار پڑجاتا ہے اور اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے-

اب تک جو کچھ جسم اور بدن کے بارے میں کھا گیا یہ سب کچھ انسان کی روح کے بارے میں بھی ہے، اور جس طرح انسان کا بدن بیمار ہوتا ہے اسی طرح انسان کی روح بھی بیمار ہوجاتی ہے، روح کی صحت وسلامتی بھی روح سے متعلق قوانین کی رعایت پر موقوف ہے کہ اگر انسان ان قوانین پر عمل کرتا ہے تو معنوی کمال اور سکون وسلامتی اس کو نصیب ہوتی ہے اور اس کے علاوہ انسان کی روح بیمار ہوجاتی ہے،خداوندعالم اس بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

( فِیْ قُلُوْبِهمْ مَرَضٌ فَزَادَهمُ اللّٰه مَرَضاً ) (۲)

”ان کے دلوں میں مرض تھا ہی ، اب خدا نے ان کے مرض کو اور بڑھا دیا“

وہ انسان جو کسی نشیب میں ہو او روہاں سے تیز دوڑنا چاہے اور اپنے کو کنٹرول نہ کرسکے اور گرپڑے اور اپنی جان کھوبیٹھے، لیکن اگر وہ خود کو صحیح وسالم چاہتا ہے تو اس کو احتیاط کے ساتھ دوڑنا ہوگا، اور اپنے کو اس طرح کنٹرول کرے کہ اگر کسی بلندی سے نیچے کی طرف آبھی رہا ہے اور کوئی خطرناک جگہ آگئی ہے تو وہاں پر رک جائے اور سنبھال کر قدم اٹھائے- معنوی مسائل میں بھی خاص روابط وضبوابط ہیں اور خداکے احکام پر پابندی کرنے سے روح کی سلامتی اور اخروی سعادت ابدی مل جاتی ہے ، اور یہ بات ظاہر ہے کہ ان قوانین پر عمل نہ کرنے سے اس سعادت پر نہیں پہونچ سکتا- البتہ انسان آزاد اور مختار ہے اور یہ کھہ سکتا ہے کہ میں سعادت اور کامیابی نہیں چاہتااور میں جھنم میں جانا چاہتا ہوں ؛تو کسی انسان بھی اس سے کوئی مطلب واسطہ نہیں رکھتا، اور تکوینی انتخاب کا راستہ اس کے لئے ہموار ہے- لیکن اگر خدا کا قرب اور اخروی سعادت چاہتا ہے تو پھر اس کو خدا کے حکم کی پیروی کرنی ہوگی، اور اپنی مرضی نہیں چلے گی، کیونکہ اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے یا ہوائے نفس کی پیروی گمراہی اور حق وحقیقت سے منحرف ہونے کا سبب ہے:

( ا فَرَا یْتَ مَنِ اتَّخَذَ إلٰهه وَا ضَلَّه اللّٰه عَلیٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلٰی سَمْعِه وَقَلْبِه وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِه غِشَاوَةً فَمَنْ یَهدِیْه مِنْ بَعْدِ اللّٰه ا فَلاَ تَذَکَّرُوْنَ- ) (۳)

”بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو معبود بنارکھا ہو اور (اس کی حالت) سمجہ بوجہ کر خدا نے اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہو اور اس کے کان اور دل پر علامت مقرر کردی ہے(کہ یہ ایمان نہ لائے گا)اوراس کی آنکہ پر پردہ ڈال دیا ہے ، پھر خدا کے بعد اس کی ہدایت کون کرسکتا ہے تو کیا تم لوگ (اتنا بھی) غور نہیں کرتے“

جو کوئی شخص اگر اپنے نفس اور دل کا تابع ہوگیا ہے تو گونگا اور بھرا ہوجاتا ہے اور حقیقت وواقعیت کو نہیں سمجہ سکتا، اگرچہ بہت زیادہ علم بھی رکھتا ہو، اس کی آنکھوں پر پردہ پڑجاتا ہے جس کی وجہ سے حقیقتیں چھپ جاتی ہیں - اس سلسلہ میں ”بلعم باعورا“(۴) کا واقعہ ہمارے لئے باعث عبرت ہے کہ اتنے علم کے باوجود کہ اپنے زمانہ کے بڑے دانشمندوں میں شمار ہوتا تھا لیکن کس طرح سے پستی کی طرف گرا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:

( وَاتْلُ عَلَیْهمْ نَبَا الَّذِیْ ءَ اتَیْنَاه ءَ ایَاتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْها فَا تْبَعَه الشَّیْطَانُ فَکَانَ مِنَ الْغَاوِیْنَ فَمَثَلُه کَمَثَلِ الْکَلْبِ إنْ تَحْمِلْ عَلَیْه یَلْهثْ ا وْ تَتْرُکُه یَلْهثْ ) (۵)

”)اے رسول) تم ان لوگوں کو ا س شخص کا حال پڑہ کر سنادو جسے ہم نے اپنی آیتیں عطا کی تھیں پھر وہ ان سے نکل بھاگا تو شیطان نے اس کا پیچھا پکڑا اور آخر کار وہ گمراہ ہو گیا اور اگر ہم چاہتے تو ہم اسے انہیں آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے مگر وہ تو خود ہی پستی کی طرف جھک پڑا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن بیٹھا، تو اس کی مثل اس کتے کی مثل ہے کہ اگر اس کو دھتکارا دو تو بھی زبان نکالے رہے اور اس کو چھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رہے“

جی ھاں خدا کی عطا کردہ آزادی سے انسان اتنا بھی گرسکتا ہے ، لیکن اگر انسان سعادت وکامیابی چاہتا ہے تو پھر اس کو مربوط قوانین کی رعایت کرنی ہوگی، اوریہ قوانین ایک طرح کے نہیں ہےں بلکہ مختلف قسمیں ہیں - لھٰذا ضرورت ہے کہ اسلامی احکامات کے چاہنے والے حضرات کو معلوم ہوجائے کہ ہماری زندگی میں کس طرح کے قوانین کی ضروت ہے-

۸-حقوقی قوانین اور اخلاقی قوانین میں فرق

قانون کے نام سے جو چیز ہمارے درمیان مشہور ہے وہ ”حقوقی قانون“ ہے ان قوانین سے مراد ایک طرح کے دستور ہیں جو معتبر مرکز یا اداروں کی طرف سے بنتے ہیں اور وہ ایک طاقت ہے جس کا نام قوہ مجریہ (حکومت) ہے جو ان قوانین کے نفاذ کی ضامن ہوتی ہے اور ضرورت کے وقت پولیس یا فوج کے ذریعہ قوانین کا نفاذ کراتی ہے، اور جرائم کی روک تھام کرتی ہے، حقوقی قوانین عام معنی میں سزاؤں کے قوانین کو بھی شامل ہیں جوکہ علم حقوق میں بیان کئے جاتے ہیں ،ایسے موقع پر اگر کوئی یہ کھے کہ حکومت کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ عوام کو بتائے ان سے کھے کہ چوری نہ کریں ، کسی کی عزت پر حملہ نہ کریں ، تو قطعی طور پر کوئی بھی حکومت اس بات کو تسلیم نہیں کرے گی، اس بات کا مطلب (کہ چونکہ انسان آزاد ہے لھٰذا اگر وہ قوانین حقوقی کی خلاف ورزی کرے تو کوئی اسے سزا نہ دے) یہ ہے کہ حقوقی قوانین کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے، جبکہ قوانین ہونے کا فلسفہ یہ ہے کہ اس کا نفاذ کا کوئی ذمہ دار بھی ہو اور قوانین حقوقی اور قوانین اخلاقی کے درمیان بنیادی فرق یھی ہے -

اگرچہ دوسرے فرق بھی پائے جاتے ہیں مثلاً اخلاقی قوانین میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ امانت کا خیال رکھیں اور اس میں کبھی خیانت نہ کریں ، یہ ایک اخلاقی حکم ہے ، اب اگر کوئی امانت میں خیانت کرے تو اخلاقی خلاف ورزی کی وجہ سے سزا یا قید میں نہیں ڈالا جائے گا بلکہ دھوکہ دھڑی کرنے پر قانون سزا کے مطابق اسے خاص سزا دی جائے گی، لھٰذا کوئی ایسا محکمہ ہونا چاہئے کہ جو قانون شکنی کرنے والوں کے ساتھ مقابلہ کرسکے اور طاقت کے ذریعہ ان پر قانون کو لاگو کرسکے، اس لئے قوانین کا لازمہ یہ ہے کہ طاقت کا استعمال کیا جائے کہ جس کے بغیر قوانین حقوقی بے معنی اور بے کار ہیں ، لیکن قوانین اخلاقی ایسے نہیں ہیں ، اور نہ ہی کسی محکمہ کی ضرورت ہے، مگر یہ کہ حقوقی پہلو رکھتے ہوں ، بے شک دین میں ایسے احکام پائے جاتے ہیں جو انسان اور خدا کے درمیان رابطہ کو برقرار کرتے ہیں جیسے نماز، روزہ اور حج وغیرہ یہ احکام فقط ادیان (الھٰی) میں موجود ہیں -

یھاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دین میں قوانین حقوقی بھی پائے جانے چاہئے یادین صرف خدا اور بندے کے درمیان رابطہ کو قائم کرنے کے لئے ہے، یہ ایسا شبہ اور سوال ہے جو آج کل وسیع پیمانہ پر یونیورسٹیوں اور ان کی نشریات میں ذکر ہوتا رہتا ہے اور تمام حضرات چاہے وہ یونیورسٹیوں میں رہنے والے ہوں کہ جن سے بلاواسطہ تعلق ہوتا ہے یا ان کے والدین اور رشتہ داورں سے متعلق ہو، ان اعتراضات اور سوالوں کی طرف توجہ کرنا چاہئے ، چاہے یہ باتیں آخر کار طالب علموں اور دانشوروں کے ذریعہ تمام افراد تک پہونچتی ہوں اور ہمارے عمومی تھدیب وثقافت پر اثر انداز ہوتی ہےں ، ایک دن یھی جوان طالب علم اپنے ماں باپ کی جگہ لیتے ہیں اور ایک موثر اورنمایاں شخصیت بن کر معاشرہ کے بنیادی افراد میں قرار پاتے ہیں ، اب اگر اس وسیع طبقہ کی تھذیب وکلچر بدل جائے تو ایک نسل کے بعد معاشرے کا کلچر پورے طور سے بدل جائے گا، لھٰذا ہمیں ہمیشہ اس بات کی طرف توجہ کرنا ہوگی کہ کون سی تھذیب اس وقت ہمارے معاشرے پر اثر انداز ہے اور رواج پارہی ہے-

۹-اسلامی اور خودمختاری کے نظریات میں فرق

دور حاضر میں جو مسائل ذکر ہوتے ہیں ان میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ قانون کو کم سے کم ہونا چاہئے ، یہ ایک خودمختاری نظریہ ہے جو دور حاضر کی دنیا میں پایا جاتا ہے ،اس سلسلہ میں بہت سی بحثیں ہوئی ہیں اور بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں ، اسی نظریہ کی بناپر کچھ افراد اس بات کے قائل ہیں کہ حکومت اور قانون ساز حضرات کو انسان کی زندگی اور اس کے امور میں وسیع پیمانے پر دخالت نھیں کرنا چاہئے، کیونکہ جس قدر حکومت کی دخالت کم ہوگی معاشرہ اتناہی زیادہ ترقی کرے گا، البتہ اس نظریہ کے کچھ لوازمات بھی ہیں ، جو معاشرے کے دوسرے حالات میں بھی سرایت کرتی ہیں -

مذکورہ نظریہ کا تعلق سماجی آگھی سے ہے اور جامعہ شناسی کے بارے میں پائے جانے والے دو نظریوں میں سے ایک نظریہ پر موقوف ہے:

پھلے نظریہ میں : معاشرہ کو اصل قراردیا گیا ہے، اس بناپر قوانین کو جامع او رہمہ گیر ہونا چاہئے، جو انسانی زندگی کے تمام حالات پر مشتمل ہو، اور شخصی آزادی کم سے کم ہونا چاہئے-

دوسرے نظریہ میں : شخصی زندگی کو اصل قرار دیا گیا ہے اس بناپر انسان کو مکمل آزاد ہوناچاہئے اور سماجی قوانین بہت کم ہونے چاہئیں تاکہ انسان کو کم پابند بناسکے-

آج کل جو بات مغربی معاشرے میں پائی جاتی ہے یھی انفرادی اور شخصی زندگی بسر کرنے کا نظریہ ہے کہ جس سے خود مختاری اور آزاد خیالی کا نظریہ پیدا ہوتا ہے، جونظریہ اس بات کا قائل ہے کہ قوانین کو کم سے کم ہونا چاہئے اور عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ آزادی ہونی چاہئے تاکہ عوام الناس جس چیز پر چاہے عمل کرے-

اسلام کے نظریہ کو پیش کرنے سے پہلے اس نکتہ کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ قانون سے دل چسپی کا موضوع (کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ )علوم انسانی کے چند شعبوں سے مربوط ہے جیسے جامعہ شناسی فلسفہ(یعنی معاشرہ اصل ہے یا شخص اصل ہے) اور فلسفہ اخلاق، اس بات کو سمجھنے کے لئے قدر وقیمت کا معیار کیا ہے؟ کیا اخلاق، قانون پر حاکم ہے یا اخلاق کو، قانون معین کرتا ہے، اسی طرح فلسفہ حقوق اور پھر فلسفہ سیاست میں بھی یھی بحثیں جاری ہیں ،اسی نقطہ نظرسے انسان کی زندگی کے تمام پہلو اس کے عاقبت اور انجام سے مربوط ہیں یعنی ہر طرح کی سعی وکوشش اس زندگی میں ہماری ابدی خوش بختی یا بدبختی پر اثر انداز ہوگی-

اسلامی تفکر سے مراد یہ ہے کہ" الدنیا مزرعة الآخرة“ یعنی جو کچھ انسان دنیامیں بوئے گا یا جو رفتار وکردار اپنائے گا ،آخرت میں اس کا نتیجہ ویسا ہی ظاہر ہوگا، اس کی سعادت کا سبب بنے گا یا اس کی شقاوت وبدبختی کا باعث بنے گا، اگر ہم اس نظریہ کو اصل قرار دیں توپھر کیا انسان کی زندگی میں کوئی چیز باقی رہے گی جو قانون کی محتاج نہ ہو؟ یھاں پر قانون کا محتاج ہونا یعنی قانون ہماری راہنمائی کرے کہ انسان کس راستہ کو انتخاب کرے اور کس راہ و روش کو اپنائے تاکہ اپنے مقصودتک پہونچ جائے یعنی اگر معاشرہ امن وسلامتی چاہتا ہے ، تو انسان کسی کی عزت اور مال ودولت پر دست دازی نہ کرے ورنہ اس کی عزت اور مال پر بھی حملہ ہوگا، اور بقول شاعر :

ببری مال مسلمان وچون مالت ببرند

داد وفریاد برآری کہ مسلمان نیست

”تم مسلمان کے مال کو اٹھالے جاوکیونکہ وہ تمھارے مال کو اٹھالے گئے اور پھر آہ وفریاد کرو کہ وہ مسلمان نہیں ہو“

انسان کی طبیعت منفعت طلب ہے اور انسان صرف اپنے فائدہ کے بارے میں سوچتا ہے، اور اس راستہ میں کسی بھی طرح کی سعی وکوشش سے دریغ نہیں کرتا لیکن جس وقت اس کے بارے میں منافع کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو قانون کا سھارا لیتا ہے، لھٰذا مزاحمتوں اور اختلافات کی برطرف کرنے کے لئے اور معاشرے میں امن وتعاون قائم کرنے کے لئے قانون کا ہونا ضروری ہے، جو دوسروں پر ظلم ونا انصافی کرنے سے روکے، اور ہر شخص کے حقوق کو بیان کرے اور عدل وانصاف کے حدود معین ہوں تاکہ عوام الناس کو یہ پتہ چل سکے کہ کون سا فعل ظلم اور برُا ہے اور کونسا کام عدل وانصاف کے مطابق ہے - ورنہ ہر شخص دوسرے کے حقوق پر تجاوز کرتا ہے اور دوسرے بھی اس کے حقوق کو پامال کرتے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں ناامنی پیدا ہوتی ہے، اور نہ ہی آرام وسکون ملتا ہے اور نہ ہی سعادت اخروی حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی شخص اپنی فطری خواہشوں کو حاصل کرسکتا ہے-

اسی بنا پر اسلامی نظریہ کے تحت ہماری ساری حرکات وسکنات، چاہے وہ انفرادی وشخصی زندگی سے مربوط ہو خواہ سماجی ومعاشرتی زندگی کے بارے میں ہو، سب کے لئے احکام وقوانین موجود ہیں ، حد ہے کہ بین الاقوامی روابط کے لئے بھی قوانین پائے جاتے ہیں ، اور اسلام انسانی زندگی کے تمام پہلووں کے لئے قانون رکھتا ہے انہیں میں سے حقوقی اور سماجی قوانین بھی ہیں ، حدھے کہ اسلام میں انسانوں کے ذہنی خطورات کے لئے بھی قانون موجود ہے اور اسلام کا کہنا یہ ہے کہ تمھیں یہ حق نہیں ہے کہ جو چاہواپنے دل میں سوچو،اور ہر طرح کا خیال کو اپنے دماغ میں لاؤ، اور دوسروں کے بارے میں بدگمانی کرو اس لئے کہ :

( إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْم ٌ ) (۶)

بعض گمان گناہ ہیں

جس طرح صفائی اور نظافت کا خیال نہ کرنے سے بیماریاں پیدا ہوجاتی ہےں ،اور انسان اور معاشرہ کی سلامتی خطرہ میں پڑجاتی ہے،اسی طرح قوانینِ اسلام کا لحاظ نہ کرنے سے سماج ومعاشرہ کو نقصان پہونچتا ہے-

اور جو بات کھی گئی ہے کہ انسان زندگی کہ انسانی زندگی کا کوئی پہلو اسلامی قوانین کے دائرے سے خالی نہیں ہے، یھاں تک کہ انسان کو اپنے دل، خیال اور فکر پر بھی کنٹرول رکھنا ضروری ہے، اور اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ انسان کی آزادی کو چھین لیا جائے بلکہ آزادی سے صحیح فائدہ اٹھانے کا سلیقہ اسے بتایا گیا ہے ا ور اس کے راستہ کا چراغ ہے، تاکہ وہ آزادی سے صحیح طریقے سے فائدہ اٹھاسکے، البتہ یہ قوانین اس اعتبار سے کہ انسان کی سماجی زندگی سے مربوط نہیں ہیں اور صرف اخروی سزا رکھتے ہیں ؟ جو شخص اپنے مومن بھائی کے بارے میں سوءِ ظن رکھتا ہے اسے دنیا میں سزا نہیں ملتی بلکہ آخرت میں سزائیں ملتی ہیں ۔

اگر سماجی قوانین واحکام کی مخالفت ہو اور معاشرتی مصلحتوں کو پائمال کیا جائے تو دنیا کی سزائیں رکھی گئی ہیں اور در اصل دنیاوی سزائیں تمام حقوقی قوانین کا لازمہ ہیں ، اور اسلام حقوقی قوانین پر منحصر نہیں ہے، اورجو شعبہ سماجی نظام کے نظم وضبط کے لئے قانون بنانا چاہئے وہ مجبور ہے کہ خلاف ورزیوں اور قانون شکنیوں کے بارے میں بھی سزا کو معین کرے-

خلاصہ کلام یہ کہ سماجی زندگی بغیر ایسے قوانین کے جو انسانی آزادی کو محدود کردیں ،قائم نہیں رہ سکتی ہے اور جس قدر سماجی روابط زیادہ وسیع ہوں گے اتنا ہی زیادہ سماجی قوانین کی ضرورت اور اس کے نفاذ کی ذمہ داری بڑھتی چلی جائے گی-

حوالے

(۱)سورہ والتین آیت ۴-۶

(۲)سورہ بقرہ) آیت ۱۰

(۳)سورہ جاثیہ آیت۲۳

(۴) بلعم باعور کا واقعہ علامہ فرمان علی صاحب اعلی اللہ مقامہ نے اپنے ترجمہ میں درج ذیل آیت کے ضمن میں بیان کیا ہے،(مترجم)

(۵)سورہ اعراف آیت ۱۷۵، ۱۷۶

(۶) سورہ حجرات آیت ۱۲