بارہواں جلسہ
اقدار کے بارے میں اسلام اور مغربی تمدن میں نظریاتی فرق
۱۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر
ہماری بحث کا موضوع اسلام کے سیاسی نظریہ کو بیان کرنا تھا جس کے چند فرضیہ تھے اور اس نظریہ کو عقلی طور پر ثابت کرنے کے لئے ان مقدموں کو اپنی توجہ کا مرکز بناکر ان کے بارے میں بحث ہونا چاہئے، جیسا کہ ہم نے بیا ن کیا کہ اسلام کے سیاسی نظام میں خدا کا قانون کسی ایسے شخص کے ذریعہ جاری ہونا چاہئے،اور حکومت کا ذمہ دار اس شخص کو ہونا چاہئے جو خدا کے طرف سے منصوب ہو اور خدا کی طرف سے اس کو اجازت دی گئی ہو، مندرجہ بالا نظریہ کے بارے میں مندرجہ ذیل مقدموں کی ضرورت پیش آتی ہے:
پھلا مقدمہ: معاشرہ کے لئے قانون کا ہونا ضروری ہے۔
دوسرا مقدمہ: قانون خدا کی جانب سے نازل ہونا چاہئے۔
تیسرا مقدمہ: ان قوانین کا اجرا کرنا لازم ہے اور ان کی جاری کرنے والی اسلامی حکومت ہے۔
(مندرجہ بالا مقدموں کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمان افراد مندرجہ بالا نظریہ کو قبول کرنے میں کوئی شک وشبہ نہیں کریں گے، لیکن بحث کواضح کرنے کے لئے او ردوسرے افراد پر بھی حق ظاہر ہونے کے لئے ان مقدموں کو عقلی استدلال کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے)
معاشرہ میں قانون کا ہونا ضروری ہے تو جہاں تک ہم کو علم ہے کوئی شخص بھی اور وہ افراد بھی جنھوں نے اس بارے میں بحث کی ہے وہ اس میں شک نہیں کرتے کہ بشر کو اپنی اجتماعی زندگی بسر کرنے کے لئے قانون کی ضرورت ہے لیکن معاشرہ میں کس قانو ن کو حاکم ہونا چاہئے اس بارے میں بہت زیادہ اختلاف پائے جاتے ہیں اور اس بنیاد پر قانون کے معتبر ہونے کے بارے میں فلاسفہ حقوق اور حقوق داں حضرا نے بہت زیادہ تحقیق وجستجو کی ہے اور ہم کس بارے میں بہت ر قوانین اور دوسروں سے برتر قوانین کو مشخص ومعین کریں اس بارے میں ہم نے گذشتہ جلسہ میں قانون کے معیار وملاک کو بیان کرنے کی خاطر تین اہم نظریوں کی طرف ااشارہ کیا تھا، البتہ اس بارے میں دوسرے نظریات بھی ہیں لیکن وہ اس اہمیت کے قابل نہیں ہے کہ ان کے بارے میں بحث کی جائے۔
قانون کے معیار وملاک کے بارے میں پہلا نظریہ عدالت اور قانون کا اصول عدالت کے موافق ہونا ہے اور ہر وہ قانون جس میں جتنا عدل ہوگا اسی کو معاشرہ میں جاری ہونا چاہئے ، دوسرا نظریہ یہ ہے کہ وہ قانون بہت ر اور برتر ہے جو معاشرہ کے نظام اور امنیت کو پورا کرسکے، اور آخر کار تیسرا نظریہ یہ ہے کہ وہ قانون بہت ر اور برتر ہے جو لوگوں کی زندگی کی تمام ضرورتوں کو پورا کرسکے، یہ تین نظریہ ان افراد کے مقابل میں ہیں جن کا عقیدہ یہ ہے کہ بُرے قانون کو اچھے قانونسے اور بہت ر قانون کو برے قانون سے تشخیص وتعین کرنے کا کوئی بنیادی معیار نہیں ہے، اور صرف معیار وملاک لوگو ں کی خواہش ہے: معاشرہ جس چیز کو پسند کرے وہ بہت ر ہے اور قانون بھی اسی بنیاد پر بننا چاہئےے،یہ ”پوزیٹو“(مثبت) نظریہ ہے جو ہماری نظر میں بالکل واضح طور پر باطل ہے اس لئے کہ ایسا نہیں ہے کہ ہر دن جس شخص کا جو دل چاہے وہی قانون برتر ہوجائے بلکہ ایک عقلی معیار ہونا چاہئے تاکہ اس کے بارے میں کوئی بحث کرکے کسی منطقی نتیجہ پر پہونچا جاسکے۔
۲۔دین کی نظر میں بہت رین قانون اور دوسروں کے نظریہ کے تحت تاثیر واقع ہونے کا خطرہ
دین اسلام کی نظر میں وہ قانون سب سے اچھا اور سب سے بلند قانون ہے جو انسانوں کی مادی اور معنوی ضرورتوں کو پایہ تکمیل تک پہونچائے اور ایسا قانون ہو کہ اس قانون کے سایہ میں انسانوں کی مادی او رمعنوی ضرورتوں کو چاہے وہ کتنی ہی وسیع کیوں نہ ہوں سب سے اچھے طریقہ سے فراہم ہوسکتی ہوں اس نظریہ کا دوسرے نظریوں سے فرق یہ ہے کہ اس میں معنوی مصالح کو بہت زیادہ تاکید او رانپر بہت زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے ۔
لیکن افسوس کہ ”رنسانس“(وہ نظریہ جو یورپ میں پندرہویں صدی کے آخر اور سولھویں صدی کے شروع میں پیدا ہوا او ران کا نظریہ گذشتہ آثار کی تقلید کرنا تھا) کے بعد ”اومانیسٹی“ کو تقویت ملی اور اہستہ اہستہ انسان کے ذہن سے خدا اور معنویت اور آخرت سے اس کی توجہ ہٹ گئی اور علمی سطح سے خارج ہوگیا، اور آخر کار ان سب چیزوں کو بھلا بیٹھا، اگرچہ کھیں کھیں گوشہ وکنارمیں محدود دائرے میں معنوی امور پر بھی اعتماد کیا جاتا تھا،لیکن دنیا کی فلسفی اور حقوقی محفلوں میں اصلی اعتماد اور مسلط رغبت یہ ہے کہ ایسا قانون ہونا چاہئے جو انسانوں کی مادی ضرورتوں کو پورا کرسکے، درحالیکہ معنوی ضرورتوں سے اس کا کوئی سروکار نہ رکھتا ہو، البتہ ہمارے نظریہ کے اعتبار سے یہ بات واضح ہے کہ قانون و معنوی ضرورتوں پر بھی بھر پور توجہ رکھناچاہئے، اس لئے کہ انسان کے وجود کا سب سے اہم اور اصلی جز روحی ، معنوی اور الہی اشیاء پر کامل یقین ہے اس بنیاد پر ہم اس بلند وبالا پہلو اور مصالح معنوی کو نظر انداز نہیں کرسکتے. اب ہمارا موضوع بحث یہ ہے کہ کیا قانون کو معنوی ضرورتوں پر توجہ دینا ضروری ہے یا نھیں ؟
اس بات کی تاکید اور اس بارے میں بحث کرنا دلیل انحرافی کے ذریعہ جو آج کل التقاط فکری کی وجہ سے مختلف سطح کے افراد میں وقوع پذیر ہوئی ہے ہم اس مطلب کی اوز زیادہ وضاحت کے لئے ایک مثال کے ذریعہ کردینا چاہتے ہیں ، فرض کیجئے کہ جسم کے سلسلے میں بعض محققین اپنی رائے کا اظھا ر کرتے ہیں اور وہ لوگ جو اس علم کے اعلیٰ درجات پر پہونچے ہوئے ہیں جیسے ”انشٹن“ ایسے ہی افراد جسم کے بارے میں اظھار خیال کرسکتے ہیں ۔
لیکن اگر انہیں سے نفسیاتی علم کے بارے میں کسی نظریہ کی تائید یا ردّ کے بارے میں خود ان کا نظریہ مانگا جائے تو وہ اپنا نظریہ نہیں دیتے ہیں ،کیونکہ ان کو اس علم میں مھارت نہیں ہے اور اگر نظریہ دیں تو بھی اس علم کے ماہرین سے مشورہ اور معلومات حاصل کرکے اپنی زبان کھولتے ہیں ، کیونکہ انھوں نے اس علم میں مھارت حاصل نہیں کی ہے، اسی طرح وہ افراد جو کسی علم میں مھارت نہیں رکھتے صاحب نظر افراد کے کسی نظریہ کی تائید کی بناپر کسی نظریہ کی تائید یا تصدیق کرتے ہیں ، لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص مختلف علوم کے ماہرین کے نظریات کا مطالعہ کرکے ان پر گامزن ہوجاتا ہے لیکن ا سکو اتنا وقت میسر نہیں ہوتا کہ ان نظریات کا آپس میں ایک دوسرے سے موازنہ کرسکے کہ یہ نظریات آپس میں ایک دوسرے کے موافق ہیں بھی یا نھیں ؟ کیا ان منسجم آراء ونظریات کا مجموعہ انسانیت کو تشکیل دے سکتا ہے یا نھیں ؟ وہ ایسا کرنے کے لئے بالکل ہی فکر ہی نہیں کرتا ہے اور نہ ہی اس کوفکر کرنے کاکو ئی انگیزہ ہوتا ہے وہ تو صرف یہ کھتا ہے کہ میرا عقیدہ ہے کہ فلاں علم النفس کا جاننے والا یا معاشرہ کی شناخت رکھنے والا یا حقوق کا جاننے والا بہت ر نظریہ رکھتا ہے اور یھی امر فکری التقاط کا سبب ہوتا ہے،لیکن اہل نظر اور محقق حضرات تمام نظریات کو جمع کرکے ان کا ایک دوسرے سے موازنہ کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ یہ آپس میں ایک دوسرے سے سازگار ہیں یا نھیں ، اگر فلاں علم النفس کے جاننے والے کے کسی نظریہ کو قبول کرنا چاہتے ہیں تو اس کی جامعہ شناسی کے دوسرے نظریہ سے اس لئے مطابقت کرتے ہیں کہ یہ ایک دوسرے سے مناسبت رکھتا ہے یا نھیں ؟ اور اسی طرح دوسرے موضوعات کے دوسرے نظریات کو مختلف نظریات سے موازنہ کرتے ہیں ۔
اہل نظر وتحقیق کے قطع نظر کم علم رکھنے والے افراد میں بھی نظریہ منتخب کرنے کا سلیقہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے، اور جب بھی ان افراد کو کوئی کتاب مل جاتی ہے تو اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں او ریہ تحقیق کئے بغیر کہ اس کتاب کا لکھنے والا معتبر ہے یا نھیں اس کے نظریات دوسرے نظریات سے مناسبت رکھتے ہیں یا نہیں اس کے تحت تاثیر واقع ہوجاتے ہیں اور نتیجةً فکری التقاط سے دوچار ہوجاتے ہیں ، لھٰذا ہر کتاب کی تحقیق اور اس کا مطالعہ کرنے سے پہلے توجہ رکھنی چاہئے کہ اس کتاب کا لکھنے والا معتبر ہے یا نھیں ؟ کیا اس کے نظریات دوسرے موضوعات کے نظریات سے مناسبت رکھتے ہیں یا نھیں ؟
۳۔دینی نظریات میں دوسروں سے متا ثر ہونا
بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اسلامی معاشرہ میں اس صدی کے آدھے دوسرے حصہ میں دوسروں کے نظریات کے تحت تاثیر ہونے کا بڑا زور وشور پیدا ہوگیا ہے، بعض افراد اپنی زندگی کے ایک مرحلہ میں اپنے ماں باپ ،ماحول اور علماء سے عقائد اسلام کو حاصل کرتے ہیں او رقبول کرلیتے ہیں اس کے بعد جب وہ زندگی کے دوسرے مراحل میں داخل ہوتے ہیں اور جب اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہیں تو اس ماحول میں رہکر دوسروں کے عقائد اور نظریات او رمختلف علوم کے مختلف موضوعات سے آشنا ہوجاتے ہیں او ریہ توجہ کئے بغیر کہ یہ افکار ونظریات دوسرے مختلف علوم کو حاصل کرنے والے افراد کے علوم سے سازگار ہے یا نہیں ؟ ان کو بھی قبول کرلیتے ہیں ۔
مثال کے طور پر جس نظریہ کو وہ فلسفہ میں قبول کرتے ہیں ،وہ نظریہ علم الحیات ، فیزیک اور علم حساب کے نظیریہ سے یا کسی دوسرے دینی نظریہ سے مناسب اور سازگاری رکھتا ہے یا نھیں ؟ اگر ہم غور وخوض کرکے اس نتیجہ پر پہونچتے ہیں کہ یہ بعض موارد میں ایک دوسرے کے سازگار نہیں ہیں اور ایک کامل مجموعہ کو تشکیل نہیں دیتے اس طرح کی شکل تفکر کو تفکر التقاطی (دوسروں کے تحت تاثیر ہونا) کھتے ہیں ؟
آج ہمارے دینی معاشرے کے افراد بہت وسیع سطح میں تفکر التقاطی میں مبتلا ہیں ، اس لئے کہ ایک طرف تو وہ اسلامی معاشرے سے اپنے وراثتی اور خاندانی عقائد کو حاصل کرتے ہیں او ران کو اپنے ھاتہ سے جانے نہیں دیتے ہیں ، اور دوسری طرف سے مختلف علوم انسانی کے مسائل کو ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے وہ ان کو بھی مان لیتے ہیں اور دینی عقائدکے ساتھ ملادیتے ہیں وہ اس چیز سے غافل رہتے ہیں کہ یہ مختلف نظریات آپس میں ایک دوسرے سے تال میل نہیں کھاتے اور ہم کو یا تو دینی عقائد کو تسلیم کرنا چاہئے یا ان افکار کو جو دین کے مخالف ہیں ۔
اس بنا پر اگر ہم جامعہ شناسی، حقوق، سیاست اور ان کے مانند نظریات جو ہمارے دینی عقائد سے ہم اہنگ ہو ان کو تسلیم کرنا چاہیں تو ہم کو جن نظریات کو دوسرے ممالک کی کتابوں کا ترجمہ کرکے اور ان کی تبلیغ کرکے ہم تک پہونچایا گیا ہے اس کو نظر انداز کریں ، اور انسانی علوم کے ان جدید نظریات کو جو علمی نقطہ نظر اور اصولی لحاظ سے بھی ہمارے دینی عقائد سے سازگار ہوں ان کو بیان کرنا چاہئے، اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو یا تو ہم اپنے دینی عقائد سے دست بردار ہوجائیں یا پھر اپنے دینی عقائد کے مخالف نظریات اور افکار کو چھوڑ دیں ، اس لئے کہ دونوں کو ایک ساتھ جمع نہیں کیا جاسکتا، جس طرح یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ اب دن بھی ہے اور رات بھی۔
نتیجہ کے طور پر ہم نے جو اساسی او ربنیادی نکتہ بیان کیا ہے اس پر توجہ کئے بغیر تمام نظریات کی تلاش میں نہیں نکلا جاسکتا اورہر حصہ کو قبول نہیں کیا جاسکتا اور التقاط فکری اور دنیا میں سر نہیں کھپایا جاسکتا ہے اس صورت میں ہمارے اندر شناخت ومعرفت میں ”افراطی پلورالیزم“ کا نظریہ ظاہر ہوجائے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص جو کچھ کھے وہ صحیح ہے اور ہم صرف باطل نہیں کھتے ہیں ، اور ہر شخص حقیقت کے کچھ حصہ کو بیان کرتا ہے او رہر مکتب کے اندر کچھ نہ کچھ حق ضرور پایا جاتا ہے، فلسفہ میں اس طرح کا نظریہ (جو آج بھی یورپی فلاسفہ حضرات میں رائج ہے) وہ شک وتردید میں ختم ہوتا ہے یہ نظریہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ عام طور سے علوم میں مختلف نظریات ہوتے ہیں اور ہر نظریہ میں کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہوتی ہے اور ہم کسی چیز پر یقینی اعتقاد نہیں رکہ سکتے، تو ہمارے لئے کسی چیز پر بھی قطعی اور جزمی اعتقاد نہ رکھنا بہت ر ہے اور نظریہ کے صواب یا غلط ہونے کے احتمال پر کفایت کرنا چاہئے، اور دین کے باب میں بھی ہم کو پلورالیزم دینی کو قبول کرنا چاہئے، او راسی بنیاد پر خدا کی وحدانیت پر مسلمانوں کا عقیدہ اور جو شخص کوئی دوسرا عقیدہ رکھتا ہے اس کو ابدی عذاب کا مستحق سمجھتے ہوئے ان کو تسلیم کرلیں اور صحیح سمجھیں ، اور عیسائیت کہ جو تین خداؤں کا عقیدہ رکھتے ہیں ان کے عقیدہ کو بھی صحیح سمجھیں اور جو دو خداؤں (خدائے خیروخدائے شر) کا عقیدہ رکھتے ہیں اس کو بھی درست سمجھیں ، اس لئے کہ ان میں سے کوئی ایک عقیدہ بھی قطعی اور صحیح نہیں ہے ، ممکن ہے ہر ایک درست ہو یا ایک بھی درست نہ ہو اور ہم یہ بنا بھی نہیں رکھتے کہ ان میں سے کسی ایک سے برخورد کریں ، چونکہ وہ تمام خوب اور درست ہوسکتے ہیں ۔
تمام مختلف اور متضاد عقائد ونظریات شک گرائی وشکّاکیت (کہ جن پر کوئی شخص مکمل طور پر اعتقاد نہیں رکھتا) او رپلورالیزم کے نظریہ کی بناپر ہیں ، اجتماعی تساہل (سھل انگاری) اور تسامح جو اس چیز پر مبنی ہے کہ اجتماعی طور پر نہ تو تعصب ہو نہ کسی نظریہ کی طرفداری کی جائے، اور نہ غصہ سے کام لیا جائے اور اسی بنیاد پر آج کل کے دور میں ان کو رائج کیا جائے کہ کسی کو تعصب نہیں کرنا چاہئے اور ہر شخص جو کچھ کھے اس کے بارے میں یہ سوچنا چاہئے کہ شاید یہ صحیح ہو، توحقیقت میں انسان کے اندر دینی عقائد ، فلسفی اور علمی اعتبار سے بے تفاوت کی حالت ایجاد کرتا ہے۔
آج کل یورپ میں اکثر افراد یھی نظریہ رکھتے ہیں او رہمارے لئے یہ نظریہ ایک تحفہ سے کم نہیں ہے اس لئے کہ ہمارے معاشرہ کو بھی محنت ومشقت وتحقیق کے ذریعہ اپنے اندر یہ حالت پیدا کرلینی چاہئے کہ ان کو دینی، علمی او رفلسفی عقائد سے متعصب نہیں ہونا چاہئے او رہر نظریہ کے بارے میں کہنا چاہئے کہ ممکن ہے یہ نظریہ درست ہو او رممکن ہے دوسرا نظریہ درست ہو، کبھی کبھی یہ بھی کھا جاتا ہے کہ ہم کو اپنے علم کو مطلق نہیں سمجہ لینا چاہئے او رنہ ہی یہ کہنا چاہئے کہ یہ سو فی صد درست ہے اس کے علاوہ اور کچھ صحیح نہیں ہے، ہم کو ایسا یقین نہیں رکھنا چاہئے ، ہمیں تو صرف اپنے اعتقاد پر برقرار رہنا چاہئے او راس کا احترام کرنا چاہئے اور دوسرے بھی اپنا عقیدہ رکھیں ، (ہم سے کوئی مطلب نھیں ) یہ وہی ثقافت ہے جس کو یورپ کی دنیا نے اپنے لئے منتخب کررکھا ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ تمام عالَم میں اسی ثقافت کے زیر سایہ زندگی ہونی چاہئے۔
یعنی ان کا عقیدہ یقینی اور جزمی اعتقاد کا انکار کرنا اور اس چیز کا انکار کرنا کہ دین حق، مذہب حق اور نظریہ حق ایک ہے اور افراد کے اذہان عالیہ میں اس بات کا ڈالنا کہ ممکن ہے نظریہ حق متعدد ہوں او رانسان کو ایک چیز پر ہی یقینی اور جزمی اعتقاد نہیں کرلینا چاہئے. اور مقام بحث میں تعصب سے کام نہیں لینا چاہئے، دینی غیرت اور مذہب کے اندر تعصب کو ختم کردینا چاہئے، افراد کو ایک دین ایک مذہب اور ایک فکر کی طرف رجحان کو ختم کرنا چاہئے تاکہ سب مل کر ایک اجتماعی زندگی بسر کرسکیں اور مذہبی مسائل میں کوئی اختلاف نہ ہوں ، کیونکہ یھی دینی اختلاف قتل وغارت اور جنگ جدال کے باعث ہوئے ہیں اب تو تمام مذاہب، ادیان اور افکار کو صحیح اور حق کہنا چاہئے تاکہ آپس میں صلح وآشتی کا راستہ ہموار ہوجائے۔
۴۔پلورالیزم دینی کا مطلب
اگرچہ ہم خصوص طور پر پلورالیزم کے مسئلہ کو بیان کرنا نہیں چاہتے لیکن مختصر طور پریہ عرض کرتے ہیں کہ مقام عمل میں ایک موقع پر ہم یہ کھتے ہیں کہ مختلف مذاہب کے طرفداروں کے ساتھ او رفلسفہ میں مختلف نظریے رکھنے والوں اور مختلف علوم کے ماننے والوں کے ساتھ مودبانہ طریقے سے ملنا چاہئے او ران کو اس بات کی اجازت دینا چاہئے کہ وہ اپنے نظریات کو بیان کریں اور ان کا دفاع کرسکیں ، او رمختلف طریقوں سے بحث وگفتگو اور بحث کریں ، آج دنیا میں ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایک عیسائی یھودی اور زرتشتی کے ساتھ دوستانہ زندگی بسر کرتا ہے اور ان کے درمیان کشمکش، اختلاف ،برادرکشی اور قتل وغارت باکل بھی نہیں پائی جاتی ۔
اس چیز کو تقریباً اسلام کے علاوہ کسی بھی مذہبی دینی اور سیاسی نظام میں مد نظر نہیں رکھا گیا ہے اور اس حد تک صاحبان ادیان کی خاطر ومدارات نہیں ہوئی ہے، حالانکہ اسلام میں اعتقادات کا مزکز عظیم ”توحید“ (خداکی وحدانیت کا اقرار ) ہے او رتوحید کو رائج او رثابت کرنے کے لئے ”تثلیث“(تین خداؤں کا ماننا) اور شرک سے مقابلہ کرنا ضروری مانا گیا ہے، پھر بھی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام میں عیسائیت او ریھودیت دونوں مذہب کو رسمی مذہب کے عنوان سے پھچنوایا گیا ہے اور ان دونوں مذہبوں کے پیروکار اسلام کی پنا ہ میں ہیں ان کی جان ومال اور ناموس محفوظ ہیں او رکسی شخص کو ان کے حقوق کو پامال کرنے کا ذرا سا بھی حق نہیں ہے۔
تمام الہی مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ اس طرح پیش آنا ، اولیاء دین اور حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے سیرت میں سے ہے جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نھج البلاغہ کے ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے سنا ہے کہ عراق کے کسی شہر میں ایک کافر ذمی کی لڑکی کے پیر سے پازیب نکال لی گئی ہے مسلمانوں کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے ، کیونکہ اسلامی ملک اور اسلامی ملک کی پناہ میں ایک غیر مسلمان لڑکی پر یہ ستم ہوا، دوسرے مذہبوں کے طرفداروں کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ اسلام کی بلندی اور افتخار کو بیان کرتا ہے جس کے لئے قرآن مجید کی واضح وروشن آیت موجود ہے:
(
قُلْ یَا ا هلَ الْکِتَابِ تَعَالَوا إلٰی کَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ إلاَّ اللّٰه.
)
”(اے رسول) تم (ان سے) کھو کہ اے اہل کتاب تم ایسی (ٹھکانے کی) بات پر تو آؤ جو تمھارے اور ہمارے درمیان یکساں ہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں “
اور دوسری آیت ہم کو اَحسن (سب سے اچھا) سلوک کی طرف دعوت دیتی ہے ، ارشاد ہوتا ہے:
(
وَلَا تُجَادِلُوا ا هلَ الْکِتَابِ إلاَّ بِالَّتِیْ هیَ ا حْسَنُ.
)
”او ر(اے ایماندارو ) اہل تاب سے مناظرہ نہ کیا کرو مگر عمدہ او رشائستہ الفاظ وعنوان سے “
اگر پلورالیزم کا یہ مطلب ہے تو ہم کو یہ کہنا پڑے گا کہ یہ اسلامی افتخارات میں سے ہے ، اگر پلورالیزم کا یھی مطلب ہےتو ہم کو دل سے یہ کہنا چاہئے کہ عیسائیت بھی اسلام کے مانند ہے یھودیت بھی اسلام کے مانند ہے او ریھودی ہونےاور مسلمان ہونے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اس لئے کہ ہر ایک میں کچھ نہ کچھ حقیقت پائی ہی جاتی ہے، نہ ا سلام مطلقاً طور پر حق ہے اور نہ ہی یھودیت مطلق طور پر حق ہے ، یا یہ کھیں کہ دونوں حق ہے اس راستہ کے مانند حق ہیں کہ جو ایک ہی مقصد پر پہونچاتے ہیں چاہے کسی راستہ سے چلے جاؤ مقصد تک پہونچ جاؤ گے، بے شک اس طرح کے نظریہ کو کوئی بھی مذہب قبول نہیں کرتااور نہ ہی عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے۔
مگر کیا یہ کھا جاسکتا ہے کہ توحید کا عقیدہ رکھنا اور تثلیث کا عقیدہ رکھنا دونوں برابر ہیں ؟ یعنی خدا کی وحدانیت کے اعتقاد اور تین خداؤں کا اعتقاد رکھنے کے درمیان کوئی فرق نہیں پایا جاتا؟ کیا اس دین کی اساس اور بنیاد پر جو یہ کھتا ہوا نظر آرہا ہے:
(
وَلَا تَقُولُوا ثَلاٰثَةٌ إنْتَهوا خَیْراً لَکُمْ.
)
”اور تین (خداؤں ) کے قائل نہ بنو (تثلیث سے) باز رہو (اور) اپنی بھلائی (توحید) کا قصد کرو“
یا قرآن ان افراد کے بارے میں جنھوں نے خدا کی طرف ناروا چیزوں کی نسبت دی او ریہ کھا کہ خدا اولاد رکھتا ہے، ارشاد ہوتا ہے:
(
تَکَادُ السَّمٰواتُ یَتَفَطّرْنَ مِنْه وَتَنْشَقُّ الا رْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالَ هداً.
)
”قریب ہے کہ آسمان اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شگافتہ ہوجائے او رپھاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گرپڑیں “
جب اسلام اس طرح کے شرک آمیز اعتقادات کا اس طرح قطعی رویہ اختیار کرتا ہے تو ہم کو یہ کھنے کا کیا حق ہے کہ اگر تم چاہوتو مسلمان بن جاؤ اور نہیں چاہتے تو بت پرست بن جاؤ، کیونکہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے ، اور تم کو ایک ہدف او رمقصد تک پہونچانے والے ہیں ، او ردونوں راستے صراط مستقیم شمار کئے جاتے ہیں !! اور میں تو اس چیز کو بہت بعید سمجھتا ہوں کہ کوئی صاحب عقل انسان بغیر کسی غرض اور باطل ہدف کے اس طرح کی باتیں کرے او راس طرح کے عقیدہ کو قبول کرے۔
بہر حال التقاط فکری اس زمانے کی ایک بڑی مشکل ہے اس لئے اس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے او رتاکہ ہمارے افکار صحیح وسالم رہیں او راصل نظریہ کو حاصل کرکے اس پر برقرار رہنا چاہئے۔
۵۔بندگی خدا کی عظمت اور اس کا مطلق آزادی سے ٹکراؤ
تمام نظریات کا ہماری بحث سے رابطہ یہ ہے کہ جن افراد نے یورپی ثقافت سے الھام کے ذریعہ اصل آزادی کو مطلق طور پر انسان کی سب سے بڑی قیمت اور اہمیت کے عنوان سے قبول کیا ہے اور آزادی کو انسان کے لئے سب سے بڑی ارزش سمجھتے ہیں برخلاف اس کے کہ خود کو اسلام اور دستورات اسلامی کا پابند سمجھتے ہیں اور خود کے دیندار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ، اس یورپی ارزش کی اس طرح حمایت کرتے ہیں کہ جیسے دیگ سے زیادہ چمچہ گرم ہوگیا ہو، اور بے شک یہ ایک قسم کا التقاط ہے اگر یہ مبنیٰ ہو کہ ہم اس گروہ کے ساتھ منطقی بحث کرنا چاہیں تو ہم کو یہ کہنا چاہئے کہ اسلام کی اساس وبنیاد خداوندعالم کی پرستش اور عبادت ہے ، خدا وند عالم فرماتا ہے:
(
وَلَقَدْ بَعَثْنَا کُلِّ اُمَّةٍ رُسُولاً اَنِ اعْبُدُوْا اللّٰه وَاجْتَنِبُوا الطّٰاغُوتَ
)
”اور ہم نے تو ہر امت میں ایک (نہ ایک ) رسول اس بات کے لئے ضرور بھیجا کہ لوگو خدا کی عبادت کرو اور بتوں (کی عبادت) سے بچے رہو“
صرف اسلام ہی نہیں بلکہ ہر آسمانی دین کی بنیاد خداوندعالم کی خالصانہ عبادت وبندگی ہے۔
مگر ایک صاحب دین اور ایک مسلمان یا یھودی اورنصرانی اس کے علاوہ دین الہی سے اور کیا تصور کرسکتا ہے، ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ اسلام تمام ادیان توحیدی کے ساتھ ان احکام کے علاوہ جو زمان اور مکان کے مناسب صادر ہوتے ہیں تمام کلیات اور اصول اعتقادی میں یکساں وبرابر ہے۔
اوراگر اس بارے میں کوئی اختلاف نظر آئے تو یہ اس تحریف کا اثر ہے جو بعض ادیان الہی میں کی گئی ہے، نتیجتاً اسلام میں سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ انسان خالص خدا کا بندہ ہو او رخداوندعالم اس حقیقت کو قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت میں بیان فرماتا ہے:
(
وَمَا اُمِرُوْا اِلاَّ لِیَعْبُدُوْا اللّٰه مُخْلِصِیْنَ لَه الدِّیْنَ
)
”انہیں امر نہیں دیا گیا مگر یہ کہ خداوندعالم کی کامل اخلاص کے ساتھ دین میں پرستش وعبادت کریں “
اور سورہ زمر میں ارشاد ہوتا ہے:
(
اَلاَ لِلّٰه الدِّیْنُ الْخَالِصْ.
)
”آگاہ رہو کہ عبادت تو خاص خدا ہی کے لئے ہے۔
اور سورہ لقمان میں فرماتا ہے:
(
وَمَنْ یُسْلِمْ وَجْهه اِلٰی اللّٰه وَهوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی.
)
”اور جو شخص خدا کے آگے اپنا سر(تسلیم) خم کرے او روہ نیکو کار (بھی) ہو تو بے شک اس نے (ایمان کی) مضبوط رسّی پکڑی“
اب جب انسان اپنے کو خدا کا بندہ سمجھتا ہے خدا کی بندگی کو سب سے زیادہ باارزش جانتا ہے اور اس نے اپنے کو مکمل طور سے خداوندعالم کے اختیار میں قرار دیدیا ہے تو وہ مطلق آزاد کا معتقد ہوسکتا ہے اور جس چیز کو اس کا دل چاہے اس کو اہمیت دے سکتا ہے؟ کیا یہ دونوں ایک دوسرے سے موافق اور سازگاری رکھتے ہیں ؟ اگر میں درحقیقت اسلام ِ حق کا عقیدہ مند ہوں اور یہ اقرار کرتا ہوں کہ خدا کا ایک دین ہے اور اس کو قبو ل کرنا چاہئےے اور میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ ایک خدا اور اسکی عبادت کروں اور تمام چیزوں کو اسی کے اختیار میں چھوڑدینا چاہئے اور اسی کے ارادہ کے تابع ہیں تو میں کس طرح مطلق طور پر آزاد رہنے کا معتقد رہ سکتا ہوں اور جس طرح چاہوں عمل کروں ؟ فکر کرنے کے یہ دو طریقے کس طرح ایک دوسرے سے ہم اہنگ ہوسکتے ہیں ، جو لوگ اس طرح کا ادّعا کرتے ہیں یا بے خبری کی بنیاد پر التقاط سے دوچار ہوگئے ہوں ، یا دل میں اسلام کا عقیدہ نہیں رکھتے ہیں یا دوسروں کو فریب دینے کی وجہ سے یہ ادعا کرتے ہیں یا اصلاً وہ اس بات کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتے ہیں کہ یہ دو نظریہ آپس میں ایک دوسرے سے ناسازگار ہیں ؟ اس صورت کے علاوہ میں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان ایک طرف تو یہ کھے کہ میں کاملاً اور میرا تمام وجود خدا کے ارادہ کا تابع ہے او رصرف اپنے لئے مطلق آزادی کا قائل ہو اور یہ کھے کہ جو میرا دل چاہے گا وہی انجام دوں گا۔
یہ طرز تفکریعنی انسان کے مطلق طور پر آزاد ہونے کا اعتقاد یورپ والوں کی فکر کی پیداوار ہے وہاں پر مسیحیت کے معتقد گروہ اپنے دین کا عقیدہ رکھتے ہوئے (شاید اپنے فطری لگاؤ کی بنیاد یا اپنے ماحول اور دینی تربیت کی وجہ سے اپنے دین سے دست بردار نہیں ہوتے) خاص دلیلوں اور استدلالوں کی وجہ سے یا چند اہم اعتراضوں کی وجہ سے انسان کے مطلق آزاد ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ، بے شک کوئی انسان بغیر کسی دلیل کے اس طرح کی بات نہیں کرسکتا، بلکہ ایک نقطہ سے اپنی بات شروع کرتا ہے اور اس طرح گفتگو کرتا ہے کہ جو دوسروں کے لئے جذّاب او رقابل قبول ہوتی ہے۔
مثال کے طورپر وہ کھتے ہیں کہ کیا ایک پرندہ کو پنجرہ میں بند کردینا اور اس پنجرہ کو لوہے کے پنجرہ میں رکہ دینا بہت ر ہے یا پرندہ کے اڑنے کے لئے پنجرہ کا دروازہ کھول د ینا بہت ر ہے؟کہ وہ جدھر چاہے چلاجائے، ظاہر ہے کہ پرندہ کو آزاد کردینا بہت اچھا ہے اور وہ بھی یھی چاہتاہے، اور اس کے بعد وہ کھتے ہیں کہ جس آزادی کے بارے میں ہم بحث کرتے ہیں اس سے مراد یھی آزادی ہے۔
ہمارے معاشرہ میں مکمل طور پر اسلامی قوانین ہوتے ہیں اس کے بعد ”ولایت فقیھ“ سے مربوط قوانین بھی اس میں رکھے جاتے ہیں ، اور ان کے اندر پارلیمینٹ کے بنائے ہوئے قوانین بھی رکھے جاتے ہیں اور اسی طرح ”مجمع تشخیص نظام “ اپنی جگہ پر مسلم ہے اورآخر میں ”شورای نگھبان“ وضع شدہ قوانین پر اظھار نظر کرتی ہے، اس طرح قوانین بنانا یقینا پنجرہ کو دوسرے پنجرہ کے اندر رکھنے کے مانند ہے! بہت رین قانون وہ ہے جو انسانوں کو جس طرح وہ چاہیں اس طرح عمل کرنے کی اجازت دیدے اور جس طرح چاہیں گفتگو کرنے کی اجازت دیدے، یعنی کلی طور پر وہ آزادانہ زندگی بسر کریں ؟ ! اور ظاہر سی بات ہے کہ پہلا قانون پنجرہ ہے او ردوسرا قانون آزادی ہے۔
اگر ہم دوسری ثقافتوں کے عقائد وافکار او رآراء کی مشکل سے دوچار ہوجائیں تو ایسے موقع پر اس چیز کی تاکید کرتے ہیں کہ ابتدا میں ہم کو ان کا ریشہ ڈھونڈنے کی کوشش کرنا چاہئے اس کے بعد یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ نظریات اسلامی نظریات سے سازگاری رکھتے ہیں یا نھیں ؟
اگراسلامی نظریات کے موافق ہیں تو قبول کریں اور اگر اسلامی نظریات کے مخالف ہیں تو ان کو چھوڑ کر اپنے دین کے اصول کی تلاش میں نکلنا چاہئے اور انہیں اصول کو اپنے عقائد اور نظریات کی بنیاد قرار دیں ۔
۶۔یورپ اور علم ودین کے ٹکراؤ کا دور ہونا
علم ودین سے ٹکراؤ کو حل کرنے کے لئے یورپی متدین حضرات نے دین کے دائرہ فرمانروائی میں شک کرتے ہوئے کچھ راہ حل پیش کئے اور اس شبہ کو بیان کیا کہ بنیادی طور پر علم وفلسفہ کی کو دین سے جدا بتایا ہے ، جب ہم یہ کھتے ہیں کہ فلسفی قدروقیمت، اخلاقی قدروقیمت اور یا انسانی قدر وقیمت دین کے ساتھ سازگار ہے یا نہیں یہ اس فرض کی بنا پر کھتے ہیں کہ دونوں ایک نقطہ پر مل جائیں چونکہ جب دو خط ایک دوسرے کی طرف مائل ہے تو ایک نقطہ پر وہ دونوں خط ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں لیکن اگر دو خط ایک دوسرے کے برابر ہوں مقابل میں ہوں تو کبھی بھی وہ آپس میں ایک دوسرے سے نہیں مل سکتے، اور ان میں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراؤ نہیں ہوگا چونکہ ان میں سے ہر ایک خط اپنے ہدف پر ختم ہوتا ہے جو اس کا دوسرے خط کے علاوہ مستقل ہدف ہے۔
وہ علم ودین کے ایک دوسرے سے رابطہ کی اس طرح وضاحت کرتے ہیں کہ دین اور علم، دین اور فلسفہ، دین اور عقل دین اور اخلاقی قدر وقیمت کے مابین صلح برقرار رکھنی چاہئے دوجھت اور دو مستقل حوزوں کو ان کے لئے ترسیم کرنا چاہئے یعنی حوزہ دین علوم کے دوسرے حوزوں سے جدا ہے او رحوزہ دین کا ارتباط خدا سے ہوتا ہے اور جو کچھ اس ارتباط سے پیدا ہوتا ہے جیسے نیائش، نماز ، دعا او رکچھ شخصی مسائل ان کا دوسروں سے کوئی ربط نہیں ہوتا ، اس سلسلہ میں نہ علم کو کوئی دخالت ہے نہ فلسفہ کو او رنہ کسی دوسرے عامل کو کوئی دخالت ہے یہ تو صرف اور صرف دل سے مربوط ہوتا ہے او راگر کوئی چیز اس حوزہ میں دین کے ساتھ شریک ہوگی تو وہ عرفان ہے چونکہ دین اور عرفان دونوں ایک مقولہ سے ہیں اور دونوں کا ایک ہی کاسہ سے پانی پیتے ہیں ، نتیجتاً علم، فلسفہ اور عقل کا دین سے کوئی ربط نہیں ہوتا بلکہ ان تینوں کا فرمانروائی میدان ایک دوسرے سے الگ الگ ہے اور ہر ایک کے اپنے خاص وسائل ہوتے ہیں ۔
لیکن حوزہ اخلاق میں وہ قدروقیمت اور وہ چیزیں جن کوانجام پانا چاہئے یا وہ چیزیں جن کو انجام نہیں پانا چاہئے ،یہ چیزیں خدا سے مربوط ہیں جیسا کہ کیا نماز پڑھی جانی چاہئے یا نھیں ؟ یہ دین سے مربوط ہے اور اس سلسلہ میں علم سے کوئی معارضہ نہیں ہے، لیکن اگرکچھ چیزوں کو انجام پانا چاہئے او رکچھ چیزوں کو انجام نہیں پانا چاہئے یہ انسانی کی اجتماعی زندگی سے مربوط ہوتی ہیں جیسا کے چور کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرنا چاہئے؟ کیا اس کو مجازات دینا چاہئے یا نھیں ؟ کیا خیانت کرنے والے اور گناہ کار شخص کو اس کی سزا دینی چاہئے یا نھیں ؟ اس سلسلہ میں خاص طور سے یہ کھا جاتا ہے کھ: جو شخص کسی جرم اور خیانت کا مرتکب ہوتا ہے وہ بیمار ہے اس کا علاج ہونا ضروری ہے اور نرمی اور محبت کے ساتھ اور مناسب مقام پر اس کا علاج کرنا چاہئے اور اس کی نگرانی کرنا چاہئے تاکہ وہ اس خیانت سے دست بردار ہوجائے۔
ہم دنیا کے کسی ملک میں کسی ایسی جگہ کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں رکھتے کہ جہاں خیانت کرنے والے او رگناہ کار کے ساتھ بیمار جیسا برتاؤ کیا جاتا ہو اور اس کو سزا نہ دی جاتی ہو لیکن پریکٹیکل کے میدان میں وہ یہ کھتے ہی کھ: خیانت کرنے والوں کو سزا نہیں دینی چاہئے اور اصل میں انسان کو سزا دینا یہ اس کی شایان شان نہیں ہے،اور نہ ہی انسانی کرامت سے سازگار ہے اور کلی طور پر یہ بیان کرتے ہیں کہ اگرچہ انسان سب سے برے ظلم کا مرتکب ہی کیوں نہ ہوجائے اس کو مطلق طور پر سزا نہیں دی جاناچاہئے اس لئے کہ انسان سے اس طرح کا برتاؤ کرنا اسکی شان اور مرتبہ کے خلاف ہے ، اس نظریہ کے مقابل ہم مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ دین زندگی کے تمام امور میں حق دخالت رکھتا اور اس نے قانون بیان کردیا ہے کہ
(
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیْهما
)
“
”چور مرد اور چور عورت کے ھاتہ کاٹ دئے جائیں “
اجتماعی مسائل کو دین سے جدا کرنے والے کھتے ہیں کہ دین کو ان چیزوں کے بارے میں دخالت کرنے کا کوئی حق نہیں ، دین تو صرف اور صرف یہ کھتا ہے کہ نماز پڑھو یا یہ کھہ سکتا ہے کہ خداوندعالم سے کس طرح دعا کی جائے لیکن یہ کہ ایک گناہ کار سے کس طرح پیش آیا جائے اس کا دین سے کوئی ربط نہیں ہے اور یہ امر بھی تسلیم شدہ ہے کہ اس بارے میں علم تجربی کا بھی کوئی دخل نہیں ہے اس لئے کہ تجربیات ان صفتوں کا ایسا سلسلہ ہے کہ جو آشکار طور پر عینی چیزوں کے رابطہ کو بیان کرتا ہے، دوسرے الفاظ میں علم موجودہ چیزوں کے بارے میں بیان کرتا ہے لیکن علم” کن چیزوں کو انجام دیا جائے یا کن چیزوں کو انجام نہ دیا جائے“ بیان کرتا ہے ،احکام ِ ارزشی کو بیان کرنا علم کا کام نہیں ہے، لھٰذا اخلاقی اوراجتماعی مسائل چاہے وہ حقوقی قوانین ہوں یا مدنی اور کیفری قوانین یہ تمام صرف اخلاقی مسائل ہیں اور ان میں صرف یہ بیان ہوتا ہے کہ کیا ہونا چاہئے اور کیا نہیں ہونا چاہئے، ان میں نہ دین دخالت رکھتا ہے اور نہ علم (علم سائنس اور علم تجربی)دخالت رکھتا ہے۔
۷۔اسلام اور آزادیخواہ مکتب میں عوام الناس کی اہمیت
جب اخلاقی قدر وقیمت ،کن چیزوں کو انجام دینا چاہئے اور کن چیزوں کو انجام نہیں دینا چاہئے ان مسائل میں دین کا کوئی دخل نہیں ہے، اور نہ ہی علم کی کوئی دخالت ہے، تو یھاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان مسائل میں کس کو حق دخالت ہے؟ آج کل کے دور میں یورپ کی ثقافت میں اس سوال کا یہ جواب دیا جاتا ہے ہے کہ قدروقیمت ،کن چیزوں کوانجام دینا چاہئے او رکن چیزوں کو انجام نہیں دینا چاہئے ،یہ اعتباری امور ہیں یہ خاص اہمیت کے حامل نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان کے بارے میں تو یہ دیکھنا چاہئے کہ عوام الناس کیا چاہتی ہے؟ ان کے نقطہ نظر سے کون چیزیں انجام دینا چاہئے او رکن امور کو انجام نہیں دینا چاہئے ، ان کی قدر وقیمت یہ سب اعتباری چیزیں ہیں یعنی ان کی بنا حقائق عینی، خارجی اور نفس الامری پر نہیں ہے، یہ تو صرف عوام الناس کے سلیقہ پر موقوف ہےں ، اب ہم کو کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے تو نہ دین کی تلاش کرنا چاہئے ، نہ علم کے پیچھے دوڑنا چاہئے اور نہ ہی فلسفہ کی تلاش کرنا چاہئے بلکہ عوام الناس سے سروکار رکھنا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کیا چاہتے ہیں ۔
قانون گذاری کے بارے میں یورپی جمہوریت کی بنیاد اس چیزپر استوار ہے کہ عوام الناس کی خواہش (طلب) کے علاوہ کسی اور واقعیت کا کوئی وجود نہیں ہے کہ انجام دینے والی چیزیں اور نہ انجام دی جانے والی چیزیں اس کی بنیاد پر کشف کیا جائے۔
مادی امور میں انجام دینے والے امور اور انجام نہ دئے جانے والے امور یہ سب امور تجربی کے دائرہ میں شامل ہیں اور علوم تجربیات سے مربوط ہیں جن کو تجربہ گاہ میں ثابت کیا جاتا ہے، لیکن خدا سے ارتباط کے وقت جن امور کو انجام دینا چاہئے اور جن کو انجام نہیں دنیا چاہئے یہ سب دینی دائرہ سے مربوط ہوجاتے ہیں اور جو کچھ دین کھے گا اس کو بجالانا چاہئے اور ان کا علم سے کوئی مطلب نہیں ہے، لیکن جن امور کو انجام دینا چاہئے او رجن امور کو انجام نہیں دینا چاہئے یہ خود انسانوں کی اجتماعی زندگی سے مرتبط ہوتے ہیں نہ ان میں خداوندعالم کو دخالت کرنے کا حق ہے اور نہ ہی علم ان کو معین ومشخص کرسکتا ہے۔
اگر آپ یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ یورپ میں عوام الناس کی رائے اور عمومی آراء پر اعتماد کیا جاتا ہے تو یہ وہاں کی موجودہ خاص ثقافت کی اساس وبنیاد کی وجہ سے ہے، اب اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ دین، انسان کی زندگی کے تمام امورکوشامل ہوتا ہے،اور ہمارے وہ تمام امور جو ہماری زندگی سے مربوط ہیں کہ ہم کو کون سے کام انجام دینے چاہئے اور کون سے کام انجام نہ دینے چاہئے انہیں خدا وندعالم سے حاصل کرنا چاہئے، اور اس بارے میں ہم کو عوام الناس کی رائے کا تابع نہیں ہونا چاہئے، اگر خدوند عالم کسی چیز کو معین فرمادے اور اس کے انجام دینے کا حکم صادر فرمادے لیکن عوام الناس کی طلب دوسری ہو تو اس میں کون معتبر ہوگا؟
تمام معاشروں میں عوام الناس کی طلب اور دین میں بیان ہونے والے احکام کے مابین کم وبیش تضاد پایا جاتا ہے، تحریف ہونے والے تمام ادیان سے ہمارا کوئی مطلب نہیں ہے بلکہ ہماری بحث تو ان ملکوں سے ہے جن میں اکثر افراد مسلمان ہیں ، اور وہ کسی دین کے پیروکار ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے تمام امور میں خواہ وہ فردی ہوں یا اجتماعی گھریلوں مسائل ہوں یا بیوی کے انتخاب کا مسئلہ یا اولاد کی تربیت کی بات ہو، یا اجتماعی اور بین الاقوامی مسائل ہوں ،تو کیا اس صورت میں وہ افراد یہ کھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہم نے اس دین کو تسلیم کرلیا ہے درحالیکہ ان کا ادعا ہے کہ قانون کے معتبر ہونے کا معیار وملاک عوام الناس کی رائے ہے؟ کیا وہ کم سے کم ان دونوں کو اس صورت میں بھی تسلیم کرسکتے ہیں جہاں پر دونوں میں تعارض ہو؟
لیکن افسوس آج ہمارے نشریات میں جو کچھ غرب (یورپ) میں ہورہا ہے وہ رواج پارہا ہے جب ایک دین میں ہم جنس بازی کو سب سے بری چیز بتلارہا ہے تو خدانحواستہ اگر عوام الناس ہم جنس بازی کے جائز ہونے کے حق میں ووٹ دیں تو کیا عوام الناس کی مرضی اور مانگ کو دین پر مقدم کرتے ہوئے تسلیم کیا جاسکتا ہے؟! اور کیا حقیقت میں یہ دونوں ایک ساتھ جمع ہوجائیں گے؟ یورپ کی دنیا نے دین اورعوام الناس کی خواہش کے مطابق متضاد مسائل کو حل کردیا ہے ان کا عقیدہ یہ ہے کہ اس طرح کے مسائل دین کو دخالت کرنے اور عوام الناس کی خواہش کونظرانداز کرنے کا کوئی حق نہیں ہے دین کا تعلق کلیسا سے ہوتا ہے جہاں پر افراد اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں اور کچھ دعا وغیرہ کرنے سے افراد کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں جس کے بعد کلیسا ان کو بھشت کے لئے روانہ کردیتا ہے، لیکن اجتماعی مسائل سے دین کا کوئی تعلق نہیں ہے، اجتماعی مسائل کو تو صرف عوام الناس کی رائے ہی مشخص ومعین کرسکتی ہے، کناڈا میں نئے مذہبی فرقے کی بنیاد ڈالنے والے کشیش (عیسائیوں روحانی پیشوا) سے ایک ٹی وی پروگرام میں سوال کیا گیا کہ ہم جنس بازی کے بارے میں آپ کے مذہب کا کیا نظریہ ہے؟ اس نے جواب دیا: میں فوراً تو اپنا قطعی نظریہ نہیں دے سکتا لیکن اتنا کھہ سکتا ہوں کہ انجیل کا سرے سے مطالعہ کرنا چاہئے!!
۸۔اسلام اور یورپ میں جمہوریت اور قانون گذاری کا مرجع
قارئین کرام آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ یورپین لوگوں نے دین اور اجتماعی مسائل کو جدا کرکے اپنا من پسند راہ حل تلاش کرکے دین اورعوام الناس کے مابین تعارض کا حل ڈھونڈنکالا، کیا ہم بھی اسلام کے ماننے والے اس طرح کے راہ حل کی تلاش میں ہیں ؟ یہ وہی اندیشہ (فکر)ھے جو ”سیکولاریزم“ کے نام سے مشہور ہے یعنی دین کو مسائل اور زندگی کے امور سے جدا کرنا چاہے وہ اجتماعی ،حقوقی سیاسی، اور گھریلو ہی مسائل کیوں نہ ہوں ، کچھ افراد اس بارے میں ”ایرانی ثقافت کی خدمت“ کی وجہ سے دسیوں تقریروں اور متعدد مضامین میں یہ بیان کیا کرتے ہیں کہ دینی کا دائرہ ، سیاست ، اجتماعی ،حقوقی اور اقتصادی مسائل سے جدا ہے اور اس بارے میں رات دن محنت کیا کرتے ہیں ، تو کیا ہم بھی ایسا ہی عقیدہ رکہ سکتے ہیں ؟ اگر ہمارا ایسا عقیدہ نہیں ہے تو ہم کو توجہ رکھنا ہوگی کہ ہم ان کے دھوکہ میں نہ آئیں اور یہ جان لیں کہ جو کچھ وہ بیان کرتے ہیں وہ ہمارے عقیدہ کے ہم اہنگ نہیں ہے اور اس بات کی طرف بھی توجہ رکھنا ہوگی کہ خواستِ خدا اور عوام الناس کی طلب کے مابین معارضہ ایجاد ہوجائے تو جو کچھ دین خدا نے معین کیا ہے ا سکو اپنائیں اور حقیقت میں خدا کی مرضی کو مقدم کریں ۔
البتہ حقیرتکالیف کو مشخص ومعین کرنے کا قصد نہیں رکھتے کہ افراد ہمارے بیان سے آزادی کے خلاف کوئی مطلب نکالیں لیکن ان کو منتخب کرنے غوروفکر او ردقت سے کام لے کر آگاہ اور آزاد طور پر کسی چیز کو منتخب کرنا چاہئے ان کو متوجہ رہنا چاہئے کہ آج کل جو ”قانون گذاری میں جمہوریت“ کے عنوان سے بیان کیا جاتا ہے یعنی عوام الناس کی طلب کو خدا کی مرضی اور طلب پر مقدم رکھنا یعنی دین اور خواست خدا کا ایک طرف رکہ دینا، اگر عوام الناس کسی چیز کو منتخب کرنا چاہتے ہیں تو ان کو متوجہ رہنا چاہئے کہ وہ ان کے چنگل میں نہ پہنس جائیں کہ اسلام کو تو مجموعہ مقررات وقوانین برحاکم جامعہ کے عنوان سے قبول کرلیں اور قانون گذاری میں جمہوریت کو قبول کرلیں ، درحقیقت یہ دونوں ایک دوسرے سے سازگار نہیں ہیں ۔
جو افراد عوام الناس کو دھوکہ دینے، معاشرہ میں التقاط رائج کرنے اور بحث کو مخلوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں وہ میری تقریروں اور مثالوں سے بہت زیادہ پریشان حال ہوجاتے ہیں چونکہ ان کی نیت اور ان کے سازش کا راز فاش ہوتا ہے اس لئے وہ پریشان ہوتے ہیں البتہ کچھ افراد کو سیاسی اغراض ومقاصد کی وجہ سے میری باتیں اچھی نہیں لگتیں ، لیکن یہ باتیں چاہے کسی کو اچھی لگیں یا بری، ہم اپنی زندگی کے آخری لمحے تک دین اسلام کے احکام کوبیان کرنے میں کوئی دریغ نہیں کریں گے، او ردین اسلام کی حمایت میں اپنی تمام کوششیں صرف کردیں گے، اور تمام ناگوار واقعات کو اپنے لئے برداشت کرنے کے لئے آمادہ ہیں نہ کسی دھمکی سے ڈرتے ہیں ، اور اور نہ کسی کے دھوکہ میں آتے ہیں ۔
ہم یھاں پر احکام کو قطع وجزم دینے کا ارا دہ نہیں رکھتے لیکن یہ یاد دھانی کرادینا چاہتے ہیں کہ عوام الناس ہوشیار رہیں اور واقعیات کو حاصل کرنے کی خاطر اپنی عقل سلیم کو کام میں لائیں یورپ والوں کی باتوں اور ان کے مفاہیم سے دھوکہ میں آنے سے ہوشیار رہیں ، کھیں ایسا نہ ہو کہ اپنے دین سے ھاتہ دھوبیٹھیں ، ضروری ہے کہ نظریات وآراء کے جومبانی بیان کئے جاتے ہیں ان کی معرفت حاصل کریں ۔
مثال کے طور پر جب یہ کھا جاتا ہے کہ قانون کو تسلیم کرنے کا معیار عوام الناس کی خواہش اور ان کی مانگ ہے اور ”قانون گذاری میں جمہوریت“ کو بیان کیا جاتا ہے تو ان کو یہ سوچنا چاہئے کہ کیا انسان کو صرف یھی بدن عطا کیا گیا ہے، اور ایک مادی زندگی دی گئی ہے اور اس کو حیوان کا مجسمہ بناکر بھیجا گیا ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تواس صورت میں تو عوام الناس کو قانون گذاری کا حق ہے جیسا کہ اسی نظریہ کو یورپین لوگوں نے تسلیم کررکھا ہے، یا جیسا کہ اسلامی نظریات میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان مادی بند کے علاوہ وہ بلند وبالا مقام اور روحانی اور معنوی اہمیت کا بھی حامل ہے تواس بنیاد پر قانون گذاری میں مادی مصلحتوں ، نظم اور اجتماعی امنیت کی رعایت کے علاوہ معنوی مصلحتوں کی بھی رعایت کرنا ضروری ہے، اس صورت میں انسان خدا کے ارادہ کا تابع ہوگا اور قانون کا معیار وملاک خداوند عالم کی مرضی ہوگی۔
اس بات کی طرف ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ کیا واقعاً انسان مادی اور حکمت ماوراء الطبیعة سے بالا ایک معنوی پہلو بھی رکھتا ہے یا نھیں ؟ کیا انسان مادی بدن اور حیوانی خصلتوں کے علاوہ کوئی اور پہلو بھی رکھتا ہے ،تاکہ وہ اسی اساس وبنیاد پر خداوند عالم سے ارتباط برقرار رکہ سکے؟ کیا واقعاً مرنے کے بعد انسان کے لئے کوئی اور دوسری زندگی بھی ہے؟ کیا واقعاً اس مادی زندگی اور مرنے کے بعد والی زندگی کے مابین کوئی رابطہ ہے؟ مسلمانوں اورمتدین افراد کے لئے ان سوالات کے جوابات واضح ہیں ۔
لیکن ہم کو یہ غور وفکر کرنا چاہئے کہ ہمارے سیاسی اور اجتماعی رجحان کو ہمارے اعتقاد کے ہم اہنگ ہونا چاہئے اورہماری فکر واندیشہ اور عمل میں التقاط ظاہر نہیں ہونا چاہئے، اگر واقعاً ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خدا ہے، قیامت ہے، اور حساب وکتاب درکار ہے توہم کو یہ واضح کرنا ہوگا اور اس قطعی نتیجہ پر پہونچنا ہوگا کہ ایک حقیقت میں غیر خدائی قانون (کو عوام الناس کی طلب کے معیار قانون ہے) پر عمل کرنا ہماری ابدی آرامگاہ میں منفی اثر رکھتا ہے یا نھیں ؟ یہ سوال وجواب قطعی ویقینی طور پر ہونے چاہئےں چونکہ شک وتردید سے مشکل حل نہیں ہوتی اور نہ ہی اس بارے میں شک کرنا عقلمندی کا کام ہے۔
یورپ میں یہ مسئلہ حل ہوچکا ہے وہ بھی بڑے عجیب وغریب انداز میں یا توعالم غیر مادی اور معنوی کا انکار یا افکار واندیشہ کو شک واحتمال وتردید میں قرار دینا اور ذہنوں میں یہ ڈالنا کہ کن امور کو انجام دینا چاہئے او رکن کاموں سے اجتناب کرنا چاہئے، ان امور کی ارزش و اہمیت عینی اور خارجی حقائق پر مبنی نہیں ہے جو ان کو متعلق یقین قرار دیا جائے یہ تو صرف اعتباری اور قراردادی چیزیں ہیں جن کی بناعوام الناس کی خواہش ہے بقیہ ان کا دین سے کوئی رابطہ نہیں ہے، اور اسی وجہ سے ہمارے وہ روشن فکر افراد جن پر یورپ والوں کا سایہ پڑگیا وہ ان مطالب کو اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں اور ہمارے عزیز نوجوانوں کے حوالے کردیتے ہیں جس کی وہ مذہب شک گرائی اختیار کرلیتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں !! لیکن دین کے نقطہ نظر سے یہ مسئلہ اس طرح نہیں ہے بلکہ ہم کو شک وتحیر اور تردید سے باہر نکلنا چاہئے اور آگاہی اور یقین کے ذریعہ صرف ایک ہی راستہ کو منتخب کرنا چاہئے جیسا کہ قرآن کریم کے ابتدا ہی میں یقین کی تاکید کرتا ہونا نظر آرہا ہے اور فرماتا ہے:
(
وََبِالآخِرَةِ همْ یُوْقِنُونَ
)
”متقین وہ لوگ ہیں جو عالم آخرت پر یقین رکھتے ہیں “ قرآن کریم ”یشکّون“ نہیں فرمارہا ہے ،اب اگر کوئی قرآن کریم سے استفادہ کرنا چاہتا ہے تو ا سکو عالم آخرت پر یقین رکھنا ہوگا اور قرآن کریم دوسری جگہ پر فرماتا ہے:
(
وَفِی الا رْضِ آیَاتٌ لِلْمُوْقِنِیْنَ.
)
”اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں (قدرت خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں “
دوسری طرف یورپی ثقافت سے متاثر افراد کھتے ہیں کہ انسان کسی مسئلہ میں بھی منطقی طور پر یقین پیدا نہیں کرسکتا، اور خاص طور سے جو مسائل ماوراء مادہ سے مربوط ہوتے ہیں ان میں تو انسان کو یقین ہوہی نہیں سکتا، قرآن کریم انسان کے لئے جس انحتاط اور پستی کی حالت کو بیان کرتا ہے وہ شک وتردید کی حالت ہے قرآن مجید فرماتا ہے :
(
فَهمْ فِی رَیْبِهم یَتَرَدَّدُوْنَ
)
”تو وہ اپنے شک میں ڈانو اڈول ہورہے ہیں (کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں “
اور اسی طرح قرآن کریم ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
(
اَءُ نْزِلَ عَلَیْه الذِّکْرُ مِنْ بَیْنِنَا بَلْ همْ فِی شَکٍّ مِنْ ذِکْرِیْ
)
”کیا ہم سب لوگوں میں بس (محمد ہی قابل تھا کہ) اسی پر قرآن نازل ہوا ، نہیں بات یہ ہے کہ ان کو (سرے سے)میرے کلام ہی میں شک ہے کہ میرا ہے یا نہیں “
قرآن کریم ہم کو خاص طور سے اصول دین یعنی خدا ، عدل، نبوت ، امامت اور قیامت کے بارے میں اہل یقین میں سے ہونا چاہتا ہے، اب ہم کو ان دو راستوں میں سے ایک راستہ کو منتخب کرنا چاہئے یا اس راستہ کو اختیار کرنا چاہئے جس میں انسان بنیادی طور پر ہی یقین تک نہیں پہونچتا، اور ہمیشہ شک وتردید کی حالت میں دوچار رہتا ہے، یا اس مذہب کو منتخب کرنا چاہئے جو ہم کو انتخاب ِ آگاہانہ اور یقین کی دعوت دیتا ہے اور فرماتا ہے جب تک اہل یقین نہ ہوؤ گے کتاب خدا سے استفادہ نہیں کرسکوگے۔
ان دونوں ثقافتوں میں یہ فرق ہے کہ ان میں سے ایک انسان کے لئے سب سے بری شک وتردید اور حیرت کی حالت کو جانتا ہے اور انسان کو شک وتردید میں اس شخص کے مانند گرفتار کردیتا ہے جو خوفناک اور بھیانک جنگل میں پہونچ گیا ہو اور جو شخص بھی اس کو کسی طرف بلانا چاہے وہ اس راستہ کو اسی حیرانی وپریشانی میں منتخب کرلیتا ہے اس کے برعکس یورپی ثقافت میں شک وتردید کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے ،ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جب تک انسان اہل حیرت وشک نہ ہو اس وقت تک وہ انسان نہیں ہوسکتا ہے، نتیجہ کے طور پر انسان کو ان دونوں میں سے ایک راستہ قبول کرنا ہوگا، اسلام کو یا اس ثقافت کو جس میں حیرت وشک کو بہت رین چیز بتایا جاتا ہے، لیکن ان دونوں راستوں کو ایک ساتھ تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے جس طریقہ سے یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اب دن بھی ہے اور رات بھی، اور اسی طرح توحید ، تثلیث(تین خداؤں کو ماننا) بھی ایک عقیدہ میں نہیں سماسکتے ہیں ۔
۹۔ جوانوں کے لئے ایک نصیحت
میرے وہ پیارے نوجوان جو علمی اعتقادات پیدا کرنے کی فکر میں ہیں واضح اہل فکر ہونا چاہتے ہیں او راہل تقلید ہونا پسند نھیں ں کرتے، ان کے لئے میری نصیحت یہ ہے کہ وہ پہلے ان سیاسی مسائل کو حل کریں ان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ اہل شک ہوں یا اہل یقین، دین کی پیروی کریں یا سیکولریزم رہیں ، خدا پرست بنیں یا ہر قسم کی عبودیت سے آزاد یھاں تک کہ خدا کی عبودیت سے بھی آزادی چاہتے ہیں ، ان کے لئے ان دونوں راستوں میں سے ایک راستہ کا اپنانا ضروری ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کبھی اس راستہ پر چلیں اور کبھی دوسرے راستہ پر چل پڑےں ، کبھی ان کی باتوں کو قبول کریں اور کبھی دوسروں کی باتوں کو قبول کریں ، اس طرح کا رویہ بہت خطرناک ہے، اور ہماری عاقبت کفر کی حالت اور ابدی عذاب جھنم کا باعث بن جائے۔اگر ہم قرآن کو خدا کی کتاب مانتے ہیں اور اس کی حقانیت کو قبول کرتے ہیں تو کیوں انسان کی مطلق آزادی کو تسلیم کریں ؟! کس طرح ہم دین کے بھی معتقد ہوسکتے ہیں اور لیبرالیزم اور سیکولریزم کے بھی؟ اس طرح کا عقیدہ رکھنا ناممکن ہے، کسی بھی بلند وبالا راستہ کو منتخب کرنے سے پہلے کچھ چیزوں کو فرض کرکے ان کے بارے میں بحث کرنا چاہئے جیسے یہ کہ کیا ہم کو انسان کو ایک موجود مادی سمجھیں اور اس کی سعادت کو صرف حیوانی لذتوں میں تلاش کریں ، آزادی کا مطلب صرف خواہشات نفسانی بیان کریں ؟ یا یہ کہ انسان کی انسانیت ماوراء مادہ کے لئے ایک جو ہر ہے،روح الہی ہے، اور بدن صرف روح کو کامل کرنے کا وسیلہ ہے اور ہماری حقیقی زندگی ابدی زندگی ہے جیسا کہ خداوندعالم نے فرمایا ہے:(
وَاِنَّ الدَّارِ الآخِرَةَ فَهیَ الْحَیْوَانُ
)
”اور اگر یہ لوگ سمجھیں بوجھیں تو اس میں شک نہیں کہ ابد ی زندگی (کی جگھ) تو بس آخرت کا گھر ہے (باقی لغو)“اور دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے :
(
وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا اِلاّٰ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ.
)
”اور دنیا کی(چند روزھ) زندگی دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں ہے.“
اگر جہان آخرت ہماری اصلی اور حقیقی زندگی ہے تو دنیا میں ہم کو اپنی توجہ اور ہمت اس چیز میں صرف کرنی چاہئے جو ہم کو بڑی سعادت تک پہونچائے یہ ان مذاہب کے برعکس ہے جن کا عقیدہ ہے کہ اُخروی سعادت دنیا کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی ہے او راگر کوئی شخص آخرت میں سعادت کا خواہاں ہے تو اس کو دینا میں گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہئے اور دنیا سے بہت کم استفادہ کرنا چاہئے، خوشبختانہ بڑی اقبال مندی کی بات ہے کہ دین اسلام دنیا
وآخرت کی سعادت کو ایک جگہ جمع ہوناممکن جانتا ہے اور معتقد ہے کہ انسان خاص طور سے زندگی میں سعادت دنیا کو بھی حاصل کرسکتا ہے اور سعادت ابدی آخرت کو بھی حاصل کرسکتا ہے۔
حوالہ